خواتین کے اردو افسانوں میں عورت کے وجود پرمباحثہ
خواتین کے اردو افسانوں میں عورت کے وجود پرمباحثہ
Feb 1, 2024
ہندوستان کے تناظر میں ایک مطالعہ
دیدبان شمارہ۔(۲۰ اور ۲۱)۲۰۲۴
خواتین کے اردو افسانوں میں عورت کے وجود پرمباحثہ
( ہندوستان کے تناظر میں ایک مطالعہ)
آمنہ تحسین
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں"صنفی مساوات"کو دستور کا اہم حصّہ بنایا گیا نیزخواتین کی تعلیم وترقی اور ان کے تحفظ کے متعلق مختلف اقدامات اپنائے گئے ۔باوجود ان تمام کو ششوں کہ ہندوستانی عورت سماجی و ثقافتی جبر و استحصال کا شکار اور بے شمار صنفی مسائل میں گھری حاشیہ پذیر نظر آتی ہے۔ تعلیم کا فروغ، سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی اور اقتصادی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہندوستانی سماج کے بنیادی ڈھانچے میں کسی حد تک تبدیلی رونما ہوئی ہے‘ لیکن سماجی سطح پر صدیوں سے چلے آرہے پدر سری روایات یا نظریات اور صنفی تفرقات پر مبنی نظام میں مکمل طور پر تبدیلی واقع نہیں ہو پائی۔ خاندانی اور سماجی سطح پر عورت کے متعلق فرسودہ تصورات اور اس کا” روایتی کردار“ آج بھی وہی ہے جو گذرے برسوں میں تھا‘ لیکن قابلِ توجہ تبدیلی یہ ہے کہ اقتصادی تقاضوں نے اسے ”محنت یا روزگار کی منڈی“ میں لا کھڑا کیا ہے اور وہ معاشی کفالت کی بڑی ذمہ داریاں سنبھالنے لگی ہے ۔پھر بھی اس کا کام بیشتر صورتوں میں ” غیر منظم سیکٹر “ سے وابستہ ہے اور پوشیدہ ہے ۔ جبکہ گھریلو سطح پر ” کام کی صنفی تقسیم (Gender division of labour)“ میں کو ئی فرق نہیں آ یا ہے۔ خاندانی سطح پر تمام تر ذمہ داریاں آج بھی عورت کے فرائض میں ہی شامل ہیں جبکہ آج کی عورت نجی اور سماجی و معاشی سطح پر کام کے دوہرے بوجھ میں پھنس کر ”انسان“ سے کہیںزیادہ” مشین “بن کر رہ گئی ہے۔عصرِ حاضر میںمعاشی حصّہ داری کی ایک اہم رکن ہو نے کے باوجود اس کے پسماندہ موقف میں کو ئی تبدیلی واقع نہیں ہو پائی۔ تعلیم و معاشی ترقی کے با وجود مرد اساس سماج میں اس کا وجود ارزاں اور محکومیت کا شکار ہے۔
صارفیت اور عالم کاری کی ضرورتوں نے اس کے ساتھ استحصال کے نت نئے انداز ڈھونڈ نکالے ہیں۔ اب بازار میں عورت کا صرف جسم ہی فروخت نہیں ہوتا بلکہ اب اس کی ” کوکھ “کی بھی قیمت لگنے لگی ہے ۔ تحفظ فراہم کر نے والے تمام سماجی ادارے اس کے لیے غیر محفوظ بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ ” آصفہ ہو کہ آروشی یا عائشہ“ اب عورت گویا محفوظ نہیں رہ گئی ہے۔ عورت کے خلاف ہو نے والے جرائم کی بڑھتی تعداد ، سال بہ سال گرتا ہوا جنسی تناسب، آنگن سے لے کر چوراہے تک لٹتی عصمتیں اور تعلیم و ترقی کے تمام شعبوں میں مردوں کے مقابلہ میں انتہائی کم شرح تناسب ایک مہذب سماج کے عدم توازن کو صاف طور پر ظاہر کر رہی ہیں۔ (1)
ہندوستانی سماج میں عورت کی حیثیت کو بہتر بنانے کی کو ششیں انیسویں صدی سے شروع توہوئیں لیکن وہ کو ششیں مکمل طور پر کیوں کامیاب نہیں ہو پائیں؟اس کی بنیادی وجہ صدیوں سے ہندوستان میں رائج وہ پدر سری نظام ہے جو مرد کے غلبہ اور طاقت کا نظام ہے ۔اس نظام نے عورت کو "کمزور جنس" قرار دے اور اسے سماج میں" ثانوی و محکو م طبقہ" کا درجہ دے کر بنیادی حقوق سے دور رکھا۔ صدیوں سے رائج پدرسری نظریات اور روایات کے نتیجے میں خود
خواتین کی سائیکی بھی متاثر ہو ئی ۔خواتین نے غلبہ کے نظام کے علاوہ اپنے لیے ثانوی اور محکوم درجہ کو نہ صرف قبول کرلیا بلکہ خاندانی نظام میں عورت ومرد کے رتبہ کے فرق کو پرورش کا اہم حصہ بھی بنایا ۔صنفی تفریق کی ایسی سینکڑوں مثالیں تقریباً خاندانوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔(2) ماضی سے تاحال چلے آرہے صنفی تصورات یا مسائل کے جائزے کے بعد یہ سوال ذہن میں ابھر تے ہیں ۔
٭تعلیم وترقی نسواں کی مختلف النوع کو ششیں بھی ہندوستانی سماج میں عورت کے متعلق افراد کے ذہنوں میں مکمل طور پر تبدیلی کیوں نہیں لاپائیں؟
٭آخر عورت کو سماج میں انسان کی حیثیت سے باوقار درجہ کیوں حاصل نہیں ہے ؟
٭ کیا علم وآگہی نے خود عورت کے ذہن وفکر میں تبدیلی لائی ہے؟
٭ کیا عورت نے خود اپنے وجود کی اہمیت کو پہچانا اور سماج کو بھی بتانے کی کوشش کی؟
٭کیا عصرِ حاضر میں عورت کے وجود سے متعلق سوال مباحثے کی شکل اختیار کر پائے ہیں ‘ اور کیا وہ مباحثے اردو کے نسائی ادب کا حصہ بن پائے ؟
عصری نسائی ادب کے شعری ونثری سرمایہ کے جا ئزہ سے یہ حقیقت عیاں ہو تی ہے کہ اردو میں نسائی فکر کی مختلف جہات واضح ہوئی ہےں ۔ خواتین کی تحریروں میں عصری آگہی، جدید رجحانات، مو ضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ نسائی حسّیت کے مختلف پہلو ا نتہائی روشن اور واضح خد وخال میں نظر آتے ہیں ۔عصرِ حاضر میں احساس و تجربوں کی شدت کے ساتھ خواتین کا تخلیقی اظہار دراصل” عورت کے وجود اور اس کے تشخص پر مباحثہ “کی صورت اختیار کر نے لگا ہے ۔ نسائی ادب کا یہ امتیازی پہلو نہاےت اہمیت کا حامل ہے۔کیونکہ عورت کا یہی اظہارِ ذات خود عورت کے وجود سے جڑی پیچیدگیوں نیز اس کے متعلق سماجی نظریات کے علاوہ نسائی نقطئہ نظر کو جاننے کا ذریعہ بنتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہندوستان میں عورت کے وجود کا” ادبی مباحثہ “ بہت عرصہ قبل شروع ہو چکا۔یہ کوئی عصر ِ حاضر کی دین نہیں ہے بلکہ برسوں پہلے عورت کے وجود سے جڑے مسائل مختلف زبانوں کے ادب کا حصّہ بنتے رہے ہیں۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائی دور کے نسائی ادب میں موضوعات کا وہ تنوع اور بلند آہنگی نہیں تھی جو عصری ادب میں نظر آتی ہے۔گذرے برسوں میںاردو زبان کے علاوہ مختلف ہندوستانی زبانوں میں منظرِ عام پر آنے والے نسائی ادب کا سرسری جائزہ یہ ثابت کرتا ہے کہ خاتون تخلیق کاروںنے عورت کی حیثےت کے متعلق نہ صرف سوال قائم کیے تھے اور بنیادی حقوق کی مانگ کی تھی بلکہ خود عورت کو اس کے اپنے وجود کی اہمیت سمجھا نے کی کو شش بھی کی تھی ۔ اس کی آنکھوں کو ڈھیر سارے خواب دیے تھے اور ادب کے آسمان پر اپنی شناخت کے ساتھ ظاہر ہو نے کے حوصلے بھی بخشے تھے۔ ا بتدائی دور کی چند ہندوستانی خاتون تخلیق کاروں میں ‘ ساوتری بائی پھولے ( شعری مجموعہ ” کاویا پھولے،1854ء) ‘تارا بائی شنڈے ( مصنفہ” استری پرش تلنا ،1882ئ) “ رقیہ سخاوت حسین ( Sultana's Dream ،1905ئ) ، رشید ةالنساء( ناول” اصلاح النسائ،1881ئ) ‘ محمدی بیگم(مدیر،رسالہ تہذیبِ نسواں ،1886ئ)صغراہمایوںمرزا(ناول”مشیرِ نسواں، 1905ئ)“ زاہدہ خاتون شروانیہ ( طویل نظم،آئنہ حرم،1921۔ رشید جہاں ( افسانہ دلی کی سیر مشمولہ ” افسانوی مجموعہ انگارے،1931 ) ، نذر سجاد حیدر، رضیہ سجاد ظہیر، قرة العین حیدر، عصمت چغتائی‘ وغیرہ وغیرہ کی تحریروں کے علاوہ اور بھی ممتازخاتون تخلیق کار تھیں جنھوں نے عورت سے جڑے مسائل پر لکھ کر ہندوستانی سماج میں عورت کے وجود کے متعلق ڈسکورس کی شروعات کی تھی ۔ پھر بدلتے وقت کے تقاضوں کے ساتھ چلتے چلتے خواتین کی تعلیم و خود آگہی میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور ان کے ادبی اظہار میں بھی واضح فرق آتا گیا۔ خواتین تخلیق کاروں میں بیشتر نے اپنی تحریروں میں ” عورت “کی پست حیثیت کی وجوہات، پدرسری روایات ونظریات ، صنفی امتیازات اور سماجی و ثقافتی جبر و استحصال کو اپنے اپنے زاویے نگاہ سے دیکھا اور پوری شدت سے ادب میں پیش کیا۔گذرے چند برسوں میں کچھ محققین و ناقدین نے نمائندہ قلم کارخواتین کی تحریروں میں تانیثیت کو تلاش کرنے کی سعی کی ہے ۔پیشِ نظر مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ عصرِ حاضر کے نسائی ادب میں عورت کے وجود پر مباحثہ کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جاسکے۔
عرصہ پہلے رقیہ سخاوت حسین Sultana's Dream 1905
نے سلطانہ کی آنکھوں سے ایک ”بااختیارعورت“ کے متعلق خواب دیکھا تھا۔
اور مرد اساس معاشرے میں عورت کے محکوم ومظلوم وجود پرغور وفکر کے متعلق نہ صرف بڑے اہم سوال اٹھائے تھے ‘ بلکہ خواتین کی آنکھوں کو سماجی تبدیلی کے خواب بھی دیے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ برسوں سے خواتین اس خواب کو اپنی آنکھوں میں بسائے ‘انھیں حقیقت میں بدلنے نیز سماج میں اپنے وجود کو منوانے کی سعی پیہم کر رہی ہیں ۔ شائستہ فاخری کے افسانے میں اس حقیقت کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
سلطانہ کے خواب میرے پاس ہیں‘ مگر میں نے ان خوابوں کی چوری نہیں کی۔۔۔
یہی خواب تو میری ملکیت ہیں‘ جنھیں حاصل کر کے میں صحیح معنوں میں ” میں“ بن سکی۔
ورنہ میری کیا اہمیت رہتی اس ” میں“ کے بغیر“ (3)
