میّا۔۔ بوڑھے ملاح کا آفاقی حزنیہ

میّا۔۔ بوڑھے ملاح کا آفاقی حزنیہ

Mar 20, 2018

حامد سراج کی کتاب "میؑا پر تبصرہ

مصنف

مظہر حسین

شمارہ

شمارہ -٧

دیدبان۔شمارہ۔۷

میّا۔۔ بوڑھے ملاح کا آفاقی حزنیہ

مظہرحسین

ماں ،باپ ،اور اولاد ایک ایسی مقدس تثلیث ارضی ہے جس کا ہرکونا، زاویہ اور حد اپنی جگہ مسلمہ اور عدیم المثال حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کے وضع کردہ تمام اصول و ضوابط اور ناپ تول کے جملہ پیمانے اس ازلی و ابدی رشتے کی پنہائیوں اور گہرائیوں کے سلسلے میں عاجز ہیں۔ خدائے عزوجل کی ازلیت و عبدیت اور خالق کے دائمی تعلق کے بعد اسی تثلیثی رشتے کو آفاقی پذیرائی حاصل ہے۔ اس رشتے کو رب کریم نے یوں قدرومنزلت سے ہمکنار کیا کہ اپنے محبوب موسیٰ علیہ السلام کو تنبیہ کی کہ ماں کے سائیہ عاطفت سے نکل کررحمت کلیمی کو ذرا سنبھل کر استعمال کرنا! بالخصوص ماں اور بیٹے کا یہ رشتہ وہ آفتاب نصف النہار ہے جسے کوئی زوال نہیں۔ جوہر”عرجے زاوال“ کی آفاقی سچائی سے بھی بے نیاز ہے۔ ماں، جس کی تعریف و توصیف کے گن بعد از ذکر خدا و رسول ، اس مادرگیتی پرسداگائے جاتے رہیں گے اُردوادب کاایک مقبول موضوع ہے وہ کون سی ایسی صنف سخن ہے جس نے خاک پائے مادر کے بو سے نہ لیے ہوں۔ جب تک دنیا قائم ہے عورت ذات کا بھرم ماں کے حوالے سے اعتبار آشنا رہے گا۔ ماں کی قدرومنزلت میں ہر شاعر ،ادیب اور مصنف نے مقدور بھراضافہ کیاہے۔ متنبی توشاید ماں کی موت پر اتنا افسردہ ہوگیا تھا کہ یکا سکتہ توڑ کر چلااُٹھا تھا

ماکنت احسب قبل دفنک فی الثریٰ

ان الکواکب فی التراب تغور

منظوم ترجمہ:

میں گمان بھی نہ کرتا تھا تہہ خان تیرے د فن سے پہلے

کہ ستارے بھی کبھی زیرزمیں ڈوب جاتے ہیں

یہی کرب آور کسک جب تیشئہ خیال بن کر میانوالی٭٭ کے حامد سراج کے دل نزاکت آگیں کو چیرتی ہوئی گزری تو ”میّا“ کی وجہ تخلیق ہوئی۔ اگرمیں تناسخ کا قائل ہوتا تو یقینا یہی گمان کرتا کہ ہر مرحوم ومغفور ماں کا اگلا جنم ”میّا“ کی ادبی صورت میں ہواہے۔ اگرمیں گمان کرتاہوں اور میرا گمان یقیناصحیح ہے تو پھرمجھے یہ بھی کہنا چاہے کہ روح کی پاکیزگی کے نظریہ کا پرچار کرنے والے جینبی ، اغلباً ماں کی روح پاکیزہ کو ہی اپنے مذہبی عقیدہ کی مناط مانتے ہوں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرے گماں کا سلسلہ دراز تر، ہرآفاقی سچائی سے تال میل نہ ڈھونڈنکالے۔

”میا“ کو اگرفکری و فنی میزان پر پرکھاجائے تو یہ کثیرالجہات ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر محبت ، فلسفہ ، فلسفہ محبت اور تصوف کا ایک معنی خیزجہان آباد کیے ہوئے ہے اور جس کا ہر پلو دوسرے سے فزوں تر ہے۔ اسے آپ خاکہ، ناولٹ ، افسانہ ، داستان ، آپ بیتی ، بپتا محبوبیہ، مونتاژ ، پری لوڈ، پاپری، غرضیکہ کچھ بھی کہ لیں آپ کہ فہم کو خوش آمدید کہے گی۔ اس طرح موضوع ، ہیئت ، نوعیت فن اور بیان ہر لحاظ سے ”میا“ کا دامن وسیع ترہے۔ یہ ایک فرزا نے کی ایسی ترنگ ہے جس پر دیوانگی کاساگمان گزرتا ہے یا ڈیلفی کے اوریکل سے آتی ہوئی ایک ایسی پراسرار صدا اپنے سننے والوں کو جانب یوں مبہوتانہ طور متوجہ کرتی ہے کہ اس کے سنتے ہی یا ر لوگ دیوانہ وار اس صدا کی سمت دوڑ پڑیں اور جنہیں روکنے والوں سے بھی اک عجب داستان ہوش ربا وابستہ ہے۔

