کیا یہ بدن میرا تھا

کیا یہ بدن میرا تھا

Jan 12, 2019

مصنف

صبا ممتاز بانو

شمارہ

شمارہ - ٩

دیدبان شمارہ . ۹

کیا یہ بدن میرا تھا؟

صبا ممتاز بانو

آفتاب اپنی حدت کھو چکا تھا۔ نقرئی کرنیں اس کے وجود میں پوری طرح سما چکی تھیں۔ تخت ِتاریکی بچھ چکا تھا۔ نرم خودرو گھاس نے پانی سے راز و نیاز شروع کر دیا تھا۔ پیڑوں کی دُنیا آباد ہو چکی تھی۔ راستے کو چپ لگتی جا رہی تھی۔ اِکّا دُکّا مسافر گزرتا تو دھرتی کھنکنے لگتی۔ ایسے میں ویران پگ ڈنڈی پر تیز تیز قدم اُٹھاتی میں زمان کو شکست دینے کی کوشش میں تھی۔ مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی اور اسے گزر جانے کی۔

’’میرا دل چاہا کہ بھا گ کر اس سے لپٹ جائوں، مگر وہ کب ہاتھ آتا تھا......؟‘‘

اس کے لمبے لمبے ڈگ میرے سو قدموں پر بھی بھاری تھے۔ ویسے بھی ضرورت کے لمحوں میں دامن بچا کر گزر جانے کا ہُنر اسے خوب آتا تھا۔ وہ نظامِ فطرت کا اسیر تھا۔ میں تھوڑی سی بے رُخی کیا برتتی، وہ وفا کی زنجیروں سے رِہا ہو جاتا اور بے وفائی کے جنگل میں اُچھلتا کودتا مجھ سے آگے نکل جاتا۔ آج بھی وہ مجھ سے آگے آگے دوڑ رہا تھا۔ اِکّا دُکّا مسا فر بھی جب دغا دے گئے، سوچ میری تمنائوں کی ہم رکاب ہوگئی۔

’’بے وفا کہیں کا......! کیا ہوا ساتھ نہیں، ابھی دو چار قدم اور چلوں گی تو لُٹیا کو آواز دوں گی۔‘‘

ایسا ہی ہوا۔ جوں ہی دُور ایک کٹیا کی مدہم روشنی نے میری آنکھوں کو جوت بخشی۔ میں نے لُٹیا کو آواز دی۔

’’لُٹیا......!‘‘

ایک ہی پکار پر کالے ریشمی بالوں والی لُٹیا اُچھلتی کودتی اوربھاگتی دوڑتی ہوئی میرے مقابل آکھڑی ہوئی۔ لُٹیا کے تو جیسے کان ہی میری آواز پر لگے ہوتے تھے۔ ایسے لگتا تھا، اس کا دل اس کے کانوں میں بولتا رہتا تھا۔

’’لو......! اب آئی کہ اب آئی تیری مالکن......!‘‘

میری پہلی صدا پر ہی وہ ہر مشکل کو اپنے پائوں سے روندتی ہوئی میرے پاس پہنچ جاتی۔ لُٹیا کو دیکھتے ہی میرے گلابی عارض مہکنے لگے۔ جاندار مسکراہٹ نے میرے بھرے بھر ے لبوں پر جگہ گھیر لی۔ خوف کی وجہ سے جمی پپڑیاں خودبخود اُکھڑنے لگیں۔ میرے ریشمی بالوں میں ہوا کنگھی کرنے لگی۔ ان کی سرسراہٹ سے دماغ کی حکومت کمزور پڑنے لگی۔ بدن کے فرش پر تمنائوں نے رقص کرنا شروع کر دیا۔ بلبل چہکنے لگی۔

’’حزن نہ کوئی غمِ بربادی ...... آزادی جیسی آزادی......!‘‘

میں وفورِ مسرت سے ہم کنار، خوش وقتی جذبو ں سے مہکتی اورشب ماہتاب کی ضیا سے دمکتی ہوئی لُٹیا کے سنگ سفر کرنے لگی۔

