محمد ازرم کی نظمیں
محمد ازرم کی نظمیں
Feb 23, 2022
دیدبان شمارہ ١٥
محمد ازرم کی نظمیں
وقت، زندگی، تصورات اور امکانات
لمحے، دن ، رات اور وقت کے تصورات
مجھے ہمیشہ ہلا کر رکھ دیتے ہیں
اس سے بھی بڑھ کر میرے لیے حیران کن
وہ تصورات ہیں جو بقا اور فنا سے جڑے ہوئے ہیں
وقت جتنا ظالم ہے اس سے کہیں زیادہ رحم دل بھی
وقت جو اپنے لمحے کو توڑ کر کسی زندگی نما حادثے
کو جنم دینے کے لیے اپنے ہونے کو خود باطل کر دیتا ہے
اور جب فنائی وجود اس بقا کے لمحے کو جنم دیتا ہے
جو پھر اپنے وجود سے زندگی کے ساتھ ساتھ
فنا اور بقا کے لامتنائی تصورات اور امکانات کو جنم دیتا ہے
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں
جانے اس لمحے پر کیا کیا گزرتی ہو گی
جب وہ خود کو توڑ کر خود سے ایسے امکانات کو جنم دیتا ہے
جن سے زندگی اور زندگی سے جڑی ان گنت زندگی کی اکائیاں جنم لیتی ہیں
یقینا یہ اس لمحے کے لیے قیامت سے کم نہیں ہوتا ہوگا
جو اپنے تیرتے جمود کو توڑ کر کائنات کے خاموش وجود پر
زندگی جیسی امکانات سے بھرپور قیامت کا دف بجاتا ہو گا
زندگی کا وقت کے وجود کے اس ایک لمحے پر دستک دینا
صرف وقت کے جمودی تصورات کو باطل نہیں کرتا
بلکہ یہ وقت ، بقا، فنا اور کائنات کے تمام جمودی تصورات کو باطل کر دیتا ہے
اور وقت ، بقا، فنا اور کائنات کے متوازی امکانات کو جنم دیتا ہے
اور آج تمھاری سالگرہ کے دن میں ان تمام امکانات کے بارے میں سوچ رہا ہوں
محمد ازرم
-----------
کیا تم جانتی ہو؟
کیا تم جانتی ہو؟
اگلے قدم پر کیا ھو گا؟
کچھ بھی ھو سکتا،
کچھ نہیں بھی ھو سکتا!
جانتی ھو کیا ھو سکتا ھے ؟
زندگی سوال ہو سکتی ھے
زندگی ہی جواب ھو سکتی ھے
موت بھی جواب ھو سکتی ھے
اگر موت جواب ھو سکتی ھے
تو زندگی موت کا سوال ھو سکتی ھے
جانتی ھو اگلے لمحے کیا ھو سکتا ھے؟
راستہ منزل ھو سکتا ھے
منزل راستہ ھو سکتی ھے
منزل اور راستہ ایک ہی ھو سکتے
منزل مشرق میں، راستہ مغرب کو ھو سکتا ھے
یہ بھی ھو سکتا ھے ،
ہاں ایسا بھی ھو سکتا ھے
ایسی منزل ھو جس کو کوئی راستہ ہی نہ ھو
ایسا رستہ بھی ھو سکتا ھے جس کی منزل ھی نہ ھو
اگلے قدم پر کیا ھو سکتا ھے ؟
روشنی کی سیڑھی پر سے گر کر
اندھی اور تاریک وادیوں میں پہنچ سکتے ھیں
وہ تاریک وادیاں روشنی کی بھی ھو سکتی ھے
وہ روشنی ہمارا خیال بھی سکتا ھے
وہ روشنی ہمارے خیال کی طرح حقیقت بھی سکتی ھے
مسلئہ یہ نہیں اگلے لمحے کیا ھو سکتا ھے
جو ہوتا ہے اپنے آپ میں معجزہ ھوتا ھے
مسلئہ تب ھو گا جب ہم جان جائے گئے
اگلے لمحے کیا ھو گا کیا ھو سکتا ھے
پھر زندگی نہ ھو گی، موت ہو سکتی ھے
موت جیسی بھی ھو سکتی ھے
پھر اگلا لمحہ تمہارے سوال جیسا ھو گا
اور تمہارا سوال میرے جواب جیسا ھو گا
محمد ازرم
------------------
م ، تم اور زندگی
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں
وہ لمحہ کیسا ہوگا
اور اس لمحے پر کیا گزری ہوگی
جس لمحے کی انتہا پر
تمہارے ہونے کی جنگ میں
زندگی اور موت کی کشمکش میں
زندگی کے لاموجود نکتے نے
موت کے لامحدود وجود میں سر اٹھایا
اور موت کے لامحدود وجود سے جیت کر
موت کی لامحدود اندھی وادیوں کے
اندھے اور اندھیرے راستوں سے ہوتے ہوئے
مہینوں کا سفر کر کے
