مجھے اس دیس جانا ہے
مجھے اس دیس جانا ہے
Jan 23, 2024
تبصرہ کتب
دیدبان شمارہ۔۲۲ ۲۰۲۴
مجھے اس دیس جانا ہے
تبصرہ کتب
مبصرہ : سبین علی
سفر انسانی سرشت کا حصہ ہیں نئی زمینوں نئی بستیوں کی کھوج ، مختلف قومیتوں کے باشندوں کی تہذیب و ثقافت اور رہن سہن کا مشاہدہ انسان کو کتنے بھرپور علم اور احساسات سے ہم کنار کرتا ہے۔ اور جب یہ سفر محبت کے رتھ پہ سوار ہوکر کیا جائے تو سفر نامظ لکھنے والی اپنا محبت بھرا دل ملائیشیاء کی بارش کی مانند ہر صفحے پہ منتقل کرتی جاتی ہیں۔
یہ سفر نامہ مجھے اس دیس جانا ہے ، تسنیم کوثر کے سفر ملائشیا کی روداد ہے۔ اس سے قبل ان کا ہندوستان کا سفر نامہ شائع ہو چکا ہے۔ تسنیم کوثر کا مشاہدہ عمیق ،نگاہ زیرک مگر دل حساس ہے۔ دوسرے دیس کا حال لکھتے اپنے وطن کے ساتھ موازنہ کرتی ہیں۔ اپنے دیس کی کمیوں کجیوں پہ نشان لگاتی ہیں دوسروں کی ترقی کی سراہتی ہیں اپنے لوگوں کی حالت اور عادات پہ اداس ہوتی ہیں مگر جہاں اپنے ہم وطنوں کی کوئی بات زیادہ بہتر یا اچھی ہو اسکا بھی تزکرہ کرتی جاتی ہیں۔
ملائشیا کے لوگوں کی محنت، معاشی خود مختاری، ان کے صاف ستھرے ماحول سے متاثر ہیں انکی سادگی شادی بیاہ اور رسموں پہ اصراف سے بچنے کو پسند کرتی ہیں مگر ان کی ورکنگ عورتوں کی سخت محنت اور خاندانی نظام میں انہیں وہ سہولیات میسر نہ ہونے پہ حیرت زدہ بھی دکھائی دیتی ہیں جو پاکستانی معاشرے میں میسر ہیں۔ اس سفر نامے میں لوگوں کے رہن سہن رسوم و رواج کے علاؤہ
ٹوئن ٹاور کی سیاحت کیمرون ہائی لینڈ ، ملاکا، پینکور آئس لینڈ اور لنکاوی کے دلفریب ساحلوں کی منظر کشی بہت عمدگی سے کی گئی ہے ۔
اس سفر نامے میں زیریں سطح پہ ہلکی اداسی کی جھلک ہے اور کتاب کے آغاز سے لے کر اختتام تک قاری کو اپنی اداسی کی بارش میں بگھوتی رہتی ہے۔ جانے یہ اداسی ایک ادیبہ کی تھی جو ہر وقت تجزیہ کرتی ہے یا ایک ماں کی جسے کبھی بیٹی سے ملنے کی خوشی پرنم کر دیتی ہے تو کبھی جدا ہونے کا رنج اداس کر دیتا ہے ۔
بہترین کتابت اور اغلاط سے پاک متن کے ساتھ یہ کتاب اردو اکیڈمی نے اکیڈمی ادبیات پاکستان کے تعاون سے شائع کی ہے۔ کل صفحات دو سو بائیس اور قیمت فقط چار سو روپے ہے۔
دیدبان شمارہ۔۲۲ ۲۰۲۴
مجھے اس دیس جانا ہے
تبصرہ کتب
مبصرہ : سبین علی
سفر انسانی سرشت کا حصہ ہیں نئی زمینوں نئی بستیوں کی کھوج ، مختلف قومیتوں کے باشندوں کی تہذیب و ثقافت اور رہن سہن کا مشاہدہ انسان کو کتنے بھرپور علم اور احساسات سے ہم کنار کرتا ہے۔ اور جب یہ سفر محبت کے رتھ پہ سوار ہوکر کیا جائے تو سفر نامظ لکھنے والی اپنا محبت بھرا دل ملائیشیاء کی بارش کی مانند ہر صفحے پہ منتقل کرتی جاتی ہیں۔
یہ سفر نامہ مجھے اس دیس جانا ہے ، تسنیم کوثر کے سفر ملائشیا کی روداد ہے۔ اس سے قبل ان کا ہندوستان کا سفر نامہ شائع ہو چکا ہے۔ تسنیم کوثر کا مشاہدہ عمیق ،نگاہ زیرک مگر دل حساس ہے۔ دوسرے دیس کا حال لکھتے اپنے وطن کے ساتھ موازنہ کرتی ہیں۔ اپنے دیس کی کمیوں کجیوں پہ نشان لگاتی ہیں دوسروں کی ترقی کی سراہتی ہیں اپنے لوگوں کی حالت اور عادات پہ اداس ہوتی ہیں مگر جہاں اپنے ہم وطنوں کی کوئی بات زیادہ بہتر یا اچھی ہو اسکا بھی تزکرہ کرتی جاتی ہیں۔
ملائشیا کے لوگوں کی محنت، معاشی خود مختاری، ان کے صاف ستھرے ماحول سے متاثر ہیں انکی سادگی شادی بیاہ اور رسموں پہ اصراف سے بچنے کو پسند کرتی ہیں مگر ان کی ورکنگ عورتوں کی سخت محنت اور خاندانی نظام میں انہیں وہ سہولیات میسر نہ ہونے پہ حیرت زدہ بھی دکھائی دیتی ہیں جو پاکستانی معاشرے میں میسر ہیں۔ اس سفر نامے میں لوگوں کے رہن سہن رسوم و رواج کے علاؤہ
ٹوئن ٹاور کی سیاحت کیمرون ہائی لینڈ ، ملاکا، پینکور آئس لینڈ اور لنکاوی کے دلفریب ساحلوں کی منظر کشی بہت عمدگی سے کی گئی ہے ۔
اس سفر نامے میں زیریں سطح پہ ہلکی اداسی کی جھلک ہے اور کتاب کے آغاز سے لے کر اختتام تک قاری کو اپنی اداسی کی بارش میں بگھوتی رہتی ہے۔ جانے یہ اداسی ایک ادیبہ کی تھی جو ہر وقت تجزیہ کرتی ہے یا ایک ماں کی جسے کبھی بیٹی سے ملنے کی خوشی پرنم کر دیتی ہے تو کبھی جدا ہونے کا رنج اداس کر دیتا ہے ۔
بہترین کتابت اور اغلاط سے پاک متن کے ساتھ یہ کتاب اردو اکیڈمی نے اکیڈمی ادبیات پاکستان کے تعاون سے شائع کی ہے۔ کل صفحات دو سو بائیس اور قیمت فقط چار سو روپے ہے۔