’’زیست ہے تو میں ہوں۔ اگر یہ نہیں تو پھر کیا ہے......؟ نگاہ ِسرمگیں بھی نہیں اور خوشبوئے بدن بھی نہیں۔ واپسی کے سفر پر صرف حسرتوں کا قیام ہو تا ہے۔جی بھر کر جیا جائے یا بندھ باندھ لیا جائے۔‘‘

میری سوچوں میں مرغان خوش نوا محو پرواز تھے کہ لُٹیا کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ ایک خیال نے مجھے پریشان کر دیا۔

’’اور یہ لُٹیا اپنی محبت، اپنی شفقت اوراپنے تحفظ کی چھایا مجھ پر کئے ہوئے، کیا یہ ہمیشہ اسی طرح میرے ساتھ رہے گی یا میری سانسوں کے نڈھال ہوتے اورمیرے شباب کے ڈھلتے ہی مجھے چھوڑ جائے گی......؟ کیا اس کی عمر میری عمر کا ساتھ دے پائے گی......؟‘‘

’’مالکن......! تم نے میرا نام لُٹیا کیوں رکھا......؟‘‘

چلتے چلتے جانے اُسے یہ آج کیا سوال کرنے کی سوجھی تھی......؟

’’لُٹیا......! ہر سوال پوچھنے کے لئے نہیں ہوتا۔‘‘

’’مالکن......! ہر جواب سننے کے لئے ہوتاہے۔ اگر حوصلہ ہو۔‘‘

’’بڑی حوصلے والی ہے تو میڈم فلاسفر......! کتا بیں پڑھتی ہے کیا......؟۔‘‘

میں اس کے دل کو دُکھانا نہیں چاہتی تھی۔

’’نہیں......! زندگی کو۔‘‘

لُٹیا بھی آج مجھے لاجواب کرنے پر تُلی ہوئی تھی۔ میں نے لُٹیا کو دیکھا جو اب مجھ سے دو قدم دُور ہٹ کر چلنے لگی تھی۔ لُٹیا کی اس حرکت سے دل رنجور ہوا، دیدہ تر نے پلکوں کو بگھو دیا۔

’’تو جانتی ہے ناں لُٹیا......! کتنے ہی تیرے ارد گرد منڈلاتے تھے، تجھ پر اپنی رال ٹپکاتے تھے، ہر کوئی تجھے لوٹنے کی فکر میں رہتا تھا۔ تیرا نام لُٹیا نہ رکھتی تو کیا رکھتی......؟‘‘

’’چھوٹی تو مجھے بِٹیا کہتی ہے۔‘‘

اس کے لہجے میں گلہ نمایاں تھا۔

’’تجھے کیا اچھالگتا ہے......؟‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’مجھے تو بِٹیا اچھا لگتا ہے مالکن......! چھوٹی بہت بڑی ہے ناں......!‘‘

آج وہ مجھے پوری طرح زِچ کرنے پر کمر بستہ تھی۔

’’اری......! ’بِٹیا‘‘ اور ’’لُٹیا‘‘ میں فرق ہی کتنا ہے......؟ ’’ب‘‘ کے نیچے سے ’’نقطہ‘‘ اور ’’زیر‘‘ ہٹا لو اور اوپر ’’پیش‘‘ ڈال دو۔ اس کا قد لمبا کر دو اور پھیلائو تھوڑا زیادہ کر دو۔ بس اتنی سی بات ہے۔‘‘

’’اتنی سی بات کہاں ہے مالکن......! چیزوں کو ان کے اصل مقام سے ہٹا دیا جائے تو باقی کچھ نہیں رہتا۔ عزت دیواروں سے لگ کر روتی ہے اور بدنامی انہیں پھلانگ کر باہر نکل جاتی ہے۔ بیٹیاں لُٹنے لگتی ہیں اور ضمیر فروشوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ سودے بازی یا جبر کا کالا ناگ عزتِ نفس کو ڈَس لیتا ہے۔ لالچ کا راج ہو جاتا ہے۔‘‘