عورت اپنے تشخص کے ساتھ سماج میں باوقار مقام پانے کی جانب بڑے اعتماد اورسبک رفتاری سے رواں دواں ہیں لیکن اس کی منزل ابھی کا فی دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے وجود کی شناخت میں سر گرداں عورت کو آج بھی بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔پھر وہ جب پیچھے مڑ کر اپنی تاریخ پر نظر ڈالتی ہے تو سوالات کے دائرے میں خود ہی گھر جاتی ہے۔ایسے ہی سوالوںکی بازگشت ہمیں شائستہ فاخری کے افسانہ”سنو رقیہ باجی“ میں کس طرح سنائی دیتی ہے ۔ملاحظہ کیجیے:
”رقیہ باجی ‘عورت کے وجود کی چیخ و کراہ ‘ اس کی روح کے المیے ، اس کے باطن کی ویرانی کو محسوس کرنے والا کون ہے؟ سو برس کے بعد بھی‘ ہے کوئی؟“۔((4
ہندوستانی خواتین کے پسماندہ موقف کے تناظر میں شائستہ فاخری کا مذکورہ بالاسوال نہ صرف آج کے سماجی وتہذیبی حالات کا ترجمان ہے بلکہ اس سوال میں کئی صدیوں کی تاریخ کی بازگشت بھی پوشیدہ ہے۔سوالات کی یہ بازگشت اب محدود نہیں رہ گئی ہے بلکہ کئی ایک آوازیں ان میں شامل ہو گئی ہیں جن کی گونج کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔اس تبدیلی کی بڑی واضح تصویریں عصرِ حاضر کے نسائی ادب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
عصرِ حاضر کے نسائی ادب میں عورت کے وجود کے متعلق مباحثہ کا جائزہ لیں تو اس کی مختلف جہات سامنے آ تی ہیں ۔ یہ مباحثہ کہیں بیانیہ کی شکل میں نظر آتا ہے تو کہیں راست اور جا رحانہ مکالمہ کی صورت بھی اختیار کر گیا ہے ۔ اس مکالمہ میں کہیں پدرانہ سماج کے جبر اور استحصالی رشتوں کو عیاں کیا گےا ہے تو کہیں عورت کی زبوں حالی کے مختلف رنگ پیش کیے گئے ہیں اور کہیں شعوری طور پر بیدار ذہن عورت کے احتجاج و انحراف کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کیونکہ آج جس عورت نے قلم تھاما ہے وہ ” صنفی سیاست (Gender politics) سے خوب واقف ہو گئی ہے اور سماج میں اپنے مقام ومرتبہ کو لے کر شعوری طور پر بیدار ہو گئی ہے ۔ایسی بیدار ذہن عورت کی جھلک پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی کی ایک نظم میں دیکھی جاسکتی ہے۔
”میں خوف زدہ کبوتری نہیں
کہ جس پرکو ئی باز بڑی آسانی سے جھپٹ پڑے
میں وہ سہمی سہمی سی بلّی بھی نہیں
جو گھر کے کچن میں دودھ کی پتیلی دیکھ کر میاﺅں میاﺅں کرتی ہے
میں وہ دبکی ہو ئی کتیا بھی نہیں
چند چھیچھڑوں کے عوض
جو اپنے مالک کے تلوے چاٹتی ہے
میرے ماتھے پر کو ئی ایسا اشتہار نہ چپکاﺅ
میں نے مقدس کتابیں پڑھی ہیں
اور اپنی قیمت جانتی ہوں۔ (5
عصرِ حاضر کی یہی وہ بیدار ذہن عورت ہے جو اپنے اطراف و اکناف میں موجود صنفی تصورات پر مبنی روایتوں کو بڑی باریک بینی سے دیکھ رہی ہے اور انھیں اپنی تحریروں میں بحث کا حصّہ بنا رہی ہے ۔ اس حوالے سے اگر چہ کہ خواتین کاشعری اظہار زیادہ توانا نظر آتاہے لیکن فکشن میں بھی اتنی ہی سنجیدہ، موثر اور فکرانگیز تحریریں ہمیں اس موضوع کی اہمیت کی جانب متوجہ کر تی ہیں۔ فکشن نگار خواتین میں بیشتر نے اپنے افسانوں میں کوکھ سے لے کر کفن تک اور گودسے گور تک “پھیلی ہوئی عورت کی نارسائیوں کو پیش کیا اورکشمکش ِ حیات کی مختلف جہات کو زیرِ بحث لاکر نسائی ادب کو نئی سمت و رفتار عطاکی ہے۔
ہندوستان می عورت کی نارسائیوں کے مختلف رنگ رہے ہیں ۔عصرِ حاضر کے افسانوں کے جائزے میں ان کے مختلف شیڈز دیکھنے کو ملتے ہیں جس سے کہ سماج میں عورت کے ارزاں وجود کی ایک نمایاں تصویر عیاں ہو تی ہے۔ دراصل ہندوستانی سماج میں عورت کے وجود سے جڑے مسائل کوکھ سے ہی شروع ہو جاتے ہیں ۔ بیشتر گھرانوں میںاس کا وجود بہ حیثیت انسان کے جنم لینے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ اسے کوکھ میں ہی ماردیا جاتا ہے ۔لڑکی کے متعلق سماجی نظریات ،مادہ جنین یا طفل کشی کی عبرتناک تصویر جیلانی بانو کے افسانوں ‘ مثلاً ایک دن لیبر روم میں ، Specimen Box اور منظوم افسانہ دنیا کا پہلا دن میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے ۔ افسانہ اسپیسی مین باکس کے یہ مکالمے دیکھیے جو ریسرچ اسکالرز کی زبانی مادہ نطفے کو دیکھ کر ادا ہو ئے ہیں۔
” اونہہ۔۔۔وہ بھی کو ئی مرد ہے کہ سب کو فکر ہو کہ وہ بھگوان بنے گی یاشیطان؟ عورت
تو بس عورت ہی رہتی ہے۔
ہاں یار۔۔۔وقت سے پہلے آنکھیں کھول کر دیکھنے والی عورت کو تو ہمیشہ کے لیے Specimen Box میں بند رکھنا چاہیے
اس سے کیا ہوگا۔۔۔؟ ایک لڑکی نے پوچھا
”مذہب،قانون اور دنیا کے مردوں کو سکون ملے گا“ اس کی بات پر سب زور زور سے ہنسنے لگے۔
اس لڑکی کو ریسرچ لیب کیوں بھیج رہے ہیں؟ ایک لڑکا پوچھ رہا تھا
دوسرا ہنستے ہو ئے کہتا ہے کہ” ماں کے پیٹ سے نکالی ہو ئی لڑکیوں کو تو کوڑے میں پھینک دیتے ہیں۔ 6
” مادہ نطفہ“ اگر کوکھ میں کسی طرح بچ جاتا ہے اور انسانی وجود کی شکل میں سماج کا حصّہ بنتا ہے تب بھی اس کی زندگی اجیرن ہی ہو تی ہے۔ اس کی سماعتوں پر جو پہلا پتھر پڑتا ہے ۔اس کی جھلک جیلانی بانو کے ہی ایک منظوم افسانہ "دنیا کا پہلا دن" سے یہ اقتباس دیکھیے:
لڑکی ہے ؟ لڑکی ہے؟
کیا لڑکی ہے ؟ ماں نے گھبرا کے پو چھا
ایک شعلہ کی طرح اس آواز نے میرے چاروں طرف آگ لگادی تھی
ماں نے خون میں ڈوبے ہوئے میرے بدن کو دیکھا میری نانی نے
لڑکی ہے ....؟میرے ڈیڈی نے گھبرا کے پو چھا
لڑکی ہے....میری دادی نے دکھ بھری سانس لے کر پو چھا
رو رہی ہے....؟
اب روتی رہے گی“۔7
جنسی شناخت کی بنیاد پر سماج میں مروج یہ تفرقہ دراصل اس پدرسری نظام کی دین ہے جو عورت کو کمزور، مجہول،مفعول اور بے بس سمجھتا آیا ہے ۔ ہندوستانی تہذیب میں لڑکی کو پرایا دھن مانا جاتا ہے۔والدین اس کی تربیت نہ صرف اسی نظریہ کے تحت کرتے ہیں بلکہ اسے بھی ہر لمحہ احساس دلاتے رہتے
ہیں کہ یہ گھر اس کا نہیں ہے ۔اسی تصور کی بناءپر لڑکی انھیں بوجھ لگتی ہے۔ اس بوجھ کو منہ مانگی دولت و زیورات کے ساتھ کنیا دان کرنے یا گھر سے وداع کر کے کسی کے حوالے کر نے کے لیے ہر لمحہ منتظر ہو تے ہیں ۔جبکہ والدین کے گھر اپنا سب کچھ چھوڑ کر آنے والی عورت‘ شوہر وسسرال والوں کے لیے باہر سے آئی صرف ایک” پرائی عورت“ ہی ہو تی ہے ۔وو اپنا ایک" آزاد وجود "نہیں رکھتی بلکہ مختلف روایات، نظریات اور رشتوں میں جکڑ ی ایک" محکوم و جود" ہوتی ہے ۔ شادی اور خاندان جیسے سماجی ادارے کے تحت اس کے لیے بے شمار اصول اور سماجی ضوابط بنادیے جاتے ہیں۔ ان ضابطوں کی تعمیل و تکمیل کرنا اس کے فرائضِ منصبی میں شامل ہو جاتا ہے۔نسلِ انسانی کو وہ فروغ دیتی ہے اور خاندان وہ آباد کرتی ہے‘ لیکن اس کا اپنا کوئی مکان نہیں ہوتا ۔ہر لمحہ وہ رشتوں کے پیمانے سے ہی جانچی پرکھی جاتی ہے اور اگراس پیمانہ پر کھری نہ اترے تو والدین کے گھر واپس بھی لوٹا دی جاتی ہے۔ جب واپس لوٹ جاتی ہے تو اس کے اپنے گھر والے اسے" ان چاہا بوجھ" سمجھنے لگتے ہیں اور دوبارہ اس بوجھ سے آزاد ہو نے کی کو شش کرتے ہیں۔ گویا اس کا وجود کہیں بھی رہے ہمیشہ ارزاں ہی رہتا ہے۔ خاندانی و سماجی نظام میں عورت کی زبوں حالی اور کمتر حیثیت کی اس دردناک تصویر کو یوں تو بیشتر افسانہ نگار خواتین نے مو ضوع بنایا لیکن اس کی ایک واضح تصویر ذکیہ مشہدی کے افسانہ ” بھیڑیے “ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔گھر کی بہو" انجو"کے متعلق اس کے سسر" نند کشور" کی زبانی یہ الفاظ ملا حظہ کیجیے۔:
"جنانی کی عقل پا ﺅں میں.... اسے نکال کون رہا ہے۔ بس ذرامزا چکھانا ہے .... جائے گی کہاں؟ اس کا بھکڑ ماما تو دوسرے دن ہی یہاں لاکر ڈال جائےگا اور برج کی ماںکی بھی مجال نہیں ہےکہ ہماری مرضی کے بغیر بہو کو لے جائے۔ دیکھتی جاو تماشہ..." ۔ 8
مذکورہ بالا اقتباس پدر سری نظام میں عورت کی محکومیت کی ایک واضح مثال ہے۔ دراصل پدر سری نظام طاقت (power) کے ان ہی رشتوں پر مبنی ایسا سلسلہ وار نظام ہے جو نسل در نسل مرد وں میں منتقل ہو تا رہتا ہے ۔ یہی طاقت تمام شعبہ ہائے حےات کو کنٹرول کر تی ہے اور کمزور پر استحصال کے دائروں کو وسیع اور شکنجوں کو مظبوط ترکرتی رہتی ہے ۔ اس کنٹرول سسٹم کی مکمل جھلک افسانہ” بھیڑیے “میں دیکھی جا سکتی ہے۔ نند کشور کی بہو انجو ‘تعلیم حاصل کرنے کی چاہ میں جب اس روایتی پدری نظام سے مخالفت کر نے اور اس سے دور چلے جانے کی کو شش کرتی ہے۔ تب اسے بہت جلد احساس ہو جا تا ہے کہ اس نظام کی جڑیں صرف گھر کے آنگن میں پیوست نہیں ہیں بلکہ سماج میں بہت دور دور تک پھیلی ہو ئی ہیں۔ذکیہ مشہدی نے دراصل یہ بتانے کی کو شش کی ہے کہ پدرانہ معاشرہ میں موجود بھیڑیے نما انسان صرف خاندانی نظام کا حصّہ بن کر ہی عورت پر ظلم وجبر نہیں کرتے بلکہ وہ مختلف شکلوں میں سماج میں ہر طرف پھیلے ہو ئے ہو تے ہیں اور ہر طرح سے عورت کا استحصال کرتے رہتے ہیں ۔ اگر کوئی عورت اپنے وجود کے اثبات اور اپنی شناخت بنانے کے لیے زندگی کے سفر پر تنہانکل پڑتی ہے تو مرد اساس معاشرے میں وہ جن تجربات سے گذرتی ہے انھیں زیرِ بحث افسانے میں بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ذیل کی سطور میں ایک اور فکر انگیز تصویر دیکھیے:
انجو کو ایسا لگا کہ وہ ننگی کھڑی ہے۔چاندنی میں نہائی ہو ئی۔جسم پر ایک تارنہیں اور قریب کی امرائیوں میں بھوکے بھیڑیوں کا جھنڈ اس کا منتظر ہے۔ بھیڑیے جو طاقت ہیں۔طاقت جو روپیہ ہے۔ طاقت جو ہتیار ہے۔ طاقت جو ریگستانوں کے کنووںمیں تیل بن کر بہتی ہے۔ طاقت جو سیاسی بازی گروںکی ٹیڑھی عقل ہے۔ طاقت جو پنچایت کو خریدلینے کی صلاحیت ہے۔طاقت جو مرد کی جنسی برتری ہے۔ طاقت جو قتل کو خودکشی اور نسل کشی کو فساد کہلوانے کی قدرت رکھتی ہے“ ۔ 9
پدر سری نظام کے تحت سماج میں مرد کو حاکم اور عورت کو محکوم رکھنے نیز اس کی حیثیت کو کمتر کر نے والے سینکڑوں رسوم و رواج، روایات اور نظریات تشکیل دیے گئے ۔ یہ تمام عوامل عورت ومرد کو مختلف خصوصیات کے حامل صنفی کردار (Gender roles)میں ڈھالتے ہیں۔ صنفی کرداروں کی یہ تقسیم مرد کو مرکزیت عطا کرتی ہے جبکہ عورت کا وجود کہیں پیچھے حاشیہ پر ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ سماج کی ہر سطح پر اسے صنفی تفرقات (Gender discrimination) اور بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سمجھوتا کرنا پڑتا ہے ۔ باوجود اس کے ہر موقع پر عورت ہی قصور وار ٹھرائی جاتی ہے۔صنفی تفریق کی اس کرب ناک حقیقت کو رفیعہ شبنم عابدی نے عورت کی نظر سے دیکھا ‘ محسوس کیا اور افسانہ، ”فلرٹ گرل“ میں کس طرح سے پیش کیا ہے ملاحظہ کیجیے۔
”ےہ زمانہ جسم کی حسےن عمارتےں تو دےکھتا ہے ، ان عمارتوں کے عارضی رنگ وروغن کی تو داد دےتا ہے مگر ان کے اندر چھپے ہوئےبھےانک کھنڈروں کو کےوں نہےں دےکھتا؟ وہ کو ٹھوں پر رقص کرتی ہوئی حسےناﺅں کودےکھتا ہے لےکن ان بے شمار بد نصےب لڑکےوں کو نہےں دےکھتا جو کسی روی، کسی پرکاش اور کسی راجےش کے ماں باپ کی لالچ اور ہوس کا شکار ہوکر اپنے خوابوں کو کھو کر بھٹکتی پھر رہی ہیں اور ان زندہ لاشوں پر جھپٹتے ہوئے سفےد گِد سماج میں عزت اور آبرو سے جی رہے ہےں“۔10
ہندوستانی سماج میں عورت گر چہ کہ اب نہ صرف تعلیم حاصل کر رہی ہے بلکہ مرد کے برابر معاشی حصہ دار بھی بن رہی ہے ۔باوجود اس کے سماج میں اس کے ثانوی درجہ میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے ۔آج بھی سماج میں اس کے استحصال کے سینکڑوں طریقے رائج ہیں ۔ بلکہ ظلم وجبر کی کئی جہتیں ہو گئی ہیں۔ ان کی جھلکیاں خواتین کے افسانوں میں جا بجا ملتی ہیں۔ا س ضمن میں صادقہ نواب سحر کا افسانہ
ابارشن بیشترمردوں کی انانیت اور خود غرضی کے پسِ پردہ عورت کے جسم اوراس کی جنسیت پرکنٹرول کی کریناک حقیقت کو سامنے لاتا ہے۔مذکورہ افسانے میں سرینا اور اس کے شوہر کی زندگی کی ایسی ہی جھلک دکھائی گئی ہے۔ ان کی شادی کو چندماہ ہی ہو ئے ہیں ۔ سرین ا ماں بننے والی ہے ۔ جس کی وجہ سے اس کی صحت کافی متاثر ہے ۔اس حالت میں بھی اس کا شوہر چاہتا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں گریجویشن کا امتحان لکھے اور پاس ہو جائے تاکہ اس کے اپنے آفس میں سرینا کو نوکری دلوائی جا سکے اور اپنی معاشی ذمہ داریوں کے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔ سرینا اپنی صحت کی سخت خرابی کی وجہ سے اس برس امتحان لکھنا نہیں چاہتی لیکن شوہر کی زبردستی کی وجہ سے آمادہ ہو جاتی ہے اور بے حد تکلیف کے باوجودامتحان گاہ پہنچتی ہے اور پیپر لکھنے کی کو شش بھی کرتی ہے۔تاہم خرابی صحت کی بناءپر اس سے یہ ممکن نہیں ہو پاتا اور وہ امتحان گاہ کے باہر نکل جاتی ہے۔یہ بات اس کے شوہر کو سخت ناگوار گزرتی ہے ۔ بدلے میں وہ اسے گھسیٹتے ہو ئے ابارشن کروانے کے لیے ہسپتال لے کر چلا جاتا ہے۔11
عورت کی کشمکشِ حیات کو درونِ خانہ معاملات میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔نگار عظیم نے اپنے افسانوں مےں عورت ومرد کے رشتے کی پیچیدگیاں اور عورت کے ساتھ دےگر رشتوں کے غلط برتاﺅ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل کا بڑا اچھا احاطہ کیا ہے اور دونوں کر داروں کی نفسےات کا تجزےہ بھی پیش کیا ہے۔اس طرح کے تجزیے خواتین سے جڑے بہت سارے ”درون ِخانہ مسائل“ اور خاندانی نظام میں عورت کے بے مایہ وجود کو سمجھنے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے تحریر کردہ افسانے‘ مرد، زرد پتّے ، بھوک ، بیاہ ، مردار ، ابورشن، ایکویریم،احساسِ زیاں وغیرہ سے چند مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔ ا ن افسانوں میں رشتوں کے درمیاں عورت کے مٹتے وجود کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ذیل میں دیے جارہے اقتباسات میں عورت کی خود کلامی کی جھلکیاں دیکھیے اور اس کے بین السطور میں چھپے عورت کے درد وکرب کو محسوس کیجیے:
میں یہاں بے مصرف سی چیزوں کی طرح کب تک پڑی رہوں 12
میرا وجود اس کلے (مٹّی )کی مانند ہو گیا تھا جسے بچے بار بار گوندھ کر مختلف شکلیں بناتے اوربگاڑتے رہتے ہیں (13
دراصل صدیوں سے چلی آرہی روایات کے نتیجے میں خاندانی نظام کا ایک مخصوص ڈھانچہ بن گیا ہے جس میں عورت انسان نہیں بلکہ محض ایک ایسی لچک دار شئے بن کر رہ گئی ہے جو رشتوں کی خواہش و مرضی کے مطابق خود کو مختلف اشکال میں ڈھالتی رہتی ہے۔ حسب ضرورت وہ شئے اہمیت کی حامل بنادی جاتی ہے اورپھر کسی وقت غیر اہم سامان کی طرح حاشیہ پر کردی جاتی ہے۔ قمر جہاں نے افسانہ ” یادوں کی پروائیاں“ میں خاندانی نظام میں عورت کو دی گئی اسی دوہری حیثیت پر بڑا‘ طنزیہ سوال اٹھایا ہے۔وہ لکھتی ہیں
کیا آج بھی ہم عورتوں کا وجود اپنے گھر کے لیے ایک اہم ”پر زے “کی حیثیت رکھتا ہے ؟ 14
افشاں ملک کے افسانوں میں عورت کے مختلف روپ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کہیں وہ مسائل میں گھری مجبور وبے بس معلوم ہوتی ہے تو کہیں وہ فرسودہ روایتوں سے انحراف کر تی بھی نظر آتی ہے ۔اس ضمن میں ان کی ایک کہانی میں انتہائی موثر کہانی ہے جس میں نادرہ کا کردار عورت کے وجود کی کئی پرتوں کو کھولتا
ہونے کا۔(18
غزال ضیغم نے اپنے افسانے مدھوبن میں رادھےکا“ کے ذریعہ سماج کے اس صنفی تصور کوبھی توڑنے کی کوشش کی ہے جس میں صدیوں سے عورت کے وجود کو جکڑ دیا گیا ہے۔” ممتا “ کو نسوانیت کی معراج بنادیا گیا اور اسی جذبہ کو بنےاد بناکر اولاد کی پرورش کی تمام تر ذمہ داری، ایثار ،قربانی ،صبر جیسی خصوصیات کا لزوم ماں پر عائد کردیا گیا اور باپ کی حیثیت سے مرد ان تمام تر ذمہ داریوں سے آزاد ہوگیا۔ جب کبھی کسی نا گزیر وجہہ سے شوہر اور بےوی کے رشتہ میں علیحدگی کا معاملہ آپڑتا ہے‘تب ”عورت“ کو ہی بچوں کی ذمہ داری سنبھالنی پڑتی ہے اور ”مرد“ دوبارہ شادی کے لیے پوری طرح پھر سے آزاد ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف عورت اولاد کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتے ہو ئے بے شمار مسائل میں گھر جاتی ہے اور اس کا اپنا وجود اور تشخص پوری طرح ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ غزال ضیغم نے اپنے افسانوں کے ذریعے اس روایتی تصور کو بدلنے کی کو شش کی ہے ۔ان کے افسانہ ”مدھوبن میں رادھےکا“کے ایک نسوانی کردار‘ سائمہ کا یہ روپ ملاحظہ کیجیے۔
ساجد کے گود میں دونوں ننھے منوں کو ڈال کر سائمہ نے کہا کہ:
اب میں یہ گھر چھوڑ کر جارہی ہوں ان دونوں معصوموں کو تم سنبھالو نہیں تو قیامت کے دن حشر کے میدان میں تمہارا دامن تھاموغگی“۔(19
غزال ضیغم کے زیرِ بحث افسانے میں سائمہ کا یہ ردِ عمل قاری کو غیر فطری وناپسندیدہ لگے اس لیے کہ قاری بھی اسی مرد اساس معاشرے کا پروردہ ہے جس میں عورت کے وجود کو صرف ماں اور ممتاکے حوالے سے اہمیت دی گئی اور ”نسوانیت “ کے نام پر مخصوص سماجی رول،نیکی ، بھلائی، شرم وحیا، ایثار و قربانی اور بے شمار فرائض کی چادر میں اسے لپیٹ کر اس کے تشخص کو کہیں دبادیا گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں اسے ایک" مکمل انسانی وجود" کی حیثيت سے قبول کرنے نیز اس کے حقوق اور مقام و مرتبہ دینے کی ضرورت پیش آ ئی وہاںوہ خالی داماں ہی رکھی گئی۔ لہٰذا یہ نظریہ عام طور پر بنا رہا کہ ” عورت ماں کا روپ ہوتی ہے اور اس کی ممتا ہر رشتہ میں موجود ہونا لازم ہے۔“ ۔ خود عورت نے بھی اپنے اسی تصور کو اپنا لیا اور نسل در نسل اس تصور کو پہنچانے میں اپنا اہم رول بھی ادا کرتی رہی ہے ۔ تاہم آج کے دور میں اس تصورمیں کسی حد تک تبدیلی آئی ہے ‘جس کی ترجمان سائمہ ہے۔"سائمہ " اب اتنی باشعور اور باہمت ہوگئی ہے کہ اپنے ہم سفر کو اس کی ذمہ داریاں بتانے کا حوصلہ بھی کرنے لگی ہے ۔ زیرِ بحث افسانے میں سائمہ کا یہ ردِ عمل دراصل ” مرد غالب خاندانی نظام “ سے انحراف اور ” صنفی مساوات “کو عام کرنے کی ایک کو شش قرار دی جاسکتی ہے ۔ افسانہ نگار دراصل اس اہم فریضہ کی طرف توجہ دلا نا چاہتی ہیں کہ ”اولاد“ کو دنیا میں لانے کے جب عورت ومرد دونوں ذمہ دار ہیں تو ان کی پر ورش وپرداخت کے لیے بھی دونوں یعنی ماں اور باپ برا بر کے ذمہ دار ہیں۔
