ماضی
ماضی
May 24, 2019
ماضی
نادیہ عنبر لودھی
__________________
میں پرانے رستوں پہ پلٹ کے نہیں جایا کرتی
جانے پہچانے راستوں پہ جانے سے
پرانے زخم کُھل سے جاتے ہیں
روح میں چھپے درد چھڑ جاتے ہیں
سو میں پلٹ کے نہیں جاتی
دھر ی ہوتی ہیں اداسیاں
رکھی ہوتی ہیں آہٹیں جابجا
خشک پتوں پہ
کہیں قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے
کہیں رات کی رانی اداس دکھائی دیتی ہے
کوئی محبت کا ساز بجاتا نظر آتا ہے
کسی کی آنکھوں میں وارفتگی کا لمحہ جگمگاتا ہے
نازک کلیاں چنتی اک لڑ کی دکھائی دیتی ہے
جس کی آنکھیں جگنوؤں سی چمکتی ہیں
خوش گمانی کے پھول جس کے چار سو کھلے ہیں
جس کے عارض حیا کی لالی سے سرخ ہوۓ ہیں
اس رستے پہ تھوڑا سا آگے جاکے منظر بدل سا جاتا ہے
نارسائی کا ناگ ڈس لیتا ہے
کوئی وعدے کی زنجیر سے باندھ کے جاتا ہے
تو پلٹتا نہیں
ان پھولوں کو
اس لڑکی کو
خواب بُنتی ان آنکھوں کے
کوئی انتظار سونپ جاتا ہے
جانے پہچانے رستوں پہ
بار بار جانے سے
اداسی ہی ملتی ہے
بیتے ماضی سے لپٹی
ویرانی ہی سسکتی ہے
میں جانے پہچانے رستوں پہ پلٹ کے نہیں جایا کرتی
_________
ماضی
نادیہ عنبر لودھی
__________________
میں پرانے رستوں پہ پلٹ کے نہیں جایا کرتی
جانے پہچانے راستوں پہ جانے سے
پرانے زخم کُھل سے جاتے ہیں
روح میں چھپے درد چھڑ جاتے ہیں
سو میں پلٹ کے نہیں جاتی
دھر ی ہوتی ہیں اداسیاں
رکھی ہوتی ہیں آہٹیں جابجا
خشک پتوں پہ
کہیں قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے
کہیں رات کی رانی اداس دکھائی دیتی ہے
کوئی محبت کا ساز بجاتا نظر آتا ہے
کسی کی آنکھوں میں وارفتگی کا لمحہ جگمگاتا ہے
نازک کلیاں چنتی اک لڑ کی دکھائی دیتی ہے
جس کی آنکھیں جگنوؤں سی چمکتی ہیں
خوش گمانی کے پھول جس کے چار سو کھلے ہیں
جس کے عارض حیا کی لالی سے سرخ ہوۓ ہیں
اس رستے پہ تھوڑا سا آگے جاکے منظر بدل سا جاتا ہے
نارسائی کا ناگ ڈس لیتا ہے
کوئی وعدے کی زنجیر سے باندھ کے جاتا ہے
تو پلٹتا نہیں
ان پھولوں کو
اس لڑکی کو
خواب بُنتی ان آنکھوں کے
کوئی انتظار سونپ جاتا ہے
جانے پہچانے رستوں پہ
بار بار جانے سے
اداسی ہی ملتی ہے
بیتے ماضی سے لپٹی
ویرانی ہی سسکتی ہے
میں جانے پہچانے رستوں پہ پلٹ کے نہیں جایا کرتی
_________