مابعد جدید تنقید سے قاری کا مکالمہ
مابعد جدید تنقید سے قاری کا مکالمہ
Apr 14, 2020
مابعد جدید تنقید سے قاری کا مکالمہ
ڈاکٹر الطاف انجم
مابعد جدید ادب کاتخلیقی منظر نامہ موضوعی اور اسلوبیاتی اعتبار سے جس قدر رنگارنگ ہے اُسی قدر اس کی تنقید بھی ہشت پہلو ہے۔ واقع یہ ہے کہ بیسویں صدی کے ربع آخر کے دوران اور اس کے بعد سے سائنسی انکشافات اور ایجادات نے عالمگیر سطح پر انسانی معاشرے کوسماجی ، علمی، ادبی ، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے جس قدر تغیر وتبدل سے ہم کنار کیا وہ اگر طلسم نہ سہی لیکن ہوش رُبا ضرور ہے۔دنیا کی مختلف ترقی یافتہ زبانوں کے ادب کی طرح اُردو زبان کا شعروادب بھی ہرآن بدلتی زندگی کے زائیدہ تہذیبی اور تفکیری رویّوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یہاں پر مابعد جدید یت کے دور میں سامنے آئے نئے تنقیدی نظریات کے ضمن میں معاصر قاری کے تحفظات اور ترجیحات کا جائزہ مقصود ہے ۔اس موضوع کی جانب برراہِ راست مراجعت کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی کے معاشرتی منظرنامے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے۔
اکیسویں صدی اپنی تمام تر خصوصیات اور امکانات کے ساتھ سابقہ چار پانچ صدیوں سے مختلف بھی ہے ، ممتاز بھی اور بعض معنوں میں متضاد بھی ہے۔ اس کی پیشانی پر پچھلے بیس سال کی مختصر مدت نے جو محضر نامہ رقم کیا ہے وہ دنیا کے دوسرے خطوں کے ساتھ ساتھ برصغیر کی ہر لمحہ بدلتی سماجی، اقتصادی ، عمرانیاتی ، تہذیبی اور ثقافتی صورتِ حال کا آئینہ ہے۔ دورِ حاضر نے سائنسی انکشافات اور ایجادات کی بدولت صدیوں کا سفر لمحوں میں طے کرتے ہوئے انسان کو اس قدر حیرت و استعجاب کے بحرِ بیکراں میں ڈال دیا ہے کہ وہ اپنے اقدار و ایمان کے حوالے سے بھی کبھی کبھار متزلزل دکھائی دیتا ہے ۔ اسی طرح انٹر نیٹ انسانی ادراک و استدلال کا ایک ایسا اعجاز ہے جو ہر لمحہ ایک انگلی کا اشارہ پاتے ہی ہوش رُبا انداز میں جست لگا کر نادیدہ جہانوں کی سیر کراتا ہے ۔ اس طرح کے جتنے اور جیسے بھی عوامل و عناصر اکیسویں صدی کے قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہیں اُن سب کی تان صارفینی کلچر کی چکاچوند پر ہی ٹوٹتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس نوع کی صورتِ حال نے انسان کواپنی زندگی اور اس کے متعلقات پر از سرِ نو غور و خوض پر اصرار کیا ہے۔ ادب چوں کہ زندگی کی ایک ایسی شق ہے جو زندگی کی ترجمان ہے بھی اور نہیں بھی ہے لیکن بہر حال اس کی کرنیں جس مرکزی سوتے سے پھوٹتی ہبں اُس کا نام زندگی ہی تو ہے۔ ادب کا بنیادی وظیفہ ایک عام انسان کی نظر میں جمالیاتی شعور و ادراک کی جبلت کو بیدار کرنا قرار پایا ہے لیکن اس کا اصل تعلق قاری کی لسانی آگہی، جمالیاتی احساس کی پختگی، شعری ذوق و ظرف اور ادبی روایات سے ہم آہنگی سے بھی ہے۔ یہاں پر یہ سوال قائم کیا جاسکتا ہے کہ اگر معاصر قاری کو جمالیاتی تسکین اور تفننِ طبع کے لیے کئی ایک ذرائع دستیاب ہیں تو وہ متن کی قرا ت کے تفاعل میں کیوں کر سنجیدہ ہوسکتا ہے یا اگر ہلکے پھلکے انداز میں وہ ٹیلی ویژن کے رئیلٹی شو سے احتظاظی کیف و تاثر حاصل کرسکتا ہے یا انٹرنیٹ پر بیٹھ کر وہ کسی بھی ویب سائٹ کامشاہدہ کر کے اپنا غم غلط کرسکتا ہے تو پھر کلامِ غالب کے پیچیدہ اور گنجلک اشعار سے اُسے معاملہ کرنے سے کیا حاصل ہوگا جن کے متعلق غالب نے خود کیا للکارتے ہوئے کہا تھا کہ
آگہی! دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
یہ اور اس طرح کے اور بھی سوالات ہیں جو معاصر قاری کے حوالے سے قائم کیے جاسکتے ہیں۔ اس صورت میں ان سب سوالات کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ ہر انسان کا اپنا جمالیاتی شعور اور معیار ہوتے ہیں اور رئیلٹی شو اور سطحی معیار کی چیزیں ہر انسان کو جمالیاتی طور پر آسودگی بخشنے میں معاو و مددگار ثابت نہیں ہوتیں اور یوں کتابی متن اس اطلاعاتی تکنالوجی کے دور میں بھی انسان کی جمالیاتی تسکین کے اہم وسیلے کے طور پر اپنی اہمیت و معنویت برقرار رکھی ہوئی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ ہر قاری کی ادب فہمی اُس نوعیت کی نہیں ہوتی ہے کہ وہ متن سے مصافحہ اور مکالمہ کرکے اُس میں مضمر تہہ در تہہ معنی کشید کرے بلکہ یہ تفاعل ایک خاص تربیت یافتہ باذوق قاری ہی انجام دے سکتا ہے ۔ گو یا قارئین کی کئی اقسام ہیں جو ادبی متن کی قرا ¿ت کے دوران اپنے اپنے ادبی شعور اور ذوق و ظرف کے مطابق ادب فہمی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اساتذہ نے قارئین کی کئی ایک قسمیں گنوائیں ہیں جیسے عام قاری، باذوق قاری اور تربیت یافتہ قاری۔ قارئین کی ان تینوں قسموں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہر قاری اپنے معیار و مزاج، ذوق و ظرف اور بصیرت و بصارت کے مطابق ہی ادب پارے سے اخذِ معنی کا عمل انجام دے سکتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں عام قاری اور تربیت یافتہ قاری سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُس باذوق قاری کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی جو تخلیقی ادب پارے کی قراؑ ت میں احتساسی اور جمالیاتی کیفیات کی تحصیل کا خواہش مند ہوتا ہے اور اپنی لسانی، جمالیاتی اور ادبی سوجھ بوجھ کو کام میں لاکر تخلیقی متن سے اخذِ معنی کے نشاط آگیں اور احتظاظی لمحات گزار لیتا ہے۔ اب جہاں تک ما بعد جدید تنقید سے اکیسویں صدی کے اس باذوق قاری کے مکالمہ کی بات ہے تو اس ضمن میں سب سے پہلے تنقید کے بنیادی وظیفے پر سرسری گفتگو کرنا لازمی ہے اس کے بعد مابعد جدید تنقید سے اس باذوق قاری کی مفاہمت یا مغائرت پر غور کیا جائے۔
