من کی جوت

من کی جوت

Feb 4, 2023

مصنف

انجم قدوائی

شمارہ

شمارہ - ١٧

دیدبان شمارہ۔۱۷ ۲۰۲۳؁

من کی جوت

انجم قدوائی

۔صبح صبح پتوں پر  جھملاتی شبنم کے قطرے چمک رہے تھے ۔۔لان‌میں چہل قدمی کے دوران اس نے ایک قطرہ انگلی پر لینے کی کو شش کی تو وہ کھلکھلا کر ہنسا اور بکھر گیا ۔

نرم سبز گھانس پر اس کے پیر بھیگ رہے تھی  طمانیت دل تک  اتر رہی تھی ۔۔باغ سے ہار سنگھار کے پھولوں کی خوشبو پھیل رہی تھی اس نے گہری سانس لے کر خوشگوار مہک اپنے اندر سمیٹ لی اور آسودگی سے ٹہلتی رہی

دور کہیں کوئی سورہ نور کی تلاوت میں مصروف تھا ۔۔۔آتی جاتی سانسوں جیسی لہراتی آواز مسجد سے اس تک آرہی تھی ۔۔۔وہ سر پر شال لپیٹے بے حد محویت سے تلاوت اور ترجمہ سن رہی تھی ۔

"اللہ نور ہے آسمانوں اور زمینوں کا،اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے وہ چراغ ایک فانوس میں ہے

وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے موتی سا چمکتا روشن ہوتا ہے برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب کا نہ پچھم کا قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے اگر چہ اسے آگ نہ چھوئے نور پر نور ہے اللہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے ،اور اللہ مثالیں بیان فر ماتا ہے لوگوں کے لئے ،اور اللہ سب کچھ جانتا ہے ،

۔‌اجالا پھیلنے لگا تھا اس نے گھر کے اندر آنے کے لئے قدم بڑھا دیا ۔گاؤں کی صبح جلد ہو جایا کرتی تھی کو ئی بکریاں ہانکتا  چلا جارہا تھا کہیں بھینس کو دئے ہوے بھونسے کی سوندھی سوندھی مہک پھیل گئی تھی ۔۔ڈیوڑھی سے اندر آکر اس نے گیٹ بند کرنے کے لیے ہاتھ رکھا تو سامنے سے بھگوان دئی تیز تیز قدموں سے آتی دکھا ئی  دی ۔کمر پر بانس کی ٹو کری اور ہاتھ میں ہنسیا جس سے گھانس کاٹ کاٹ کر اس نے آدھی ٹوکری بھر لی تھی ۔وہیں سے اسے دیکھ کر بھگوان دئی نے ٹوکری گھانس پر پھینک دی اور تقریباً بھا گتے ہوئے ڈیوڑھی عبور کی ۔۔

کب آئیو بٹیا ۔۔۔۔فرط مسرت سے اس کا پو را چہرا روشن تھا ۔۔

ابکی تو بٹوا ہی ہو ہئے ۔۔۔اس نے پھولی ہوئی سانسیں سنبھالتے ہوئے معصوم شرارت بھری نظر اس کے دہرے وجود پر ڈالی ۔۔۔

وہ پھیکی سی ہنسی ہنس دی ۔لمحہ بھر پہلے کی بے فکری تحلیل ہونے لگی ۔

بھگوان دئی گاؤں کی پچھڑے طبقے  کی محنتی اور گٹھے بدن کی  عورت ہر کسی کے کام آنے والی  ہر گھر کو اپنا گھر سمجھنے والی  تھی مگر غصہ آجائے تو کسی کو نہیں بخشتی تھی پورے گاؤں میں اس کی گا لیوں کی پاٹ دار آواز ہوا کے دوش پر  کئی دن گھومتی پھرتی ۔پھر دھیرے دھیرے اس کا غصہ ٹھنڈا ہوتا تو  یہیں اسی گھر میں آکر۔

کبھی بچپن میں وہ میلہ جانے لئے مچل جأے تو بھگوان دئی کا بیٹا سومر سائیکل کے ڈنڈے پر اسے بٹھا کر میلہ دکھا لا یا کرتا ۔بھگوان دئی  خود ساتھ ساتھ چلتی  کبھی لیا کبھی موم پھلی  ،کبھی پلاسٹک کے کھلونوں کی شاپنگ بھی کر وایا کرتی ۔گھر پر دال در نی ہو یا چاول پچھورنا ہو ۔فصل کٹنا ہو یا بوئی جائے ،بھگوان دئی کے بنا کچھ ممکن ہی نہ تھا ۔۔پورے گاؤں میں لڑا کا مشہور اس کے سامنے آکر شہد سے بھی میٹھی ہوجاتی ۔

