لہو پکارے آدمی

لہو پکارے آدمی

Mar 12, 2018

دیدبان شمارہ ۔۷

لہو  پکارے آدمی

تخلیق : مدھوکر سنگھ

ترجمہ : عامرصدیقی

مدھوکر سنگھ۔پیدائش: ۲ جنوری ۱۹۳۴ ؁ ء۔میدان: ناول، کہانی، شاعری، ڈرامہ،بچوں کا ادب۔ کچھ اہم تخلیقات:ناول: سون بھدر کی رادھا، سب سے بڑا چھل، سیتارام نمسکار، جنگلی سور، منبودھ بابو، اُتّرگاتھا، بدنام، بے مطلب زندگیاں،اگنی دیوی، دھرم پور کی بہو، ارجن زندہ ہے، سہدیورام کا استعفی، کتھا کہو کنتی مائی، سمکال۔کہانیوں کے مجموعے:پورا سناٹا، بھائی کا زخم، ہریجن سیوک، پہلا پاٹھ، اساڑھ کا پہلا دن، مائیکل جیکسن کی ٹوپی، پاٹھ شالہ۔ڈرامہ: لاکھو، صبح کے لئے، بابو جی کا پاس بک، قطب بازار۔گیتوں کا مجموعہ : رک جا بدرا۔ انتقال:۱۵ جولائی،۲۰۱۴ ؁ ء ،آرا (بہار)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ترپاٹھی جی کا لڑکا بھیروناتھ آج کی دنیا میں بھی کالج پیدل جاتا ہے۔ جن کی حیثیت ہے ،وہ تو شہر میں ہی رہتے ہیں۔ سری پور کے باقی لڑکوں کے پاس سائیکلیں ہیں۔ گاؤں سے نکلتے ہی اکثر بھیرو کی سڑک پر یا کچھ دور آگے نکل آنے پر نگینہ سے ملاقات ہوتی ہے۔ سائیکل سوار لڑکے بھیرو ترپاٹھی سے مذاق کرتے ہیں، پنڈت جی کے کرم میں نگینہ مُسہر ہے۔ سن اکہتر کی آخری تاریخ تک ضلع بھرسے ایک ہی مُسہر کالج میں داخل ہواہے اور بی اے فائنل ایئر کا طالب علم ہے۔ اپنے ہم جماعتوں سے بچ کر چلنا ہی اسے اچھا لگتا ہے۔ انہیں دیکھ کر درخت کے پیچھے یا جھاڑیوں میں یا کھیتوں میں اتر جاتا ہے۔ جب ان کی سائیکلیں دور نکل جاتی ہیں، تب نگینہ سڑک پر آتا ہے۔ تاہم، ان کی چھیڑ چھاڑ کا اثر اب اس کے اوپر نہیں ہوتا۔ شروع شروع میں اسکول میں اسے خاصی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مخالفت،برداشت سے باہر ہوئی تھی۔ گاؤں کا اسکول چھوڑ کر شہر جانا پڑ گیا تھا۔آوارہ گردی، لوٹ مار، راہزنی، چوری چکاری جیسی وارداتیں عام طور پر ہوتی رہتی ہیں ۔ نگینہ کو ہر بار اس میں پھنسانے کی کوشش ہوتی۔لیکن وہ بال بال بچ جاتا ہے اور خوف کے مارے کانپنے لگتا ہے۔ بھیروناتھ ترپاٹھی کے ساتھ جب سے اس کی دوستی ہوئی ہے، حوصلے مسلسل بلند ہوتے رہے ہیں ۔ برہمن لڑکے کے ساتھ اس کی دوستی ہے۔برہمن اور مُسہر کی دوستی عجوبہ بات بن گئی ہے۔ بھیرو کہتا ہے،’’سائیکلیں دونوں کے پاس نہیں ہیں، بزرگوں کے پاس سائیکل خریدنے کا دام نہیں ہے۔‘‘اس لئے نگینہ رام مُسہر اور بھیروناتھ ترپاٹھی ایک ساتھ چلنے پر مجبور ہیں اور چھ میل کی دوری دوسراہٹ میں کٹ جاتی ہے۔ اب تو سبھی لوگ ہنستے ہیں کہ مُسہر کے ساتھ رہتے رہتے، برہمن کی عقل بھی مُسہر ہو گئی ہے۔ مگر بھیرو پنڈت کی فکر کچھ دوسری ہے۔ فرسٹ کلاس آنی بھی ہوگی تو نہیں آئے گی ۔ یونیورسٹی میں ہیڈ کی ذات کا ہی لڑکا فرسٹ آتا ہے، پڑھ کر فرسٹ کلاس آنے والے کا زمانہ نہیں ہے۔ نگینہ کیلئے تو یہ سارے واقعات اور بھی عجیب ہیں۔اپنی ذات کا ہیڈ تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ اپنے بارے میں بھیرو کی طرح تصور کرنے کا لمحہ کب آئے گا؟ اپنے یہاں مُسہر سے چھوٹی کوئی ذات نہیں ہوتی ہے ۔۔ سور کو اور مُسہر کو کوئی ایسا جانور نہیں سمجھا جاتا، جس پر رحم کیا جائے۔ تمام ذاتوں کو اس پر رعب جمانے کا حق ہے۔ دونوں کی کاٹھی ایک طرح کی ہے۔ گاؤں میں لوگ سامان ڈھونے کا کام بیل اور مُسہر سے لیتے ہے۔ نگینہ کا کالج جانا ،سب کیلئے اتنا ہی حیران کن واقعہ ہے، جتنا ایک جانور کا آدمی بن جانا۔ ترپاٹھی جی کو لوگوں نے بہت سمجھایابجھایا ۔’’پنڈت جی ، بھیرو کو سمجھا دو، مُسہرچمار کی سنگت چھوڑ دے۔ برہمن کے گاؤں میں اگر ایسی بات ہو تو سب کی بدنامی ہوتی ہے۔‘‘ترپاٹھی نے صاف سنا دیا،’’ کھانے پینے میں ذات اٹھ گئی تو باقی کیا رہا؟ اب تو شادی بیاہ میں بھی کوئی نہیں پوچھتا، میرا لڑکا گھر سے پیدل جاتا ہے۔ تمہارے لڑکے اس کے ساتھ پیدل جانے کیلئے تیار ہیں؟ میرے پاس سائیکل خریدنے کا دام نہیں ہے تو خرید دوگے کیا؟‘‘لوگوں نے غور کیا، برہمنوں کی عزت کا سوال ہے۔ اس سال ہولی میں دروازے پر لونڈوں کا ناچ نہیں ہوگا، ترپاٹھی جی کے لڑکے کیلئے چندہ جمع کرکے سائیکل خرید ی جائے گی۔ برہمن اور بھُکّڑ کو دان کرنے سے ثواب ہی ہوتا ہے۔ اس ثواب میں گاؤں بھر کا حصہ رہے گا۔ سب کی چھاتی چوڑی ہوگی۔ نئی سائیکل پر چڑھ کر جاتے ہوئے بھیرو کو نگینہ دور سے دکھائی دیا تو وہ اتر گیا اور بولا،’’آؤ نگینہ، تم آگے بیٹھ جاؤ۔‘‘’’نہیں بھیرو بابا، لوگ دیکھیں گے، تو کیا کہیں گے؟ میں سائیکل چلانا جان جاتا تو تم آگے بیٹھتے اور میں چلاتا۔ اس کا اثر میرے باپ پر پڑے گا۔ کہیں مُسہر ٹولی پر آفت نہ آ جائے!‘‘بھیرو کا ماتھا جھنجھنا گیا۔ اس نے کہا،’’تمہارے لئے کالج میں، میں چندہ کروں گا۔‘‘’’ مگر اُس سائیکل پر میں گاؤں کیسے آ سکتا ہوں؟‘‘’’ گاؤں والوں سے ہم دونوں نمٹ لیں گے۔صرف اپنے دل سے یہ خیال نکال دو۔‘‘’’ چندہ کوئی دے گا؟‘‘’’ یونین سے ابھی تمہارا رابطہ نہیں ہے۔ ہم لوگ تیس مارچ سے ہڑتال پر جا رہے ہیں۔ ایک غلط اور نکمّے لڑکے کو امتحان میں چوری کرا کر فرسٹ کلاس دے دیا گیا ہے۔ وائس چانسلر کے گھیراؤ میں تم بھی رہنا۔‘‘نگینہ کو سائیکل اور گاؤں جیسی چیزوں سے ہٹ کر، بھیرو کے ساتھ ایسی باتوں سے کچھ طاقت محسوس ہوتی ہے۔’’ یونین کا ممبر میں بھی بنوں گا، بھیرو بابا۔‘‘’’ تم کو اپنے سیکریٹری سے ملاؤں گا، اجے سنگھ، ہیرا آدمی ہے۔‘‘’’ ہمارے ساتھ پڑھتا ہے؟‘‘’’ابھی تو دوسرے سال کا طالبِ علم ہے۔‘‘کبھی اسکی تقریر سنی؟‘‘’’ آگ اگلتا ہے، آگ۔‘‘’’تم چلو۔ میں پیدل دوڑ کر آ جاتا ہوں۔‘‘بھیرو کو نگینہ کے ایسے جوش و خروش سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ سائیکل چلاتے وقت لگتا ہے، لوہے کی سلاخوں پر بیٹھا ہے۔ اگر لڑکے سائیکل کے بارے میں پوچھیں گے تو کیا بتائے گا۔ ان سے کہے گا کہ گاؤں والوں نے مل جل کر خریدی ہے؟ مُسہر کے ساتھ دوستی کی یہی سزا ہے؟ وہ اپنی کلاس میں نہیں گیا بلکہ سیدھا اجے سنگھ کی کلاس میں جا پہنچا۔ اس نے کہا،’’ اجے سنگھ! گاؤں کی روایات میرا قتل کرنا چاہتی ہیں۔‘‘ اس نے اجے کو ساری باتیں بتا دی۔ اجے بولا۔’’ تم بیوقوف ہو بھیرو بھائی، ان سے کہو، نگینہ سائیکل سے چلنے پر دِکھ جاتا ہے۔ موٹر سائیکل خرید دو تو خوب تیز چلاؤں گاتا کہ نگینہ پر کہیں نظر نہ پڑے۔‘‘بھیرو کو ہنسی آ گئی،’’ سری پور کے لوگ بڑے عجیب ہیں۔‘‘’’ہر گاؤں کے لوگ عجیب ہوتے ہیں۔‘‘’’ چھٹی کے دن میں تمہیں نگینہ سے ملاؤں گا۔ گیارہ چالیس سے ہماری کلاس ہے۔ اس وقت تک ضرور آ جائے گا۔‘‘’’شام کو تم دونوں میٹنگ میں ضرور آنا۔‘‘بھیرو اپنے گاؤں کے ہر لڑکے کو میٹنگ میں لانا چاہتا ہے۔ شاید ان کا دماغ بدل جائے۔ بڑے چھوٹے کا زہر زیادہ دور تک نہیں گھسے۔ راستے بھرآوارہ گردی کرتے ہیں، کیاکوئی بھی انہیں طالب علم کہہ سکتا ہے؟ بھیرو کی باتیں سن کر ساتھیوں نے مذاق اڑایا،’’ یہ بھیروناتھ ترپاٹھی ،گاندھی مہاتما کا اوتار ہے۔ ایک بار بول، گاندھی مہاتما کی جے۔‘‘ بھیرو نے جاگا پانڈے سے پوچھا ،’’پڑھ لکھ کر کیا کرو گے؟‘‘’’ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس میٹنگ میں سیاست ہوگی۔‘‘’’کیسی سیاست؟ ‘‘’’ اجے سنگھ کو امتحان میں فرسٹ کلاس دلانا ہوگا۔‘‘’’ یونیورسٹی میں ذات پات ٹھیک ہے؟‘‘’’ مگر چھوٹے کوماتھے پر چڑھانا بھی تو ٹھیک نہیں ہے۔‘‘’’ کیسی بات کرتے ہو! ۔ ہڑتال کے دن ہم مزے اڑائیں گے ، کالج نہیں آئیں گے۔ بازار میں اپنی پسند کی چیزیں لوٹیں گے۔بھیروا ناتھ ترپاٹھی زندہ باد!‘‘’’ کوئی پرواہ نہیں، گاؤں سے نگینہ اور بھیرو ہی رہیں گے۔