جہاں تک تنقید کے بنیادی وظیفے کا سوال ہے اس ضمن میں امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ کچھ غلط فہمیاں بھی درآگئی ہیں جس کی وجہ سے اس کے دائرہ کار میں بھی غیر ضروری طور پر توسیع ہوتی جارہی ہے۔یہ وسعت ادبی سمت و رفتارکے ساتھ فطری طور پر ہم آہنگ ہوتی ہے۔ شاعرانہ چشمک و رقابتوں اور بے جا طرفداری کی ابتدا اُردو تنقید کی شروعاتی دور سے ہی اس کا جزوِ لاینفک بن گئے ہیں جن کی مثال شعرائے اردو کے تذکروں اور باہمی مناظروں میں جستہ جستہ نظر آتی ہے لیکن موجودہ دور میں یہ ادبی بے ادبیاں اپنے عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ اپنے کسی معمولی شاعر و ادیب پر تاثراتی نوعیت کا مضمون رقم کرنا اور اس کو غیر معمولی قرار دینا سخن فہمی کے بجائے غالب کی طرفداری پر دلالت کرتا ہے۔ اس نوعیت کی تنقید سے ادب کو کچھ حاصل ہو یا نہ ہو لیکن مضمون نگار پر ممدوح کی طرف سے سیم وزر کی بارشیں ضرور ہوتی ہیں۔ میں ذاتی طور پر اس قسم کی تنقید کو ”تعلقاتی تنقید“ کے نام سے یاد کرتا ہوں۔ اس قسم کی تنقیدات سے معاصر قاری ادب فہمی کے سلسلے میں کیسے راہ نمائی حاصل کرسکتا ہے بلکہ یہ تحریریں اُس کی گمراہی کی موجب بن جاتی ہیں۔حالاںکہ ادبی تنقید کا پہلا اور بنیادی وظیفہ قاری اورجینوئن قلم کار کے درمیان رابطہ قائم کرناہے یا دوسرے الفاظ میں قاری اور متن کے مابین مکالمہ کی راہ ہموار کرنا ہے ۔ اُردو کے معروف شاعر فراق گورکھپوری نے ایک جگہ لکھا ہے کہ” وہ تنقید ہی کیا جو ادب پڑھنے کا لالچ نہ بڑھائے “لیکن اس زمانے کی جانبدار اور تاثراتی نوعیت کی تنقیدی تحریریں پڑھ کر قاری اور ادب کے درمیان فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ موجودہ دور میں تنقید کے بنیادی سرو کار کے ضمن میں ما بعد جدید تھیوری کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔ تھیوری ادب سازی میں کسی بھی سکہ بند تصور کی نفی کرتی ہے اور تخلیقی آزادہ روی سے لے کر معنی کی تکثیریت کے نظریے پر اپنی بساط قائم کرچکی ہے ،یعنی تخلیقِ ادب سے لے کر تحسینِ ادب تک کے جملہ مراحل کو تھیوری انگیز کرتی ہے ،نیز ثقافتی متون میں مضمر معنی کی تہوں اور طرفوں کو تہہ در تہہ منکشف کرنے پر اصرار کرتی ہے۔ غرض تھیوری کے دائرہ کار میں جو غیر معمولی تنوع اور ہمہ جہتی ہے ان سے معاصرباذوق قاری اس لیے پوری طرح واقف اور ہم آہنگ نہیں ہے کہ اس کو تحسینی اور توصیفی مضامین کے سحر سے آزادی نہیں ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر و بیشتر ما بعد جدید تنقیدی تھیوری کے حوالے سے اظہارِ لاتعلقی کر بیٹھتا ہے اور روایتی تنقید سے کسی بھی طرح گلو خلاصی حاصل کرنے پر رضا مند نظر نہیں آتا۔ اکیسویں صدی کا یہ اردو قاری ایک طرح سے ادبی منافقت میں جی رہا ہے کیوں کہ اُس تک وہ صحت مند، غیر جانبدار اور متوازن و متناسب تنقیدی تحریر پہنچ ہی نہیں پاتی ہے جو اس میں پختہ ادبی شعور اور فہم و فراست کی جوت جگاتی اور جو اُس کے جمالیاتی وژن کو وسعت بخشتی۔اُردو کی ادبی صحافت کا موجودہ منظر نامہ یہ ہے کہ اکثر رسالے ادبی اقدار کو فراموش کرتے ہوئے کچھ مخصوص افراد کی شہرت کا ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ معاصر قاری کی نظر سے جو بھی اس نوعیت کا رسالہ گزرتا ہے وہ اس کے سرِ ورق پر مزین رنگین اور پر کشش تصاویر سے ہی اس کے مشمولات کا اندازہ کررہا ہوتا ہے۔ رسائل میں یہ تصاویر ان شاعروں اور شاعرات کی ہوتی ہیں جو اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں اور بسترِ مرگ پر کروٹیں بدل بدل کر داعی ¿ اجل کے منتظر ہوتے ہیں لیکن چوں کہ ان کوسستی شہرت کی ناکتخدا آرزوﺅں نے ایامِ جوانی میں اسیر کیا ہوا ہوتا ہے اس لیے وہ اس منزل پر پہنچ کر پانچ سو لے کر پانچ ہزار روپے تک کی رقم صرف کرکے عنفوانِ شباب کی تصویریں اور عمر بھر لوگوں سے موصول ہوئے نیم ادبی اور غیر ادبی خطوط مدیرِ رسالہ کو ارسال کر کے اپنے لیے اس رسالہ باتمکین میں ایک گوشہ مختص کراتے ہیں بلکہ خرید لیتے ہیں۔ اور جب یہ رسالہ ہمارے قاری کے ہاتھوں تک کبھی اعزازی اور کبھی غیر اعزازی صورت میں پہنچ جاتا ہے تو اس کواندازہ ہوتا ہوگا کہ تنقید کسے کہتے ہیں جب وہ اس رسالے کے ہر صفحہ پر خود ساختہ ناقدین کی اس متشاعر (یا زیادہ سے زیادہ معمولی شاعر) کے حق میں سندیں اور ادبی فتوے دیکھ کر انھیں جزوِ ایمان بنا لیتا ہے۔ یہ ناقدین اپنی سندیں جس طمطراق کے ساتھ اجرا کرتے ہیں وہ میر کی یاد تازہ کرتے ہیں
سارے عالم پر ہوں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
آج کے اِس باذوق قاری کو یہ سمجھایا جارہا ہے کہ ادبی تنقید اسی تعلقاتی، تحسینی اور توصیفی تحریرکو کہا جاتا ہے جس میں متشاعر کو قادر الکلام اور اس کی بے ہنگم شاعری میں میر، غالب، اقبال، فیض اور فراق کے شاعرانہ امتیازات کی نشاندہی کی جاتی ہو، اسی طرح نثر کی حکیمانہ اور استدلالی خصوصیات سے بے بہرہ فکشن نگار کو اپنے زمانے کا پریم چند، منٹو، کرشن چندر، بیدی کہا جاتا ہو، وغیرہ وغیرہ۔
آئے اب بات کرتے ہیں ما بعد جدید تنقیدی نظریات اور اس باذوق قاری کے آپسی ناتمام اور نامکمل تعلق کی۔ اردو میں مابعد جدید تنقیدی نظریات کے ضمن میں اکثر غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ احباب نے آنکھیں بند کر کے ان نظریات کو مغربی نوآبادیات کا ایجنڈا قرار دیا۔ انھوں نے کبھی بھی اپنے دائرہ خیال میں ان نظریات کو پھٹکنے نہیں دیا بلکہ اپنے غیر ادبی اور نیم ادبی تاثراتی مضامین کے ذریعے اس ڈسکورس کو ہی مشرقی اقدار و افکار کے منافی قرار دیا۔ اس قبیل میں کس کس کا نام لوں۔ اب بہر حال جو بھی ہیں انھیں ان نظریات سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ دوسرے یہ کہ مابعد جدیدیت اور تھیوی کو اردو میں چند افراد کی ذات تک محدود کرکے رکھ دیا گیا بلکہ ان کو ایک دوسرے کے نعم البدل کے طور پر بھی دیکھا گیا۔ اب اس کا نقصان ہماری ادبی تنقید کو یہ ہوا کہ اگر گوپی چند نارنگ، وزیر آغا، حامدی کاشمیری، وہاب اشرفی، عتیق اللہ،ناصر عباس نیّر، قاضی افضال حسین، قدوس جاوید، قاسم یعقوب سے کسی کو ذاتی طور پر کوئی مخاصمت رہی تو وہ غیر علمی اور غیر ادبی انداز میں ان کے ادبی نظریات و افکار پر اوچھے تیر آزماتا ہے۔ پھر کیا ہونا ہوتا ہے کہ کسی رسالہ کے گوشے اس ناقد کی ادبی شخصیت کو مسخ کرنے پر تیر و تفنگ کی طرح استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں جرمنی سے شائع ہورہے حیدر قریشی کے شش ماہی جریدے جدید ادب ڈاٹ کام کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ اردو می ©ں ایک مخصوص گروہ نے عمران شہد بھنڈر کے ذریعے اس شش ماہی رسالہ میں گوپی چند نارنگ کے خلاف جون ۶۰۰۲ءمیں محاذ کھولا۔ نارنگ کے خلاف متعدد شماروں میں بھنڈر نے متواتر کئی مضامین لکھے جن کے عقب میں ادبی نہیں بلکہ شخصی عناد پرستی کے عزائم نہاں اور عیاں تھے۔ انھوں نے نارنگ پر یہ الزام لگایا تھا کہ ”ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات“ مطبوعہ ۳۹۹۱ءکیتھرین بیلسی کی کتاب کا سرقہ ہے جب کہ نارنگ نے اس کتاب کے دیباچے میں ہی اس بات کی وضاحت کی تھی کہ ”افکار و خیالات تو فلسفیوں اور نظریہ سازوں کے ہیں، تفہیم و ترسیل البتہ میری ہے اور جہاں کوئی کوتاہی یا کمی ہے اس کے لیے کوئی دوسرا نہیں، میں خود ذمہ دار ہوں“۱۔ بہر حال نارنگ نے جس طرح بھی اپنی صوابدید کے مطابق مناسب سمجھا، اہلیانِ اردو کونئے آب و رنگ سے آشنا کرانے میں کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ان کے پیش کردہ تنقیدی رویوں سے ہم اور آپ لاکھ اختلاف کرسکتے ہیں لیکن ہم سب کو اور عمران شاہد بھنڈر، فضیل جعفری، چودھری محمد نعیم اور ان کے دیگر ہم خیالوں کو بھی یہ ماننے میں تامل نہیں کہ نئے تنقیدی محاورہ کو جہانِ اردو میں متعارف کرانے والوں میں گوپی چند نارنگ کا نام ہراول دستے میں شمار کیا جاتا ہے۔ میرے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مابعد جدید تھیوری کی تفہیم کے ضمن میں جس معاندانہ اورحریفانہ ماحول کو تیار کیا گیا اس سے اردو تنقید سے یہ باذوق قاری نہ صرف متنفر ہوا بلکہ اس چشمک اور ان رقابتی رشتوں کو ناقدین کے ذاتی معاملات سمجھ کر وہ نئے تنقیدی نظریات سے کوسوں دور اپنی ذہنی بستی بسانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کا باذوق قاری ما بعد جدید تنقیدی نظریات کا شراکت دار نہیں بلکہ تماشا بین ہے۔