اب وہ بوڑھی ہورہی تھی زیادہ  سمجھدار بھی اس دن  چہرے کا اڑتا رنگ بہت کچھ بتا گیا تھا ۔اس لئے بڑی بوڑھی بن کر سمجھانے آگئی تھی ۔

بٹیا ۔بھگوان چاہے بیٹی دے یا بٹوا بہت سندر ہو یہے

دیکھو کونوں کونو کا کچھو ناہی ملت ۔۔کسک جییت ہیں ؟ وہی جانت ہیں ۔جون کچھو ملے سر جھکائے کے لےء لیو ۔بھگوان کا کونوں کام بنا مطلب کا نہیں رہت ہے ۔

اس کے دل کو کچھ قرار سا آگیا تھا ۔

اسے امی کے ساتھ سفر کر نا یا د آگیا ۔

وہی کچے پکے راستے

وہی نہر کا کنارہ اور سرپت کی جھاڑیاں جن پرگرمیوں کی لو سے لہراتے سفید اور سرمئی پھول ۔۔

گاؤں کے بیچ وہی تالاب کا گدلا پانی جل کھمبی کے اودے اودے  پھول ۔

گہری ہری گھانس پر جگہ جگہ اگی ہوئی کروے کے کانٹے دار پیڑ اور ان پر پیلے پیلے پھول۔‌۔

کچی مٹی کی  من موہنی خوشبو ۔۔برگد اور نیم کی چھایا میں بچھی بسکھٹیوں پر بیٹھے بے فکر لوگ۔

پرانے دنوں کا سفر بھی اسے اب تک  یاد تھا۔ جب وہ لوگ ادھے پر اسٹیشن سے گاؤں آتے تھے ۔ادھے کے اوپر  بانس کا فریم لگاکر سفید چاندنی کا پردھ باندھا جاتا تھا ۔۔اور اندر آرام کے لئے دھان کا پیرا بھر کے اس پر بڑی سی دری بچھا دی جاتی تھی ۔تاکہ ادھے کا لمبا سفر تکلیف دھ نہ ہو ۔

تندرست بیل ادھے میں لگائے جاتے۔ایک ہرواہا بیلوں کو ہانکنے کے لئے بیٹھتا اور دوسرا ادھے کے ساتھ ساتھ پیدل چلتا ۔خواہ کتنا بھی لمبا سفر ہو ۔بہار پور سے نہال گڑھ یا ردولی ۔وہ ہر واہا پیدل ہی چلتا

راستے میں کو ئی ضرورت ہو یا کوئی سامان چھوٹ جائے تو پیدل والا ہرواہا دوڑتا ہوا واپس گھر جاتا تھا ا ور اسی طرح دوڑ کر واپس بھی آتا ۔

ادھے کا سفر طویل اور تھکا دینے والا تھا بچپن میں ایک بار یہی سفر در پیش تھا جب کچھ گرمی اور کچھ اکتاہت سے پیاس لگی تو اس  نے امی کی طرف دیکھا وہ سر سے دوپٹہ لپیٹے کسی دعا میں مشغول تھیں پیاس کا سن کر ادھے پر بیٹھے ہرواہے سے رکنے کے لیے کہا ۔۔

کا بھوا ۔۔

بٹیا کو پیاس لگی ہے ۔

اچھا دلھن ۔مگر ہیاں نہ رکبے ۔کاہے کہ کچھ دوری پر مہجد کے پاس مسلمانن کے گھر ہیں ہواں پانی مل جیہئے ۔

سبز رنگ کی  بلند دیوار کے پاس ادھا روکا گیا ۔ساتھ چلنے والے ہرواہے رام چرن نے ایک گھر پر دستک دے کر پانی لانے کو کہا ۔

امی نے تھوڑا سا پردہ ہٹا کر دیکھا وہ سر سے پیر تک چادر میں لپٹی ہاتھ میں  مٹی کی نئی صراحی اور اسٹیل کا گلاس لئے  کھڑی تھی ۔ایک رنگ برنگی چھوٹی سی ڈلیا میں کچھ بتاشے بھی تھے ۔

