خورشید کی تخلیقی اور حیاتی تنقید
خورشید کی تخلیقی اور حیاتی تنقید
Feb 9, 2023
دیدبان شمارہ۔۱۷
خورشید کی تخلیقی اور حیاتی تنقید
ڈاکٹر منصور خوشتر
جسم کو روح کے آداب سیکھانے والے تخلیقی فنکار کا نام خورشید حیات ہے۔ لہو کی گردش میں جب ایک کہانی کار مچلنے لگا تو ان کی پہلی کہانی " انوکھی تبدیلی " 1974 عیسوی میں شائع ہوئی - ابتداءمیں بچوں کے رسالے میں وہ خوب چھپے۔ ان میں خاص طور سے شہد ، گیا ، پیام تعلیم ، دہلی ، نور رامپور ، الحسنات ، نوخیز کلکتہ ، خوشبو ، سہسرام ، کھلونا ، آجکل ضمیمہ دہلی وغیرہ۔ اپنے نئے لہجے کے ساتھ کھوئی ہوئی راہوں کی تلاش میں وہ بچوں کی کہانیوں سے الگ 1980 سے جدید کہانی سے جڑ گئے۔ خورشید حیات پر نومبر 1986 میں " معلم اردو" لکھنو ¿ نے خصوصی گوشہ شائع کیا۔ یہ وہ ڑمانہ تھا جب بغیر پیسے کے تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا تھا۔ 1986 میں ریلوے کی زندگی کا حصہ بننے سے پہلے کئی اہم ادبی رسالہ کا خصوصی شمارہ ، گواہ ہے۔
انہوں نے اپنے تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں سے اردو ادب کو ایک نیا رنگ و آہنگ دیا ہے اور ادب میں ایک نئی بیداری کے ساتھ ، روحانیت اور رومانیت کی دھن کو اکیسویں صدی میں بھی عام کیا ہے ۔ خورشید حیات نے عصری تقاضوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی کہانی پہاڑ ندی عورت ، پانچ انگلیاں ، آدم خور ، یہ اسی کی آواز ہے ، نغمہ آپا سے بہت ڈر لگتا ہے ، چھالیا ، اسے فسانہ مت کہنا اور بھی کئی کہانیاں اس بات کی گواہی ہر عہد میں پیش کرتی رہینگی۔ انہیں معلوم ہے کہ فرد سماج کا ایک اہم جزو ہے۔ اسی لئے ان کی زیادہ تر کہانیوں کے کردار آج کے آدمی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ بولتے ہیں۔ ان کا نام سید محمّد خورشید حیات اور قلمی نام خورشید حیات ہے۔ 28 نومبر 1960 کو رانچی میں پیدا ہوئے۔خورشید حیات 1980 کے بعد کی نسل سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے کلام حیدری اور غیاث احمد گدی کی سرپرستی میں اپنا تخلیقی سفر شروع کیا اور بہت جلد مشہور ہوئی۔خورشید حیات نے افسانہ نگاری کے میدان مں قدم رکھتے ہی بہت جلد شہرت حاصل کرلی تھی۔ کلام حیدری کے رسالہ ’آہنگ ‘ میں 1980 کے آس پا س ان کے افسانے شائع ہونا شروع ہوئے اور پھر تمام معیاری ادبی رسالوں میں شائع ہونے لگے۔خورشید حیات کے افسانوں کا مطالعہ ہمیں افسانوی فضا سے دور کسی ایسی جانب لے جاتا ہے جہاں ہم زندگی کے بنیادی مسائل پر غور کرنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں۔ کسی ماہر فن افسانہ نگار کے افسانے قرات کی دو سطحوں پر سفر کرتے ہیں۔ ایک سطح تو قرات کی وہ ہوتی ہے جو عام فہم ہے اور افسانے میں سطحی طور پر جھلکتی ہے اور دوسری قرات وہ ہے جہاں افسانہ نگار کا وسیع تر رجحان اور زندگی کے متعلق اس کا نقطہئ نظر کبھی واضح طور پر اور کبھی پوشیدہ طور پر بار بار افسانے میں جھلکتا ہے۔ چنانچہ کسی افسانہ نگار کا تجزیہ کرنے والے کے لئے ضروی ہے کہ تجزیہ نگار یہ دیکھے کہ افسانے کی دوسری قرات ہم سے کیا مطالبہ کررہی ہے۔ دوسری قرات کے حامل افسانہ نگار عام سطح سے یقیناً بلند ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے میں کوئی ذہنی تبدیلی پیدا کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔
ساو ¿تھ ایسٹ سنٹرل ریلوے زون سے چیف کنٹرولر کوچنگ کے عہدہ سے ابھی ریٹائر ہوئے خورشید حیات نے ایم اے ' اردو ( 1984 )، مگدھ یونیورسٹی ، بودھ گیا سے کیا ،گزشتہ 35 برسوں سے بلاسپور چھتیس گڑھ میں ان کا قیام ہے ،، پہلی مطبوعہ کہانی :: " انوکھی تبدیلی " 1974 عیسوی ، " نور " رامپور یو پی۔ افسانوی مجموعہ :: " ایڈز ( اردو ) 2000 عیسوی "سورج ابھی جاگ رہا ہے" ( ہندی ) 2004 عیسوی" لفظ تم بولتے کیوں ہو ؟ " ( تخلیقی تنقید ) دسمبر 2017 عیسوی * قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ،اشاعتی انتظار :: پہاڑ ندی عورت ( افسانوی مجموعہ ) انعامات و اعزازات :: 25 جنوری 1985 کو گورنر بہار ڈاکٹر اخلاق الرحمٰن کے ہاتھوں ' قاضی عبد الودود پر ہونے والے نویں ایشیائی سمینار میں انعام سے نوازا گیا۔ صدر جمہوریہ ہند عالیجناب کے آر نرائنن نے سال 2000 میں افسانوی مجموعہ " ایڈز " اور طویل نظم" مٹی کی ہانڈی " کے لئے تحریری طور پر تعریفی کلمات سے نوازا۔چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میرٹھ ، کا 12 ' اگست 2016 میں ڈاکٹر منظر کاظمی نیشنل فکشن ایوارڈ۔ المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ اور ساہتیہ کار ادبی سنگم کی طرف سے 29 مارچ دو ہزار اٹھارہ کو کلیم الدین احمد ایوارڈ ،سال دو ہزار اٹھارہ میں " لفظ تم بولتے کیوں ہو ؟ کتاب پر ، اتر پردیش اردو اکادمی کا انعام۔2021 میں چھتیس گڑھ اردو اکادمی کی طرف سے مجموعی ادبی خدمات کے لیے مولانا عبدالرو ¿ف ایوارڈ ، بھارتیہ گیان پیٹھ سے شائع ہونے والی کتاب " آج کی اردو کہانی " ( ہندوستان۔ پاکستان کی 25 کہانیوں کا انتخاب ) میں کہانی " پانچ انگلیاں " شامل۔گرو گھاسی داس سنٹرل یونیورسٹی کے نصاب میں ' سال 2004 سے کہانی " طوفان سے پہلے اور طوفان کے بعد " اور تنقیدی مقالہ " تنقید اور تخلیق کا رشتہ " شامل ہے۔رابن شا پشپ کی کتاب یووا اردو کتھاکار میں کہانی آئیڈیالوجی کی موت ،شامل اردو افسانوں کے انتخاب میں کئی افسانے شامل ،ادارت :: ماہنامہ " عصری کشش " گیا ' فروری 1981 ، اعزازی نائب مدیر :: " دیدہ ور " باسٹن امریکہ، ریلوے میں بہترین کارکردگی کے لئے ہر سال سبھی بڑے اعزازات و انعامات سے نوازا جاتا رہا ہے۔ ریلوے بورڈ کے بھی کئی انعام۔ہندوستان کے مختلف صوبوں کی اردو اکادمی / یونیورسٹیز میں منعقد ہونے والے نیشنل / انٹر نیشنل سیمینار / شام افسانہ میں شرکت ،آل انڈیا ریڈیو سے کہانیوں کا نشر 1983 عیسوی سے۔
مشرف عالم ذوقی خورشید حیات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”خورشید حیات نہ صرف میرے دوستوں میں شامل ہیں بلکہ اس زمانے کے کئی واقعات کے گواہ بھی۔ ہم نے قریب قریب ساتھ لکھنا شروع کیا -اس زمانے میں امتحان دینے گیا جانے کا اتفاق ہوا تو خورشید کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملا۔ شرافت کے ساتھ خلوص اور ایمانداری بھی خورشید کے حصّے میں آئی۔ یہ خاندانی وراثت ہے۔ اس وراثت کو سنبھالنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ وہ زمانہ تھا ،جب ہر طرف جدیدیت کی آواز گونجتی تھی ...ایک بڑی آواز کلام حیدری کی بھی اٹھی ...وہ گیا سے مورچہ اور آہنگ نکالتے تھے۔خورشید آہنگ میں اپنے بولڈ رویے اور ادب کی زبردست بھوک کے ساتھ چھائے رہتے تھے۔ پھر وقت گزرا .....خورشید کا قلم پانچ سال خاموش ہو گیا ....2005 میں اہلیہ کی بیماری میں خود کو وقف کر دیناپڑا ..قلم کو کنارے رکھ دینا کوئی آسان کام نہ تھا ....پھر وہ وقت بھی آیا جب بچوں کے لئے ماں باپ دونوں کا فرض خورشید نے ادا کیا ...اور اب بھی کر رہے ہیں ....خورشید اور حقانی میں قدر مشترک یہ کہ دونوں جملے تراشتے ہیں۔ خورشید تنقید کو بھی تخلیقی تنقید کے زمرے میں رکھتے ہیں اور بات سے بات پیدا کرنے کا ہنر جانتے ہیں ...." ایڈز" خورشید کی پرانی کہانی ہے , اکیسویں صدی میں خورشید نے کئی کہانیاں یاد رہ جانے والی لکھیں ، آدم خور ، پانچ انگلیاں ، پہاڑ ندی عورت ، چھالیا،میری دعا ہے ...وہ ...اپنا چہرہ ،اپنی ایمانداری ،اپنا کومیٹمنٹ ادب کو سونپ دیں“۔
حقانی القاسمی لکھتے ہیں کہ ” خورشید حیات کی نثر تمام صنفی تشخصات اور تعینات کو توڑتی ہوئی اس آکاش گنگا میں مل جاتی ہے جہاں بہت سے رنگوں ، صورتوں ، شکلوں اور خوشبوو ¿ں کا مِشرن ہوتا ہے۔ ان کی نثر میں مکرند یا شہد گل کی سی کیفیت ہے۔ ان کی تخلیقی نثر میں جو شگفتگی ہے اس سے نصابی نثر بالکل محروم ہے - ان کی غیر منجمد ، متحرک نثر میں طغیانی ، جولانی اور وہ روانی ہے جس سے لفظوں کی توانائی اور تابناکی کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے - ان کی باطنی لہروں سے لفظ ، حروف اور جملوں کے چہرے بنتے ہیں - وہ کلپنا لوک سے ہوتے ہوئے حقیقت کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں اور حیات و کائنات کو اپنی سجیلی اور البیلی نثر میں ڈھال کر دنیا کے رو برو پیش کرتے ہیں۔خورشید حیات ایک نکتہ شناس تخلیقی ذہن کے نام ہے جو ہر ایک شئے کو گنگوتری کے تازہ پانی کی صورت میں دیکھنے کا عادی ہے۔ ان کی ہر تحریر میں ایک نئی برق تجلی ملتی ہے اور ایک نیا طور بھی۔انہوں نے اپنی تخلیقی مسافت میں تنقیدی ادراک و بصارت کو بھی شامل کر رکھا ہے۔ تنقید بھی ان کی نئی جولان گاہ ہے۔ وہ تخلیق اور تنقید کے امتزاج سے ادب کی نئی تختیاں تحریر کر رہے ہیں۔ ان تختیوں پر بہت سے گمنام اور فراموش کردہ شخصیتوں کے چہرے بھی روشن ہیں۔ وہ اجاڑ اور ویران علاقوں کو بھی اپنے لفظوں سے آباد کر رہے ہیں۔ ان کے یہاں لفظ بولتے ہیں اور بولتے بولتے جو لفظ خاموش ہو جاتے ہیں ان میں بھی بڑی توانائی ہے۔خورشید حیات کی تنقید ہمارے ذہنوں پر ایک نئی دستک دیتی ہے اور مجھے کامل یقین ہے کہ ان نئی دستکوں سے ادب جہاں کی کچھ نئی کھڑکیاں کھلیں گی اور نئے دریچے وا ہوں گے۔ ہمارے عہد کا نقّاد اگر ایک دریچہ بھی کھولنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ ہمارے لئے قابل احترام ہے۔“
اقبال مسعود رقم طراز ہیں:خورشید حیات میں تخلیقی وفور اس قدر شدید ہے کہ وہ ادبی اصناف کی چہار دیواری میں محبوس نہیں رہ سکتا۔ یہ تو وہ گنگا ہے جو آکاش سے اترتی ہے تو شیو کو بھی جھیلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ یہ اس چشمے کی طرح ہے جو ممتا کی بیقراری کے آگے سر نگوں ہو کر ریگستان میں جاری ہو جاتا ہے۔ خورشید حیات کی یہ گنگا کوہ ہمالیہ کی سنگلاخ برفانی چٹانوں سے اس طرح ابلتی ہے کہ پابندی کے ہر دائرے کو تہس نہس کر دیتی ہے۔ خورشید حیات کی اس تخلیقی کائنات میں کہانی ہو ، افسانہ ہو یا تنقید یا بیان واقعہ ، ہر جگہ تخلیقی نمو اظہار پاتا نظر آتا ہے۔ دراصل خورشید حیات کے یہ تنقیدی رشحات کے مطالعے کے لئے لفظ کے قدیم معنوں میں ترمیم کرنا ہو گی۔ اب تنقید کو سقراط کی طرح زہر پینے یا ادب کی سیتا کو اپنی حرمت کے لئے شعلوں سے گزرنے کا زمانہ بیت گیا اب قاری اساس تنقید ، مدرسی تنقید وغیرہ الفاظ کے احرام بنانے یا تاج محل تعمیر کرنے کا وقت نہیں ہے۔ ایک خوبصورت مہذب ماحول میں ، ایک تہذیب پروردہ لہجے میں ، لفظ و معنی کی دنیا اس طرح خلق کرنا کہ وہ پرانی روایات سے یکسر جدا ہوتے ہوئے بھی اس کی کوکھ سے جنم لے جیسے ایک بیج سے ہزار بیج . جیسے ایک پھول سے لاکھوں پھول کھل جاتے ہیں۔ کیوں کہ اب اس خون آشام دنیا میں ایک نئی محبّت کی تنقیدی تھیوری کے لئے میدان ہموار کرنا ہوگا اور اسی کسوٹی پر تخلیق کو پرکھنا ہو گا۔ جس کی خورشید حیات نے آبیاری کی ہے۔“
ڈاکٹر ابرار رحمانی لکھتے ہیں کہ خورشید حیات کا ’ادب کا بدلا ہوا چہرہ‘ پسند آیا۔ اس وجہ سے نہیں کہ اس میں ناچیز کا بھی ذکر ہوا ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں بے باکانہ باتیں کہی گئی ہیں۔یہ بھی صحیح ہے کہ بعض باتیں متنازع فیہ اور قابل توضیح ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اس مضمون کو پڑھ کر کتنے چغادریوں نے پہلو بدلے ہوں گے۔ یہ حالات آپ کے لئے پریشان کن ضرور ہوں گے۔ لیکن اس سے گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔“
شاہد حبیب خورشید حیات کی کہانیوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ خورشید حیات کی کہانی کائنات بڑی وسیع ہے۔ان کے افسانوں کے موضوعات میں ایک تنوع پایا جاتا ہے۔ انہوںنے اپنے افسانوںمیںاپنے عہدکے جلتے موضوعات(Burning Topics) کو بھی فنی پاسداریوں کے ساتھ برتنے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ کہیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ فنکار کے پاس خبر تو ہے لیکن خبر کو کہانی بنانے کی ہنرمندی میں کوئی کمی رہ گئی ہے، بلکہ جس موضوع کو انہوں نے چھوا، اسے کہانی بنانے کے معراج تک پہنچایا ہے۔ وہ ایک حساس اور باخبر فنکار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اپنے مطالعہ حیات اور مشاہدہ زندگی کے وسیع تر تجربات کی روشنی میں جب وہ کوئی بات کہتے ہیں توان کی صداقت پر قاری کو کسی طرح کے تذبذب کا شکار نہیں ہونا پڑتا۔ کہانی کی روایت میں ایک طرح کی غیر منطقی ربط کے باوجود صرف مشاہدات کے بل بوتے ایسی باتیں بھی قاری سے منوا لے جاتے ہیں جس پر کہانی سے باہر کم ہی اعتماد کیا جا سکتا ہے۔خورشید حیات ایک انسان دوست فنکار ہیں اور انسانی اقدار پر چوٹ کرنے والی ہر بات ان کو پریشان کر دیتی ہے۔ اس لیے علامتی پیرائے میں اپنی باتیں کہنے کے باوجود انہوں نے بارہا ایسے موضوعات کا انتخاب کیاجو کسی نہ کسی انداز میں انسان کی زندگی کو منفی طور سے متاثر کر رہی تھیں۔ اس میں ایسی باتیں بھی آ گئیں ہیں جو کسی نہ کسی ناحیے سے حقوق انسانی سے متعلق کہی جا سکتی ہیں۔