‘‘اس نے نگینہ سے مشورہ کیا،’’ ہم لوگ گاؤں میں نوجوانوں کاایک ادارے بنائیں گے، کمیونسٹ، سوشلسٹ،لکھاری، محقق۔‘‘’’سبھی صحیح سمجھ والے لوگوں سے خطاب کرائیں گے۔ تعلیم کتنی کھوکھلی ہے، بھیرو بابا! ہم کیسے برداشت کر رہے ہیں؟‘‘’’اس غلیظ حالت کے خلاف نوجوان کہاں تیار ہیں؟‘‘’’دلی، الہ آباد،سبھی بڑی یونیورسٹیوں میں آغاز صحیح ہی ہوتا ہے، مگر اس جنگ کو بہت غلط موڑ دیا جاتا ہے۔ آگے چل کر یونین ان سے مل جاتی ہے یا گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔‘‘اجے سے ملاقات کے بعد نگینہ کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ اس نے نگینہ کو کچھ کتابیں دی ہیں۔ نگینہ نے ان کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ یہ کیسی تعلیم ہے؟ لیکچرار بھی یا تو ان کتابوں کا نام تک نہیں جانتے یا پھر لڑکوں کو بتانا نہیں چاہتے۔ لوٹتے ہوئے راستے بھر دونوں کے منصوبے بنے۔ نگینہ سائیکل پر آگے بیٹھا ہے۔ اندھیرے کی وجہ سے سڑک صاف نظر نہیں آتی۔ مگر ٹرکوں کی مسلسل آمدورفت سے ان کی باتیں رک جاتی ہیں اور دماغ کو جھٹکا لگتا ہے۔ ان دنوں گاؤں میں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے زمین کی تحریکیں چل رہی ہیں، جہاں بے زمین اس سے آگاہ ہیں، وہاں قبضہ کر رہے ہیں۔ سری پور میں برہمن، چمار، مُسہر، اہیر،کُرمی، ایک آدھ گھر لوہار اور جولاہے ہیں۔ برہمن کے علاوہ دو چار گھر چماروں کے پاس بھی بھی کھیتی ہے۔ مگر ایسا کوئی بھی آدمی نہیں ہے، جس کے پاس پچاس ایکڑ سے زیادہ ہو۔جاگا پانڈے کے باپ کی صرف پچیس ایکڑ زمین ہے، مگر ترپاٹھی جی کے پاس ایک انچ بھی نہیں ہے۔ دادا کے زمانے کا مٹی کا ایک گھر ہے۔ بھیرو کا اس مکان میں رہتے رہتے جی اُوب کیا گیا ہے۔ وہ تبدیلی ضرور چاہتا ہے، لیکن ایسا کیسے ممکن ہے؟ ترپاٹھی کی آنکھ کے سامنے والے گڑھے پر ہے ۔’’دو تین ایکڑ سے کم نہیں ہے۔ بے زمین ہونے کی وجہ سے شاید انہیں بھی ملے۔ تب جم کر کھیتی بھی ہوگی اور مٹی کی جگہ اینٹوں کا مکان بھی بن جائے گا۔ تب ترپاٹھی جی خود ہل چلائیں گے۔ دیکھتے ہیں، کون مائی کا لال ہے جو کہتا ہے کہ برہمن ہو کر ہل مت چلاؤ۔ ایسی مخالفت کرنے والے سے جنگ کرے گا۔‘‘جاگا پانڈے کے پاس تو بڑی بڑی سہولیات ہیں۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پانڈے جی کی زمین میں کیسے اضافہ ہوا ہے۔ ادھر ادھر ہاتھ مار کے اور گندے شیطانی کام کرنے کے بعد کچھ حیثیت والے اور مالدار بنے ہیں۔ گووند چمار اوربیمانی کے بعد دیولال اہیر کا سارا کھیت ہڑپ لیا ہے۔ گاؤں کا کھوبھاڑی لال سالوں سے سرکاری وزیر ہے، جاگا کی نوکری کیلئے پانڈے جی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ امتحان نہیں بھی دے گا تو پاس کر جائے گا اور نوکری لگے گی۔ وہ کھوبھاڑی لال کو ہریجن ماننے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ ان کی رائے میں ذات پات، شاستر دھرم کی چیز ہے، مگر کھوبھاڑی بابو کو ایشورنے نیا جنم دیا ہے۔ پانڈے جی چماروں کے کان کھڑے کئے رہتے ہیں کہ’’ تیتر مُسہر کا لونڈا نگینہ کچھ ہو گیا تو کھوبھاڑی بابو کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ اندر اندر اپنی لڑائی مُسہر ٹولی کے خلاف تیز رکھو۔مُسہر تم سے چھوٹی ذات کا ہے۔‘‘ترپاٹھی کو اپنے لڑکے کو لے کر بڑی تشویش ہے۔ لڑکا ہی کیوں، پورے خاندان کو ہی لے کر فکرات ہیں۔ پچھلے سال انہوں نے بیٹی کا بیاہ کیا تو پانڈے جی ہنس رہے تھے،’’ بَڑھیا لڑکا نہیں ملا تو پروہت کا کام کرنے والے سے کر دیا۔یجمانی بھی کوئی نوکری ہے؟‘‘ ترپاٹھی جی نے غصے میں گالی دے دی تھی،’’ سالے کو دھن کا گھمنڈ ہے، آنے دو سماج واد۔ آنکھ کاڑھ لوں گا، ہنسی اڑاؤگے تو۔‘‘سب نے پانڈے جی کو سمجھایا،’’ترپاٹھی جی بزرگ آدمی ہیں،معاف کر دیجئے۔ گاؤں جوار کے پروہت اور باپ دادا کے داکِھل ہیں۔‘‘ مگر پانڈے جی نے دوبارہ گالی دے ہی دی تھی،’’سالے کو دم نہیں، گمان سنگھ نام!‘‘بھیرو ،جاگا پانڈے سے زیادہ الجھنا نہیں کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے حق میں ہے کہ گاؤں کے نوجوانوں کی میٹنگ میں، جاگا بھی اپنی رائے کا اظہار کرے۔ کھوبھاڑی لال ہائی اسکول اسی کے باپ کا ہے۔ کیا جاگا وہاں میٹنگ کرنے دے گا؟ نگینہ کو گاؤں کے اسکول چھوڑ کر شہر میں پڑھنا پڑا ہے۔ پانڈے جی چاہتے تو کیا نگینہ گاؤں کا اسکول چھوڑ کر باہر جا سکتا تھا؟ تیتر مُسہر حرام زادہ ہے۔ فیس معاف، اسکول کی کتابیں مل ہی جاتی ہیں۔ حکومت وظیفہ دیتی ہی ہے۔ اب کیا چاہئے ۔۔۔ گھنٹا؟ تیتر مُسہر بولا،’’گھنٹا نہیں بابا، مالک لوگ کبھی نگینہ کو گالی دیتے ہیں۔ کبھی مار دیتے ہیں۔ پانڈے جی جھنجھلا کرگالی نہیں دیں تو کیا نگینہ چندن ہے کہ پیشانی پر لگائے پھریں؟‘‘’’ پانڈے جی کو ہم لوگ اپنے ادارے کا صدر بنا دیں۔‘‘بہت غور کرنے کے بعد بھیرو سے نگینہ نے کہا،’’دھت! نوجوانوں کا ادارہ اور بوڑھا ہمارا صدر بنے گا؟ چھی!‘‘ بھیرو ہنسنے لگا ۔’’ہم جاگا کو بھلے صدر مان لیں، مگر اس کا باپ تو سب نوجوانوں کو ہضم کر جائے گا۔‘‘’’ ادارے کا نام سوچا ہے؟‘‘’’ میں نے تو سوچا ہے، اجے سنگھ سے بھی رائے لی ہے۔ ’ترقی پسند نوجوانوں کا پلیٹ فارم‘ سے’ سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘اگلے اتوار کو بھیرو نے سری پور کھوبھاڑی لال ہائی اسکول میں طالب علموں، ان پڑھ بے روزگار، ذات، پرجات ،تمام نوجوانوں کا ایک اجلاس بلایا اور’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کا اعلان کر دیا۔ جب اس کے عہدیداروں کے انتخابات کی بات آئی تو زیادہ تر نوجوانوں کی رائے یہ تھی کہ اس کی ذمے داری بھیروناتھ ترپاٹھی کو سونپ دی جائے۔ نگینہ اور ہریجن ٹولی کے لڑکے ہر بات کی حمایت میں بس ہاتھ اٹھا دیتے تھے۔ انہیں گاؤں میں ایک ساتھ بیٹھ کر میٹنگ کرنے کا پہلی بار موقع ملا تھا۔ بھیرو کہنے لگا،’’ پڑھے لکھے اور ہماری پیڑھی کے لوگوں میں ذات پات، لڑائی جھگڑا شرم کی بات ہے۔ ہم گاؤں میں ایسا پلیٹ فارم چاہتے ہیں جہاں سے ہمارے شعور کی ترقی ہو۔ ہم نئے خیالات اور روایات کے ساتھ چل سکیں، نوجوانوں کو ادھر مڑ کر بالکل نہیں دیکھنا ہے، جہاں خود غرضی، نفرت اور بغض کی چنگاریاں سلگ رہی ہوں، بلکہ ہم لوگ مل جل کر اسے ہمیشہ کے لئے بجھا دیں گے، ہم نے عہدیداروں کو منتخب کر لیا ہے۔ تم لوگ کہو تو نام سنا دوں؟‘‘’’نام جلدی سنا دو۔‘‘، زیادہ تر نوجوانوں نے آواز لگائی۔ بھیرو نے نام پڑھنا شروع کئے،’’جاگا پانڈے۔صدر، بھیروناتھ ترپاٹھی۔نائب صدر،نگینہ رام مُسہر۔جنرل سکریٹری، کیلاش ترپاٹھی ۔ سکریٹری، سیوکراموی شوکرمی۔خزانچی، ان کے علاوہ سات افراد کی ایک ورکنگ کمیٹی ہے۔ کسی کو اعتراض ہو تو ابھی ہاتھ اٹھا دو۔ ہم ہر طرح سے ردّوبدل کرنے کیلئے تیار ہیں۔‘‘ایسا سناٹا رہا، جیسے کہیں غلط کام ہوا ہے اور اچانک دھماکا ہوگا۔’’اگر تم لوگ کچھ نہیں بول رہے ہو تو میں مان لیتا ہوں کہ تم سب راضی ہو۔میری الگ سے تجویز ہے کہ ہماری دوسری میٹنگ میں بحث کا موضوع ر ہے گا’’ بے روزگاری اور زمین کی مرکزیت‘‘۔ پروفیسر شُکدیو چودھری صدارت کریں گے۔ ان کے ساتھ اجے سنگھ بھی آئے گا۔ بولو، کسی کو اعتراض ہے؟‘‘جاگاپانڈے کھڑا ہو گیا اور بولا۔’’ شکدیو چودھری ،ہریجن ہیں سوچ لو، یہاں کے لوگ برداشت کریں گے؟ ‘‘’’جاگا، تمہارا دماغ خراب ہے، کسی کی رائے بھی نہیں سن سکتے، اچھا ،نام تم ہی کیوں نہیں تجویز کرتے؟‘‘بھیرو غصے میں تھا۔’’ اس میں خرابی شروع ہو رہی ہے۔‘‘’’ انتخاب پر پھر سے غور کیا جائے۔