گاؤں میں کوئی مسافر پانی مانگ لے تو بہت برکت کی بات سمجھی جاتی تھی اور لوگ کبھی سادا  پانی نہیں دیتے تھے ساتھ میں گڑ یا بتاشے ضرور ہوتے تھے ۔

وہ  پانی پی کر پردے سے باہر جھانک رہی تھی تب اس نے پوچھ لیا ۔

کئے بہن  ہو ۔؟

اس  نے جلدی سے گنتی کی ۔

چھ ۔۔

چھہ بہنی ۔۔۔؟ اس کی آواز میں حیرت اور ترس تھا پھر گلاس لیتے ہوئے بولی ۔

پھر کا کین جائے ۔

اس وقت یہ بات بالکل نہیں سمجھ سکی مگر اب اچھی طرح روشن ہوا   لڑکیاں ہوں تو لوگ ترس کھاتے ہیں ۔کیا واقعی بیٹیاں بوجھ ہوتی  ہی ہیں ؟

بیٹیاں جو مسافروں کو پانی پلا رہی ہیں ۔گھروں میں چولھے کی  ،تندور کی آنچ کے سامنے سارا سارا دن  جھلس  کر گزار دیتی ہیں ۔باپ بھائی ہوں یا شوہر ان کے لئے مٹ جاتی ہیں جھکی رہتی ہیں کمر میں خم پڑ جاتے ہیں پھر بھی  پھر بھی ؟؟

مگرسارے اندیشے اپنی جگہ وقت تو گزرتا ہی رہتا ہے ۔۔اس نے برابر میں رکھے ننھے جھولے میں لیٹی اپنی دونوں  بیٹیوں پر نظر ڈالی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ خود  رحمتوں کے حصار میں ہے ۔

بہت آندھیاں آئیں جھکڑ چلے ۔

وہ  لرز کر کانپ کر اپنے قدم اٹھاتی رہی۔

ہر نئی امید پر نہ جانے کیوں میں کچھ خوف زدہ، کچھ خجل سی ہو جاتی ۔۔ اپنی کسی چاہت یا خواہش کے زیراثر نہیں،بلکہ دوسروں کی امیدوں اور امنگوں کے باعث۔

ہاسپٹل جاتے ہوۓ اماں نے تیسری بار تانبے کا چراغ سرخ کپڑے میں لپیٹ کر زچگی کے دیگر سامان کے ساتھ بیگ میں ڈال لیا۔اس نے کن آنکھیوں سے ان کی یہ کاروائی دیکھی اور ایک بار پھر تڑپ کر بیٹا ہونے کی دعا کی ۔

درد سے جب بدن ٹوٹ رہا تھا ہونٹوں پر آہیں کانپ رہی تھیں تب بھی ذہن میں وہ کپڑے میں لپٹا چراغ جلنے کی آرزو دل میں تڑپ رہی تھی ۔

مگر اس بار بھی چراغ نہیں جل سکا  سرخ کپڑے میں لپٹا بیگ میں  رکھا گھر  واپس آگیا اور گود میں بیٹی لئے ہوئے وہ خود ۔

سسرال کی یہ ریت بہت پرانی اور خوبصورت تھی کہ بیٹا ہونے پر پشتینی چراغ روشن کیا جاتا تھا ۔۔اور دروازے پر دادا کی رکھی ہوئی بندوق سے ایک فائر کیا جاتا تھا ۔

مگر اس کے کان فائر کی آ و از اورآنکھیں  چراغ کی لو سے محروم ہی رہیں ۔ دل چاہتا کاش ان خوبصورت گلاب کی کلیوں جیسی بچیوں کے لئے، کوئی اٹھے اور پورے گھر میں ڈھیروں چراغ روشن کردے۔ مگروہ اپنی خوشی پر کبھی کھل کر خوش نہ ہو سکی۔اور نہ جانے کب اور کیسے سب کے ساتھ خود پر ہی ترس کھانے کی عادت سی پڑ گئی ۔

آہستہ آہستہ چمن میں روشنی پھیلتی گئی گھر کے  بچے بڑے ہو رہے تھے ۔ اس کی بیٹیاں بھی قد نکال رہی تھیں ۔