ڈاکٹر محمد شاہد خورشید حیات کی تنقیدی بصیرت سے متاثر ہوکر لکھتے ہیں کہ تخلیقی تنقید کے حوالے سے خورشید حیات کا نام ادبی افق پر آفتاب تازہ کی مانند اپنی رعنائیاں اور رنگینیاں لٹا رہا ہے۔جدید تنقیدی شعور اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل جدید ذہنوں میں خورشید حیات منفرد اور نمایاں شناخت کا حامل نام ہے۔ تنقید دراصل تخلیقی تنقید میں تنقید اور تخلیق اسی طرح ہم آہنگ ہوگئی ہیں جس طرح یہ ترکیب (تخلیقی تنقید) دونوں (تخلیق اور تنقید) کے امتزاج سے عمل میں آئی ہے۔ یہ دو مختلف رنگوں کی جدید ادبی حسن کاری ہے۔ تخلیقی تنقید کسی تخلیق کی ایسی تنقید ہے جو اس میں تخلیق کی نئی جہتیں پیدا کر دیتی ہے، تخلیق شدہ فنپارے کو بنیاد بنا کر اس کی از سر تخلیق کرتی ہے اوراس تنقید و تخلیق کو ہم ملاکر ایک کر دیتی ہے۔ بقول خورشید حیات ”تخلیقی تنقید تخلیق کی از سر نو تخلیق کا نام ہے“۔ تخلیقی تنقید ، تنقید میں تخلیقی رنگ بھرنے کا عمل ہے۔
انور سدید ( پاکستان ) ، گوپی چند نارنگ ، تارا چرن رستوگی ، ہندی کے مشہور آلوچک ڈاکٹر سریندر چودھری ، رام لعل۔ مظہر امام ، نسیم سید ، احمد سہیل ، کلام حیدری ، احمد یوسف ، شوکت حیات ، افتخار امام صدیقی ، ڈاکٹر محمود شیخ ، نور الحسنین ، جوگندر پال ، حقانی القاسمی ، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی ، شمویل احمد ، اور درجنوں ایسے معتبر نام ہیں جنہوں نے ان کے افسانوں اور تنقید کی تخلیقی نثر کی تعریف کی ہے۔
کلام حیدری فرماتے ہیں " گولڈ رش کے تحت دوڑتا بھاگتا فرد ایک بھیڑ چال کی نمائندگی کرتا ہے۔ سادگی معصومیت اور قناعت سے قطع تعلق۔ جس تعلق کو جنم دیتا ہے وہ Fatal ہے۔ فطرت سے انحراف کی سزا فطرت ہی تجویز کرتی ہے۔ حرص بربادی کی سو صورتیں رکھتی ہے۔ افسانہ ’ایڈز‘ جدید مغربی تہذیب پر بھی طنز ہے اور ایشیائی غریب ملکوں کی بے چارگی پر بھی۔
احمد یوسف :
خورشید حیات افسانہ نگاروں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، جو جدیدیدت کا طوفان تھمنے کے بعد ہمارے سامنے آیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو نہ تو ادب میں صرف خاک و خوں میں لتھڑی ہوئی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے تھے اور نہ وہ تھے جو زندگی کی بے معنویت کے قائل تھے۔
انور خاں:
”ایڈز“ کا مرکزی خیال بہت اچھا ہے۔
جوگندر پال :
آپ کا افسانوی مجموعہ ’ایڈز‘ ملا۔ اس گراں قدر تحفے کے لئے شکر گزار ہوں۔ میں نے آپ کی کہانیاں پڑھ لی ہیں۔ آپ کے یہاں جینے جھیلنے کی معانی کی تلاش کا جو عمل کارفرما ہے اس میں برابر شریک رہا ہوں۔ اور محظوظ ہوا ہوں۔ اپنے بارے میں آپ کے نوٹ میں اور آپ کے تعلق سے نغمہ حیات کے نوٹ ”حروف جو لفظ بن گئے“ نے بھی مجھے خاص طور پر متوجہ کیا ہے۔ (27اگست 2000)
گوپی چند نارنگ :
آپ کا ’میں‘ بہت خوب ہے۔ لفظ کی حرمت مٹی کی ہانڈی ، لوہے کے برتن ، اپنی مٹی وغیرہ استعاروں کی مدد سے آپ نے اپنی بات نہایت خوبصورتی سے کہہ دی ہے۔
(9نومبر2000)
نظام صدیقی :
دنیا واقعتا بے رحم عجائب گاہ ہے جو مورتیوں کو توڑ کر ہی سجانے کی عادی ہے۔ آپ کا افسانہ ’سوالیہ نشان کے نیچے کا نقطہ‘ (قوس۔ نیا افسانہ نئے نام، مٹی 1985) بہت پسند آیا تھا۔ نویں دہائی کے افسانہ نگاروں پر تفصیل سے ناوک صاحب کی فرمائش پر لکھ دیا تھا۔ ان سے لے کر پڑھ لیجئے۔ مجھے محبت دنیا کی ہر شئے سے زیادہ عزیز ہے۔ آپ محبت کرتے ہیں اتنا ہی کافی ہے۔ (2نومبر 1985)
ڈاکٹر علیم اللہ حالی:
نئے احساسات اور آج کے مسائل کو عصری حالات میں پیش کرنے والی کہانی ’ایڈز‘ بہت دنوں تک یادر ہنے والی تخلیق ہے۔
شوکت حیات :
1970 کے افسانے کی زندہ حسیات کو جن چند افسانہ نگاروں نے تخلیقی صورتیں جھیلتے ہوئے نویں دہائی میں آگے بڑھایا اور تجربات کی نئی منزلوں سے ہمکنار کیا ان میں خورشید حیات کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے افسانے میں کثیر الجہت معنویت بحال کرتے ہوئے ستری افسانے کی نئی علامیت اور معنی آفرینی کی روایت کو تسلسل اور ارتقائ سے ہم آمیز کیا ہے۔۔
