کیچڑ
کیچڑ
Jul 6, 2024
مصنف
مترجم:عقیلہ منصور جدون
عقیلہ منصور جدون عرصے سے راولپنڈی میں رہائش پذیر ہیں ۔ انہیں لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کی پہلی خاتون وکیل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔۔1994 میں انٹرنیشنل مسلم وویمن کانفرنس خرطوم / سوڈان میں پاکستان کی نمائندگی اور صدر سوڈان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہو ا ۔ ادب سے دلچسپی بچپن سے تھی تو عملی طور وکالت کو خیر آباد کہنے کے بعد فطری ادبی لگاؤ نے تراجم کی طرف راغب کر دیا ۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب “ خدا کے نام خط “ حال ہی میں شائع ہوئی ۔ “ لیو ٹالسٹائی کی کہانیاں “ اس سلسلے کی دوسری کتاب ہے ۔ جو پاکستان اور ہندوستان سے بھی چھپ چکی ہے ۔
شمارہ
شمارہ۔٢٦
کیچڑ
مصنف:اینٹن چیخوف
مترجم۔ عقیلہ منصور جدون
انگلش عنوان : Mire
گھوڑے کی زین پر شان و شوکت سے جھومتا ، برف جیسا سفید کرتا پہنے ایک نوجوان ، شراب کشید کرنے کے کارخانے کے وسیع وعریض صحن میں داخل ہوا ۔ وہ شراب خانہ ایم ای روتھسٹن کے ورثا کی ملکیت تھا ۔
سورج، لیفٹینینٹ کے چھوٹے ستاروں ، صنوبر کے درختوں کے سفید تنوں اور صحن میں ادھر ادھر بکھرے کانچ کے ٹکڑوں پر لاپرواہی سے مسکرا رہا تھا ۔گرمیوں کے دنوں کی چمکدار،دلکش خوبصورتی ہر چیز سے جھلک رہی تھی ۔ رسیلے نوزائیدہ خوش باش سبز پتوں کے رقص اور نیلے آسمان کو آنکھیں مارنے میں کوئی چیز مانع نہیں تھی ۔ یہاں تک کہ اینٹوں کے کالے بھدے شیڈوں کی گندی موجودگی اور شراب بھٹی سے اٹھتا گلا گھوٹنے والا دھواں تک عمومی خوشگوار تاثر کو بگاڑنے میں ناکام تھا ۔
لیفٹینینٹ نے خوشی خوشی کاٹھی سے چھلانگ لگائی ۔اپنے گھوڑے کی لگام اس شخص کو پکڑائی جو بھاگتا ہوا اس تک پہنچ گیا تھا ۔ اور خود اپنی سیاہ نازک مونچھوں کو اپنی انگلیوں سے تھپتھپاتے ہوۓ بیرونی دروازے میں داخل ہو گیا ۔
پرانی لیکن نرم قالین بچھی سیڑھیوں کے اختتام پر اس کی ملاقات ایک متکبر خادمہ سے ہوئی ۔جو کچھ زیادہ جوان نہیں تھی ۔ لیفٹینینٹ نے اپنا کارڈ خاموشی سے بغیر کچھ کہے اسے پکڑا دیا ۔
اس نے کمروں سے گزرتے ہوۓ کارڈ پر لکھا نام “ الیگزینڈر گریگوریو چ سوکولسکی “ پڑھ لیا ۔ ایک منٹ کے توقف سے وہ واپس آ گئی اور لیفٹینینٹ کو بتایا کہ اس کی مالکہ ناسازئی طبع کے باعث اس سے ملنے سے معذور ہے ۔سوکولیسکی نے چھت کی طرف دیکھا ،اپنا نچلا ہونٹ باہر کی طرف پھیلاتے ہوے کہا ،” یہ تو بڑی پریشانی کی بات ہے “ ۔ پھر خوشدلی سے اسے کہا ، “ سنو عزیزہ ، جا کر سوسانامعاسیونا کو بتاؤ کہ میرا اس سے ملنا بہت ضروری ہے —بہت ضروری ۔میں اس کا بس ایک منٹ لوں گا ۔اسے بتاؤ میں اس کے لئیے معزرت خواہ ہوں ۔
“ خادمہ نے ایک کندھا جھٹکا اور مالکہ کو آگاہ کرنے چل پڑی ۔
مختصر سے وقفے کے بعد واپس آ کر خادمہ نے آہ بھرتے ہوۓ کہا ،” چلیں بہتر ہے ، اندر آ جائیں “ لیفٹینینٹ خادمہ کے پیچھے پیچھے پانچ یا چھ وسیع پر تعیش، سجے کمروں اور کوریڈور سے گزر کر آخرکار ایک شاندار ،مربع کمرے میں پہنچا ۔ کمرے میں پہلا قدم رکھتے ہی وہاں موجود بے تحاشا پھولوں ، پودوں ، مٹھائیوں اور چنبیلی کی ناگوار ،بوجھل خوشبو سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ پھول دیواروں کے ساتھ بنے جنگلوں پر چڑھاۓ گئے تھے ۔ اس کے علاوہ چھت سے لٹکے ہوۓ اور کونوں میں بھرے ہوۓ تھے ۔ جس سے وہ رہنے کا کمرہ نہیں بلکہ کوئی گرین ہاؤس، پودوں کی نرسری لگتا تھا ۔,انجنئیر پرندے چڑیاں ,طلائی برقش سبز پتوں میں چہچہا رہی تھیں اور کھڑکیوں کے فریموں سے ٹکرا رہی تھیں ۔
“میں آپ کا استقبال یہاں کرنے پر معزرت خواہ ہوں ،” لیفٹینینٹ نے نرم مدھر آواز سنی ۔ “ کل میرے سر میں درد تھا ، میں پرسکون رہ کر کوشش کر رہی ہوں کہ یہ دوبارہ نہ شروع ہو جاۓ ۔ آپ کیا چاہتے ہیں”۔ ؟
کمرے کے داخلی دروازے کے بالمقابل اس نے ایک بڑی آرام دہ کرسی جو عموما” بوڑھے آدمی استعمال کرتے ہیں ، میں ایک عورت کو بہت قیمتی چینی ڈریسنگ گاؤن پہنے بیٹھے دیکھا ۔اس نے اپنا سر باندھا ہوا تھا۔ پیچھے ہوکر تکیے سے ٹیک لگا رکھی تھی ۔اونی شال جو اس نے لپیٹی ہوئی تھی کے پیچھے ماسواۓ ایک زرد لمبی نوکدار کچھ کچھ عقاب جیسی ناک اور ایک سیاہ آنکھ کے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کے بھاری ڈریسنگ گاؤن نے اس کی شخصیت چھپائی ہوئی تھی ۔لیکن اس کے خوبصورت ہاتھ ،اس کی آواز ، ناک اور آنکھ سے اس نے اندازہ لگایا کہ وہ چھبیس یا اٹھائیس سال کی ہو گی ۔
“ مجھے بھی ملاقات کے لئیے اصرار کرنے پر معاف کرنا ۔۔۔” لیفٹینینٹ نے ایڑیاں بجاتے ہوۓ معزرت کرتے ہوۓ کہا ۔ مجھے اپنا تعارف کروانے کی اجازت دیں ۔ میں سوکولسکی ،اپنے کزن ایوانوچ کریوکوف جو آپ کا ہمسایہ ہے کا پیغام لے کر آیا ہوں ،جو۔۔۔۔۔”
“ میں جانتی ہوں ! “ سوسانا معاسیوینا نے مداخلت کی ۔ “ میں کریوکوف کو جانتی ہوں ، تشریف رکھیں ۔مجھے نہیں پسند کہ میرے سامنے کوئی بڑی چیز کھڑی رہے ۔ “ میرے کزن نے مجھے آپ سے ایک مہربانی کی استدعا کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے ۔
لیفٹینینٹ نے ایک بار پھر ایڑیاں بجاتے ہو کہا اور بیٹھ گیا ۔ “ معاملہ کچھ یوں ہے کہ آپ کے آنجہانی والد صاحب نے پچھلے موسم سرما میں میرے کزن سے جو/ oats خریدے تھے ۔ کچھ رقم کی ادائیگی بقایا تھی ۔ رقم کی ادائیگی کی مہلت اگلے ہفتے ختم ہو رہی ہے ۔ لیکن میرا کزن چاہتا ہے کہ آپ اگر ممکن ہو تو آج ہی ادائیگی کر دیں ۔
“ جس دوران لیفٹینینٹ بات کر رہا تھا ، تو ساتھ ہی چور نگاہوں سے اپنے گردو پیش کا جائزہ بھی لے رہا تھا ۔ “ یقینا” میں اس کے بیڈروم میں نہیں ہوں ۔” اس نے سوچا ۔ کمرے کے ایک کونے میں جنازے کے شامیانے جیسے سائبان کے نیچے سب سے زیادہ پودے تھے ایک پلنگ تھا ،جسے ابھی تک درست نہیں کیا گیا تھا ۔ بستر کی چادریں ابھی تک بے ترتیب پڑی تھیں ۔ اس کے پاس دو آرام کرسیوں پر شکن آلود زنانہ کپڑے پڑے تھے ۔پیٹی کوٹ اور چنٹ دار لیس اور جھالر یں لگی آستینیں نیچے قالین پر بکھری تھیں ۔ اسی قالین پر ادھر ادھر سفید ٹیپ کے ٹکڑے ، پھونکے ہوۓ سگریٹوں کے آخری سرے اور سوختہ شکر کے کاغذ پھیلے ہوۓ تھے ۔ ۔۔ پلنگ کے نیچے سے ہر قسم کے نوکدار اور چوکور پنجوں والے جوتوں کی لمبی قطاریں جھانک رہی تھیں ۔
لیفٹینینٹ کو ایسا لگا جیسے چنبیلی کی خوشبو پھولوں سے نہیں بلکہ ۔پلنگ اور سلیپروں سے آ رہی تھی ۔ “ کتنی رقم بقایا ادا ہونی ہے ؟ “ سوسانا معاسیونا نے پوچھا ۔
“ دو ہزار تین سو ۔” “ اوہو ! یہودن نے دوسری بڑی سیاہ آنکھ بھی ظاہر کرتے ہوۓ کہا ۔ “ اور تم اسے معمولی رقم کہہ رہے ہو ! تاہم ایک ہی بات ہے چاہے آج ادائیگی کی جاۓ یا ہفتے بعد ۔ مجھے اپنے والد کی وفات کے بعد پچھلے دو مہینوں میں بہت زیادہ ادائیگیاں کرنی پڑی ہیں ۔۔۔۔۔ انتہائی بیہودہ کاروبار ، کہ میرا سر چکرانے لگا ہے ! ایک اچھا خیال ! میں بیرون ملک جانا چاہتی ہوں ،جبکہ وہ مجھے مسلسل ان معمولی بیہودہ چیزوں میں الجھاۓ ہوے ہیں ۔ ووڈکا، جو/ oats ۔۔۔” وہ اپنی آنکھیں آدھی بند کرتے ہوۓ بڑبڑائی ۔ “ جو ، بل ، فیصدیں یا جیسا کہ میرا ہیڈ کلرک اسے بگاڑ کر بولتا ہے ۔۔۔۔۔۔یہ سب بہت خوفناک ہے ۔ کل ہی میں نے ایکسائز افسر کو باہر نکال دیا ۔وہ مجھے اپنی بکواس سے ڈرا رہا تھا ۔ میں نے اسے کہا ،” تم اپنی بک بک سمیت بھاڑ میں جاؤ ! میں یہ سب مزید برداشت نہیں کر سکتی ۔ اس نے میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور چلا گیا ۔ میں تمہیں بتا رہی ہوں ،کیا تمہارا کزن ایک دو ماہ مزید انتظار نہیں کر سکتا ؟”
“ بہت ہی ظالمانہ سوال “ ! لیفٹینینٹ ہنسا ۔ میرا کزن تو ایک سال تک انتظار کر سکتا ہے لیکن میں انتظار نہیں کر سکتا ! میں تمہیں حقیقت بتاتا ہوں ،میں یہ سب اپنے لیے کر رہا ہوں ۔ مجھے ہر قیمت پر رقم چاہیے اور بدقسمتی سے میرے کزن کے پاس مجھے دینے کے لیے ایک روبل بھی نہیں ہے ۔اس لیے میں گھوم پھر کر قرضوں کی وصولی کرنے پر مجبور ہوں ۔ اس سے قبل میں ایک کسان ،ایک کرایہ دار کے ہاس جا چکا ہوں اور اب تمہارے پاس آیا ہوں ۔یہاں سے کسی اور کے پاس جاؤں گا ،اس طرح جب تک میرے پاس پانچ ہزار روبل جمع نہیں ہو جاتے میں گھومتا رہوں گا ۔مجھے رقم کی شدید ضرورت ہے! ۔ “
“ بےوقوفانہ حرکت ! جوان آدمی نے پیسوں کا کیا کرنا ہے ؟ کیوں ؟ کیا تمہیں عیاشی کرنی ہے ؟ یا تاش میں ہار چکے ہو ؟ یا کیا تم شادی کرنے لگے ہو؟ ۔”
“ تمہارا قیاس درست ہے ! “ لیفٹینینٹ ہنسا ، اپنی نشست سے ہلکا سا اوپر اٹھتے ہوۓ اس نے اپنی ایڑیاں بجائیں ۔ میں واقعی شادی کرنے لگا ہوں ۔ “
سوسانا نے اپنے ملاقاتی کو بغور دیکھا ، منہ بنایا اور آہ بھری ۔ “ مجھے سمجھ نہیں آتی لوگ شادی کرنے کے لئیے کیوں مرے جاتے ہیں ؟ اس نے اپنا رومال ڈھونڈتے ہوۓ کہا ۔ “ زندگی اتنی مختصر ہے ۔انسان کے پاس اتنی تھوڑی آزادی ہے اور اس پر وہ بیڑیاں پہننا چاہتے ہیں “۔ “ ہر ایک کا دیکھنے کا اپنا انداز ہے ۔۔۔۔۔”
“ بالکل ،بالکل بےشک ، ہر شخص کا اپنا نکتہ نظر ہے ،لیکن مجھے یہ پوچھنا ہے ،کیا تم کسی غریب سے شادی کرنے لگے ہو ؟ “ کیا تم شدید محبت میں گرفتار ہو ؟ اور تمہیں پانچ ہزار کا کیا کرنا ہے؟ چار یا تین ہزار سے کام کیوں نہیں چلے گا ؟ “ لیفٹینینٹ نے سوچا ،اس عورت کی کیسی زبان ہے ،اور جواب دیا ، “ مسلۂ یہ ہے کہ ایک افسر جب تک اٹھائیس سال کا نہیں ہو جاتا وہ قانونا” شادی نہیں کر سکتا ۔اس لیے اگر آپ نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا تو آپ کو ملازمت چھوڑنی پڑے گی ۔ یا پھر پانچ ہزار جمع کروانے پڑیں گے ۔” “ہا ہا ، اب میں سمجھ گئی ۔ سنو ۔ تم نے ابھی کہا تھا کہ ہر شخص کا معاملہ دیکھنے کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔۔۔۔ محسوس ہوتا ہے کہ تمہاری منگیتر بہت خاص ہے ، لیکن ۔۔۔۔۔ لیکن میں بالکل سمجھ نہیں سکتی کہ کوئی بھی معقول اور مہزب شخص کسی ایک عورت کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہے ؟ مجھے یہ بات ساری زندگی سمجھ نہیں آۓ گی ۔ شکر خدا کا، میں زندگی کی ستائیس بہاریں دیکھ چکی ہوں ،لیکن میں نے اب تک کوئی قابل برداشت عورت نہیں دیکھی ۔سب کی سب ظاہر داری کا مرکب ہیں ، بے شرم ،بدکردار اور جھوٹی ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔صرف اور صرف جن سے میں گزارہ کر سکتی ہوں وہ گھریلو خادمہ یا خانساماں ہوتی ہیں ۔ لیکن نام نہاد ‘خواتین ‘ میں انہیں اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتی ۔ لیکن شکر خدا کا ،وہ مجھ سے نفرت کرتی ہیں اور خود ہی مجھ سے دور رہتی ہیں ۔اگر ان میں سے کسی کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے تو اپنے خاوند کو میرے پاس بھیجتی ہے لیکن خود کبھی نہیں آتی ،نہ نہ ،خودداری یا فخرو غرور کی وجہ سے نہیں بلکہ بزدلی کی وجہ سے ۔وہ اپنا تماشا بنوانے سے ڈرتی ہیں ۔ میں ان کی نفرت کو اچھی طرح سمجھتی ہوں ! میں تو بس وہ سب کھول دیتی ہوں جسے وہ اپنے خاوندوں اور خدا سے چھپاتی پھرتی ہیں ۔ وہ مجھ سے نفرت کئیے بغیر کیسے رہ سکتی ہیں ؟ بے شک تم نے پہلے ہی سے میرے بارے میں ہزار ہا سکینڈل ، افسانے سنے ہوں گے ۔ ۔۔”
“ میں بس کچھ ہی دن ہوۓ یہاں پہنچا ہوں ۔۔۔۔”
چچ، چچ، چچ ! ۔۔۔۔۔تمہاری آنکھوں سے پتہ چل رہا ہے ۔ لیکن تمہارے کزن کی بیوی ، اس نے ضرور تمہیں اس مہم کے لیے تیار کرکے بھیجا ہو گا ۔ میں یہ مان ہی نہیں سکتی کہ ایک خوفناک عورت سے ملنے ایک نوجوان آۓ اور اسے پہلے سے خبردار نہ کیا گیا ہو ، ہا ہا ۔۔۔۔ چلو مجھے یہ بتاؤ ، تمہارا بھائی یعنی کزن کیسا ہے ؟ وہ تو بہت نفیس اور خوبصورت انسان ہے ! ۔۔۔۔۔ میں اسے میس میں کئی دفعہ دیکھ چکی ہوں ۔ تم مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو ؟ میں اکثر گرجا جاتی ہوں ۔ہم سب کا ایک ہی خدا ہے ۔ایک پڑھے لکھے شخص کے لئیے باطن کے مقابلے میں خارج یا ظاہر کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔۔۔۔ کیوں میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا ۔”
“ ہاں ، بے شک ۔۔۔۔ “ لیفٹینینٹ مسکرایا ۔ ہاں تو باطن ، آئیڈیا ۔۔۔۔۔ لیکن تم اپنے بھائی جیسے بالکل نہیں ہو ۔ تم بھی خوبصورت ہو لیکن تمہارا بھائی تم سے بہت زیادہ بہتر دکھائی دیتا ہے ۔ حیران کن حد تک تم دونوں میں کوئی مشابہت نہیں ۔ “ “ یہ بالکل قدرتی بات ہے وہ میرا بھائی نہیں بلکہ کزن ہے ۔” “ ہاں ،با لکل ۔تو تمہیں آج ہی رقم چاہئے ۔؟ آج ہی کیوں ؟ “ “ کچھ دنوں میں میری چھٹی ختم ہو رہی ہے ۔”