اس کے اندر نہ جانے کون سی محرومی نے ڈیرا ڈال دیا تھا طبیعت میں چڑ چڑا پن اور بیزاری در آئی تھی ۔ساتھی سے بات کرنا بھی وحشت ناک لگتا تھا ۔وہ بھی اس کی بیزاری سے نالاں اپنے آپ کو دوسری مصروفیات میں گم کرتا چلا گیا ۔دور تک پھیلا غبار اس کو اپنے آپ سے مایوس کرنے لگا تھا ۔لوگوں سے ملنا جلنا بھی کم سے کم رھ گیا تھا خیالات کی اسیری کچھ سوچنے سمجھنے اور آسو دہ ہونے کا موقع ہی نہیں دے رہی تھی ۔

بیٹیاں

تعلیم کے میدان میں اپنے آپ کو منوا رہی تھیں  ۔خاندان کے  بیٹوں کے لیے ہر نعمت مو جود تھی جس سے اس کی بیٹیاں محروم تھیں مگر یہ محرومی صرف اس کے دل و ذہن تک تھی ۔بچیوں کو اپنے والدین اور اپنی صلاحیتوں پر مضبوط بھروسہ تھا ۔تینوں حوصلہ مند تھیں ۔

وہ روز شام ہوتے ہوتے اپنے آپ کو سمیٹتی مگر گہرا اندھیرا پل پل اسے بکھراتا رہتا ساتھی سے قدموں کی لمحوں کی پھر میلوں کی دوری ہوتی چلی گئی اپنے آپ کو گھر داری میں جھو نک کر بھی سکون نام کو نہیں تھا بس ۔ایک کانٹا چبھتا رہتا ۔کسی پل چین ہی نہیں تھا ۔

بیٹیاں باشعور تھیں سمجھاتیں ۔

مما چشمہ صاف کردوں میلا ہو گیا ہے

دوسری چمچماتے گلاس میں پانی لئے کھڑی رہتی ۔چولھے کی تپش سے ہٹ کر ٹھنڈا پانی اندر تک نرمی پھیلانے کی کوشش کرتا ۔

سب سے چھوٹی بچی اس کے خرچ  پورے کر دیتی ۔ کہیں کام کرکے ٹیوشن پڑھا کر ۔یہ لو مما۔۔

مگر اسے اپنی باہمت ،خوبصورت اور پر اعتماد بیٹیاں طنز، نشتراور ترس کے اس گدلے پردے کے پیچھے سے صاف صاف دکھنا ہی بند ہو گئی تھیں۔ اسے تو وہ تینوں ہر وقت اپنے حواس پر کسی گٹھری نما بوجھ کی طرح محسوس ہوتیں۔

ایک رو شن  صبح جب بڑی بیٹی  اپنے منصب میں کا میاب پورے خاندان کا نام روشن کرتے ہوئے اس کے سامنے سرخ چہرہ لئے کھڑی تھی اس کے چہرے پر  عزم  کا اجالا اور پیروں میں انجانے راستوں کاسفر صاف نظر آرہا تھا ۔دونو‌ ں چھوٹی بیٹیوں  نے بھی تعلیم کے میدان میں   اپنے آپ کو منوا لیا تھا ۔وہ تینوں پورے خاندان کی اچانک ہی لاڈلی ہو گئی تھیں ۔ وہ حیرت سے سب کا بدلا ہوا رویہ ،سب کا رشک اور سب کی اس خواہش کو دیکھ رہی تھی ۔ جس میں ان بچیوں کے لئے تحسین تھی ، اپنے بچوں کو اس کی بیٰٹیوں کی طرح بننے کی نصیحتیں تھیں۔ اسے یہ سب کیوں نظر نہیں آرہا تھا۔

تب  اس نے حیرت سے دیکھا ایک ایک کر کے لاتعداد چراغ جل رہے تھے وہ چراغ نہ پیتل کے تھے نہ سونے کے بلکہ وہ روشنی کے چراغ تھے جن سے سارا آسمان روشن ہو تا جارہا تھا  ۔رحمتوں میں معمور فضا نے ایک نیا عالم تیار کر دیا تھا ۔۔

اللہ تیرا شکر ہے۔ اس نے لپک کر بیٹی کو گلے لگا لیا۔

پہلی بار  دل سے ۔شکر کا کلمہ اداکر تے ہی اس کے اندر روشنیاں جھلملانے لگیں ۔اچانک گہرا اطمینان اس کے سارے وجود پر چھا گیا اور جنت خود بخود پیروں کے نیچے آگئی ۔۔