تم نے روشنی کی دہلیز پر قدم رکھا ہوگا
اور روشنی سے ملاقات کرتے ہی زندگی نے
وقت، روشنی، موجود و وجود اور زمان و مکان کے
لامحدود پھیلاؤ سے
ایک خاموش جنگ کا اعلان کیا
جہاں وقت تم سے ہر حال میں جیتنا چاہتا ہے اور
وجود و موجود اور زمان و مکان
تم سے ہر حال میں ہارنا چاہتا ہے
روشنی اس لاحاصل جنگ پر
پہلے دن سے ایک بےرحم تماشائی کی طرح
پر لطف انداز میں
تالیاں بجانے میں مصروف ہے
روشنی یہ بھی نہیں جانتی، کہ،
جب تک تم ہو اس کا وجود قائم ہے
تمہارے ساتھ وہ بھی اپنا وجود کھو کر
موت کی اندھی وادیوں میں کھو جائے گی
ہاں، میں یہ بھی جانتا ہوں
وقت جو تم کو ہر حال میں ہرانا چاہتا ہے
وہ یہ بھی نہیں جانتا
تم نے موت کے اندھیروں کا شکست دے کر
زندگی کے ساتھ ساتھ وقت کو بھی جنما ہے
موجود و وجود اور زمان و مکان کا وجود بھی
تم اور تمہارے ہونے سے وابستہ ہے
تم جانتی ہو تم یہ جنگ
جو پہلے دن سے لڑ رہی ہو
ہر لمحہ یہ ہارتی ہوئی یہ لاحاصل جنگ
جیتتی آ رہی ہو
اور اپنے ساتھ ان تمام حقیقتوں کو بھی
دوام بخش رہی ہو
جو تمہیں ہر لمحہ ہرانے کی
تگ و دو میں مصروف ہیں
پہلے دن سے ؛ ہر لمحہ، ہر دن
ہاں میں وقت، روشنی، موجود اور زمان و مکان کی بات کر رہا ہوں
باقی تو سب زندگی کی اکائیاں ہیں
تمہارے ارد گرد گردش کرتی ہیں
تمہیں مصروف رکھتی ہیں
تمہیں یہ جنگ جتوانے کی خاطر
ہر روز ہارتی ہوئی آ رہی ہیں
اور تم اس جنگ کو روز جیتتی آ رہی ہو
ہر لمحہ ، ہر دن
جس دن تم نے یہ جنگ ہاری تو یاد رکھنا
روشنی، وقت ، وجود و موجود اور زمان و مکان بھی
یہ جیتی ہوئی جنگ
ہار جائیں گے
محمد ازرم
--------------------
دیدبان شمارہ ١٥
محمد ازرم کی نظمیں
وقت، زندگی، تصورات اور امکانات
لمحے، دن ، رات اور وقت کے تصورات
مجھے ہمیشہ ہلا کر رکھ دیتے ہیں
اس سے بھی بڑھ کر میرے لیے حیران کن
وہ تصورات ہیں جو بقا اور فنا سے جڑے ہوئے ہیں
وقت جتنا ظالم ہے اس سے کہیں زیادہ رحم دل بھی
وقت جو اپنے لمحے کو توڑ کر کسی زندگی نما حادثے
کو جنم دینے کے لیے اپنے ہونے کو خود باطل کر دیتا ہے
اور جب فنائی وجود اس بقا کے لمحے کو جنم دیتا ہے
جو پھر اپنے وجود سے زندگی کے ساتھ ساتھ
فنا اور بقا کے لامتنائی تصورات اور امکانات کو جنم دیتا ہے
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں
جانے اس لمحے پر کیا کیا گزرتی ہو گی
جب وہ خود کو توڑ کر خود سے ایسے امکانات کو جنم دیتا ہے
جن سے زندگی اور زندگی سے جڑی ان گنت زندگی کی اکائیاں جنم لیتی ہیں
یقینا یہ اس لمحے کے لیے قیامت سے کم نہیں ہوتا ہوگا
جو اپنے تیرتے جمود کو توڑ کر کائنات کے خاموش وجود پر
زندگی جیسی امکانات سے بھرپور قیامت کا دف بجاتا ہو گا
زندگی کا وقت کے وجود کے اس ایک لمحے پر دستک دینا
صرف وقت کے جمودی تصورات کو باطل نہیں کرتا
بلکہ یہ وقت ، بقا، فنا اور کائنات کے تمام جمودی تصورات کو باطل کر دیتا ہے
اور وقت ، بقا، فنا اور کائنات کے متوازی امکانات کو جنم دیتا ہے
اور آج تمھاری سالگرہ کے دن میں ان تمام امکانات کے بارے میں سوچ رہا ہوں
محمد ازرم
-----------
کیا تم جانتی ہو؟
کیا تم جانتی ہو؟
اگلے قدم پر کیا ھو گا؟
کچھ بھی ھو سکتا،
کچھ نہیں بھی ھو سکتا!