“ ٹھیک ، تمھارا کیا کیا جاۓ ! “ سوسانا معاسیوینا نے آہ بھری ۔ میں تمہیں رقم دے دوں گی لیکن مجھے معلوم ہے تم اس کے لیے بعد میں مجھے برا بھلا کہو گے ۔ شادی کے بعد تم اپنی بیوی کے ساتھ لڑو گے ، جھگڑو گے اور کہو گے ، ‘اگر اس بیہودہ یہودن نے مجھے اس دن پیسے نہ دئے ہوتے تو میں آج کسی بھی پرندے کی طرح آزاد ہوتا ؟ کیا تمہاری منگیتر بہت خوبصورت ہے ؟ “
“ جی ،ہاں ۔” “ ا ،م۔ ۔۔۔ بہر حال کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے ،چاہے صرف خوبصورتی ہی ہو ، لیکن اس کا خاوند اس کی خوبصورتی کے باوجود اس کی بےوقوفیوں سے نبھا نہیں کر سکتا۔ “
“ یہ ہوئی نا بات ! “ لیفٹینینٹ نے قہقہ لگایا ۔تم خود ایک عورت ہو اور عورتوں سے اتنی شدید نفرت ! “
“ ایک عورت ۔۔۔۔۔۔” سوسانا مسکرائی ۔ “ یہ میری غلطی نہیں ہے کہ خدا نے مجھے اس سانچے میں ڈھالا ہے ۔مجھ پر اس کا الزام نہیں لگایا جا سکتا ایسے ہی جیسے ان بھاری مونچھوں کا الزام تم پر نہیں لگ سکتا ۔ وائلن کو اس کے ڈبے کے چناؤ کا زمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ میں اپنے آپ کو بہت پسند کرتی ہوں ،لیکن جب کوئی مجھے یہ احساس دلاتا ہے کہ میں ایک عورت ہوں ،تو مجھے اپنے آپ سے نفرت ہو جاتی ہے ۔ تاہم تم جاؤ اور ڈرائنگ روم میں انتظار کرو ،میں تیار ہو کر آتی ہوں ۔ “
لیفٹینینٹ باہر نکل گیا اور سب سے پہلے اس نے ، چنبیلی کی بوجھل خوشبو سے چھٹکارا ملنے پر گہرا سانس لیا ۔ جس سے اس کے گلے میں سوزش شروع ہو گئی تھی اور اس کا سر چکرانے لگا تھا ۔
“ کیسی عجیب عورت ہے ! “ اس نے سوچا ۔ “ وہ روانی سے بولتی ہے ، لیکن ۔۔۔۔ بہت زیادہ بولتی ہے ۔ یہ ضرور اعصابی مریضہ ہے ۔ “
اب وہ جس ڈرائنگ روم میں کھڑا تھا ،اس میں بہت زیادہ فرنیچر تھا ۔ جو پر تعیش اور فیشن کے مطابق تھا ۔ میز پر گہرے سیاہ رنگ کی کانسی کی پلیٹیں تھیں جن پر سکون آمیز مناظر جیسے دریاۓ رائن کی نقاشی کی گئی تھی ، قدیم فیشن کے شمع دان ،جاپانی مجسمے ،لیکن اس سب پر تعیش اور فیشن کے مطابق ہونے کی کوشش کے باوجود سنہری جھالروں ، کارنسوں بھڑکیلے دیوار کے کاغذوں ، شوخ مخملی میزپوشوں ،اور بھاری فریموں کے اندر روغنی تصاویر حس جمال کی کمی اور بد ذوقی کا مظہر تھیں ۔ کمرے کے کھچا کھچ بھرے ہونے اور سجاوٹ کے اختتام میں جمالیاتی حس کے فقدان سے عمومی بد ذوقی کا تاثر مکمل ہو رہا تھا ۔ جس سے یہ احساس ابھرتا تھا کہ کہیں کچھ کمی ہے۔ اور بہت کچھ بطور کوڑا پھینکے جانے کی ضرورت ہے ۔ یہ صاف ظاہر تھا کہ سارا فرنیچر ایک ہی بار نہیں خریدا گیا تھا ۔بلکہ ہر ایک چیز الگ الگ کبھی نیلامی اور کبھی کسی اور فائدہ مند موقع پر خریدی گئی تھی ۔ خدا ہی جانتا ہے کہ لیفٹینینٹ خود کس ذوق کا مالک تھا لیکن اس کی توجہ اس ساری جگہ کی ایک خصوصیت کی طرف مبزول ہوئی ،جسے کوئی بھی فیشن مٹا نہیں سکتا ۔ اور وہ تھی اس سب سجاوٹ میں محتاط نسوانی ہاتھوں کی شمولیت کی عدم موجودگی ۔ ہم سب جانتے ہیں نسوانی ہاتھوں کی شمولیت کمرے کی سجاوٹ میں گرمائش ، شاعری اور سکھ چین کا احساس پیدا کرتی ہے ۔جب کہ وہاں ایک ٹھنڈی بے حسی تھی جیسی سٹیشنوں کی انتظار گاہوں ،کلبوں اور تھیٹر کے دالانوں میں پائی جاتی ہے ۔ کمرے میں کوئی ایسی خاص چیز موجود نہیں تھی جس کا تعلق خصوصی طور پر یہودیت سے ہو ، ماسواۓ ایک بڑی تصویر جس میں یعقوب اور اسحاق کی ملاقات کا منظر دکھایا گیا تھا ۔ لیفٹینینٹ نے اپنے ارد گرد دیکھا اور کندھے اچکاتے ہوۓ اپنے نئے عجیب وغریب تعلق ، اس کے آزاد، پرسکون اور غیر رسمی انداز گفتگو کے بارے میں سوچا ۔ تب ہی دروازہ کھلا اور خاتون خانہ خود اندر داخل ہوئی وہ لمبے سیاہ لباس میں ملبوس تھی جواتنی سختی سے کسا ہواتھا کہ اس کا جسم خراد کی مشین سے نکلا ہوا
محسوس ہو رہا تھا ۔ اب لیفٹینینٹ نے نہ صرف ناک اور آنکھیں بلکہ پتلا سفید چہرہ بھی دیکھا۔سر مکمل سیاہ اور میمنے کی کھال کی طرح گھنگھریالہ تھا ۔ اسے اس میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوئی ۔ اگرچہ وہ اسے بد صورت بھی نہیں لگی ۔ وہ ویسے بھی غیر روسیوں کے بارے میں متعصب تھا ، اس نے یہ بھی سوچا کہ خاتون کا سفید چہرہ ،جس کی سفیدی کسی وجہ سے چنبیلی کی خوشبو کی کثرت اس کے چھوٹے سیاہ بالوں کے پیچ و خم اور گھنی ابروؤں کے ساتھ میل نہیں کھاتی تھی ۔ اس کی ناک اور کان حیران کن حد تک سفید جیسے کسی لاش کے ہوں یا کسی شفاف موم سے ڈھالے گئے ہوں ۔جب وہ مسکراتی تو اس کے زرد مسوڑے اور دانت نظر آتے اور اسے وہ بالکل پسند نہیں آۓ ۔ “ خون کی کمی ۔۔۔۔۔۔” اس نے سوچا ، “ وہ شاید کسی فیل مرغ کی طرح گھبرائی ہوئی تھی ۔”
“ میں آ گئی ، آ جاؤ ! “ اس کے آگے تیز تیز چلتے ہوۓ ، اس نے کہا ۔ پودوں کے پاس سے گزرتے ہوۓ اس نے پیلے پتے نوچے ۔ میں تمہیں فورا” ادائیگی کر دوں گی اور اگر تم چاہو تو دن کا کھانا بھی کھا سکتے ہو ۔ آتنے اچھے کاروبار کے بعد تمہیں اچھے لنچ کی خواہش ہو گی ۔ کیا تمہیں میرے کمرے پسند آۓ ۔ یہاں کی خواتین کو ہمیشہ شکایت رہتی ہے کہ میرے کمروں سے لہسن کی بو آتی ہے ۔ایسے گھٹیا تمسخر سے ان کی مردہ حس مزاح کا پتہ چلتا ہے ۔ میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ میرے گھر میں یہاں تک کے تہہ خانے کے گودام میں بھی لہسن نہیں ہے ۔ ایک دن جب ڈاکٹر جس سے لہسن کی بو آتی تھی مجھے ملنے آیا تو میں نے اسے کہا کہ اپنا ٹوپ اٹھاؤ اور اپنی بو کہیں اور جا کر پھیلاؤ ۔ یہاں کہیں بھی لہسن کی بو نہیں ہے لیکن یہاں سے ادویات کی بو ضرور آتی ہے۔ میرے والد کوئی ڈیڑھ سال مفلوج لیٹے رہے اس لئیے پورے گھر میں ادویات کی بو پھیل گئی ۔ پورا ڈیڑھ سال ! مجھے بہت دکھ ہے لیکن میں خوش ہوں کہ وہ فوت ہو گئے ،انہوں نے بہت تکلیف برداشت کی ! “،
وہ اسے دو ڈرائنگ روم سے مشابہ کمروں سے اور ایک بڑے استقبالیہ ہال سے گزار کر اپنے مطالعاتی کمرے میں لے گئی ۔ جہاں خواتین کے لکھنے کی میز رکھی تھی ۔ جس پر چھوٹے چھوٹے آرائشی ٹکڑے پڑے تھے . اس کے قریب قالین پر بہت ساری کتابیں بکھری پڑی تھیں ۔ جنہیں کھول کر پیچھے کی طرف موڑ دیا گیا تھا ۔ مطالعاتی کمرے سے ایک چھوٹا دروازہ دوسرے ملحقہ کمرے میں کھلتا تھا جس میں کھانے کی میز رکھی تھی . گفتگو جاری رکھتے ہوۓ سوسانا نے اپنی جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور ایک بہت زہانت ، فن کاری سے بنائی گئی الماری کا تالہ کھولا ۔اس الماری کا ڈھکن مڑی ہوئی ڈھلوان کی شکل کا تھا ۔ جب ڈھکن اٹھایا گیا تو الماری سے عجیب دردناک سی آواز نکلی جس سے لیفٹینینٹ کو باد ترنگ ، عود ہوائی کی یاد آ گئی ۔
سوسانا نے ایک اور چابی نکالی اور ایک اور تالہ کھولا ۔ “ یہاں خفیہ راستے اور دروازے ہیں “ یہ کہتے ہوۓ اس نے ایک مراکشی بیگ نکالا ۔” یہ مضحکہ خیز الماری ہے اور اس بیگ میں میری ایک چوتھائی دولت ہے ۔ دیکھو تو یہ کتنا پھولا ہوا ہے ۔ تم میرا گلا تو نہیں دباؤ گے ؟ “ سوسانا نے نگاہیں اٹھا کر لیفٹینینٹ کو دیکھا اور خوشدلی سے ہنسنے لگی ۔
لیفٹینینٹ بھی ہنسنے لگا ۔ “ کافی مزاحیہ ہے ،“ اس نے سوچا ۔ ساتھ ہی اس کی انگلیوں میں چمکتی چابیوں کو دیکھا ۔
“ یہ رہی ،” بیگ کی چابی نکالتے ہوۓ وہ بولی ۔ “ اب ، جناب قرض خواہ صاحب آپ اپنی رسیدیں / IOU دکھائیں ۔ پیسہ بھی کتنی نامعقول چیز ہے ! قابل نفرت ہے ، لیکن پھر بھی عورتیں اس سے محبت کرتی ہیں ۔ میں اپنی سرشت میں مکمل یہودن ہوں ۔ میں شموئل اور یانکیز سے شدید جذباتی محبت کرتی ہوں ۔ لیکن میں اپنے سامی خون کی وجہ سے فائدے کی حرص جو ہم یہودیوں میں بدرجہ اُتم موجود ہوتی ہے ،سے بے انتہا نفرت کرتی ہوں ۔ سامی ، زخیرہ کرتے ہیں اور جانتے بھی نہیں کہ کس لئیے زخیرہ کر رہے ہیں ۔ انسان کو زندہ رہ کر زندگی کا لطف اٹھانا چاہیے لیکن وہ ایک پیسہ بھی فالتو خرچ کرنے سے ڈرتے ہیں ۔ اس حوالے سے میں شمیوئل سے زیادہ ہسار( ہنگری کے پندرہویں اور سولہویں صدی کے فوجی ) ہوں ۔ میں رقم کو ایک ہی جگہ زیادہ عرصہ رکھنے کے خلاف ہوں ۔اسی وجہ سے میں سوچتی ہوں کہ میں یہودیوں جیسی نہیں ہوں ۔ کیا میرے لب و لہجہ سے میرے بارے میں پتہ چلتا ہے ؟ “
“ میں کیا کہہ سکتا ہوں ؟ لیفٹینینٹ بڑبڑایا ۔” تم روسی بہت اچھی بولتی ہو ،لیکن تم ر او س پر لڑکھڑاتی ہو ۔”
سوسانا نے ہنستے ہوۓ چابی بیگ کے تالے میں لگائی ۔لیفٹینینٹ نے اپنی جیب سے IOU / قرض کی رسیدوں کا ایک چھوٹا سا بنڈل نکالا اور اسے میز پر نوٹ بک کے ساتھ رکھ دیا ۔ “
ایک یہودی کو اس کے لہجے سے پہچانا جا سکتا ہے ۔ “ سوسانا نے لیفٹینینٹ کو مسکراتے ہوۓ دیکھتے ہوۓ بات جاری رکھی ۔ وہ چاہے جتنا مرضی اپنے آپ کو روسی یا فرانسیسی ظاہر کرنے کی کوشش کرے جب اسے ۔پر بولنے کا کہیں تو وہ پد ہی بولے گا ۔۔۔۔۔ لیکن میں بالکل درست بول سکتی ہوں ،’ پر ! پر! پر! ‘ “۔ “ قسم سے یہ بہت مزاحیہ ہے ، “ سوکولسکی نے سوچا ۔ سوسانا نے بیگ ایک کرسی پر رکھا ۔لیفٹینینٹ کی طرف ایک قدم بڑھایا ،اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب کیا اور خوش دلی سے بولی ، یہودیوں کے بعد میں سب سے زیادہ روسی اور فرانسیسی لوگوں کو پسند کرتی ہوں ۔میں سکول میں کوئی خاص اچھی نہیں تھی ۔مجھے تاریخ کا بھی کچھ خاص علم نہیں تھا لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی تقدیر انہی دو قوموں کے ہاتھوں میں ہے ۔ میں بہت عرصے بیرون ملک رہی ۔۔۔۔۔۔ میں نے چھ ماہ میڈرڈ میں گزارے ۔ میں نے قوموں کا مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ روسی اور فرانسیسی قوموں سے بہتر کوئی اور نہیں ۔ مثال کے طور پر زبانوں ہی کو لے لو ۔۔۔۔۔۔ جرمن زبان گھوڑوں کے ہنہنانے جیسی ہے ۔ انگریزی کی بات کریں تو اس سے زیادہ بےوقوفانہ کچھ اور نہیں ۔فائیٹ (لڑائی) —-فیٹ ( پاؤں ) —-فٹ ! اطالوی تبھی اچھی لگتی ہے جب اسے آہستہ آہستہ بولا جاۓ ۔اگر آپ کسی اطالوی کو تیز تیز بولتے سنیں تو آپ کو یہودی بازاری زبان کا احتمال ہو گا ۔ اور اگر کسی پولینڈ کے باشندے کو بولتے سنیں ،خدا کی پناہ ،ان کی زبان سے زیادہ ناگوار کوئی زبان نہیں ۔ ‘ باربی کیو پر پیپر ( کالی مرچ) کا چھڑکاؤ نہ کرو پیوٹر ، وگرنہ تم باربیکیو کو مرچوں سے مر چیلا کردو گے ۔ ,
. ہا ہا ہا ۔ سوسانا معیسونا آنکھیں گھماتے ہوۓ لیفٹینینٹ کو دیکھتے ہوۓ ایسے بے ساختہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی کہ لیفٹینینٹ بھی اسے دیکھتے ہوۓ اونچے قہقہے لگانے لگا ۔
اس نے اپنے ملاقاتی کو بٹن سے پکڑا اور گویا ہوئی ، “ تم یہودیوں کو پسند نہیں کرتے ، بے شک ۔۔۔۔۔ تمام اقوام کی طرح ان میں بھی بہت سی خرابیاں ہیں ۔ میں اس پر جھگڑا نہیں کرتی ۔ لیکن کیا اس کے لئیے یہودیوں کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے ؟ ۔ نہیں ، تمام یہودی مرد قصور وار نہیں ہیں ،ہاں لیکن یہودی عورتیں ! وہ تنگ نظر اور لالچی ہوتی ہیں ۔ ان کے حوالے سے کبھی کوئی شاعری نہیں کرتا ۔وہ خشک ، پھیکی ،بے لطف اور سست ہوتی ہیں ۔ ۔۔۔ تمہیں کبھی کسی یہودن کے ساتھ رہنے کا اتفاق نہیں ہوا ۔اس لئیے تم نہیں جانتے کہ یہ کتنا پرکشش ہے ! ۔ سوسانا نے آخری الفاظ پر بغیر ہنسے ، شعوری کوشش سے زور دیتے ہوۓ ادا کیے ۔ پھر اس نے تھوڑا توقف کیا جیسے وہ اپنی بہت زیادہ بے باکی پر تھوڑا خوفزدہ ہو گئی ہو ۔لیکن اچانک اس کا چہرہ عجیب و غریب طور پر ناقابل توجیح طور پر بگڑ گیا ۔وہ بغیر آنکھیں جھپکا ۓ لیفٹینینٹ کو گھورنے لگی اس کے ہونٹ کھل گئے اور بھینچے ہوۓ دانت دکھائی دینے لگے ۔ اس کا چہرہ ، اس کا گلا اور اس کا سینہ سب نفرت انگیز کینے اور بلی جیسے تاثرات سے کانپنے لگے تھے ۔
اپنی آنکھیں اپنے ملاقاتی پر جماۓ رکھتے ہوۓ ،وہ تیزی سے ایک طرف جھکی اور بلی جیسی پھرتی سے میز سے کوئی چیز جھپٹ کر اٹھائی ۔ یہ سب کچھ چند سیکنڈ کے اندر ہو گیا ۔اس کی حرکات دیکھتے ہوۓ ،لیفٹینینٹ نے پانچ انگلیوں کو اپنی رسیدوں کو چرمر کرتے دیکھا اور سفید کاغذ کو اس کی مٹھی میں غائب ہوتے دیکھا ۔ خوش دلی سے ہنسنے کے جرم میں اتنی غیر معمولی تبدیلی نے اسے خوفزدہ کردیا زرد پڑتے ہوۓ وہ پیچھے ہٹا ۔۔۔۔ سوسانا نے اپنی خوفزدہ متلاشی نگاہیں اس پر جماۓ رکھتے ہوۓ اپنی بند مٹھی کے ساتھ اپنے کولھے پر اپنی جیب تلاش کی۔ بالکل اس مچھلی کی طرح جو جال میں پھنسی تڑپتے ہوۓ رہائی کی کوشش کرتی ہے ۔ممکن تھا کہ اگلے لمحے میں رسیدیں اس کے نسوانی لباس کے پوشیدہ حصوں میں غائب ہو جاتیں لیکن عین اسی لمحے لیفٹینینٹ نے ایک مدھم چینخ ماری اور جبلتا” چھلانگ لگاتے ہوۓ یہودن کا بازو اس کی بند مٹھی سے اوپر پکڑ لیا ۔
