پسپائی

پسپائی

Apr 21, 2018

دیدبان شمارہ۔۶

افسانہ:پسپائی

روما رضوی

تو ، میرے عزیزوں۔۔۔سفر کی معلومات آپ سب کو فراہم کردی گئی ہیں۔۔  آپ کے ساتھ صرف وہ سامان ہونا لازمی ہے جو اس سفر کے لئے ضروری ہے.." جو مسافر تیاری سے ھیں وہ اطمینان رکھیں" سفر کے لوازمات اور  منزل کے متعلق آپ سب کے پاس مناسب معلومات پہلے ہی موجود ہیں .

آپ سب اس بات سے واقف ہیں کہ..ہم اس منزل کی تلاش میں روانہ ہونے کو ہیں ..جس سے ہم  کچھ عرصہ پہلےجدا ہو گئے تھے..کیا ایسا ہی ہے؟؟

مجھے آپ سب کے انکار یا اقرار کا انتظار ہے  "

(مجمع میں موجود ..خاتون کی خودکلامی)

میں بھی تو اس سفر کا عرصے سے انتظار کررہی  تھی..

... لیکن خوف ہے شاید اس لئے کہ .. " میں ۔۔..پہلی دفعہ بالکل تنہا سفر کررہی  ہوں  شاید میرے گھر میں سے کوئی بھی ایسی دلچسپی نہیں رکھتا جو مجھے ھے سچی اب تک یقین و بے یقینی مجھ پہ غالب ھے...چند ساعتوں کا اور سفر ھے ..پھر وہ سب سامنے ہی ھوگا ...جس سے بے پناہ امیدیں اور محبتیں ھیں ...نئے لوگ میزبان ہوں گے  ان کو بھی میری آمد کی خبر ھے ؟ کیا وہ بھی میرے منتظر ہیں؟۔۔

..میں جانتی ہوں ...ان لاکھوں کے ہجوم میں گم بھی ہوجاوں تو کسی کو میری تلاش نہیں ھوگی..کیا اسے ھوگی؟

اس سے پہلے جب بھی سفر کیا.. میرے شوہر یا بچے ساتھ ھوتے تھے ..

اف!! آج یہ کس قدر بڑا اجتماع ھے ..بھانت بھانت کی بولیاں بولتے لوگ..

کوئی ہے  ؟؟جو مجھے ان سب کی اصلیت سے آگاہ کردے.؟."

نہیں...اس وقت تمہارے کسی سوال کا جواب دینے کےلئے کوئی بھی تیار نہیں.

.۔۔ قریب سے کسی  مسافر کا جواب آیا

.دیکھو تو میرے کچھ ساتھی ایسے ہیں  جو کھانے پینے اور سفر میں سہولتوں کی عدم دستیابی پہ ناراض ہیں ۔۔

.تو؟ ان کا سفر بھی تو جسم و جسمانی ضروریات کے ساتھ ہے  ضرورتیں پوری نہ ہوں گی

توشکایات تو ھوں گی..

اور  وہ دیکھو کچھ ایسے

بے وقوف.... جو دیدار کے شوق لئے جیسے عشق کے دریا میں بہاو کی سمت بہہ رہےھوں..عقیدت کی لہروں پہ تیرتے... اطراف سے بے خبر...ضروریات سے بے نیاز ھیں... ہنسی آتی ھے مجھے..۔۔ ہاہا۔۔۔وہ بے اختیار ہوکر ہنسنے لگی۔۔

تم ہمیشہ سے لوگوں کو اپنے نظریات پہ پرکھتی ھو..خود غرض ھو..بے انتہا خودغرض.. مسافر نے پھر جواب دیا

ہممم اب مجھے بھی لگتا ھے کہ جیسے جیسے منزل قریب آ رہی ہے  لوگوں کے رویئے بھی تلخ ہوتے جا رہے ہیں ...جیسے ایک دوسرے سے عاجز آگئے  ہوں ...

کیا تم اس منزل پہ سہارا دے سکوگے..؟؟

نہیں...یہ سفر کی شرط ہے کہ ہر  ایک اپنا سامان خود لے کر چلے گا..کیونکہ تمہاری جانب سے اسے کسی انعام و اکرام کی توقع نہیں رھی ھے..