تجرید کو تجسیمیت اور راست بیانیہ کو تہہ داری سے منور کرتے ہوئے ’ایڈز‘،’طوفان سے پہلے اور طوفان کے بعد‘،’لفظوں کی موت‘، ’بابا‘ جیسے اہم افسانے انہوں نے تخلیق کئے جو زندگی کو فطرت کاعطیہ سمجھتے ہوئے آج کے Gold تھا۔ جس کی کارگزاریوں پر مشتمل گوپی چند نارنگ کی ضخیم کتاب ’نیا اردو افسانہ انتخاب، تجزیے اور مباحث‘ تاریخی اور دستاویزی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس ورکشاپ میں 1970 کے افسانہ نگار پیش پیش تھے۔ خورشید حیات نے اس ہنگامہ خیز ورکشاپ کے بعض اہم شرکائ کا انٹرویو لیا اور پورے ورکشاپ کا جائزہ لیتے ہوئے ’آہنگ‘ کے خصوصی شمارہ ورکشاپ نمبر کے توسط سے ایک نیا ویڑن عطا کیا۔ افسانوں کی تخلیقی تنقید کے سلسلے میں بھی سنجیدگی سے انہوں نے کئی قابل ذکر کام کئے ہیں۔
افتخار امام صدیقی
تخلیقی بیانیہ سے جنم لینے والے ایک معیاری تخلیق کار کا نام خورشید حیات ہے جس نے ’ایڈز‘ (دو ہزار عیسوی) کے ذریعے اپنا تخلیقی اظہارکیا تھا۔ اول تو یہ عنوان ہی ایک ایسا بلیغ استعارہ ہے کہ اس سے ہندوستانی سماج کی تمام تر برائیوں، خطرناک امراض کو اپنی کہانیوں کا موضوع کرنے والے خورشید حیات نے کہانی کو کسی نیپام بم کی طرح بنا دیا۔ خورشید حیات کی جو نمائندہ کہانیاں ہیں ان میں لفظوں کی موت، چلتی رکتی گاڑی کے بیچ، سوالیہ نشان کے نیچے کا نقطہ، نروان، بابا، طوفان سے پہلے اور طوفان کے بعد۔ خورشید کے یہاں ایک طرح کی خودکلامی ہے۔آئندہ جب بھی خورشید حیات پر کوئی مقالہ لکھوں گا تو ان کے افسانوں سے نثری قتلے،نظم درنظم سجا کر بتانے کی سعی کروں گا کہ خورشید اگر افسانہ نگار نہیں ہوتے تو شاعر ہوتے۔ (شاعر، نومبر 2010)
سچ تو یہ ہے کہ اس صدی میں بھی ان کی کہانیوں اور تنقید کی تخلیقی نثر کے اہل علم شیدائی ہیں۔
مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ خورشید حیات اپنے افسانے میں زندگی کے بہت سارے مسائل اور درد کو سمیٹے ہوئے آگے بڑھے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پیش کردہ تمام مسائل کو حل کرنا جانتے ہیں مگر اسے جان بوجھ کر اپنی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے تمام مسائل جب ان کے آس پاس گھر کرتے ہیں تو ان کا وجود مسائل کے بوجھ سے دب جاتا ہے۔پھر وہ ان ہی مسائل میں اپنے آپ کو تلاش بھی کرلیتے ہیں اور ان مسائل کو زندہ رکھنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ زندگی کے یہ مسائل جب خورشید حیات کے افسانوں میں خروج کرتے ہیں توایسا محسوس ہوتا ہے یہ کسی انجانی وحدت میں سمٹ آ ئے ہیں۔ اس طرح مسائل کے ساتھ ان کا ربط باقی بھی رہتا ہے اور مسائل اپنے حل کے بغیر باقی بھی رہ جاتے ہیں۔ اس طرح داستان رنگ زندگی کے مسائل کو سمجھنے میں وہ بہت بے باک ہیں۔اسی بے باکی نے انہیں مسائل کے اسرار سے گذرنا سکھایا ہے۔ان کا افسانہ چھالیا دےکھےں
زمین سے لے کر آسمانوں تک کے دُھواں دُھواں منظر کو دیکھ جب وہ مضطرب ہو جاتی ، اور رات ایک انجانے خوف سے سہمے ہوئے گزر جاتی - تب ہوتا یہ تھا کہ ا ±س کی
بوجھل آنکھوں میں ص ±بح کی سپیدی ات ±ر آتی تھی اور شام ا ±داس ا ±داس سی سیاہ رنگت لئے رات کی سیاہی سے جا ملتی تھی -
ہر روز ک ±چھ ایسا ہی ہوتا تھا - ایک نیا درد سینے میں دبا کر وہ سو جایا کرتی تھی - کلینڈر کی ہر تاریخ پر س ±رخ دائرے کا رنگ گہرا ہو جایا کرتا تھا اور سبز دائرے کی تاریخیں مدھم مدھم سی ہوئی جاتی تھیں - معلوم نہیں ، کب اور کیسے تہذیب کی سوندھی سوندھی خوشبوو ¿ں والی گلیاں ،سڑک سے جا ملیں - اسے جوانی کا وہ زمانہ یاد آیا جب وہ غرارہ پہنے ، گرمی کی تپتی دوپہریا میں ، اپنی خوبصورت جوتیوں کو مٹی رنگ گلی کی سہیلی بنا کر ، کولتار کی " نئی سڑک " پر نکلی تھی تو ج ±وتیاں سڑک کے پگھلتے کولتار سے چپک چپک سی گئی تھیں - پھر ہ ±وا یہ کہ سڑک بہت ڈراﺅنی صورت لئے سامنے آئی -- کہیں ایسا تو نہیں کہ گر گے اسی زمانے سے گ ±رگابی کو کچھ زیادہ پریشان کر نا شروع کیے ہوں ۔
’دولا مولا ‘ کا ’ د ±ولا ب ‘ بڑے دالان میں اب کہاں ؟
ہر تاریخ رفتنی -
سنہری تہذیب کا روحا کنواں ، گزشتنی -
حدود سے تجاوز کرنا بھی ہمیں فنا کے کتنے قریب لے آیا ہے -
وہ اکثر عرق گ ±لاب میں گ ±ھل مل چکے سفید چ ±ونا کو ململ کے پھٹے ہ ±وئے د ±وپٹّے سے چھانتے وقت سوچا کرتی , یہ سفیدی اور سیاہی کے رشتے بھی کتنے گہرے ہوتے ہیں - کبھی ختم نہیں ہوتے اور وہ جو عبا والے ہیں سفید چھوروں کے غ ±لام بن کر ، رک ±وع کی حالت میں ، ک ±چھ اس طرح مغرب کی طرف بڑھے چلے جا رہے ہیں ، کہ ا ±نہیں نہ تو عالم دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی رب العالمین !