سوسانا کے دانت پہلے سے زیادہ واضح نظر آنے لگے ۔اس نے اپنی پوری طاقت استعمال کرتے ہوۓ اپنا ہاتھ پرے کھینچ لیا ۔ تب سوکولسکی نے اپنا دایاں بازو مضبوطی سے اس کی کمر کے گرد حمائل کرتے ہوۓ دوسرا ہاتھ اس کے سینے کے گرد لپیٹ لیا اور اس طرح جدو جہد شروع ہو گئی ۔ اس کے ساتھ جنسی زیادتی سے بچنے اور اسے کوئی جسمانی چوٹ پہنچاۓ بغیر اس نے صرف اسے روکنے اور اس کی رسیدوں والی بند مٹھی تک پہنچنے کی کوشش کی ۔ وہ اس کے بازوؤں میں کسی بام مچھلی کی طرح اپنے لچکدار جسم کے ساتھ مچلتی رہی ۔ اپنی کہنیوں کے ساتھ اس کے سینے پر ضربیں لگاتی رہی ،تا کہ وہ اسے ہر طرف سے چھونے پر مجبور ہو اسے چوٹ لگاۓ اور اس کی شرم و حیا کی پرواہ نہ کرے ۔
“ یہ سب کتنا غیر معمولی ،عجیب اور انوکھا ہے! ،” لیفٹینینٹ نے سرا سر متعجب ہو کر سوچا ۔ وہ بمشکل اپنے حواس پر یقین کر پا رہا تھا ۔ ساتھ ہی وہ چنبیلی کی تیز خوشبو سے بیزار ہو رہا تھا ۔ وہ دونوں خاموش رہتے ہوۓ ،گہرے سانس لیتے ہوۓ ،فرنیچر سے الجھتے ،ٹھوکریں کھاتے کمرے میں گھومتے رہے ۔ اس جد وجہد سے سوسانا بہکنے لگی ، اس کے چہرے پر سرخی آ گئی ۔آنکھیں بند کر لیں اپنے آپ کو فراموش کرتے ہوۓ ایک دفعہ تو اپنا چہرہ لیفٹینینٹ کے چہرے سے رگڑا یہاں تک کہ اس کے لبوں پر میٹھا سا ذائقہ رہ گیا ۔ آخر کار اس نے اس کی بند مٹھی والا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔ اسے کھولنے پر مجبور کیا ، لیکن مٹھی سے رسیدیں برآمد نہ ہونے پر اس نے یہودن کو چھوڑ دیا ۔ سرخ چہروں ،بکھرے بالوں کے ساتھ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ،ان کی سانسیں تیز اور بے ترتیب تھیں ۔ یہودن کے چہرے کے کینہ توز بلی جیسے تاثرات آہستہ آہستہ نارمل خوشدل مسکراہٹ میں بدل گئے ۔ وہ یکدم قہقہے لگانے لگی ،ایک پاؤں پر مڑی اور اس کمرے کی طرف جہاں لنچ تیار تھا چلی گئی ۔
لیفٹینینٹ بھی آہستہ آہستہ اس کے پیچھے چل پڑا ۔ سوسانا میز میز کے سامنے بیٹھ گئی ۔ وہ ابھی تک سرخ تھی اور تیز تیز سانس لے رہی تھی ۔ وہ بیٹھتے ہی پرتگالی شراب کا ایک گلاس غٹا بٹ پی گئی ۔ “ سنو! لیفٹینینٹ نے خاموشی توڑتے ہوۓ پوچھا ، “ مجھے امید ہے کہ تم مذاق کر رہی ہو ؟ “
“ ہرگز نہیں ، “ اس نے جواب دیا ،ساتھ بریڈ کا ٹکڑا منہ میں ڈالا ۔
“ تمہارا کیا خیال ہے ، میں اس سب سے کیا سمجھوں ؟ “ “ جو تمہارے جی میں آۓ ۔ بیٹھ جاؤ اور کھانا کھاؤ ! “
“ لیکن ۔۔۔۔۔ یہ تو بے ایمانی ہے ! “
“ شاہد ۔ لیکن اب مجھے وعظ نہ سنانا ، میرا چیزوں کو دیکھنے کا اپنا انداز ہے ۔”
تو کیا تم انہیں واپس نہیں کرو گی ؟ “
“ بے شک ، بالکل نہیں ۔! اگر تم غریب بدقسمت انسان ہوتے ،جس کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا ،تو پھر بات مختلف ہوتی ۔ لیکن — تم تو شادی کرنا چاہتے ہو ! “
“ یہ میری رقم نہیں ، تم جانتی ہو ،یہ میرے کزن کی رقم ہے ! “
“ اچھا ،تو تمہارے کزن نے اس رقم کا کیا کرنا ہے ؟ بیوی کے لئے فیشنی لباس خریدنے ہیں ؟ ۔لیکن مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ تمہاری بھابھی کے پاس کپڑے ہیں یا نہیں ۔” لیفٹینینٹ بھول گیا تھا کہ وہ کسی اجنبی گھر میں اجنبی خاتون کے ساتھ بیٹھا تھا اور نہ ہی وہ تکلفات کا دھیان رکھ رہا تھا ۔ اس نے غصے سے کمرے میں ٹہلتے ہوۓ اپنی ویسٹ کوٹ کو انگلی سے کھینچا ۔ یہودن کی بے ایمانی سے وہ اس کی نگاہوں میں بے توقیر ہو گئی تھی ،جس سے وہ بے باک اور بے تکلف ہو گیا تھا ۔
“ شیطان جانے اب اس معاملے کا کیا بنے گا ! “ وہ بڑبڑایا ۔ “ سنو ، جب تک مجھے رسیدیں واپس نہیں مل جاتیں ،میں یہاں سے جانے والا نہیں ۔”
آہا ۔ بہت بہتر ، “ سوسانا ہنسی ۔ “اگر تم یہاں ہمیشہ کے لئے رک جاؤ تو میرے لئیے یہ بہت خوشگوار ہو گا ۔” جسمانی زور آزمائی کے بعد لیفٹینینٹ ، سوسانا کے ہنستے ،شوخ و شنگ چہرے ، اس کے نوالہ چھباتے منہ اور تھرکتے سینے کو دیکھتے ہوۓ مزید گستاخ ہو گیا ۔ رسیدوں کے بارے میں سوچنے کی بجاۓ کسی وجہ سے وہ یہودن کی رومانوی مہم جوئیوں ،اس کے زندگی گزارنے کے آزاد انہ طور طریقوں کے بارے میں اپنے کزن کی سنائی گئی داستانوں کے بارے میں سوچنے لگا اور ان یادداشتوں نے اسے پہلے سے زیادہ بے تکلفی پر اکسایا ۔اضطراری طور پر وہ یہودن کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ رسیدوں کے بارے میں کچھ سوچے بغیر وہ کھانا کھانے لگا ۔ ۔۔۔
“ تم کیا لو گے ؟ ووڈکا یا وائین ۔ سوسانا نے ہنستے ہوۓ پوچھا ۔ تو تم رسیدوں کی وصولی تک ادھر رکو گے ؟ ۔آہ ، بے چارہ ! ”
“ رسیدوں کے انتظار میں کتنے روزوشب گزارنے کا ارادہ ہے ؟ کیا تمہاری منگیتر کچھ نہیں کہے گی ؟ “
2
“ پانچ گھنٹے گزر گئے ۔ “ لیفٹینینٹ کا کزن الیکسی ایوانوچ کریوکوف ، اپنی دیہاتی حویلی کے کمرے میں ڈریسنگ گاؤن میں ملبوس سلیپر پہنے بے چینی سے ٹہل رہا تھا ۔بے صبری سے بار بار کھڑکی سے باہر دیکھتا ۔ وہ لمبا صحت مند آدمی تھا ۔ اس کی سیاہ لمبی داڑھی اور مردانہ چہرہ تھا ۔ اور جیسا کہ یہودن نے کہا تھا وہ ٹھیک ٹھاک خوبصورت تھا ۔ اگرچہ وہ عمر کے اس حصے میں تھا جب مرد موٹے ہو کر پھول جاتے اور گنجے ہو جاتے ہیں ۔دماغی اور مذاجی اعتبار سے اس کی فطرت ویسی ہی تھی جیسی امیر انٹلیکچوئل روسی اکثریت کی تھی ؛ گرم جوش ، شائستہ مذاج ، اچھی تربیت ، سائنس اور آرٹ کی مناسب معلومات ، کچھ عقیدات اور غیرت کے بارے میں بہادرانہ تصورات لیکن بغیر گہرائی کے ۔ وہ اچھے کھانے پینے کا شوقین تھا ۔ تاش کا بہترین کھلاڑی ، عورتوں اور گھوڑوں کا قدردان ۔لیکن باقی معاملات میں سمندری شیر کی طرح مردہ دل ، بےحس اور سست تھا ۔ اسے اس سستی سے نکالنے کے لئیے کچھ بہت غیر معمولی ،باغیانہ اور انقلابی قسم کی سرگرمی کی ضرورت ہوتی تھی ۔ تب وہ دنیا کی ہر بات بھول کر مصروف عمل ہو جاتا ۔ وہ شدید غصے کا اظہار کرتے ہوۓ ڈوئل لڑنے کی باتیں کرتا ۔ وزیر کو سات صفحات پر مشتمل عرضداشت لکھتا ۔ آندھی کی تیز رفتاری سے ضلع پہنچتا ۔کسی کو بر سر عام بدمعاش کہتا ، قانونی جنگ لڑنے کا عندیہ دیتا ۔وغیرہ وغیرہ ۔ “ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارا ساشا ابھی تک واپس نہیں آیا ۔ “ وہ مسلسل کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوۓ اپنی بیوی سے یہی پوچھتا رہا ۔ “ اوہو ،اب تو کھانے کا وقت ہو گیا “ ۔ چھ بجے تک لیفٹینینٹ کا انتظار کرنے کے بعد انہوں نے کھانا کھا لیا ۔ جب سپر ( رات کا آخری ہلکا پھلکا کھانا) کا وقت آیا تو الیکسی ایوانوچ ہر قدم ، ہر دروازے کی آواز پر کان دھر رہا تھا ۔ اور مسلسل کندھے ا چکا رہا تھا ۔
“ حیران کن “ اس نے کہا ،” بدمعاش بانکا ضرور کرایہ دار کے ہاں رک گیا ہے “ ۔ رات کے آخری کھانے کے بعد بستر پر جاتے ہوۓ کریوکوف نے یقین کر لیا تھا کہ لیفٹینینٹ نے کرایہ دار کی طرف سے خاطر مدارت کے بعد رات وہیں گزارنے کا ارادہ کر لیا ہے ۔
الیگزینڈر گریگوریو اگلی صبح واپس آیا ۔وہ بہت گھبرایا ہوا پریشان حال تھا ۔ “
میں تم سے تنہائی میں بات کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔” اس نے انتہائی پراسرار طریقے سے اپنے کزن سے بات کی ۔
وہ مطالعاتی کمرے میں چلے گئے ۔ لیفٹینینٹ نے دروازہ بند کر کے ٹہلنا شروع کر دیا ۔کافی دیر ٹہلنے کے بعد اس نے بات شروع کی ۔ “ پیارے دوست ، کچھ ہوا ہے ۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ تمہیں کیسے بتاؤں ،تم ہرگز یقین نہیں کرو گے ۔۔۔۔” شرمندگی سے سرخ ہوتے ،ہکلاتے ہوۓ اور اپنے کزن کی طرف دیکھے بنا اس نے جو کچھ رسیدوں کے ساتھ پیش آیا کہہ دیا ۔ کریوکوف پاؤں کھولے سر جھکاۓ کھڑا سنتا رہا اور غصے سے پھنکارتا رہا ۔
“ کیا تم مذاق کر رہے ہو ؟ “ اس نے پوچھا ۔ “ خدا کا نام لو ،میں ایسا مذاق کیسے کر سکتا ہوں ۔یہ معاملہ مذاق کا نہیں ہے ! “ ۔ کریوکوف غصے سے سرخ پڑتے اور ہاتھ اوپر اٹھاتے ہو بڑ بڑایا ،” مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی ۔ تمہارا کردار ۔۔۔۔۔۔یقینا” غیر اخلاقی ہے ۔تمہاری آنکھوں کے سامنے اللہ جانے وہ بدکار عورت نہ جانے کس مجرمانہ نیت سے چال چل گئی اور تم اسے بوسے دیتے رہے ۔ ! “
“ لیکن میں خود نہیں جانتا یہ سب کیسے ہوا ! “ لیفٹینینٹ نے احساس جرم سے پلکیں جھپکاتے ہوۓ سرگوشی کی ۔ میں حلفا” کہتا ہوں میں نہیں سمجھ سکا ۔میری زندگی کا یہ پہلا موقعہ ہے کہ میرا سامنا اس قسم کے شیطان صفت انسان سے ہوا ۔ نہ تو اس کی خوبصورتی ، نہ اس کا دماغ بلکہ وہ ۔۔۔۔۔ تم سمجھ سکتے ہو ۔۔۔۔۔۔ گستاخ شوخی ، گھٹیا پن ۔۔۔۔۔۔ “
“گستاخ شوخی ۔۔۔۔۔ گھٹیا پن ۔۔۔۔ ۔۔۔یہ سب ناپاک ہے ۔تمہیں اگر شوخی اور گھٹیا پن کی اتنی طلب تھی ،تو تم کیچڑ سے سؤرنی پکڑتے اور اسے زندہ چیڑ پھاڑ دیتے ۔ جو بہرحال دو ہزار تین سو سے سستی پڑتی ! “
“ تم کم از کم مہذب زبان استعمال کرو ، “ لیفٹینینٹ نے غصے سے جواب دیا ۔” میں تمہیں دو ہزار تین سو واپس کر دوں گا ۔ “
“ مجھے معلوم ہے ،تم واپس کر دو گے لیکن بات رقم کی نہیں ہے ۔ بھاڑ میں جاۓ رقم ! مجھے تمہاری بزدلی پر غصہ آ رہا ہے ۔ ۔۔۔اتنی غلیظ کمزوری ! اوپر سے منگنی شدہ ! ایک منگیتر! ۔۔۔۔۔”
“ اس کی بات مت کرو ۔۔۔۔۔۔” لیفٹینینٹ نے شرم سے سرخ ہوتے ہوۓ کہا ۔ مجھے اپنے آپ سے گھن آ رہی ہے ۔میں زمین میں دفن ہونا چاہتا ہوں ۔یہ بہت پریشان کن اور باعث شرمندگی ہے کہ اب میں ان پانچ ہزار کے لئیے اپنی آنٹ کو تکلیف دوں گا ۔ ۔۔۔۔” کریوکوف نے مزید کچھ دیر اپنا غصہ اور بڑبڑاہٹ جاری رکھی، پھر جوں جوں وہ پرسکون ہوتا گیا تو وہ صوفہ پر بیٹھ گیا اور اپنے کزن پر طنز کرنے لگا ۔ “ تم نوجوان افسران ! “ اس نے حقارت آمیز طنزیہ لہجے میں کہا ،” نفیس دولہے .” یک دم وہ ایسے اچھلا جیسے اسے کسی نے ڈنک مارا ہو ۔ اس نے زور سے پاؤں زمین پر مارا ،اور مطالعاتی کمرے سے باہر بھاگا ۔ “ نہیں ۔۔نہیں یہ معاملہ اس طرح نہیں چھوڑا جا سکتا !” اس نے مٹھی لہراتے ہوۓ کہا ، میں وہ رسیدیں واپس لوں گا ،ہر حال میں ! اگرچہ عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا جاتا لیکن میں اس کی ہڈی پسلی ایک کر دوں گا ۔میں اس کا بھر کس نکال دوں گا ! میں لیفٹینینٹ نہیں ہوں ، وہ مجھے شوخی اور کمینگی سے ہرا نہیں سکتی ! نہیں ۔۔۔بھاڑ میں جاۓ ! مشکا ! “ وہ زور سے چلایا ، “ بھاگ کر جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ میرے لئیے گھوڑا گاڑی باہر نکالیں ! “
کریوکوف نے تیزی سے لباس تبدیل کیا ،گاڑی میں سوار ہوا ، اور سوسانا معاسیوینا کی طرف تیزی سے روانہ ہو گیا ۔ بہت دیر تک لیفٹینینٹ کھڑکی سے باہر اپنے کزن کی گاڑی سے اڑتی دھول کو دیکھتا رہا ۔ پھر اس نے اپنے جسم کو پھیلایا ،انگڑائی لی اور اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ ایک گھنٹے بعد وہ گہری نیند سو چکا تھا ۔ چھ بجے اسے رات کے کھانے کے لیے جگایا گیا ۔ کھانے کے کمرے میں اس کے کزن کی بیوی نے اس کا استقبال کیا اور اپنے خاوند کے ابھی تک گھر نہ پہنچنے پر پریشانی کا اظہار کیا ۔ لیفٹینینٹ نے انگڑائی لیتے ہوۓ پوچھا ،” تمہارا مطلب ہے کہ وہ ابھی تک واپس نہیں آیا؟ ۔ “ ا م ! ۔۔۔۔۔۔وہ شاید کرایہ دار کی طرف گیا ہے “ لیکن الیکسی ایوانوچ رات کے آخری طعام تک بھی نہ پہنچا ،جس پر اس کی بیوی اور سوکولسکی نے سوچا کہ وہ کرایہ دار کے ہاں تاش کھیلنے میں مصروف ہے اس لئے رات وہیں رکے گا ۔ تاہم جو انہوں نے سوچا ایسا ہر گز نہیں تھا ۔ کریوکوف اگلی صبح واپس آیا اور بغیر کسی سے ملے بغیر دعا سلام کیے سیدھا اپنے مطالعاتی کمرے میں چلا گیا ۔
“ اچھا؟ “ لیفٹینینٹ نے حیرانی سے آنکھیں مکمل کھول کر اسے دیکھتے ہوۓ سرگوشی کی ۔ کریوکوف نے ہاتھ ہلایا اور نتھنوں سے خراٹوں جیسی آواز نکالی ۔ “ کیوں ؟ کیا بات ہے ؟ تم کس پر ہنس رہے ہو ؟ “ کریوکوف چھپ سے صوفے پر گر گیا ،اپنا سر تکیے میں دبا لیا ۔اس کا بدن ہنسی روکنے کی کوشش میں ہلنے لگا ۔ ایک منٹ بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا اور حیران و پریشان لیفٹینینٹ کو دیکھتے ہوۓ بہت زیادہ ہنسنے سے آنکھوں میں تیرتے آنسوؤں کے ساتھ بولا ، “ دروازہ بند کر دو ۔ہاں تو ۔۔۔۔۔ وہ ، “ میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ ایک عورت ے ۔”
“کیا تم رسیدیں لے آۓ ؟ “