تم اپنے لائے سامان سے خود ہی لطف اندوز ھوگی تو کیوں کوئی تمہارے لئے یہ زحمت مول لے؟"

"میں اپنے تمام احسانات یاد دلاوں گی جو وقتاً فوقتاً تم سب پہ کرتی رہی "

یہاں یہ سب ممکن نہیں..تم پہلے ہی ان  کا فائدہ اٹھا چکی ہو ..کسی کے بدلے تعریف و توصیف تو کسی کے بدلے دنیاوی انعامات.. سوا ندامت کے کچھ نہ یاد دلا سکوں گا..تمہارے ہر احسان نے خود گواھی دی ہے

خدارا سب نہ یاد دلاو.."

ہائے ناامیدی نے مجھے منزل سے فرار پہ مجبور کردیا ہے ..میں کسی بھی صورت یہ سفر ختم نہیں کرنا چاہتی ...

لیکن اب یہ طویل کٹھن اور بتدریج تنگ ہو تا راستہ چند لمحوں میں منزل پر پہنچنے والا ہے .اور منزل انجان ہے ..

شاید تمہاری بھی ناپسندیدہ..

اور میرے لئے بھی ناقابلِ قبول..."

شدید جھٹکے کے ساتھ سواری چلنے کو تیار ہے ..

لیکن ..لیکن میں اب جانا نہیں چاھتی ... میں رکنا چاھتی ھوں...خدا کےلئے روک دو ..مجھے یہیں اتار دو......"

مشینوں کی آواز آہستہ آہستہ کم ہوتے سناٹے میں بدلنے لگی....

ایک وارڈ بوائے نے آہستگی سے بیگم گیلانی کے ہا تھوں سے چادر کا کنارہ چھڑاتے ہوئے  کہا...

"لگتا ہے  بہت مشکل سے دم نکلا ہے ...

ہاں  ...کئی دن سے اذیت میں تھی -

ساتھ کھڑی نرس نے تاسف سے جواب دیا..

میں یہ نہیں سمجھ پاتی کے مرض کی آخری اسٹیج پہ بھی..انسان کو اپنی موت کا یقین کیوں نہیں ہوتا.. ہم معجزات کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

------------

دیدبان شمارہ۔۶

افسانہ:پسپائی

روما رضوی

تو ، میرے عزیزوں۔۔۔سفر کی معلومات آپ سب کو فراہم کردی گئی ہیں۔۔  آپ کے ساتھ صرف وہ سامان ہونا لازمی ہے جو اس سفر کے لئے ضروری ہے.." جو مسافر تیاری سے ھیں وہ اطمینان رکھیں" سفر کے لوازمات اور  منزل کے متعلق آپ سب کے پاس مناسب معلومات پہلے ہی موجود ہیں .

آپ سب اس بات سے واقف ہیں کہ..ہم اس منزل کی تلاش میں روانہ ہونے کو ہیں ..جس سے ہم  کچھ عرصہ پہلےجدا ہو گئے تھے..کیا ایسا ہی ہے؟؟

مجھے آپ سب کے انکار یا اقرار کا انتظار ہے  "

(مجمع میں موجود ..خاتون کی خودکلامی)

میں بھی تو اس سفر کا عرصے سے انتظار کررہی  تھی..

... لیکن خوف ہے شاید اس لئے کہ .. " میں ۔۔..پہلی دفعہ بالکل تنہا سفر کررہی  ہوں  شاید میرے گھر میں سے کوئی بھی ایسی دلچسپی نہیں رکھتا جو مجھے ھے سچی اب تک یقین و بے یقینی مجھ پہ غالب ھے...چند ساعتوں کا اور سفر ھے ..پھر وہ سب سامنے ہی ھوگا ...جس سے بے پناہ امیدیں اور محبتیں ھیں ...نئے لوگ میزبان ہوں گے  ان کو بھی میری آمد کی خبر ھے ؟ کیا وہ بھی میرے منتظر ہیں؟۔۔

..میں جانتی ہوں ...ان لاکھوں کے ہجوم میں گم بھی ہوجاوں تو کسی کو میری تلاش نہیں ھوگی..کیا اسے ھوگی؟

اس سے پہلے جب بھی سفر کیا.. میرے شوہر یا بچے ساتھ ھوتے تھے ..