ثروت خاں نے اپنے افسانوں میں عورت کے وجود سے وا بستہ بے شمار مسائل کو مختلف زاویوں سے مو ضوع بنایاہے۔ ان کے افسانوں میں موجودہ عہد کی باشعور و با اختیار عورت کی تصویرصاف جھلکتی ہے ۔ان کے افسانوں میں عورت اپنے وجود کی اہمیت سے خوب واقف ہے۔اسے اپنی سوچ وفکر اور صلاحیتوں کا پورا احساس ہے۔وہ روایتی سماج کے پےدا کردہ پیچیدگیوں سے مقابلہ کر نے نیز اپنے وجود کو منوانے کے لیے پوری طرح تیار نظر آتی ہے۔ افسانہ”میں مردمار بھلی“ میں ایک ایسا نسوانی کردار پڑھنے کو ملتا ہے جو مرد اساس معاشرہ کا پروردہ ہے ۔ جسے پرورش کے دوراںیہی بتایا گیا کہ مرد کے ظلم وستم اور استحصال کو سہنا ضروری ہے کیونکہ وہی اس کا نصیب ہے۔لیکن اسی کردار کی ذہنی تبدیلی کو موصوفہ نے موضوع بناکر سماج کو اہم پیغام دیا ہے کہ بدلتے وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ عورت کو خود آگہی ملتی گئی ا ور وہ با شعور ہو تی چلی گئی ہے۔ لہٰذا اس کی فکر میں بھی تبدیلی آ ئی ہے۔ عورت اب اپنے وجود کے گرد پڑی وہ تمام سماجی روایات ونظریات کی زنجیروں کو توڑنا چاہتی ہے جو اس کو محکوم ومجبور بناتے ہیں ۔ مذکورہ کہانی کی کردار بھی آخر کاریہ طے کرلیتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو ایسی پسماندہ زندگی گذارنے نہیں دے گی جیسی وہ آج تک گذارتی آئی ہے ۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنی بیٹی کوایک ایسی "با شعور اورباہمت عورت" بنادیگی جو مرد کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و استحصال کو عورت کا مقدر سمجھ کر سہتی نہ رہے بلکہ ہر طرح کی ناانصافیوں اور امتیازات کے خلاف ا ٹھ کھڑی
ہو۔ جےسا کہ وہ اپنی بےٹی کو نصیحت کرجاتی ہے:
”بیٹی تجھے ایک دن بڑا افسر بننا ہے۔ سماج کے ان ”جوان مردوں“سے کمزوروں،بے بسوں اور لاچاروں کو نجات دلانا ہے۔ ایک بہادر عورت بن کر ناانصافی کے خلاف لڑنا ہے“۔(20)
ہندوستانی سماج کی یہ تصویر بھی ہم سب پر عیاں ہے کہ جہاں ہمیں ”عورت“ کے استحصال کی کئی ایک صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں وہیں عورت ” دیوی “ یا ”ماں“ کے روپ میں صدیوں کی تاریخ وثقافت کا حصّہ نظر آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ صدیوں کی اسی تاریخ کے دوران” نسوانیت “کی تمام خصوصیات تشکیل دی گئےں اور ان ہی خصوصیات کی حامل عورت” عظیم و پاکباز “ کہلائی اور پوجا کے قابل سمجھی گئی۔ ”نسوانیت“ کے یہ تشکیل شدہ خصوصیات ہندوستانی سماج میں عرصہ دراز سے رائج ہیں ۔ خود عورت نے بھی ان تمام خصوصیات کو اپنے لےے لازم جانا اور اپنی لڑکی کی پرورش کے لےے بھی ضروری سمجھا اور ”سماجیانہ“ کے عمل کے دوران ان خصوصیات کو وہ نسل در نسل بخوبی منتقل بھی کرتی رہی۔لیکن زیرِ بحث افسانہ ”میں مردماربھلی“ میں عورت کے وجود کی خود شناسی میں اس رجحان کی تبدیلی کو محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ آج کے تناظر میں ” ماں“ باشعور ہوگئی ہے۔ اب وہ اپنی لڑکی کو صرف ”زنانہ پن یا نسوانیت“ کی خصوصےات سے ہی آراستہ نہیں کررہی ہے ‘بلکہ اسے ایک ”باشعور اور خود اعتماد “فرد کی حیثیت سے سماج میں مقام دلانے کے لیے بھی کو شاں نظر آرہی ہے۔ثروت خاں کے دیگر افسانے ”زندگی اور موت، مردانگی، حسن کا معیار“ وغیرہ میں ”عورت کے وجود“ کو مختلف زاویوں سے زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ان کے افسانوں میں وہ عورت کی تصویر نہیں جھلکتی جو اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی تھی اور نہ وہ کل کی "سیتا " نظر آتی ہے ‘ جس کی شخصیت کو ہندوستانی سماج نے اپنی مرضی کے مطابق تشکیل دیا تھا‘بلکہ وہ آج کی یعنی ”اکیسویں صدی کی سیتا“ ہے۔ جس کے مکمل وجود کو خود اس نے ڈ ھونڈنکالا ہے ۔ صدیوں کے تجربات کے تناظر میں ”آج کی سیتا“ کو خود ” سیتا “ نے ہی تشکیل دیا ہے ۔اب اس کا وجود صرف حسین جسم سے تعبیر نہیں ہے بلکہ اس نے اپنے حسن کا معیار خود طے کیا ہے جیسے افسانہ ”ترشنا“سے یہ سطور دیکھیے:
اب حسن نے اپنی عقلیت ،اپنی خود اعتمادی ،اپنی قوتِ ارادی اور اپنی قابلیت سے اس نئی دنیا میں اپنی پہچان قائم کی ہے....نئے پیمانے مرتب کیے ہیں۔نئی نظر پیدا کی ہے۔حسن کی تنقید کے اصول متعین کیے ہیں....آج اس نے نئے شعور و آگہی سے کام لینا سیکھا ہے ۔نئی بلندیوں کو چھوا ہے“۔ (21
ہندوستانی سماج میں ”عورت کا وجود“ کے متعلق ” اردھانگنی “ کا نظریہ عام ہے ۔حالانکہ یہ نظریہ صرف ایک مذہب کے متن کا حصّہ ہے لیکن تمام معاشروں میں یہ عام طور پر رائج ہے۔عورت ۔باپ ،بھائی،شوہر یا بیٹے کے نام اور تحفظ کی محتاج ہوتی ہے۔ تنہا عورت گویا جبر و استحصال کا آسان ذریعہ تصورکی جاتی ہے۔ صدیوں سے چلے آرہے ان فرسودہ نظریات کی زنجیروں میں جکڑکرخود عورت کے ایک بڑے طبقہ کی سائےکی بھی مکمل تبدیل ہوچکی ہے۔ عرصہ تک عورت نے خود بھی اس حقیقت کو قبول کرلیا تھاکہ اس کا اپنا وجود یا اپنی الگ کو ئی شناخت نہیں ہے ۔ بلکہ وہ صرف مرد کی زندگی کا حصّہ ہے۔اس ضمن میں قمر جمالی کے افسانوں سے کئی مثالیں لی جاسکتی ہیں۔ قمر جمالی اردو فکشن کا نمایاں نام ہے ۔ان کے افسانے ‘لائف لائن، خواب آنکھیں تعبیر، کنکھجورا ‘وغیرہ میں عورت کا بڑا جاندارکردار نظر آتا ہے۔ جو عورت کے وجود کے متعلق فرسودہ نظر یات کو توڑ نے کا نہ صرف حوصلہ رکھتا ہے بلکہ اپنے تشخص کے متعلق سماج سے سوال کر نے کی ہمت بھی رکھتا ہے۔ افسانہ” خط کشیدہ“ سے ایک مثال دیکھیے:
کیا کیا ہے تم لو گوں نے میرے ساتھ جو چاہے روپ دے دیا چاہے جس نام سے جہاں چاہا کھڑا کردیا چاہے۔ رنڈی بازار میں کبھی سیتا ، کبھی ساوتری کبھی دھنیا ، کبھی لاجونتی جب چاہا ، جہاں چاہا ، جیسے چاہا ، کبھی محلوں میں ، کبھی فٹ پاتھ پر، کبھی دیوی ، کبھی دیو زاد ، چڑیل ، بھوتنی....کیوں کہ .... یہی میرا مقدر ہے ۔قربانی ۔میرا مسلک، ایثار ۔ میرا شعار اور اوروں کے درد کو اپنے سینے
میں چھپالینا ۔ میرا منصب....تم بھی اپنی پیش روﺅں کی طرح وہی کروگی۔کہیں بٹھادوگی لے جا کر۔کسی کے نام کے ساتھ جوڑ دوگی جیسے میں خود کچھ نہیں۔ فقط کسی کی پسلی کا ٹوٹا ہوا حصّہ کسی کے نام کا آدھابقایا حصّہ کسی کی شخصیت کی تکمیل کی وجہ کمزور وناتواں کم فہم و کم عقل ،نہ دل میرا ۔نہ دماغ ، نہ جذبات ، نہ فیصلے ....مگر اب نہیں بہت ہو چکا اب میں کسی کی وجہ سے نہیں۔ بلکہ خود کسی کی شناخت کی وجہ بنوںگی“۔(22
الغرض عصرِ حاضر کے نسائی ادب کے مختصر سے جا ئزے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ عورت کے وجود پر مباحث کے کئی نئے زاویے سامنے آئے ہیں۔جن کے حوالے سے جہاں ایک طرف سماج کی پیچیدگیوں اور صنفی امتیازات کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے تو دوسری طرف عورت کے وجود پر خود خواتین کے شروع کردہ ڈسکورس کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ قلم کار خواتین کا یہ مباحثہ اور یہ اعتماد بھری آوازیں نہ صرف عورت کے مکمل وجود کو سمجھنے کا موقع فراہم کر رہی ہیں بلکہ اس کے تشخص کو مستحکم کر تے ہوئے کہیں نہ کہیں خود خواتین کے طبقے میں ذہنی تبدیلی کا حصّہ بھی بن رہی ہیں۔
پچھلے صفحات پر مختلف افسانوں کی مثالوں کے ذریعے جہاں ہندوستانی سماج میں عورت کی حیثیت کے ساتھ ساتھ چند ایک صنفی تصورات اور نظریات کو زیرِ بحث لایا گیا وہیں سماجی نظریات اور عورت کے وجود کی اہمیت اور با اختیاری کے متعلق خواتین تخلیق کاروں کے نقطہ نظر کو پیش کیا گیا۔دراصل سماج میں عورت سے جڑے مختلف مسائل کو نئی سوچ وفکر کے ساتھ ادب میں پیش کر نے کے نتیجے میں انسانی حقوق کے دائرے میں نئے نئے مباحث سامنے آرہے ہیں۔ان تحریروں سے سماج میں رائج صنفی سیاست (Gender politics) کے مختلف زاویوں کو نہ صرف سمجھنے کا موقع فراہم ہو رہا ہے بلکہ پدر سری سماج میںعورت کی پست حےثےت کے اسباب اور اس کے” نجی کرب“ اور ” صنفی مسائل “ سے بھی قاری کمہ حقہ متعارف ہو رہا ہے ۔ یہ مبا حث عام افراد کے لےے بھی غور وفکر کا حصّہ بن رہے ہیں۔ نسائی ادب کے ان امتےازی پہلو ﺅںکو ”تانیثےت ،مغربیت ، جانبداریت “کے مختلف عنوانات دے کر نظر انداز کر نے کے بجائے” انسانی حقوق کے سماجی ڈسکورس“ کے طور پر دیکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ صرف ” تانیثی نظریات “ نہیں ہے جو کسی تحریک کی دین مان لیئے جائیں بلکہ عورت کا اپنے وجود کی اہمیت کے متعلق آگہی، عرفانِ ذات ، اپنے حقوق کا احساس اور استحصال کے خلاف خود اعتمادی سے بھرا لہجہ ہے جسے کشادہ ذہنی سے سمجھنا اور مطالعات کا حصہ بنانا نا گزیر ہے تاکہ ہم ایک صنفی مساوات پر مبنی سماج کی تشکیل کی کو شش کر پائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات:۔
. 1. GOI,Women & Men in India report , Ministry of Statistics & Program implementations,2020