کریوکوف نے ہاتھ ہلایا اور ایک دفعہ پھر اسے ہنسی کا دورہ پڑ گیا ۔ “ وہ عورت ہے ! “ اس نے پھر بولنا شروع کیا ،” جان پہچان کروانے کا شکریہ ، میرے یار ! وہ شمیض کے نیچے ایک شیطان ہے۔ میں وہاں پہنچا ، میں ایک انتقامی دیوتا کی طرح اندر داخل ہوا ۔ یقین مانو میں خود اپنے آپ سے خوفزدہ تھا ۔۔۔۔۔میری تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں ، میں غصے سے تلملا رہا تھا ۔ میری مٹھیاں بھینچی ہوئی تھیں جس سے میں اور غصیلہ دکھائی دے رہا تھا ۔” “ مادام ، میرے ساتھ کھیلنے کی کوشش نہ کرنا ! “ میں نے بڑے رعب سے کہا ۔” میں نے اسے قانون اور گورنر کی دھمکی دی ۔وہ رونے لگی اور کہنے لگی کہ اس نے تم سے مذاق کیا تھا ۔اور پھر رقم کی ادائیگی کے لیے مجھے الماری تک لے گئی ۔ تب اس نے یہ بحث شروع کر دی کہ یورپ کا مستقبل روسیوں اور فرانسیسیوں کے ہاتھوں میں ہے ۔ تمہاری طرح میں نے سحر ذدہ ہو کر سنا ،بالکل گدھا بن گیا ۔۔۔۔۔ وہ مسلسل میری خوبصورتی کے گیت گاتی رہی ۔کندھوں کے قریب میرا بازو تھپتھپاتی رہی یہ بتانے کے لیے کہ میں کتنا طاقت ور اور مضبوط ہوں ۔ اور ۔۔۔۔۔۔اور دیکھ لو میں ابھی ابھی اس سے دور ہوا ہوں ! ہا ،ہا! وہ تمہارے لیے بڑی پرجوش ہے ! “ “ تم بہت عمدہ انسان ہو ! “
لیفٹینینٹ نے ہنستے ہوۓ کہا ۔ شادی شدہ آدمی ! بہت باعزت ۔۔۔۔۔۔کیا تم شرمندہ نہیں ہو ؟ قابل نفرت ؟ مذاق سے ہٹ کر ، بوڑھے آدمی , تمہاری ملکہ ، تمہارے پڑوس میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“ میرے اپنے پڑوس میں ! تمہیں ایسا دوسرا گرگٹ پورے روس میں کہیں نہیں ملے گا ۔میں نے ایسی چیز اپنی ساری زندگی میں نہیں دیکھی ،اگرچہ میں کسی حد تک عورتوں کے بارے میں جانتا ہوں ۔ میں نے اپنے زمانے میں کافی شیطان دیکھے لیکن میرا واسطہ کبھی بھی کسی ایسی چیز سے نہیں پڑا ۔تم نے بالکل درست کہا ،کہ وہ گھٹیا قسم کی شوخی سے آپ پر قابو پا لیتی ہے ۔ اس کی کشش کی اصل وجہ اس کی شیطانی حاضر دماغی ، فوری تبدیلیاں تیزی سے بدلتی کیفیات ۔۔۔۔۔Brrr! / بررر( ٹھنڈک کا احساس ) اور رسیدیں —- چھی چھی ۔ رقم کو گمشدہ میں لکھ دو ۔ہم دونوں بہت بڑے گنہگار ہیں ہم گناہ آدھا آدھا بانٹ لیں گے ۔ میں تمہارے زمہ واجب آلادا دو ہزار تین سو کی بجاۓ آدھی رقم لکھ دوں گا ۔ اور سنو میری بیوی کو بتانا کہ میں نے رات اپنے کرایہ دار کے ہاں گزاری ۔ “ کریوکوف اور لیفٹینینٹ نے سر تکیوں میں چھپا کر ہنسنا شروع کر دیا ۔ پھر سر اٹھاۓ ،ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر تکیوں میں دھنس گئے ۔ “ منگنی شدہ ، لیفٹینینٹ ! “ کریوکوف نے طنز کیا ۔ “ شادی شدہ ! “ سوکولسکی نے جوابی وار کیا ۔ انتہائی با عزت ! ایک خاندان کا سربراہ ! “ رات کے کھانے پر وہ آشاروں کنایوں میں بات کرتے رہے ۔ایک دوسرے کو آنکھ ماری ۔اور مسلسل اپنے ڈنر نیپکنز / طعامی رومالوں میں منہ دبا کر کھل کھلا کر ہنستے ہوۓ سب کی حیرانی کا باعث بنتے رہے ۔ ڈنر کے بعد خوشگوار موڈ میں ترک ملبوسات میں بندوقیں پکڑے بچوں کے ساتھ سپاہی سپاہی کھیلتے رہے ۔
لیفٹینینٹ نے بحث کی کہ بیوی سے جہیز وصول کرنا انتہائی گھٹیا اور قابل نفرت ہے چاہے دونوں اطراف سے گہری جذباتی محبت ہی کیوں نہ ہو ۔ کریوکوف نے اپنا مکہ میز پر مارتے ہوۓ کہا کہ یہ بالکل واہیات ہے۔ جو خاوند پسند نہیں کرتا کہ اس کی بیوی کی اپنی جائیداد ہو وہ انا پرست اور مطلق العنان ہے ۔دونوں چینختے چلاتے ، جوش و خروش سے بے قابو ہو رہے تھے ۔ ایک دوسرے کو سمجھے بغیر دونوں بولتے رہے ۔ بہت زیادہ شراب پی ،، اور آخر میں اپنے ڈریسنگ گاؤن کی سکرٹس اٹھاتے ہوۓ اپنے اپنے بیڈ روم میں چلے گئے ۔ انہیں جلد ہی نیند آ گئی اور وہ گہری نیند سو گئے ۔ زندگی پہلے کی طرح گزرنے لگی ۔ سست اوربغیر کسی دکھ کے ۔ زمین پر ساۓ پھیل گئے ۔ بجلی بادلوں سے الگ ہو رہی تھی ۔ آندھی دردناک بین کر رہی تھی ۔ ایسے جیسے کہ ثابت کرنا چاہتی ہو کہ فطرت بھی نوحہ کر سکتی ہے ۔ لیکن ان لوگوں کے مستقل سکون میں خلل نہیں ڈال سکی ۔ سوسانا معاسیوینا اور رسیدوں کے بارے میں انہوں نے کچھ نہیں کہا ۔ دونوں ہی کسی حد تک شرمندگی محسوس کر رہے تھے اور اس واقعہ کا باآواز بلند تذکرہ کرنے کی جرات نہیں کر رہے تھے ۔ تاہم وہ انہیں یاد تھا اور اس کے بارے میں سوچ کر خوشی محسوس کرتے تھے ۔ وہ ان کے لئے ایک دلچسپ کھیل تھا جو زندگی نے بالکل اچانک ، اتفاقاً” ان کے ساتھ کھیلا تھا ۔اور جو بڑھاپے کے لئیے ایک خوشگوار یاد بن جاۓ گا ۔ یہودن سے ملاقات کے چھٹے یا ساتویں دن کریوکوف صبح اپنے مطالعاتی کمرے میں بیٹھا اپنی آنٹ کو مبارکباد کا خط لکھ رہا تھا ۔ الیگزینڈر گریگوریو میز کے قریب ہی خاموشی سے ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا۔ لیفٹینینٹ کو اس رات پرسکون نیند نہیں آئی تھی ۔وہ پریشان حال افسردہ جاگ گیا تھا اور اب وہ بیزاری اور اکتاہٹ محسوس کر رہا تھا ۔ ٹہلتے ہوۓ وہ اپنی چھٹیوں کے اختتام ، اپنی منگیتر جو اس کا انتظار کر رہی تھی کا سوچ رہا تھا اور یہ بھی کہ لوگ کیسے اپنی ساری زندگی دیہاتی ماحول میں گزار دیتے ہیں ۔ وہ کھڑکی میں کھڑا کافی دیر درختوں کو گھورتا رہا ۔ یکے بعد دیگرے تین سگریٹ نوش کئیے ۔ پھر یکدم اپنے کزن کی طرف مڑا ۔ اور کہا ، “الیوشا، مجھے تمہاری مدد چاہیے ۔مجھے ایک دن کے لئے تمہارا کاٹھی گھوڑا چاہیے ۔ “ کریوکوف نے متلاشی نظروں سے اسے دیکھا اور تیوری چڑھاۓ لکھنے میں مصروف رہا ۔ “ تو پھر تم دو گے؟ “ لیفٹینینٹ نے پوچھا ۔ کریوکوف نے دوبارہ اس کی طرف دیکھا ،پھر میز کی ایک دراز کھینچ کر باہر نکالی ۔ایک موٹا سا نوٹوں کا بنڈل اپنے کزن کے حوالے کیا ۔ “ یہ پانچ ہزار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ یہ میری رقم نہیں ہے ۔تاہم خدا کی رحمتیں تم پر ہوں ،ایک ہی بات ہے ۔ میرا مشورہ ہے کہ کراۓ پر گھوڑا گاڑی منگواؤ اور فورا” روانہ ہو جاؤ ۔ “ لیفٹینینٹ نے متجسس نگاہوں سے کریوکوف کو دیکھا اور ہنسا ۔ “ الیوشا، تم نے درست قیاس کیا ہے ۔ اس نے سرخ پڑتے ہوۓ کہا ۔ میں اسی کے پاس جانا چاہتا تھا ۔کل شام جب دھو بن نے مجھے وہ لعنتی چھوٹا چست فوجی کوٹ دھو کر دیا ،وہی جو میں نے اس دن پہن رکھا تھا ۔اس سے چنبیلی کی خوشبو آ رہی تھی۔ کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے محسوس ہوا کے مجھے جانا چاہیے ! “ تمہیں ضرور جانا چاہیے ۔” “ ہاں بالکل ۔ میری چھٹی بھی ختم ہو رہی ہے ۔ میں آج ہی نکل جاؤں گا ! چاہے جتنا بھی رک جاؤ آخر جانا ہی پڑتا ہے۔” اسی دن ڈنر کے بعد کراۓ کی گھوڑا گاڑی منگوائی گئی ۔ لیفٹینینٹ نے کریوکوف اور سب گھر والوں کو خدا حافظ کہا اور سب کی دعائیں سمیٹتے ہوۓ روانہ ہو گیا ۔ ایک ہفتہ گزر گیا ۔وہ دن بہت ناگوار گرم اور بوجھل تھا ۔صبح ہی سے کریوکوف پورے گھر میں بے مقصد گھوم رہا تھا ۔کبھی کھڑکی سے باہر جھانکتا یا البم کے صفحات الٹتا پلٹتا اگرچہ وہ ان سے بیزار تھا ۔جب اس کا سامنا بیوی اور بچوں سے ہوا تو وہ ناراضگی سے بڑ بڑا نے لگا ۔اس دن اسے کسی وجہ سے محسوس ہوا کہ اس کے بچوں کے اطوار باغیانہ ہیں ۔ اس کی بیوی کو ملازمین کی دیکھ بھال کرنا نہیں آتا ۔ ان کے اخراجات اور ان کی آمدن کا تناسب درست نہیں ۔ اس سب کا مطلب یہی تھا کہ گھر کے مالک کا مزاج خراب ہے ۔ ڈنر کے بعد سوپ اور بھنے ہوۓ گوشت جو اس نے کھایا تھا سے غیر مطمئن اس نے اپنی گھوڑا گاڑی منگوائی ،آہستہ آہستہ وہ احاطے سے نکلا، ایک میل تک ٹہلنے کے انداز سے گاڑی چلائی اور رک گیا ۔ “ کیا میں اس کی طرف جاؤں ——اس شیطان ؟ “ اس نے گہرے سیاہ آسمان کو دیکھتے ہوۓ سوچا ۔ کریوکوف نے ہنستے ہوۓ سوچا ،جیسے یہ پہلی بار تھی کہ اس نے اپنے آپ سے یہ سوال کیا تھا ۔یک دم اس کے دل سے بیزاری کا بوجھ دور ہو گیا ۔ اس کی بے زارگی خوشی کی کرن بن کر اسکی اداس آنکھوں میں چمکنے لگی ۔ اس نے گھوڑے پر چابک لہرایا ۔ سارا وقت وہ اس تصور میں کھویا رہا کہ یہودن اسے دیکھ کر کس قدر حیران ہو گی کیسے وہ خود خوشی سے ہنسے گا اور گفتگو کرے گا اور واپس گھر بالکل ترو تازہ ہو کر لوٹے گا ۔ ۔۔۔۔ “ مہینے میں ایک دفعہ انسان کو ترو تازہ ہونے کا موقع ملنا چاہیے ۔ ۔۔، اس کی روزمرہ کی مصروفیات سے کچھ ہٹ کر۔” اس نے سوچا۔ ” ایسا کچھ جو جامد حیات کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ ایک رد عمل ۔۔۔۔۔ چاہے یہ شراب نوشی ہو ،یا ۔۔۔۔۔۔ سوسانا ۔ اس کے بغیر گزارہ نہیں ۔ “ جب وہ شراب کشید کرنے کے کارخانے کے صحن میں پہنچا تو تاریکی چھا رہی تھی ۔ مکان کی کھلی کھڑکیوں سے ہنسنے اور گانے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ “ بجلی چمکنے سے زیادہ روشن ، آگ کے شعلے سے زیادہ جلتے ۔۔۔۔۔۔”ُ ایک طاقتور ، نرم اور مدھر آواز گا رہی تھی ۔
“ آہا ،اس کے پاس ملاقاتی ہیں “۔ کریوکوف نے سوچا ۔ اس سوچ سے وہ غصے میں آ گیا ۔ گھنٹی پر ہاتھ رکھتے ہوۓ اس نے سوچا ،” کیا میں واپس چلا جاؤں ؟ “ لیکن اس نے گھنٹی بھی بجا دی ۔ اور جانی پہچانی سیڑھیاں چڑھ گیا ۔ داخلی دروازے سے اس نے استقبالیہ ہال میں جھانکا ۔ وہاں تقریباً” پانچ آدمی بیٹھے تھے ۔ سب جاگیردار اور اس کے واقف کار تھے ۔ ایک لمبا پتلا جنٹلمین پیانو کے سامنے بیٹھا گا تے ہوۓ اپنی پتلی لمبی انگلیوں سے پیانو بجا رہا تھا ۔ باقی بیٹھے سن رہے اور خوش ہو رہے تھے ۔ کریوکوف نے آئینے میں اپنے سراپے کا جائزہ لیا اور ہال میں داخل ہونے لگا تھا کہ سوسانا خود داخلی دروازے پر پہنچ گئی ۔ وہ بہت خوش اور اسی سیاہ لباس میں تھی ۔ ۔۔۔۔ کریوکوف کو دیکھ کر ایک لمحے کے لئیے ہکا بکا رہ گئی ۔ تب اس نے ہلکی سی چینخ ماری اور خوشی سے جھوم اٹھی ۔
“ کیا یہ تم ہو ؟ “ سوسانا نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا ۔ “ واہ کیا سرپرائز ہے ۔“ “ یہ ہوئی نا بات ، “ کریوکوف نے مسکراتے ہوۓ اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتے ہوۓ کہا ۔ “ بہت خوب ! کیا یورپ کی تقدیر ابھی بھی فرانس اور روس کے ہاتھوں میں ہے ؟ ۔”
“ میں بہت خوش ہوں ، “ یہودن ہنسی اور بہت احتیاط سے اس کے ہاتھ اپنی کمر سے الگ کرتے ہوۓ کہا ۔ “ آؤ ، ہال میں چلے جاؤ ، وہاں سب دوست ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں جا کر تمہارے لیے چاۓ بجھواتی ہوں ۔ تمہارا نام الیکسی ہے ۔درست ہے نا ؟ ٹھیک ، اندر چلے جاؤ ، میں بس آتی ہوں ۔ “
وہ اس کی طرف ہوا میں بوسہ اچھالتے ہوۓ واپس اندر چلی گئی ،اپنے پیچھے وہی چنبیلی کی ناخوشگوار بو چھوڑ گئی ۔ُ کریوکوف نے سر اونچا اٹھایا اور ہال میں داخل ہو گیا ۔ کمرے میں موجود تمام لوگوں سے اس کی دوستانہ قربت تھی۔ لیکن اس نے بمشکل سر ہلایا ، انہوں نے بھی بمشکل جواب دیا …. ہال سے کریوکوف ڈرائنگ روم میں چلا گیا اور وہاں سے دوسرے ڈرائنگ روم میں ۔اس دوران اس کی ملاقات تین یا چار مزید مہمانوں سے ہوئی ۔ ان آدمیوں کو بھی وہ جانتا تھا ۔اگرچہ انہوں نے اسے بمشکل ہی پہچانا ۔ ان کے چہرے شراب نوشی اور خوشی سے سرخ ہو رہے تھے ۔ الیکسی ایوانوچ نے چور نگاہوں سے انہیں دیکھا اور حیران ہوا کہ یہ باعزت خاندانوں کے سربراہ جنہوں نے زندگی کی اونچ نیچ برداشت کی تھی اپنے آپ کو اس حقیر اور، سستی خوشی کے لئے اس حد تک گرا سکتے ہیں ۔اس نے کندھے اچکاۓ ، مسکرایا اور آگے نکل گیا ۔
“ کچھ جگہیں ایسی ہیں “ اس نے سوچا ، “ جہاں ایک پرسکون ہوش مند انسان بیزاری محسوس کرتا ہے لیکن نشے میں مد ہوش خوش ہوتا ہے ۔مجھے یاد ہے ،میں کبھی بھی ہوش و حواس میں ہوتے ہوۓ کسی غنائی تمثیل یا خانہ بدوشوں کی طرف نہیں جا سکتا ۔ شراب انسان کو خوش مزاج بنا کر اس کی برائی سے مفاہمت کروا دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔” یکدم وہ بت کی طرح ساکت کھڑا رہ گیا اور دونوں ہاتھوں سے دروازے کی چوکھٹ کا سہارا لے لیا ۔ سوسانا کے مطالعاتی کمرے کی لکھنے کی میز پر لیفٹینینٹ الیگزینڈر گریگورویو بیٹھا تھا ۔ وہ مدھم آواز میں ایک موٹے پلپلے یہودی کے ساتھ محو گفتگو تھا اپنے کزن کو دیکھتے ہی وہ سرخ ہو گیا اور البم دیکھنے لگا ۔ کریوکوف کی تہزیب اور شائستگی نے اسے اندر سے جھنجھوڑ ڈالا ۔حیرت غصے اور شرمندگی کے جذبات سے مغلوب وہ بغیر کچھ کہے میز تک گیا۔ سوکولسکی کا سر مزید جھک گیا ۔ اس کے چہرے پر شدید شرمندگی تھی ۔ “ آہ ، یہ تم ہو ،الیوشا ! “ اس نے بہت مشکل سے آنکھیں اٹھانے اور مسکرانے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا ۔ “ میں یہاں خدا حافظ کہنے آیا تھا اور جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کل میں ہر حال میں چلا جاؤں گا۔” “ میں بھلا اسے کیا کہہ سکتا ہوں ؟ کیا؟ “ الیکسی ایوانوچ نے سوچا ۔” میں اس کے بارے میں کچھ بھی کیسے کہہ سکتا ہوں ۔ اس کے بارے میں کوئی راۓ کیسے قائم کر سکتا ہوں ،جب کہ میں خود یہاں ہوں ؟ “ اپنا گلا کنکھار کر صاف کرتے ہوۓ وہ آہستگی سے باہر نکل گیا ۔ “ اسے آسمانی مخلوق قرار مت دو اور اسے زمین پر رہنے دو ۔۔۔۔۔” مدھر آواز گا رہی تھی ۔کچھ ہی دیر بعد کریوکوف کی گھوڑا گاڑی گرد آلود سڑک پر سرپٹ دوڑ رہی تھی۔