سترہ بیویوں کے پینتالیس بیٹوں کی شاہی ک ±رسیاں ہر دن اونچی ہوتی جا رہی ہیں اور ماضی کی طرف پیٹھ کر کے مستقبل کی فکر میں ج ±ٹے مٹی بدن شہزادے ، س ±نہری تہذیب کے ورق ورق ، پرت پرت کو مٹانے میں لگے ہیں - صحرائی دولت کے مرکز پر سب کی نگاہیں ٹکی ہیں - مگر یہ شہزادے ، اپنی آنکھوں میں ایک الگ قسم کا خمار اور سرور لئے لبوں پر رقص کرتی راگنی کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھے چلے جا رہے ہیں -
س ±نہری تہذیب کی ہر تحریر کے ساتھ چلنے والے فرزند کے ہمراہ پاو ¿ں کے چھالے اور پپڑ ائے ہونٹ چلتے تھے مگر آج ؟ -
او میرے روحا کنواں -
او مور سنگی اب تو گھر ما ، نہ تو انگنا ہے اور نہ کنواں
وہ جو ایک گاو ¿ں تھا زمانہ جاہلیت میں جہاں ہر سال میلہ لگا کرتا تھا اور بے سرو سامان / کمزور کے جنوں رنگ " عشق " کو اک " معجزہ " اعتبار دے جاتا تھا - اب وہ " گاو ¿ں "، گاو ¿ں نہ رہا
یوماً فیوماًتاریخیں مٹ رہی ہیں اور نئی تاریخ کی عالی شان عمارت کھڑی ہو رہی ہے -
ہر شجر کی شاخیں ٹوٹ رہی ہیں ، سبز پتے زرد ہو رہے ہیں ، اور اپنی چہچہاہٹوں کو کائنات کا حصہ بنانے والی گوریّا اپنی قبر کو ساتھ لئے اڑتی پھر رہی ہے -
گوریّا ،بیٹیاں
اک طرف کالے کوو ¿ں کی کائیں کائیں
دوسری طرف مائیں مائیں -
یہ چہار س ±و پھیلتے اندھیاروں کا قد ہر روز کاہے بڑا ہ ±وا جائے ہے جی -----؟
کبھی روشنی کی گود میں اندھیرا تو کبھی اندھیرے کی گود کے ایک کونے میں د ±بکی ہوئی ، سمٹی ہوئی روشنی کی سسکیاں اور ہم ہیں کہ ہر دن گود بھرائی کا جشن مناتے رہتے ہیں -
سنتے ہیں اندھیرے کی جب موت ہوتی ہے تو ایک نئے ا ±جیارے کا جنم ہوتا ہے اور جب ا ±جلے ا ±جلے سے ابدان کی بہت تیزی سے موت ہونے لگتی ہے تو رات ، لمبی اور گہری سیاہی لئے سارے عالم کو ڈھانپنے کی ج ±گت میں لگ جاتی ہے -
---
س ±لطانی و قہّاری کے مظاہر میں اتنی دیری کاہے کرو ہو جی "
کہانی نے انگنائی میں پھر سے انگڑائی لی -
اکثر جب وہ بڑے دالان میں تنہا ہوتی اور ٹی - وی پر خبریں دیکھتی - س ±نتی تو ا ±س کی زبان سے لہ ±و لہ ±و منظر دیکھ , نا چاہتے ہوئے بھی اس طرح کے جم ±لے زبان سے ادا ہو جاتے کہ صندل باہیں جو سوتے جاگتے تکیہ ہوا کرتی تھیں وہ تتلی کی طرح اک نیا منظر لکھ پھ ±ر سے اڑ گئیں - تتلی ہو یا سہیلی وہ زیادہ عمر لے کر کہاں آتی ہے شاید کہ اس کی وجہ رنگریز سے ان کا گہرا رشتہ رہا ہو - شاید کہ اس کی وجہ باغیچہ کے بعض پھولوں میں تیزی سے رچتی بستی جا رہی زہریلی خوشبو رہی ہو - اب تو باغیچہ کے مخملی احساس والے نقوش بھی تاریخ کی طرح مٹتے جا رہے ہیں - کہیں ایسا تو نہیں کہ راجہ نے ہر باغیچہ کو درباریوں کے حوالے کر دیا ہے -
راگ درباری -درباری راگ -
ؒ ُسروں کی بڑھت تان پلٹا اور مینڈھ کے معنی تیزی سے بدلتے جا رہے ہیں اور چھالیا ؟
اس کے معنی بھی بدل گئے ہیں کہ موت کی تجارت میں بہت مہنگی ہو گئی ہے س ±پاری -
----
گولیوں کی آوازوں سے سارے پنچھی جاگے ہیں رے ---------- !
فاطمہ ! اپنی بیٹی عالیہ کو پیٹھ پر باندھ لو - آدمی بارودی بدن لئے درس گاہوں میں گھوم رہے ہیںخالہ امّی کی آواز خود کو خود سے آزاد کرتے ہوئے ح ±جرے سے باہر نکلی -
سفید رنگ کے ساتھ نیلے بارڈر والی ساڑھی سے لپٹی ، چمکتی آنکھوں والی خالہ امّی تیز تیز ہاتھ ہلاتے ہوئے آنگن کی طرف لپکی آئیں - ان کی گفتگو کا دائرہ ، جو کبھی جانتا ، کوٹھی ، باورچی خانہ ، اور نعمت خانہ کے چھوٹے سے دروازے کو بند کرتے ہوئے مہمان خانہ تک پھیل جایا کرتا تھا آج پاندان میں سمٹا ہوا ہے - انہوں نے جھینی بینی کھڑکی سے باہر جھانکا - باہر پھلواری میں ہر رنگ کے اونچے چھوٹے قد والے اشجار اپنی جڑوں سے جڑے ہوئے تھے ، بہتے دریا کی نمی پا کر مدمست تھے مگر خبروں کی سرخیاں بن چکا آدمی ----؟
آدمی نے گاو ¿ں کے اس تالاب کا پانی پی لیا تھا جہاں اکثر رات گئے ایک خونخوار شیر آیا کرتا تھا - شیر نے تو کبھی گاو ¿ں کی الگ الگ درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے معص ±وم بچوں کا ک ±چھ نہیں بگاڑا مگر مر ب ±ھکّا کی محب ±وب غذا الف سے اللہ اور ای سے ایشور پڑھنے والے بچّے بن گئے -
خالہ امی کے شوہر وجاہت حسین کو دہشت گرد پچھلے برس ڈکار گئے تھے - تب سے وہ میرے ساتھ تھیں - قدرت نے انھیں نہ تو بیٹے دئے اور نہ ہی بیٹی - وہ بالکل اکیلی ہو گئی تھیں - جب جسم حوادث کا آئینہ بن جاتا ہے تو لفظ اور زبان دونوں شور کرتے ہیں -
گالیوں اور کوسنوں کی رفتار لئے خالہ امّی ، واپس میری پیٹھ سے چپکی عالیہ کے قریب آ گئیں -
"اف آج کی فاطمہ اور عالیہ اب درس گاہ کیسے جائیں گی -؟؟"
"بیٹیاں تو دہشت گرد نہیں ہوتیں پھر بیٹیوں کو ماں کی کوکھ میں کیوں مار دیتے ہیں - ؟"
"اچھا ہوا میں نے بچے نہیں جنے "
"بانجھ - بانجھ کی آوازیں پیچھا کرتی رہیں اور ت ±مرے خالو بھی ایسے تھے کہ دوسری عورت نہیں لائے "
ما فوق الفطرت کی ملکہ قادوسی چڑیا اب کاہے نہ آوے ہے جی خالہ امّی !، دیکھو نا گورے چھورے کو ، اندھیارے کی تجارت میں لگے ہیں اور قاضی کے گھر کے چوہے بھی سیانے ہوئے جائے ہیں -
عالیہ جو بہت دیر سے ہماری باتیں سن رہی تھی ،خالہ امی کے حجرہ کی طرف دبے قدموں سے جانے لگی - جہاں فرش پر تراشا ہوا کھوپرا ، چھالیوں کی پرتیں ، چاندی کی طشتری میں رکھے زعفران اور خالہ امی کی انگشتریاں پڑی تھیں -
باہر پھلواری کی طرف سے آوازوں کا شور ہم سب کا پیچھا کر رہا تھا -
مارون عبّاد !