مابعد جدید تنقید اور باذوق قاری کے تعلق کا جائزہ ایک اور سطح پر بھی لیا جاسکتا ہے۔ یہ تھیوری اپنی اصل میں مغربی افکار و نظریات پر مبنی ہے۔ لیکن آج اس کے مشرقی تصورات پر قائم ہونے کی بھی کئی دلیلیں پیش کی جارہی ہیں۔ بہر حال بعض احباب نے نئے تنقیدی نظریات کو اردو میں متعارف کرانے کی دوڑ میں انگریزی اور فرانسیسی اصطلاحات کو اردو میں من و عن پیش کیا جس نے اس باذوق قاری کو غیرضروری حد تک پیچیدگی سے دوچار کیا۔ آج مابعد جدید تنقیدی نظریات کے حوالے جو مقالے اور مضامین تحریر کیے جاتے ہیں ان میں کچھ مقالے ایسے ہوتے ہیں جن میں انگریزی اور فرانسیسی اصطلاحات کی اس قدر بہتات ہوتی ہے کہ کبھی کبھار قاری یا سامع یہ اندازہ نہیں کر پارہا ہے کہ یہ انگریزی مقالہ اردو رسم الخط میں پڑھا جارہا ہے یا اُردو مقالہ انگریزی زبان میں۔ ان مقالہ نگار حضرات کی تنقیدی فتوحات اور تبحر علمی پر کم سے کم مجھے کوئی شک نہیں لیکن ایک باذوق قاری کی حیثیت سے ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر آپ دوسری زبانوں کی اصطلاحات اور الفاظ کو اردویانے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا ان کو اُردو کے قالب میں ڈھال کر اس (اُردو)کی تنقیدی روایت کے تسلسل کے طور پر برت نہیں سکتے تو خوامخواہ افلاطوں کا رشتہ دار بننے کی کیا ضرورت ہے؟ اس رویّے سے ہماری تنقیدی تھیوری اور باذوق قاری کے بیچ موجود خلیج مزید گہری ہوجائے گی اور نتیجتاً تنقید کچھ افراد تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔
مذکورہ بالا نکات میں تنقیدی تھیوری کے ضمن میں اُردو کے روایتی قلم کاروںنے جو ہواکھڑا کی ہے اُس سے معاصر با ذوق قاری کا اس تنقیدی Canon سے رشتہ ضرور کمزور ہوا ہے لیکن یہاں پر میں نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ اِس باذوق قاری کی خدمت میں دو ایک باتیں پیش کرنا چاہوں گاکیوں کہ وہ(قاری) تنقید کو ضرورت سے زیادہ پیچیدہ اور خشک سمجھتا ہے۔
جس طرح سماجی، سیاسی، معاشی، عمرانیاتی، ارضیاتی، قانونی، طبی اور دوسرے علوم کی اپنی منطق اور اپنا دائرہ کار ہوتے ہےں اسی طرح سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ان کی اپنی مخصوص اصطلاحات ہوتی ہیں جن کے ذریعے سے کوئی بھی سادہ سے سادہ اور دقیق سے دقیق تصور پیش کیا جاتا ہے۔ اصطلاحات اُس مخصوص علم کو سمجھنے کی کلید ہوتی ہیں۔ جس طرح ہم ادب کی کلاس میں غزل، افسانہ، قصیدہ اور مرثیہ ا ن کی اپنی اپنی اصطلاحات کے ذریعے پڑھاتے ہیں، اسی طرح تنقید کی بھی اپنی اصطلاحات ہوتی ہیں جو سمجھنے اور سمجھانے میں ہماری معاونت کرتے ہیں۔ گویا دوسرے سماجیاتی علوم کی طرح تنقید بھی ایک باضابطہ علم ہے، ایک Academic Discipline کے طور پر یہ اپنی شناخت قائم کرچکا ہے اس لیے اس کی تفہیم بھی اس کی ہی اصطلاحات کے توسط سے ہوجائے گی۔ یہاں پر باذوق قاری کو اپنی مطالعاتی حکمت علمی میں لچک اور اپنے ادبی ذوق و ظرف میں تنوع اور رنگارنگی پیدا کرنا ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ تنقید میں جذبات و احساسات، تصورات و مفروضات اور آرزوﺅں اور امنگوں کے خاکے موجود نہیں ہوتے ہیں جن میں یہ باذوق قاری اپنے فکر خیال کے رنگ بھرتا بلکہ اس کے برعکس اس میں عقلیت و استدلال،معروضیت جیسے عناصر ہوتے ہیں جو قاری کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کی تب و تاب رکھتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر تخلیقی ادب میں جذبہ و احساس کی فراوانی ہوتی ہے جو مزاج کو شگفتہ بناتی ہے اور یوں قاری کو جمالیاتی طرفگی بخشتی ہے لیکن تنقیدی ادب میں عقل و دانش کی حسنِ کرشمہ سازی ہوتی ہے جو ادب فہمی کے سنگِ گراں کو آسان بنانے کی ہر لحظہ کوشش کرتی ہے اور اس باذوق قاری سے مصطفی زیدی کے الفاظ میں کہتا ہے کہ
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آﺅو
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس باذوق قاری کو بھی تنقید پڑھتے وقت جذبہ و احساس کی وادی سے نکل کراستدلال و ادراک کے میدان میں قدم رنجہ ہونا چاہئے۔ تبھی وہ معاصر تنقیدموسوم بہ ما بعد جدید تنقید اور اس کی اصطلاحات سے صحت مند انداز میں مصافحہ اور مکالمہ کرنے کے اہل ہوسکتا ہے۔ واضح رہے اس ما بعد جدید تنقیدی نظریات کو جزوِ ایمان بھی نہیں بنانا چاہئے بلکہ عقل و دانش اور اپنے ادبی شعور کی میزان پر پرکھ کر ان کو رد بھی کرسکتا ہے کیوں کہ یہ کسی کے ایمان کا جزوِ لائنفک نہیں ہے جس سے انکار کفر ہو۔
آج جب ہم مابعد جدید دور میں قاری کی بات کرتے ہیں تواِس (مابعد جدید تنقیدی نظریات کے) ضمن میں”قاری اساس تنقید “ کا ذکر کرنالازمی بن جاتاہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ ”قاری اساس تنقید “ کا مرکز و محور قاری ہے ۔اگرچہ یہاں پر قاری کو مرکزی اہمیت تفویض کرنے سے متن اور مصنف پسِ پشت چلے جاتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ قاری کی اپنی شناخت بحیثیتِ قاری ، متن اور مصنف کی ہی منت پذیر ہے ۔ قاری اساس تنقید کے بنیادی مقدمات اس طرح ہیں :
۱۔ قاری کی کتنی اقسام ہیں ؟
۲۔ کیا قراؑت کا تفاعل ہر ایک قاری انجام دے سکتا ہے ؟
۳۔ قاری اور متن کے درمیان معانقہ کی کیا کیا نوعیتیں ہو سکتی ہیں ؟
۴۔ کیا قاری ہر تحریرکو بطورِ متن قبول کرنے پر رضامند ہے ؟
۵۔ کیا قاری ادب کی شعریات کی تشکیل پذیری میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے ؟
۶۔متن سے کثرتِ معنی
(Plurality of Meaning) کے اخراج کے امکانات کیسے روشن ہوسکتے ہیں ؟
۷۔قاری کو مرکزی اہمیت تفویض کرنے سے مصنف کی جو شخصیت نظر انداز ہوئی ، اُس مسئلے پر کلامیہ کیسے قائم کیا جاسکتا ہے ؟
۸۔متن ، قاری سے قرا ¿ت کے دوران کیا کیا تقاضا کرتا ہے ؟