2. Kamla Bahasen, Understanding Gender, Kalifor Women, 1999, P 25-27.
.3 شائستہ فاخری‘ افسانوی مجموعہ” اداس لمحوں کی خود کلامی“ دہلی‘ 2011 ‘ ص 33
.4 ایضاً ‘ ص 39
.5 بحوالہ ” کسوٹی جدید“ (نسائی ادب نمبر) ‘ پٹنہ‘ 2014 ‘ص 108
.6جیلانی بانو‘ افسانوی مجموعہ” بات پھولوں کی“ دہلی‘ 2001 ‘ ص 63
.7 بحوالہ ” کسوٹی جدید“ (نسائی ادب نمبر) ‘ پٹنہ‘ 2014 ‘ص 222
.8 ذکیہ مشہدی‘ افسانوی مجموعہ” منتخب افسانے“ دہلی‘2011 ‘ ص ‘ 183
.9 ایضاً ‘ ص 184
.10 بحوالہ ”تریاق“ (رفیعہ شبنم عابدی نمبر) ‘اردو فاونڈیشن ممبئی‘ 2017 ‘ ص 280
.11 صادقہ نواب صحر‘ افسانوی مجموعہ” خلش بے نام سی ©“ دہلی‘ 2013 ‘ ص 128-133
.12نگار عظیم‘ افسانوی مجموعہ” عمارت“ دہلی ‘ 2010‘ ص 61
.13 ایضاً ‘ ص 71
.14 قمر جہاں ‘ افسانہ ” یادوں کی پروائیاں“ مشمولہ ” کسوٹی جدید“ (نسائی ادب نمبر) ‘ پٹنہ‘ 2014 ‘ص 261
.15 افشاںملک‘ افسانوی مجموعہ ” اضطراب“ دہلی‘ 2017 ‘ ص 109
.16 ترنم ریاض‘ افسانوی مجموعہ” یہ تنگ زمین“ دہلی‘ 1998‘ص‘ 85
.17 ایضاً ‘ ص ‘ 104-106
.18 بحوالہ ” جدید خواتین افسانہ نگار: نظریہ اور تجزیہ“ از صالحہ زرین‘ الہ آباد‘ 2009 ‘ ص 223
.19 ایضاً ‘ ص ‘ 226
.20 ثروت خان‘ افسانوی مجموعہ ” زروں کی حرارت“ دہلی‘ 2004 ‘ ص 14
.21 ایضاً‘ ص 116
.22 قمر جمالی‘ افسانوی مجموعہ” صحرا بکف“ ‘ نئی دہلی‘ 2015 ‘ ص 97
۔۔۔۔
Prof. Ameena Tahseen
Head, Department of Women Education
Maulana Azad National Urdu University
Gachibowli, Hyderabad - 500032
Mobile No: 9885017580
Email: amtahseen123@yahoo.com
دیدبان شمارہ۔(۲۰ اور ۲۱)۲۰۲۴
خواتین کے اردو افسانوں میں عورت کے وجود پرمباحثہ
( ہندوستان کے تناظر میں ایک مطالعہ)
آمنہ تحسین
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں"صنفی مساوات"کو دستور کا اہم حصّہ بنایا گیا نیزخواتین کی تعلیم وترقی اور ان کے تحفظ کے متعلق مختلف اقدامات اپنائے گئے ۔باوجود ان تمام کو ششوں کہ ہندوستانی عورت سماجی و ثقافتی جبر و استحصال کا شکار اور بے شمار صنفی مسائل میں گھری حاشیہ پذیر نظر آتی ہے۔ تعلیم کا فروغ، سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی اور اقتصادی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہندوستانی سماج کے بنیادی ڈھانچے میں کسی حد تک تبدیلی رونما ہوئی ہے‘ لیکن سماجی سطح پر صدیوں سے چلے آرہے پدر سری روایات یا نظریات اور صنفی تفرقات پر مبنی نظام میں مکمل طور پر تبدیلی واقع نہیں ہو پائی۔ خاندانی اور سماجی سطح پر عورت کے متعلق فرسودہ تصورات اور اس کا” روایتی کردار“ آج بھی وہی ہے جو گذرے برسوں میں تھا‘ لیکن قابلِ توجہ تبدیلی یہ ہے کہ اقتصادی تقاضوں نے اسے ”محنت یا روزگار کی منڈی“ میں لا کھڑا کیا ہے اور وہ معاشی کفالت کی بڑی ذمہ داریاں سنبھالنے لگی ہے ۔پھر بھی اس کا کام بیشتر صورتوں میں ” غیر منظم سیکٹر “ سے وابستہ ہے اور پوشیدہ ہے ۔ جبکہ گھریلو سطح پر ” کام کی صنفی تقسیم (Gender division of labour)“ میں کو ئی فرق نہیں آ یا ہے۔ خاندانی سطح پر تمام تر ذمہ داریاں آج بھی عورت کے فرائض میں ہی شامل ہیں جبکہ آج کی عورت نجی اور سماجی و معاشی سطح پر کام کے دوہرے بوجھ میں پھنس کر ”انسان“ سے کہیںزیادہ” مشین “بن کر رہ گئی ہے۔عصرِ حاضر میںمعاشی حصّہ داری کی ایک اہم رکن ہو نے کے باوجود اس کے پسماندہ موقف میں کو ئی تبدیلی واقع نہیں ہو پائی۔ تعلیم و معاشی ترقی کے با وجود مرد اساس سماج میں اس کا وجود ارزاں اور محکومیت کا شکار ہے۔
صارفیت اور عالم کاری کی ضرورتوں نے اس کے ساتھ استحصال کے نت نئے انداز ڈھونڈ نکالے ہیں۔ اب بازار میں عورت کا صرف جسم ہی فروخت نہیں ہوتا بلکہ اب اس کی ” کوکھ “کی بھی قیمت لگنے لگی ہے ۔ تحفظ فراہم کر نے والے تمام سماجی ادارے اس کے لیے غیر محفوظ بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ ” آصفہ ہو کہ آروشی یا عائشہ“ اب عورت گویا محفوظ نہیں رہ گئی ہے۔ عورت کے خلاف ہو نے والے جرائم کی بڑھتی تعداد ، سال بہ سال گرتا ہوا جنسی تناسب، آنگن سے لے کر چوراہے تک لٹتی عصمتیں اور تعلیم و ترقی کے تمام شعبوں میں مردوں کے مقابلہ میں انتہائی کم شرح تناسب ایک مہذب سماج کے عدم توازن کو صاف طور پر ظاہر کر رہی ہیں۔ (1)
ہندوستانی سماج میں عورت کی حیثیت کو بہتر بنانے کی کو ششیں انیسویں صدی سے شروع توہوئیں لیکن وہ کو ششیں مکمل طور پر کیوں کامیاب نہیں ہو پائیں؟اس کی بنیادی وجہ صدیوں سے ہندوستان میں رائج وہ پدر سری نظام ہے جو مرد کے غلبہ اور طاقت کا نظام ہے ۔اس نظام نے عورت کو "کمزور جنس" قرار دے اور اسے سماج میں" ثانوی و محکو م طبقہ" کا درجہ دے کر بنیادی حقوق سے دور رکھا۔ صدیوں سے رائج پدرسری نظریات اور روایات کے نتیجے میں خود
خواتین کی سائیکی بھی متاثر ہو ئی ۔خواتین نے غلبہ کے نظام کے علاوہ اپنے لیے ثانوی اور محکوم درجہ کو نہ صرف قبول کرلیا بلکہ خاندانی نظام میں عورت ومرد کے رتبہ کے فرق کو پرورش کا اہم حصہ بھی بنایا ۔صنفی تفریق کی ایسی سینکڑوں مثالیں تقریباً خاندانوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔(2) ماضی سے تاحال چلے آرہے صنفی تصورات یا مسائل کے جائزے کے بعد یہ سوال ذہن میں ابھر تے ہیں ۔
٭تعلیم وترقی نسواں کی مختلف النوع کو ششیں بھی ہندوستانی سماج میں عورت کے متعلق افراد کے ذہنوں میں مکمل طور پر تبدیلی کیوں نہیں لاپائیں؟
٭آخر عورت کو سماج میں انسان کی حیثیت سے باوقار درجہ کیوں حاصل نہیں ہے ؟
٭ کیا علم وآگہی نے خود عورت کے ذہن وفکر میں تبدیلی لائی ہے؟
٭ کیا عورت نے خود اپنے وجود کی اہمیت کو پہچانا اور سماج کو بھی بتانے کی کوشش کی؟
٭کیا عصرِ حاضر میں عورت کے وجود سے متعلق سوال مباحثے کی شکل اختیار کر پائے ہیں ‘ اور کیا وہ مباحثے اردو کے نسائی ادب کا حصہ بن پائے ؟
عصری نسائی ادب کے شعری ونثری سرمایہ کے جا ئزہ سے یہ حقیقت عیاں ہو تی ہے کہ اردو میں نسائی فکر کی مختلف جہات واضح ہوئی ہےں ۔ خواتین کی تحریروں میں عصری آگہی، جدید رجحانات، مو ضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ نسائی حسّیت کے مختلف پہلو ا نتہائی روشن اور واضح خد وخال میں نظر آتے ہیں ۔عصرِ حاضر میں احساس و تجربوں کی شدت کے ساتھ خواتین کا تخلیقی اظہار دراصل” عورت کے وجود اور اس کے تشخص پر مباحثہ “کی صورت اختیار کر نے لگا ہے ۔ نسائی ادب کا یہ امتیازی پہلو نہاےت اہمیت کا حامل ہے۔کیونکہ عورت کا یہی اظہارِ ذات خود عورت کے وجود سے جڑی پیچیدگیوں نیز اس کے متعلق سماجی نظریات کے علاوہ نسائی نقطئہ نظر کو جاننے کا ذریعہ بنتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہندوستان میں عورت کے وجود کا” ادبی مباحثہ “ بہت عرصہ قبل شروع ہو چکا۔یہ کوئی عصر ِ حاضر کی دین نہیں ہے بلکہ برسوں پہلے عورت کے وجود سے جڑے مسائل مختلف زبانوں کے ادب کا حصّہ بنتے رہے ہیں۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائی دور کے نسائی ادب میں موضوعات کا وہ تنوع اور بلند آہنگی نہیں تھی جو عصری ادب میں نظر آتی ہے۔گذرے برسوں میںاردو زبان کے علاوہ مختلف ہندوستانی زبانوں میں منظرِ عام پر آنے والے نسائی ادب کا سرسری جائزہ یہ ثابت کرتا ہے کہ خاتون تخلیق کاروںنے عورت کی حیثےت کے متعلق نہ صرف سوال قائم کیے تھے اور بنیادی حقوق کی مانگ کی تھی بلکہ خود عورت کو اس کے اپنے وجود کی اہمیت سمجھا نے کی کو شش بھی کی تھی ۔ اس کی آنکھوں کو ڈھیر سارے خواب دیے تھے اور ادب کے آسمان پر اپنی شناخت کے ساتھ ظاہر ہو نے کے حوصلے بھی بخشے تھے۔ ا بتدائی دور کی چند ہندوستانی خاتون تخلیق کاروں میں ‘ ساوتری بائی پھولے ( شعری مجموعہ ” کاویا پھولے،1854ء) ‘تارا بائی شنڈے ( مصنفہ” استری پرش تلنا ،1882ئ) “ رقیہ سخاوت حسین ( Sultana's Dream ،1905ئ) ، رشید ةالنساء( ناول” اصلاح النسائ،1881ئ) ‘ محمدی بیگم(مدیر،رسالہ تہذیبِ نسواں ،1886ئ)صغراہمایوںمرزا(ناول”مشیرِ نسواں، 1905ئ)“ زاہدہ خاتون شروانیہ ( طویل نظم،آئنہ حرم،1921۔ رشید جہاں ( افسانہ دلی کی سیر مشمولہ ” افسانوی مجموعہ انگارے،1931 ) ، نذر سجاد حیدر، رضیہ سجاد ظہیر، قرة العین حیدر، عصمت چغتائی‘ وغیرہ وغیرہ کی تحریروں کے علاوہ اور بھی ممتازخاتون تخلیق کار تھیں جنھوں نے عورت سے جڑے مسائل پر لکھ کر ہندوستانی سماج میں عورت کے وجود کے متعلق ڈسکورس کی شروعات کی تھی ۔ پھر بدلتے وقت کے تقاضوں کے ساتھ چلتے چلتے خواتین کی تعلیم و خود آگہی میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور ان کے ادبی اظہار میں بھی واضح فرق آتا گیا۔ خواتین تخلیق کاروں میں بیشتر نے اپنی تحریروں میں ” عورت “کی پست حیثیت کی وجوہات، پدرسری روایات ونظریات ، صنفی امتیازات اور سماجی و ثقافتی جبر و استحصال کو اپنے اپنے زاویے نگاہ سے دیکھا اور پوری شدت سے ادب میں پیش کیا۔گذرے چند برسوں میں کچھ محققین و ناقدین نے نمائندہ قلم کارخواتین کی تحریروں میں تانیثیت کو تلاش کرنے کی سعی کی ہے ۔پیشِ نظر مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ عصرِ حاضر کے نسائی ادب میں عورت کے وجود پر مباحثہ کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جاسکے۔
عرصہ پہلے رقیہ سخاوت حسین Sultana's Dream 1905
نے سلطانہ کی آنکھوں سے ایک ”بااختیارعورت“ کے متعلق خواب دیکھا تھا۔
اور مرد اساس معاشرے میں عورت کے محکوم ومظلوم وجود پرغور وفکر کے متعلق نہ صرف بڑے اہم سوال اٹھائے تھے ‘ بلکہ خواتین کی آنکھوں کو سماجی تبدیلی کے خواب بھی دیے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ برسوں سے خواتین اس خواب کو اپنی آنکھوں میں بسائے ‘انھیں حقیقت میں بدلنے نیز سماج میں اپنے وجود کو منوانے کی سعی پیہم کر رہی ہیں ۔ شائستہ فاخری کے افسانے میں اس حقیقت کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