”میا“ کا ڈکشن ایک متلا طم سمندر کی ماند ہے جس میں میا، ایک مینارہ نور (Light House) کی طرح، دیگرکرداروں کے اسٹیمرز اور کشتیوں کے لیے ایک راہنما کی طرح ایستا دہ ہے۔ میا قدیم زمانوں کا اک بہاﺅ ہے۔ جو قدیم گاروں سے نکلنے والے چشموں کے سنگ بہتی ہوئی اکیسویں صد ی میں داخل ہوئی ہے۔ جو بقول ناصر عباس نیر میل اشک بھی ہے اور سیل خون بھی جو باہر کی طرف رخ کرتا ہے تو پوری کائنات اس میں ڈوبتی محسوس ہوتی ہے اور جب اندر کی جانب بڑھتا ہے تونبض ہستی ڈوبنے لگتی ہے۔ یہ دائمی دکھ جو ایک شاعرانہ اپج لیے ہوئے ہے میا کا طرہ امتیاز ہے اگرنیرکی اس بات کو زیرنظررکھا جائے کہ میا میں مستعمل اسلوب شاعری ہے ۔ تو اغلب گمان یہی ہے کہ حامد سراج کے پیش نظرایس ٹی کالرج کی "The Rhyme of the Ancient Mariner"رہی ہوگی۔ تاہم حامد سراج نے دیگر تکنیکوں کے دم بہ قدم غالب آلہ اظہار کے طور پریادآوری (Association of Ideas) کی تکنیک استعمال کی ہے۔

عید کی صبح میں نے ہلکے سبز رنگ کا سوٹ پہنا ہواتھا۔

ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم صحن میں کھڑی تھیں ۔اچانک مغربی کمرے میں گئیں۔۔ٹرنک کھولا ۔اس میں سے سبز میچنگ سویٹر نکالا اور مجھے پہنادیا۔

اور پھراسی شام۔۔ہاں ماں ۔۔۔اسی شام تم نے گہرے سبزرنگ کی جرسی پہنادی اور کہا۔۔۔یہ میرے بیٹے کو کتنی جچ رہی ہے۔ (میا۔ص ۴۳)

یاد ہے ماں۔۔چھپر میں پرندوں نے گھونسلے بنارکھے تھے۔ ساری دوپہر چڑیاں اپنے بچوں کے لیے دانہ دنکا چن لاتی تھیں۔ چھپر کے ساتھ متصل شرینہہ کا درکت تھا۔ اس کے تنے میں کالی بھڑوں کابسیرا تھا۔ ان کی بھنبھناہٹ ،ان کے ڈنک سے بھی زہریلی محسوس ہوتی تھی۔ دادی اماں آگ جلانے کے لیے چھپر کے نیچے خشک لکڑیوں کا ذخیرہ محفوظ رکھتی بارش کے دنوں میں ان کو اس بات کی بہت فکر رہتی تھی۔ (ص ۷۸)

کتاب کا خطابیہ انداز نے جہاں ڈکشن کا چار چاند لگادیے ہیں وہاں میاکے کردار کوزندہ جاوید بھی کردیاہے۔ بالخصوص ”تم“ کا صیغہ بے تکلفی اور احترام کے ملے جلے جذبات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔

بیٹا ایک بار مجھے ہسپتال سے گھرضرور لے جانا۔۔۔مجھے سب سے ملنا ہے۔ بزرگوں کے مزارات پرحاضری دینی ہے۔۔ تم نے وضو کیا اور مزارات کے چل دیں ۔ تم نے نفوس قدسیہ کے وسیلے سے اپنے رب کے حضور صحت کے لیے سندیسہ بھیجا ۔ تم پلٹ کر گھرآئیں توتمہارے چہرے پر اتمینان تھا۔ درواے کے باہر کھڑی تھی۔ صحن میں لگے فالسے کے درخت کے پاس تم گزریں۔میں نے تمہارا چہرہ دیکھا، ماں! میری آنکھوں میں تمہاری آنکھیں آج بھی زندہ ہیں۔ (ص ۲۳)

میا کے لینڈاسکیپ پراداسی اوردنیا سے بے رغبتی پس منظر کے پھیلے رنگوں کی طرح چھائی ہوئی ہے۔ جس میں بے بسی کے ٹچ نے اسے ایک لافانی حزنیے میں تبدیل کردیا ہے۔ یہ بیان کاکلائمکس بھی ہے اور اینٹی کلائمکس بھی:

”ہم زمین کے باسیوں کے دکھ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ شکوے کی اجازت بھی چھین لی جاتی ہے ۔آنکھ کے آسمان سے اترنے والی بارش سے گرمی کی شدت تو کم نہیں ہوتی۔۔نا۔۔ماں۔۔کی آنکھ کے دریچوں میں صرف دو بار آنسوﺅں کے پرندے اترے ۔ ایک دن دوپہر کے وقت اس کی آنکھک سے آنسو گرے اور اس نے چپ سادھ لی اور دوسری بار اس صبح جب خالہ امی کویت کے لیے روانہ ہوئیں۔

ماں چارپائی پربیٹھی تھی۔۔۔

دو آنسو۔۔اورچپ۔۔!(ص ۴۹)

موت جوکہ اس جہان رنگ وبو کی تال پرتھرکتی ایک اٹل حقیقت کانام ہے میا میں ایک تلخ مگر مرکز مائل قوت کے ظہور پر موجود ہے جس سے گریز کسی طور ممکن نہیں اور یہی قوت دنیا سے بے رغبتی کے پس منظر کو گہرا رنگ عطا کرتی ہے:

” ماں۔۔۔یہ لوٹ جانے کا عمل نہ ہوتا تو شاید قلوب گداز نہ ہوتے ۔ جدائی جہاں دل میں ویراں کا شت کرتی ہے وہیں سوزوگداز کے پھول کھلاتی ہے۔ ماں۔۔جب سے جدا ہونے والے ایک تسلسل سے زمین سے رختِ سفرباندھ لیتے ہیں توتشکیک کوموت آجاتی ہے اور سفرآخرت کایقین دل میں مقیم ہوجاتا ہے۔ پھر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا کوئی قول و فعل کسی کے نام دکھ نہ لکھے۔“(ص۲۶)

”ہم زمین کے باسیوں کو اپنی مہمانی کی مدت معلوم ہی کہاں ہوتی ہے کوئی ایک لمحہ بھی ہمارا اپنا نہیں ہوتا۔ کسی ایک لمحے پر بھی ہماری دسترس مضبوط نہیں ہوتی۔ ہرآنے والے اوجھل لمہے پر بے کار امید لگائے پوری عمرگزرجاتی ہے۔ وہ بے خبرلمحہ ہمارا ہوتا ہی کب ہے؟ اس کی باگ دوڑ کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

اس کے ہاتھ میں جس کا یک لفظ پوری کائنات کومحیط ہے۔

ایک لفظ اور پوری کائنات ۔۔۔! “ ص ۰۷)

” جانے والوں کو یہ معلوم کیوں نہیں ہوتا کہ ان کے جانے کے بعدآنگن میں قیامت کیسے اترتی ہے ۔ ان کی ساری عمر کی محبتیں جمع ہوتی ہیں اور ان کو خبر نہیں دی جاسکتی کہ ان کے ملنے کو کتنے لوگ کہاں کہاں سے سفر کی صعوبتیں جھیل کرپہنچے ہیں اور ان کی آنکھوں نے کتنے چراغ روشن کیے ہیں۔“ (ص ۸۹)

بے روح عمارتوں کے درمیان گھومتے ہوئے خیال آتاہے ۔ زمین ہمارا ٹھکانہ نہیں پھربھی ہم حق ملکیت جتاتے جتاتے عمر رواں کے سارے اوراق بے ترتیب کرلیتے ہیں۔ (ص ۲۰۱)

باالفاظ دیگرمیا وہ زہرہ دیوی (Venus) ہے جس کے گرد منڈلاتے کرداروں کے چاند اورشہاہیے، سراج کے تخلیق کردہ ہیں۔ ان شہابیوں کاآپسی ٹکراﺅ حزنیے کے اوج ثریاپربل بھر کے لیے روشنی کااثر آفریں ہجوم اکردیتا ہے لیکن حامد کی مہارت دیکھیے کہ اس نے اپنی ذات کی صورت میں پس پردہ ایک ایسی برقنا طیسی قوت (Ether )تخلیق کردی ہے۔ جس کا ملوکتی ،و طلسماتی اثر کسی بھی کردار چے کو متعین مدار سے بھٹکنے نہیں دیتا۔ یہ ایک ایسا ڈائم (Paradigm)ہے جس کو کسی بھی پہلو سے دیکھاجائے تو مکمل، مضبوط، مربوط اور متوازن دکھائی دیتا ہے اور جس اسے جس بھی نام سے پکارا جائے اس پر جچتا ہے۔ خطابیہ، رزمیہ، تاثریہ، جذباتیہ، آفاقیہ، حزنیہ، جذبیہ، کربیہ، ناسٹلجیا، قلندریہ، رمزیہ ، مجذوبیہ ، فلسفیہ۔

اسی پیرا ڈائم کی دم بہ قدم حامد سراج نے افسانوی تسلسل یا افسانہ مسلسل کا تجزیہ کیاہے اور ایک ایسا ڈائم بھی جو عشق مجازی اور عشق حقیقی کے درمیان متعلق ہے۔ اس ناکام عاشق صادق کی بپتاجس نے شاید دل کی طور پر کوئی تجلی دیکھ لی ہو۔ میا میں حامد سراج ہمیں ایج مجذوب یا صوفی کے طور پر بھی جلوہ گر دکھائی دیتا ہے۔ جس ایک فلسفیانہ ردا اوڑھ رکھی ہو کیونکہ ان کا تعلق خانقاہ سراجیہ سے بھی ہے جہاں سے علم ، روحانیت ، فلسفہ اور فلسفوں کے سوتے پھوٹتے ہیں:

”۔۔میں اس بات کا اظہار کسیے کروں۔ اندر کی اس دکھ کو زبان کیسے دوں۔۔؟ کہ جب انسان کے اندر کسی کی موت کا بیج اگنے لگے تو کیا کیفیت ہوتی ہے۔ یہ پودا روح کی زمین کا سینہ چیر کرکسیے باہر نکلتا ہے اور پھر اس پرلہو کی بوندوں سے کیسے پھول کھلتے ہیں۔۔(ص ۲۵)

”لیکن آج پورا وجود اس آگ میں جل رہاہے۔ یہ تپش ،بدن تک ٹھہری رہتی ہے تو بات اور تھی اور اس نے روح اور دل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

ماں ۔۔۔روح کی سلگن کیاہوتی ہے اور دھواں بھی نہیں اُٹھتا ۔ یہ اس وقت لگتی ہے جب ماں کی دائمی جدائی میں چھ مہینے باقی ہوں ایک سوا سی دن۔۔۔!

