لعجوز إبرين - قصة قصيرة بقلم بشير عدان
لعجوز إبرين - قصة قصيرة بقلم بشير عدان
Mar 14, 2018
دیدبان شمارہ ۔۷
لعجوز إبرين - قصة قصيرة بقلم بشير عدان
اصل انگریزی كهانی
انگریزی تحریر: بشیر عبدالعدن
اردو ترجمہ: ابوفهد، نئی دهلی
بوڑھا ابریناِبرِین اسحاق ، عیل ادّو کا قدیم باشندہ ،محلے کے سستے ہوٹل ’حَسنو‘ کی ایک بینچ پر آکر بیٹھا۔ یہ ہوٹل عام شاہراہ پر واقع ہے اوراس کی آمدنی کا تمام تر ذریعہ صرف مسافرہوتے ہیں، جب سے قبائلیوں میں آپسی خانہ جنگی شروع ہوئی تھی تب سے اس کا کاروبار کافی مندا چل رہاتھا۔اِس وقت ہوٹل کا عملہ بالکل فری تھا اور انہیں کم از کم اتنا اندازہ ضرور تھا کہ اگلے تین گھنٹوں تک کوئی مسافر نہیں آنے والا۔سورج تقریبا غروب ہونے جارہا تھا ،اس کی سنہری کرنیں پورے قصبے پر پھیلی ہوئی تھیں۔ایک ملازم ہوٹل کے بیرونی دروازے پر پانی کا چھڑکاؤ کررہا تھا۔بوڑھے شخص نے اپنی چھڑی گود میں رکھی اوردور خلا میں گھور نے لگا۔اس کے ہونٹ خشک تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ سختی سے بھنچے ہوئے تھے۔اس نے نصف آستین کی سفید قمیص پہنی ہوئی تھی اوربنا سلاتہبند باندھ رکھاتھا۔’’یوسف! ذرا ادھر آنا۔اور ہاں ! کاغذ قلم بھی لیتے آنا‘‘ اس نے کیشئر کو آواز دی۔کیشئر ایک جواں سال لڑکا تھا،جو بمشکل تمام بیس سال کا رہا ہوگا،و ہ اس وقت اپنی کرسی پر بیٹھا روپئے گننے میں مصروف تھا۔اس نیروپئے دراز میں رکھے ،اسے مقفل کیااور بوڑھے شخص کی جانب بڑھ گیا۔’’تم اپنے لوگوں کے لئے بھلاکس کام کے؟وہ لوگ بھی کتنے بے وقوف تھے جنہوں نے تمہیں اسکول بھیجا۔چلو، میرے بیٹے رشید کے نام خط لکھو۔ تمہاری پڑھائی لکھائی آخر کسی کام تو آئے‘‘ بوڑھا شخص مسکرایا۔یوسف نے سفید رنگ کا ایک کورا کاغذ نکالا اور بوڑھے شخص کے پہلو میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔’’جو میں کہوں اور جس طرح کہوں ، وہی اور اسی طرح لکھو۔ تم سن رہے ہو نا؟‘‘’’جی‘‘ یوسف نے حامی بھری۔بوڑھے شخص نے بولنا شروع کیا:’’السلام علیکم ، کیسے ہو میرے لاڈلے؟میں یہاں بالکل ٹھیک ہوں اور امید کرتاہوں کہ تم بھی اسی طرح ٹھیک ہوگے۔تمہاری امی تمہیں سلام کہہ رہی ہیں، وہ تمہیں بہت یاد کرتی ہیں۔آخر تمہیں گئے ہوئے چار سال بھی تو ہوگئے ہیں۔ہم تمہارے بارے میں جتنے فکر مند رہتے ہیں ،شاید تم ہمارے بارے میں اتنے فکر مند نہیں رہتے۔یہاں لوگوں میں ایک کہاوت ہے:’’ وہ جس کو آپ جنتے ہیں ، وہ آپ کو نہیں جنتا‘‘میرے پیارے بیٹے ! ہمارے اور تمہارے درمیان بھی بالکل یہی نسبت ہے۔یقینا ًہم تمہیں بہت یاد کرتے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ جتنا تم ہمیں یاد کرتے ہو یا کرسکتے ہو۔اللہ تمہیں سلامت رکھے۔شاید ہی کوئی خوش نصیب باپ ایسا ہوگا جسے تمہارے جیسا سعادت مند بیٹا ملاہو۔تم نے گزشتہ عید پر جو رقم بھیجی تھی، ہم اس کے لیے ممنون ہیں۔اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔ہم نے اس رقم سے ایک بکری خرید کر ذبح کی تھی اور محلے کے لوگوں کو دعوت ولیمہ پر بلایاتھا۔تمہارا چھوٹا بھائی شمّواگلے چندہفتوں میں سالانہ امتحان دینے جارہا ہے۔فی الحال وہ ہمارے ساتھ گھرپر ہی ہے۔اب سے پانچ دن قبل اس کے اساتذہ نے اسے اسکول سے نکال دیا تھا۔دراصل،اس کی یونیفارم بہت پرانی ہوگئی ہے، خاص کر قمیص ؛ جب وہ نئی تھی تو اس کا رنگ گہرا نیلا اور چمکیلا تھا مگر وہ اب سفید دکھائی دیتی ہے۔ جب تک اس کو نئی قمیص نہیں دلوائی جاتی اسے اسکول نہیں بھیجاجاسکتا۔مجھے تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ آخر اس میں ایسی کونسی بات ہوگئی، آخر ان لوگوں نے قمیص کے رنگ کو اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنا لیا ہے۔تاہم تمہاری امی مطمئن ہیں کہ وہ امتحان سے پہلے پہلے اپنے یومیہ اخراجات سے پس انداز کرکے اتنی رقم جمع کرلیں گی جس سے ایک عدد قمیص خریدی جاسکے۔اورتب تک تمہارے بھائی کو گھر پر ہی رہنا ہوگا۔ہم اس حال میں اس کو اسکول جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔گزشتہ دنوں انہوں نے اس کو اتنی بری طرح پیٹا تھا کہ جب وہ گھر لوٹا تو اس کے دونوں کولہے بری طرح سوجے ہوئے تھے اور جا بجا خون چھنک آیا تھا۔پیارے بیٹے! اطلاعا ًعرض ہے کہ ہم سب بخیر وعافیت ہیں۔ ہاں! تمہاری امی کل اسپتال گئی تھیں، ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ ان کے جسم میں خون کی کمی ہے۔یہاں مچھر جو زیادہ ہیں نا اسی لئے۔اس کے علاوہ باقی سب ٹھیک ٹھاک ہے ، ہمیں کسی طرح کی کوئی شکایت نہیں۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔پتہ نہیں ،تمہیں یہ اطلاع ملی یا نہیں کہ ہمارے سات اونٹ دوسرے قبیلے کے لوگ ہانک لے گئے۔