یہ اور اس طرح کے کئی سوالات ہیں جو ’قاری اساس تنقید ‘ کے ضمن میں قائم کیے جارہے ہیں ۔ اِن سارے سوالات کو راقم نے اپنی کتاب ”اُردو میں مابعد جدید تنقید : اطلاقی دشواریاں، مسائل و ممکنات “۲میں بالتفصیل درج کیا ہے اس لیے خوفِ طوالت کے سبب ان سے یہاں پر صرفِ نظر کیا جا رہا ہے لیکن اتنا عرض کردینا لازمی سمجھتا ہوں کہ متن کی تشریح ،توضیح اور تعبیرصرف قاری کی صوابدید پر ہی منحصر ہے بلکہ:
’ ’قاری اساس تنقید کا مرکزی استدلال یہ عمومی احساس ہے کہ کوئی ادب پارہ حقیقتاً اُس وقت تک وجود نہیں رکھتا جب تک وہ پڑھا نہ جائے ۔ قراؑت ادب پارے کے ”تنِ مردہ “ کو بہ طرزِ مسیحا زندہ کرتی ہے
“۳
واضح رہے کہ انگریزی میں قاری اساس تنقید کے ضمن میں کئی ناقدین اور دانشوروں نے خیال آرائی کی ہے جنہوں نے اس نظریے کو منضبط اور مبسوط انداز میں منصہ شہود پر لایا۔مجموعی طور پر اس کو دو ذیلی رویّوں کے بطور سمجھا جا سکتا ہے :
۱۔مظہریت
۲۔ تعبیریت
مظہریت: مظہریت کا بنیادی تعلق اشیا ءاور مظاہرِ کائنات سے ہے۔مظاہر سے باہر کسی شے کا وجود نہیں اورجو کچھ بھی ہے مظاہر پر مبنی ہے۔ اس اعتبار سے اِس کا تعلق سائنسی معروضیت اور استدلال سے جوڑا جاسکتا ہے۔”مظہریت مظاہرکے مطالعے سے دراصل ذہن کو اس کی بذاتہ شکل میں سمجھنے کی کوشش کرتی ہے “۴ اور اسی وجہ سے یہ ذہن کے معروضی اور استدلالی جائزے سے ربط قائم کرتی ہے یوں اس طرح اس کا دائرئہ کار انسانی ذہن ہے ۔ قاری اساس تنقید میں مظہریت کی اصطلاح اس اعتبار سے قابلِ توجہ ہے۔
تعبیریت: تعبیر یت کی اصطلاح متون کی تشریح و تعبیر کے تفاعل سے برراہِ راست سروکار رکھتی ہے ۔ مزید برآں یہ تشریح و تعبیر کے اصول و ضوابط متعین کرنے اور اِن کو نظریانے (Theorization) کی کوششوں سے عبارت ہے ۔جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ تعبیر کو ابتدا میں مذہبی یا مقدس متون کی تعبیر تک ہی محدود رکھا گیا تھا بعد میں جب ادب شناسی کے تحت کئی ایک تنقیدی نظریات منصہ شہود پر آئے تو اِس(تعبیریت) میں ثقافتی متون کو بھی شامل کیا جانے لگا ۔ یوں تعبیر یت سے ادب فہمی کے کئی نقطے روشن ہوگئے جنہوں نے متون کی ازسرِ نو قرا ¿ت پر اصرار کیا جس سے قاری کی اہمیت و معنویت کو جیسے پَر لگ گئے۔رولاں بارتھ کے ”مصنف کی موت“(Death of the Author) جیسے خیالات کو تعبیریت ہی کے ضمن میں تقویت مل گئی اور یوں مصنف کے بجائے قاری کو مرکزیت تفویض ہوئی۔
مظہریت اور تعبیریت کے ضمن میں ایڈمند ہسرل ، کانٹ، ہیگل،فریڈرک شلائر ماخر ،ولہم ڈلتھے جیسے دانشوروں کی شعوری کاوشوں کو برراہِ راست عمل دخل ہے ۔جنہوں نے قاری اساس تنقید کو مختلف فلسفیانہ جہتوں سے ہمکنار کیا۔
اس بات کا ذکر لازمی ہے کہ اُردو میں ”قاری اساس تنقید “کو گوپی چند نارنگ اور ناصر عباس نیّر نے نہایت علمی وقار اور استدلالی انداز کے ساتھ اپنی اپنی تصانیف ”ساختیات ، پس ساختیات اور مشرقی شعریات “ اور ”جدید اور مابعد جدید تنقید : مغربی اور اُردو تناظر میں “ میں پیش کیا جس سے اُردو تنقید میں اس نئے تنقیدی نظریے کو نظریاتی طور پر ہی سہی متعارف کیا گیا۔ نارنگ نے میر تقی میر، مرزا غالب،الطاف حسین حالی، علامہ اقبال اور صادقین کے کلام کی مثالیں دے کر قاری اساس تنقید کے اطلاقی امکانات کی جانب بلیغ اشارے کیے ہیں۔ اقبال کے شعر
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
کے معنوی امکانات کو روشن کرتے ہوئے گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں :
”آدمِ خاکی اور مہ و انجم کی کس نسبت کی طرف اشارہ ہے؟ انسان کو ٹوٹا ہوا تارا کس لیے کہا ہے ؟ خدا نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کریں ، پھر ایک دن آدم کو باغِ بہشت سے نکل جانے کا حکم دیا ۔ ٹوٹے ہوئے تارے کے مہ کامل بننے اور عروجِ آدمِ خاکی سے انجم کے سہمے جانے کی توجیہات مذہبی روایات کی رُ و سے اور نظریہ ¿ خودی کی رُو سے پہلی قراؑتوں کے لیے آسان تھیں۔ بعد میں یہ نوعیت بدل گئی ۔ یعنی مذہبی توجیحات کے علاوہ سائنسی توجیحات بھی برحق ہوگئیں ۔ تسخیرِ خلا کے بعد سائنسی حقائق کا منظر نامہ اتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ عہدِ حاضر کی ہر قراءت ٹوٹے ہوئے تارے کے مہِ کامل بننے کے بارے میں نئے سوال اٹھاتی ہے ،اوریوں ایک نسبتاً بند متن مستقبل کے قارئین کے لیے کھلا متن ہوگیا ہے ۔ چانچہ آئندہ کے لیے کوئی حکم نہیں لگا سکتا کہ اس شعر کی مستقبل کی قرائتیں کن نئے سوالات کو پیدا کریں گی ، اور ان کا کیا جواب دیں گی ، اگرچہ متن وہی کا وہی ہوگا۔“
۵
گو یا ازسرِ قراءت کے تفاعل سے معنی و مفاہیم کے وہ اَن گِنت جہان قائم ہوتے ہیں جو متون کی پرتوں میں ملفوف ہوتے ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ اس بات کی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں کہ متن کو نئے نئے حالات و واقعات کے ساتھ تناظرانے سے جو معنوی اُفق ہویدا ہوجاتے ہیں وہ ”ہر جا کو جہانِ دیگر“ کے بطور تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
گنجینہء معنی کا طلسم اُس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
مذکورہ بالا مباحث کی روشنی میں یہ بات آئینہ ہوجاتی ہے کہ معاصر قاری کو متن کی تفہیم اور اس کی تعبیر میں جو آزادی مابعد جدید تنقید کے تحت ”قاری اساس تنقید “ نے فراہم کی ہے وہ اگر اُس آزادی اور قاری مرکوز رویّے کو دورِ حاضر میں لکھی جارہی تنقیدی تحریروں کی قرا ¿ت میں استعمال کرے تویقیناادب اور قاری کے درمیان صحت مند مکالمہ کو راہ مل سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حوالہ جات و حواشی:
۱۔ گوپی چند نارنگ: ”ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات“ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی۴۰۰۲، ص: ۴
۲۔ یہ کتاب نئی دہلی سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نے سن ۱۴۰۲ءمیں شائع ہے اور اشاعتِ ثانی لاہور پاکستان سے عکس پبلی کیشنز کے ذریعے ۱۸۰۲ءمیں عمل میں آئی ہے۔ یہ کتاب لاہور کے ہی ایک ناشرنے راقم کی اجازت کے بغیر لگ بھگ ۱۷۰۲ءمیں زیورِ طباعت سے آراست کی ہے اور جب اُن سے پوچھا کہ انہو ں نے بلا اجازت اس جرم کا ارتکاب کیسے کیا تو معصومانہ جواب یہی ملا کہ ’طلبہ کی سہولیت کو مدِ نظر رکھ کر اس کو شائع کیا گیا ہے ‘۔
۳۔ ناصر عباس نیّر، جدید اور مابعد جدید تنقید: مغربی اور اُردو تناظر میں ، انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی ، پاکستان ، ۴۰۰۲ئ، ص: ۱۶۱
۴۔ ایضاً، ص: ۲۶۱
۵۔ گوپی چند نارنگ، ”ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات“ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی ۴۰۰۲ئ، ص: ۲۸۲
٭٭٭٭٭٭٭٭
رابطہ:
ڈاکٹر الطاف انجم
اسسٹنٹ پروفیسر اُردو
نظامتِ فاصلاتی تعلیم
جامعہ کشمیر، سرینگر، بھارت
پن: 190006
