محمد عاطف علیم کی مزاحمتی نظمیں

محمد عاطف علیم کی مزاحمتی نظمیں

Jan 12, 2019

پنچایت کی مسند کا پرہول تقدس! اوردغا کے موسم میں میں تنہا خاموش کھڑی تھی

مصنف

محمد عاطف علیم

شمارہ

شمارہ - ٩

دیدبان شمارہ ۔۹

میں اکیلی نہیں

جب اکیلی تھی میں درد کے شہر میں

دکھ کی آغوش میں ظلم کے قہر میں

روح گھائل تھی میری بدن نیلگوں

میں بھٹکتی رہی درد کی لہر میں

تب اکیلی تھی میں ، اک پہیلی تھی میں

چپ کی سولی کے سائے میں لرزاں رہی

تن کی تہمت لیے بے اماں میں رہی

جبر کے ضابطے سب تھے میرے لیے

ناتواں میں رہی ، بے زباں میں رہی

تب اکیلی تھی میں ، اک پہیلی تھی میں

اور پھر میں نے توڑا حصار بدن

میں کہ بکھری ہوئی تھی چمن درچمن

میں نے اثبات اپنا کیا جب سکھی

میں جوالا بنی سر بسر تن بہ تن

تب اکیلی تھی میں ، اک پہیلی تھی میں

حرف انکار مچلا تو میں تن گئی

جبر کے موسموں سے مری ٹھن گئی

اپنے تن پر اجالے سجائے ہوئے

میں کہ سورج کی پہلی کرن بن گئی

میں نئے عہد نامے کا عنواں بنی

میں اکیلی نہیں اب اکیلی نہیں

محمدعاطف علیم

۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ دین پناہ کے پنچو!

(جنوبی پنجاب میں ایک پنچایتی فیصلے پر لکھی گئی)

ڈیرہ دیں پناہ کے پنچو!

تم نے اب تک یہی کیا ہے


’’خون بہادو


خوں کا کیا ہے


خون بہے تو مٹ جاتا ہے


زخم لگادو


زخم کا کیا ہے


زخم لگے تو بھر جاتا ہے


عزت آنی جانی شے ہے


اور اگر ہو عورت کی تو ’وٹوانی‘کے ڈھیلے جیسی


پونچھ پانچھ کر پرے ا چھالو‘‘


ڈیرہ دیں پناہ کے پنچو!


تم نے اب تک یہی سنا ہے


عورت تو اک فتنہ ہے


غیرت کی تاریک قبر میں رینگنے والا ارزل کیڑا


گینگ ریپ کی سولی لائق


ڈیرہ دیں پناہ کے پنچو!


اپنی اندھی آنکھوں پر سے جہل کا کیچڑ پونچھ کے دیکھو


لال اندھیرے کی چادر میں


لپٹے میرے ننگے تن کو غور سے دیکھو


میں عورت ہوں


’وٹوانی ‘کا ڈھیلا نہیں ہوں


تاریکی میں پلنے والا کیڑا نہیں ہوں


مجھ کو بھی اس ایک خدا نے خلق کیا ہے


جو تم اشرافوں کے لہجے میں بول رہا ہے


تھوڑی سی تکریم پہ میرا بھی تو حق ہے


اتنی جتنی تم اپنی شہوت میں گوندھی مونچھوں کی تکریم کرو ہو


ڈیرہ دیں پناہ کے پنچو!


روز عدل رسوائی کے در پر


کنڈی لگنے اور کھلنے کے بیچ میں میری روح کے رقص بسمل سے اک لحظہ پہلے


شہوت لکھتی نظروں ، تیکھے فقروں کے جھرمٹ میں


انسون گوندھے لفظوں میں نے یہ سب کہنا چاہا لیکن کہہ نہ پائی


میرے نطق کا کاسہ بھیک میں مانگے لفظوں سے خالی تھا


اور گواہ بھی کوئی نہیں تھا


سورج، چاند، ستارے


شجر حجر سب میری گواہی سے تائب تھے


پنچایت کی مسند کا پرہول تقدس!


اوردغا کے موسم میں


میں تنہا خاموش کھڑی تھی

آگے جو کچھ بیتی مجھ پر)
(مختاراں مائی سے پوچھو

ڈیرہ دیں پناہ کے پنچو!