کیچڑ
مصنف:اینٹن چیخوف
مترجم۔ عقیلہ منصور جدون
انگلش عنوان : Mire
گھوڑے کی زین پر شان و شوکت سے جھومتا ، برف جیسا سفید کرتا پہنے ایک نوجوان ، شراب کشید کرنے کے کارخانے کے وسیع وعریض صحن میں داخل ہوا ۔ وہ شراب خانہ ایم ای روتھسٹن کے ورثا کی ملکیت تھا ۔
سورج، لیفٹینینٹ کے چھوٹے ستاروں ، صنوبر کے درختوں کے سفید تنوں اور صحن میں ادھر ادھر بکھرے کانچ کے ٹکڑوں پر لاپرواہی سے مسکرا رہا تھا ۔گرمیوں کے دنوں کی چمکدار،دلکش خوبصورتی ہر چیز سے جھلک رہی تھی ۔ رسیلے نوزائیدہ خوش باش سبز پتوں کے رقص اور نیلے آسمان کو آنکھیں مارنے میں کوئی چیز مانع نہیں تھی ۔ یہاں تک کہ اینٹوں کے کالے بھدے شیڈوں کی گندی موجودگی اور شراب بھٹی سے اٹھتا گلا گھوٹنے والا دھواں تک عمومی خوشگوار تاثر کو بگاڑنے میں ناکام تھا ۔
لیفٹینینٹ نے خوشی خوشی کاٹھی سے چھلانگ لگائی ۔اپنے گھوڑے کی لگام اس شخص کو پکڑائی جو بھاگتا ہوا اس تک پہنچ گیا تھا ۔ اور خود اپنی سیاہ نازک مونچھوں کو اپنی انگلیوں سے تھپتھپاتے ہوۓ بیرونی دروازے میں داخل ہو گیا ۔
پرانی لیکن نرم قالین بچھی سیڑھیوں کے اختتام پر اس کی ملاقات ایک متکبر خادمہ سے ہوئی ۔جو کچھ زیادہ جوان نہیں تھی ۔ لیفٹینینٹ نے اپنا کارڈ خاموشی سے بغیر کچھ کہے اسے پکڑا دیا ۔
اس نے کمروں سے گزرتے ہوۓ کارڈ پر لکھا نام “ الیگزینڈر گریگوریو چ سوکولسکی “ پڑھ لیا ۔ ایک منٹ کے توقف سے وہ واپس آ گئی اور لیفٹینینٹ کو بتایا کہ اس کی مالکہ ناسازئی طبع کے باعث اس سے ملنے سے معذور ہے ۔سوکولیسکی نے چھت کی طرف دیکھا ،اپنا نچلا ہونٹ باہر کی طرف پھیلاتے ہوے کہا ،” یہ تو بڑی پریشانی کی بات ہے “ ۔ پھر خوشدلی سے اسے کہا ، “ سنو عزیزہ ، جا کر سوسانامعاسیونا کو بتاؤ کہ میرا اس سے ملنا بہت ضروری ہے —بہت ضروری ۔میں اس کا بس ایک منٹ لوں گا ۔اسے بتاؤ میں اس کے لئیے معزرت خواہ ہوں ۔
“ خادمہ نے ایک کندھا جھٹکا اور مالکہ کو آگاہ کرنے چل پڑی ۔
مختصر سے وقفے کے بعد واپس آ کر خادمہ نے آہ بھرتے ہوۓ کہا ،” چلیں بہتر ہے ، اندر آ جائیں “ لیفٹینینٹ خادمہ کے پیچھے پیچھے پانچ یا چھ وسیع پر تعیش، سجے کمروں اور کوریڈور سے گزر کر آخرکار ایک شاندار ،مربع کمرے میں پہنچا ۔ کمرے میں پہلا قدم رکھتے ہی وہاں موجود بے تحاشا پھولوں ، پودوں ، مٹھائیوں اور چنبیلی کی ناگوار ،بوجھل خوشبو سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ پھول دیواروں کے ساتھ بنے جنگلوں پر چڑھاۓ گئے تھے ۔ اس کے علاوہ چھت سے لٹکے ہوۓ اور کونوں میں بھرے ہوۓ تھے ۔ جس سے وہ رہنے کا کمرہ نہیں بلکہ کوئی گرین ہاؤس، پودوں کی نرسری لگتا تھا ۔,انجنئیر پرندے چڑیاں ,طلائی برقش سبز پتوں میں چہچہا رہی تھیں اور کھڑکیوں کے فریموں سے ٹکرا رہی تھیں ۔
“میں آپ کا استقبال یہاں کرنے پر معزرت خواہ ہوں ،” لیفٹینینٹ نے نرم مدھر آواز سنی ۔ “ کل میرے سر میں درد تھا ، میں پرسکون رہ کر کوشش کر رہی ہوں کہ یہ دوبارہ نہ شروع ہو جاۓ ۔ آپ کیا چاہتے ہیں”۔ ؟
کمرے کے داخلی دروازے کے بالمقابل اس نے ایک بڑی آرام دہ کرسی جو عموما” بوڑھے آدمی استعمال کرتے ہیں ، میں ایک عورت کو بہت قیمتی چینی ڈریسنگ گاؤن پہنے بیٹھے دیکھا ۔اس نے اپنا سر باندھا ہوا تھا۔ پیچھے ہوکر تکیے سے ٹیک لگا رکھی تھی ۔اونی شال جو اس نے لپیٹی ہوئی تھی کے پیچھے ماسواۓ ایک زرد لمبی نوکدار کچھ کچھ عقاب جیسی ناک اور ایک سیاہ آنکھ کے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کے بھاری ڈریسنگ گاؤن نے اس کی شخصیت چھپائی ہوئی تھی ۔لیکن اس کے خوبصورت ہاتھ ،اس کی آواز ، ناک اور آنکھ سے اس نے اندازہ لگایا کہ وہ چھبیس یا اٹھائیس سال کی ہو گی ۔
“ مجھے بھی ملاقات کے لئیے اصرار کرنے پر معاف کرنا ۔۔۔” لیفٹینینٹ نے ایڑیاں بجاتے ہوۓ معزرت کرتے ہوۓ کہا ۔ مجھے اپنا تعارف کروانے کی اجازت دیں ۔ میں سوکولسکی ،اپنے کزن ایوانوچ کریوکوف جو آپ کا ہمسایہ ہے کا پیغام لے کر آیا ہوں ،جو۔۔۔۔۔”
“ میں جانتی ہوں ! “ سوسانا معاسیوینا نے مداخلت کی ۔ “ میں کریوکوف کو جانتی ہوں ، تشریف رکھیں ۔مجھے نہیں پسند کہ میرے سامنے کوئی بڑی چیز کھڑی رہے ۔ “ میرے کزن نے مجھے آپ سے ایک مہربانی کی استدعا کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے ۔
لیفٹینینٹ نے ایک بار پھر ایڑیاں بجاتے ہو کہا اور بیٹھ گیا ۔ “ معاملہ کچھ یوں ہے کہ آپ کے آنجہانی والد صاحب نے پچھلے موسم سرما میں میرے کزن سے جو/ oats خریدے تھے ۔ کچھ رقم کی ادائیگی بقایا تھی ۔ رقم کی ادائیگی کی مہلت اگلے ہفتے ختم ہو رہی ہے ۔ لیکن میرا کزن چاہتا ہے کہ آپ اگر ممکن ہو تو آج ہی ادائیگی کر دیں ۔
“ جس دوران لیفٹینینٹ بات کر رہا تھا ، تو ساتھ ہی چور نگاہوں سے اپنے گردو پیش کا جائزہ بھی لے رہا تھا ۔ “ یقینا” میں اس کے بیڈروم میں نہیں ہوں ۔” اس نے سوچا ۔ کمرے کے ایک کونے میں جنازے کے شامیانے جیسے سائبان کے نیچے سب سے زیادہ پودے تھے ایک پلنگ تھا ،جسے ابھی تک درست نہیں کیا گیا تھا ۔ بستر کی چادریں ابھی تک بے ترتیب پڑی تھیں ۔ اس کے پاس دو آرام کرسیوں پر شکن آلود زنانہ کپڑے پڑے تھے ۔پیٹی کوٹ اور چنٹ دار لیس اور جھالر یں لگی آستینیں نیچے قالین پر بکھری تھیں ۔ اسی قالین پر ادھر ادھر سفید ٹیپ کے ٹکڑے ، پھونکے ہوۓ سگریٹوں کے آخری سرے اور سوختہ شکر کے کاغذ پھیلے ہوۓ تھے ۔ ۔۔ پلنگ کے نیچے سے ہر قسم کے نوکدار اور چوکور پنجوں والے جوتوں کی لمبی قطاریں جھانک رہی تھیں ۔
لیفٹینینٹ کو ایسا لگا جیسے چنبیلی کی خوشبو پھولوں سے نہیں بلکہ ۔پلنگ اور سلیپروں سے آ رہی تھی ۔ “ کتنی رقم بقایا ادا ہونی ہے ؟ “ سوسانا معاسیونا نے پوچھا ۔
“ دو ہزار تین سو ۔” “ اوہو ! یہودن نے دوسری بڑی سیاہ آنکھ بھی ظاہر کرتے ہوۓ کہا ۔ “ اور تم اسے معمولی رقم کہہ رہے ہو ! تاہم ایک ہی بات ہے چاہے آج ادائیگی کی جاۓ یا ہفتے بعد ۔ مجھے اپنے والد کی وفات کے بعد پچھلے دو مہینوں میں بہت زیادہ ادائیگیاں کرنی پڑی ہیں ۔۔۔۔۔ انتہائی بیہودہ کاروبار ، کہ میرا سر چکرانے لگا ہے ! ایک اچھا خیال ! میں بیرون ملک جانا چاہتی ہوں ،جبکہ وہ مجھے مسلسل ان معمولی بیہودہ چیزوں میں الجھاۓ ہوے ہیں ۔ ووڈکا، جو/ oats ۔۔۔” وہ اپنی آنکھیں آدھی بند کرتے ہوۓ بڑبڑائی ۔ “ جو ، بل ، فیصدیں یا جیسا کہ میرا ہیڈ کلرک اسے بگاڑ کر بولتا ہے ۔۔۔۔۔۔یہ سب بہت خوفناک ہے ۔ کل ہی میں نے ایکسائز افسر کو باہر نکال دیا ۔وہ مجھے اپنی بکواس سے ڈرا رہا تھا ۔ میں نے اسے کہا ،” تم اپنی بک بک سمیت بھاڑ میں جاؤ ! میں یہ سب مزید برداشت نہیں کر سکتی ۔ اس نے میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور چلا گیا ۔ میں تمہیں بتا رہی ہوں ،کیا تمہارا کزن ایک دو ماہ مزید انتظار نہیں کر سکتا ؟”
“ بہت ہی ظالمانہ سوال “ ! لیفٹینینٹ ہنسا ۔ میرا کزن تو ایک سال تک انتظار کر سکتا ہے لیکن میں انتظار نہیں کر سکتا ! میں تمہیں حقیقت بتاتا ہوں ،میں یہ سب اپنے لیے کر رہا ہوں ۔ مجھے ہر قیمت پر رقم چاہیے اور بدقسمتی سے میرے کزن کے پاس مجھے دینے کے لیے ایک روبل بھی نہیں ہے ۔اس لیے میں گھوم پھر کر قرضوں کی وصولی کرنے پر مجبور ہوں ۔ اس سے قبل میں ایک کسان ،ایک کرایہ دار کے ہاس جا چکا ہوں اور اب تمہارے پاس آیا ہوں ۔یہاں سے کسی اور کے پاس جاؤں گا ،اس طرح جب تک میرے پاس پانچ ہزار روبل جمع نہیں ہو جاتے میں گھومتا رہوں گا ۔مجھے رقم کی شدید ضرورت ہے! ۔ “
“ بےوقوفانہ حرکت ! جوان آدمی نے پیسوں کا کیا کرنا ہے ؟ کیوں ؟ کیا تمہیں عیاشی کرنی ہے ؟ یا تاش میں ہار چکے ہو ؟ یا کیا تم شادی کرنے لگے ہو؟ ۔”
“ تمہارا قیاس درست ہے ! “ لیفٹینینٹ ہنسا ، اپنی نشست سے ہلکا سا اوپر اٹھتے ہوۓ اس نے اپنی ایڑیاں بجائیں ۔ میں واقعی شادی کرنے لگا ہوں ۔ “
سوسانا نے اپنے ملاقاتی کو بغور دیکھا ، منہ بنایا اور آہ بھری ۔ “ مجھے سمجھ نہیں آتی لوگ شادی کرنے کے لئیے کیوں مرے جاتے ہیں ؟ اس نے اپنا رومال ڈھونڈتے ہوۓ کہا ۔ “ زندگی اتنی مختصر ہے ۔انسان کے پاس اتنی تھوڑی آزادی ہے اور اس پر وہ بیڑیاں پہننا چاہتے ہیں “۔ “ ہر ایک کا دیکھنے کا اپنا انداز ہے ۔۔۔۔۔”
“ بالکل ،بالکل بےشک ، ہر شخص کا اپنا نکتہ نظر ہے ،لیکن مجھے یہ پوچھنا ہے ،کیا تم کسی غریب سے شادی کرنے لگے ہو ؟ “ کیا تم شدید محبت میں گرفتار ہو ؟ اور تمہیں پانچ ہزار کا کیا کرنا ہے؟ چار یا تین ہزار سے کام کیوں نہیں چلے گا ؟ “ لیفٹینینٹ نے سوچا ،اس عورت کی کیسی زبان ہے ،اور جواب دیا ، “ مسلۂ یہ ہے کہ ایک افسر جب تک اٹھائیس سال کا نہیں ہو جاتا وہ قانونا” شادی نہیں کر سکتا ۔اس لیے اگر آپ نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا تو آپ کو ملازمت چھوڑنی پڑے گی ۔ یا پھر پانچ ہزار جمع کروانے پڑیں گے ۔” “ہا ہا ، اب میں سمجھ گئی ۔ سنو ۔ تم نے ابھی کہا تھا کہ ہر شخص کا معاملہ دیکھنے کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔۔۔۔ محسوس ہوتا ہے کہ تمہاری منگیتر بہت خاص ہے ، لیکن ۔۔۔۔۔ لیکن میں بالکل سمجھ نہیں سکتی کہ کوئی بھی معقول اور مہزب شخص کسی ایک عورت کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہے ؟ مجھے یہ بات ساری زندگی سمجھ نہیں آۓ گی ۔ شکر خدا کا، میں زندگی کی ستائیس بہاریں دیکھ چکی ہوں ،لیکن میں نے اب تک کوئی قابل برداشت عورت نہیں دیکھی ۔سب کی سب ظاہر داری کا مرکب ہیں ، بے شرم ،بدکردار اور جھوٹی ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔صرف اور صرف جن سے میں گزارہ کر سکتی ہوں وہ گھریلو خادمہ یا خانساماں ہوتی ہیں ۔ لیکن نام نہاد ‘خواتین ‘ میں انہیں اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتی ۔ لیکن شکر خدا کا ،وہ مجھ سے نفرت کرتی ہیں اور خود ہی مجھ سے دور رہتی ہیں ۔اگر ان میں سے کسی کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے تو اپنے خاوند کو میرے پاس بھیجتی ہے لیکن خود کبھی نہیں آتی ،نہ نہ ،خودداری یا فخرو غرور کی وجہ سے نہیں بلکہ بزدلی کی وجہ سے ۔وہ اپنا تماشا بنوانے سے ڈرتی ہیں ۔ میں ان کی نفرت کو اچھی طرح سمجھتی ہوں ! میں تو بس وہ سب کھول دیتی ہوں جسے وہ اپنے خاوندوں اور خدا سے چھپاتی پھرتی ہیں ۔ وہ مجھ سے نفرت کئیے بغیر کیسے رہ سکتی ہیں ؟ بے شک تم نے پہلے ہی سے میرے بارے میں ہزار ہا سکینڈل ، افسانے سنے ہوں گے ۔ ۔۔”
“ میں بس کچھ ہی دن ہوۓ یہاں پہنچا ہوں ۔۔۔۔”
چچ، چچ، چچ ! ۔۔۔۔۔تمہاری آنکھوں سے پتہ چل رہا ہے ۔ لیکن تمہارے کزن کی بیوی ، اس نے ضرور تمہیں اس مہم کے لیے تیار کرکے بھیجا ہو گا ۔ میں یہ مان ہی نہیں سکتی کہ ایک خوفناک عورت سے ملنے ایک نوجوان آۓ اور اسے پہلے سے خبردار نہ کیا گیا ہو ، ہا ہا ۔۔۔۔ چلو مجھے یہ بتاؤ ، تمہارا بھائی یعنی کزن کیسا ہے ؟ وہ تو بہت نفیس اور خوبصورت انسان ہے ! ۔۔۔۔۔ میں اسے میس میں کئی دفعہ دیکھ چکی ہوں ۔ تم مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو ؟ میں اکثر گرجا جاتی ہوں ۔ہم سب کا ایک ہی خدا ہے ۔ایک پڑھے لکھے شخص کے لئیے باطن کے مقابلے میں خارج یا ظاہر کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔۔۔۔ کیوں میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا ۔”
“ ہاں ، بے شک ۔۔۔۔ “ لیفٹینینٹ مسکرایا ۔ ہاں تو باطن ، آئیڈیا ۔۔۔۔۔ لیکن تم اپنے بھائی جیسے بالکل نہیں ہو ۔ تم بھی خوبصورت ہو لیکن تمہارا بھائی تم سے بہت زیادہ بہتر دکھائی دیتا ہے ۔ حیران کن حد تک تم دونوں میں کوئی مشابہت نہیں ۔ “ “ یہ بالکل قدرتی بات ہے وہ میرا بھائی نہیں بلکہ کزن ہے ۔” “ ہاں ،با لکل ۔تو تمہیں آج ہی رقم چاہئے ۔؟ آج ہی کیوں ؟ “ “ کچھ دنوں میں میری چھٹی ختم ہو رہی ہے ۔”
“ ٹھیک ، تمھارا کیا کیا جاۓ ! “ سوسانا معاسیوینا نے آہ بھری ۔ میں تمہیں رقم دے دوں گی لیکن مجھے معلوم ہے تم اس کے لیے بعد میں مجھے برا بھلا کہو گے ۔ شادی کے بعد تم اپنی بیوی کے ساتھ لڑو گے ، جھگڑو گے اور کہو گے ، ‘اگر اس بیہودہ یہودن نے مجھے اس دن پیسے نہ دئے ہوتے تو میں آج کسی بھی پرندے کی طرح آزاد ہوتا ؟ کیا تمہاری منگیتر بہت خوبصورت ہے ؟ “