***

دیدبان شمارہ۔۱۷ ۲۰۲۳؁

من کی جوت

انجم قدوائی

۔صبح صبح پتوں پر  جھملاتی شبنم کے قطرے چمک رہے تھے ۔۔لان‌میں چہل قدمی کے دوران اس نے ایک قطرہ انگلی پر لینے کی کو شش کی تو وہ کھلکھلا کر ہنسا اور بکھر گیا ۔

نرم سبز گھانس پر اس کے پیر بھیگ رہے تھی  طمانیت دل تک  اتر رہی تھی ۔۔باغ سے ہار سنگھار کے پھولوں کی خوشبو پھیل رہی تھی اس نے گہری سانس لے کر خوشگوار مہک اپنے اندر سمیٹ لی اور آسودگی سے ٹہلتی رہی

دور کہیں کوئی سورہ نور کی تلاوت میں مصروف تھا ۔۔۔آتی جاتی سانسوں جیسی لہراتی آواز مسجد سے اس تک آرہی تھی ۔۔۔وہ سر پر شال لپیٹے بے حد محویت سے تلاوت اور ترجمہ سن رہی تھی ۔

"اللہ نور ہے آسمانوں اور زمینوں کا،اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے وہ چراغ ایک فانوس میں ہے

وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے موتی سا چمکتا روشن ہوتا ہے برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب کا نہ پچھم کا قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے اگر چہ اسے آگ نہ چھوئے نور پر نور ہے اللہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے ،اور اللہ مثالیں بیان فر ماتا ہے لوگوں کے لئے ،اور اللہ سب کچھ جانتا ہے ،

۔‌اجالا پھیلنے لگا تھا اس نے گھر کے اندر آنے کے لئے قدم بڑھا دیا ۔گاؤں کی صبح جلد ہو جایا کرتی تھی کو ئی بکریاں ہانکتا  چلا جارہا تھا کہیں بھینس کو دئے ہوے بھونسے کی سوندھی سوندھی مہک پھیل گئی تھی ۔۔ڈیوڑھی سے اندر آکر اس نے گیٹ بند کرنے کے لیے ہاتھ رکھا تو سامنے سے بھگوان دئی تیز تیز قدموں سے آتی دکھا ئی  دی ۔کمر پر بانس کی ٹو کری اور ہاتھ میں ہنسیا جس سے گھانس کاٹ کاٹ کر اس نے آدھی ٹوکری بھر لی تھی ۔وہیں سے اسے دیکھ کر بھگوان دئی نے ٹوکری گھانس پر پھینک دی اور تقریباً بھا گتے ہوئے ڈیوڑھی عبور کی ۔۔

کب آئیو بٹیا ۔۔۔۔فرط مسرت سے اس کا پو را چہرا روشن تھا ۔۔

ابکی تو بٹوا ہی ہو ہئے ۔۔۔اس نے پھولی ہوئی سانسیں سنبھالتے ہوئے معصوم شرارت بھری نظر اس کے دہرے وجود پر ڈالی ۔۔۔

وہ پھیکی سی ہنسی ہنس دی ۔لمحہ بھر پہلے کی بے فکری تحلیل ہونے لگی ۔

بھگوان دئی گاؤں کی پچھڑے طبقے  کی محنتی اور گٹھے بدن کی  عورت ہر کسی کے کام آنے والی  ہر گھر کو اپنا گھر سمجھنے والی  تھی مگر غصہ آجائے تو کسی کو نہیں بخشتی تھی پورے گاؤں میں اس کی گا لیوں کی پاٹ دار آواز ہوا کے دوش پر  کئی دن گھومتی پھرتی ۔پھر دھیرے دھیرے اس کا غصہ ٹھنڈا ہوتا تو  یہیں اسی گھر میں آکر۔

کبھی بچپن میں وہ میلہ جانے لئے مچل جأے تو بھگوان دئی کا بیٹا سومر سائیکل کے ڈنڈے پر اسے بٹھا کر میلہ دکھا لا یا کرتا ۔بھگوان دئی  خود ساتھ ساتھ چلتی  کبھی لیا کبھی موم پھلی  ،کبھی پلاسٹک کے کھلونوں کی شاپنگ بھی کر وایا کرتی ۔گھر پر دال در نی ہو یا چاول پچھورنا ہو ۔فصل کٹنا ہو یا بوئی جائے ،بھگوان دئی کے بنا کچھ ممکن ہی نہ تھا ۔۔پورے گاؤں میں لڑا کا مشہور اس کے سامنے آکر شہد سے بھی میٹھی ہوجاتی ۔