جانتی ھو کیا ھو سکتا ھے ؟
زندگی سوال ہو سکتی ھے
زندگی ہی جواب ھو سکتی ھے
موت بھی جواب ھو سکتی ھے
اگر موت جواب ھو سکتی ھے
تو زندگی موت کا سوال ھو سکتی ھے
جانتی ھو اگلے لمحے کیا ھو سکتا ھے؟
راستہ منزل ھو سکتا ھے
منزل راستہ ھو سکتی ھے
منزل اور راستہ ایک ہی ھو سکتے
منزل مشرق میں، راستہ مغرب کو ھو سکتا ھے
یہ بھی ھو سکتا ھے ،
ہاں ایسا بھی ھو سکتا ھے
ایسی منزل ھو جس کو کوئی راستہ ہی نہ ھو
ایسا رستہ بھی ھو سکتا ھے جس کی منزل ھی نہ ھو
اگلے قدم پر کیا ھو سکتا ھے ؟
روشنی کی سیڑھی پر سے گر کر
اندھی اور تاریک وادیوں میں پہنچ سکتے ھیں
وہ تاریک وادیاں روشنی کی بھی ھو سکتی ھے
وہ روشنی ہمارا خیال بھی سکتا ھے
وہ روشنی ہمارے خیال کی طرح حقیقت بھی سکتی ھے
مسلئہ یہ نہیں اگلے لمحے کیا ھو سکتا ھے
جو ہوتا ہے اپنے آپ میں معجزہ ھوتا ھے
مسلئہ تب ھو گا جب ہم جان جائے گئے
اگلے لمحے کیا ھو گا کیا ھو سکتا ھے
پھر زندگی نہ ھو گی، موت ہو سکتی ھے
موت جیسی بھی ھو سکتی ھے
پھر اگلا لمحہ تمہارے سوال جیسا ھو گا
اور تمہارا سوال میرے جواب جیسا ھو گا
محمد ازرم
------------------
م ، تم اور زندگی
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں
وہ لمحہ کیسا ہوگا
اور اس لمحے پر کیا گزری ہوگی
جس لمحے کی انتہا پر
تمہارے ہونے کی جنگ میں
زندگی اور موت کی کشمکش میں
زندگی کے لاموجود نکتے نے
موت کے لامحدود وجود میں سر اٹھایا
اور موت کے لامحدود وجود سے جیت کر
موت کی لامحدود اندھی وادیوں کے
اندھے اور اندھیرے راستوں سے ہوتے ہوئے
مہینوں کا سفر کر کے
تم نے روشنی کی دہلیز پر قدم رکھا ہوگا
اور روشنی سے ملاقات کرتے ہی زندگی نے
وقت، روشنی، موجود و وجود اور زمان و مکان کے
لامحدود پھیلاؤ سے
ایک خاموش جنگ کا اعلان کیا
جہاں وقت تم سے ہر حال میں جیتنا چاہتا ہے اور
وجود و موجود اور زمان و مکان
تم سے ہر حال میں ہارنا چاہتا ہے
روشنی اس لاحاصل جنگ پر
پہلے دن سے ایک بےرحم تماشائی کی طرح
پر لطف انداز میں
تالیاں بجانے میں مصروف ہے
روشنی یہ بھی نہیں جانتی، کہ،
جب تک تم ہو اس کا وجود قائم ہے
تمہارے ساتھ وہ بھی اپنا وجود کھو کر
موت کی اندھی وادیوں میں کھو جائے گی
ہاں، میں یہ بھی جانتا ہوں
وقت جو تم کو ہر حال میں ہرانا چاہتا ہے
وہ یہ بھی نہیں جانتا
تم نے موت کے اندھیروں کا شکست دے کر
زندگی کے ساتھ ساتھ وقت کو بھی جنما ہے
موجود و وجود اور زمان و مکان کا وجود بھی
تم اور تمہارے ہونے سے وابستہ ہے
تم جانتی ہو تم یہ جنگ
جو پہلے دن سے لڑ رہی ہو
ہر لمحہ یہ ہارتی ہوئی یہ لاحاصل جنگ
جیتتی آ رہی ہو
اور اپنے ساتھ ان تمام حقیقتوں کو بھی
دوام بخش رہی ہو
جو تمہیں ہر لمحہ ہرانے کی
تگ و دو میں مصروف ہیں
پہلے دن سے ؛ ہر لمحہ، ہر دن
ہاں میں وقت، روشنی، موجود اور زمان و مکان کی بات کر رہا ہوں
باقی تو سب زندگی کی اکائیاں ہیں
تمہارے ارد گرد گردش کرتی ہیں
تمہیں مصروف رکھتی ہیں
تمہیں یہ جنگ جتوانے کی خاطر
ہر روز ہارتی ہوئی آ رہی ہیں
اور تم اس جنگ کو روز جیتتی آ رہی ہو
ہر لمحہ ، ہر دن
جس دن تم نے یہ جنگ ہاری تو یاد رکھنا
روشنی، وقت ، وجود و موجود اور زمان و مکان بھی
یہ جیتی ہوئی جنگ
ہار جائیں گے
محمد ازرم
--------------------