“ جی ،ہاں ۔” “ ا ،م۔ ۔۔۔ بہر حال کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے ،چاہے صرف خوبصورتی ہی ہو ، لیکن اس کا خاوند اس کی خوبصورتی کے باوجود اس کی بےوقوفیوں سے نبھا نہیں کر سکتا۔ “
“ یہ ہوئی نا بات ! “ لیفٹینینٹ نے قہقہ لگایا ۔تم خود ایک عورت ہو اور عورتوں سے اتنی شدید نفرت ! “
“ ایک عورت ۔۔۔۔۔۔” سوسانا مسکرائی ۔ “ یہ میری غلطی نہیں ہے کہ خدا نے مجھے اس سانچے میں ڈھالا ہے ۔مجھ پر اس کا الزام نہیں لگایا جا سکتا ایسے ہی جیسے ان بھاری مونچھوں کا الزام تم پر نہیں لگ سکتا ۔ وائلن کو اس کے ڈبے کے چناؤ کا زمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ میں اپنے آپ کو بہت پسند کرتی ہوں ،لیکن جب کوئی مجھے یہ احساس دلاتا ہے کہ میں ایک عورت ہوں ،تو مجھے اپنے آپ سے نفرت ہو جاتی ہے ۔ تاہم تم جاؤ اور ڈرائنگ روم میں انتظار کرو ،میں تیار ہو کر آتی ہوں ۔ “
لیفٹینینٹ باہر نکل گیا اور سب سے پہلے اس نے ، چنبیلی کی بوجھل خوشبو سے چھٹکارا ملنے پر گہرا سانس لیا ۔ جس سے اس کے گلے میں سوزش شروع ہو گئی تھی اور اس کا سر چکرانے لگا تھا ۔
“ کیسی عجیب عورت ہے ! “ اس نے سوچا ۔ “ وہ روانی سے بولتی ہے ، لیکن ۔۔۔۔ بہت زیادہ بولتی ہے ۔ یہ ضرور اعصابی مریضہ ہے ۔ “
اب وہ جس ڈرائنگ روم میں کھڑا تھا ،اس میں بہت زیادہ فرنیچر تھا ۔ جو پر تعیش اور فیشن کے مطابق تھا ۔ میز پر گہرے سیاہ رنگ کی کانسی کی پلیٹیں تھیں جن پر سکون آمیز مناظر جیسے دریاۓ رائن کی نقاشی کی گئی تھی ، قدیم فیشن کے شمع دان ،جاپانی مجسمے ،لیکن اس سب پر تعیش اور فیشن کے مطابق ہونے کی کوشش کے باوجود سنہری جھالروں ، کارنسوں بھڑکیلے دیوار کے کاغذوں ، شوخ مخملی میزپوشوں ،اور بھاری فریموں کے اندر روغنی تصاویر حس جمال کی کمی اور بد ذوقی کا مظہر تھیں ۔ کمرے کے کھچا کھچ بھرے ہونے اور سجاوٹ کے اختتام میں جمالیاتی حس کے فقدان سے عمومی بد ذوقی کا تاثر مکمل ہو رہا تھا ۔ جس سے یہ احساس ابھرتا تھا کہ کہیں کچھ کمی ہے۔ اور بہت کچھ بطور کوڑا پھینکے جانے کی ضرورت ہے ۔ یہ صاف ظاہر تھا کہ سارا فرنیچر ایک ہی بار نہیں خریدا گیا تھا ۔بلکہ ہر ایک چیز الگ الگ کبھی نیلامی اور کبھی کسی اور فائدہ مند موقع پر خریدی گئی تھی ۔ خدا ہی جانتا ہے کہ لیفٹینینٹ خود کس ذوق کا مالک تھا لیکن اس کی توجہ اس ساری جگہ کی ایک خصوصیت کی طرف مبزول ہوئی ،جسے کوئی بھی فیشن مٹا نہیں سکتا ۔ اور وہ تھی اس سب سجاوٹ میں محتاط نسوانی ہاتھوں کی شمولیت کی عدم موجودگی ۔ ہم سب جانتے ہیں نسوانی ہاتھوں کی شمولیت کمرے کی سجاوٹ میں گرمائش ، شاعری اور سکھ چین کا احساس پیدا کرتی ہے ۔جب کہ وہاں ایک ٹھنڈی بے حسی تھی جیسی سٹیشنوں کی انتظار گاہوں ،کلبوں اور تھیٹر کے دالانوں میں پائی جاتی ہے ۔ کمرے میں کوئی ایسی خاص چیز موجود نہیں تھی جس کا تعلق خصوصی طور پر یہودیت سے ہو ، ماسواۓ ایک بڑی تصویر جس میں یعقوب اور اسحاق کی ملاقات کا منظر دکھایا گیا تھا ۔ لیفٹینینٹ نے اپنے ارد گرد دیکھا اور کندھے اچکاتے ہوۓ اپنے نئے عجیب وغریب تعلق ، اس کے آزاد، پرسکون اور غیر رسمی انداز گفتگو کے بارے میں سوچا ۔ تب ہی دروازہ کھلا اور خاتون خانہ خود اندر داخل ہوئی وہ لمبے سیاہ لباس میں ملبوس تھی جواتنی سختی سے کسا ہواتھا کہ اس کا جسم خراد کی مشین سے نکلا ہوا
محسوس ہو رہا تھا ۔ اب لیفٹینینٹ نے نہ صرف ناک اور آنکھیں بلکہ پتلا سفید چہرہ بھی دیکھا۔سر مکمل سیاہ اور میمنے کی کھال کی طرح گھنگھریالہ تھا ۔ اسے اس میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوئی ۔ اگرچہ وہ اسے بد صورت بھی نہیں لگی ۔ وہ ویسے بھی غیر روسیوں کے بارے میں متعصب تھا ، اس نے یہ بھی سوچا کہ خاتون کا سفید چہرہ ،جس کی سفیدی کسی وجہ سے چنبیلی کی خوشبو کی کثرت اس کے چھوٹے سیاہ بالوں کے پیچ و خم اور گھنی ابروؤں کے ساتھ میل نہیں کھاتی تھی ۔ اس کی ناک اور کان حیران کن حد تک سفید جیسے کسی لاش کے ہوں یا کسی شفاف موم سے ڈھالے گئے ہوں ۔جب وہ مسکراتی تو اس کے زرد مسوڑے اور دانت نظر آتے اور اسے وہ بالکل پسند نہیں آۓ ۔ “ خون کی کمی ۔۔۔۔۔۔” اس نے سوچا ، “ وہ شاید کسی فیل مرغ کی طرح گھبرائی ہوئی تھی ۔”
“ میں آ گئی ، آ جاؤ ! “ اس کے آگے تیز تیز چلتے ہوۓ ، اس نے کہا ۔ پودوں کے پاس سے گزرتے ہوۓ اس نے پیلے پتے نوچے ۔ میں تمہیں فورا” ادائیگی کر دوں گی اور اگر تم چاہو تو دن کا کھانا بھی کھا سکتے ہو ۔ آتنے اچھے کاروبار کے بعد تمہیں اچھے لنچ کی خواہش ہو گی ۔ کیا تمہیں میرے کمرے پسند آۓ ۔ یہاں کی خواتین کو ہمیشہ شکایت رہتی ہے کہ میرے کمروں سے لہسن کی بو آتی ہے ۔ایسے گھٹیا تمسخر سے ان کی مردہ حس مزاح کا پتہ چلتا ہے ۔ میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ میرے گھر میں یہاں تک کے تہہ خانے کے گودام میں بھی لہسن نہیں ہے ۔ ایک دن جب ڈاکٹر جس سے لہسن کی بو آتی تھی مجھے ملنے آیا تو میں نے اسے کہا کہ اپنا ٹوپ اٹھاؤ اور اپنی بو کہیں اور جا کر پھیلاؤ ۔ یہاں کہیں بھی لہسن کی بو نہیں ہے لیکن یہاں سے ادویات کی بو ضرور آتی ہے۔ میرے والد کوئی ڈیڑھ سال مفلوج لیٹے رہے اس لئیے پورے گھر میں ادویات کی بو پھیل گئی ۔ پورا ڈیڑھ سال ! مجھے بہت دکھ ہے لیکن میں خوش ہوں کہ وہ فوت ہو گئے ،انہوں نے بہت تکلیف برداشت کی ! “،
وہ اسے دو ڈرائنگ روم سے مشابہ کمروں سے اور ایک بڑے استقبالیہ ہال سے گزار کر اپنے مطالعاتی کمرے میں لے گئی ۔ جہاں خواتین کے لکھنے کی میز رکھی تھی ۔ جس پر چھوٹے چھوٹے آرائشی ٹکڑے پڑے تھے . اس کے قریب قالین پر بہت ساری کتابیں بکھری پڑی تھیں ۔ جنہیں کھول کر پیچھے کی طرف موڑ دیا گیا تھا ۔ مطالعاتی کمرے سے ایک چھوٹا دروازہ دوسرے ملحقہ کمرے میں کھلتا تھا جس میں کھانے کی میز رکھی تھی . گفتگو جاری رکھتے ہوۓ سوسانا نے اپنی جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور ایک بہت زہانت ، فن کاری سے بنائی گئی الماری کا تالہ کھولا ۔اس الماری کا ڈھکن مڑی ہوئی ڈھلوان کی شکل کا تھا ۔ جب ڈھکن اٹھایا گیا تو الماری سے عجیب دردناک سی آواز نکلی جس سے لیفٹینینٹ کو باد ترنگ ، عود ہوائی کی یاد آ گئی ۔
سوسانا نے ایک اور چابی نکالی اور ایک اور تالہ کھولا ۔ “ یہاں خفیہ راستے اور دروازے ہیں “ یہ کہتے ہوۓ اس نے ایک مراکشی بیگ نکالا ۔” یہ مضحکہ خیز الماری ہے اور اس بیگ میں میری ایک چوتھائی دولت ہے ۔ دیکھو تو یہ کتنا پھولا ہوا ہے ۔ تم میرا گلا تو نہیں دباؤ گے ؟ “ سوسانا نے نگاہیں اٹھا کر لیفٹینینٹ کو دیکھا اور خوشدلی سے ہنسنے لگی ۔
لیفٹینینٹ بھی ہنسنے لگا ۔ “ کافی مزاحیہ ہے ،“ اس نے سوچا ۔ ساتھ ہی اس کی انگلیوں میں چمکتی چابیوں کو دیکھا ۔
“ یہ رہی ،” بیگ کی چابی نکالتے ہوۓ وہ بولی ۔ “ اب ، جناب قرض خواہ صاحب آپ اپنی رسیدیں / IOU دکھائیں ۔ پیسہ بھی کتنی نامعقول چیز ہے ! قابل نفرت ہے ، لیکن پھر بھی عورتیں اس سے محبت کرتی ہیں ۔ میں اپنی سرشت میں مکمل یہودن ہوں ۔ میں شموئل اور یانکیز سے شدید جذباتی محبت کرتی ہوں ۔ لیکن میں اپنے سامی خون کی وجہ سے فائدے کی حرص جو ہم یہودیوں میں بدرجہ اُتم موجود ہوتی ہے ،سے بے انتہا نفرت کرتی ہوں ۔ سامی ، زخیرہ کرتے ہیں اور جانتے بھی نہیں کہ کس لئیے زخیرہ کر رہے ہیں ۔ انسان کو زندہ رہ کر زندگی کا لطف اٹھانا چاہیے لیکن وہ ایک پیسہ بھی فالتو خرچ کرنے سے ڈرتے ہیں ۔ اس حوالے سے میں شمیوئل سے زیادہ ہسار( ہنگری کے پندرہویں اور سولہویں صدی کے فوجی ) ہوں ۔ میں رقم کو ایک ہی جگہ زیادہ عرصہ رکھنے کے خلاف ہوں ۔اسی وجہ سے میں سوچتی ہوں کہ میں یہودیوں جیسی نہیں ہوں ۔ کیا میرے لب و لہجہ سے میرے بارے میں پتہ چلتا ہے ؟ “
“ میں کیا کہہ سکتا ہوں ؟ لیفٹینینٹ بڑبڑایا ۔” تم روسی بہت اچھی بولتی ہو ،لیکن تم ر او س پر لڑکھڑاتی ہو ۔”
سوسانا نے ہنستے ہوۓ چابی بیگ کے تالے میں لگائی ۔لیفٹینینٹ نے اپنی جیب سے IOU / قرض کی رسیدوں کا ایک چھوٹا سا بنڈل نکالا اور اسے میز پر نوٹ بک کے ساتھ رکھ دیا ۔ “
ایک یہودی کو اس کے لہجے سے پہچانا جا سکتا ہے ۔ “ سوسانا نے لیفٹینینٹ کو مسکراتے ہوۓ دیکھتے ہوۓ بات جاری رکھی ۔ وہ چاہے جتنا مرضی اپنے آپ کو روسی یا فرانسیسی ظاہر کرنے کی کوشش کرے جب اسے ۔پر بولنے کا کہیں تو وہ پد ہی بولے گا ۔۔۔۔۔ لیکن میں بالکل درست بول سکتی ہوں ،’ پر ! پر! پر! ‘ “۔ “ قسم سے یہ بہت مزاحیہ ہے ، “ سوکولسکی نے سوچا ۔ سوسانا نے بیگ ایک کرسی پر رکھا ۔لیفٹینینٹ کی طرف ایک قدم بڑھایا ،اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب کیا اور خوش دلی سے بولی ، یہودیوں کے بعد میں سب سے زیادہ روسی اور فرانسیسی لوگوں کو پسند کرتی ہوں ۔میں سکول میں کوئی خاص اچھی نہیں تھی ۔مجھے تاریخ کا بھی کچھ خاص علم نہیں تھا لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی تقدیر انہی دو قوموں کے ہاتھوں میں ہے ۔ میں بہت عرصے بیرون ملک رہی ۔۔۔۔۔۔ میں نے چھ ماہ میڈرڈ میں گزارے ۔ میں نے قوموں کا مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ روسی اور فرانسیسی قوموں سے بہتر کوئی اور نہیں ۔ مثال کے طور پر زبانوں ہی کو لے لو ۔۔۔۔۔۔ جرمن زبان گھوڑوں کے ہنہنانے جیسی ہے ۔ انگریزی کی بات کریں تو اس سے زیادہ بےوقوفانہ کچھ اور نہیں ۔فائیٹ (لڑائی) —-فیٹ ( پاؤں ) —-فٹ ! اطالوی تبھی اچھی لگتی ہے جب اسے آہستہ آہستہ بولا جاۓ ۔اگر آپ کسی اطالوی کو تیز تیز بولتے سنیں تو آپ کو یہودی بازاری زبان کا احتمال ہو گا ۔ اور اگر کسی پولینڈ کے باشندے کو بولتے سنیں ،خدا کی پناہ ،ان کی زبان سے زیادہ ناگوار کوئی زبان نہیں ۔ ‘ باربی کیو پر پیپر ( کالی مرچ) کا چھڑکاؤ نہ کرو پیوٹر ، وگرنہ تم باربیکیو کو مرچوں سے مر چیلا کردو گے ۔ ,
. ہا ہا ہا ۔ سوسانا معیسونا آنکھیں گھماتے ہوۓ لیفٹینینٹ کو دیکھتے ہوۓ ایسے بے ساختہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی کہ لیفٹینینٹ بھی اسے دیکھتے ہوۓ اونچے قہقہے لگانے لگا ۔
اس نے اپنے ملاقاتی کو بٹن سے پکڑا اور گویا ہوئی ، “ تم یہودیوں کو پسند نہیں کرتے ، بے شک ۔۔۔۔۔ تمام اقوام کی طرح ان میں بھی بہت سی خرابیاں ہیں ۔ میں اس پر جھگڑا نہیں کرتی ۔ لیکن کیا اس کے لئیے یہودیوں کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے ؟ ۔ نہیں ، تمام یہودی مرد قصور وار نہیں ہیں ،ہاں لیکن یہودی عورتیں ! وہ تنگ نظر اور لالچی ہوتی ہیں ۔ ان کے حوالے سے کبھی کوئی شاعری نہیں کرتا ۔وہ خشک ، پھیکی ،بے لطف اور سست ہوتی ہیں ۔ ۔۔۔ تمہیں کبھی کسی یہودن کے ساتھ رہنے کا اتفاق نہیں ہوا ۔اس لئیے تم نہیں جانتے کہ یہ کتنا پرکشش ہے ! ۔ سوسانا نے آخری الفاظ پر بغیر ہنسے ، شعوری کوشش سے زور دیتے ہوۓ ادا کیے ۔ پھر اس نے تھوڑا توقف کیا جیسے وہ اپنی بہت زیادہ بے باکی پر تھوڑا خوفزدہ ہو گئی ہو ۔لیکن اچانک اس کا چہرہ عجیب و غریب طور پر ناقابل توجیح طور پر بگڑ گیا ۔وہ بغیر آنکھیں جھپکا ۓ لیفٹینینٹ کو گھورنے لگی اس کے ہونٹ کھل گئے اور بھینچے ہوۓ دانت دکھائی دینے لگے ۔ اس کا چہرہ ، اس کا گلا اور اس کا سینہ سب نفرت انگیز کینے اور بلی جیسے تاثرات سے کانپنے لگے تھے ۔
اپنی آنکھیں اپنے ملاقاتی پر جماۓ رکھتے ہوۓ ،وہ تیزی سے ایک طرف جھکی اور بلی جیسی پھرتی سے میز سے کوئی چیز جھپٹ کر اٹھائی ۔ یہ سب کچھ چند سیکنڈ کے اندر ہو گیا ۔اس کی حرکات دیکھتے ہوۓ ،لیفٹینینٹ نے پانچ انگلیوں کو اپنی رسیدوں کو چرمر کرتے دیکھا اور سفید کاغذ کو اس کی مٹھی میں غائب ہوتے دیکھا ۔ خوش دلی سے ہنسنے کے جرم میں اتنی غیر معمولی تبدیلی نے اسے خوفزدہ کردیا زرد پڑتے ہوۓ وہ پیچھے ہٹا ۔۔۔۔ سوسانا نے اپنی خوفزدہ متلاشی نگاہیں اس پر جماۓ رکھتے ہوۓ اپنی بند مٹھی کے ساتھ اپنے کولھے پر اپنی جیب تلاش کی۔ بالکل اس مچھلی کی طرح جو جال میں پھنسی تڑپتے ہوۓ رہائی کی کوشش کرتی ہے ۔ممکن تھا کہ اگلے لمحے میں رسیدیں اس کے نسوانی لباس کے پوشیدہ حصوں میں غائب ہو جاتیں لیکن عین اسی لمحے لیفٹینینٹ نے ایک مدھم چینخ ماری اور جبلتا” چھلانگ لگاتے ہوۓ یہودن کا بازو اس کی بند مٹھی سے اوپر پکڑ لیا ۔