اب وہ بوڑھی ہورہی تھی زیادہ  سمجھدار بھی اس دن  چہرے کا اڑتا رنگ بہت کچھ بتا گیا تھا ۔اس لئے بڑی بوڑھی بن کر سمجھانے آگئی تھی ۔

بٹیا ۔بھگوان چاہے بیٹی دے یا بٹوا بہت سندر ہو یہے

دیکھو کونوں کونو کا کچھو ناہی ملت ۔۔کسک جییت ہیں ؟ وہی جانت ہیں ۔جون کچھو ملے سر جھکائے کے لےء لیو ۔بھگوان کا کونوں کام بنا مطلب کا نہیں رہت ہے ۔

اس کے دل کو کچھ قرار سا آگیا تھا ۔

اسے امی کے ساتھ سفر کر نا یا د آگیا ۔

وہی کچے پکے راستے

وہی نہر کا کنارہ اور سرپت کی جھاڑیاں جن پرگرمیوں کی لو سے لہراتے سفید اور سرمئی پھول ۔۔

گاؤں کے بیچ وہی تالاب کا گدلا پانی جل کھمبی کے اودے اودے  پھول ۔

گہری ہری گھانس پر جگہ جگہ اگی ہوئی کروے کے کانٹے دار پیڑ اور ان پر پیلے پیلے پھول۔‌۔

کچی مٹی کی  من موہنی خوشبو ۔۔برگد اور نیم کی چھایا میں بچھی بسکھٹیوں پر بیٹھے بے فکر لوگ۔

پرانے دنوں کا سفر بھی اسے اب تک  یاد تھا۔ جب وہ لوگ ادھے پر اسٹیشن سے گاؤں آتے تھے ۔ادھے کے اوپر  بانس کا فریم لگاکر سفید چاندنی کا پردھ باندھا جاتا تھا ۔۔اور اندر آرام کے لئے دھان کا پیرا بھر کے اس پر بڑی سی دری بچھا دی جاتی تھی ۔تاکہ ادھے کا لمبا سفر تکلیف دھ نہ ہو ۔

تندرست بیل ادھے میں لگائے جاتے۔ایک ہرواہا بیلوں کو ہانکنے کے لئے بیٹھتا اور دوسرا ادھے کے ساتھ ساتھ پیدل چلتا ۔خواہ کتنا بھی لمبا سفر ہو ۔بہار پور سے نہال گڑھ یا ردولی ۔وہ ہر واہا پیدل ہی چلتا

راستے میں کو ئی ضرورت ہو یا کوئی سامان چھوٹ جائے تو پیدل والا ہرواہا دوڑتا ہوا واپس گھر جاتا تھا ا ور اسی طرح دوڑ کر واپس بھی آتا ۔

ادھے کا سفر طویل اور تھکا دینے والا تھا بچپن میں ایک بار یہی سفر در پیش تھا جب کچھ گرمی اور کچھ اکتاہت سے پیاس لگی تو اس  نے امی کی طرف دیکھا وہ سر سے دوپٹہ لپیٹے کسی دعا میں مشغول تھیں پیاس کا سن کر ادھے پر بیٹھے ہرواہے سے رکنے کے لیے کہا ۔۔

کا بھوا ۔۔

بٹیا کو پیاس لگی ہے ۔

اچھا دلھن ۔مگر ہیاں نہ رکبے ۔کاہے کہ کچھ دوری پر مہجد کے پاس مسلمانن کے گھر ہیں ہواں پانی مل جیہئے ۔

سبز رنگ کی  بلند دیوار کے پاس ادھا روکا گیا ۔ساتھ چلنے والے ہرواہے رام چرن نے ایک گھر پر دستک دے کر پانی لانے کو کہا ۔

امی نے تھوڑا سا پردہ ہٹا کر دیکھا وہ سر سے پیر تک چادر میں لپٹی ہاتھ میں  مٹی کی نئی صراحی اور اسٹیل کا گلاس لئے  کھڑی تھی ۔ایک رنگ برنگی چھوٹی سی ڈلیا میں کچھ بتاشے بھی تھے ۔