لُٹیا کی باتوں نے مجھے حیران پریشان کر دیا۔

’’یااللہ......! کہیں لُٹیا کے دن تھو ڑے تو نہیں رہ گئے......؟‘‘

’’لُٹیا......! تو بھی تو کالی ہے۔‘‘

میں نے لُٹیا کو سمجھانے کی کوشش کی۔

’’یاد کر مالکن......! جب میں پیدا ہوئی تھی تو کیا کالی تھی......؟‘‘

’’ تجھے اوج ثریا تک جانا ہے اورمجھے سیاہی کے سفر پر رہنا ہے۔‘‘

کسی سیانے نے کہا تھا کہ سفر باتوں میں ہو تو آسانی سے کٹ جاتا ہے۔ آج ایسا ہی تو ہوا تھا۔ کٹیا جوں ہی آئی، لُٹیا نے میرے ریشمی لبادے سے کھیلنا شروع کر دیا۔ میں نے بیگ سے گوشت کے ٹکڑ ے نکالے اور لُٹیا کو ڈال دئیے۔ لُٹیا نے سیرِ شکم ہو کر بھی پیاسی نگاہوں سے مجھے دیکھا تو میں اس کے من کی بات سمجھ گئی اور خاکی لفافے سے کیک نکالا۔

’’بڑی ندیدی ہے تو......! میٹھا بھی کھائے گی......؟‘‘

لُٹیا نے جواب دینے کی بجائے کیک میرے ہاتھوں سے چھین لیا۔ لُٹیا کے مطمئن ہونے کے بعد میں نے جوں ہی قدم اندر بڑھائے، سکون میرے بدن میں ہلکورے لینے لگا۔ نیند مجھ سے محبت کا تقاضہ کرنے لگی۔

’’ایک اور رات محفوظ پناہ گاہ میں بسر ہو جائے گی۔ ہاتھوں کی دُنیا جب تک آباد رہے گی، سعی مسلسل تو کرنا ہوگی۔ آبلہ پائی بھلے ستم ڈھائے، لیکن اُمید تو اپنی جگہ شاداب کھڑی ہے۔ زندگی موت کے آنے تک سنبھل ہی جائے گی۔‘‘

میں درماندہ حال نے خوش خیالی کے ساتھ اپنے آستاں میں پناہ لی اور لُٹیا گھر کے باہر مورچہ سنبھال آکر بیٹھ گئی۔ اس رات بدن کو حرارت نے گھیر لیا۔ چاند جیسا مکھڑا کملا گیا۔ تیسرے روز طبیعت سنبھلی تو من باہر جانے کو مچلا۔ شال کو جسم پر لپیٹا اور باہر نکل گئی۔

’’لُٹیا......! چل آ......! ٹہلتے ہیں۔‘‘

لُٹیا تو مجھے دیکھتے ہی نہال ہوگئی۔ اس کی باتوں میں شہد سا گھل گیا۔

’’حسن جاناں ہے کچھ عنابی سا۔ کتنے دنوں کے بعد تمہارا مکھڑا دیکھا ہے مالکن......! بدن سے ضیا پھوٹ رہی ہے اور مخمور آنکھوں کا حسن دوآتشہ ہو چکا ہے۔ بیماری میں کوئی یوں بھی خوب صورت ہوتا ہے......؟‘‘

باتوں باتوں میں ہم سرحد کے پاس پہنچ گئے۔ میرا دل تھا، آج بن سے نکل کر دیکھوں۔ میں نے جوں ہی حدِ فاصل کو پار کرنے کی کوشش کی۔ لُٹیا مچلنے لگی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ میں آگے جائوں۔