اف!! آج یہ کس قدر بڑا اجتماع ھے ..بھانت بھانت کی بولیاں بولتے لوگ..

کوئی ہے  ؟؟جو مجھے ان سب کی اصلیت سے آگاہ کردے.؟."

نہیں...اس وقت تمہارے کسی سوال کا جواب دینے کےلئے کوئی بھی تیار نہیں.

.۔۔ قریب سے کسی  مسافر کا جواب آیا

.دیکھو تو میرے کچھ ساتھی ایسے ہیں  جو کھانے پینے اور سفر میں سہولتوں کی عدم دستیابی پہ ناراض ہیں ۔۔

.تو؟ ان کا سفر بھی تو جسم و جسمانی ضروریات کے ساتھ ہے  ضرورتیں پوری نہ ہوں گی

توشکایات تو ھوں گی..

اور  وہ دیکھو کچھ ایسے

بے وقوف.... جو دیدار کے شوق لئے جیسے عشق کے دریا میں بہاو کی سمت بہہ رہےھوں..عقیدت کی لہروں پہ تیرتے... اطراف سے بے خبر...ضروریات سے بے نیاز ھیں... ہنسی آتی ھے مجھے..۔۔ ہاہا۔۔۔وہ بے اختیار ہوکر ہنسنے لگی۔۔

تم ہمیشہ سے لوگوں کو اپنے نظریات پہ پرکھتی ھو..خود غرض ھو..بے انتہا خودغرض.. مسافر نے پھر جواب دیا

ہممم اب مجھے بھی لگتا ھے کہ جیسے جیسے منزل قریب آ رہی ہے  لوگوں کے رویئے بھی تلخ ہوتے جا رہے ہیں ...جیسے ایک دوسرے سے عاجز آگئے  ہوں ...

کیا تم اس منزل پہ سہارا دے سکوگے..؟؟

نہیں...یہ سفر کی شرط ہے کہ ہر  ایک اپنا سامان خود لے کر چلے گا..کیونکہ تمہاری جانب سے اسے کسی انعام و اکرام کی توقع نہیں رھی ھے..

تم اپنے لائے سامان سے خود ہی لطف اندوز ھوگی تو کیوں کوئی تمہارے لئے یہ زحمت مول لے؟"

"میں اپنے تمام احسانات یاد دلاوں گی جو وقتاً فوقتاً تم سب پہ کرتی رہی "

یہاں یہ سب ممکن نہیں..تم پہلے ہی ان  کا فائدہ اٹھا چکی ہو ..کسی کے بدلے تعریف و توصیف تو کسی کے بدلے دنیاوی انعامات.. سوا ندامت کے کچھ نہ یاد دلا سکوں گا..تمہارے ہر احسان نے خود گواھی دی ہے

خدارا سب نہ یاد دلاو.."

ہائے ناامیدی نے مجھے منزل سے فرار پہ مجبور کردیا ہے ..میں کسی بھی صورت یہ سفر ختم نہیں کرنا چاہتی ...

لیکن اب یہ طویل کٹھن اور بتدریج تنگ ہو تا راستہ چند لمحوں میں منزل پر پہنچنے والا ہے .اور منزل انجان ہے ..

شاید تمہاری بھی ناپسندیدہ..

اور میرے لئے بھی ناقابلِ قبول..."

شدید جھٹکے کے ساتھ سواری چلنے کو تیار ہے ..

لیکن ..لیکن میں اب جانا نہیں چاھتی ... میں رکنا چاھتی ھوں...خدا کےلئے روک دو ..مجھے یہیں اتار دو......"

مشینوں کی آواز آہستہ آہستہ کم ہوتے سناٹے میں بدلنے لگی....

ایک وارڈ بوائے نے آہستگی سے بیگم گیلانی کے ہا تھوں سے چادر کا کنارہ چھڑاتے ہوئے  کہا...

"لگتا ہے  بہت مشکل سے دم نکلا ہے ...

ہاں  ...کئی دن سے اذیت میں تھی -

ساتھ کھڑی نرس نے تاسف سے جواب دیا..

میں یہ نہیں سمجھ پاتی کے مرض کی آخری اسٹیج پہ بھی..انسان کو اپنی موت کا یقین کیوں نہیں ہوتا.. ہم معجزات کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

------------

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024