گاؤں میں کوئی مسافر پانی مانگ لے تو بہت برکت کی بات سمجھی جاتی تھی اور لوگ کبھی سادا  پانی نہیں دیتے تھے ساتھ میں گڑ یا بتاشے ضرور ہوتے تھے ۔

وہ  پانی پی کر پردے سے باہر جھانک رہی تھی تب اس نے پوچھ لیا ۔

کئے بہن  ہو ۔؟

اس  نے جلدی سے گنتی کی ۔

چھ ۔۔

چھہ بہنی ۔۔۔؟ اس کی آواز میں حیرت اور ترس تھا پھر گلاس لیتے ہوئے بولی ۔

پھر کا کین جائے ۔

اس وقت یہ بات بالکل نہیں سمجھ سکی مگر اب اچھی طرح روشن ہوا   لڑکیاں ہوں تو لوگ ترس کھاتے ہیں ۔کیا واقعی بیٹیاں بوجھ ہوتی  ہی ہیں ؟

بیٹیاں جو مسافروں کو پانی پلا رہی ہیں ۔گھروں میں چولھے کی  ،تندور کی آنچ کے سامنے سارا سارا دن  جھلس  کر گزار دیتی ہیں ۔باپ بھائی ہوں یا شوہر ان کے لئے مٹ جاتی ہیں جھکی رہتی ہیں کمر میں خم پڑ جاتے ہیں پھر بھی  پھر بھی ؟؟

مگرسارے اندیشے اپنی جگہ وقت تو گزرتا ہی رہتا ہے ۔۔اس نے برابر میں رکھے ننھے جھولے میں لیٹی اپنی دونوں  بیٹیوں پر نظر ڈالی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ خود  رحمتوں کے حصار میں ہے ۔

بہت آندھیاں آئیں جھکڑ چلے ۔

وہ  لرز کر کانپ کر اپنے قدم اٹھاتی رہی۔

ہر نئی امید پر نہ جانے کیوں میں کچھ خوف زدہ، کچھ خجل سی ہو جاتی ۔۔ اپنی کسی چاہت یا خواہش کے زیراثر نہیں،بلکہ دوسروں کی امیدوں اور امنگوں کے باعث۔

ہاسپٹل جاتے ہوۓ اماں نے تیسری بار تانبے کا چراغ سرخ کپڑے میں لپیٹ کر زچگی کے دیگر سامان کے ساتھ بیگ میں ڈال لیا۔اس نے کن آنکھیوں سے ان کی یہ کاروائی دیکھی اور ایک بار پھر تڑپ کر بیٹا ہونے کی دعا کی ۔

درد سے جب بدن ٹوٹ رہا تھا ہونٹوں پر آہیں کانپ رہی تھیں تب بھی ذہن میں وہ کپڑے میں لپٹا چراغ جلنے کی آرزو دل میں تڑپ رہی تھی ۔

مگر اس بار بھی چراغ نہیں جل سکا  سرخ کپڑے میں لپٹا بیگ میں  رکھا گھر  واپس آگیا اور گود میں بیٹی لئے ہوئے وہ خود ۔

سسرال کی یہ ریت بہت پرانی اور خوبصورت تھی کہ بیٹا ہونے پر پشتینی چراغ روشن کیا جاتا تھا ۔۔اور دروازے پر دادا کی رکھی ہوئی بندوق سے ایک فائر کیا جاتا تھا ۔

مگر اس کے کان فائر کی آ و از اورآنکھیں  چراغ کی لو سے محروم ہی رہیں ۔ دل چاہتا کاش ان خوبصورت گلاب کی کلیوں جیسی بچیوں کے لئے، کوئی اٹھے اور پورے گھر میں ڈھیروں چراغ روشن کردے۔ مگروہ اپنی خوشی پر کبھی کھل کر خوش نہ ہو سکی۔اور نہ جانے کب اور کیسے سب کے ساتھ خود پر ہی ترس کھانے کی عادت سی پڑ گئی ۔

آہستہ آہستہ چمن میں روشنی پھیلتی گئی گھر کے  بچے بڑے ہو رہے تھے ۔ اس کی بیٹیاں بھی قد نکال رہی تھیں ۔