واٹس اپ +91 7006425827
ای میل : altafurdu@gmail.com
مابعد جدید تنقید سے قاری کا مکالمہ
ڈاکٹر الطاف انجم
مابعد جدید ادب کاتخلیقی منظر نامہ موضوعی اور اسلوبیاتی اعتبار سے جس قدر رنگارنگ ہے اُسی قدر اس کی تنقید بھی ہشت پہلو ہے۔ واقع یہ ہے کہ بیسویں صدی کے ربع آخر کے دوران اور اس کے بعد سے سائنسی انکشافات اور ایجادات نے عالمگیر سطح پر انسانی معاشرے کوسماجی ، علمی، ادبی ، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے جس قدر تغیر وتبدل سے ہم کنار کیا وہ اگر طلسم نہ سہی لیکن ہوش رُبا ضرور ہے۔دنیا کی مختلف ترقی یافتہ زبانوں کے ادب کی طرح اُردو زبان کا شعروادب بھی ہرآن بدلتی زندگی کے زائیدہ تہذیبی اور تفکیری رویّوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یہاں پر مابعد جدید یت کے دور میں سامنے آئے نئے تنقیدی نظریات کے ضمن میں معاصر قاری کے تحفظات اور ترجیحات کا جائزہ مقصود ہے ۔اس موضوع کی جانب برراہِ راست مراجعت کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی کے معاشرتی منظرنامے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے۔
اکیسویں صدی اپنی تمام تر خصوصیات اور امکانات کے ساتھ سابقہ چار پانچ صدیوں سے مختلف بھی ہے ، ممتاز بھی اور بعض معنوں میں متضاد بھی ہے۔ اس کی پیشانی پر پچھلے بیس سال کی مختصر مدت نے جو محضر نامہ رقم کیا ہے وہ دنیا کے دوسرے خطوں کے ساتھ ساتھ برصغیر کی ہر لمحہ بدلتی سماجی، اقتصادی ، عمرانیاتی ، تہذیبی اور ثقافتی صورتِ حال کا آئینہ ہے۔ دورِ حاضر نے سائنسی انکشافات اور ایجادات کی بدولت صدیوں کا سفر لمحوں میں طے کرتے ہوئے انسان کو اس قدر حیرت و استعجاب کے بحرِ بیکراں میں ڈال دیا ہے کہ وہ اپنے اقدار و ایمان کے حوالے سے بھی کبھی کبھار متزلزل دکھائی دیتا ہے ۔ اسی طرح انٹر نیٹ انسانی ادراک و استدلال کا ایک ایسا اعجاز ہے جو ہر لمحہ ایک انگلی کا اشارہ پاتے ہی ہوش رُبا انداز میں جست لگا کر نادیدہ جہانوں کی سیر کراتا ہے ۔ اس طرح کے جتنے اور جیسے بھی عوامل و عناصر اکیسویں صدی کے قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہیں اُن سب کی تان صارفینی کلچر کی چکاچوند پر ہی ٹوٹتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس نوع کی صورتِ حال نے انسان کواپنی زندگی اور اس کے متعلقات پر از سرِ نو غور و خوض پر اصرار کیا ہے۔ ادب چوں کہ زندگی کی ایک ایسی شق ہے جو زندگی کی ترجمان ہے بھی اور نہیں بھی ہے لیکن بہر حال اس کی کرنیں جس مرکزی سوتے سے پھوٹتی ہبں اُس کا نام زندگی ہی تو ہے۔ ادب کا بنیادی وظیفہ ایک عام انسان کی نظر میں جمالیاتی شعور و ادراک کی جبلت کو بیدار کرنا قرار پایا ہے لیکن اس کا اصل تعلق قاری کی لسانی آگہی، جمالیاتی احساس کی پختگی، شعری ذوق و ظرف اور ادبی روایات سے ہم آہنگی سے بھی ہے۔ یہاں پر یہ سوال قائم کیا جاسکتا ہے کہ اگر معاصر قاری کو جمالیاتی تسکین اور تفننِ طبع کے لیے کئی ایک ذرائع دستیاب ہیں تو وہ متن کی قرا ت کے تفاعل میں کیوں کر سنجیدہ ہوسکتا ہے یا اگر ہلکے پھلکے انداز میں وہ ٹیلی ویژن کے رئیلٹی شو سے احتظاظی کیف و تاثر حاصل کرسکتا ہے یا انٹرنیٹ پر بیٹھ کر وہ کسی بھی ویب سائٹ کامشاہدہ کر کے اپنا غم غلط کرسکتا ہے تو پھر کلامِ غالب کے پیچیدہ اور گنجلک اشعار سے اُسے معاملہ کرنے سے کیا حاصل ہوگا جن کے متعلق غالب نے خود کیا للکارتے ہوئے کہا تھا کہ
آگہی! دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
یہ اور اس طرح کے اور بھی سوالات ہیں جو معاصر قاری کے حوالے سے قائم کیے جاسکتے ہیں۔ اس صورت میں ان سب سوالات کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ ہر انسان کا اپنا جمالیاتی شعور اور معیار ہوتے ہیں اور رئیلٹی شو اور سطحی معیار کی چیزیں ہر انسان کو جمالیاتی طور پر آسودگی بخشنے میں معاو و مددگار ثابت نہیں ہوتیں اور یوں کتابی متن اس اطلاعاتی تکنالوجی کے دور میں بھی انسان کی جمالیاتی تسکین کے اہم وسیلے کے طور پر اپنی اہمیت و معنویت برقرار رکھی ہوئی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ ہر قاری کی ادب فہمی اُس نوعیت کی نہیں ہوتی ہے کہ وہ متن سے مصافحہ اور مکالمہ کرکے اُس میں مضمر تہہ در تہہ معنی کشید کرے بلکہ یہ تفاعل ایک خاص تربیت یافتہ باذوق قاری ہی انجام دے سکتا ہے ۔ گو یا قارئین کی کئی اقسام ہیں جو ادبی متن کی قرا ¿ت کے دوران اپنے اپنے ادبی شعور اور ذوق و ظرف کے مطابق ادب فہمی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اساتذہ نے قارئین کی کئی ایک قسمیں گنوائیں ہیں جیسے عام قاری، باذوق قاری اور تربیت یافتہ قاری۔ قارئین کی ان تینوں قسموں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہر قاری اپنے معیار و مزاج، ذوق و ظرف اور بصیرت و بصارت کے مطابق ہی ادب پارے سے اخذِ معنی کا عمل انجام دے سکتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں عام قاری اور تربیت یافتہ قاری سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُس باذوق قاری کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی جو تخلیقی ادب پارے کی قراؑ ت میں احتساسی اور جمالیاتی کیفیات کی تحصیل کا خواہش مند ہوتا ہے اور اپنی لسانی، جمالیاتی اور ادبی سوجھ بوجھ کو کام میں لاکر تخلیقی متن سے اخذِ معنی کے نشاط آگیں اور احتظاظی لمحات گزار لیتا ہے۔ اب جہاں تک ما بعد جدید تنقید سے اکیسویں صدی کے اس باذوق قاری کے مکالمہ کی بات ہے تو اس ضمن میں سب سے پہلے تنقید کے بنیادی وظیفے پر سرسری گفتگو کرنا لازمی ہے اس کے بعد مابعد جدید تنقید سے اس باذوق قاری کی مفاہمت یا مغائرت پر غور کیا جائے۔
جہاں تک تنقید کے بنیادی وظیفے کا سوال ہے اس ضمن میں امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ کچھ غلط فہمیاں بھی درآگئی ہیں جس کی وجہ سے اس کے دائرہ کار میں بھی غیر ضروری طور پر توسیع ہوتی جارہی ہے۔یہ وسعت ادبی سمت و رفتارکے ساتھ فطری طور پر ہم آہنگ ہوتی ہے۔ شاعرانہ چشمک و رقابتوں اور بے جا طرفداری کی ابتدا اُردو تنقید کی شروعاتی دور سے ہی اس کا جزوِ لاینفک بن گئے ہیں جن کی مثال شعرائے اردو کے تذکروں اور باہمی مناظروں میں جستہ جستہ نظر آتی ہے لیکن موجودہ دور میں یہ ادبی بے ادبیاں اپنے عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ اپنے کسی معمولی شاعر و ادیب پر تاثراتی نوعیت کا مضمون رقم کرنا اور اس کو غیر معمولی قرار دینا سخن فہمی کے بجائے غالب کی طرفداری پر دلالت کرتا ہے۔ اس نوعیت کی تنقید سے ادب کو کچھ حاصل ہو یا نہ ہو لیکن مضمون نگار پر ممدوح کی طرف سے سیم وزر کی بارشیں ضرور ہوتی ہیں۔ میں ذاتی طور پر اس قسم کی تنقید کو ”تعلقاتی تنقید“ کے نام سے یاد کرتا ہوں۔ اس قسم کی تنقیدات سے معاصر قاری ادب فہمی کے سلسلے میں کیسے راہ نمائی حاصل کرسکتا ہے بلکہ یہ تحریریں اُس کی گمراہی کی موجب بن جاتی ہیں۔حالاںکہ ادبی تنقید کا پہلا اور بنیادی وظیفہ قاری اورجینوئن قلم کار کے درمیان رابطہ قائم کرناہے یا دوسرے الفاظ میں قاری اور متن کے مابین مکالمہ کی راہ ہموار کرنا ہے ۔ اُردو کے معروف شاعر فراق گورکھپوری نے ایک جگہ لکھا ہے کہ” وہ تنقید ہی کیا جو ادب پڑھنے کا لالچ نہ بڑھائے “لیکن اس زمانے کی جانبدار اور تاثراتی نوعیت کی تنقیدی تحریریں پڑھ کر قاری اور ادب کے درمیان فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ موجودہ دور میں تنقید کے بنیادی سرو کار کے ضمن میں ما بعد جدید تھیوری کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔ تھیوری ادب سازی میں کسی بھی سکہ بند تصور کی نفی کرتی ہے اور تخلیقی آزادہ روی سے لے کر معنی کی تکثیریت کے نظریے پر اپنی بساط قائم کرچکی ہے ،یعنی تخلیقِ ادب سے لے کر تحسینِ ادب تک کے جملہ مراحل کو تھیوری انگیز کرتی ہے ،نیز ثقافتی متون میں مضمر معنی کی تہوں اور طرفوں کو تہہ در تہہ منکشف کرنے پر اصرار کرتی ہے۔ غرض تھیوری کے دائرہ کار میں جو غیر معمولی تنوع اور ہمہ جہتی ہے ان سے معاصرباذوق قاری اس لیے پوری طرح واقف اور ہم آہنگ نہیں ہے کہ اس کو تحسینی اور توصیفی مضامین کے سحر سے آزادی نہیں ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر و بیشتر ما بعد جدید تنقیدی تھیوری کے حوالے سے اظہارِ لاتعلقی کر بیٹھتا ہے اور روایتی تنقید سے کسی بھی طرح گلو خلاصی حاصل کرنے پر رضا مند نظر نہیں آتا۔ اکیسویں صدی کا یہ اردو قاری ایک طرح سے ادبی منافقت میں جی رہا ہے کیوں کہ اُس تک وہ صحت مند، غیر جانبدار اور متوازن و متناسب تنقیدی تحریر پہنچ ہی نہیں پاتی ہے جو اس میں پختہ ادبی شعور اور فہم و فراست کی جوت جگاتی اور جو اُس کے جمالیاتی وژن کو وسعت بخشتی۔اُردو کی ادبی صحافت کا موجودہ منظر نامہ یہ ہے کہ اکثر رسالے ادبی اقدار کو فراموش کرتے ہوئے کچھ مخصوص افراد کی شہرت کا ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ معاصر قاری کی نظر سے جو بھی اس نوعیت کا رسالہ گزرتا ہے وہ اس کے سرِ ورق پر مزین رنگین اور پر کشش تصاویر سے ہی اس کے مشمولات کا اندازہ کررہا ہوتا ہے۔ رسائل میں یہ تصاویر ان شاعروں اور شاعرات کی ہوتی ہیں جو اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں اور بسترِ مرگ پر کروٹیں بدل بدل کر داعی ¿ اجل کے منتظر ہوتے ہیں لیکن چوں کہ ان کوسستی شہرت کی ناکتخدا آرزوﺅں نے ایامِ جوانی میں اسیر کیا ہوا ہوتا ہے اس لیے وہ اس منزل پر پہنچ کر پانچ سو لے کر پانچ ہزار روپے تک کی رقم صرف کرکے عنفوانِ شباب کی تصویریں اور عمر بھر لوگوں سے موصول ہوئے نیم ادبی اور غیر ادبی خطوط مدیرِ رسالہ کو ارسال کر کے اپنے لیے اس رسالہ باتمکین میں ایک گوشہ مختص کراتے ہیں بلکہ خرید لیتے ہیں۔ اور جب یہ رسالہ ہمارے قاری کے ہاتھوں تک کبھی اعزازی اور کبھی غیر اعزازی صورت میں پہنچ جاتا ہے تو اس کواندازہ ہوتا ہوگا کہ تنقید کسے کہتے ہیں جب وہ اس رسالے کے ہر صفحہ پر خود ساختہ ناقدین کی اس متشاعر (یا زیادہ سے زیادہ معمولی شاعر) کے حق میں سندیں اور ادبی فتوے دیکھ کر انھیں جزوِ ایمان بنا لیتا ہے۔ یہ ناقدین اپنی سندیں جس طمطراق کے ساتھ اجرا کرتے ہیں وہ میر کی یاد تازہ کرتے ہیں
سارے عالم پر ہوں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
آج کے اِس باذوق قاری کو یہ سمجھایا جارہا ہے کہ ادبی تنقید اسی تعلقاتی، تحسینی اور توصیفی تحریرکو کہا جاتا ہے جس میں متشاعر کو قادر الکلام اور اس کی بے ہنگم شاعری میں میر، غالب، اقبال، فیض اور فراق کے شاعرانہ امتیازات کی نشاندہی کی جاتی ہو، اسی طرح نثر کی حکیمانہ اور استدلالی خصوصیات سے بے بہرہ فکشن نگار کو اپنے زمانے کا پریم چند، منٹو، کرشن چندر، بیدی کہا جاتا ہو، وغیرہ وغیرہ۔
آئے اب بات کرتے ہیں ما بعد جدید تنقیدی نظریات اور اس باذوق قاری کے آپسی ناتمام اور نامکمل تعلق کی۔ اردو میں مابعد جدید تنقیدی نظریات کے ضمن میں اکثر غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ احباب نے آنکھیں بند کر کے ان نظریات کو مغربی نوآبادیات کا ایجنڈا قرار دیا۔ انھوں نے کبھی بھی اپنے دائرہ خیال میں ان نظریات کو پھٹکنے نہیں دیا بلکہ اپنے غیر ادبی اور نیم ادبی تاثراتی مضامین کے ذریعے اس ڈسکورس کو ہی مشرقی اقدار و افکار کے منافی قرار دیا۔ اس قبیل میں کس کس کا نام لوں۔ اب بہر حال جو بھی ہیں انھیں ان نظریات سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ دوسرے یہ کہ مابعد جدیدیت اور تھیوی کو اردو میں چند افراد کی ذات تک محدود کرکے رکھ دیا گیا بلکہ ان کو ایک دوسرے کے نعم البدل کے طور پر بھی دیکھا گیا۔ اب اس کا نقصان ہماری ادبی تنقید کو یہ ہوا کہ اگر گوپی چند نارنگ، وزیر آغا، حامدی کاشمیری، وہاب اشرفی، عتیق اللہ،ناصر عباس نیّر، قاضی افضال حسین، قدوس جاوید، قاسم یعقوب سے کسی کو ذاتی طور پر کوئی مخاصمت رہی تو وہ غیر علمی اور غیر ادبی انداز میں ان کے ادبی نظریات و افکار پر اوچھے تیر آزماتا ہے۔ پھر کیا ہونا ہوتا ہے کہ کسی رسالہ کے گوشے اس ناقد کی ادبی شخصیت کو مسخ کرنے پر تیر و تفنگ کی طرح استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں جرمنی سے شائع ہورہے حیدر قریشی کے شش ماہی جریدے جدید ادب ڈاٹ کام کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ اردو می ©ں ایک مخصوص گروہ نے عمران شہد بھنڈر کے ذریعے اس شش ماہی رسالہ میں گوپی چند نارنگ کے خلاف جون ۶۰۰۲ءمیں محاذ کھولا۔ نارنگ کے خلاف متعدد شماروں میں بھنڈر نے متواتر کئی مضامین لکھے جن کے عقب میں ادبی نہیں بلکہ شخصی عناد پرستی کے عزائم نہاں اور عیاں تھے۔ انھوں نے نارنگ پر یہ الزام لگایا تھا کہ ”ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات“ مطبوعہ ۳۹۹۱ءکیتھرین بیلسی کی کتاب کا سرقہ ہے جب کہ نارنگ نے اس کتاب کے دیباچے میں ہی اس بات کی وضاحت کی تھی کہ ”افکار و خیالات تو فلسفیوں اور نظریہ سازوں کے ہیں، تفہیم و ترسیل البتہ میری ہے اور جہاں کوئی کوتاہی یا کمی ہے اس کے لیے کوئی دوسرا نہیں، میں خود ذمہ دار ہوں“۱۔ بہر حال نارنگ نے جس طرح بھی اپنی صوابدید کے مطابق مناسب سمجھا، اہلیانِ اردو کونئے آب و رنگ سے آشنا کرانے میں کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ان کے پیش کردہ تنقیدی رویوں سے ہم اور آپ لاکھ اختلاف کرسکتے ہیں لیکن ہم سب کو اور عمران شاہد بھنڈر، فضیل جعفری، چودھری محمد نعیم اور ان کے دیگر ہم خیالوں کو بھی یہ ماننے میں تامل نہیں کہ نئے تنقیدی محاورہ کو جہانِ اردو میں متعارف کرانے والوں میں گوپی چند نارنگ کا نام ہراول دستے میں شمار کیا جاتا ہے۔ میرے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مابعد جدید تھیوری کی تفہیم کے ضمن میں جس معاندانہ اورحریفانہ ماحول کو تیار کیا گیا اس سے اردو تنقید سے یہ باذوق قاری نہ صرف متنفر ہوا بلکہ اس چشمک اور ان رقابتی رشتوں کو ناقدین کے ذاتی معاملات سمجھ کر وہ نئے تنقیدی نظریات سے کوسوں دور اپنی ذہنی بستی بسانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کا باذوق قاری ما بعد جدید تنقیدی نظریات کا شراکت دار نہیں بلکہ تماشا بین ہے۔