تم اچھی طرح جانتے ہو کہ وہ کون لوگ ہوسکتے ہیں، اس لیے میں ان کے نام لینے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔اْس شام ،میں اونٹوں کے باڑے میں اکیلا ہی تھا،کہ اچانک تین مسلح نوجوان آتے ہوئے دکھائی دئیے۔انہوں نے کئی ہوائی فائرکئے تاکہ یہ معلوم کرسکیں کہ اونٹوں کی حفاظت پر مامور لوگ بھی مسلح ہیں یا نہیں۔میں اکیلا تھا اور وہ تین، اس لیے ان سے مقابلے کی جرأ ت نہ کرسکا اور قریب کی ایک جھونپڑی میں چھپ گیا۔ فائرنگ کی وجہ سے چند اونٹ بدک کر بھاگ کھڑے ہوئے، جنہیں وہ اپنی طرف ہانک لے گئے۔ اور اس طرح ہمارے پاس کل بارہ اونٹوں میں سے صرف پانچ ہی باقی بچے ہیں۔البتہ یہ خبر تو تمہیں مل ہی چکی ہوگی کہ پچھلے دنوں آرمی کے آدمی میری بندوق ضبط کر کے لے گئے۔ میں نے اس کو زمین میں دبا دیا تھا۔میں کسی قیمت پر بھی بندوق ان کے حوالے کرنے کوتیار نہیں تھا پرانہوں نے مجھے بہت بری طرح مارا پیٹا اور مجھے ناچار بندوق ان کے حوالے کرنا پڑی۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ یہ میرے لیے کتنا مشکل تھا۔شاید تمہیں یاد ہو کہ وہ کتنی قیمتی تھی۔میں نے اس کو صرف ایک بار استعمال کیا تھا۔ یہ اونٹوں کی چوری کے چند روز بعد کی بات ہے۔میں نے اس سے دوسرے قبیلے کے لوگوں پر فائر کئے تھے۔اور سردار سے کہہ دیا تھا کہ وہ مسلح تھے، حالانکہ وہ مسلح نہیں تھے۔یہ شاید کوئی خاندانی کارواں تھا۔مجھے نہیں معلوم ؛ میں نے کتنے لوگوں کو مارڈالا تھا۔ پھر بھی دو تین تو ضرور مرے ہوں گے۔بیٹا ! جب یہ لوگ ہمارے جان ومال نہیں چھوڑتے تو ہم کیوں ان کو بخش دیں۔ اورہاں! اسے راز ہی رکھنا ،کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔بیٹا حالات ابھی بھی ناسازگار ہیں۔مجھے ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ گزشتہ رات ایک بس جو تمہارے شہر سے آرہی تھی اس پر کچھ نامعلوم افراد نے حملہ کردیا۔ سننے میں آیا ہے کہ ہمارے قبیلے کا ایک نوجوان شہید ہوگیا اور باقی دو افراد شدید طور پر زخمی ہوئے ہیں۔ابھی کچھ ہی دیر میں یہاں سے ایک رلیف کار روانہ ہورہی ہے۔جو آدمی اس بس کو ڈرائیو کررہا تھا وہی اس کو بھی ڈرائیو کرے گا۔اور ہاں! یہی وہ آدمی ہے جس نے ہمیں مذکورہ سانحہ کی اطلاع دی ہے۔مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ زخمیوں کو تمہارے شہر کے کسی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔اگر ممکن ہو تو ان کی تیمار داری کرو۔بیٹا !میرا دل کہتا ہے کہ تم بعافیت ہوگے۔دو ہفتے قبل میں نے لگاتار دو رات ایک ہی خواب دیکھا۔میں نے دیکھا کہ تم پروں والے گھوڑے پر سوار ہو اور ہماری ملاقات کو آرہے ہو۔پیارے بیٹے! بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بنا کسی اشد ضرورت ادھر ادھر مت جایا کرو۔ زمانہ بہت خراب ہے ’’ بوڑھا شخص ذرا دیر کے لیے رکا اور خیالات کی بھول بھلیوں میں کھو گیا۔چار سا ل پہلے کا رشید اس کے ذہن کے کینوس پر اتر آیا۔وہ اس وقت کتنا دبلا پتلا سا تھا اور کتنے کم نشانات سے اس نے ہائی اسکول پاس کیا تھا۔اس کی زندگی میں وہ وقت بھی آیا جب وہ بالکل نا مید ہو چلا تھااور افسردہ خاطر رہنے لگا تھایہاں تک کہ اسے بہت ساری بری عادتوں کی لت بھی لگ گئی تھی ،سگریٹ ، تمبا کواور دیگر نشہ آور چیزیں بھی لینے لگا تھا مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس نے عین وقت پراس کی رہنمائی فرمائی اور اس کی قسمت کا ستارہ جگمگا اٹھا۔ اس وقت عیل ادّو میں ایک رفاہی تنظیم کا قیام عمل میں آیا اور رشید کے دل میں ملازمت کرنے کا خیال پیدا ہوا۔حالانکہ اس نے ہائی اسکول بھی بمشکل تمام پاس کیا تھا۔ اس سیٹ کے لیے سخت مقابلہ بھی تھا، دوسرے قبیلوں کے لڑکے بھی اپنی قسمت آزما رہے تھے۔اور رشید باوجود اس کے کہ اپنے قبیلے کی طرف سے تنہا نمائندگی کررہا تھا ،اللہ کا شکر ہے کہ اسی کو کامیابی نصیب ہوئی۔اور اس کو منتخب کرلیا گیا۔’’میرے پیارے بچے! پچھلے خط میں جس لڑکی کا میں نے تذکرہ کیا تھا اب اس کی شادی ہو چکی ہے‘‘بوڑے شخص نے پھر سے کہنا شروع کیا:’’وہ واقعتاً بہت خوبصورت تھی،مجھے یقین تھا کہ تم اس کے ساتھ بہت خوش رہتے۔ خیر جو ہوا سو ہوا، شاید وہ تمہارے نصیب میں نہیں تھی۔تم نے کہا تھا کہ مجھے تمہاری مرضی کا خیال رکھنا چاہئے، یقیناً میں ایسا ہی کروں گا۔پھر بھی میری یہ نصیحت ہے۔خدا کے لیے !کسی دوسرے قبیلے کی لڑکی کا انتخاب نہ کرنا۔تم تو جانتے ہی ہو کہ حالات کس قدر خراب ہیں۔