سلطانہ کے خواب میرے پاس ہیں‘ مگر میں نے ان خوابوں کی چوری نہیں کی۔۔۔
یہی خواب تو میری ملکیت ہیں‘ جنھیں حاصل کر کے میں صحیح معنوں میں ” میں“ بن سکی۔
ورنہ میری کیا اہمیت رہتی اس ” میں“ کے بغیر“ (3)
عورت اپنے تشخص کے ساتھ سماج میں باوقار مقام پانے کی جانب بڑے اعتماد اورسبک رفتاری سے رواں دواں ہیں لیکن اس کی منزل ابھی کا فی دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے وجود کی شناخت میں سر گرداں عورت کو آج بھی بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔پھر وہ جب پیچھے مڑ کر اپنی تاریخ پر نظر ڈالتی ہے تو سوالات کے دائرے میں خود ہی گھر جاتی ہے۔ایسے ہی سوالوںکی بازگشت ہمیں شائستہ فاخری کے افسانہ”سنو رقیہ باجی“ میں کس طرح سنائی دیتی ہے ۔ملاحظہ کیجیے:
”رقیہ باجی ‘عورت کے وجود کی چیخ و کراہ ‘ اس کی روح کے المیے ، اس کے باطن کی ویرانی کو محسوس کرنے والا کون ہے؟ سو برس کے بعد بھی‘ ہے کوئی؟“۔((4
ہندوستانی خواتین کے پسماندہ موقف کے تناظر میں شائستہ فاخری کا مذکورہ بالاسوال نہ صرف آج کے سماجی وتہذیبی حالات کا ترجمان ہے بلکہ اس سوال میں کئی صدیوں کی تاریخ کی بازگشت بھی پوشیدہ ہے۔سوالات کی یہ بازگشت اب محدود نہیں رہ گئی ہے بلکہ کئی ایک آوازیں ان میں شامل ہو گئی ہیں جن کی گونج کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔اس تبدیلی کی بڑی واضح تصویریں عصرِ حاضر کے نسائی ادب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
عصرِ حاضر کے نسائی ادب میں عورت کے وجود کے متعلق مباحثہ کا جائزہ لیں تو اس کی مختلف جہات سامنے آ تی ہیں ۔ یہ مباحثہ کہیں بیانیہ کی شکل میں نظر آتا ہے تو کہیں راست اور جا رحانہ مکالمہ کی صورت بھی اختیار کر گیا ہے ۔ اس مکالمہ میں کہیں پدرانہ سماج کے جبر اور استحصالی رشتوں کو عیاں کیا گےا ہے تو کہیں عورت کی زبوں حالی کے مختلف رنگ پیش کیے گئے ہیں اور کہیں شعوری طور پر بیدار ذہن عورت کے احتجاج و انحراف کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کیونکہ آج جس عورت نے قلم تھاما ہے وہ ” صنفی سیاست (Gender politics) سے خوب واقف ہو گئی ہے اور سماج میں اپنے مقام ومرتبہ کو لے کر شعوری طور پر بیدار ہو گئی ہے ۔ایسی بیدار ذہن عورت کی جھلک پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی کی ایک نظم میں دیکھی جاسکتی ہے۔
”میں خوف زدہ کبوتری نہیں
کہ جس پرکو ئی باز بڑی آسانی سے جھپٹ پڑے
میں وہ سہمی سہمی سی بلّی بھی نہیں
جو گھر کے کچن میں دودھ کی پتیلی دیکھ کر میاﺅں میاﺅں کرتی ہے
میں وہ دبکی ہو ئی کتیا بھی نہیں
چند چھیچھڑوں کے عوض
جو اپنے مالک کے تلوے چاٹتی ہے
میرے ماتھے پر کو ئی ایسا اشتہار نہ چپکاﺅ
میں نے مقدس کتابیں پڑھی ہیں
اور اپنی قیمت جانتی ہوں۔ (5
عصرِ حاضر کی یہی وہ بیدار ذہن عورت ہے جو اپنے اطراف و اکناف میں موجود صنفی تصورات پر مبنی روایتوں کو بڑی باریک بینی سے دیکھ رہی ہے اور انھیں اپنی تحریروں میں بحث کا حصّہ بنا رہی ہے ۔ اس حوالے سے اگر چہ کہ خواتین کاشعری اظہار زیادہ توانا نظر آتاہے لیکن فکشن میں بھی اتنی ہی سنجیدہ، موثر اور فکرانگیز تحریریں ہمیں اس موضوع کی اہمیت کی جانب متوجہ کر تی ہیں۔ فکشن نگار خواتین میں بیشتر نے اپنے افسانوں میں کوکھ سے لے کر کفن تک اور گودسے گور تک “پھیلی ہوئی عورت کی نارسائیوں کو پیش کیا اورکشمکش ِ حیات کی مختلف جہات کو زیرِ بحث لاکر نسائی ادب کو نئی سمت و رفتار عطاکی ہے۔
ہندوستان می عورت کی نارسائیوں کے مختلف رنگ رہے ہیں ۔عصرِ حاضر کے افسانوں کے جائزے میں ان کے مختلف شیڈز دیکھنے کو ملتے ہیں جس سے کہ سماج میں عورت کے ارزاں وجود کی ایک نمایاں تصویر عیاں ہو تی ہے۔ دراصل ہندوستانی سماج میں عورت کے وجود سے جڑے مسائل کوکھ سے ہی شروع ہو جاتے ہیں ۔ بیشتر گھرانوں میںاس کا وجود بہ حیثیت انسان کے جنم لینے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ اسے کوکھ میں ہی ماردیا جاتا ہے ۔لڑکی کے متعلق سماجی نظریات ،مادہ جنین یا طفل کشی کی عبرتناک تصویر جیلانی بانو کے افسانوں ‘ مثلاً ایک دن لیبر روم میں ، Specimen Box اور منظوم افسانہ دنیا کا پہلا دن میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے ۔ افسانہ اسپیسی مین باکس کے یہ مکالمے دیکھیے جو ریسرچ اسکالرز کی زبانی مادہ نطفے کو دیکھ کر ادا ہو ئے ہیں۔
” اونہہ۔۔۔وہ بھی کو ئی مرد ہے کہ سب کو فکر ہو کہ وہ بھگوان بنے گی یاشیطان؟ عورت
تو بس عورت ہی رہتی ہے۔
ہاں یار۔۔۔وقت سے پہلے آنکھیں کھول کر دیکھنے والی عورت کو تو ہمیشہ کے لیے Specimen Box میں بند رکھنا چاہیے
اس سے کیا ہوگا۔۔۔؟ ایک لڑکی نے پوچھا
”مذہب،قانون اور دنیا کے مردوں کو سکون ملے گا“ اس کی بات پر سب زور زور سے ہنسنے لگے۔
اس لڑکی کو ریسرچ لیب کیوں بھیج رہے ہیں؟ ایک لڑکا پوچھ رہا تھا
دوسرا ہنستے ہو ئے کہتا ہے کہ” ماں کے پیٹ سے نکالی ہو ئی لڑکیوں کو تو کوڑے میں پھینک دیتے ہیں۔ 6
” مادہ نطفہ“ اگر کوکھ میں کسی طرح بچ جاتا ہے اور انسانی وجود کی شکل میں سماج کا حصّہ بنتا ہے تب بھی اس کی زندگی اجیرن ہی ہو تی ہے۔ اس کی سماعتوں پر جو پہلا پتھر پڑتا ہے ۔اس کی جھلک جیلانی بانو کے ہی ایک منظوم افسانہ "دنیا کا پہلا دن" سے یہ اقتباس دیکھیے:
لڑکی ہے ؟ لڑکی ہے؟
کیا لڑکی ہے ؟ ماں نے گھبرا کے پو چھا
ایک شعلہ کی طرح اس آواز نے میرے چاروں طرف آگ لگادی تھی
ماں نے خون میں ڈوبے ہوئے میرے بدن کو دیکھا میری نانی نے
لڑکی ہے ....؟میرے ڈیڈی نے گھبرا کے پو چھا
لڑکی ہے....میری دادی نے دکھ بھری سانس لے کر پو چھا
رو رہی ہے....؟
اب روتی رہے گی“۔7
جنسی شناخت کی بنیاد پر سماج میں مروج یہ تفرقہ دراصل اس پدرسری نظام کی دین ہے جو عورت کو کمزور، مجہول،مفعول اور بے بس سمجھتا آیا ہے ۔ ہندوستانی تہذیب میں لڑکی کو پرایا دھن مانا جاتا ہے۔والدین اس کی تربیت نہ صرف اسی نظریہ کے تحت کرتے ہیں بلکہ اسے بھی ہر لمحہ احساس دلاتے رہتے
ہیں کہ یہ گھر اس کا نہیں ہے ۔اسی تصور کی بناءپر لڑکی انھیں بوجھ لگتی ہے۔ اس بوجھ کو منہ مانگی دولت و زیورات کے ساتھ کنیا دان کرنے یا گھر سے وداع کر کے کسی کے حوالے کر نے کے لیے ہر لمحہ منتظر ہو تے ہیں ۔جبکہ والدین کے گھر اپنا سب کچھ چھوڑ کر آنے والی عورت‘ شوہر وسسرال والوں کے لیے باہر سے آئی صرف ایک” پرائی عورت“ ہی ہو تی ہے ۔وو اپنا ایک" آزاد وجود "نہیں رکھتی بلکہ مختلف روایات، نظریات اور رشتوں میں جکڑ ی ایک" محکوم و جود" ہوتی ہے ۔ شادی اور خاندان جیسے سماجی ادارے کے تحت اس کے لیے بے شمار اصول اور سماجی ضوابط بنادیے جاتے ہیں۔ ان ضابطوں کی تعمیل و تکمیل کرنا اس کے فرائضِ منصبی میں شامل ہو جاتا ہے۔نسلِ انسانی کو وہ فروغ دیتی ہے اور خاندان وہ آباد کرتی ہے‘ لیکن اس کا اپنا کوئی مکان نہیں ہوتا ۔ہر لمحہ وہ رشتوں کے پیمانے سے ہی جانچی پرکھی جاتی ہے اور اگراس پیمانہ پر کھری نہ اترے تو والدین کے گھر واپس بھی لوٹا دی جاتی ہے۔ جب واپس لوٹ جاتی ہے تو اس کے اپنے گھر والے اسے" ان چاہا بوجھ" سمجھنے لگتے ہیں اور دوبارہ اس بوجھ سے آزاد ہو نے کی کو شش کرتے ہیں۔ گویا اس کا وجود کہیں بھی رہے ہمیشہ ارزاں ہی رہتا ہے۔ خاندانی و سماجی نظام میں عورت کی زبوں حالی اور کمتر حیثیت کی اس دردناک تصویر کو یوں تو بیشتر افسانہ نگار خواتین نے مو ضوع بنایا لیکن اس کی ایک واضح تصویر ذکیہ مشہدی کے افسانہ ” بھیڑیے “ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔گھر کی بہو" انجو"کے متعلق اس کے سسر" نند کشور" کی زبانی یہ الفاظ ملا حظہ کیجیے۔:
"جنانی کی عقل پا ﺅں میں.... اسے نکال کون رہا ہے۔ بس ذرامزا چکھانا ہے .... جائے گی کہاں؟ اس کا بھکڑ ماما تو دوسرے دن ہی یہاں لاکر ڈال جائےگا اور برج کی ماںکی بھی مجال نہیں ہےکہ ہماری مرضی کے بغیر بہو کو لے جائے۔ دیکھتی جاو تماشہ..." ۔ 8
مذکورہ بالا اقتباس پدر سری نظام میں عورت کی محکومیت کی ایک واضح مثال ہے۔ دراصل پدر سری نظام طاقت (power) کے ان ہی رشتوں پر مبنی ایسا سلسلہ وار نظام ہے جو نسل در نسل مرد وں میں منتقل ہو تا رہتا ہے ۔ یہی طاقت تمام شعبہ ہائے حےات کو کنٹرول کر تی ہے اور کمزور پر استحصال کے دائروں کو وسیع اور شکنجوں کو مظبوط ترکرتی رہتی ہے ۔ اس کنٹرول سسٹم کی مکمل جھلک افسانہ” بھیڑیے “میں دیکھی جا سکتی ہے۔ نند کشور کی بہو انجو ‘تعلیم حاصل کرنے کی چاہ میں جب اس روایتی پدری نظام سے مخالفت کر نے اور اس سے دور چلے جانے کی کو شش کرتی ہے۔ تب اسے بہت جلد احساس ہو جا تا ہے کہ اس نظام کی جڑیں صرف گھر کے آنگن میں پیوست نہیں ہیں بلکہ سماج میں بہت دور دور تک پھیلی ہو ئی ہیں۔ذکیہ مشہدی نے دراصل یہ بتانے کی کو شش کی ہے کہ پدرانہ معاشرہ میں موجود بھیڑیے نما انسان صرف خاندانی نظام کا حصّہ بن کر ہی عورت پر ظلم وجبر نہیں کرتے بلکہ وہ مختلف شکلوں میں سماج میں ہر طرف پھیلے ہو ئے ہو تے ہیں اور ہر طرح سے عورت کا استحصال کرتے رہتے ہیں ۔ اگر کوئی عورت اپنے وجود کے اثبات اور اپنی شناخت بنانے کے لیے زندگی کے سفر پر تنہانکل پڑتی ہے تو مرد اساس معاشرے میں وہ جن تجربات سے گذرتی ہے انھیں زیرِ بحث افسانے میں بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ذیل کی سطور میں ایک اور فکر انگیز تصویر دیکھیے:
انجو کو ایسا لگا کہ وہ ننگی کھڑی ہے۔چاندنی میں نہائی ہو ئی۔جسم پر ایک تارنہیں اور قریب کی امرائیوں میں بھوکے بھیڑیوں کا جھنڈ اس کا منتظر ہے۔ بھیڑیے جو طاقت ہیں۔طاقت جو روپیہ ہے۔ طاقت جو ہتیار ہے۔ طاقت جو ریگستانوں کے کنووںمیں تیل بن کر بہتی ہے۔ طاقت جو سیاسی بازی گروںکی ٹیڑھی عقل ہے۔ طاقت جو پنچایت کو خریدلینے کی صلاحیت ہے۔طاقت جو مرد کی جنسی برتری ہے۔ طاقت جو قتل کو خودکشی اور نسل کشی کو فساد کہلوانے کی قدرت رکھتی ہے“ ۔ 9
پدر سری نظام کے تحت سماج میں مرد کو حاکم اور عورت کو محکوم رکھنے نیز اس کی حیثیت کو کمتر کر نے والے سینکڑوں رسوم و رواج، روایات اور نظریات تشکیل دیے گئے ۔ یہ تمام عوامل عورت ومرد کو مختلف خصوصیات کے حامل صنفی کردار (Gender roles)میں ڈھالتے ہیں۔ صنفی کرداروں کی یہ تقسیم مرد کو مرکزیت عطا کرتی ہے جبکہ عورت کا وجود کہیں پیچھے حاشیہ پر ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ سماج کی ہر سطح پر اسے صنفی تفرقات (Gender discrimination) اور بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سمجھوتا کرنا پڑتا ہے ۔ باوجود اس کے ہر موقع پر عورت ہی قصور وار ٹھرائی جاتی ہے۔صنفی تفریق کی اس کرب ناک حقیقت کو رفیعہ شبنم عابدی نے عورت کی نظر سے دیکھا ‘ محسوس کیا اور افسانہ، ”فلرٹ گرل“ میں کس طرح سے پیش کیا ہے ملاحظہ کیجیے۔
”ےہ زمانہ جسم کی حسےن عمارتےں تو دےکھتا ہے ، ان عمارتوں کے عارضی رنگ وروغن کی تو داد دےتا ہے مگر ان کے اندر چھپے ہوئےبھےانک کھنڈروں کو کےوں نہےں دےکھتا؟ وہ کو ٹھوں پر رقص کرتی ہوئی حسےناﺅں کودےکھتا ہے لےکن ان بے شمار بد نصےب لڑکےوں کو نہےں دےکھتا جو کسی روی، کسی پرکاش اور کسی راجےش کے ماں باپ کی لالچ اور ہوس کا شکار ہوکر اپنے خوابوں کو کھو کر بھٹکتی پھر رہی ہیں اور ان زندہ لاشوں پر جھپٹتے ہوئے سفےد گِد سماج میں عزت اور آبرو سے جی رہے ہےں“۔10
ہندوستانی سماج میں عورت گر چہ کہ اب نہ صرف تعلیم حاصل کر رہی ہے بلکہ مرد کے برابر معاشی حصہ دار بھی بن رہی ہے ۔باوجود اس کے سماج میں اس کے ثانوی درجہ میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے ۔آج بھی سماج میں اس کے استحصال کے سینکڑوں طریقے رائج ہیں ۔ بلکہ ظلم وجبر کی کئی جہتیں ہو گئی ہیں۔ ان کی جھلکیاں خواتین کے افسانوں میں جا بجا ملتی ہیں۔ا س ضمن میں صادقہ نواب سحر کا افسانہ
ابارشن بیشترمردوں کی انانیت اور خود غرضی کے پسِ پردہ عورت کے جسم اوراس کی جنسیت پرکنٹرول کی کریناک حقیقت کو سامنے لاتا ہے۔مذکورہ افسانے میں سرینا اور اس کے شوہر کی زندگی کی ایسی ہی جھلک دکھائی گئی ہے۔ ان کی شادی کو چندماہ ہی ہو ئے ہیں ۔ سرین ا ماں بننے والی ہے ۔ جس کی وجہ سے اس کی صحت کافی متاثر ہے ۔اس حالت میں بھی اس کا شوہر چاہتا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں گریجویشن کا امتحان لکھے اور پاس ہو جائے تاکہ اس کے اپنے آفس میں سرینا کو نوکری دلوائی جا سکے اور اپنی معاشی ذمہ داریوں کے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔ سرینا اپنی صحت کی سخت خرابی کی وجہ سے اس برس امتحان لکھنا نہیں چاہتی لیکن شوہر کی زبردستی کی وجہ سے آمادہ ہو جاتی ہے اور بے حد تکلیف کے باوجودامتحان گاہ پہنچتی ہے اور پیپر لکھنے کی کو شش بھی کرتی ہے۔تاہم خرابی صحت کی بناءپر اس سے یہ ممکن نہیں ہو پاتا اور وہ امتحان گاہ کے باہر نکل جاتی ہے۔یہ بات اس کے شوہر کو سخت ناگوار گزرتی ہے ۔ بدلے میں وہ اسے گھسیٹتے ہو ئے ابارشن کروانے کے لیے ہسپتال لے کر چلا جاتا ہے۔11
عورت کی کشمکشِ حیات کو درونِ خانہ معاملات میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔نگار عظیم نے اپنے افسانوں مےں عورت ومرد کے رشتے کی پیچیدگیاں اور عورت کے ساتھ دےگر رشتوں کے غلط برتاﺅ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل کا بڑا اچھا احاطہ کیا ہے اور دونوں کر داروں کی نفسےات کا تجزےہ بھی پیش کیا ہے۔اس طرح کے تجزیے خواتین سے جڑے بہت سارے ”درون ِخانہ مسائل“ اور خاندانی نظام میں عورت کے بے مایہ وجود کو سمجھنے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے تحریر کردہ افسانے‘ مرد، زرد پتّے ، بھوک ، بیاہ ، مردار ، ابورشن، ایکویریم،احساسِ زیاں وغیرہ سے چند مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔ ا ن افسانوں میں رشتوں کے درمیاں عورت کے مٹتے وجود کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ذیل میں دیے جارہے اقتباسات میں عورت کی خود کلامی کی جھلکیاں دیکھیے اور اس کے بین السطور میں چھپے عورت کے درد وکرب کو محسوس کیجیے:
میں یہاں بے مصرف سی چیزوں کی طرح کب تک پڑی رہوں 12
میرا وجود اس کلے (مٹّی )کی مانند ہو گیا تھا جسے بچے بار بار گوندھ کر مختلف شکلیں بناتے اوربگاڑتے رہتے ہیں (13
دراصل صدیوں سے چلی آرہی روایات کے نتیجے میں خاندانی نظام کا ایک مخصوص ڈھانچہ بن گیا ہے جس میں عورت انسان نہیں بلکہ محض ایک ایسی لچک دار شئے بن کر رہ گئی ہے جو رشتوں کی خواہش و مرضی کے مطابق خود کو مختلف اشکال میں ڈھالتی رہتی ہے۔ حسب ضرورت وہ شئے اہمیت کی حامل بنادی جاتی ہے اورپھر کسی وقت غیر اہم سامان کی طرح حاشیہ پر کردی جاتی ہے۔ قمر جہاں نے افسانہ ” یادوں کی پروائیاں“ میں خاندانی نظام میں عورت کو دی گئی اسی دوہری حیثیت پر بڑا‘ طنزیہ سوال اٹھایا ہے۔وہ لکھتی ہیں
کیا آج بھی ہم عورتوں کا وجود اپنے گھر کے لیے ایک اہم ”پر زے “کی حیثیت رکھتا ہے ؟ 14
افشاں ملک کے افسانوں میں عورت کے مختلف روپ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کہیں وہ مسائل میں گھری مجبور وبے بس معلوم ہوتی ہے تو کہیں وہ فرسودہ روایتوں سے انحراف کر تی بھی نظر آتی ہے ۔اس ضمن میں ان کی ایک کہانی میں انتہائی موثر کہانی ہے جس میں نادرہ کا کردار عورت کے وجود کی کئی پرتوں کو کھولتا
ہونے کا۔(18
غزال ضیغم نے اپنے افسانے مدھوبن میں رادھےکا“ کے ذریعہ سماج کے اس صنفی تصور کوبھی توڑنے کی کوشش کی ہے جس میں صدیوں سے عورت کے وجود کو جکڑ دیا گیا ہے۔” ممتا “ کو نسوانیت کی معراج بنادیا گیا اور اسی جذبہ کو بنےاد بناکر اولاد کی پرورش کی تمام تر ذمہ داری، ایثار ،قربانی ،صبر جیسی خصوصیات کا لزوم ماں پر عائد کردیا گیا اور باپ کی حیثیت سے مرد ان تمام تر ذمہ داریوں سے آزاد ہوگیا۔ جب کبھی کسی نا گزیر وجہہ سے شوہر اور بےوی کے رشتہ میں علیحدگی کا معاملہ آپڑتا ہے‘تب ”عورت“ کو ہی بچوں کی ذمہ داری سنبھالنی پڑتی ہے اور ”مرد“ دوبارہ شادی کے لیے پوری طرح پھر سے آزاد ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف عورت اولاد کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتے ہو ئے بے شمار مسائل میں گھر جاتی ہے اور اس کا اپنا وجود اور تشخص پوری طرح ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ غزال ضیغم نے اپنے افسانوں کے ذریعے اس روایتی تصور کو بدلنے کی کو شش کی ہے ۔ان کے افسانہ ”مدھوبن میں رادھےکا“کے ایک نسوانی کردار‘ سائمہ کا یہ روپ ملاحظہ کیجیے۔
ساجد کے گود میں دونوں ننھے منوں کو ڈال کر سائمہ نے کہا کہ:
اب میں یہ گھر چھوڑ کر جارہی ہوں ان دونوں معصوموں کو تم سنبھالو نہیں تو قیامت کے دن حشر کے میدان میں تمہارا دامن تھاموغگی“۔(19
غزال ضیغم کے زیرِ بحث افسانے میں سائمہ کا یہ ردِ عمل قاری کو غیر فطری وناپسندیدہ لگے اس لیے کہ قاری بھی اسی مرد اساس معاشرے کا پروردہ ہے جس میں عورت کے وجود کو صرف ماں اور ممتاکے حوالے سے اہمیت دی گئی اور ”نسوانیت “ کے نام پر مخصوص سماجی رول،نیکی ، بھلائی، شرم وحیا، ایثار و قربانی اور بے شمار فرائض کی چادر میں اسے لپیٹ کر اس کے تشخص کو کہیں دبادیا گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں اسے ایک" مکمل انسانی وجود" کی حیثيت سے قبول کرنے نیز اس کے حقوق اور مقام و مرتبہ دینے کی ضرورت پیش آ ئی وہاںوہ خالی داماں ہی رکھی گئی۔ لہٰذا یہ نظریہ عام طور پر بنا رہا کہ ” عورت ماں کا روپ ہوتی ہے اور اس کی ممتا ہر رشتہ میں موجود ہونا لازم ہے۔“ ۔ خود عورت نے بھی اپنے اسی تصور کو اپنا لیا اور نسل در نسل اس تصور کو پہنچانے میں اپنا اہم رول بھی ادا کرتی رہی ہے ۔ تاہم آج کے دور میں اس تصورمیں کسی حد تک تبدیلی آئی ہے ‘جس کی ترجمان سائمہ ہے۔"سائمہ " اب اتنی باشعور اور باہمت ہوگئی ہے کہ اپنے ہم سفر کو اس کی ذمہ داریاں بتانے کا حوصلہ بھی کرنے لگی ہے ۔ زیرِ بحث افسانے میں سائمہ کا یہ ردِ عمل دراصل ” مرد غالب خاندانی نظام “ سے انحراف اور ” صنفی مساوات “کو عام کرنے کی ایک کو شش قرار دی جاسکتی ہے ۔ افسانہ نگار دراصل اس اہم فریضہ کی طرف توجہ دلا نا چاہتی ہیں کہ ”اولاد“ کو دنیا میں لانے کے جب عورت ومرد دونوں ذمہ دار ہیں تو ان کی پر ورش وپرداخت کے لیے بھی دونوں یعنی ماں اور باپ برا بر کے ذمہ دار ہیں۔