‘‘ اچانک جاگا کی مخالفت کے ساتھ ہی اس کی حمایت میں درجنوں آوازیں آئیں، یہاں تک کہ ہریجن نوجوانوں نے بھی مشین کی طرح ہاتھ اٹھا کر سر ہلا دیا۔’’ سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم،سے گیتا کا پروچن کرانا چاہتے ہو،کراؤ۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ مگر مقصد کا بھی خیال رکھو۔‘‘ بھیرو اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ اسے اسکی سمجھ ہے کہ معاملہ کہاں سے گڑبڑ ہے اور ان کا اشارہ کدھر ہے۔ مگر بھیرو اس کیلئے تیار ہے کہ وہ جہاں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں، وہاں تبدیلی بہت مشکل ہے۔ تب تو یہ نوجوان پلیٹ فارم کہاں رہے گا،برہمن فورم ہو جائے گا۔ ’’ اس میں بھیرو ترپاٹھی نے نااہل آدمی کو چن لیا ہے۔‘‘ ایک آواز آئی۔’’ نام لے کر کیوں نہیں بتاتے کہ وہ کون ہے؟‘‘ بھیرو پھر کھڑا ہو گیا۔سناٹا بڑھنے لگا لیکن اسے توڑتے ہوئے نگینہ بولا ۔’’ ساتھیوں! میں اپنا نام واپس لیتا ہوں۔‘‘ ’’ یہ تم سے کس نے کہا؟‘‘ بھیرو چلایا۔مگر باقی لوگوں نے مخالفت نہیں کی کہ نگینہ کو اپنا نام واپس نہیں لینا چاہئے۔’’ اب بولو، اس کا نام برہمن فورم رہنے دوں؟‘‘ بھیرو نے پوچھا۔’’ ایسے تو پہچان میں آ جائے گا۔‘‘ بھیرو اپنا غصہ دبانے کی بہت کوشش کر رہا تھا۔ کافی سنجیدہ ہو کر سوچنے لگا، لوگوں میں ایسے برے خیالات کب تک زندہ رہیں گے؟ دیہات میں سیاسی شعورکتنا ضروری ہے، اسے دیکھ کر کوئی بھی لیڈر نہیں سمجھ پا رہا۔ اسے تو انتخابات کے لئے سیاست کی سازش لگتی ہے۔ طالب علموں کو برابر ڈرایا دھمکایا کہ سیاست بھلے لوگوں چیز نہیں ہے۔ جسے تھوڑی بہت سیاسی سمجھداری ہے، اسے جیل میں ڈلوا دیا جاتا ہے۔ گاؤں کے بڑے بزرگ ہنستے ہیں کہ لڑکا آوارہ ہو گیا ہے۔ آزادی کی تحریک کے دنوں میں بھی پندرہ اگست انیس سو سینتالیس سے پہلے لوگ اسی طرح ہنستے ہوں گے، مگر نوجوانوں نے ان کی بالکل پرواہ نہیں کی تھی۔ اس گاؤں کے نوجوان اتنے کاہل کیوں ہیں؟اس دن کی میٹنگ ختم ہو گئی۔ مگر دوسرے دن سے نوجوانوں میں اس پرسخت بحث رہی کہ برہمن نوجوان، مُسہر کا مددگار کیسے ہو سکتا ہے۔ کیلاش ترپاٹھی مددگار سکریٹری اور نگینہ رام جنرل سکریٹری؟ سیانوں کو بات معلوم ہوئی تو انہوں نے برہمن ٹولی کو کوسا۔ آہستہ آہستہ تمام لڑکے الگ ہونے لگے۔ جاگا پانڈے صدر تھا ،اس لئے دونوں طرف تھا۔ وہ بھیرو کے سامنے پہچان میں بھی نہیں آنا چاہتا تھا۔جاگا، بھیرو ، نگینہ، سیوک رام اور ایک چمار رکن کو چھوڑ کر باقی سب نے ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ سے استعفی دے دیا۔ کیلاش ترپاٹھی نے ہنگامہ کیا کہ بڑے پنڈت جی کالڑکا بھیرو کمیونسٹ ہو گیا ہے۔ بھیرو ،پوری برہمن ٹولی کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے ۔۔ اندرا گاندھی کو بھلے سوشلزم سے پیار ہو، لیکن ہم تو کمیونسٹ دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ گاؤں بازار کے بھلے لو گ کمیونسٹ بن رہے ہوں، مگر برہمن ٹولی کو ابھی تک یہ ہوا نہیں لگی ہے۔ جاگا پانڈے کے باپ نے’’باغی نوجوانوں‘‘ کو سمجھایا کہ نہروجی سوشلزم چاہتے ہوئے چل بسے۔ اندراجی کا سوشلزم بڑا غیر متشدد ہے، کسی کا بھی دل دُکھانے کی بات نہیں ہے۔ حکومت کسی کی زمین نہیں لے گی، جو شاستر، روایت کے مطابق چلتی رہی ہے، وہ چلتی جائے گی۔ سوشلزم میں وہی سہولتیں رہیں گی، جو کانگریس سے پہلے تھی۔ کمیونسٹ کی کیا ضرورت ہے؟’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ بنا کر بھیرو گاؤں کے لڑکوں کو تباہ کیوں کرنا چاہتا ہے؟ کیلاش ترپاٹھی نے ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کے خلاف مکمل ماحول تیار کر لیا۔ بپت چمار بھی اسی کے حق میں ہے۔ بپت کا باپ زمانے سے کیلاش کا ہل چلاتا ہے ۔۔ سسرے کی کیا مجال جو بھیرو یا نگینہ کی پارٹی میں چلے جائیں۔ اس طرح کے دباؤ کے زیرِ اثر دوچار جولاہے، لوہار بھی اس کے حق میں ہیں۔جاگا کے باپ پانڈے جی بھی کیلاش کا ہی طرفدار ہے۔ کیلاش نے ادھر نعرہ دیا کہ جو سسرے، بھیرو کے دَل میں گئے، ان کی ٹانگ کاٹ لی جائیں گی۔ کیلاش ہاتھ پاؤں سے مضبوط آدمی ہے ۔۔ تمام لڑکے اس سے خوف کھاتے ہیں۔ بھیرو نے بڑی ذلت کی بات کر دی ہے کہ نگینہ مُسہر کو اس کے اوپر جنرل سکریٹری بنا دیا ہے۔ سالا نگینہ جہاں بھی اکیلا مل جائے، سر نہ اتارا تو اصل برہمن کے بوند سے نہیں۔ ذات کے مسہر، بنیں گے جنرل سکریٹری! ۔میٹنگ کی بات جب جب کیلاش کویاد آتی ہے، خون غصے سے کھولنے لگتا ہے۔ اس کا باپ بھی تو پانڈے جی سے حیثیت میں کم نہیں ہے۔ چالیس ایکڑ زمین ہے۔ پانڈے جی کے خاندان میں جاگا ،تشدد پسند نکل رہا ہے۔ پانڈے جی، گاندھی جی کے پجاری بنے رہیں، بھیرو تو جاگا کو کمیونسٹ بنا کے چھوڑے گا۔ انہوں نے مل جل کر یہ طے کیا کہ گاؤں میں شکدیو چودھری کی تقریر نہیں ہونے دی جائیگی۔ کیلاش کو پانڈے جی نے ایک اچھا مشورہ دیا،’’ بیٹاتم دوسرا فورم کھول دو’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘، گاندھی جی کے نام سے سب ڈریں گے۔‘‘کیلاش نے چلا کر اعلان کیا،’’ اب سالوں کا گاندھی جی کے نام پر ہی مزاج کھٹّا کر دوں گا۔ ایک بار بولو، مہاتما گاندھی جی کی جے!‘‘اس نے پانڈے جی سے کہا، ’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم، میں بڑی ذاتوں کی توہین نہیں کی جائے گی۔ برہمن ہی صدر اور سیکریٹری رہے گا۔ کیلاش ترپاٹھی، صدر اور بہورن پانڈے ،سیکریٹری۔‘‘اس نے سترہ لوگوں کی کمیٹی بنائی ، گیارہ برہمن، دو ہریجن اور چار پسماندہ ذات سے لیے۔ گاندھی وادی نوجوان فارم زندہ باد، سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم مردہ باد۔ مہاتما گاندھی کی جے! وہ بپت چمار سے بولا،’’بپتا، نگینہ کو گاؤں نہیں چھوڑوا دیا تو۔۔۔‘‘’’میں تو ہر طرح سے برہمن ٹولی کیلئے تیار ہوں۔صرف چاہتا ہوں کہ میٹرک پاس کرا دیجئے۔زبان دیتا ہوں، آگے نہیں پڑھوں گا۔ آپ لوگوں کی خدمت کرتا جاؤں گا۔‘‘’’ تم لوگوں کے نصیب میں پڑھائی ٹھونس بھی دی جائے ،تب بھی عقل نہیں آ سکتی۔ ساری سہولیات ہیں، مگر سسرے تب بھی تڑپ رہے ہیں۔‘‘ کیلاش ترپاٹھی تالی مار کر ہنس رہا تھا۔’’میرے ہاتھ میں ابھی سے بھالا دیجئے، مالک!‘‘’’کا ہے خاطر سسرا؟‘‘’’ نگینہ رام کو اسی پر ٹانگ لیتا ہوں۔‘‘’’ جیو بیٹا!‘‘بپت چمار، نگینہ کو اپنا سب سے مشکل دشمن بولتا ہے۔ جب کیلاش ترپاٹھی کا ہاتھ اس کے سر پر ہے، تو کوئی بھی مائی کا لال اس کا گٹا نہیں پکڑ سکتا۔ اس نے کہا،’’شکدیو چودھری گاؤں میں آیا تو خون ہو جائے گا۔ مجھے کالج میں نہیں پڑھنا ہے کہ خوف لگے گا۔ میں رہوں گا یا نگینہ مُسہر۔‘‘بھیروناتھ ترپاٹھی کا نام، بپت اس لئے نہیں لیتا ہے کہ کچھ بھی ہو، ہے تو برہمن! اتنی جرات کہاں ہے کہ بڑی ذات والوں کی مخالفت کر سکے ۔ اندر اندر تو خوف لگتا ہی ہے کہ اس گروپ بندی میں بھیروناتھ ترپاٹھی کا نام نہ منہ سے نکل جائے۔ نگینہ کے ساتھ دشمنی سے تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اتوار کے دن بھیرو اور نگینہ کوششیں کرکر کے تھک گئے ہیں، مشکل سے میٹنگ میں سات آٹھ نوجوان شامل ہوئے ہیں اور پروفیسر شکدیو چودھری کی باتیں سن رہے ہیں، تبھی باہر سے روڑے پتھر پھینکے گئے اور کیلاش اور ان کے ساتھی ’’'سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم مردہ باد‘‘،’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم زندہ باد!‘‘ کے نعرے چیخ چیخ کرلگا رہے تھے۔کیلاش نے باہر مائیک کھڑا کیا تھا اور خود چلا رہا تھا،’’ یہ لوگ گاندھی کے، کانگریس کا دشمن ہے۔ یہ لوگ اپنے یار روس، چین کی حمایت میں ہم نوجوانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ یاد رکھیں، ہم اپنی ثقافت کو چھوڑنے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ ہماری ثقافت سے ہی ہم بڑے ہیں۔ بھارتی ثقافت زندہ باد! بھارتی ثقافت زندہ باد! بھائیوں! اس بات کو یاد رکھیں، نوٹ کر لیں، اصلی نوجوان پلیٹ فارم، گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم ہے۔ جو اصلی ہے، اس کے مندرجہ ذیل عہدیدار ہے۔ آپ کو فہرست پڑھ کر سناتا ہوں۔ مسٹر کیلاش ترپاٹھی صدر، مسٹر بہورن پانڈے سکریٹری، مسٹر پھینکا تیواری خزانچی۔ ہم نے ہر ذات کے نمائندے کو موقع دیا ہے۔ برہمن زیادہ ہیں، اس لئے انہیں زیادہ مواقع ہیں۔ ہم گاؤں کی عزت ہیں۔ نعرہ لگائیے، گاؤں کی عزت جانے نہ پائے۔ گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم زندہ باد!‘‘لیکن ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم ‘‘ کی میٹنگ چلتی رہی۔ انہیں یقیناًپتہ ہے کہ اس میں کیلاش ترپاٹھی کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ ہم لوگ آہستہ آہستہ انہیں صحیح راستے پر لائیں گے۔ ہفتے میں ایک بار ہر اتوار کو اپنی بیٹھک کرتے جائیں گے۔ جاگا پانڈے کا من الجھنوں میں پھنس گیا ہے۔ نہ صدر کا عہدہ نگلتے بنتا ہے، نہ اُگلتے۔ وہ ذہنی الجھن میں بری طرح پھنسا رہا کہ کیلاش کو کس طرح سمجھایا جائے۔ چلو، اور کچھ نہیں تو وہ بابوجی کی عزت تو کرتا ہی ہے۔ بابوجی اس کی برابر حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں۔ انہی کے مشورہ پر تو اس نے’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘کھڑا کر دیا ہے۔ وہ اچھی طرح سمجھ رہا ہو گا کہ اُس کی دلی ہمدردی اسی کے ساتھ ہے۔ یہی بہورن پانڈے بھاری لٹھ آدمی ہے۔ ذرا اسی کو سمجھانا پڑے گا کہ تمہارا دشمن میںیعنی جاگا پانڈے نہیں، بھیرو اور نگینہ مُسہر ہے۔ اگرچہ،جاگا سمجھ رہا ہے کہ بھیرو اور نگینہ بڑے صاف گو ہیں۔یہ نوجوانوں کے لئے جو بھی باتیں کرتے ہیں، اچھی لگتی ہیں۔ ان کے ساتھ دھوکہ، کتنے بڑے اعتماد کا خون ہو گا! یہ لوگ بھی جاگا کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کسی شرارت کی سوچ رکھنا تو غلط بات ہے۔ جاگا کو ایک اندرونی خوف ستا رہا ہے کہ اس نے کیلاش کا ساتھ دیا تو وہ اپنے ہی اعتماد کا خون کرے گا۔ بپت چمار، رام دیو لوہار، رحمت اللہ جلاہا سبھی گمراہ لوگ ہیں۔ جس دن ان کو اصل بات کا پتہ چل گیا، اس دن سے وہ بھی کیلاش کا ساتھ نہیں دیں گے۔ کیلاش کی وجہ سے کسی کی بیٹی بہو کی عزت مشکل ہے۔ نگینہ تلملا کر رہ جاتا ہے۔ کیلاش کو نگینہ اس لئے بھی برداشت نہیں ہو پاتا کہ نگینہ اس کی مخالفت کرتا ہے۔ کیلاش کا خون کھولتا ہیں کہ اس مُسہر کے باپ کا کیا جاتا ہے۔ بیٹی بہو جس کی خراب ہوئی، وہ تو غریب کچھ بولتا نہیں ، اس نگینہ کو کیا ہو جاتا ہے؟ مُسہرِن8 کو وہ چھو کر سکتا تو کوئی مُسہر ٹولی میں بھی بچتی کیا؟ اتنے میں ہی لڑکوں نے پھرعہد لیا کہ ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘کی بیٹھک مخالفت کے باوجود کرتے جانا ہے۔ پروفیسر شکدیو چودھری ان کے گھر میں برابر آئیں گے۔باہر کیلاش اور ان کے ساتھی چلا چلاکر تھک گئے۔ ان پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ کیلاش ،بپت اور دیگر ساتھیوں سے بول رہا تھا۔’’بھیرو اور نگینہ کو ایک ہفتے کے اندر مار کر خراب نہیں کیا تو برہمن نہیں!‘‘اس کے بعد سے مخالفانہ انداز میں مواقع تلاش کر رہا ہے، کوئی تو مل جائے۔ چاہے نگینہ، چاہے بھیرو۔ دونوں دھرم کے قاتل ہیں۔زیادہ تر بھیرو اکیلے سائیکل سے کالج نکل جاتا ہے اور نگینہ پیچھے سے پیدل پہنچتا ہے۔ مگر کالج سے لوٹتے وقت بھیرو کبھی نگینہ کو نہیں چھوڑتا۔ کیلاش نے بپت چمار کو للکار دیا ہے کہ نگینہ رام کو جہاں کہیں بھی دیکھو، سر اتار لو۔ اسے یہ فکر پھر کھائے جا رہی ہے کہ باپ نے بندوق کا لائسنس ابھی تک نہیں کروایا۔ بندوق ہوتی تو تشویش کی بات نہیں ہوتی۔ ساری مُسہر ٹولی کو اڑا دیتا۔ کہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔نہ تھانہ، نہ اسمبلی، کہیں نہیں۔ گاؤں میں اور بھی کئی بندوقیں ہیں، پر کیلاش کے پاس نہیں ہے۔ کیلاش چھوٹی ذات والوں کا،خاص کر مُسہروں کا شدید مخالف ہے۔مُسہروں کو آدمی نہیں کہتا ہے۔ مُسہر پالکی ڈھوتے ہیں، چار آدمیوں کی جگہ ایک مُسہر۔ تب کوئی مُسہر آدمی کیسے ہے؟ نگینہ آدمی نہیں ہے۔ مار دے تو کیا تکلیف ہوگی؟ مُسہر چوہے سے پیدا ہے، جیسے بندر سے آدمی ہوا ہے۔ کیلاش کو فوری طور خیال آیا ہے۔ اپنے ’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کی بھی میٹنگ بلائی جائے اور بحث کا موضوع رہے ۔’’ مُسہر آدمی ہوتا ہے یا جانور؟‘‘ جو جانور کے حق میں ہیں، وہ ہمارے ہوئے اور جو اس کے مخالف ہیں، وہ بھیرو کے۔’’مگر نگینہ نے آدمی کے حملے کا، جانور کی طرح جواب دیا تب کیا ہوگا؟‘‘ اس نے بپت چمار سے پوچھا۔’’میں بھی چمار ہوں۔‘‘’’بھاگ، سسرا!‘‘کیلاش اس کی حماقت پر ہنسا۔ اس کے دماغ میں یہ بات برابر موجود رہی ہے کہ اگر بپت کے ہاتھوں بھیرو کو تھوڑی بھی کہیں چوٹ آئی تو برہمن ٹولی میں بدنامی ہوگی۔ لوگ اسلحہ اٹھا اٹھا کر کہنے لگیں گے۔’’کیلاش نے برہمن کے لڑکے کو چمار سے پٹوا دیا۔‘‘ لہذا نگینہ کی خبر لینا ضروری ہے۔ اس کا اثر بھیرو پر پڑے گا اورڈر جائے گا۔ پھر اس کی ہمت نہیں ہو سکتی ہے کہ گاؤں میں کوئی دوسری حرکت کرے۔ بزرگ کیلاش کے اقدامات کی تعریف ہی کریں گے۔’’ میں تو جان لے لوں گا نگینہ کی۔‘‘ بپت بولا،’’مہاتما گاندھی کے خلاف فورم بنا کر بھی کوئی جیت سکتا ہے؟میں آج اکیلے دونوں کو دیکھ لوں گا۔‘‘’’ابھی بھیرو نہیں، نگینہ۔ اس میں بدنامی کا ڈر ہے۔‘‘انہوں نے سائیکل آم کے درخت سے لگا دی اور دونوں سڑک سے اتر کر جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھ گئے۔’’وہ لوگ آ رہے ہیں۔‘‘ بپت نے سرگوشی کی۔’’چپ، حرامی کہیں کا!‘‘بپت خاموش سے اٹھا۔ اس نے بھیرو کی سائیکل پیچھے سے پکڑ کر الٹ دی اور نگینہ کے سینے پر بیٹھ کر کھجور کی چھڑی سے پیٹنے لگا۔ بھیرو نے بپت کی گردن پکڑ لی اور جوتے کی نال سے اس کا جبڑے دبا دیا۔ نگینہ کے جسم سے کافی خون نکل رہا تھا، مگر اس نے خون کو بھول کر کیلاش کو پکڑ لیا اور بے رحم ہو کر اتنا مارنے لگا کہ خود تھک گیا۔ کیلاش کے مار کھانے سے بپت کی ہمت بالکل ٹوٹ گئی۔ وہ کیلاش کو اپنی سائیکل پر بیٹھا کر گاؤں کی طرف بھاگنے لگا۔’’جاؤ، سالے۔ بھاگ رہے ہو، ورنہ جان لے لیتا۔‘‘ بھیرو چیخ کر بولا۔’’ نگینہ برہم ہتیالگے گی سالے! تم نے تشدد کیا ہے۔‘‘ بھیرو ترپاٹھی کو للکارا ہے۔ میں نے بپتا کو کہہ دیا تھا کہ بھیرو کو مت مارنا۔متشدد اور جانوربھیرو کو لاج نہیں آئی کہ برہمن ایک مُسہر کے ہاتھوں مار کھا رہا ہے۔‘‘ان کے جانے کے بعد نگینہ نے پوچھا،’’ اب کیا ہوگا بھیرو بابا؟ اب تو مُسہروں کا گاؤں کے پاس رہنا مشکل ہو جائے گا۔ میرے چلتے سبھی پریشانی برداشت کریں گے۔‘‘’’ ہمت رکھو، نگینہ۔‘‘ ’’ سو تو رکھنی پڑے گی۔‘‘’’تب کیا بات ہے؟‘‘ ’’کیلاش شیطان ہے،ہمارا نمبر ون دشمن!‘‘’’ مگر گاؤں کے سبھی تو ایسے نہیں ہیں۔‘‘’’ مجھے ڈر نہیں لگتا۔ مگر چوبیس سالوں کی آزادی نے کتنے صحیح لوگوں کو پیدا کیا ہے؟‘‘وہ لوگ جب گاؤں پہنچے تو مُسہر ٹولی میں آگ لگی ہوئی تھی اور سبھی بچے، عورتیں، مرد چلاتے ہوئے گاؤں چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔ نگینہ رام اور بھیرو ترپاٹھی، بہت اونچے طوفان کو سینے کے اندر روک کر گاؤں کے کنارے پر رکے ہوئے تھے۔***