سوسانا کے دانت پہلے سے زیادہ واضح نظر آنے لگے ۔اس نے اپنی پوری طاقت استعمال کرتے ہوۓ اپنا ہاتھ پرے کھینچ لیا ۔ تب سوکولسکی نے اپنا دایاں بازو مضبوطی سے اس کی کمر کے گرد حمائل کرتے ہوۓ دوسرا ہاتھ اس کے سینے کے گرد لپیٹ لیا اور اس طرح جدو جہد شروع ہو گئی ۔ اس کے ساتھ جنسی زیادتی سے بچنے اور اسے کوئی جسمانی چوٹ پہنچاۓ بغیر اس نے صرف اسے روکنے اور اس کی رسیدوں والی بند مٹھی تک پہنچنے کی کوشش کی ۔ وہ اس کے بازوؤں میں کسی بام مچھلی کی طرح اپنے لچکدار جسم کے ساتھ مچلتی رہی ۔ اپنی کہنیوں کے ساتھ اس کے سینے پر ضربیں لگاتی رہی ،تا کہ وہ اسے ہر طرف سے چھونے پر مجبور ہو اسے چوٹ لگاۓ اور اس کی شرم و حیا کی پرواہ نہ کرے ۔
“ یہ سب کتنا غیر معمولی ،عجیب اور انوکھا ہے! ،” لیفٹینینٹ نے سرا سر متعجب ہو کر سوچا ۔ وہ بمشکل اپنے حواس پر یقین کر پا رہا تھا ۔ ساتھ ہی وہ چنبیلی کی تیز خوشبو سے بیزار ہو رہا تھا ۔ وہ دونوں خاموش رہتے ہوۓ ،گہرے سانس لیتے ہوۓ ،فرنیچر سے الجھتے ،ٹھوکریں کھاتے کمرے میں گھومتے رہے ۔ اس جد وجہد سے سوسانا بہکنے لگی ، اس کے چہرے پر سرخی آ گئی ۔آنکھیں بند کر لیں اپنے آپ کو فراموش کرتے ہوۓ ایک دفعہ تو اپنا چہرہ لیفٹینینٹ کے چہرے سے رگڑا یہاں تک کہ اس کے لبوں پر میٹھا سا ذائقہ رہ گیا ۔ آخر کار اس نے اس کی بند مٹھی والا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔ اسے کھولنے پر مجبور کیا ، لیکن مٹھی سے رسیدیں برآمد نہ ہونے پر اس نے یہودن کو چھوڑ دیا ۔ سرخ چہروں ،بکھرے بالوں کے ساتھ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ،ان کی سانسیں تیز اور بے ترتیب تھیں ۔ یہودن کے چہرے کے کینہ توز بلی جیسے تاثرات آہستہ آہستہ نارمل خوشدل مسکراہٹ میں بدل گئے ۔ وہ یکدم قہقہے لگانے لگی ،ایک پاؤں پر مڑی اور اس کمرے کی طرف جہاں لنچ تیار تھا چلی گئی ۔
لیفٹینینٹ بھی آہستہ آہستہ اس کے پیچھے چل پڑا ۔ سوسانا میز میز کے سامنے بیٹھ گئی ۔ وہ ابھی تک سرخ تھی اور تیز تیز سانس لے رہی تھی ۔ وہ بیٹھتے ہی پرتگالی شراب کا ایک گلاس غٹا بٹ پی گئی ۔ “ سنو! لیفٹینینٹ نے خاموشی توڑتے ہوۓ پوچھا ، “ مجھے امید ہے کہ تم مذاق کر رہی ہو ؟ “
“ ہرگز نہیں ، “ اس نے جواب دیا ،ساتھ بریڈ کا ٹکڑا منہ میں ڈالا ۔
“ تمہارا کیا خیال ہے ، میں اس سب سے کیا سمجھوں ؟ “ “ جو تمہارے جی میں آۓ ۔ بیٹھ جاؤ اور کھانا کھاؤ ! “
“ لیکن ۔۔۔۔۔ یہ تو بے ایمانی ہے ! “
“ شاہد ۔ لیکن اب مجھے وعظ نہ سنانا ، میرا چیزوں کو دیکھنے کا اپنا انداز ہے ۔”
تو کیا تم انہیں واپس نہیں کرو گی ؟ “
“ بے شک ، بالکل نہیں ۔! اگر تم غریب بدقسمت انسان ہوتے ،جس کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا ،تو پھر بات مختلف ہوتی ۔ لیکن — تم تو شادی کرنا چاہتے ہو ! “
“ یہ میری رقم نہیں ، تم جانتی ہو ،یہ میرے کزن کی رقم ہے ! “
“ اچھا ،تو تمہارے کزن نے اس رقم کا کیا کرنا ہے ؟ بیوی کے لئے فیشنی لباس خریدنے ہیں ؟ ۔لیکن مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ تمہاری بھابھی کے پاس کپڑے ہیں یا نہیں ۔” لیفٹینینٹ بھول گیا تھا کہ وہ کسی اجنبی گھر میں اجنبی خاتون کے ساتھ بیٹھا تھا اور نہ ہی وہ تکلفات کا دھیان رکھ رہا تھا ۔ اس نے غصے سے کمرے میں ٹہلتے ہوۓ اپنی ویسٹ کوٹ کو انگلی سے کھینچا ۔ یہودن کی بے ایمانی سے وہ اس کی نگاہوں میں بے توقیر ہو گئی تھی ،جس سے وہ بے باک اور بے تکلف ہو گیا تھا ۔
“ شیطان جانے اب اس معاملے کا کیا بنے گا ! “ وہ بڑبڑایا ۔ “ سنو ، جب تک مجھے رسیدیں واپس نہیں مل جاتیں ،میں یہاں سے جانے والا نہیں ۔”
آہا ۔ بہت بہتر ، “ سوسانا ہنسی ۔ “اگر تم یہاں ہمیشہ کے لئے رک جاؤ تو میرے لئیے یہ بہت خوشگوار ہو گا ۔” جسمانی زور آزمائی کے بعد لیفٹینینٹ ، سوسانا کے ہنستے ،شوخ و شنگ چہرے ، اس کے نوالہ چھباتے منہ اور تھرکتے سینے کو دیکھتے ہوۓ مزید گستاخ ہو گیا ۔ رسیدوں کے بارے میں سوچنے کی بجاۓ کسی وجہ سے وہ یہودن کی رومانوی مہم جوئیوں ،اس کے زندگی گزارنے کے آزاد انہ طور طریقوں کے بارے میں اپنے کزن کی سنائی گئی داستانوں کے بارے میں سوچنے لگا اور ان یادداشتوں نے اسے پہلے سے زیادہ بے تکلفی پر اکسایا ۔اضطراری طور پر وہ یہودن کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ رسیدوں کے بارے میں کچھ سوچے بغیر وہ کھانا کھانے لگا ۔ ۔۔۔
“ تم کیا لو گے ؟ ووڈکا یا وائین ۔ سوسانا نے ہنستے ہوۓ پوچھا ۔ تو تم رسیدوں کی وصولی تک ادھر رکو گے ؟ ۔آہ ، بے چارہ ! ”
“ رسیدوں کے انتظار میں کتنے روزوشب گزارنے کا ارادہ ہے ؟ کیا تمہاری منگیتر کچھ نہیں کہے گی ؟ “
2
“ پانچ گھنٹے گزر گئے ۔ “ لیفٹینینٹ کا کزن الیکسی ایوانوچ کریوکوف ، اپنی دیہاتی حویلی کے کمرے میں ڈریسنگ گاؤن میں ملبوس سلیپر پہنے بے چینی سے ٹہل رہا تھا ۔بے صبری سے بار بار کھڑکی سے باہر دیکھتا ۔ وہ لمبا صحت مند آدمی تھا ۔ اس کی سیاہ لمبی داڑھی اور مردانہ چہرہ تھا ۔ اور جیسا کہ یہودن نے کہا تھا وہ ٹھیک ٹھاک خوبصورت تھا ۔ اگرچہ وہ عمر کے اس حصے میں تھا جب مرد موٹے ہو کر پھول جاتے اور گنجے ہو جاتے ہیں ۔دماغی اور مذاجی اعتبار سے اس کی فطرت ویسی ہی تھی جیسی امیر انٹلیکچوئل روسی اکثریت کی تھی ؛ گرم جوش ، شائستہ مذاج ، اچھی تربیت ، سائنس اور آرٹ کی مناسب معلومات ، کچھ عقیدات اور غیرت کے بارے میں بہادرانہ تصورات لیکن بغیر گہرائی کے ۔ وہ اچھے کھانے پینے کا شوقین تھا ۔ تاش کا بہترین کھلاڑی ، عورتوں اور گھوڑوں کا قدردان ۔لیکن باقی معاملات میں سمندری شیر کی طرح مردہ دل ، بےحس اور سست تھا ۔ اسے اس سستی سے نکالنے کے لئیے کچھ بہت غیر معمولی ،باغیانہ اور انقلابی قسم کی سرگرمی کی ضرورت ہوتی تھی ۔ تب وہ دنیا کی ہر بات بھول کر مصروف عمل ہو جاتا ۔ وہ شدید غصے کا اظہار کرتے ہوۓ ڈوئل لڑنے کی باتیں کرتا ۔ وزیر کو سات صفحات پر مشتمل عرضداشت لکھتا ۔ آندھی کی تیز رفتاری سے ضلع پہنچتا ۔کسی کو بر سر عام بدمعاش کہتا ، قانونی جنگ لڑنے کا عندیہ دیتا ۔وغیرہ وغیرہ ۔ “ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارا ساشا ابھی تک واپس نہیں آیا ۔ “ وہ مسلسل کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوۓ اپنی بیوی سے یہی پوچھتا رہا ۔ “ اوہو ،اب تو کھانے کا وقت ہو گیا “ ۔ چھ بجے تک لیفٹینینٹ کا انتظار کرنے کے بعد انہوں نے کھانا کھا لیا ۔ جب سپر ( رات کا آخری ہلکا پھلکا کھانا) کا وقت آیا تو الیکسی ایوانوچ ہر قدم ، ہر دروازے کی آواز پر کان دھر رہا تھا ۔ اور مسلسل کندھے ا چکا رہا تھا ۔
“ حیران کن “ اس نے کہا ،” بدمعاش بانکا ضرور کرایہ دار کے ہاں رک گیا ہے “ ۔ رات کے آخری کھانے کے بعد بستر پر جاتے ہوۓ کریوکوف نے یقین کر لیا تھا کہ لیفٹینینٹ نے کرایہ دار کی طرف سے خاطر مدارت کے بعد رات وہیں گزارنے کا ارادہ کر لیا ہے ۔
الیگزینڈر گریگوریو اگلی صبح واپس آیا ۔وہ بہت گھبرایا ہوا پریشان حال تھا ۔ “
میں تم سے تنہائی میں بات کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔” اس نے انتہائی پراسرار طریقے سے اپنے کزن سے بات کی ۔
وہ مطالعاتی کمرے میں چلے گئے ۔ لیفٹینینٹ نے دروازہ بند کر کے ٹہلنا شروع کر دیا ۔کافی دیر ٹہلنے کے بعد اس نے بات شروع کی ۔ “ پیارے دوست ، کچھ ہوا ہے ۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ تمہیں کیسے بتاؤں ،تم ہرگز یقین نہیں کرو گے ۔۔۔۔” شرمندگی سے سرخ ہوتے ،ہکلاتے ہوۓ اور اپنے کزن کی طرف دیکھے بنا اس نے جو کچھ رسیدوں کے ساتھ پیش آیا کہہ دیا ۔ کریوکوف پاؤں کھولے سر جھکاۓ کھڑا سنتا رہا اور غصے سے پھنکارتا رہا ۔
“ کیا تم مذاق کر رہے ہو ؟ “ اس نے پوچھا ۔ “ خدا کا نام لو ،میں ایسا مذاق کیسے کر سکتا ہوں ۔یہ معاملہ مذاق کا نہیں ہے ! “ ۔ کریوکوف غصے سے سرخ پڑتے اور ہاتھ اوپر اٹھاتے ہو بڑ بڑایا ،” مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی ۔ تمہارا کردار ۔۔۔۔۔۔یقینا” غیر اخلاقی ہے ۔تمہاری آنکھوں کے سامنے اللہ جانے وہ بدکار عورت نہ جانے کس مجرمانہ نیت سے چال چل گئی اور تم اسے بوسے دیتے رہے ۔ ! “
“ لیکن میں خود نہیں جانتا یہ سب کیسے ہوا ! “ لیفٹینینٹ نے احساس جرم سے پلکیں جھپکاتے ہوۓ سرگوشی کی ۔ میں حلفا” کہتا ہوں میں نہیں سمجھ سکا ۔میری زندگی کا یہ پہلا موقعہ ہے کہ میرا سامنا اس قسم کے شیطان صفت انسان سے ہوا ۔ نہ تو اس کی خوبصورتی ، نہ اس کا دماغ بلکہ وہ ۔۔۔۔۔ تم سمجھ سکتے ہو ۔۔۔۔۔۔ گستاخ شوخی ، گھٹیا پن ۔۔۔۔۔۔ “
“گستاخ شوخی ۔۔۔۔۔ گھٹیا پن ۔۔۔۔ ۔۔۔یہ سب ناپاک ہے ۔تمہیں اگر شوخی اور گھٹیا پن کی اتنی طلب تھی ،تو تم کیچڑ سے سؤرنی پکڑتے اور اسے زندہ چیڑ پھاڑ دیتے ۔ جو بہرحال دو ہزار تین سو سے سستی پڑتی ! “
“ تم کم از کم مہذب زبان استعمال کرو ، “ لیفٹینینٹ نے غصے سے جواب دیا ۔” میں تمہیں دو ہزار تین سو واپس کر دوں گا ۔ “
“ مجھے معلوم ہے ،تم واپس کر دو گے لیکن بات رقم کی نہیں ہے ۔ بھاڑ میں جاۓ رقم ! مجھے تمہاری بزدلی پر غصہ آ رہا ہے ۔ ۔۔۔اتنی غلیظ کمزوری ! اوپر سے منگنی شدہ ! ایک منگیتر! ۔۔۔۔۔”
“ اس کی بات مت کرو ۔۔۔۔۔۔” لیفٹینینٹ نے شرم سے سرخ ہوتے ہوۓ کہا ۔ مجھے اپنے آپ سے گھن آ رہی ہے ۔میں زمین میں دفن ہونا چاہتا ہوں ۔یہ بہت پریشان کن اور باعث شرمندگی ہے کہ اب میں ان پانچ ہزار کے لئیے اپنی آنٹ کو تکلیف دوں گا ۔ ۔۔۔۔” کریوکوف نے مزید کچھ دیر اپنا غصہ اور بڑبڑاہٹ جاری رکھی، پھر جوں جوں وہ پرسکون ہوتا گیا تو وہ صوفہ پر بیٹھ گیا اور اپنے کزن پر طنز کرنے لگا ۔ “ تم نوجوان افسران ! “ اس نے حقارت آمیز طنزیہ لہجے میں کہا ،” نفیس دولہے .” یک دم وہ ایسے اچھلا جیسے اسے کسی نے ڈنک مارا ہو ۔ اس نے زور سے پاؤں زمین پر مارا ،اور مطالعاتی کمرے سے باہر بھاگا ۔ “ نہیں ۔۔نہیں یہ معاملہ اس طرح نہیں چھوڑا جا سکتا !” اس نے مٹھی لہراتے ہوۓ کہا ، میں وہ رسیدیں واپس لوں گا ،ہر حال میں ! اگرچہ عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا جاتا لیکن میں اس کی ہڈی پسلی ایک کر دوں گا ۔میں اس کا بھر کس نکال دوں گا ! میں لیفٹینینٹ نہیں ہوں ، وہ مجھے شوخی اور کمینگی سے ہرا نہیں سکتی ! نہیں ۔۔۔بھاڑ میں جاۓ ! مشکا ! “ وہ زور سے چلایا ، “ بھاگ کر جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ میرے لئیے گھوڑا گاڑی باہر نکالیں ! “
کریوکوف نے تیزی سے لباس تبدیل کیا ،گاڑی میں سوار ہوا ، اور سوسانا معاسیوینا کی طرف تیزی سے روانہ ہو گیا ۔ بہت دیر تک لیفٹینینٹ کھڑکی سے باہر اپنے کزن کی گاڑی سے اڑتی دھول کو دیکھتا رہا ۔ پھر اس نے اپنے جسم کو پھیلایا ،انگڑائی لی اور اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ ایک گھنٹے بعد وہ گہری نیند سو چکا تھا ۔ چھ بجے اسے رات کے کھانے کے لیے جگایا گیا ۔ کھانے کے کمرے میں اس کے کزن کی بیوی نے اس کا استقبال کیا اور اپنے خاوند کے ابھی تک گھر نہ پہنچنے پر پریشانی کا اظہار کیا ۔ لیفٹینینٹ نے انگڑائی لیتے ہوۓ پوچھا ،” تمہارا مطلب ہے کہ وہ ابھی تک واپس نہیں آیا؟ ۔ “ ا م ! ۔۔۔۔۔۔وہ شاید کرایہ دار کی طرف گیا ہے “ لیکن الیکسی ایوانوچ رات کے آخری طعام تک بھی نہ پہنچا ،جس پر اس کی بیوی اور سوکولسکی نے سوچا کہ وہ کرایہ دار کے ہاں تاش کھیلنے میں مصروف ہے اس لئے رات وہیں رکے گا ۔ تاہم جو انہوں نے سوچا ایسا ہر گز نہیں تھا ۔ کریوکوف اگلی صبح واپس آیا اور بغیر کسی سے ملے بغیر دعا سلام کیے سیدھا اپنے مطالعاتی کمرے میں چلا گیا ۔
“ اچھا؟ “ لیفٹینینٹ نے حیرانی سے آنکھیں مکمل کھول کر اسے دیکھتے ہوۓ سرگوشی کی ۔ کریوکوف نے ہاتھ ہلایا اور نتھنوں سے خراٹوں جیسی آواز نکالی ۔ “ کیوں ؟ کیا بات ہے ؟ تم کس پر ہنس رہے ہو ؟ “ کریوکوف چھپ سے صوفے پر گر گیا ،اپنا سر تکیے میں دبا لیا ۔اس کا بدن ہنسی روکنے کی کوشش میں ہلنے لگا ۔ ایک منٹ بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا اور حیران و پریشان لیفٹینینٹ کو دیکھتے ہوۓ بہت زیادہ ہنسنے سے آنکھوں میں تیرتے آنسوؤں کے ساتھ بولا ، “ دروازہ بند کر دو ۔ہاں تو ۔۔۔۔۔ وہ ، “ میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ ایک عورت ے ۔”
“کیا تم رسیدیں لے آۓ ؟ “