ثروت خاں نے اپنے افسانوں میں عورت کے وجود سے وا بستہ بے شمار مسائل کو مختلف زاویوں سے مو ضوع بنایاہے۔ ان کے افسانوں میں موجودہ عہد کی باشعور و با اختیار عورت کی تصویرصاف جھلکتی ہے ۔ان کے افسانوں میں عورت اپنے وجود کی اہمیت سے خوب واقف ہے۔اسے اپنی سوچ وفکر اور صلاحیتوں کا پورا احساس ہے۔وہ روایتی سماج کے پےدا کردہ پیچیدگیوں سے مقابلہ کر نے نیز اپنے وجود کو منوانے کے لیے پوری طرح تیار نظر آتی ہے۔ افسانہ”میں مردمار بھلی“ میں ایک ایسا نسوانی کردار پڑھنے کو ملتا ہے جو مرد اساس معاشرہ کا پروردہ ہے ۔ جسے پرورش کے دوراںیہی بتایا گیا کہ مرد کے ظلم وستم اور استحصال کو سہنا ضروری ہے کیونکہ وہی اس کا نصیب ہے۔لیکن اسی کردار کی ذہنی تبدیلی کو موصوفہ نے موضوع بناکر سماج کو اہم پیغام دیا ہے کہ بدلتے وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ عورت کو خود آگہی ملتی گئی ا ور وہ با شعور ہو تی چلی گئی ہے۔ لہٰذا اس کی فکر میں بھی تبدیلی آ ئی ہے۔ عورت اب اپنے وجود کے گرد پڑی وہ تمام سماجی روایات ونظریات کی زنجیروں کو توڑنا چاہتی ہے جو اس کو محکوم ومجبور بناتے ہیں ۔ مذکورہ کہانی کی کردار بھی آخر کاریہ طے کرلیتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو ایسی پسماندہ زندگی گذارنے نہیں دے گی جیسی وہ آج تک گذارتی آئی ہے ۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنی بیٹی کوایک ایسی "با شعور اورباہمت عورت" بنادیگی جو مرد کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و استحصال کو عورت کا مقدر سمجھ کر سہتی نہ رہے بلکہ ہر طرح کی ناانصافیوں اور امتیازات کے خلاف ا ٹھ کھڑی
ہو۔ جےسا کہ وہ اپنی بےٹی کو نصیحت کرجاتی ہے:
”بیٹی تجھے ایک دن بڑا افسر بننا ہے۔ سماج کے ان ”جوان مردوں“سے کمزوروں،بے بسوں اور لاچاروں کو نجات دلانا ہے۔ ایک بہادر عورت بن کر ناانصافی کے خلاف لڑنا ہے“۔(20)
ہندوستانی سماج کی یہ تصویر بھی ہم سب پر عیاں ہے کہ جہاں ہمیں ”عورت“ کے استحصال کی کئی ایک صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں وہیں عورت ” دیوی “ یا ”ماں“ کے روپ میں صدیوں کی تاریخ وثقافت کا حصّہ نظر آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ صدیوں کی اسی تاریخ کے دوران” نسوانیت “کی تمام خصوصیات تشکیل دی گئےں اور ان ہی خصوصیات کی حامل عورت” عظیم و پاکباز “ کہلائی اور پوجا کے قابل سمجھی گئی۔ ”نسوانیت“ کے یہ تشکیل شدہ خصوصیات ہندوستانی سماج میں عرصہ دراز سے رائج ہیں ۔ خود عورت نے بھی ان تمام خصوصیات کو اپنے لےے لازم جانا اور اپنی لڑکی کی پرورش کے لےے بھی ضروری سمجھا اور ”سماجیانہ“ کے عمل کے دوران ان خصوصیات کو وہ نسل در نسل بخوبی منتقل بھی کرتی رہی۔لیکن زیرِ بحث افسانہ ”میں مردماربھلی“ میں عورت کے وجود کی خود شناسی میں اس رجحان کی تبدیلی کو محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ آج کے تناظر میں ” ماں“ باشعور ہوگئی ہے۔ اب وہ اپنی لڑکی کو صرف ”زنانہ پن یا نسوانیت“ کی خصوصےات سے ہی آراستہ نہیں کررہی ہے ‘بلکہ اسے ایک ”باشعور اور خود اعتماد “فرد کی حیثیت سے سماج میں مقام دلانے کے لیے بھی کو شاں نظر آرہی ہے۔ثروت خاں کے دیگر افسانے ”زندگی اور موت، مردانگی، حسن کا معیار“ وغیرہ میں ”عورت کے وجود“ کو مختلف زاویوں سے زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ان کے افسانوں میں وہ عورت کی تصویر نہیں جھلکتی جو اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی تھی اور نہ وہ کل کی "سیتا " نظر آتی ہے ‘ جس کی شخصیت کو ہندوستانی سماج نے اپنی مرضی کے مطابق تشکیل دیا تھا‘بلکہ وہ آج کی یعنی ”اکیسویں صدی کی سیتا“ ہے۔ جس کے مکمل وجود کو خود اس نے ڈ ھونڈنکالا ہے ۔ صدیوں کے تجربات کے تناظر میں ”آج کی سیتا“ کو خود ” سیتا “ نے ہی تشکیل دیا ہے ۔اب اس کا وجود صرف حسین جسم سے تعبیر نہیں ہے بلکہ اس نے اپنے حسن کا معیار خود طے کیا ہے جیسے افسانہ ”ترشنا“سے یہ سطور دیکھیے:
اب حسن نے اپنی عقلیت ،اپنی خود اعتمادی ،اپنی قوتِ ارادی اور اپنی قابلیت سے اس نئی دنیا میں اپنی پہچان قائم کی ہے....نئے پیمانے مرتب کیے ہیں۔نئی نظر پیدا کی ہے۔حسن کی تنقید کے اصول متعین کیے ہیں....آج اس نے نئے شعور و آگہی سے کام لینا سیکھا ہے ۔نئی بلندیوں کو چھوا ہے“۔ (21
ہندوستانی سماج میں ”عورت کا وجود“ کے متعلق ” اردھانگنی “ کا نظریہ عام ہے ۔حالانکہ یہ نظریہ صرف ایک مذہب کے متن کا حصّہ ہے لیکن تمام معاشروں میں یہ عام طور پر رائج ہے۔عورت ۔باپ ،بھائی،شوہر یا بیٹے کے نام اور تحفظ کی محتاج ہوتی ہے۔ تنہا عورت گویا جبر و استحصال کا آسان ذریعہ تصورکی جاتی ہے۔ صدیوں سے چلے آرہے ان فرسودہ نظریات کی زنجیروں میں جکڑکرخود عورت کے ایک بڑے طبقہ کی سائےکی بھی مکمل تبدیل ہوچکی ہے۔ عرصہ تک عورت نے خود بھی اس حقیقت کو قبول کرلیا تھاکہ اس کا اپنا وجود یا اپنی الگ کو ئی شناخت نہیں ہے ۔ بلکہ وہ صرف مرد کی زندگی کا حصّہ ہے۔اس ضمن میں قمر جمالی کے افسانوں سے کئی مثالیں لی جاسکتی ہیں۔ قمر جمالی اردو فکشن کا نمایاں نام ہے ۔ان کے افسانے ‘لائف لائن، خواب آنکھیں تعبیر، کنکھجورا ‘وغیرہ میں عورت کا بڑا جاندارکردار نظر آتا ہے۔ جو عورت کے وجود کے متعلق فرسودہ نظر یات کو توڑ نے کا نہ صرف حوصلہ رکھتا ہے بلکہ اپنے تشخص کے متعلق سماج سے سوال کر نے کی ہمت بھی رکھتا ہے۔ افسانہ” خط کشیدہ“ سے ایک مثال دیکھیے:
کیا کیا ہے تم لو گوں نے میرے ساتھ جو چاہے روپ دے دیا چاہے جس نام سے جہاں چاہا کھڑا کردیا چاہے۔ رنڈی بازار میں کبھی سیتا ، کبھی ساوتری کبھی دھنیا ، کبھی لاجونتی جب چاہا ، جہاں چاہا ، جیسے چاہا ، کبھی محلوں میں ، کبھی فٹ پاتھ پر، کبھی دیوی ، کبھی دیو زاد ، چڑیل ، بھوتنی....کیوں کہ .... یہی میرا مقدر ہے ۔قربانی ۔میرا مسلک، ایثار ۔ میرا شعار اور اوروں کے درد کو اپنے سینے
میں چھپالینا ۔ میرا منصب....تم بھی اپنی پیش روﺅں کی طرح وہی کروگی۔کہیں بٹھادوگی لے جا کر۔کسی کے نام کے ساتھ جوڑ دوگی جیسے میں خود کچھ نہیں۔ فقط کسی کی پسلی کا ٹوٹا ہوا حصّہ کسی کے نام کا آدھابقایا حصّہ کسی کی شخصیت کی تکمیل کی وجہ کمزور وناتواں کم فہم و کم عقل ،نہ دل میرا ۔نہ دماغ ، نہ جذبات ، نہ فیصلے ....مگر اب نہیں بہت ہو چکا اب میں کسی کی وجہ سے نہیں۔ بلکہ خود کسی کی شناخت کی وجہ بنوںگی“۔(22
الغرض عصرِ حاضر کے نسائی ادب کے مختصر سے جا ئزے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ عورت کے وجود پر مباحث کے کئی نئے زاویے سامنے آئے ہیں۔جن کے حوالے سے جہاں ایک طرف سماج کی پیچیدگیوں اور صنفی امتیازات کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے تو دوسری طرف عورت کے وجود پر خود خواتین کے شروع کردہ ڈسکورس کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ قلم کار خواتین کا یہ مباحثہ اور یہ اعتماد بھری آوازیں نہ صرف عورت کے مکمل وجود کو سمجھنے کا موقع فراہم کر رہی ہیں بلکہ اس کے تشخص کو مستحکم کر تے ہوئے کہیں نہ کہیں خود خواتین کے طبقے میں ذہنی تبدیلی کا حصّہ بھی بن رہی ہیں۔
پچھلے صفحات پر مختلف افسانوں کی مثالوں کے ذریعے جہاں ہندوستانی سماج میں عورت کی حیثیت کے ساتھ ساتھ چند ایک صنفی تصورات اور نظریات کو زیرِ بحث لایا گیا وہیں سماجی نظریات اور عورت کے وجود کی اہمیت اور با اختیاری کے متعلق خواتین تخلیق کاروں کے نقطہ نظر کو پیش کیا گیا۔دراصل سماج میں عورت سے جڑے مختلف مسائل کو نئی سوچ وفکر کے ساتھ ادب میں پیش کر نے کے نتیجے میں انسانی حقوق کے دائرے میں نئے نئے مباحث سامنے آرہے ہیں۔ان تحریروں سے سماج میں رائج صنفی سیاست (Gender politics) کے مختلف زاویوں کو نہ صرف سمجھنے کا موقع فراہم ہو رہا ہے بلکہ پدر سری سماج میںعورت کی پست حےثےت کے اسباب اور اس کے” نجی کرب“ اور ” صنفی مسائل “ سے بھی قاری کمہ حقہ متعارف ہو رہا ہے ۔ یہ مبا حث عام افراد کے لےے بھی غور وفکر کا حصّہ بن رہے ہیں۔ نسائی ادب کے ان امتےازی پہلو ﺅںکو ”تانیثےت ،مغربیت ، جانبداریت “کے مختلف عنوانات دے کر نظر انداز کر نے کے بجائے” انسانی حقوق کے سماجی ڈسکورس“ کے طور پر دیکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ صرف ” تانیثی نظریات “ نہیں ہے جو کسی تحریک کی دین مان لیئے جائیں بلکہ عورت کا اپنے وجود کی اہمیت کے متعلق آگہی، عرفانِ ذات ، اپنے حقوق کا احساس اور استحصال کے خلاف خود اعتمادی سے بھرا لہجہ ہے جسے کشادہ ذہنی سے سمجھنا اور مطالعات کا حصہ بنانا نا گزیر ہے تاکہ ہم ایک صنفی مساوات پر مبنی سماج کی تشکیل کی کو شش کر پائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات:۔
. 1. GOI,Women & Men in India report , Ministry of Statistics & Program implementations,2020
2. Kamla Bahasen, Understanding Gender, Kalifor Women, 1999, P 25-27.
.3 شائستہ فاخری‘ افسانوی مجموعہ” اداس لمحوں کی خود کلامی“ دہلی‘ 2011 ‘ ص 33
.4 ایضاً ‘ ص 39
.5 بحوالہ ” کسوٹی جدید“ (نسائی ادب نمبر) ‘ پٹنہ‘ 2014 ‘ص 108
.6جیلانی بانو‘ افسانوی مجموعہ” بات پھولوں کی“ دہلی‘ 2001 ‘ ص 63
.7 بحوالہ ” کسوٹی جدید“ (نسائی ادب نمبر) ‘ پٹنہ‘ 2014 ‘ص 222
.8 ذکیہ مشہدی‘ افسانوی مجموعہ” منتخب افسانے“ دہلی‘2011 ‘ ص ‘ 183
.9 ایضاً ‘ ص 184
.10 بحوالہ ”تریاق“ (رفیعہ شبنم عابدی نمبر) ‘اردو فاونڈیشن ممبئی‘ 2017 ‘ ص 280
.11 صادقہ نواب صحر‘ افسانوی مجموعہ” خلش بے نام سی ©“ دہلی‘ 2013 ‘ ص 128-133
.12نگار عظیم‘ افسانوی مجموعہ” عمارت“ دہلی ‘ 2010‘ ص 61
.13 ایضاً ‘ ص 71
.14 قمر جہاں ‘ افسانہ ” یادوں کی پروائیاں“ مشمولہ ” کسوٹی جدید“ (نسائی ادب نمبر) ‘ پٹنہ‘ 2014 ‘ص 261
.15 افشاںملک‘ افسانوی مجموعہ ” اضطراب“ دہلی‘ 2017 ‘ ص 109
.16 ترنم ریاض‘ افسانوی مجموعہ” یہ تنگ زمین“ دہلی‘ 1998‘ص‘ 85
.17 ایضاً ‘ ص ‘ 104-106
.18 بحوالہ ” جدید خواتین افسانہ نگار: نظریہ اور تجزیہ“ از صالحہ زرین‘ الہ آباد‘ 2009 ‘ ص 223
.19 ایضاً ‘ ص ‘ 226
.20 ثروت خان‘ افسانوی مجموعہ ” زروں کی حرارت“ دہلی‘ 2004 ‘ ص 14
.21 ایضاً‘ ص 116
.22 قمر جمالی‘ افسانوی مجموعہ” صحرا بکف“ ‘ نئی دہلی‘ 2015 ‘ ص 97
۔۔۔۔
Prof. Ameena Tahseen
Head, Department of Women Education
Maulana Azad National Urdu University
Gachibowli, Hyderabad - 500032
Mobile No: 9885017580
Email: amtahseen123@yahoo.com