اک دن لوٹ کے آئوں گی میں


ساتوں براعظم کی سرداری


میری جبیں کا گہنا ہوگی


سات سمندر کی سب شکتی


میرے بدن کا حصہ ہوگی


وقت کے اگلے موڑ پہ چاہے جس بہروپ میں بھی تم ہوگے


میں تم کو پہچان ہی لوں گی


اور قیامت کا اک منظر


تم پنچوں کے نام لکھوں گی


محمد عاطف علیم

دیدبان شمارہ ۔۹

میں اکیلی نہیں

جب اکیلی تھی میں درد کے شہر میں

دکھ کی آغوش میں ظلم کے قہر میں

روح گھائل تھی میری بدن نیلگوں

میں بھٹکتی رہی درد کی لہر میں

تب اکیلی تھی میں ، اک پہیلی تھی میں

چپ کی سولی کے سائے میں لرزاں رہی

تن کی تہمت لیے بے اماں میں رہی

جبر کے ضابطے سب تھے میرے لیے

ناتواں میں رہی ، بے زباں میں رہی

تب اکیلی تھی میں ، اک پہیلی تھی میں

اور پھر میں نے توڑا حصار بدن

میں کہ بکھری ہوئی تھی چمن درچمن

میں نے اثبات اپنا کیا جب سکھی

میں جوالا بنی سر بسر تن بہ تن

تب اکیلی تھی میں ، اک پہیلی تھی میں

حرف انکار مچلا تو میں تن گئی

جبر کے موسموں سے مری ٹھن گئی

اپنے تن پر اجالے سجائے ہوئے

میں کہ سورج کی پہلی کرن بن گئی

میں نئے عہد نامے کا عنواں بنی

میں اکیلی نہیں اب اکیلی نہیں

محمدعاطف علیم

۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ دین پناہ کے پنچو!

(جنوبی پنجاب میں ایک پنچایتی فیصلے پر لکھی گئی)

ڈیرہ دیں پناہ کے پنچو!

تم نے اب تک یہی کیا ہے


’’خون بہادو


خوں کا کیا ہے


خون بہے تو مٹ جاتا ہے


زخم لگادو


زخم کا کیا ہے


زخم لگے تو بھر جاتا ہے


عزت آنی جانی شے ہے


اور اگر ہو عورت کی تو ’وٹوانی‘کے ڈھیلے جیسی


پونچھ پانچھ کر پرے ا چھالو‘‘


ڈیرہ دیں پناہ کے پنچو!


تم نے اب تک یہی سنا ہے


عورت تو اک فتنہ ہے


غیرت کی تاریک قبر میں رینگنے والا ارزل کیڑا


گینگ ریپ کی سولی لائق


ڈیرہ دیں پناہ کے پنچو!


اپنی اندھی آنکھوں پر سے جہل کا کیچڑ پونچھ کے دیکھو


لال اندھیرے کی چادر میں


لپٹے میرے ننگے تن کو غور سے دیکھو


میں عورت ہوں


’وٹوانی ‘کا ڈھیلا نہیں ہوں


تاریکی میں پلنے والا کیڑا نہیں ہوں


مجھ کو بھی اس ایک خدا نے خلق کیا ہے


جو تم اشرافوں کے لہجے میں بول رہا ہے


تھوڑی سی تکریم پہ میرا بھی تو حق ہے


اتنی جتنی تم اپنی شہوت میں گوندھی مونچھوں کی تکریم کرو ہو


ڈیرہ دیں پناہ کے پنچو!


روز عدل رسوائی کے در پر


کنڈی لگنے اور کھلنے کے بیچ میں میری روح کے رقص بسمل سے اک لحظہ پہلے


شہوت لکھتی نظروں ، تیکھے فقروں کے جھرمٹ میں


انسون گوندھے لفظوں میں نے یہ سب کہنا چاہا لیکن کہہ نہ پائی


میرے نطق کا کاسہ بھیک میں مانگے لفظوں سے خالی تھا


اور گواہ بھی کوئی نہیں تھا


سورج، چاند، ستارے


شجر حجر سب میری گواہی سے تائب تھے


پنچایت کی مسند کا پرہول تقدس!


اوردغا کے موسم میں


میں تنہا خاموش کھڑی تھی

آگے جو کچھ بیتی مجھ پر)
(مختاراں مائی سے پوچھو

ڈیرہ دیں پناہ کے پنچو!


اک دن لوٹ کے آئوں گی میں


ساتوں براعظم کی سرداری


میری جبیں کا گہنا ہوگی


سات سمندر کی سب شکتی


میرے بدن کا حصہ ہوگی


وقت کے اگلے موڑ پہ چاہے جس بہروپ میں بھی تم ہوگے


میں تم کو پہچان ہی لوں گی


اور قیامت کا اک منظر


تم پنچوں کے نام لکھوں گی


محمد عاطف علیم

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024