’’آخر کیا تھا بن کے پار......؟‘‘

میں دیکھنا چاہتی تھی اور لُٹیا مجھے روکنا چاہتی تھی۔ آخرکار لُٹیا نے فیصلہ کن انداز میں میری طرف دیکھا اور اپنے پائوں اُٹھائے۔

’’پہلے میں جائوں گی۔‘‘

اب اسے روکنا بے سود تھا۔ میں جانتی تھی کہ وہ ہٹ کی پکی ہے۔ رات کی سیاہی کو چیرتی ہوئی وہ اندھیرے میں روپوش ہوگئی۔ کچھ پل ٹھہر گئے اور پھر ساعتوں کی خاموشی چیخم دھاڑ میں بدل گئی۔

’’کون تھا......؟ کون تھا......؟‘‘

’’مجھے لُٹیا کے ساتھ جانا چاہئے تھا۔ مجھے اس کی بات نہیں ماننی چاہئے تھی۔ وہ تو سدا کی پگلی ہے۔‘‘

تیز و تند طوفان، چنگھاڑتی ہوئی آوازیں، سماعتوں کو بہرہ کر دینے والی دھاڑیں اور میرا ساکت ہوتا ہوا بدن۔ میں نے قدم اُٹھانے کی کوشش کی، لیکن میں تو پتھر کی بن گئی تھی۔ میرا پیرہن پھٹ چکا تھا، میرا جسم حرکت نہیں کر رہا تھا، بس دماغ کام کر رہا تھا، لیکن وہ ایک ساعت، پھر اس کے بعد جیسے کسی نے مجھ میں جان ڈال دی ہو۔ میں اپنا فگار فگار بدن سنبھالتی سرپٹ اس طرف دوڑی جدھر لُٹیا گئی تھی۔ کالے بالوں اور بھورے پائوں والی لُٹیا کا زخمی بدن خاک پر پڑا تھا۔ روحیں چیخ رہی تھیں۔ میں نے اس کی پتلیوں میں جھانکا۔

’’میرا عکس......!‘‘

’’کیا یہ بدن میرا تھا......

دیدبان شمارہ . ۹

کیا یہ بدن میرا تھا؟

صبا ممتاز بانو

آفتاب اپنی حدت کھو چکا تھا۔ نقرئی کرنیں اس کے وجود میں پوری طرح سما چکی تھیں۔ تخت ِتاریکی بچھ چکا تھا۔ نرم خودرو گھاس نے پانی سے راز و نیاز شروع کر دیا تھا۔ پیڑوں کی دُنیا آباد ہو چکی تھی۔ راستے کو چپ لگتی جا رہی تھی۔ اِکّا دُکّا مسافر گزرتا تو دھرتی کھنکنے لگتی۔ ایسے میں ویران پگ ڈنڈی پر تیز تیز قدم اُٹھاتی میں زمان کو شکست دینے کی کوشش میں تھی۔ مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی اور اسے گزر جانے کی۔

’’میرا دل چاہا کہ بھا گ کر اس سے لپٹ جائوں، مگر وہ کب ہاتھ آتا تھا......؟‘‘

اس کے لمبے لمبے ڈگ میرے سو قدموں پر بھی بھاری تھے۔ ویسے بھی ضرورت کے لمحوں میں دامن بچا کر گزر جانے کا ہُنر اسے خوب آتا تھا۔ وہ نظامِ فطرت کا اسیر تھا۔ میں تھوڑی سی بے رُخی کیا برتتی، وہ وفا کی زنجیروں سے رِہا ہو جاتا اور بے وفائی کے جنگل میں اُچھلتا کودتا مجھ سے آگے نکل جاتا۔ آج بھی وہ مجھ سے آگے آگے دوڑ رہا تھا۔ اِکّا دُکّا مسا فر بھی جب دغا دے گئے، سوچ میری تمنائوں کی ہم رکاب ہوگئی۔