ابھی سال دوسال ہی کی تو بات ہے کہ ہمارے پڑوسی کے بیٹے اسماعیل نے اپنے بزرگوں کی مرضی کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے قبیلے کی لڑکی سے شادی کرلی تھی ، اس سے اس کا ایک بچہ بھی ہوا۔مگر ابھی چند ماہ پیشتر،یہ دل دہلانے دینے والا واقعہ پیش آیا کہ وہ لڑکی اپنے دودھ پیتے بچے کے ساتھ میکے گئی تھی ، اسی دن رات کے وقت جس دن وہ اپنے میکے پہونچی تھی ، اس کے اپنے سگے بھائی نے اس کو برا بھلا کہا اور بچہ کو اس کی گود سے چھین لیا اور ظالم نے اس کو قتل کرڈالا۔محض اس لیے کہ وہ معصوم ہمارے قبیلے سے منسوب تھا۔اس لیے بیٹے عافیت اسی میں ہے کہ تم اپنے لوگوں ہی میں رشتے ناتے جوڑو۔میں اکثر یہ بتانا بھول جاتا ہوں کہ تمہاری امی کی خوراکی دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔انہیں تقریبا ًہر رات قے ہوتی ہے،ڈاکٹر کہتے ہیں کہ انہیں بکری کی کلیجی کھلاؤ، لیکن ہم ہر روز کلیجی کہاں سے لائیں۔ہمارے پاس تو وہی ایک بکری تھی جو ہم نے تمہارے بھیجے ہوئے پیسوں سے خریدی تھی۔میرے نیک دل بیٹے ! اگر تمہارے پاس کچھ زائد رقم ہو تو برائے مہربانی جلدی سے بھیج دو۔ اور اپنی ماں کو موت کے منہ میں جانے سے بچالو۔مجھے اس کے لیے معاف کردینابیٹا۔مگر اس سچائی سے تمہیں واقف کرانا بھی ضروری تھا۔آج صبح میں اس کو چٹائی پر لیٹے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں،وہ بہت کمزور ہوگئیں ہیں اور بیرونق بھی۔۔۔۔ ’’ بوڑھے شخص کی آواز بھرّا گئی اور وہ سسکیاں بھرنے لگا۔پھر اس نے سر اٹھایا ،ایک طرف کو ہلکاسا جھٹکا دیا اور پھر کہنا شروع کیا:’’بیٹا !اسے روزانہ تازہ دودھ کی ضرورت ہے ،مگر ہمارے پاس اتنا دودھ کہاں۔میں بھلا کیا کرسکتاہوں۔آج مجھے پھر سے وہ وقت یاد آرہا ہے جب پچھلی مرتبہ موت کے فرشتے نے ہمارا گھر دیکھا تھا۔میں تمہاری دادی جان کی موت کو بھلا کیسے بھول سکتاہوں۔وہ ہردن دودھ مانگا کرتی تھیں، مگر ہم ہر روز دودھ کہاں سے لاتے۔، یہاں تک کہ وہ دودھ مانگتے مانگتے ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ،تم ہی کچھ کرو بیٹا۔میں تمہارے لیے دعا گوہوں اور میری نیک تمنائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں۔تم فطرتاً نیک دل ہو۔میں نے بیت الخلا کے گڈھے کھودنے کا کام چھوڑ دیا ہے اور اب جانوروں کے بازار میں دلالی کرنے لگا ہوں۔ پر یہاں تجارت کے لحاظ سے بکرے بکریاں اتنے زیادہ اچھے نہیں ہیں۔اور جیسا کہ تمہیں پتہ ہی ہے کہ یہاں پچھلے ایک سال سے بالکل بھی بارش نہیں ہوئی۔بیٹا! اگر تمہارے پاس زائد روپئے نہ ہوں تو تمہیں اپنا دل کالا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے، وہ ہمیشہ ہی سے ہمارے پاس ہے، یقیناً وہ ہمیں بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا‘‘(۲)وہ ایک بار پھر تھوڑی دیر کے لیے رکا اور ہوٹل کے دروازے کے باہر دیکھنے لگا جہاں ایک بلی پانی کی کین سے اپنا منہ نکالنے کی جدو جہد کررہی تھی۔ اس کا دھیان اپنے بیٹے رشید کی طرف چلا گیا۔رشید جب چودہ پندرہ سال کا تھا تو اسے ایک ایسی قسم کا دماغی بخار ہوا تھا جس سے آدمی پاگل پن کا شکار ہوجاتاہے۔بس یہ اللہ کی مہربانی ہی تھی کہ اس سال بارش خوب ہوئی تھی ، لہذا دودھ اور دیگر چیزیں بہت سستی تھیں اور رشید کو ہر وہ چیز بروقت مل جایا کرتی تھی جو وہ مانگا کرتا تھا۔ وہ بہت تھوڑے عرصے میں پوری طرح صحت یاب ہوگیا تھا۔یہ اس سال کی بات ہے جب رشید نے علاقائی سیاست میں عملی طور پر حصہ لینا شروع کیا تھا۔وہ نوجوانوں کو مختلف مقاص کے تحت ایک دوسرے سے مربوط کررہا تھا، وہ کہا کرتا تھا کہ آنے والے آٹھ دس برسوں میں ہمیں اس سے بڑا فائدہ ہوگا۔ مگر کچھ نوجوان اس کے خیالات کے مخالف ہوگئے ،تاہم رشید نے ہمت نہیں ہاری،البتہ اس مخالفت نے رشید کا حوصلہ اور زیادہ بڑھا دیا اور وہ پہلے سے کہیں زیادہ سرگرم ہوگیا۔لیکن پھر اللہ جانے کیا ہوا کہ اس نے بنا کسی پیشگی اطلاع یا وضاحت کے اس طرح چپ سادھ لی کہ پھر کبھی اپنے ان خیالات کا ذکر تک بھی نہیں کیا۔’’لکھتے رہو برخوردار!‘‘ ابرین اسحاق نے یوسف سے کہا۔’’بیٹا ! ایک بات میں نے تمہیں آج تک نہیں بتائی۔بہت غور وفکر کے بعد میں اس نتیجے پرپہونچا ہوں کہ اب تمہیں حقیقت حال سے واقف کرادینا ضروری ہے۔یقیناً یہ خبر تمہارے لیے کافی دھماکہ خیز ہے۔پھر بھی مجھے قوی امید ہے کہ تم اس کو انگیز کرلوگے اور اپنے حواس پر قابو رکھو گے۔بیٹا ! ایک بہت بڑا سانحہ ہم پر گزر چکا ہے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب آرمی کے آدمیوں نے میری بندوق ضبط کی تھی۔انہوں نے مجھے تو زد وکوب کیا ہی تھا ،پر تمہاری دوسری امی کو بھی نہیں بخشا۔