ماں یہ شمار کس نے ایجاد کیاتھا؟

اسے معلوم نہیں تھا تنگی کا عذاب کتنا جان لیواہوتاہے؟

یہ ایک دن میں چوبیس گھنٹے ہی کیوں۔۔۔؟

ماں بولی ۔۔۔۔، ۔۔ اگرچوبیس سال کا ایک دن ہوتا تو پھر تم بہت سال ہمارا سائبان رہتیں لیکن ہمارے سوچنے سے پیمانے کہاں بدلتے ہیں۔۔؟

”کون سی دوسری شام۔۔؟ اب تو سار یشامیں ایک سی ہیں۔ سورج کا رنگ ہی نہیں بدلے گا اور نہ موسم ردابدلیں گے۔ شامیں تو اسی روز مرجھاگئی تھیں جس روز تم نے بستر کو گھر کیا۔“

” جب ابو نے سفر آخرت باندھا تدفین کی تیسری صبح خانقاہ سراجیہ کی مسجد میں میرے سر پر سفید پگڑی باندھی گئی۔۔۔

ذمہ دار یوں اور مسائل کی پگڑی۔

جب میرے سرپر پگڑی باندھی گئی مسجد میں موجود سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں میں ایک دم اپنی عمر سے بہت بڑا ہوگیا۔

سر اور داڑھی کے بال سفید ہوگئے۔

کمر خمیدہ۔۔۔!

ابو کی موت نے مجھ سے میرا بچپن چھین لیا۔

ایک جست میں مجھے کئی صدیاں طے کرنا پڑیں اور عہد رفتہ کو آواز دینے کا وقت ہی نہ مل سکا۔“

” وہ کہتا ہے۔۔“ کن“ پوری دنیا، زمین و آسمان ور جو کچھ کارخانہ قدرت میں موجود ہے تخلیق ہوجاتاہے۔

اور انسان ساری زبانوں کے حروف جوڑلے ایک بات بھی مکمل نہیں ہوتی۔

اس بسیط و عریض کائنات میں انسان کا دل خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرزتا رہتا ہے۔

کوئی چہرکب ، کہاں اور کیسے داغ مفارقت دے جائے ۔

کہیں نہ کہیں دکھ ہمارے نام لکھے ہوتے ہیں۔

اوجھل دکھ!

اور ہمارے مقدر دکھ کی زنجیریں ۔۔۔۔

جن میں ہمیں تخلیق سے پہلے ہی جکڑ دیاگیا تھا۔“

”زندگی مسائل ، دکھ اور پریشانیوں سے اٹی پڑی ہے۔

میری روح میں کانٹے پیوست ہیں۔

ان کانٹوں کو کون نکالے۔۔۔؟

کوئی سوئی ۔۔۔؟

کہیں انگشت اور انگوٹھے کی چٹکی۔۔؟

”اب پوری زندگی ایک اندھی ڈل میں بدل گئی ہے۔

مسائل کے گدلے پانی میں تفکرات کے سانپ ہیں۔

ہم اپنی ویران روح کو کنویں میں جھانکتے ہیں۔

تو خوف رگوں میں خون کومنجمند کرتاہے۔

زندگی کی اندھی ڈل ہو، کسی کو آواز دیں۔

تو ۔۔۔اپنی ہی آواز آسیب کی بازگشت بن کر پلٹتی ہے۔“

میا کاا گربنظر غائر مطالعہ کیاجاے تو بجاطور پر اس میں جان ملٹن کی گمشدہ جنت (The Paradise Lost) کی بازگشت سنائی دیتی ہے جس طرح کا طویل رزمیہ ملٹن کے ہاں ملتا ہے اس کے متوازی حامد نے ایک طویل حزنیہ تخلیق کیا ہے جسے بلاشبہ اُردو ادب کی The Paradise Lost قرار دیاجاسکتا ہے یا کم از کم ایک ایسی Esperanto جس کا ہر لفظ آشنائے روح و دل ہے۔

میا تڑکے گھڑے سے بتدریج رستے اس پانی کی مانند ہے جو قطرہ قطرہ پڑھنے والے کے دل میں سرایت کرتاجاتاہے۔ یہی پانی جب جذبات کا منہ زور سیل رواں بنتاہے تو قاری کو بھی اپنے ساتھ بہالے جاتا ہے۔ مائیں بھی تو تڑکے گھڑے کا پانی ہوتی ہیں جو پتہ نہیں کب داغ مفارقت دے جائیں۔

حامد سراج کی مثال ماضی کی راکھ کردیتے اس شخص کی مانند ہے جس کی ہرکرید اس کے سامنے وقت گم گشتہ کی کوئی نہ کوئی کٹیلی یا تازہ کردے۔ ایک ایسا شخص جو گھٹنوں پر سر رکھے نگاہیں بظاہر زمین پر گاڑے یک ٹک گھورتاجارہاہو مگردور کہیں ماضی کے دھندلکوں مٰں گم ہو اور راکھ میں چلتا ہاتھ جب کسی تلخ یاد کی چنگاری پرپڑے تو یکلخت خیالوں کی دنیا سے باہر آکرماں کو پکارا ٹھے۔ ”میا “ کا ہرباب اسی انہماک کے ساتھ لکھاگیاہے۔

میا درحقیقت فکرو فلسفہ اورفن کے اس حسین امتزاج کا نام ہے کہ جس کے سامنے زبان کی تاریخ ورطہ حیرت میں ہے۔ حامد سراج کے لیے یہ اعزاز کیا کم ہے کہ اپنی لگ بھگ ڈیڑھ دو سالہ ادبی تاریخ میں پہلی بار اردو زبان و ادب کو سکتہ کاسامنا ہے اس صنف ادب کو کس نام سے اور کس مقام پر متمکن کرے۔ کیانئے آنے والوں کے لیے الگ قصر شاہی کی تعمیر ممکن نہیں؟