:مصنف مدھوکر کا تعا رف    

مدھوکر سنگھ۔ پیدائش: ۲ جنوری ۱۹۳۴ء میدان: ناول، کہانی،

شاعری، ڈرامہ،بچوں کا ادب۔ ان کی کچھ اہم تخلیقات:ناول: سون بھدر کی رادھا، سب سے

بڑا چھل، سیتارام نمسکار، جنگلی سور، منبودھ بابو، اُتّرگاتھا، بدنام، بے مطلب

زندگیاں،اگنی دیوی، دھرم پور کی بہو، ارجن زندہ ہے، سہدیورام کا استعفی، کتھا کہو

کنتی مائی، سمکال۔کہانیوں کے مجموعے:پورا سناٹا، بھائی کا زخم، ہریجن سیوک، پہلا

پاٹھ، اساڑھ کا پہلا دن، مائیکل جیکسن کی ٹوپی، پاٹھ شالہ۔ڈرامہ: لاکھو، صبح کے

.لئے، بابو جی کا پاس بک، قطب بازار۔گیتوں کا مجموعہ : رک جا بدرا۔ انتقال:۱۵

جولائی،۲۰۱۴ ء میں

ہو ،آرا (بہار) سے تعلق تھا


دیدبان شمارہ ۔۷

لہو  پکارے آدمی

تخلیق : مدھوکر سنگھ

ترجمہ : عامرصدیقی

مدھوکر سنگھ۔پیدائش: ۲ جنوری ۱۹۳۴ ؁ ء۔میدان: ناول، کہانی، شاعری، ڈرامہ،بچوں کا ادب۔ کچھ اہم تخلیقات:ناول: سون بھدر کی رادھا، سب سے بڑا چھل، سیتارام نمسکار، جنگلی سور، منبودھ بابو، اُتّرگاتھا، بدنام، بے مطلب زندگیاں،اگنی دیوی، دھرم پور کی بہو، ارجن زندہ ہے، سہدیورام کا استعفی، کتھا کہو کنتی مائی، سمکال۔کہانیوں کے مجموعے:پورا سناٹا، بھائی کا زخم، ہریجن سیوک، پہلا پاٹھ، اساڑھ کا پہلا دن، مائیکل جیکسن کی ٹوپی، پاٹھ شالہ۔ڈرامہ: لاکھو، صبح کے لئے، بابو جی کا پاس بک، قطب بازار۔گیتوں کا مجموعہ : رک جا بدرا۔ انتقال:۱۵ جولائی،۲۰۱۴ ؁ ء ،آرا (بہار)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ترپاٹھی جی کا لڑکا بھیروناتھ آج کی دنیا میں بھی کالج پیدل جاتا ہے۔ جن کی حیثیت ہے ،وہ تو شہر میں ہی رہتے ہیں۔ سری پور کے باقی لڑکوں کے پاس سائیکلیں ہیں۔ گاؤں سے نکلتے ہی اکثر بھیرو کی سڑک پر یا کچھ دور آگے نکل آنے پر نگینہ سے ملاقات ہوتی ہے۔ سائیکل سوار لڑکے بھیرو ترپاٹھی سے مذاق کرتے ہیں، پنڈت جی کے کرم میں نگینہ مُسہر ہے۔ سن اکہتر کی آخری تاریخ تک ضلع بھرسے ایک ہی مُسہر کالج میں داخل ہواہے اور بی اے فائنل ایئر کا طالب علم ہے۔ اپنے ہم جماعتوں سے بچ کر چلنا ہی اسے اچھا لگتا ہے۔ انہیں دیکھ کر درخت کے پیچھے یا جھاڑیوں میں یا کھیتوں میں اتر جاتا ہے۔ جب ان کی سائیکلیں دور نکل جاتی ہیں، تب نگینہ سڑک پر آتا ہے۔ تاہم، ان کی چھیڑ چھاڑ کا اثر اب اس کے اوپر نہیں ہوتا۔ شروع شروع میں اسکول میں اسے خاصی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مخالفت،برداشت سے باہر ہوئی تھی۔ گاؤں کا اسکول چھوڑ کر شہر جانا پڑ گیا تھا۔آوارہ گردی، لوٹ مار، راہزنی، چوری چکاری جیسی وارداتیں عام طور پر ہوتی رہتی ہیں ۔ نگینہ کو ہر بار اس میں پھنسانے کی کوشش ہوتی۔لیکن وہ بال بال بچ جاتا ہے اور خوف کے مارے کانپنے لگتا ہے۔ بھیروناتھ ترپاٹھی کے ساتھ جب سے اس کی دوستی ہوئی ہے، حوصلے مسلسل بلند ہوتے رہے ہیں ۔ برہمن لڑکے کے ساتھ اس کی دوستی ہے۔برہمن اور مُسہر کی دوستی عجوبہ بات بن گئی ہے۔ بھیرو کہتا ہے،’’سائیکلیں دونوں کے پاس نہیں ہیں، بزرگوں کے پاس سائیکل خریدنے کا دام نہیں ہے۔‘‘اس لئے نگینہ رام مُسہر اور بھیروناتھ ترپاٹھی ایک ساتھ چلنے پر مجبور ہیں اور چھ میل کی دوری دوسراہٹ میں کٹ جاتی ہے۔ اب تو سبھی لوگ ہنستے ہیں کہ مُسہر کے ساتھ رہتے رہتے، برہمن کی عقل بھی مُسہر ہو گئی ہے۔ مگر بھیرو پنڈت کی فکر کچھ دوسری ہے۔ فرسٹ کلاس آنی بھی ہوگی تو نہیں آئے گی ۔ یونیورسٹی میں ہیڈ کی ذات کا ہی لڑکا فرسٹ آتا ہے، پڑھ کر فرسٹ کلاس آنے والے کا زمانہ نہیں ہے۔ نگینہ کیلئے تو یہ سارے واقعات اور بھی عجیب ہیں۔اپنی ذات کا ہیڈ تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ اپنے بارے میں بھیرو کی طرح تصور کرنے کا لمحہ کب آئے گا؟ اپنے یہاں مُسہر سے چھوٹی کوئی ذات نہیں ہوتی ہے ۔۔ سور کو اور مُسہر کو کوئی ایسا جانور نہیں سمجھا جاتا، جس پر رحم کیا جائے۔ تمام ذاتوں کو اس پر رعب جمانے کا حق ہے۔ دونوں کی کاٹھی ایک طرح کی ہے۔ گاؤں میں لوگ سامان ڈھونے کا کام بیل اور مُسہر سے لیتے ہے۔ نگینہ کا کالج جانا ،سب کیلئے اتنا ہی حیران کن واقعہ ہے، جتنا ایک جانور کا آدمی بن جانا۔ ترپاٹھی جی کو لوگوں نے بہت سمجھایابجھایا ۔’’پنڈت جی ، بھیرو کو سمجھا دو، مُسہرچمار کی سنگت چھوڑ دے۔ برہمن کے گاؤں میں اگر ایسی بات ہو تو سب کی بدنامی ہوتی ہے۔‘‘ترپاٹھی نے صاف سنا دیا،’’ کھانے پینے میں ذات اٹھ گئی تو باقی کیا رہا؟ اب تو شادی بیاہ میں بھی کوئی نہیں پوچھتا، میرا لڑکا گھر سے پیدل جاتا ہے۔ تمہارے لڑکے اس کے ساتھ پیدل جانے کیلئے تیار ہیں؟ میرے پاس سائیکل خریدنے کا دام نہیں ہے تو خرید دوگے کیا؟‘‘لوگوں نے غور کیا، برہمنوں کی عزت کا سوال ہے۔ اس سال ہولی میں دروازے پر لونڈوں کا ناچ نہیں ہوگا، ترپاٹھی جی کے لڑکے کیلئے چندہ جمع کرکے سائیکل خرید ی جائے گی۔ برہمن اور بھُکّڑ کو دان کرنے سے ثواب ہی ہوتا ہے۔ اس ثواب میں گاؤں بھر کا حصہ رہے گا۔ سب کی چھاتی چوڑی ہوگی۔ نئی سائیکل پر چڑھ کر جاتے ہوئے بھیرو کو نگینہ دور سے دکھائی دیا تو وہ اتر گیا اور بولا،’’آؤ نگینہ، تم آگے بیٹھ جاؤ۔‘‘’’نہیں بھیرو بابا، لوگ دیکھیں گے، تو کیا کہیں گے؟ میں سائیکل چلانا جان جاتا تو تم آگے بیٹھتے اور میں چلاتا۔ اس کا اثر میرے باپ پر پڑے گا۔ کہیں مُسہر ٹولی پر آفت نہ آ جائے!‘‘بھیرو کا ماتھا جھنجھنا گیا۔ اس نے کہا،’’تمہارے لئے کالج میں، میں چندہ کروں گا۔‘‘’’ مگر اُس سائیکل پر میں گاؤں کیسے آ سکتا ہوں؟‘‘’’ گاؤں والوں سے ہم دونوں نمٹ لیں گے۔صرف اپنے دل سے یہ خیال نکال دو۔‘‘’’ چندہ کوئی دے گا؟‘‘’’ یونین سے ابھی تمہارا رابطہ نہیں ہے۔ ہم لوگ تیس مارچ سے ہڑتال پر جا رہے ہیں۔ ایک غلط اور نکمّے لڑکے کو امتحان میں چوری کرا کر فرسٹ کلاس دے دیا گیا ہے۔ وائس چانسلر کے گھیراؤ میں تم بھی رہنا۔‘‘نگینہ کو سائیکل اور گاؤں جیسی چیزوں سے ہٹ کر، بھیرو کے ساتھ ایسی باتوں سے کچھ طاقت محسوس ہوتی ہے۔’’ یونین کا ممبر میں بھی بنوں گا، بھیرو بابا۔‘‘’’ تم کو اپنے سیکریٹری سے ملاؤں گا، اجے سنگھ، ہیرا آدمی ہے۔‘‘’’ ہمارے ساتھ پڑھتا ہے؟‘‘’’ابھی تو دوسرے سال کا طالبِ علم ہے۔‘‘کبھی اسکی تقریر سنی؟‘‘’’ آگ اگلتا ہے، آگ۔‘‘’’تم چلو۔ میں پیدل دوڑ کر آ جاتا ہوں۔‘‘بھیرو کو نگینہ کے ایسے جوش و خروش سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ سائیکل چلاتے وقت لگتا ہے، لوہے کی سلاخوں پر بیٹھا ہے۔ اگر لڑکے سائیکل کے بارے میں پوچھیں گے تو کیا بتائے گا۔ ان سے کہے گا کہ گاؤں والوں نے مل جل کر خریدی ہے؟ مُسہر کے ساتھ دوستی کی یہی سزا ہے؟ وہ اپنی کلاس میں نہیں گیا بلکہ سیدھا اجے سنگھ کی کلاس میں جا پہنچا۔ اس نے کہا،’’ اجے سنگھ! گاؤں کی روایات میرا قتل کرنا چاہتی ہیں۔‘‘ اس نے اجے کو ساری باتیں بتا دی۔ اجے بولا۔’’ تم بیوقوف ہو بھیرو بھائی، ان سے کہو، نگینہ سائیکل سے چلنے پر دِکھ جاتا ہے۔ موٹر سائیکل خرید دو تو خوب تیز چلاؤں گاتا کہ نگینہ پر کہیں نظر نہ پڑے۔‘‘بھیرو کو ہنسی آ گئی،’’ سری پور کے لوگ بڑے عجیب ہیں۔‘‘’’ہر گاؤں کے لوگ عجیب ہوتے ہیں۔‘‘’’ چھٹی کے دن میں تمہیں نگینہ سے ملاؤں گا۔ گیارہ چالیس سے ہماری کلاس ہے۔ اس وقت تک ضرور آ جائے گا۔‘‘’’شام کو تم دونوں میٹنگ میں ضرور آنا۔‘‘بھیرو اپنے گاؤں کے ہر لڑکے کو میٹنگ میں لانا چاہتا ہے۔ شاید ان کا دماغ بدل جائے۔ بڑے چھوٹے کا زہر زیادہ دور تک نہیں گھسے۔ راستے بھرآوارہ گردی کرتے ہیں، کیاکوئی بھی انہیں طالب علم کہہ سکتا ہے؟ بھیرو کی باتیں سن کر ساتھیوں نے مذاق اڑایا،’’ یہ بھیروناتھ ترپاٹھی ،گاندھی مہاتما کا اوتار ہے۔ ایک بار بول، گاندھی مہاتما کی جے۔‘‘ بھیرو نے جاگا پانڈے سے پوچھا ،’’پڑھ لکھ کر کیا کرو گے؟‘‘’’ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس میٹنگ میں سیاست ہوگی۔‘‘’’کیسی سیاست؟ ‘‘’’ اجے سنگھ کو امتحان میں فرسٹ کلاس دلانا ہوگا۔‘‘’’ یونیورسٹی میں ذات پات ٹھیک ہے؟