کریوکوف نے ہاتھ ہلایا اور ایک دفعہ پھر اسے ہنسی کا دورہ پڑ گیا ۔ “ وہ عورت ہے ! “ اس نے پھر بولنا شروع کیا ،” جان پہچان کروانے کا شکریہ ، میرے یار ! وہ شمیض کے نیچے ایک شیطان ہے۔ میں وہاں پہنچا ، میں ایک انتقامی دیوتا کی طرح اندر داخل ہوا ۔ یقین مانو میں خود اپنے آپ سے خوفزدہ تھا ۔۔۔۔۔میری تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں ، میں غصے سے تلملا رہا تھا ۔ میری مٹھیاں بھینچی ہوئی تھیں جس سے میں اور غصیلہ دکھائی دے رہا تھا ۔” “ مادام ، میرے ساتھ کھیلنے کی کوشش نہ کرنا ! “ میں نے بڑے رعب سے کہا ۔” میں نے اسے قانون اور گورنر کی دھمکی دی ۔وہ رونے لگی اور کہنے لگی کہ اس نے تم سے مذاق کیا تھا ۔اور پھر رقم کی ادائیگی کے لیے مجھے الماری تک لے گئی ۔ تب اس نے یہ بحث شروع کر دی کہ یورپ کا مستقبل روسیوں اور فرانسیسیوں کے ہاتھوں میں ہے ۔ تمہاری طرح میں نے سحر ذدہ ہو کر سنا ،بالکل گدھا بن گیا ۔۔۔۔۔ وہ مسلسل میری خوبصورتی کے گیت گاتی رہی ۔کندھوں کے قریب میرا بازو تھپتھپاتی رہی یہ بتانے کے لیے کہ میں کتنا طاقت ور اور مضبوط ہوں ۔ اور ۔۔۔۔۔۔اور دیکھ لو میں ابھی ابھی اس سے دور ہوا ہوں ! ہا ،ہا! وہ تمہارے لیے بڑی پرجوش ہے ! “ “ تم بہت عمدہ انسان ہو ! “
لیفٹینینٹ نے ہنستے ہوۓ کہا ۔ شادی شدہ آدمی ! بہت باعزت ۔۔۔۔۔۔کیا تم شرمندہ نہیں ہو ؟ قابل نفرت ؟ مذاق سے ہٹ کر ، بوڑھے آدمی , تمہاری ملکہ ، تمہارے پڑوس میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“ میرے اپنے پڑوس میں ! تمہیں ایسا دوسرا گرگٹ پورے روس میں کہیں نہیں ملے گا ۔میں نے ایسی چیز اپنی ساری زندگی میں نہیں دیکھی ،اگرچہ میں کسی حد تک عورتوں کے بارے میں جانتا ہوں ۔ میں نے اپنے زمانے میں کافی شیطان دیکھے لیکن میرا واسطہ کبھی بھی کسی ایسی چیز سے نہیں پڑا ۔تم نے بالکل درست کہا ،کہ وہ گھٹیا قسم کی شوخی سے آپ پر قابو پا لیتی ہے ۔ اس کی کشش کی اصل وجہ اس کی شیطانی حاضر دماغی ، فوری تبدیلیاں تیزی سے بدلتی کیفیات ۔۔۔۔۔Brrr! / بررر( ٹھنڈک کا احساس ) اور رسیدیں —- چھی چھی ۔ رقم کو گمشدہ میں لکھ دو ۔ہم دونوں بہت بڑے گنہگار ہیں ہم گناہ آدھا آدھا بانٹ لیں گے ۔ میں تمہارے زمہ واجب آلادا دو ہزار تین سو کی بجاۓ آدھی رقم لکھ دوں گا ۔ اور سنو میری بیوی کو بتانا کہ میں نے رات اپنے کرایہ دار کے ہاں گزاری ۔ “ کریوکوف اور لیفٹینینٹ نے سر تکیوں میں چھپا کر ہنسنا شروع کر دیا ۔ پھر سر اٹھاۓ ،ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر تکیوں میں دھنس گئے ۔ “ منگنی شدہ ، لیفٹینینٹ ! “ کریوکوف نے طنز کیا ۔ “ شادی شدہ ! “ سوکولسکی نے جوابی وار کیا ۔ انتہائی با عزت ! ایک خاندان کا سربراہ ! “ رات کے کھانے پر وہ آشاروں کنایوں میں بات کرتے رہے ۔ایک دوسرے کو آنکھ ماری ۔اور مسلسل اپنے ڈنر نیپکنز / طعامی رومالوں میں منہ دبا کر کھل کھلا کر ہنستے ہوۓ سب کی حیرانی کا باعث بنتے رہے ۔ ڈنر کے بعد خوشگوار موڈ میں ترک ملبوسات میں بندوقیں پکڑے بچوں کے ساتھ سپاہی سپاہی کھیلتے رہے ۔
لیفٹینینٹ نے بحث کی کہ بیوی سے جہیز وصول کرنا انتہائی گھٹیا اور قابل نفرت ہے چاہے دونوں اطراف سے گہری جذباتی محبت ہی کیوں نہ ہو ۔ کریوکوف نے اپنا مکہ میز پر مارتے ہوۓ کہا کہ یہ بالکل واہیات ہے۔ جو خاوند پسند نہیں کرتا کہ اس کی بیوی کی اپنی جائیداد ہو وہ انا پرست اور مطلق العنان ہے ۔دونوں چینختے چلاتے ، جوش و خروش سے بے قابو ہو رہے تھے ۔ ایک دوسرے کو سمجھے بغیر دونوں بولتے رہے ۔ بہت زیادہ شراب پی ،، اور آخر میں اپنے ڈریسنگ گاؤن کی سکرٹس اٹھاتے ہوۓ اپنے اپنے بیڈ روم میں چلے گئے ۔ انہیں جلد ہی نیند آ گئی اور وہ گہری نیند سو گئے ۔ زندگی پہلے کی طرح گزرنے لگی ۔ سست اوربغیر کسی دکھ کے ۔ زمین پر ساۓ پھیل گئے ۔ بجلی بادلوں سے الگ ہو رہی تھی ۔ آندھی دردناک بین کر رہی تھی ۔ ایسے جیسے کہ ثابت کرنا چاہتی ہو کہ فطرت بھی نوحہ کر سکتی ہے ۔ لیکن ان لوگوں کے مستقل سکون میں خلل نہیں ڈال سکی ۔ سوسانا معاسیوینا اور رسیدوں کے بارے میں انہوں نے کچھ نہیں کہا ۔ دونوں ہی کسی حد تک شرمندگی محسوس کر رہے تھے اور اس واقعہ کا باآواز بلند تذکرہ کرنے کی جرات نہیں کر رہے تھے ۔ تاہم وہ انہیں یاد تھا اور اس کے بارے میں سوچ کر خوشی محسوس کرتے تھے ۔ وہ ان کے لئے ایک دلچسپ کھیل تھا جو زندگی نے بالکل اچانک ، اتفاقاً” ان کے ساتھ کھیلا تھا ۔اور جو بڑھاپے کے لئیے ایک خوشگوار یاد بن جاۓ گا ۔ یہودن سے ملاقات کے چھٹے یا ساتویں دن کریوکوف صبح اپنے مطالعاتی کمرے میں بیٹھا اپنی آنٹ کو مبارکباد کا خط لکھ رہا تھا ۔ الیگزینڈر گریگوریو میز کے قریب ہی خاموشی سے ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا۔ لیفٹینینٹ کو اس رات پرسکون نیند نہیں آئی تھی ۔وہ پریشان حال افسردہ جاگ گیا تھا اور اب وہ بیزاری اور اکتاہٹ محسوس کر رہا تھا ۔ ٹہلتے ہوۓ وہ اپنی چھٹیوں کے اختتام ، اپنی منگیتر جو اس کا انتظار کر رہی تھی کا سوچ رہا تھا اور یہ بھی کہ لوگ کیسے اپنی ساری زندگی دیہاتی ماحول میں گزار دیتے ہیں ۔ وہ کھڑکی میں کھڑا کافی دیر درختوں کو گھورتا رہا ۔ یکے بعد دیگرے تین سگریٹ نوش کئیے ۔ پھر یکدم اپنے کزن کی طرف مڑا ۔ اور کہا ، “الیوشا، مجھے تمہاری مدد چاہیے ۔مجھے ایک دن کے لئے تمہارا کاٹھی گھوڑا چاہیے ۔ “ کریوکوف نے متلاشی نظروں سے اسے دیکھا اور تیوری چڑھاۓ لکھنے میں مصروف رہا ۔ “ تو پھر تم دو گے؟ “ لیفٹینینٹ نے پوچھا ۔ کریوکوف نے دوبارہ اس کی طرف دیکھا ،پھر میز کی ایک دراز کھینچ کر باہر نکالی ۔ایک موٹا سا نوٹوں کا بنڈل اپنے کزن کے حوالے کیا ۔ “ یہ پانچ ہزار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ یہ میری رقم نہیں ہے ۔تاہم خدا کی رحمتیں تم پر ہوں ،ایک ہی بات ہے ۔ میرا مشورہ ہے کہ کراۓ پر گھوڑا گاڑی منگواؤ اور فورا” روانہ ہو جاؤ ۔ “ لیفٹینینٹ نے متجسس نگاہوں سے کریوکوف کو دیکھا اور ہنسا ۔ “ الیوشا، تم نے درست قیاس کیا ہے ۔ اس نے سرخ پڑتے ہوۓ کہا ۔ میں اسی کے پاس جانا چاہتا تھا ۔کل شام جب دھو بن نے مجھے وہ لعنتی چھوٹا چست فوجی کوٹ دھو کر دیا ،وہی جو میں نے اس دن پہن رکھا تھا ۔اس سے چنبیلی کی خوشبو آ رہی تھی۔ کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے محسوس ہوا کے مجھے جانا چاہیے ! “ تمہیں ضرور جانا چاہیے ۔” “ ہاں بالکل ۔ میری چھٹی بھی ختم ہو رہی ہے ۔ میں آج ہی نکل جاؤں گا ! چاہے جتنا بھی رک جاؤ آخر جانا ہی پڑتا ہے۔” اسی دن ڈنر کے بعد کراۓ کی گھوڑا گاڑی منگوائی گئی ۔ لیفٹینینٹ نے کریوکوف اور سب گھر والوں کو خدا حافظ کہا اور سب کی دعائیں سمیٹتے ہوۓ روانہ ہو گیا ۔ ایک ہفتہ گزر گیا ۔وہ دن بہت ناگوار گرم اور بوجھل تھا ۔صبح ہی سے کریوکوف پورے گھر میں بے مقصد گھوم رہا تھا ۔کبھی کھڑکی سے باہر جھانکتا یا البم کے صفحات الٹتا پلٹتا اگرچہ وہ ان سے بیزار تھا ۔جب اس کا سامنا بیوی اور بچوں سے ہوا تو وہ ناراضگی سے بڑ بڑا نے لگا ۔اس دن اسے کسی وجہ سے محسوس ہوا کہ اس کے بچوں کے اطوار باغیانہ ہیں ۔ اس کی بیوی کو ملازمین کی دیکھ بھال کرنا نہیں آتا ۔ ان کے اخراجات اور ان کی آمدن کا تناسب درست نہیں ۔ اس سب کا مطلب یہی تھا کہ گھر کے مالک کا مزاج خراب ہے ۔ ڈنر کے بعد سوپ اور بھنے ہوۓ گوشت جو اس نے کھایا تھا سے غیر مطمئن اس نے اپنی گھوڑا گاڑی منگوائی ،آہستہ آہستہ وہ احاطے سے نکلا، ایک میل تک ٹہلنے کے انداز سے گاڑی چلائی اور رک گیا ۔ “ کیا میں اس کی طرف جاؤں ——اس شیطان ؟ “ اس نے گہرے سیاہ آسمان کو دیکھتے ہوۓ سوچا ۔ کریوکوف نے ہنستے ہوۓ سوچا ،جیسے یہ پہلی بار تھی کہ اس نے اپنے آپ سے یہ سوال کیا تھا ۔یک دم اس کے دل سے بیزاری کا بوجھ دور ہو گیا ۔ اس کی بے زارگی خوشی کی کرن بن کر اسکی اداس آنکھوں میں چمکنے لگی ۔ اس نے گھوڑے پر چابک لہرایا ۔ سارا وقت وہ اس تصور میں کھویا رہا کہ یہودن اسے دیکھ کر کس قدر حیران ہو گی کیسے وہ خود خوشی سے ہنسے گا اور گفتگو کرے گا اور واپس گھر بالکل ترو تازہ ہو کر لوٹے گا ۔ ۔۔۔۔ “ مہینے میں ایک دفعہ انسان کو ترو تازہ ہونے کا موقع ملنا چاہیے ۔ ۔۔، اس کی روزمرہ کی مصروفیات سے کچھ ہٹ کر۔” اس نے سوچا۔ ” ایسا کچھ جو جامد حیات کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ ایک رد عمل ۔۔۔۔۔ چاہے یہ شراب نوشی ہو ،یا ۔۔۔۔۔۔ سوسانا ۔ اس کے بغیر گزارہ نہیں ۔ “ جب وہ شراب کشید کرنے کے کارخانے کے صحن میں پہنچا تو تاریکی چھا رہی تھی ۔ مکان کی کھلی کھڑکیوں سے ہنسنے اور گانے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ “ بجلی چمکنے سے زیادہ روشن ، آگ کے شعلے سے زیادہ جلتے ۔۔۔۔۔۔”ُ ایک طاقتور ، نرم اور مدھر آواز گا رہی تھی ۔
“ آہا ،اس کے پاس ملاقاتی ہیں “۔ کریوکوف نے سوچا ۔ اس سوچ سے وہ غصے میں آ گیا ۔ گھنٹی پر ہاتھ رکھتے ہوۓ اس نے سوچا ،” کیا میں واپس چلا جاؤں ؟ “ لیکن اس نے گھنٹی بھی بجا دی ۔ اور جانی پہچانی سیڑھیاں چڑھ گیا ۔ داخلی دروازے سے اس نے استقبالیہ ہال میں جھانکا ۔ وہاں تقریباً” پانچ آدمی بیٹھے تھے ۔ سب جاگیردار اور اس کے واقف کار تھے ۔ ایک لمبا پتلا جنٹلمین پیانو کے سامنے بیٹھا گا تے ہوۓ اپنی پتلی لمبی انگلیوں سے پیانو بجا رہا تھا ۔ باقی بیٹھے سن رہے اور خوش ہو رہے تھے ۔ کریوکوف نے آئینے میں اپنے سراپے کا جائزہ لیا اور ہال میں داخل ہونے لگا تھا کہ سوسانا خود داخلی دروازے پر پہنچ گئی ۔ وہ بہت خوش اور اسی سیاہ لباس میں تھی ۔ ۔۔۔۔ کریوکوف کو دیکھ کر ایک لمحے کے لئیے ہکا بکا رہ گئی ۔ تب اس نے ہلکی سی چینخ ماری اور خوشی سے جھوم اٹھی ۔
“ کیا یہ تم ہو ؟ “ سوسانا نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا ۔ “ واہ کیا سرپرائز ہے ۔“ “ یہ ہوئی نا بات ، “ کریوکوف نے مسکراتے ہوۓ اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتے ہوۓ کہا ۔ “ بہت خوب ! کیا یورپ کی تقدیر ابھی بھی فرانس اور روس کے ہاتھوں میں ہے ؟ ۔”
“ میں بہت خوش ہوں ، “ یہودن ہنسی اور بہت احتیاط سے اس کے ہاتھ اپنی کمر سے الگ کرتے ہوۓ کہا ۔ “ آؤ ، ہال میں چلے جاؤ ، وہاں سب دوست ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں جا کر تمہارے لیے چاۓ بجھواتی ہوں ۔ تمہارا نام الیکسی ہے ۔درست ہے نا ؟ ٹھیک ، اندر چلے جاؤ ، میں بس آتی ہوں ۔ “
وہ اس کی طرف ہوا میں بوسہ اچھالتے ہوۓ واپس اندر چلی گئی ،اپنے پیچھے وہی چنبیلی کی ناخوشگوار بو چھوڑ گئی ۔ُ کریوکوف نے سر اونچا اٹھایا اور ہال میں داخل ہو گیا ۔ کمرے میں موجود تمام لوگوں سے اس کی دوستانہ قربت تھی۔ لیکن اس نے بمشکل سر ہلایا ، انہوں نے بھی بمشکل جواب دیا …. ہال سے کریوکوف ڈرائنگ روم میں چلا گیا اور وہاں سے دوسرے ڈرائنگ روم میں ۔اس دوران اس کی ملاقات تین یا چار مزید مہمانوں سے ہوئی ۔ ان آدمیوں کو بھی وہ جانتا تھا ۔اگرچہ انہوں نے اسے بمشکل ہی پہچانا ۔ ان کے چہرے شراب نوشی اور خوشی سے سرخ ہو رہے تھے ۔ الیکسی ایوانوچ نے چور نگاہوں سے انہیں دیکھا اور حیران ہوا کہ یہ باعزت خاندانوں کے سربراہ جنہوں نے زندگی کی اونچ نیچ برداشت کی تھی اپنے آپ کو اس حقیر اور، سستی خوشی کے لئے اس حد تک گرا سکتے ہیں ۔اس نے کندھے اچکاۓ ، مسکرایا اور آگے نکل گیا ۔
“ کچھ جگہیں ایسی ہیں “ اس نے سوچا ، “ جہاں ایک پرسکون ہوش مند انسان بیزاری محسوس کرتا ہے لیکن نشے میں مد ہوش خوش ہوتا ہے ۔مجھے یاد ہے ،میں کبھی بھی ہوش و حواس میں ہوتے ہوۓ کسی غنائی تمثیل یا خانہ بدوشوں کی طرف نہیں جا سکتا ۔ شراب انسان کو خوش مزاج بنا کر اس کی برائی سے مفاہمت کروا دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔” یکدم وہ بت کی طرح ساکت کھڑا رہ گیا اور دونوں ہاتھوں سے دروازے کی چوکھٹ کا سہارا لے لیا ۔ سوسانا کے مطالعاتی کمرے کی لکھنے کی میز پر لیفٹینینٹ الیگزینڈر گریگورویو بیٹھا تھا ۔ وہ مدھم آواز میں ایک موٹے پلپلے یہودی کے ساتھ محو گفتگو تھا اپنے کزن کو دیکھتے ہی وہ سرخ ہو گیا اور البم دیکھنے لگا ۔ کریوکوف کی تہزیب اور شائستگی نے اسے اندر سے جھنجھوڑ ڈالا ۔حیرت غصے اور شرمندگی کے جذبات سے مغلوب وہ بغیر کچھ کہے میز تک گیا۔ سوکولسکی کا سر مزید جھک گیا ۔ اس کے چہرے پر شدید شرمندگی تھی ۔ “ آہ ، یہ تم ہو ،الیوشا ! “ اس نے بہت مشکل سے آنکھیں اٹھانے اور مسکرانے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا ۔ “ میں یہاں خدا حافظ کہنے آیا تھا اور جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کل میں ہر حال میں چلا جاؤں گا۔” “ میں بھلا اسے کیا کہہ سکتا ہوں ؟ کیا؟ “ الیکسی ایوانوچ نے سوچا ۔” میں اس کے بارے میں کچھ بھی کیسے کہہ سکتا ہوں ۔ اس کے بارے میں کوئی راۓ کیسے قائم کر سکتا ہوں ،جب کہ میں خود یہاں ہوں ؟ “ اپنا گلا کنکھار کر صاف کرتے ہوۓ وہ آہستگی سے باہر نکل گیا ۔ “ اسے آسمانی مخلوق قرار مت دو اور اسے زمین پر رہنے دو ۔۔۔۔۔” مدھر آواز گا رہی تھی ۔کچھ ہی دیر بعد کریوکوف کی گھوڑا گاڑی گرد آلود سڑک پر سرپٹ دوڑ رہی تھی۔