دیدبان۔شمارہ۔۷

میّا۔۔ بوڑھے ملاح کا آفاقی حزنیہ

مظہرحسین

ماں ،باپ ،اور اولاد ایک ایسی مقدس تثلیث ارضی ہے جس کا ہرکونا، زاویہ اور حد اپنی جگہ مسلمہ اور عدیم المثال حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کے وضع کردہ تمام اصول و ضوابط اور ناپ تول کے جملہ پیمانے اس ازلی و ابدی رشتے کی پنہائیوں اور گہرائیوں کے سلسلے میں عاجز ہیں۔ خدائے عزوجل کی ازلیت و عبدیت اور خالق کے دائمی تعلق کے بعد اسی تثلیثی رشتے کو آفاقی پذیرائی حاصل ہے۔ اس رشتے کو رب کریم نے یوں قدرومنزلت سے ہمکنار کیا کہ اپنے محبوب موسیٰ علیہ السلام کو تنبیہ کی کہ ماں کے سائیہ عاطفت سے نکل کررحمت کلیمی کو ذرا سنبھل کر استعمال کرنا! بالخصوص ماں اور بیٹے کا یہ رشتہ وہ آفتاب نصف النہار ہے جسے کوئی زوال نہیں۔ جوہر”عرجے زاوال“ کی آفاقی سچائی سے بھی بے نیاز ہے۔ ماں، جس کی تعریف و توصیف کے گن بعد از ذکر خدا و رسول ، اس مادرگیتی پرسداگائے جاتے رہیں گے اُردوادب کاایک مقبول موضوع ہے وہ کون سی ایسی صنف سخن ہے جس نے خاک پائے مادر کے بو سے نہ لیے ہوں۔ جب تک دنیا قائم ہے عورت ذات کا بھرم ماں کے حوالے سے اعتبار آشنا رہے گا۔ ماں کی قدرومنزلت میں ہر شاعر ،ادیب اور مصنف نے مقدور بھراضافہ کیاہے۔ متنبی توشاید ماں کی موت پر اتنا افسردہ ہوگیا تھا کہ یکا سکتہ توڑ کر چلااُٹھا تھا

ماکنت احسب قبل دفنک فی الثریٰ

ان الکواکب فی التراب تغور

منظوم ترجمہ:

میں گمان بھی نہ کرتا تھا تہہ خان تیرے د فن سے پہلے

کہ ستارے بھی کبھی زیرزمیں ڈوب جاتے ہیں

یہی کرب آور کسک جب تیشئہ خیال بن کر میانوالی٭٭ کے حامد سراج کے دل نزاکت آگیں کو چیرتی ہوئی گزری تو ”میّا“ کی وجہ تخلیق ہوئی۔ اگرمیں تناسخ کا قائل ہوتا تو یقینا یہی گمان کرتا کہ ہر مرحوم ومغفور ماں کا اگلا جنم ”میّا“ کی ادبی صورت میں ہواہے۔ اگرمیں گمان کرتاہوں اور میرا گمان یقیناصحیح ہے تو پھرمجھے یہ بھی کہنا چاہے کہ روح کی پاکیزگی کے نظریہ کا پرچار کرنے والے جینبی ، اغلباً ماں کی روح پاکیزہ کو ہی اپنے مذہبی عقیدہ کی مناط مانتے ہوں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرے گماں کا سلسلہ دراز تر، ہرآفاقی سچائی سے تال میل نہ ڈھونڈنکالے۔

”میا“ کو اگرفکری و فنی میزان پر پرکھاجائے تو یہ کثیرالجہات ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر محبت ، فلسفہ ، فلسفہ محبت اور تصوف کا ایک معنی خیزجہان آباد کیے ہوئے ہے اور جس کا ہر پلو دوسرے سے فزوں تر ہے۔ اسے آپ خاکہ، ناولٹ ، افسانہ ، داستان ، آپ بیتی ، بپتا محبوبیہ، مونتاژ ، پری لوڈ، پاپری، غرضیکہ کچھ بھی کہ لیں آپ کہ فہم کو خوش آمدید کہے گی۔ اس طرح موضوع ، ہیئت ، نوعیت فن اور بیان ہر لحاظ سے ”میا“ کا دامن وسیع ترہے۔ یہ ایک فرزا نے کی ایسی ترنگ ہے جس پر دیوانگی کاساگمان گزرتا ہے یا ڈیلفی کے اوریکل سے آتی ہوئی ایک ایسی پراسرار صدا اپنے سننے والوں کو جانب یوں مبہوتانہ طور متوجہ کرتی ہے کہ اس کے سنتے ہی یا ر لوگ دیوانہ وار اس صدا کی سمت دوڑ پڑیں اور جنہیں روکنے والوں سے بھی اک عجب داستان ہوش ربا وابستہ ہے۔