چونکہ تمہیں اپنی دوسری امی کے بارے میں علم نہیں تھا اس لیے میںنے تمہیں یہ بات کبھی نہیں بتائی۔یہ شادی اسی رقم کی وجہ سے ممکن ہوسکی تھی جو تم نے ہمیں بھیجی تھی۔اور وہ بکری جس کا تذکرہ میں نے اس خط کی ابتدا میں کیا ہے اسی شادی کی دعوتِ ولیمہ کے لیے ذبح کی تھی۔تمہاری دوسری امی ادھیڑ عمرکی عورت ہے۔ میں نے یہ شادی اس لیے کی تھی کیونکہ مجھے اپنے لیے ایک مدگار ساتھی کی ضرورت تھی جو میرا خیال رکھ سکے اوراب تو میری یہ حالت ہے کہ میں بہت زیادہ دور چل بھی نہیں پاتا ، بہت جلدتھک جاتا ہوں۔میرے لاڈلے بیٹے! مجھے امید ہے کہ تم میری پریشانی سمجھ رہے ہوگے۔تمہاری امی نے ان ظالم فوجیوں کے ہاتھوں بہت تکلیف اٹھائی۔اورجہاں تک بندوق کی بات ہے تو اس کا تعلق تو صرف مجھ سے تھا ، پھر اس بیچاری کو یہ سب کیوں سہنا پڑا۔ چار ظالموں نے اسے برباد کیا‘‘بوڑھے شخص نے انتہائی بے تابی سے اپنی پگڑی اتاری اور منہ چھپا کر ہچکیوں کیساتھ رونے لگا۔اللہ اللہ۔’’ہم نے اس کو اونٹ کے ذریعہ عیل ادّومیں قریبی اسپتال پہونچا دیا تھا۔اْس وقت سے وہ پوری طرح نیند بھی نہیں لے پارہی ہے۔وہ اس حادثے کو اب تک بھی نہیں بھلا سکی ہے۔اس کی وجہ سے ہم سب بھی ساری ساری رات جاگا کرتے ہیں۔اور اب تو وہ امید سے بھی ہے،میں نہیں بتا سکتا کہ یہ بچہ کس کا ہوسکتا ہے۔اور جب تک ولادت نہیں ہوجاتی تب تک اس کا نسب معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں۔اگر یہ انہیں ظالموں کا ہوا تو یقیناً ہمیں معلوم ہوجائے گا۔اس سب کے ساتھ ساتھ میں اس ناگفتنی کو کیسے بھول سکتا ہوں جو اس پر گزر چکی ہے۔ فی الحال اسے اس کے ماں باپ کے پاس بھیج دیا ہے،جہاں وہ کچھ دن رہے گی۔ یہاں میرے پاس اس کی دیکھ ریکھ اور علاج معالجے کے لیے کچھ نہیں تھا۔میں اس کے علاوہ اورکر بھی کیا سکتا تھا۔اللہ یقیناً ہماری مدد فرمائے گا۔میں دعا گوہوں کہ وہ ہم سب پر اپنا کرم فرمائے۔ ممکن ہے کہ وہ پروںوالا گھوڑا جو میں نے خواب میں دیکھا تھا تمہارا اپنا خاص ہیلی کاپٹر بن جائے۔اور تم چند لمحوں میں ہمارے پاس پہونچ جاؤ۔ایک آخری بات اور یہ ہے کہ تم نے اپنے گزشتہ آخری خط میں لکھا تھا کہ تم اس ہفتے آنیوالے ہو۔ ایسا کیا ہوا کہ تم نہ آسکے؟ ہمیں یقین ہے کہ تم عنقریب ہمارے پاس ہوگے۔ بیٹا تمہیں ڈھیر ساری دعائیں اور بہت سارا پیار۔ جتنی جلدی ہوسکے آجاؤاور ہماری خبر لو۔تمہاراوالدابرین اسحاق۔‘‘بوڑھے شخص نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا تڑامڑا لفافہ نکالا۔ یوسف سے خط لیا،اسے تہہ کیا،لفافے میں رکھ کر سیل بند کیا اور واپس یوسف کو دیتے ہوئے کہا:’’اس پر رشید ابرین اسحاق کا پتہ لکھو‘‘یوسف نے اس کے حکم کی پیروی کی۔’’اللہ تمہیں خوش رکھے‘‘ بوڑھے شخص نے یوسف سے لفافہ لیا اور اس کو دعا ئیں دیتا ہوا اپنی راہ چلا گیا۔بوڑھا شخص سڑک پار کرکے امدادی گاڑی کے پاس پہونچا جس پر زخمیوں کے لیے بعض دوائیں اور دیگرچیزیں لادی جارہی تھیں۔ ڈرائیور کی کھڑکی کے پاس آیا۔اور پوچھا:’’عیل دانا ؟‘‘ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلایا۔’’یہ میرے بیٹے کو دیدینا۔بڑی مہربانی ہوگی۔وہ اسپتال ہی میں کام کرتا ہے اور امدادی کارکن بھی ہے‘‘اس نے مذکورہ لفافہ اوربارہ شلنگ اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ڈرائیورنے لفافے پر ایک نظر ڈالی اور بوڑھے شخص کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔’’کیا بات ہے ؟ ‘‘بوڑھے شخص کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔’’یہ نام کچھ جانا پہچانا لگ رہا ہے‘‘ ڈرائیور کچھ یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا۔’’ دیکھئے؛ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ گزشتہ رات جس بس پر حملہ کیا گیا تھا اسے میں ہی ڈرائیو کررہا تھا۔اس میں جو ایک نوجوان فوت ہوا تھا،وہاں عیل دانا میں کوئی بھی اس کی شناخت نہیں کرسکا تھا۔ البتہ اس کے بعض ذاتی کاغذات سے معلوم ہوا کہ وہ یہیں عیل ادّو کا رہنے والا تھا۔ میں وہ کاغذات اپنے ساتھ لایا تھا ، وہ میں نے مقامی تھانے میں جمع کردئے ہیں۔میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کے نام کا آخری جز اسحاق بھی تھا البتہ اتنایاد ہے کہ رشید ابرین اس کے نام کا حصہ ضرور تھا۔‘‘’’ اگر وہ میر بیٹا رشید تھا۔۔۔‘‘ رات ڈھل رہی تھی اوربوڑھا ابرین یہ سب سوچتے ہوئے دھیرے دھیرے اپنے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔‘‘۔۔۔ اگر وہ رشیدہی تھاتومجھے اسی وقت معلوم ہوجانا چاہئے تھا جب میں نے اس کو خواب میں پروں والے گھوڑے پر سواری کرتے ہوئے دیکھا تھا‘‘۔