اس کے اندر نہ جانے کون سی محرومی نے ڈیرا ڈال دیا تھا طبیعت میں چڑ چڑا پن اور بیزاری در آئی تھی ۔ساتھی سے بات کرنا بھی وحشت ناک لگتا تھا ۔وہ بھی اس کی بیزاری سے نالاں اپنے آپ کو دوسری مصروفیات میں گم کرتا چلا گیا ۔دور تک پھیلا غبار اس کو اپنے آپ سے مایوس کرنے لگا تھا ۔لوگوں سے ملنا جلنا بھی کم سے کم رھ گیا تھا خیالات کی اسیری کچھ سوچنے سمجھنے اور آسو دہ ہونے کا موقع ہی نہیں دے رہی تھی ۔

بیٹیاں

تعلیم کے میدان میں اپنے آپ کو منوا رہی تھیں  ۔خاندان کے  بیٹوں کے لیے ہر نعمت مو جود تھی جس سے اس کی بیٹیاں محروم تھیں مگر یہ محرومی صرف اس کے دل و ذہن تک تھی ۔بچیوں کو اپنے والدین اور اپنی صلاحیتوں پر مضبوط بھروسہ تھا ۔تینوں حوصلہ مند تھیں ۔

وہ روز شام ہوتے ہوتے اپنے آپ کو سمیٹتی مگر گہرا اندھیرا پل پل اسے بکھراتا رہتا ساتھی سے قدموں کی لمحوں کی پھر میلوں کی دوری ہوتی چلی گئی اپنے آپ کو گھر داری میں جھو نک کر بھی سکون نام کو نہیں تھا بس ۔ایک کانٹا چبھتا رہتا ۔کسی پل چین ہی نہیں تھا ۔

بیٹیاں باشعور تھیں سمجھاتیں ۔

مما چشمہ صاف کردوں میلا ہو گیا ہے

دوسری چمچماتے گلاس میں پانی لئے کھڑی رہتی ۔چولھے کی تپش سے ہٹ کر ٹھنڈا پانی اندر تک نرمی پھیلانے کی کوشش کرتا ۔

سب سے چھوٹی بچی اس کے خرچ  پورے کر دیتی ۔ کہیں کام کرکے ٹیوشن پڑھا کر ۔یہ لو مما۔۔

مگر اسے اپنی باہمت ،خوبصورت اور پر اعتماد بیٹیاں طنز، نشتراور ترس کے اس گدلے پردے کے پیچھے سے صاف صاف دکھنا ہی بند ہو گئی تھیں۔ اسے تو وہ تینوں ہر وقت اپنے حواس پر کسی گٹھری نما بوجھ کی طرح محسوس ہوتیں۔

ایک رو شن  صبح جب بڑی بیٹی  اپنے منصب میں کا میاب پورے خاندان کا نام روشن کرتے ہوئے اس کے سامنے سرخ چہرہ لئے کھڑی تھی اس کے چہرے پر  عزم  کا اجالا اور پیروں میں انجانے راستوں کاسفر صاف نظر آرہا تھا ۔دونو‌ ں چھوٹی بیٹیوں  نے بھی تعلیم کے میدان میں   اپنے آپ کو منوا لیا تھا ۔وہ تینوں پورے خاندان کی اچانک ہی لاڈلی ہو گئی تھیں ۔ وہ حیرت سے سب کا بدلا ہوا رویہ ،سب کا رشک اور سب کی اس خواہش کو دیکھ رہی تھی ۔ جس میں ان بچیوں کے لئے تحسین تھی ، اپنے بچوں کو اس کی بیٰٹیوں کی طرح بننے کی نصیحتیں تھیں۔ اسے یہ سب کیوں نظر نہیں آرہا تھا۔

تب  اس نے حیرت سے دیکھا ایک ایک کر کے لاتعداد چراغ جل رہے تھے وہ چراغ نہ پیتل کے تھے نہ سونے کے بلکہ وہ روشنی کے چراغ تھے جن سے سارا آسمان روشن ہو تا جارہا تھا  ۔رحمتوں میں معمور فضا نے ایک نیا عالم تیار کر دیا تھا ۔۔

اللہ تیرا شکر ہے۔ اس نے لپک کر بیٹی کو گلے لگا لیا۔

پہلی بار  دل سے ۔شکر کا کلمہ اداکر تے ہی اس کے اندر روشنیاں جھلملانے لگیں ۔اچانک گہرا اطمینان اس کے سارے وجود پر چھا گیا اور جنت خود بخود پیروں کے نیچے آگئی ۔۔

***

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024