’’بے وفا کہیں کا......! کیا ہوا ساتھ نہیں، ابھی دو چار قدم اور چلوں گی تو لُٹیا کو آواز دوں گی۔‘‘

ایسا ہی ہوا۔ جوں ہی دُور ایک کٹیا کی مدہم روشنی نے میری آنکھوں کو جوت بخشی۔ میں نے لُٹیا کو آواز دی۔

’’لُٹیا......!‘‘

ایک ہی پکار پر کالے ریشمی بالوں والی لُٹیا اُچھلتی کودتی اوربھاگتی دوڑتی ہوئی میرے مقابل آکھڑی ہوئی۔ لُٹیا کے تو جیسے کان ہی میری آواز پر لگے ہوتے تھے۔ ایسے لگتا تھا، اس کا دل اس کے کانوں میں بولتا رہتا تھا۔

’’لو......! اب آئی کہ اب آئی تیری مالکن......!‘‘

میری پہلی صدا پر ہی وہ ہر مشکل کو اپنے پائوں سے روندتی ہوئی میرے پاس پہنچ جاتی۔ لُٹیا کو دیکھتے ہی میرے گلابی عارض مہکنے لگے۔ جاندار مسکراہٹ نے میرے بھرے بھر ے لبوں پر جگہ گھیر لی۔ خوف کی وجہ سے جمی پپڑیاں خودبخود اُکھڑنے لگیں۔ میرے ریشمی بالوں میں ہوا کنگھی کرنے لگی۔ ان کی سرسراہٹ سے دماغ کی حکومت کمزور پڑنے لگی۔ بدن کے فرش پر تمنائوں نے رقص کرنا شروع کر دیا۔ بلبل چہکنے لگی۔

’’حزن نہ کوئی غمِ بربادی ...... آزادی جیسی آزادی......!‘‘

میں وفورِ مسرت سے ہم کنار، خوش وقتی جذبو ں سے مہکتی اورشب ماہتاب کی ضیا سے دمکتی ہوئی لُٹیا کے سنگ سفر کرنے لگی۔

’’زیست ہے تو میں ہوں۔ اگر یہ نہیں تو پھر کیا ہے......؟ نگاہ ِسرمگیں بھی نہیں اور خوشبوئے بدن بھی نہیں۔ واپسی کے سفر پر صرف حسرتوں کا قیام ہو تا ہے۔جی بھر کر جیا جائے یا بندھ باندھ لیا جائے۔‘‘

میری سوچوں میں مرغان خوش نوا محو پرواز تھے کہ لُٹیا کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ ایک خیال نے مجھے پریشان کر دیا۔

’’اور یہ لُٹیا اپنی محبت، اپنی شفقت اوراپنے تحفظ کی چھایا مجھ پر کئے ہوئے، کیا یہ ہمیشہ اسی طرح میرے ساتھ رہے گی یا میری سانسوں کے نڈھال ہوتے اورمیرے شباب کے ڈھلتے ہی مجھے چھوڑ جائے گی......؟ کیا اس کی عمر میری عمر کا ساتھ دے پائے گی......؟‘‘

’’مالکن......! تم نے میرا نام لُٹیا کیوں رکھا......؟‘‘

چلتے چلتے جانے اُسے یہ آج کیا سوال کرنے کی سوجھی تھی......؟

’’لُٹیا......! ہر سوال پوچھنے کے لئے نہیں ہوتا۔‘‘

’’مالکن......! ہر جواب سننے کے لئے ہوتاہے۔ اگر حوصلہ ہو۔‘‘

’’بڑی حوصلے والی ہے تو میڈم فلاسفر......! کتا بیں پڑھتی ہے کیا......؟۔‘‘

میں اس کے دل کو دُکھانا نہیں چاہتی تھی۔

’’نہیں......! زندگی کو۔‘‘

لُٹیا بھی آج مجھے لاجواب کرنے پر تُلی ہوئی تھی۔ میں نے لُٹیا کو دیکھا جو اب مجھ سے دو قدم دُور ہٹ کر چلنے لگی تھی۔ لُٹیا کی اس حرکت سے دل رنجور ہوا، دیدہ تر نے پلکوں کو بگھو دیا۔