دیدبان شمارہ ۔۷
لعجوز إبرين - قصة قصيرة بقلم بشير عدان
اصل انگریزی كهانی
انگریزی تحریر: بشیر عبدالعدن
اردو ترجمہ: ابوفهد، نئی دهلی
بوڑھا ابریناِبرِین اسحاق ، عیل ادّو کا قدیم باشندہ ،محلے کے سستے ہوٹل ’حَسنو‘ کی ایک بینچ پر آکر بیٹھا۔ یہ ہوٹل عام شاہراہ پر واقع ہے اوراس کی آمدنی کا تمام تر ذریعہ صرف مسافرہوتے ہیں، جب سے قبائلیوں میں آپسی خانہ جنگی شروع ہوئی تھی تب سے اس کا کاروبار کافی مندا چل رہاتھا۔اِس وقت ہوٹل کا عملہ بالکل فری تھا اور انہیں کم از کم اتنا اندازہ ضرور تھا کہ اگلے تین گھنٹوں تک کوئی مسافر نہیں آنے والا۔سورج تقریبا غروب ہونے جارہا تھا ،اس کی سنہری کرنیں پورے قصبے پر پھیلی ہوئی تھیں۔ایک ملازم ہوٹل کے بیرونی دروازے پر پانی کا چھڑکاؤ کررہا تھا۔بوڑھے شخص نے اپنی چھڑی گود میں رکھی اوردور خلا میں گھور نے لگا۔اس کے ہونٹ خشک تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ سختی سے بھنچے ہوئے تھے۔اس نے نصف آستین کی سفید قمیص پہنی ہوئی تھی اوربنا سلاتہبند باندھ رکھاتھا۔’’یوسف! ذرا ادھر آنا۔اور ہاں ! کاغذ قلم بھی لیتے آنا‘‘ اس نے کیشئر کو آواز دی۔کیشئر ایک جواں سال لڑکا تھا،جو بمشکل تمام بیس سال کا رہا ہوگا،و ہ اس وقت اپنی کرسی پر بیٹھا روپئے گننے میں مصروف تھا۔اس نیروپئے دراز میں رکھے ،اسے مقفل کیااور بوڑھے شخص کی جانب بڑھ گیا۔’’تم اپنے لوگوں کے لئے بھلاکس کام کے؟وہ لوگ بھی کتنے بے وقوف تھے جنہوں نے تمہیں اسکول بھیجا۔چلو، میرے بیٹے رشید کے نام خط لکھو۔ تمہاری پڑھائی لکھائی آخر کسی کام تو آئے‘‘ بوڑھا شخص مسکرایا۔یوسف نے سفید رنگ کا ایک کورا کاغذ نکالا اور بوڑھے شخص کے پہلو میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔’’جو میں کہوں اور جس طرح کہوں ، وہی اور اسی طرح لکھو۔ تم سن رہے ہو نا؟‘‘’’جی‘‘ یوسف نے حامی بھری۔بوڑھے شخص نے بولنا شروع کیا:’’السلام علیکم ، کیسے ہو میرے لاڈلے؟میں یہاں بالکل ٹھیک ہوں اور امید کرتاہوں کہ تم بھی اسی طرح ٹھیک ہوگے۔تمہاری امی تمہیں سلام کہہ رہی ہیں، وہ تمہیں بہت یاد کرتی ہیں۔آخر تمہیں گئے ہوئے چار سال بھی تو ہوگئے ہیں۔ہم تمہارے بارے میں جتنے فکر مند رہتے ہیں ،شاید تم ہمارے بارے میں اتنے فکر مند نہیں رہتے۔یہاں لوگوں میں ایک کہاوت ہے:’’ وہ جس کو آپ جنتے ہیں ، وہ آپ کو نہیں جنتا‘‘میرے پیارے بیٹے ! ہمارے اور تمہارے درمیان بھی بالکل یہی نسبت ہے۔یقینا ًہم تمہیں بہت یاد کرتے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ جتنا تم ہمیں یاد کرتے ہو یا کرسکتے ہو۔اللہ تمہیں سلامت رکھے۔شاید ہی کوئی خوش نصیب باپ ایسا ہوگا جسے تمہارے جیسا سعادت مند بیٹا ملاہو۔تم نے گزشتہ عید پر جو رقم بھیجی تھی، ہم اس کے لیے ممنون ہیں۔اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔ہم نے اس رقم سے ایک بکری خرید کر ذبح کی تھی اور محلے کے لوگوں کو دعوت ولیمہ پر بلایاتھا۔تمہارا چھوٹا بھائی شمّواگلے چندہفتوں میں سالانہ امتحان دینے جارہا ہے۔فی الحال وہ ہمارے ساتھ گھرپر ہی ہے۔اب سے پانچ دن قبل اس کے اساتذہ نے اسے اسکول سے نکال دیا تھا۔دراصل،اس کی یونیفارم بہت پرانی ہوگئی ہے، خاص کر قمیص ؛ جب وہ نئی تھی تو اس کا رنگ گہرا نیلا اور چمکیلا تھا مگر وہ اب سفید دکھائی دیتی ہے۔ جب تک اس کو نئی قمیص نہیں دلوائی جاتی اسے اسکول نہیں بھیجاجاسکتا۔مجھے تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ آخر اس میں ایسی کونسی بات ہوگئی، آخر ان لوگوں نے قمیص کے رنگ کو اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنا لیا ہے۔تاہم تمہاری امی مطمئن ہیں کہ وہ امتحان سے پہلے پہلے اپنے یومیہ اخراجات سے پس انداز کرکے اتنی رقم جمع کرلیں گی جس سے ایک عدد قمیص خریدی جاسکے۔اورتب تک تمہارے بھائی کو گھر پر ہی رہنا ہوگا۔ہم اس حال میں اس کو اسکول جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔گزشتہ دنوں انہوں نے اس کو اتنی بری طرح پیٹا تھا کہ جب وہ گھر لوٹا تو اس کے دونوں کولہے بری طرح سوجے ہوئے تھے اور جا بجا خون چھنک آیا تھا۔پیارے بیٹے! اطلاعا ًعرض ہے کہ ہم سب بخیر وعافیت ہیں۔ ہاں! تمہاری امی کل اسپتال گئی تھیں، ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ ان کے جسم میں خون کی کمی ہے۔یہاں مچھر جو زیادہ ہیں نا اسی لئے۔اس کے علاوہ باقی سب ٹھیک ٹھاک ہے ، ہمیں کسی طرح کی کوئی شکایت نہیں۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔پتہ نہیں ،تمہیں یہ اطلاع ملی یا نہیں کہ ہمارے سات اونٹ دوسرے قبیلے کے لوگ ہانک لے گئے۔