مابعد جدید تنقید اور باذوق قاری کے تعلق کا جائزہ ایک اور سطح پر بھی لیا جاسکتا ہے۔ یہ تھیوری اپنی اصل میں مغربی افکار و نظریات پر مبنی ہے۔ لیکن آج اس کے مشرقی تصورات پر قائم ہونے کی بھی کئی دلیلیں پیش کی جارہی ہیں۔ بہر حال بعض احباب نے نئے تنقیدی نظریات کو اردو میں متعارف کرانے کی دوڑ میں انگریزی اور فرانسیسی اصطلاحات کو اردو میں من و عن پیش کیا جس نے اس باذوق قاری کو غیرضروری حد تک پیچیدگی سے دوچار کیا۔ آج مابعد جدید تنقیدی نظریات کے حوالے جو مقالے اور مضامین تحریر کیے جاتے ہیں ان میں کچھ مقالے ایسے ہوتے ہیں جن میں انگریزی اور فرانسیسی اصطلاحات کی اس قدر بہتات ہوتی ہے کہ کبھی کبھار قاری یا سامع یہ اندازہ نہیں کر پارہا ہے کہ یہ انگریزی مقالہ اردو رسم الخط میں پڑھا جارہا ہے یا اُردو مقالہ انگریزی زبان میں۔ ان مقالہ نگار حضرات کی تنقیدی فتوحات اور تبحر علمی پر کم سے کم مجھے کوئی شک نہیں لیکن ایک باذوق قاری کی حیثیت سے ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر آپ دوسری زبانوں کی اصطلاحات اور الفاظ کو اردویانے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا ان کو اُردو کے قالب میں ڈھال کر اس (اُردو)کی تنقیدی روایت کے تسلسل کے طور پر برت نہیں سکتے تو خوامخواہ افلاطوں کا رشتہ دار بننے کی کیا ضرورت ہے؟ اس رویّے سے ہماری تنقیدی تھیوری اور باذوق قاری کے بیچ موجود خلیج مزید گہری ہوجائے گی اور نتیجتاً تنقید کچھ افراد تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔
مذکورہ بالا نکات میں تنقیدی تھیوری کے ضمن میں اُردو کے روایتی قلم کاروںنے جو ہواکھڑا کی ہے اُس سے معاصر با ذوق قاری کا اس تنقیدی Canon سے رشتہ ضرور کمزور ہوا ہے لیکن یہاں پر میں نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ اِس باذوق قاری کی خدمت میں دو ایک باتیں پیش کرنا چاہوں گاکیوں کہ وہ(قاری) تنقید کو ضرورت سے زیادہ پیچیدہ اور خشک سمجھتا ہے۔
جس طرح سماجی، سیاسی، معاشی، عمرانیاتی، ارضیاتی، قانونی، طبی اور دوسرے علوم کی اپنی منطق اور اپنا دائرہ کار ہوتے ہےں اسی طرح سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ان کی اپنی مخصوص اصطلاحات ہوتی ہیں جن کے ذریعے سے کوئی بھی سادہ سے سادہ اور دقیق سے دقیق تصور پیش کیا جاتا ہے۔ اصطلاحات اُس مخصوص علم کو سمجھنے کی کلید ہوتی ہیں۔ جس طرح ہم ادب کی کلاس میں غزل، افسانہ، قصیدہ اور مرثیہ ا ن کی اپنی اپنی اصطلاحات کے ذریعے پڑھاتے ہیں، اسی طرح تنقید کی بھی اپنی اصطلاحات ہوتی ہیں جو سمجھنے اور سمجھانے میں ہماری معاونت کرتے ہیں۔ گویا دوسرے سماجیاتی علوم کی طرح تنقید بھی ایک باضابطہ علم ہے، ایک Academic Discipline کے طور پر یہ اپنی شناخت قائم کرچکا ہے اس لیے اس کی تفہیم بھی اس کی ہی اصطلاحات کے توسط سے ہوجائے گی۔ یہاں پر باذوق قاری کو اپنی مطالعاتی حکمت علمی میں لچک اور اپنے ادبی ذوق و ظرف میں تنوع اور رنگارنگی پیدا کرنا ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ تنقید میں جذبات و احساسات، تصورات و مفروضات اور آرزوﺅں اور امنگوں کے خاکے موجود نہیں ہوتے ہیں جن میں یہ باذوق قاری اپنے فکر خیال کے رنگ بھرتا بلکہ اس کے برعکس اس میں عقلیت و استدلال،معروضیت جیسے عناصر ہوتے ہیں جو قاری کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کی تب و تاب رکھتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر تخلیقی ادب میں جذبہ و احساس کی فراوانی ہوتی ہے جو مزاج کو شگفتہ بناتی ہے اور یوں قاری کو جمالیاتی طرفگی بخشتی ہے لیکن تنقیدی ادب میں عقل و دانش کی حسنِ کرشمہ سازی ہوتی ہے جو ادب فہمی کے سنگِ گراں کو آسان بنانے کی ہر لحظہ کوشش کرتی ہے اور اس باذوق قاری سے مصطفی زیدی کے الفاظ میں کہتا ہے کہ
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آﺅو
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس باذوق قاری کو بھی تنقید پڑھتے وقت جذبہ و احساس کی وادی سے نکل کراستدلال و ادراک کے میدان میں قدم رنجہ ہونا چاہئے۔ تبھی وہ معاصر تنقیدموسوم بہ ما بعد جدید تنقید اور اس کی اصطلاحات سے صحت مند انداز میں مصافحہ اور مکالمہ کرنے کے اہل ہوسکتا ہے۔ واضح رہے اس ما بعد جدید تنقیدی نظریات کو جزوِ ایمان بھی نہیں بنانا چاہئے بلکہ عقل و دانش اور اپنے ادبی شعور کی میزان پر پرکھ کر ان کو رد بھی کرسکتا ہے کیوں کہ یہ کسی کے ایمان کا جزوِ لائنفک نہیں ہے جس سے انکار کفر ہو۔
آج جب ہم مابعد جدید دور میں قاری کی بات کرتے ہیں تواِس (مابعد جدید تنقیدی نظریات کے) ضمن میں”قاری اساس تنقید “ کا ذکر کرنالازمی بن جاتاہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ ”قاری اساس تنقید “ کا مرکز و محور قاری ہے ۔اگرچہ یہاں پر قاری کو مرکزی اہمیت تفویض کرنے سے متن اور مصنف پسِ پشت چلے جاتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ قاری کی اپنی شناخت بحیثیتِ قاری ، متن اور مصنف کی ہی منت پذیر ہے ۔ قاری اساس تنقید کے بنیادی مقدمات اس طرح ہیں :
۱۔ قاری کی کتنی اقسام ہیں ؟
۲۔ کیا قراؑت کا تفاعل ہر ایک قاری انجام دے سکتا ہے ؟
۳۔ قاری اور متن کے درمیان معانقہ کی کیا کیا نوعیتیں ہو سکتی ہیں ؟
۴۔ کیا قاری ہر تحریرکو بطورِ متن قبول کرنے پر رضامند ہے ؟
۵۔ کیا قاری ادب کی شعریات کی تشکیل پذیری میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے ؟
۶۔متن سے کثرتِ معنی
(Plurality of Meaning) کے اخراج کے امکانات کیسے روشن ہوسکتے ہیں ؟
۷۔قاری کو مرکزی اہمیت تفویض کرنے سے مصنف کی جو شخصیت نظر انداز ہوئی ، اُس مسئلے پر کلامیہ کیسے قائم کیا جاسکتا ہے ؟
۸۔متن ، قاری سے قرا ¿ت کے دوران کیا کیا تقاضا کرتا ہے ؟