‘‘’’ مگر چھوٹے کوماتھے پر چڑھانا بھی تو ٹھیک نہیں ہے۔‘‘’’ کیسی بات کرتے ہو! ۔ ہڑتال کے دن ہم مزے اڑائیں گے ، کالج نہیں آئیں گے۔ بازار میں اپنی پسند کی چیزیں لوٹیں گے۔بھیروا ناتھ ترپاٹھی زندہ باد!‘‘’’ کوئی پرواہ نہیں، گاؤں سے نگینہ اور بھیرو ہی رہیں گے۔‘‘اس نے نگینہ سے مشورہ کیا،’’ ہم لوگ گاؤں میں نوجوانوں کاایک ادارے بنائیں گے، کمیونسٹ، سوشلسٹ،لکھاری، محقق۔‘‘’’سبھی صحیح سمجھ والے لوگوں سے خطاب کرائیں گے۔ تعلیم کتنی کھوکھلی ہے، بھیرو بابا! ہم کیسے برداشت کر رہے ہیں؟‘‘’’اس غلیظ حالت کے خلاف نوجوان کہاں تیار ہیں؟‘‘’’دلی، الہ آباد،سبھی بڑی یونیورسٹیوں میں آغاز صحیح ہی ہوتا ہے، مگر اس جنگ کو بہت غلط موڑ دیا جاتا ہے۔ آگے چل کر یونین ان سے مل جاتی ہے یا گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔‘‘اجے سے ملاقات کے بعد نگینہ کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ اس نے نگینہ کو کچھ کتابیں دی ہیں۔ نگینہ نے ان کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ یہ کیسی تعلیم ہے؟ لیکچرار بھی یا تو ان کتابوں کا نام تک نہیں جانتے یا پھر لڑکوں کو بتانا نہیں چاہتے۔ لوٹتے ہوئے راستے بھر دونوں کے منصوبے بنے۔ نگینہ سائیکل پر آگے بیٹھا ہے۔ اندھیرے کی وجہ سے سڑک صاف نظر نہیں آتی۔ مگر ٹرکوں کی مسلسل آمدورفت سے ان کی باتیں رک جاتی ہیں اور دماغ کو جھٹکا لگتا ہے۔ ان دنوں گاؤں میں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے زمین کی تحریکیں چل رہی ہیں، جہاں بے زمین اس سے آگاہ ہیں، وہاں قبضہ کر رہے ہیں۔ سری پور میں برہمن، چمار، مُسہر، اہیر،کُرمی، ایک آدھ گھر لوہار اور جولاہے ہیں۔ برہمن کے علاوہ دو چار گھر چماروں کے پاس بھی بھی کھیتی ہے۔ مگر ایسا کوئی بھی آدمی نہیں ہے، جس کے پاس پچاس ایکڑ سے زیادہ ہو۔جاگا پانڈے کے باپ کی صرف پچیس ایکڑ زمین ہے، مگر ترپاٹھی جی کے پاس ایک انچ بھی نہیں ہے۔ دادا کے زمانے کا مٹی کا ایک گھر ہے۔ بھیرو کا اس مکان میں رہتے رہتے جی اُوب کیا گیا ہے۔ وہ تبدیلی ضرور چاہتا ہے، لیکن ایسا کیسے ممکن ہے؟ ترپاٹھی کی آنکھ کے سامنے والے گڑھے پر ہے ۔’’دو تین ایکڑ سے کم نہیں ہے۔ بے زمین ہونے کی وجہ سے شاید انہیں بھی ملے۔ تب جم کر کھیتی بھی ہوگی اور مٹی کی جگہ اینٹوں کا مکان بھی بن جائے گا۔ تب ترپاٹھی جی خود ہل چلائیں گے۔ دیکھتے ہیں، کون مائی کا لال ہے جو کہتا ہے کہ برہمن ہو کر ہل مت چلاؤ۔ ایسی مخالفت کرنے والے سے جنگ کرے گا۔‘‘جاگا پانڈے کے پاس تو بڑی بڑی سہولیات ہیں۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پانڈے جی کی زمین میں کیسے اضافہ ہوا ہے۔ ادھر ادھر ہاتھ مار کے اور گندے شیطانی کام کرنے کے بعد کچھ حیثیت والے اور مالدار بنے ہیں۔ گووند چمار اوربیمانی کے بعد دیولال اہیر کا سارا کھیت ہڑپ لیا ہے۔ گاؤں کا کھوبھاڑی لال سالوں سے سرکاری وزیر ہے، جاگا کی نوکری کیلئے پانڈے جی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ امتحان نہیں بھی دے گا تو پاس کر جائے گا اور نوکری لگے گی۔ وہ کھوبھاڑی لال کو ہریجن ماننے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ ان کی رائے میں ذات پات، شاستر دھرم کی چیز ہے، مگر کھوبھاڑی بابو کو ایشورنے نیا جنم دیا ہے۔ پانڈے جی چماروں کے کان کھڑے کئے رہتے ہیں کہ’’ تیتر مُسہر کا لونڈا نگینہ کچھ ہو گیا تو کھوبھاڑی بابو کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ اندر اندر اپنی لڑائی مُسہر ٹولی کے خلاف تیز رکھو۔مُسہر تم سے چھوٹی ذات کا ہے۔‘‘ترپاٹھی کو اپنے لڑکے کو لے کر بڑی تشویش ہے۔ لڑکا ہی کیوں، پورے خاندان کو ہی لے کر فکرات ہیں۔ پچھلے سال انہوں نے بیٹی کا بیاہ کیا تو پانڈے جی ہنس رہے تھے،’’ بَڑھیا لڑکا نہیں ملا تو پروہت کا کام کرنے والے سے کر دیا۔یجمانی بھی کوئی نوکری ہے؟‘‘ ترپاٹھی جی نے غصے میں گالی دے دی تھی،’’ سالے کو دھن کا گھمنڈ ہے، آنے دو سماج واد۔ آنکھ کاڑھ لوں گا، ہنسی اڑاؤگے تو۔‘‘سب نے پانڈے جی کو سمجھایا،’’ترپاٹھی جی بزرگ آدمی ہیں،معاف کر دیجئے۔ گاؤں جوار کے پروہت اور باپ دادا کے داکِھل ہیں۔‘‘ مگر پانڈے جی نے دوبارہ گالی دے ہی دی تھی،’’سالے کو دم نہیں، گمان سنگھ نام!‘‘بھیرو ،جاگا پانڈے سے زیادہ الجھنا نہیں کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے حق میں ہے کہ گاؤں کے نوجوانوں کی میٹنگ میں، جاگا بھی اپنی رائے کا اظہار کرے۔ کھوبھاڑی لال ہائی اسکول اسی کے باپ کا ہے۔ کیا جاگا وہاں میٹنگ کرنے دے گا؟ نگینہ کو گاؤں کے اسکول چھوڑ کر شہر میں پڑھنا پڑا ہے۔ پانڈے جی چاہتے تو کیا نگینہ گاؤں کا اسکول چھوڑ کر باہر جا سکتا تھا؟ تیتر مُسہر حرام زادہ ہے۔ فیس معاف، اسکول کی کتابیں مل ہی جاتی ہیں۔ حکومت وظیفہ دیتی ہی ہے۔ اب کیا چاہئے ۔۔۔ گھنٹا؟ تیتر مُسہر بولا،’’گھنٹا نہیں بابا، مالک لوگ کبھی نگینہ کو گالی دیتے ہیں۔ کبھی مار دیتے ہیں۔ پانڈے جی جھنجھلا کرگالی نہیں دیں تو کیا نگینہ چندن ہے کہ پیشانی پر لگائے پھریں؟‘‘’’ پانڈے جی کو ہم لوگ اپنے ادارے کا صدر بنا دیں۔‘‘بہت غور کرنے کے بعد بھیرو سے نگینہ نے کہا،’’دھت! نوجوانوں کا ادارہ اور بوڑھا ہمارا صدر بنے گا؟ چھی!‘‘ بھیرو ہنسنے لگا ۔’’ہم جاگا کو بھلے صدر مان لیں، مگر اس کا باپ تو سب نوجوانوں کو ہضم کر جائے گا۔‘‘’’ ادارے کا نام سوچا ہے؟‘‘’’ میں نے تو سوچا ہے، اجے سنگھ سے بھی رائے لی ہے۔ ’ترقی پسند نوجوانوں کا پلیٹ فارم‘ سے’ سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘اگلے اتوار کو بھیرو نے سری پور کھوبھاڑی لال ہائی اسکول میں طالب علموں، ان پڑھ بے روزگار، ذات، پرجات ،تمام نوجوانوں کا ایک اجلاس بلایا اور’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کا اعلان کر دیا۔ جب اس کے عہدیداروں کے انتخابات کی بات آئی تو زیادہ تر نوجوانوں کی رائے یہ تھی کہ اس کی ذمے داری بھیروناتھ ترپاٹھی کو سونپ دی جائے۔ نگینہ اور ہریجن ٹولی کے لڑکے ہر بات کی حمایت میں بس ہاتھ اٹھا دیتے تھے۔ انہیں گاؤں میں ایک ساتھ بیٹھ کر میٹنگ کرنے کا پہلی بار موقع ملا تھا۔ بھیرو کہنے لگا،’’ پڑھے لکھے اور ہماری پیڑھی کے لوگوں میں ذات پات، لڑائی جھگڑا شرم کی بات ہے۔ ہم گاؤں میں ایسا پلیٹ فارم چاہتے ہیں جہاں سے ہمارے شعور کی ترقی ہو۔ ہم نئے خیالات اور روایات کے ساتھ چل سکیں، نوجوانوں کو ادھر مڑ کر بالکل نہیں دیکھنا ہے، جہاں خود غرضی، نفرت اور بغض کی چنگاریاں سلگ رہی ہوں، بلکہ ہم لوگ مل جل کر اسے ہمیشہ کے لئے بجھا دیں گے، ہم نے عہدیداروں کو منتخب کر لیا ہے۔ تم لوگ کہو تو نام سنا دوں؟‘‘’’نام جلدی سنا دو۔‘‘، زیادہ تر نوجوانوں نے آواز لگائی۔ بھیرو نے نام پڑھنا شروع کئے،’’جاگا پانڈے۔صدر، بھیروناتھ ترپاٹھی۔نائب صدر،نگینہ رام مُسہر۔جنرل سکریٹری، کیلاش ترپاٹھی ۔ سکریٹری، سیوکراموی شوکرمی۔خزانچی، ان کے علاوہ سات افراد کی ایک ورکنگ کمیٹی ہے۔ کسی کو اعتراض ہو تو ابھی ہاتھ اٹھا دو۔ ہم ہر طرح سے ردّوبدل کرنے کیلئے تیار ہیں۔‘‘ایسا سناٹا رہا، جیسے کہیں غلط کام ہوا ہے اور اچانک دھماکا ہوگا۔’’اگر تم لوگ کچھ نہیں بول رہے ہو تو میں مان لیتا ہوں کہ تم سب راضی ہو۔میری الگ سے تجویز ہے کہ ہماری دوسری میٹنگ میں بحث کا موضوع ر ہے گا’’ بے روزگاری اور زمین کی مرکزیت‘‘۔ پروفیسر شُکدیو چودھری صدارت کریں گے۔ ان کے ساتھ اجے سنگھ بھی آئے گا۔ بولو، کسی کو اعتراض ہے؟‘‘جاگاپانڈے کھڑا ہو گیا اور بولا۔’’ شکدیو چودھری ،ہریجن ہیں سوچ لو، یہاں کے لوگ برداشت کریں گے؟ ‘‘’’جاگا، تمہارا دماغ خراب ہے، کسی کی رائے بھی نہیں سن سکتے، اچھا ،نام تم ہی کیوں نہیں تجویز کرتے؟‘‘بھیرو غصے میں تھا۔’’ اس میں خرابی شروع ہو رہی ہے۔‘‘’’ انتخاب پر پھر سے غور کیا جائے۔‘‘ اچانک جاگا کی مخالفت کے ساتھ ہی اس کی حمایت میں درجنوں آوازیں آئیں، یہاں تک کہ ہریجن نوجوانوں نے بھی مشین کی طرح ہاتھ اٹھا کر سر ہلا دیا۔’’ سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم،سے گیتا کا پروچن کرانا چاہتے ہو،کراؤ۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ مگر مقصد کا بھی خیال رکھو۔‘‘ بھیرو اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ اسے اسکی سمجھ ہے کہ معاملہ کہاں سے گڑبڑ ہے اور ان کا اشارہ کدھر ہے۔ مگر بھیرو اس کیلئے تیار ہے کہ وہ جہاں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں، وہاں تبدیلی بہت مشکل ہے۔ تب تو یہ نوجوان پلیٹ فارم کہاں رہے گا،برہمن فورم ہو جائے گا۔ ’’ اس میں بھیرو ترپاٹھی نے نااہل آدمی کو چن لیا ہے۔‘‘ ایک آواز آئی۔’’ نام لے کر کیوں نہیں بتاتے کہ وہ کون ہے؟‘‘ بھیرو پھر کھڑا ہو گیا۔سناٹا بڑھنے لگا لیکن اسے توڑتے ہوئے نگینہ بولا ۔’’ ساتھیوں! میں اپنا نام واپس لیتا ہوں۔‘‘ ’’ یہ تم سے کس نے کہا؟‘‘ بھیرو چلایا۔مگر باقی لوگوں نے مخالفت نہیں کی کہ نگینہ کو اپنا نام واپس نہیں لینا چاہئے۔’’ اب بولو، اس کا نام برہمن فورم رہنے دوں؟‘‘ بھیرو نے پوچھا۔’’ ایسے تو پہچان میں آ جائے گا۔‘‘ بھیرو اپنا غصہ دبانے کی بہت کوشش کر رہا تھا۔ کافی سنجیدہ ہو کر سوچنے لگا، لوگوں میں ایسے برے خیالات کب تک زندہ رہیں گے؟ دیہات میں سیاسی شعورکتنا ضروری ہے، اسے دیکھ کر کوئی بھی لیڈر نہیں سمجھ پا رہا۔ اسے تو انتخابات کے لئے سیاست کی سازش لگتی ہے۔ طالب علموں کو برابر ڈرایا دھمکایا کہ سیاست بھلے لوگوں چیز نہیں ہے۔ جسے تھوڑی بہت سیاسی سمجھداری ہے، اسے جیل میں ڈلوا دیا جاتا ہے۔ گاؤں کے بڑے بزرگ ہنستے ہیں کہ لڑکا آوارہ ہو گیا ہے۔ آزادی کی تحریک کے دنوں میں بھی پندرہ اگست انیس سو سینتالیس سے پہلے لوگ اسی طرح ہنستے ہوں گے، مگر نوجوانوں نے ان کی بالکل پرواہ نہیں کی تھی۔ اس گاؤں کے نوجوان اتنے کاہل کیوں ہیں؟اس دن کی میٹنگ ختم ہو گئی۔ مگر دوسرے دن سے نوجوانوں میں اس پرسخت بحث رہی کہ برہمن نوجوان، مُسہر کا مددگار کیسے ہو سکتا ہے۔ کیلاش ترپاٹھی مددگار سکریٹری اور نگینہ رام جنرل سکریٹری؟ سیانوں کو بات معلوم ہوئی تو انہوں نے برہمن ٹولی کو کوسا۔ آہستہ آہستہ تمام لڑکے الگ ہونے لگے۔ جاگا پانڈے صدر تھا ،اس لئے دونوں طرف تھا۔ وہ بھیرو کے سامنے پہچان میں بھی نہیں آنا چاہتا تھا۔جاگا، بھیرو ، نگینہ، سیوک رام اور ایک چمار رکن کو چھوڑ کر باقی سب نے ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ سے استعفی دے دیا۔ کیلاش ترپاٹھی نے ہنگامہ کیا کہ بڑے پنڈت جی کالڑکا بھیرو کمیونسٹ ہو گیا ہے۔ بھیرو ،پوری برہمن ٹولی کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے ۔۔ اندرا گاندھی کو بھلے سوشلزم سے پیار ہو، لیکن ہم تو کمیونسٹ دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ گاؤں بازار کے بھلے لو گ کمیونسٹ بن رہے ہوں، مگر برہمن ٹولی کو ابھی تک یہ ہوا نہیں لگی ہے۔ جاگا پانڈے کے باپ نے’’باغی نوجوانوں‘‘ کو سمجھایا کہ نہروجی سوشلزم چاہتے ہوئے چل بسے۔ اندراجی کا سوشلزم بڑا غیر متشدد ہے، کسی کا بھی دل دُکھانے کی بات نہیں ہے۔ حکومت کسی کی زمین نہیں لے گی، جو شاستر، روایت کے مطابق چلتی رہی ہے، وہ چلتی جائے گی۔ سوشلزم میں وہی سہولتیں رہیں گی، جو کانگریس سے پہلے تھی۔ کمیونسٹ کی کیا ضرورت ہے؟’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ بنا کر بھیرو گاؤں کے لڑکوں کو تباہ کیوں کرنا چاہتا ہے؟ کیلاش ترپاٹھی نے ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کے خلاف مکمل ماحول تیار کر لیا۔ بپت چمار بھی اسی کے حق میں ہے۔ بپت کا باپ زمانے سے کیلاش کا ہل چلاتا ہے ۔۔ سسرے کی کیا مجال جو بھیرو یا نگینہ کی پارٹی میں چلے جائیں۔ اس طرح کے دباؤ کے زیرِ اثر دوچار جولاہے، لوہار بھی اس کے حق میں ہیں۔جاگا کے باپ پانڈے جی بھی کیلاش کا ہی طرفدار ہے۔ کیلاش نے ادھر نعرہ دیا کہ جو سسرے، بھیرو کے دَل میں گئے، ان کی ٹانگ کاٹ لی جائیں گی۔ کیلاش ہاتھ پاؤں سے مضبوط آدمی ہے ۔۔ تمام لڑکے اس سے خوف کھاتے ہیں۔ بھیرو نے بڑی ذلت کی بات کر دی ہے کہ نگینہ مُسہر کو اس کے اوپر جنرل سکریٹری بنا دیا ہے۔ سالا نگینہ جہاں بھی اکیلا مل جائے، سر نہ اتارا تو اصل برہمن کے بوند سے نہیں۔ ذات کے مسہر، بنیں گے جنرل سکریٹری! ۔میٹنگ کی بات جب جب کیلاش کویاد آتی ہے، خون غصے سے کھولنے لگتا ہے۔ اس کا باپ بھی تو پانڈے جی سے حیثیت میں کم نہیں ہے۔ چالیس ایکڑ زمین ہے۔ پانڈے جی کے خاندان میں جاگا ،تشدد پسند نکل رہا ہے۔ پانڈے جی، گاندھی جی کے پجاری بنے رہیں، بھیرو تو جاگا کو کمیونسٹ بنا کے چھوڑے گا۔ انہوں نے مل جل کر یہ طے کیا کہ گاؤں میں شکدیو چودھری کی تقریر نہیں ہونے دی جائیگی۔ کیلاش کو پانڈے جی نے ایک اچھا مشورہ دیا،’’ بیٹاتم دوسرا فورم کھول دو’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘، گاندھی جی کے نام سے سب ڈریں گے۔‘‘کیلاش نے چلا کر اعلان کیا،’’ اب سالوں کا گاندھی جی کے نام پر ہی مزاج کھٹّا کر دوں گا۔ ایک بار بولو، مہاتما گاندھی جی کی جے!‘‘اس نے پانڈے جی سے کہا، ’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم، میں بڑی ذاتوں کی توہین نہیں کی جائے گی۔ برہمن ہی صدر اور سیکریٹری رہے گا۔ کیلاش ترپاٹھی، صدر اور بہورن پانڈے ،سیکریٹری۔‘‘اس نے سترہ لوگوں کی کمیٹی بنائی ، گیارہ برہمن، دو ہریجن اور چار پسماندہ ذات سے لیے۔ گاندھی وادی نوجوان فارم زندہ باد، سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم مردہ باد۔ مہاتما گاندھی کی جے! وہ بپت چمار سے بولا،’’بپتا، نگینہ کو گاؤں نہیں چھوڑوا دیا تو۔۔۔‘‘’’میں تو ہر طرح سے برہمن ٹولی کیلئے تیار ہوں۔صرف چاہتا ہوں کہ میٹرک پاس کرا دیجئے۔زبان دیتا ہوں، آگے نہیں پڑھوں گا۔ آپ لوگوں کی خدمت کرتا جاؤں گا۔‘‘’’ تم لوگوں کے نصیب میں پڑھائی ٹھونس بھی دی جائے ،تب بھی عقل نہیں آ سکتی۔ ساری سہولیات ہیں، مگر سسرے تب بھی تڑپ رہے ہیں۔‘‘ کیلاش ترپاٹھی تالی مار کر ہنس رہا تھا۔’’میرے ہاتھ میں ابھی سے بھالا دیجئے، مالک!‘‘’’کا ہے خاطر سسرا؟‘‘’’ نگینہ رام کو اسی پر ٹانگ لیتا ہوں۔‘‘’’ جیو بیٹا!‘‘بپت چمار، نگینہ کو اپنا سب سے مشکل دشمن بولتا ہے۔ جب کیلاش ترپاٹھی کا ہاتھ اس کے سر پر ہے، تو کوئی بھی مائی کا لال اس کا گٹا نہیں پکڑ سکتا۔ اس نے کہا،’’شکدیو چودھری گاؤں میں آیا تو خون ہو جائے گا۔ مجھے کالج میں نہیں پڑھنا ہے کہ خوف لگے گا۔ میں رہوں گا یا نگینہ مُسہر۔‘‘بھیروناتھ ترپاٹھی کا نام، بپت اس لئے نہیں لیتا ہے کہ کچھ بھی ہو، ہے تو برہمن! اتنی جرات کہاں ہے کہ بڑی ذات والوں کی مخالفت کر سکے ۔ اندر اندر تو خوف لگتا ہی ہے کہ اس گروپ بندی میں بھیروناتھ ترپاٹھی کا نام نہ منہ سے نکل جائے۔ نگینہ کے ساتھ دشمنی سے تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اتوار کے دن بھیرو اور نگینہ کوششیں کرکر کے تھک گئے ہیں، مشکل سے میٹنگ میں سات آٹھ نوجوان شامل ہوئے ہیں اور پروفیسر شکدیو چودھری کی باتیں سن رہے ہیں، تبھی باہر سے روڑے پتھر پھینکے گئے اور کیلاش اور ان کے ساتھی ’’'سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم مردہ باد‘‘،’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم زندہ باد!‘‘ کے نعرے چیخ چیخ کرلگا رہے تھے۔کیلاش نے باہر مائیک کھڑا کیا تھا اور خود چلا رہا تھا،’’ یہ لوگ گاندھی کے، کانگریس کا دشمن ہے۔ یہ لوگ اپنے یار روس، چین کی حمایت میں ہم نوجوانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ یاد رکھیں، ہم اپنی ثقافت کو چھوڑنے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ ہماری ثقافت سے ہی ہم بڑے ہیں۔ بھارتی ثقافت زندہ باد! بھارتی ثقافت زندہ باد! بھائیوں! اس بات کو یاد رکھیں، نوٹ کر لیں، اصلی نوجوان پلیٹ فارم، گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم ہے۔ جو اصلی ہے، اس کے مندرجہ ذیل عہدیدار ہے۔ آپ کو فہرست پڑھ کر سناتا ہوں۔ مسٹر کیلاش ترپاٹھی صدر، مسٹر بہورن پانڈے سکریٹری، مسٹر پھینکا تیواری خزانچی۔ ہم نے ہر ذات کے نمائندے کو موقع دیا ہے۔ برہمن زیادہ ہیں، اس لئے انہیں زیادہ مواقع ہیں۔ ہم گاؤں کی عزت ہیں۔ نعرہ لگائیے، گاؤں کی عزت جانے نہ پائے۔ گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم زندہ باد!‘‘لیکن ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم ‘‘ کی میٹنگ چلتی رہی۔ انہیں یقیناًپتہ ہے کہ اس میں کیلاش ترپاٹھی کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ ہم لوگ آہستہ آہستہ انہیں صحیح راستے پر لائیں گے۔ ہفتے میں ایک بار ہر اتوار کو اپنی بیٹھک کرتے جائیں گے۔ جاگا پانڈے کا من الجھنوں میں پھنس گیا ہے۔ نہ صدر کا عہدہ نگلتے بنتا ہے، نہ اُگلتے۔ وہ ذہنی الجھن میں بری طرح پھنسا رہا کہ کیلاش کو کس طرح سمجھایا جائے۔ چلو، اور کچھ نہیں تو وہ بابوجی کی عزت تو کرتا ہی ہے۔ بابوجی اس کی برابر حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں۔ انہی کے مشورہ پر تو اس نے’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘کھڑا کر دیا ہے۔ وہ اچھی طرح سمجھ رہا ہو گا کہ اُس کی دلی ہمدردی اسی کے ساتھ ہے۔ یہی بہورن پانڈے بھاری لٹھ آدمی ہے۔ ذرا اسی کو سمجھانا پڑے گا کہ تمہارا دشمن میںیعنی جاگا پانڈے نہیں، بھیرو اور نگینہ مُسہر ہے۔ اگرچہ،جاگا سمجھ رہا ہے کہ بھیرو اور نگینہ بڑے صاف گو ہیں۔یہ نوجوانوں کے لئے جو بھی باتیں کرتے ہیں، اچھی لگتی ہیں۔ ان کے ساتھ دھوکہ، کتنے بڑے اعتماد کا خون ہو گا! یہ لوگ بھی جاگا کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کسی شرارت کی سوچ رکھنا تو غلط بات ہے۔ جاگا کو ایک اندرونی خوف ستا رہا ہے کہ اس نے کیلاش کا ساتھ دیا تو وہ اپنے ہی اعتماد کا خون کرے گا۔ بپت چمار، رام دیو لوہار، رحمت اللہ جلاہا سبھی گمراہ لوگ ہیں۔ جس دن ان کو اصل بات کا پتہ چل گیا، اس دن سے وہ بھی کیلاش کا ساتھ نہیں دیں گے۔ کیلاش کی وجہ سے کسی کی بیٹی بہو کی عزت مشکل ہے۔ نگینہ تلملا کر رہ جاتا ہے۔ کیلاش کو نگینہ اس لئے بھی برداشت نہیں ہو پاتا کہ نگینہ اس کی مخالفت کرتا ہے۔ کیلاش کا خون کھولتا ہیں کہ اس مُسہر کے باپ کا کیا جاتا ہے۔ بیٹی بہو جس کی خراب ہوئی، وہ تو غریب کچھ بولتا نہیں ، اس نگینہ کو کیا ہو جاتا ہے؟ مُسہرِن8 کو وہ چھو کر سکتا تو کوئی مُسہر ٹولی میں بھی بچتی کیا؟ اتنے میں ہی لڑکوں نے پھرعہد لیا کہ ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘کی بیٹھک مخالفت کے باوجود کرتے جانا ہے۔ پروفیسر شکدیو چودھری ان کے گھر میں برابر آئیں گے۔باہر کیلاش اور ان کے ساتھی چلا چلاکر تھک گئے۔ ان پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ کیلاش ،بپت اور دیگر ساتھیوں سے بول رہا تھا۔’’بھیرو اور نگینہ کو ایک ہفتے کے اندر مار کر خراب نہیں کیا تو برہمن نہیں!‘‘اس کے بعد سے مخالفانہ انداز میں مواقع تلاش کر رہا ہے، کوئی تو مل جائے۔ چاہے نگینہ، چاہے بھیرو۔ دونوں دھرم کے قاتل ہیں۔زیادہ تر بھیرو اکیلے سائیکل سے کالج نکل جاتا ہے اور نگینہ پیچھے سے پیدل پہنچتا ہے۔ مگر کالج سے لوٹتے وقت بھیرو کبھی نگینہ کو نہیں چھوڑتا۔ کیلاش نے بپت چمار کو للکار دیا ہے کہ نگینہ رام کو جہاں کہیں بھی دیکھو، سر اتار لو۔ اسے یہ فکر پھر کھائے جا رہی ہے کہ باپ نے بندوق کا لائسنس ابھی تک نہیں کروایا۔ بندوق ہوتی تو تشویش کی بات نہیں ہوتی۔ ساری مُسہر ٹولی کو اڑا دیتا۔ کہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔نہ تھانہ، نہ اسمبلی، کہیں نہیں۔ گاؤں میں اور بھی کئی بندوقیں ہیں، پر کیلاش کے پاس نہیں ہے۔ کیلاش چھوٹی ذات والوں کا،خاص کر مُسہروں کا شدید مخالف ہے۔مُسہروں کو آدمی نہیں کہتا ہے۔ مُسہر پالکی ڈھوتے ہیں، چار آدمیوں کی جگہ ایک مُسہر۔ تب کوئی مُسہر آدمی کیسے ہے؟ نگینہ آدمی نہیں ہے۔ مار دے تو کیا تکلیف ہوگی؟ مُسہر چوہے سے پیدا ہے، جیسے بندر سے آدمی ہوا ہے۔ کیلاش کو فوری طور خیال آیا ہے۔ اپنے ’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کی بھی میٹنگ بلائی جائے اور بحث کا موضوع رہے ۔’’ مُسہر آدمی ہوتا ہے یا جانور؟‘‘ جو جانور کے حق میں ہیں، وہ ہمارے ہوئے اور جو اس کے مخالف ہیں، وہ بھیرو کے۔’’مگر نگینہ نے آدمی کے حملے کا، جانور کی طرح جواب دیا تب کیا ہوگا؟‘‘ اس نے بپت چمار سے پوچھا۔’’میں بھی چمار ہوں۔‘‘’’بھاگ، سسرا!‘‘کیلاش اس کی حماقت پر ہنسا۔ اس کے دماغ میں یہ بات برابر موجود رہی ہے کہ اگر بپت کے ہاتھوں بھیرو کو تھوڑی بھی کہیں چوٹ آئی تو برہمن ٹولی میں بدنامی ہوگی۔ لوگ اسلحہ اٹھا اٹھا کر کہنے لگیں گے۔’’کیلاش نے برہمن کے لڑکے کو چمار سے پٹوا دیا۔‘‘ لہذا نگینہ کی خبر لینا ضروری ہے۔ اس کا اثر بھیرو پر پڑے گا اورڈر جائے گا۔ پھر اس کی ہمت نہیں ہو سکتی ہے کہ گاؤں میں کوئی دوسری حرکت کرے۔ بزرگ کیلاش کے اقدامات کی تعریف ہی کریں گے۔’’ میں تو جان لے لوں گا نگینہ کی۔‘‘ بپت بولا،’’مہاتما گاندھی کے خلاف فورم بنا کر بھی کوئی جیت سکتا ہے؟میں آج اکیلے دونوں کو دیکھ لوں گا۔‘‘’’ابھی بھیرو نہیں، نگینہ۔ اس میں بدنامی کا ڈر ہے۔‘‘انہوں نے سائیکل آم کے درخت سے لگا دی اور دونوں سڑک سے اتر کر جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھ گئے۔’’وہ لوگ آ رہے ہیں۔‘‘ بپت نے سرگوشی کی۔’’چپ، حرامی کہیں کا!‘‘بپت خاموش سے اٹھا۔ اس نے بھیرو کی سائیکل پیچھے سے پکڑ کر الٹ دی اور نگینہ کے سینے پر بیٹھ کر کھجور کی چھڑی سے پیٹنے لگا۔ بھیرو نے بپت کی گردن پکڑ لی اور جوتے کی نال سے اس کا جبڑے دبا دیا۔ نگینہ کے جسم سے کافی خون نکل رہا تھا، مگر اس نے خون کو بھول کر کیلاش کو پکڑ لیا اور بے رحم ہو کر اتنا مارنے لگا کہ خود تھک گیا۔ کیلاش کے مار کھانے سے بپت کی ہمت بالکل ٹوٹ گئی۔ وہ کیلاش کو اپنی سائیکل پر بیٹھا کر گاؤں کی طرف بھاگنے لگا۔’’جاؤ، سالے۔ بھاگ رہے ہو، ورنہ جان لے لیتا۔‘‘ بھیرو چیخ کر بولا۔’’ نگینہ برہم ہتیالگے گی سالے! تم نے تشدد کیا ہے۔‘‘ بھیرو ترپاٹھی کو للکارا ہے۔ میں نے بپتا کو کہہ دیا تھا کہ بھیرو کو مت مارنا۔متشدد اور جانوربھیرو کو لاج نہیں آئی کہ برہمن ایک مُسہر کے ہاتھوں مار کھا رہا ہے۔‘‘ان کے جانے کے بعد نگینہ نے پوچھا،’’ اب کیا ہوگا بھیرو بابا؟ اب تو مُسہروں کا گاؤں کے پاس رہنا مشکل ہو جائے گا۔ میرے چلتے سبھی پریشانی برداشت کریں گے۔‘‘’’ ہمت رکھو، نگینہ۔‘‘ ’’ سو تو رکھنی پڑے گی۔‘‘’’تب کیا بات ہے؟‘‘ ’’کیلاش شیطان ہے،ہمارا نمبر ون دشمن!‘‘’’ مگر گاؤں کے سبھی تو ایسے نہیں ہیں۔‘‘’’ مجھے ڈر نہیں لگتا۔ مگر چوبیس سالوں کی آزادی نے کتنے صحیح لوگوں کو پیدا کیا ہے؟‘‘وہ لوگ جب گاؤں پہنچے تو مُسہر ٹولی میں آگ لگی ہوئی تھی اور سبھی بچے، عورتیں، مرد چلاتے ہوئے گاؤں چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔ نگینہ رام اور بھیرو ترپاٹھی، بہت اونچے طوفان کو سینے کے اندر روک کر گاؤں کے کنارے پر رکے ہوئے تھے۔***

:مصنف مدھوکر کا تعا رف    

مدھوکر سنگھ۔ پیدائش: ۲ جنوری ۱۹۳۴ء میدان: ناول، کہانی،

شاعری، ڈرامہ،بچوں کا ادب۔ ان کی کچھ اہم تخلیقات:ناول: سون بھدر کی رادھا، سب سے

بڑا چھل، سیتارام نمسکار، جنگلی سور، منبودھ بابو، اُتّرگاتھا، بدنام، بے مطلب

زندگیاں،اگنی دیوی، دھرم پور کی بہو، ارجن زندہ ہے، سہدیورام کا استعفی، کتھا کہو

کنتی مائی، سمکال۔کہانیوں کے مجموعے:پورا سناٹا، بھائی کا زخم، ہریجن سیوک، پہلا

پاٹھ، اساڑھ کا پہلا دن، مائیکل جیکسن کی ٹوپی، پاٹھ شالہ۔ڈرامہ: لاکھو، صبح کے

.لئے، بابو جی کا پاس بک، قطب بازار۔گیتوں کا مجموعہ : رک جا بدرا۔ انتقال:۱۵

جولائی،۲۰۱۴ ء میں

ہو ،آرا (بہار) سے تعلق تھا


خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024