تم اچھی طرح جانتے ہو کہ وہ کون لوگ ہوسکتے ہیں، اس لیے میں ان کے نام لینے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔اْس شام ،میں اونٹوں کے باڑے میں اکیلا ہی تھا،کہ اچانک تین مسلح نوجوان آتے ہوئے دکھائی دئیے۔انہوں نے کئی ہوائی فائرکئے تاکہ یہ معلوم کرسکیں کہ اونٹوں کی حفاظت پر مامور لوگ بھی مسلح ہیں یا نہیں۔میں اکیلا تھا اور وہ تین، اس لیے ان سے مقابلے کی جرأ ت نہ کرسکا اور قریب کی ایک جھونپڑی میں چھپ گیا۔ فائرنگ کی وجہ سے چند اونٹ بدک کر بھاگ کھڑے ہوئے، جنہیں وہ اپنی طرف ہانک لے گئے۔ اور اس طرح ہمارے پاس کل بارہ اونٹوں میں سے صرف پانچ ہی باقی بچے ہیں۔البتہ یہ خبر تو تمہیں مل ہی چکی ہوگی کہ پچھلے دنوں آرمی کے آدمی میری بندوق ضبط کر کے لے گئے۔ میں نے اس کو زمین میں دبا دیا تھا۔میں کسی قیمت پر بھی بندوق ان کے حوالے کرنے کوتیار نہیں تھا پرانہوں نے مجھے بہت بری طرح مارا پیٹا اور مجھے ناچار بندوق ان کے حوالے کرنا پڑی۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ یہ میرے لیے کتنا مشکل تھا۔شاید تمہیں یاد ہو کہ وہ کتنی قیمتی تھی۔میں نے اس کو صرف ایک بار استعمال کیا تھا۔ یہ اونٹوں کی چوری کے چند روز بعد کی بات ہے۔میں نے اس سے دوسرے قبیلے کے لوگوں پر فائر کئے تھے۔اور سردار سے کہہ دیا تھا کہ وہ مسلح تھے، حالانکہ وہ مسلح نہیں تھے۔یہ شاید کوئی خاندانی کارواں تھا۔مجھے نہیں معلوم ؛ میں نے کتنے لوگوں کو مارڈالا تھا۔ پھر بھی دو تین تو ضرور مرے ہوں گے۔بیٹا ! جب یہ لوگ ہمارے جان ومال نہیں چھوڑتے تو ہم کیوں ان کو بخش دیں۔ اورہاں! اسے راز ہی رکھنا ،کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔بیٹا حالات ابھی بھی ناسازگار ہیں۔مجھے ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ گزشتہ رات ایک بس جو تمہارے شہر سے آرہی تھی اس پر کچھ نامعلوم افراد نے حملہ کردیا۔ سننے میں آیا ہے کہ ہمارے قبیلے کا ایک نوجوان شہید ہوگیا اور باقی دو افراد شدید طور پر زخمی ہوئے ہیں۔ابھی کچھ ہی دیر میں یہاں سے ایک رلیف کار روانہ ہورہی ہے۔جو آدمی اس بس کو ڈرائیو کررہا تھا وہی اس کو بھی ڈرائیو کرے گا۔اور ہاں! یہی وہ آدمی ہے جس نے ہمیں مذکورہ سانحہ کی اطلاع دی ہے۔مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ زخمیوں کو تمہارے شہر کے کسی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔اگر ممکن ہو تو ان کی تیمار داری کرو۔بیٹا !میرا دل کہتا ہے کہ تم بعافیت ہوگے۔دو ہفتے قبل میں نے لگاتار دو رات ایک ہی خواب دیکھا۔میں نے دیکھا کہ تم پروں والے گھوڑے پر سوار ہو اور ہماری ملاقات کو آرہے ہو۔پیارے بیٹے! بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بنا کسی اشد ضرورت ادھر ادھر مت جایا کرو۔ زمانہ بہت خراب ہے ’’ بوڑھا شخص ذرا دیر کے لیے رکا اور خیالات کی بھول بھلیوں میں کھو گیا۔چار سا ل پہلے کا رشید اس کے ذہن کے کینوس پر اتر آیا۔وہ اس وقت کتنا دبلا پتلا سا تھا اور کتنے کم نشانات سے اس نے ہائی اسکول پاس کیا تھا۔اس کی زندگی میں وہ وقت بھی آیا جب وہ بالکل نا مید ہو چلا تھااور افسردہ خاطر رہنے لگا تھایہاں تک کہ اسے بہت ساری بری عادتوں کی لت بھی لگ گئی تھی ،سگریٹ ، تمبا کواور دیگر نشہ آور چیزیں بھی لینے لگا تھا مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس نے عین وقت پراس کی رہنمائی فرمائی اور اس کی قسمت کا ستارہ جگمگا اٹھا۔ اس وقت عیل ادّو میں ایک رفاہی تنظیم کا قیام عمل میں آیا اور رشید کے دل میں ملازمت کرنے کا خیال پیدا ہوا۔حالانکہ اس نے ہائی اسکول بھی بمشکل تمام پاس کیا تھا۔ اس سیٹ کے لیے سخت مقابلہ بھی تھا، دوسرے قبیلوں کے لڑکے بھی اپنی قسمت آزما رہے تھے۔اور رشید باوجود اس کے کہ اپنے قبیلے کی طرف سے تنہا نمائندگی کررہا تھا ،اللہ کا شکر ہے کہ اسی کو کامیابی نصیب ہوئی۔اور اس کو منتخب کرلیا گیا۔’’میرے پیارے بچے! پچھلے خط میں جس لڑکی کا میں نے تذکرہ کیا تھا اب اس کی شادی ہو چکی ہے‘‘بوڑے شخص نے پھر سے کہنا شروع کیا:’’وہ واقعتاً بہت خوبصورت تھی،مجھے یقین تھا کہ تم اس کے ساتھ بہت خوش رہتے۔ خیر جو ہوا سو ہوا، شاید وہ تمہارے نصیب میں نہیں تھی۔تم نے کہا تھا کہ مجھے تمہاری مرضی کا خیال رکھنا چاہئے، یقیناً میں ایسا ہی کروں گا۔پھر بھی میری یہ نصیحت ہے۔خدا کے لیے !کسی دوسرے قبیلے کی لڑکی کا انتخاب نہ کرنا۔تم تو جانتے ہی ہو کہ حالات کس قدر خراب ہیں۔