یہ اور اس طرح کے کئی سوالات ہیں جو ’قاری اساس تنقید ‘ کے ضمن میں قائم کیے جارہے ہیں ۔ اِن سارے سوالات کو راقم نے اپنی کتاب ”اُردو میں مابعد جدید تنقید : اطلاقی دشواریاں، مسائل و ممکنات “۲میں بالتفصیل درج کیا ہے اس لیے خوفِ طوالت کے سبب ان سے یہاں پر صرفِ نظر کیا جا رہا ہے لیکن اتنا عرض کردینا لازمی سمجھتا ہوں کہ متن کی تشریح ،توضیح اور تعبیرصرف قاری کی صوابدید پر ہی منحصر ہے بلکہ:
’ ’قاری اساس تنقید کا مرکزی استدلال یہ عمومی احساس ہے کہ کوئی ادب پارہ حقیقتاً اُس وقت تک وجود نہیں رکھتا جب تک وہ پڑھا نہ جائے ۔ قراؑت ادب پارے کے ”تنِ مردہ “ کو بہ طرزِ مسیحا زندہ کرتی ہے
“۳
واضح رہے کہ انگریزی میں قاری اساس تنقید کے ضمن میں کئی ناقدین اور دانشوروں نے خیال آرائی کی ہے جنہوں نے اس نظریے کو منضبط اور مبسوط انداز میں منصہ شہود پر لایا۔مجموعی طور پر اس کو دو ذیلی رویّوں کے بطور سمجھا جا سکتا ہے :
۱۔مظہریت
۲۔ تعبیریت
مظہریت: مظہریت کا بنیادی تعلق اشیا ءاور مظاہرِ کائنات سے ہے۔مظاہر سے باہر کسی شے کا وجود نہیں اورجو کچھ بھی ہے مظاہر پر مبنی ہے۔ اس اعتبار سے اِس کا تعلق سائنسی معروضیت اور استدلال سے جوڑا جاسکتا ہے۔”مظہریت مظاہرکے مطالعے سے دراصل ذہن کو اس کی بذاتہ شکل میں سمجھنے کی کوشش کرتی ہے “۴ اور اسی وجہ سے یہ ذہن کے معروضی اور استدلالی جائزے سے ربط قائم کرتی ہے یوں اس طرح اس کا دائرئہ کار انسانی ذہن ہے ۔ قاری اساس تنقید میں مظہریت کی اصطلاح اس اعتبار سے قابلِ توجہ ہے۔
تعبیریت: تعبیر یت کی اصطلاح متون کی تشریح و تعبیر کے تفاعل سے برراہِ راست سروکار رکھتی ہے ۔ مزید برآں یہ تشریح و تعبیر کے اصول و ضوابط متعین کرنے اور اِن کو نظریانے (Theorization) کی کوششوں سے عبارت ہے ۔جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ تعبیر کو ابتدا میں مذہبی یا مقدس متون کی تعبیر تک ہی محدود رکھا گیا تھا بعد میں جب ادب شناسی کے تحت کئی ایک تنقیدی نظریات منصہ شہود پر آئے تو اِس(تعبیریت) میں ثقافتی متون کو بھی شامل کیا جانے لگا ۔ یوں تعبیر یت سے ادب فہمی کے کئی نقطے روشن ہوگئے جنہوں نے متون کی ازسرِ نو قرا ¿ت پر اصرار کیا جس سے قاری کی اہمیت و معنویت کو جیسے پَر لگ گئے۔رولاں بارتھ کے ”مصنف کی موت“(Death of the Author) جیسے خیالات کو تعبیریت ہی کے ضمن میں تقویت مل گئی اور یوں مصنف کے بجائے قاری کو مرکزیت تفویض ہوئی۔
مظہریت اور تعبیریت کے ضمن میں ایڈمند ہسرل ، کانٹ، ہیگل،فریڈرک شلائر ماخر ،ولہم ڈلتھے جیسے دانشوروں کی شعوری کاوشوں کو برراہِ راست عمل دخل ہے ۔جنہوں نے قاری اساس تنقید کو مختلف فلسفیانہ جہتوں سے ہمکنار کیا۔
اس بات کا ذکر لازمی ہے کہ اُردو میں ”قاری اساس تنقید “کو گوپی چند نارنگ اور ناصر عباس نیّر نے نہایت علمی وقار اور استدلالی انداز کے ساتھ اپنی اپنی تصانیف ”ساختیات ، پس ساختیات اور مشرقی شعریات “ اور ”جدید اور مابعد جدید تنقید : مغربی اور اُردو تناظر میں “ میں پیش کیا جس سے اُردو تنقید میں اس نئے تنقیدی نظریے کو نظریاتی طور پر ہی سہی متعارف کیا گیا۔ نارنگ نے میر تقی میر، مرزا غالب،الطاف حسین حالی، علامہ اقبال اور صادقین کے کلام کی مثالیں دے کر قاری اساس تنقید کے اطلاقی امکانات کی جانب بلیغ اشارے کیے ہیں۔ اقبال کے شعر
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
کے معنوی امکانات کو روشن کرتے ہوئے گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں :
”آدمِ خاکی اور مہ و انجم کی کس نسبت کی طرف اشارہ ہے؟ انسان کو ٹوٹا ہوا تارا کس لیے کہا ہے ؟ خدا نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کریں ، پھر ایک دن آدم کو باغِ بہشت سے نکل جانے کا حکم دیا ۔ ٹوٹے ہوئے تارے کے مہ کامل بننے اور عروجِ آدمِ خاکی سے انجم کے سہمے جانے کی توجیہات مذہبی روایات کی رُ و سے اور نظریہ ¿ خودی کی رُو سے پہلی قراؑتوں کے لیے آسان تھیں۔ بعد میں یہ نوعیت بدل گئی ۔ یعنی مذہبی توجیحات کے علاوہ سائنسی توجیحات بھی برحق ہوگئیں ۔ تسخیرِ خلا کے بعد سائنسی حقائق کا منظر نامہ اتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ عہدِ حاضر کی ہر قراءت ٹوٹے ہوئے تارے کے مہِ کامل بننے کے بارے میں نئے سوال اٹھاتی ہے ،اوریوں ایک نسبتاً بند متن مستقبل کے قارئین کے لیے کھلا متن ہوگیا ہے ۔ چانچہ آئندہ کے لیے کوئی حکم نہیں لگا سکتا کہ اس شعر کی مستقبل کی قرائتیں کن نئے سوالات کو پیدا کریں گی ، اور ان کا کیا جواب دیں گی ، اگرچہ متن وہی کا وہی ہوگا۔“
۵
گو یا ازسرِ قراءت کے تفاعل سے معنی و مفاہیم کے وہ اَن گِنت جہان قائم ہوتے ہیں جو متون کی پرتوں میں ملفوف ہوتے ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ اس بات کی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں کہ متن کو نئے نئے حالات و واقعات کے ساتھ تناظرانے سے جو معنوی اُفق ہویدا ہوجاتے ہیں وہ ”ہر جا کو جہانِ دیگر“ کے بطور تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
گنجینہء معنی کا طلسم اُس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
مذکورہ بالا مباحث کی روشنی میں یہ بات آئینہ ہوجاتی ہے کہ معاصر قاری کو متن کی تفہیم اور اس کی تعبیر میں جو آزادی مابعد جدید تنقید کے تحت ”قاری اساس تنقید “ نے فراہم کی ہے وہ اگر اُس آزادی اور قاری مرکوز رویّے کو دورِ حاضر میں لکھی جارہی تنقیدی تحریروں کی قرا ¿ت میں استعمال کرے تویقیناادب اور قاری کے درمیان صحت مند مکالمہ کو راہ مل سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حوالہ جات و حواشی:
۱۔ گوپی چند نارنگ: ”ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات“ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی۴۰۰۲، ص: ۴
۲۔ یہ کتاب نئی دہلی سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نے سن ۱۴۰۲ءمیں شائع ہے اور اشاعتِ ثانی لاہور پاکستان سے عکس پبلی کیشنز کے ذریعے ۱۸۰۲ءمیں عمل میں آئی ہے۔ یہ کتاب لاہور کے ہی ایک ناشرنے راقم کی اجازت کے بغیر لگ بھگ ۱۷۰۲ءمیں زیورِ طباعت سے آراست کی ہے اور جب اُن سے پوچھا کہ انہو ں نے بلا اجازت اس جرم کا ارتکاب کیسے کیا تو معصومانہ جواب یہی ملا کہ ’طلبہ کی سہولیت کو مدِ نظر رکھ کر اس کو شائع کیا گیا ہے ‘۔
۳۔ ناصر عباس نیّر، جدید اور مابعد جدید تنقید: مغربی اور اُردو تناظر میں ، انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی ، پاکستان ، ۴۰۰۲ئ، ص: ۱۶۱
۴۔ ایضاً، ص: ۲۶۱
۵۔ گوپی چند نارنگ، ”ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات“ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی ۴۰۰۲ئ، ص: ۲۸۲
٭٭٭٭٭٭٭٭
رابطہ:
ڈاکٹر الطاف انجم
اسسٹنٹ پروفیسر اُردو
نظامتِ فاصلاتی تعلیم
جامعہ کشمیر، سرینگر، بھارت
پن: 190006
واٹس اپ +91 7006425827
ای میل : altafurdu@gmail.com