”میا“ کا ڈکشن ایک متلا طم سمندر کی ماند ہے جس میں میا، ایک مینارہ نور (Light House) کی طرح، دیگرکرداروں کے اسٹیمرز اور کشتیوں کے لیے ایک راہنما کی طرح ایستا دہ ہے۔ میا قدیم زمانوں کا اک بہاﺅ ہے۔ جو قدیم گاروں سے نکلنے والے چشموں کے سنگ بہتی ہوئی اکیسویں صد ی میں داخل ہوئی ہے۔ جو بقول ناصر عباس نیر میل اشک بھی ہے اور سیل خون بھی جو باہر کی طرف رخ کرتا ہے تو پوری کائنات اس میں ڈوبتی محسوس ہوتی ہے اور جب اندر کی جانب بڑھتا ہے تونبض ہستی ڈوبنے لگتی ہے۔ یہ دائمی دکھ جو ایک شاعرانہ اپج لیے ہوئے ہے میا کا طرہ امتیاز ہے اگرنیرکی اس بات کو زیرنظررکھا جائے کہ میا میں مستعمل اسلوب شاعری ہے ۔ تو اغلب گمان یہی ہے کہ حامد سراج کے پیش نظرایس ٹی کالرج کی "The Rhyme of the Ancient Mariner"رہی ہوگی۔ تاہم حامد سراج نے دیگر تکنیکوں کے دم بہ قدم غالب آلہ اظہار کے طور پریادآوری (Association of Ideas) کی تکنیک استعمال کی ہے۔

عید کی صبح میں نے ہلکے سبز رنگ کا سوٹ پہنا ہواتھا۔

ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم صحن میں کھڑی تھیں ۔اچانک مغربی کمرے میں گئیں۔۔ٹرنک کھولا ۔اس میں سے سبز میچنگ سویٹر نکالا اور مجھے پہنادیا۔

اور پھراسی شام۔۔ہاں ماں ۔۔۔اسی شام تم نے گہرے سبزرنگ کی جرسی پہنادی اور کہا۔۔۔یہ میرے بیٹے کو کتنی جچ رہی ہے۔ (میا۔ص ۴۳)

یاد ہے ماں۔۔چھپر میں پرندوں نے گھونسلے بنارکھے تھے۔ ساری دوپہر چڑیاں اپنے بچوں کے لیے دانہ دنکا چن لاتی تھیں۔ چھپر کے ساتھ متصل شرینہہ کا درکت تھا۔ اس کے تنے میں کالی بھڑوں کابسیرا تھا۔ ان کی بھنبھناہٹ ،ان کے ڈنک سے بھی زہریلی محسوس ہوتی تھی۔ دادی اماں آگ جلانے کے لیے چھپر کے نیچے خشک لکڑیوں کا ذخیرہ محفوظ رکھتی بارش کے دنوں میں ان کو اس بات کی بہت فکر رہتی تھی۔ (ص ۷۸)

کتاب کا خطابیہ انداز نے جہاں ڈکشن کا چار چاند لگادیے ہیں وہاں میاکے کردار کوزندہ جاوید بھی کردیاہے۔ بالخصوص ”تم“ کا صیغہ بے تکلفی اور احترام کے ملے جلے جذبات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔

بیٹا ایک بار مجھے ہسپتال سے گھرضرور لے جانا۔۔۔مجھے سب سے ملنا ہے۔ بزرگوں کے مزارات پرحاضری دینی ہے۔۔ تم نے وضو کیا اور مزارات کے چل دیں ۔ تم نے نفوس قدسیہ کے وسیلے سے اپنے رب کے حضور صحت کے لیے سندیسہ بھیجا ۔ تم پلٹ کر گھرآئیں توتمہارے چہرے پر اتمینان تھا۔ درواے کے باہر کھڑی تھی۔ صحن میں لگے فالسے کے درخت کے پاس تم گزریں۔میں نے تمہارا چہرہ دیکھا، ماں! میری آنکھوں میں تمہاری آنکھیں آج بھی زندہ ہیں۔ (ص ۲۳)

میا کے لینڈاسکیپ پراداسی اوردنیا سے بے رغبتی پس منظر کے پھیلے رنگوں کی طرح چھائی ہوئی ہے۔ جس میں بے بسی کے ٹچ نے اسے ایک لافانی حزنیے میں تبدیل کردیا ہے۔ یہ بیان کاکلائمکس بھی ہے اور اینٹی کلائمکس بھی:

”ہم زمین کے باسیوں کے دکھ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ شکوے کی اجازت بھی چھین لی جاتی ہے ۔آنکھ کے آسمان سے اترنے والی بارش سے گرمی کی شدت تو کم نہیں ہوتی۔۔نا۔۔ماں۔۔کی آنکھ کے دریچوں میں صرف دو بار آنسوﺅں کے پرندے اترے ۔ ایک دن دوپہر کے وقت اس کی آنکھک سے آنسو گرے اور اس نے چپ سادھ لی اور دوسری بار اس صبح جب خالہ امی کویت کے لیے روانہ ہوئیں۔

ماں چارپائی پربیٹھی تھی۔۔۔

دو آنسو۔۔اورچپ۔۔!(ص ۴۹)

موت جوکہ اس جہان رنگ وبو کی تال پرتھرکتی ایک اٹل حقیقت کانام ہے میا میں ایک تلخ مگر مرکز مائل قوت کے ظہور پر موجود ہے جس سے گریز کسی طور ممکن نہیں اور یہی قوت دنیا سے بے رغبتی کے پس منظر کو گہرا رنگ عطا کرتی ہے:

” ماں۔۔۔یہ لوٹ جانے کا عمل نہ ہوتا تو شاید قلوب گداز نہ ہوتے ۔ جدائی جہاں دل میں ویراں کا شت کرتی ہے وہیں سوزوگداز کے پھول کھلاتی ہے۔ ماں۔۔جب سے جدا ہونے والے ایک تسلسل سے زمین سے رختِ سفرباندھ لیتے ہیں توتشکیک کوموت آجاتی ہے اور سفرآخرت کایقین دل میں مقیم ہوجاتا ہے۔ پھر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا کوئی قول و فعل کسی کے نام دکھ نہ لکھے۔“(ص۲۶)