ابھی سال دوسال ہی کی تو بات ہے کہ ہمارے پڑوسی کے بیٹے اسماعیل نے اپنے بزرگوں کی مرضی کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے قبیلے کی لڑکی سے شادی کرلی تھی ، اس سے اس کا ایک بچہ بھی ہوا۔مگر ابھی چند ماہ پیشتر،یہ دل دہلانے دینے والا واقعہ پیش آیا کہ وہ لڑکی اپنے دودھ پیتے بچے کے ساتھ میکے گئی تھی ، اسی دن رات کے وقت جس دن وہ اپنے میکے پہونچی تھی ، اس کے اپنے سگے بھائی نے اس کو برا بھلا کہا اور بچہ کو اس کی گود سے چھین لیا اور ظالم نے اس کو قتل کرڈالا۔محض اس لیے کہ وہ معصوم ہمارے قبیلے سے منسوب تھا۔اس لیے بیٹے عافیت اسی میں ہے کہ تم اپنے لوگوں ہی میں رشتے ناتے جوڑو۔میں اکثر یہ بتانا بھول جاتا ہوں کہ تمہاری امی کی خوراکی دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔انہیں تقریبا ًہر رات قے ہوتی ہے،ڈاکٹر کہتے ہیں کہ انہیں بکری کی کلیجی کھلاؤ، لیکن ہم ہر روز کلیجی کہاں سے لائیں۔ہمارے پاس تو وہی ایک بکری تھی جو ہم نے تمہارے بھیجے ہوئے پیسوں سے خریدی تھی۔میرے نیک دل بیٹے ! اگر تمہارے پاس کچھ زائد رقم ہو تو برائے مہربانی جلدی سے بھیج دو۔ اور اپنی ماں کو موت کے منہ میں جانے سے بچالو۔مجھے اس کے لیے معاف کردینابیٹا۔مگر اس سچائی سے تمہیں واقف کرانا بھی ضروری تھا۔آج صبح میں اس کو چٹائی پر لیٹے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں،وہ بہت کمزور ہوگئیں ہیں اور بیرونق بھی۔۔۔۔ ’’ بوڑھے شخص کی آواز بھرّا گئی اور وہ سسکیاں بھرنے لگا۔پھر اس نے سر اٹھایا ،ایک طرف کو ہلکاسا جھٹکا دیا اور پھر کہنا شروع کیا:’’بیٹا !اسے روزانہ تازہ دودھ کی ضرورت ہے ،مگر ہمارے پاس اتنا دودھ کہاں۔میں بھلا کیا کرسکتاہوں۔آج مجھے پھر سے وہ وقت یاد آرہا ہے جب پچھلی مرتبہ موت کے فرشتے نے ہمارا گھر دیکھا تھا۔میں تمہاری دادی جان کی موت کو بھلا کیسے بھول سکتاہوں۔وہ ہردن دودھ مانگا کرتی تھیں، مگر ہم ہر روز دودھ کہاں سے لاتے۔، یہاں تک کہ وہ دودھ مانگتے مانگتے ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ،تم ہی کچھ کرو بیٹا۔میں تمہارے لیے دعا گوہوں اور میری نیک تمنائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں۔تم فطرتاً نیک دل ہو۔میں نے بیت الخلا کے گڈھے کھودنے کا کام چھوڑ دیا ہے اور اب جانوروں کے بازار میں دلالی کرنے لگا ہوں۔ پر یہاں تجارت کے لحاظ سے بکرے بکریاں اتنے زیادہ اچھے نہیں ہیں۔اور جیسا کہ تمہیں پتہ ہی ہے کہ یہاں پچھلے ایک سال سے بالکل بھی بارش نہیں ہوئی۔بیٹا! اگر تمہارے پاس زائد روپئے نہ ہوں تو تمہیں اپنا دل کالا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے، وہ ہمیشہ ہی سے ہمارے پاس ہے، یقیناً وہ ہمیں بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا‘‘(۲)وہ ایک بار پھر تھوڑی دیر کے لیے رکا اور ہوٹل کے دروازے کے باہر دیکھنے لگا جہاں ایک بلی پانی کی کین سے اپنا منہ نکالنے کی جدو جہد کررہی تھی۔ اس کا دھیان اپنے بیٹے رشید کی طرف چلا گیا۔رشید جب چودہ پندرہ سال کا تھا تو اسے ایک ایسی قسم کا دماغی بخار ہوا تھا جس سے آدمی پاگل پن کا شکار ہوجاتاہے۔بس یہ اللہ کی مہربانی ہی تھی کہ اس سال بارش خوب ہوئی تھی ، لہذا دودھ اور دیگر چیزیں بہت سستی تھیں اور رشید کو ہر وہ چیز بروقت مل جایا کرتی تھی جو وہ مانگا کرتا تھا۔ وہ بہت تھوڑے عرصے میں پوری طرح صحت یاب ہوگیا تھا۔یہ اس سال کی بات ہے جب رشید نے علاقائی سیاست میں عملی طور پر حصہ لینا شروع کیا تھا۔وہ نوجوانوں کو مختلف مقاص کے تحت ایک دوسرے سے مربوط کررہا تھا، وہ کہا کرتا تھا کہ آنے والے آٹھ دس برسوں میں ہمیں اس سے بڑا فائدہ ہوگا۔ مگر کچھ نوجوان اس کے خیالات کے مخالف ہوگئے ،تاہم رشید نے ہمت نہیں ہاری،البتہ اس مخالفت نے رشید کا حوصلہ اور زیادہ بڑھا دیا اور وہ پہلے سے کہیں زیادہ سرگرم ہوگیا۔لیکن پھر اللہ جانے کیا ہوا کہ اس نے بنا کسی پیشگی اطلاع یا وضاحت کے اس طرح چپ سادھ لی کہ پھر کبھی اپنے ان خیالات کا ذکر تک بھی نہیں کیا۔’’لکھتے رہو برخوردار!‘‘ ابرین اسحاق نے یوسف سے کہا۔’’بیٹا ! ایک بات میں نے تمہیں آج تک نہیں بتائی۔بہت غور وفکر کے بعد میں اس نتیجے پرپہونچا ہوں کہ اب تمہیں حقیقت حال سے واقف کرادینا ضروری ہے۔یقیناً یہ خبر تمہارے لیے کافی دھماکہ خیز ہے۔پھر بھی مجھے قوی امید ہے کہ تم اس کو انگیز کرلوگے اور اپنے حواس پر قابو رکھو گے۔بیٹا ! ایک بہت بڑا سانحہ ہم پر گزر چکا ہے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب آرمی کے آدمیوں نے میری بندوق ضبط کی تھی۔انہوں نے مجھے تو زد وکوب کیا ہی تھا ،پر تمہاری دوسری امی کو بھی نہیں بخشا۔