’’تو جانتی ہے ناں لُٹیا......! کتنے ہی تیرے ارد گرد منڈلاتے تھے، تجھ پر اپنی رال ٹپکاتے تھے، ہر کوئی تجھے لوٹنے کی فکر میں رہتا تھا۔ تیرا نام لُٹیا نہ رکھتی تو کیا رکھتی......؟‘‘

’’چھوٹی تو مجھے بِٹیا کہتی ہے۔‘‘

اس کے لہجے میں گلہ نمایاں تھا۔

’’تجھے کیا اچھالگتا ہے......؟‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’مجھے تو بِٹیا اچھا لگتا ہے مالکن......! چھوٹی بہت بڑی ہے ناں......!‘‘

آج وہ مجھے پوری طرح زِچ کرنے پر کمر بستہ تھی۔

’’اری......! ’بِٹیا‘‘ اور ’’لُٹیا‘‘ میں فرق ہی کتنا ہے......؟ ’’ب‘‘ کے نیچے سے ’’نقطہ‘‘ اور ’’زیر‘‘ ہٹا لو اور اوپر ’’پیش‘‘ ڈال دو۔ اس کا قد لمبا کر دو اور پھیلائو تھوڑا زیادہ کر دو۔ بس اتنی سی بات ہے۔‘‘

’’اتنی سی بات کہاں ہے مالکن......! چیزوں کو ان کے اصل مقام سے ہٹا دیا جائے تو باقی کچھ نہیں رہتا۔ عزت دیواروں سے لگ کر روتی ہے اور بدنامی انہیں پھلانگ کر باہر نکل جاتی ہے۔ بیٹیاں لُٹنے لگتی ہیں اور ضمیر فروشوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ سودے بازی یا جبر کا کالا ناگ عزتِ نفس کو ڈَس لیتا ہے۔ لالچ کا راج ہو جاتا ہے۔‘‘

لُٹیا کی باتوں نے مجھے حیران پریشان کر دیا۔

’’یااللہ......! کہیں لُٹیا کے دن تھو ڑے تو نہیں رہ گئے......؟‘‘

’’لُٹیا......! تو بھی تو کالی ہے۔‘‘

میں نے لُٹیا کو سمجھانے کی کوشش کی۔

’’یاد کر مالکن......! جب میں پیدا ہوئی تھی تو کیا کالی تھی......؟‘‘

’’ تجھے اوج ثریا تک جانا ہے اورمجھے سیاہی کے سفر پر رہنا ہے۔‘‘

کسی سیانے نے کہا تھا کہ سفر باتوں میں ہو تو آسانی سے کٹ جاتا ہے۔ آج ایسا ہی تو ہوا تھا۔ کٹیا جوں ہی آئی، لُٹیا نے میرے ریشمی لبادے سے کھیلنا شروع کر دیا۔ میں نے بیگ سے گوشت کے ٹکڑ ے نکالے اور لُٹیا کو ڈال دئیے۔ لُٹیا نے سیرِ شکم ہو کر بھی پیاسی نگاہوں سے مجھے دیکھا تو میں اس کے من کی بات سمجھ گئی اور خاکی لفافے سے کیک نکالا۔

’’بڑی ندیدی ہے تو......! میٹھا بھی کھائے گی......؟‘‘

لُٹیا نے جواب دینے کی بجائے کیک میرے ہاتھوں سے چھین لیا۔ لُٹیا کے مطمئن ہونے کے بعد میں نے جوں ہی قدم اندر بڑھائے، سکون میرے بدن میں ہلکورے لینے لگا۔ نیند مجھ سے محبت کا تقاضہ کرنے لگی۔