”ہم زمین کے باسیوں کو اپنی مہمانی کی مدت معلوم ہی کہاں ہوتی ہے کوئی ایک لمحہ بھی ہمارا اپنا نہیں ہوتا۔ کسی ایک لمحے پر بھی ہماری دسترس مضبوط نہیں ہوتی۔ ہرآنے والے اوجھل لمہے پر بے کار امید لگائے پوری عمرگزرجاتی ہے۔ وہ بے خبرلمحہ ہمارا ہوتا ہی کب ہے؟ اس کی باگ دوڑ کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

اس کے ہاتھ میں جس کا یک لفظ پوری کائنات کومحیط ہے۔

ایک لفظ اور پوری کائنات ۔۔۔! “ ص ۰۷)

” جانے والوں کو یہ معلوم کیوں نہیں ہوتا کہ ان کے جانے کے بعدآنگن میں قیامت کیسے اترتی ہے ۔ ان کی ساری عمر کی محبتیں جمع ہوتی ہیں اور ان کو خبر نہیں دی جاسکتی کہ ان کے ملنے کو کتنے لوگ کہاں کہاں سے سفر کی صعوبتیں جھیل کرپہنچے ہیں اور ان کی آنکھوں نے کتنے چراغ روشن کیے ہیں۔“ (ص ۸۹)

بے روح عمارتوں کے درمیان گھومتے ہوئے خیال آتاہے ۔ زمین ہمارا ٹھکانہ نہیں پھربھی ہم حق ملکیت جتاتے جتاتے عمر رواں کے سارے اوراق بے ترتیب کرلیتے ہیں۔ (ص ۲۰۱)

باالفاظ دیگرمیا وہ زہرہ دیوی (Venus) ہے جس کے گرد منڈلاتے کرداروں کے چاند اورشہاہیے، سراج کے تخلیق کردہ ہیں۔ ان شہابیوں کاآپسی ٹکراﺅ حزنیے کے اوج ثریاپربل بھر کے لیے روشنی کااثر آفریں ہجوم اکردیتا ہے لیکن حامد کی مہارت دیکھیے کہ اس نے اپنی ذات کی صورت میں پس پردہ ایک ایسی برقنا طیسی قوت (Ether )تخلیق کردی ہے۔ جس کا ملوکتی ،و طلسماتی اثر کسی بھی کردار چے کو متعین مدار سے بھٹکنے نہیں دیتا۔ یہ ایک ایسا ڈائم (Paradigm)ہے جس کو کسی بھی پہلو سے دیکھاجائے تو مکمل، مضبوط، مربوط اور متوازن دکھائی دیتا ہے اور جس اسے جس بھی نام سے پکارا جائے اس پر جچتا ہے۔ خطابیہ، رزمیہ، تاثریہ، جذباتیہ، آفاقیہ، حزنیہ، جذبیہ، کربیہ، ناسٹلجیا، قلندریہ، رمزیہ ، مجذوبیہ ، فلسفیہ۔

اسی پیرا ڈائم کی دم بہ قدم حامد سراج نے افسانوی تسلسل یا افسانہ مسلسل کا تجزیہ کیاہے اور ایک ایسا ڈائم بھی جو عشق مجازی اور عشق حقیقی کے درمیان متعلق ہے۔ اس ناکام عاشق صادق کی بپتاجس نے شاید دل کی طور پر کوئی تجلی دیکھ لی ہو۔ میا میں حامد سراج ہمیں ایج مجذوب یا صوفی کے طور پر بھی جلوہ گر دکھائی دیتا ہے۔ جس ایک فلسفیانہ ردا اوڑھ رکھی ہو کیونکہ ان کا تعلق خانقاہ سراجیہ سے بھی ہے جہاں سے علم ، روحانیت ، فلسفہ اور فلسفوں کے سوتے پھوٹتے ہیں:

”۔۔میں اس بات کا اظہار کسیے کروں۔ اندر کی اس دکھ کو زبان کیسے دوں۔۔؟ کہ جب انسان کے اندر کسی کی موت کا بیج اگنے لگے تو کیا کیفیت ہوتی ہے۔ یہ پودا روح کی زمین کا سینہ چیر کرکسیے باہر نکلتا ہے اور پھر اس پرلہو کی بوندوں سے کیسے پھول کھلتے ہیں۔۔(ص ۲۵)

”لیکن آج پورا وجود اس آگ میں جل رہاہے۔ یہ تپش ،بدن تک ٹھہری رہتی ہے تو بات اور تھی اور اس نے روح اور دل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

ماں ۔۔۔روح کی سلگن کیاہوتی ہے اور دھواں بھی نہیں اُٹھتا ۔ یہ اس وقت لگتی ہے جب ماں کی دائمی جدائی میں چھ مہینے باقی ہوں ایک سوا سی دن۔۔۔!