چونکہ تمہیں اپنی دوسری امی کے بارے میں علم نہیں تھا اس لیے میںنے تمہیں یہ بات کبھی نہیں بتائی۔یہ شادی اسی رقم کی وجہ سے ممکن ہوسکی تھی جو تم نے ہمیں بھیجی تھی۔اور وہ بکری جس کا تذکرہ میں نے اس خط کی ابتدا میں کیا ہے اسی شادی کی دعوتِ ولیمہ کے لیے ذبح کی تھی۔تمہاری دوسری امی ادھیڑ عمرکی عورت ہے۔ میں نے یہ شادی اس لیے کی تھی کیونکہ مجھے اپنے لیے ایک مدگار ساتھی کی ضرورت تھی جو میرا خیال رکھ سکے اوراب تو میری یہ حالت ہے کہ میں بہت زیادہ دور چل بھی نہیں پاتا ، بہت جلدتھک جاتا ہوں۔میرے لاڈلے بیٹے! مجھے امید ہے کہ تم میری پریشانی سمجھ رہے ہوگے۔تمہاری امی نے ان ظالم فوجیوں کے ہاتھوں بہت تکلیف اٹھائی۔اورجہاں تک بندوق کی بات ہے تو اس کا تعلق تو صرف مجھ سے تھا ، پھر اس بیچاری کو یہ سب کیوں سہنا پڑا۔ چار ظالموں نے اسے برباد کیا‘‘بوڑھے شخص نے انتہائی بے تابی سے اپنی پگڑی اتاری اور منہ چھپا کر ہچکیوں کیساتھ رونے لگا۔اللہ اللہ۔’’ہم نے اس کو اونٹ کے ذریعہ عیل ادّومیں قریبی اسپتال پہونچا دیا تھا۔اْس وقت سے وہ پوری طرح نیند بھی نہیں لے پارہی ہے۔وہ اس حادثے کو اب تک بھی نہیں بھلا سکی ہے۔اس کی وجہ سے ہم سب بھی ساری ساری رات جاگا کرتے ہیں۔اور اب تو وہ امید سے بھی ہے،میں نہیں بتا سکتا کہ یہ بچہ کس کا ہوسکتا ہے۔اور جب تک ولادت نہیں ہوجاتی تب تک اس کا نسب معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں۔اگر یہ انہیں ظالموں کا ہوا تو یقیناً ہمیں معلوم ہوجائے گا۔اس سب کے ساتھ ساتھ میں اس ناگفتنی کو کیسے بھول سکتا ہوں جو اس پر گزر چکی ہے۔ فی الحال اسے اس کے ماں باپ کے پاس بھیج دیا ہے،جہاں وہ کچھ دن رہے گی۔ یہاں میرے پاس اس کی دیکھ ریکھ اور علاج معالجے کے لیے کچھ نہیں تھا۔میں اس کے علاوہ اورکر بھی کیا سکتا تھا۔اللہ یقیناً ہماری مدد فرمائے گا۔میں دعا گوہوں کہ وہ ہم سب پر اپنا کرم فرمائے۔ ممکن ہے کہ وہ پروںوالا گھوڑا جو میں نے خواب میں دیکھا تھا تمہارا اپنا خاص ہیلی کاپٹر بن جائے۔اور تم چند لمحوں میں ہمارے پاس پہونچ جاؤ۔ایک آخری بات اور یہ ہے کہ تم نے اپنے گزشتہ آخری خط میں لکھا تھا کہ تم اس ہفتے آنیوالے ہو۔ ایسا کیا ہوا کہ تم نہ آسکے؟ ہمیں یقین ہے کہ تم عنقریب ہمارے پاس ہوگے۔ بیٹا تمہیں ڈھیر ساری دعائیں اور بہت سارا پیار۔ جتنی جلدی ہوسکے آجاؤاور ہماری خبر لو۔تمہاراوالدابرین اسحاق۔‘‘بوڑھے شخص نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا تڑامڑا لفافہ نکالا۔ یوسف سے خط لیا،اسے تہہ کیا،لفافے میں رکھ کر سیل بند کیا اور واپس یوسف کو دیتے ہوئے کہا:’’اس پر رشید ابرین اسحاق کا پتہ لکھو‘‘یوسف نے اس کے حکم کی پیروی کی۔’’اللہ تمہیں خوش رکھے‘‘ بوڑھے شخص نے یوسف سے لفافہ لیا اور اس کو دعا ئیں دیتا ہوا اپنی راہ چلا گیا۔بوڑھا شخص سڑک پار کرکے امدادی گاڑی کے پاس پہونچا جس پر زخمیوں کے لیے بعض دوائیں اور دیگرچیزیں لادی جارہی تھیں۔ ڈرائیور کی کھڑکی کے پاس آیا۔اور پوچھا:’’عیل دانا ؟‘‘ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلایا۔’’یہ میرے بیٹے کو دیدینا۔بڑی مہربانی ہوگی۔وہ اسپتال ہی میں کام کرتا ہے اور امدادی کارکن بھی ہے‘‘اس نے مذکورہ لفافہ اوربارہ شلنگ اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ڈرائیورنے لفافے پر ایک نظر ڈالی اور بوڑھے شخص کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔’’کیا بات ہے ؟ ‘‘بوڑھے شخص کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔’’یہ نام کچھ جانا پہچانا لگ رہا ہے‘‘ ڈرائیور کچھ یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا۔’’ دیکھئے؛ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ گزشتہ رات جس بس پر حملہ کیا گیا تھا اسے میں ہی ڈرائیو کررہا تھا۔اس میں جو ایک نوجوان فوت ہوا تھا،وہاں عیل دانا میں کوئی بھی اس کی شناخت نہیں کرسکا تھا۔ البتہ اس کے بعض ذاتی کاغذات سے معلوم ہوا کہ وہ یہیں عیل ادّو کا رہنے والا تھا۔ میں وہ کاغذات اپنے ساتھ لایا تھا ، وہ میں نے مقامی تھانے میں جمع کردئے ہیں۔میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کے نام کا آخری جز اسحاق بھی تھا البتہ اتنایاد ہے کہ رشید ابرین اس کے نام کا حصہ ضرور تھا۔‘‘’’ اگر وہ میر بیٹا رشید تھا۔۔۔‘‘ رات ڈھل رہی تھی اوربوڑھا ابرین یہ سب سوچتے ہوئے دھیرے دھیرے اپنے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔‘‘۔۔۔ اگر وہ رشیدہی تھاتومجھے اسی وقت معلوم ہوجانا چاہئے تھا جب میں نے اس کو خواب میں پروں والے گھوڑے پر سواری کرتے ہوئے دیکھا تھا‘‘۔