’’ایک اور رات محفوظ پناہ گاہ میں بسر ہو جائے گی۔ ہاتھوں کی دُنیا جب تک آباد رہے گی، سعی مسلسل تو کرنا ہوگی۔ آبلہ پائی بھلے ستم ڈھائے، لیکن اُمید تو اپنی جگہ شاداب کھڑی ہے۔ زندگی موت کے آنے تک سنبھل ہی جائے گی۔‘‘

میں درماندہ حال نے خوش خیالی کے ساتھ اپنے آستاں میں پناہ لی اور لُٹیا گھر کے باہر مورچہ سنبھال آکر بیٹھ گئی۔ اس رات بدن کو حرارت نے گھیر لیا۔ چاند جیسا مکھڑا کملا گیا۔ تیسرے روز طبیعت سنبھلی تو من باہر جانے کو مچلا۔ شال کو جسم پر لپیٹا اور باہر نکل گئی۔

’’لُٹیا......! چل آ......! ٹہلتے ہیں۔‘‘

لُٹیا تو مجھے دیکھتے ہی نہال ہوگئی۔ اس کی باتوں میں شہد سا گھل گیا۔

’’حسن جاناں ہے کچھ عنابی سا۔ کتنے دنوں کے بعد تمہارا مکھڑا دیکھا ہے مالکن......! بدن سے ضیا پھوٹ رہی ہے اور مخمور آنکھوں کا حسن دوآتشہ ہو چکا ہے۔ بیماری میں کوئی یوں بھی خوب صورت ہوتا ہے......؟‘‘

باتوں باتوں میں ہم سرحد کے پاس پہنچ گئے۔ میرا دل تھا، آج بن سے نکل کر دیکھوں۔ میں نے جوں ہی حدِ فاصل کو پار کرنے کی کوشش کی۔ لُٹیا مچلنے لگی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ میں آگے جائوں۔

’’آخر کیا تھا بن کے پار......؟‘‘

میں دیکھنا چاہتی تھی اور لُٹیا مجھے روکنا چاہتی تھی۔ آخرکار لُٹیا نے فیصلہ کن انداز میں میری طرف دیکھا اور اپنے پائوں اُٹھائے۔

’’پہلے میں جائوں گی۔‘‘

اب اسے روکنا بے سود تھا۔ میں جانتی تھی کہ وہ ہٹ کی پکی ہے۔ رات کی سیاہی کو چیرتی ہوئی وہ اندھیرے میں روپوش ہوگئی۔ کچھ پل ٹھہر گئے اور پھر ساعتوں کی خاموشی چیخم دھاڑ میں بدل گئی۔

’’کون تھا......؟ کون تھا......؟‘‘

’’مجھے لُٹیا کے ساتھ جانا چاہئے تھا۔ مجھے اس کی بات نہیں ماننی چاہئے تھی۔ وہ تو سدا کی پگلی ہے۔‘‘

تیز و تند طوفان، چنگھاڑتی ہوئی آوازیں، سماعتوں کو بہرہ کر دینے والی دھاڑیں اور میرا ساکت ہوتا ہوا بدن۔ میں نے قدم اُٹھانے کی کوشش کی، لیکن میں تو پتھر کی بن گئی تھی۔ میرا پیرہن پھٹ چکا تھا، میرا جسم حرکت نہیں کر رہا تھا، بس دماغ کام کر رہا تھا، لیکن وہ ایک ساعت، پھر اس کے بعد جیسے کسی نے مجھ میں جان ڈال دی ہو۔ میں اپنا فگار فگار بدن سنبھالتی سرپٹ اس طرف دوڑی جدھر لُٹیا گئی تھی۔ کالے بالوں اور بھورے پائوں والی لُٹیا کا زخمی بدن خاک پر پڑا تھا۔ روحیں چیخ رہی تھیں۔ میں نے اس کی پتلیوں میں جھانکا۔

’’میرا عکس......!‘‘

’’کیا یہ بدن میرا تھا......

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024