ماں یہ شمار کس نے ایجاد کیاتھا؟

اسے معلوم نہیں تھا تنگی کا عذاب کتنا جان لیواہوتاہے؟

یہ ایک دن میں چوبیس گھنٹے ہی کیوں۔۔۔؟

ماں بولی ۔۔۔۔، ۔۔ اگرچوبیس سال کا ایک دن ہوتا تو پھر تم بہت سال ہمارا سائبان رہتیں لیکن ہمارے سوچنے سے پیمانے کہاں بدلتے ہیں۔۔؟

”کون سی دوسری شام۔۔؟ اب تو سار یشامیں ایک سی ہیں۔ سورج کا رنگ ہی نہیں بدلے گا اور نہ موسم ردابدلیں گے۔ شامیں تو اسی روز مرجھاگئی تھیں جس روز تم نے بستر کو گھر کیا۔“

” جب ابو نے سفر آخرت باندھا تدفین کی تیسری صبح خانقاہ سراجیہ کی مسجد میں میرے سر پر سفید پگڑی باندھی گئی۔۔۔

ذمہ دار یوں اور مسائل کی پگڑی۔

جب میرے سرپر پگڑی باندھی گئی مسجد میں موجود سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں میں ایک دم اپنی عمر سے بہت بڑا ہوگیا۔

سر اور داڑھی کے بال سفید ہوگئے۔

کمر خمیدہ۔۔۔!

ابو کی موت نے مجھ سے میرا بچپن چھین لیا۔

ایک جست میں مجھے کئی صدیاں طے کرنا پڑیں اور عہد رفتہ کو آواز دینے کا وقت ہی نہ مل سکا۔“

” وہ کہتا ہے۔۔“ کن“ پوری دنیا، زمین و آسمان ور جو کچھ کارخانہ قدرت میں موجود ہے تخلیق ہوجاتاہے۔

اور انسان ساری زبانوں کے حروف جوڑلے ایک بات بھی مکمل نہیں ہوتی۔

اس بسیط و عریض کائنات میں انسان کا دل خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرزتا رہتا ہے۔

کوئی چہرکب ، کہاں اور کیسے داغ مفارقت دے جائے ۔

کہیں نہ کہیں دکھ ہمارے نام لکھے ہوتے ہیں۔

اوجھل دکھ!

اور ہمارے مقدر دکھ کی زنجیریں ۔۔۔۔

جن میں ہمیں تخلیق سے پہلے ہی جکڑ دیاگیا تھا۔“

”زندگی مسائل ، دکھ اور پریشانیوں سے اٹی پڑی ہے۔

میری روح میں کانٹے پیوست ہیں۔

ان کانٹوں کو کون نکالے۔۔۔؟

کوئی سوئی ۔۔۔؟

کہیں انگشت اور انگوٹھے کی چٹکی۔۔؟

”اب پوری زندگی ایک اندھی ڈل میں بدل گئی ہے۔

مسائل کے گدلے پانی میں تفکرات کے سانپ ہیں۔

ہم اپنی ویران روح کو کنویں میں جھانکتے ہیں۔

تو خوف رگوں میں خون کومنجمند کرتاہے۔

زندگی کی اندھی ڈل ہو، کسی کو آواز دیں۔

تو ۔۔۔اپنی ہی آواز آسیب کی بازگشت بن کر پلٹتی ہے۔“

میا کاا گربنظر غائر مطالعہ کیاجاے تو بجاطور پر اس میں جان ملٹن کی گمشدہ جنت (The Paradise Lost) کی بازگشت سنائی دیتی ہے جس طرح کا طویل رزمیہ ملٹن کے ہاں ملتا ہے اس کے متوازی حامد نے ایک طویل حزنیہ تخلیق کیا ہے جسے بلاشبہ اُردو ادب کی The Paradise Lost قرار دیاجاسکتا ہے یا کم از کم ایک ایسی Esperanto جس کا ہر لفظ آشنائے روح و دل ہے۔

میا تڑکے گھڑے سے بتدریج رستے اس پانی کی مانند ہے جو قطرہ قطرہ پڑھنے والے کے دل میں سرایت کرتاجاتاہے۔ یہی پانی جب جذبات کا منہ زور سیل رواں بنتاہے تو قاری کو بھی اپنے ساتھ بہالے جاتا ہے۔ مائیں بھی تو تڑکے گھڑے کا پانی ہوتی ہیں جو پتہ نہیں کب داغ مفارقت دے جائیں۔

حامد سراج کی مثال ماضی کی راکھ کردیتے اس شخص کی مانند ہے جس کی ہرکرید اس کے سامنے وقت گم گشتہ کی کوئی نہ کوئی کٹیلی یا تازہ کردے۔ ایک ایسا شخص جو گھٹنوں پر سر رکھے نگاہیں بظاہر زمین پر گاڑے یک ٹک گھورتاجارہاہو مگردور کہیں ماضی کے دھندلکوں مٰں گم ہو اور راکھ میں چلتا ہاتھ جب کسی تلخ یاد کی چنگاری پرپڑے تو یکلخت خیالوں کی دنیا سے باہر آکرماں کو پکارا ٹھے۔ ”میا “ کا ہرباب اسی انہماک کے ساتھ لکھاگیاہے۔

میا درحقیقت فکرو فلسفہ اورفن کے اس حسین امتزاج کا نام ہے کہ جس کے سامنے زبان کی تاریخ ورطہ حیرت میں ہے۔ حامد سراج کے لیے یہ اعزاز کیا کم ہے کہ اپنی لگ بھگ ڈیڑھ دو سالہ ادبی تاریخ میں پہلی بار اردو زبان و ادب کو سکتہ کاسامنا ہے اس صنف ادب کو کس نام سے اور کس مقام پر متمکن کرے۔ کیانئے آنے والوں کے لیے الگ قصر شاہی کی تعمیر ممکن نہیں؟

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024