مارون عبّاد !!
" "یس لہو کمال من ھ ±وا کاملاً
وہ جو بڑے کمالات کا تھا بے کمال ہو گیا -
" آدمی اب آدمی نہ رہ گئل "
"منیشی منیشی لاگا لیڑو "
" او نا دیوڈا "
گلی کے مقابلے میں سڑک اب کتنی ڈرا ﺅ نی ہو گئی آج کے گرامیر اولی گولی شہر راستہ ت ±ولنا بھیاوہ ہوئی گیچھے "
چھالیا کے بدلتے رنگ نے " چھاتم چھاتی" کے دھواں دھواں منظر کے درمیان چھاتی کے کواڑ " کھول کر رکھ دئے تھے اور خالہ امی ، مجھے اور عالیہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹے چاندی کے پاندان کو غور سے گھ ±ور رہی تھیں ۔
٭٭٭
Dr.Mansoor Khushter
Darbhanga Times
purani munsafi
Darbhanga
bihar 846004
mob -9234772764
دیدبان شمارہ۔۱۷
خورشید کی تخلیقی اور حیاتی تنقید
ڈاکٹر منصور خوشتر
جسم کو روح کے آداب سیکھانے والے تخلیقی فنکار کا نام خورشید حیات ہے۔ لہو کی گردش میں جب ایک کہانی کار مچلنے لگا تو ان کی پہلی کہانی " انوکھی تبدیلی " 1974 عیسوی میں شائع ہوئی - ابتداءمیں بچوں کے رسالے میں وہ خوب چھپے۔ ان میں خاص طور سے شہد ، گیا ، پیام تعلیم ، دہلی ، نور رامپور ، الحسنات ، نوخیز کلکتہ ، خوشبو ، سہسرام ، کھلونا ، آجکل ضمیمہ دہلی وغیرہ۔ اپنے نئے لہجے کے ساتھ کھوئی ہوئی راہوں کی تلاش میں وہ بچوں کی کہانیوں سے الگ 1980 سے جدید کہانی سے جڑ گئے۔ خورشید حیات پر نومبر 1986 میں " معلم اردو" لکھنو ¿ نے خصوصی گوشہ شائع کیا۔ یہ وہ ڑمانہ تھا جب بغیر پیسے کے تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا تھا۔ 1986 میں ریلوے کی زندگی کا حصہ بننے سے پہلے کئی اہم ادبی رسالہ کا خصوصی شمارہ ، گواہ ہے۔
انہوں نے اپنے تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں سے اردو ادب کو ایک نیا رنگ و آہنگ دیا ہے اور ادب میں ایک نئی بیداری کے ساتھ ، روحانیت اور رومانیت کی دھن کو اکیسویں صدی میں بھی عام کیا ہے ۔ خورشید حیات نے عصری تقاضوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی کہانی پہاڑ ندی عورت ، پانچ انگلیاں ، آدم خور ، یہ اسی کی آواز ہے ، نغمہ آپا سے بہت ڈر لگتا ہے ، چھالیا ، اسے فسانہ مت کہنا اور بھی کئی کہانیاں اس بات کی گواہی ہر عہد میں پیش کرتی رہینگی۔ انہیں معلوم ہے کہ فرد سماج کا ایک اہم جزو ہے۔ اسی لئے ان کی زیادہ تر کہانیوں کے کردار آج کے آدمی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ بولتے ہیں۔ ان کا نام سید محمّد خورشید حیات اور قلمی نام خورشید حیات ہے۔ 28 نومبر 1960 کو رانچی میں پیدا ہوئے۔خورشید حیات 1980 کے بعد کی نسل سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے کلام حیدری اور غیاث احمد گدی کی سرپرستی میں اپنا تخلیقی سفر شروع کیا اور بہت جلد مشہور ہوئی۔خورشید حیات نے افسانہ نگاری کے میدان مں قدم رکھتے ہی بہت جلد شہرت حاصل کرلی تھی۔ کلام حیدری کے رسالہ ’آہنگ ‘ میں 1980 کے آس پا س ان کے افسانے شائع ہونا شروع ہوئے اور پھر تمام معیاری ادبی رسالوں میں شائع ہونے لگے۔خورشید حیات کے افسانوں کا مطالعہ ہمیں افسانوی فضا سے دور کسی ایسی جانب لے جاتا ہے جہاں ہم زندگی کے بنیادی مسائل پر غور کرنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں۔ کسی ماہر فن افسانہ نگار کے افسانے قرات کی دو سطحوں پر سفر کرتے ہیں۔ ایک سطح تو قرات کی وہ ہوتی ہے جو عام فہم ہے اور افسانے میں سطحی طور پر جھلکتی ہے اور دوسری قرات وہ ہے جہاں افسانہ نگار کا وسیع تر رجحان اور زندگی کے متعلق اس کا نقطہئ نظر کبھی واضح طور پر اور کبھی پوشیدہ طور پر بار بار افسانے میں جھلکتا ہے۔ چنانچہ کسی افسانہ نگار کا تجزیہ کرنے والے کے لئے ضروی ہے کہ تجزیہ نگار یہ دیکھے کہ افسانے کی دوسری قرات ہم سے کیا مطالبہ کررہی ہے۔ دوسری قرات کے حامل افسانہ نگار عام سطح سے یقیناً بلند ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے میں کوئی ذہنی تبدیلی پیدا کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔
ساو ¿تھ ایسٹ سنٹرل ریلوے زون سے چیف کنٹرولر کوچنگ کے عہدہ سے ابھی ریٹائر ہوئے خورشید حیات نے ایم اے ' اردو ( 1984 )، مگدھ یونیورسٹی ، بودھ گیا سے کیا ،گزشتہ 35 برسوں سے بلاسپور چھتیس گڑھ میں ان کا قیام ہے ،، پہلی مطبوعہ کہانی :: " انوکھی تبدیلی " 1974 عیسوی ، " نور " رامپور یو پی۔ افسانوی مجموعہ :: " ایڈز ( اردو ) 2000 عیسوی "سورج ابھی جاگ رہا ہے" ( ہندی ) 2004 عیسوی" لفظ تم بولتے کیوں ہو ؟ " ( تخلیقی تنقید ) دسمبر 2017 عیسوی * قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ،اشاعتی انتظار :: پہاڑ ندی عورت ( افسانوی مجموعہ ) انعامات و اعزازات :: 25 جنوری 1985 کو گورنر بہار ڈاکٹر اخلاق الرحمٰن کے ہاتھوں ' قاضی عبد الودود پر ہونے والے نویں ایشیائی سمینار میں انعام سے نوازا گیا۔ صدر جمہوریہ ہند عالیجناب کے آر نرائنن نے سال 2000 میں افسانوی مجموعہ " ایڈز " اور طویل نظم" مٹی کی ہانڈی " کے لئے تحریری طور پر تعریفی کلمات سے نوازا۔چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میرٹھ ، کا 12 ' اگست 2016 میں ڈاکٹر منظر کاظمی نیشنل فکشن ایوارڈ۔ المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ اور ساہتیہ کار ادبی سنگم کی طرف سے 29 مارچ دو ہزار اٹھارہ کو کلیم الدین احمد ایوارڈ ،سال دو ہزار اٹھارہ میں " لفظ تم بولتے کیوں ہو ؟ کتاب پر ، اتر پردیش اردو اکادمی کا انعام۔2021 میں چھتیس گڑھ اردو اکادمی کی طرف سے مجموعی ادبی خدمات کے لیے مولانا عبدالرو ¿ف ایوارڈ ، بھارتیہ گیان پیٹھ سے شائع ہونے والی کتاب " آج کی اردو کہانی " ( ہندوستان۔ پاکستان کی 25 کہانیوں کا انتخاب ) میں کہانی " پانچ انگلیاں " شامل۔گرو گھاسی داس سنٹرل یونیورسٹی کے نصاب میں ' سال 2004 سے کہانی " طوفان سے پہلے اور طوفان کے بعد " اور تنقیدی مقالہ " تنقید اور تخلیق کا رشتہ " شامل ہے۔رابن شا پشپ کی کتاب یووا اردو کتھاکار میں کہانی آئیڈیالوجی کی موت ،شامل اردو افسانوں کے انتخاب میں کئی افسانے شامل ،ادارت :: ماہنامہ " عصری کشش " گیا ' فروری 1981 ، اعزازی نائب مدیر :: " دیدہ ور " باسٹن امریکہ، ریلوے میں بہترین کارکردگی کے لئے ہر سال سبھی بڑے اعزازات و انعامات سے نوازا جاتا رہا ہے۔ ریلوے بورڈ کے بھی کئی انعام۔ہندوستان کے مختلف صوبوں کی اردو اکادمی / یونیورسٹیز میں منعقد ہونے والے نیشنل / انٹر نیشنل سیمینار / شام افسانہ میں شرکت ،آل انڈیا ریڈیو سے کہانیوں کا نشر 1983 عیسوی سے۔
مشرف عالم ذوقی خورشید حیات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”خورشید حیات نہ صرف میرے دوستوں میں شامل ہیں بلکہ اس زمانے کے کئی واقعات کے گواہ بھی۔ ہم نے قریب قریب ساتھ لکھنا شروع کیا -اس زمانے میں امتحان دینے گیا جانے کا اتفاق ہوا تو خورشید کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملا۔ شرافت کے ساتھ خلوص اور ایمانداری بھی خورشید کے حصّے میں آئی۔ یہ خاندانی وراثت ہے۔ اس وراثت کو سنبھالنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ وہ زمانہ تھا ،جب ہر طرف جدیدیت کی آواز گونجتی تھی ...ایک بڑی آواز کلام حیدری کی بھی اٹھی ...وہ گیا سے مورچہ اور آہنگ نکالتے تھے۔خورشید آہنگ میں اپنے بولڈ رویے اور ادب کی زبردست بھوک کے ساتھ چھائے رہتے تھے۔ پھر وقت گزرا .....خورشید کا قلم پانچ سال خاموش ہو گیا ....2005 میں اہلیہ کی بیماری میں خود کو وقف کر دیناپڑا ..قلم کو کنارے رکھ دینا کوئی آسان کام نہ تھا ....پھر وہ وقت بھی آیا جب بچوں کے لئے ماں باپ دونوں کا فرض خورشید نے ادا کیا ...اور اب بھی کر رہے ہیں ....خورشید اور حقانی میں قدر مشترک یہ کہ دونوں جملے تراشتے ہیں۔ خورشید تنقید کو بھی تخلیقی تنقید کے زمرے میں رکھتے ہیں اور بات سے بات پیدا کرنے کا ہنر جانتے ہیں ...." ایڈز" خورشید کی پرانی کہانی ہے , اکیسویں صدی میں خورشید نے کئی کہانیاں یاد رہ جانے والی لکھیں ، آدم خور ، پانچ انگلیاں ، پہاڑ ندی عورت ، چھالیا،میری دعا ہے ...وہ ...اپنا چہرہ ،اپنی ایمانداری ،اپنا کومیٹمنٹ ادب کو سونپ دیں“۔
حقانی القاسمی لکھتے ہیں کہ ” خورشید حیات کی نثر تمام صنفی تشخصات اور تعینات کو توڑتی ہوئی اس آکاش گنگا میں مل جاتی ہے جہاں بہت سے رنگوں ، صورتوں ، شکلوں اور خوشبوو ¿ں کا مِشرن ہوتا ہے۔ ان کی نثر میں مکرند یا شہد گل کی سی کیفیت ہے۔ ان کی تخلیقی نثر میں جو شگفتگی ہے اس سے نصابی نثر بالکل محروم ہے - ان کی غیر منجمد ، متحرک نثر میں طغیانی ، جولانی اور وہ روانی ہے جس سے لفظوں کی توانائی اور تابناکی کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے - ان کی باطنی لہروں سے لفظ ، حروف اور جملوں کے چہرے بنتے ہیں - وہ کلپنا لوک سے ہوتے ہوئے حقیقت کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں اور حیات و کائنات کو اپنی سجیلی اور البیلی نثر میں ڈھال کر دنیا کے رو برو پیش کرتے ہیں۔خورشید حیات ایک نکتہ شناس تخلیقی ذہن کے نام ہے جو ہر ایک شئے کو گنگوتری کے تازہ پانی کی صورت میں دیکھنے کا عادی ہے۔ ان کی ہر تحریر میں ایک نئی برق تجلی ملتی ہے اور ایک نیا طور بھی۔انہوں نے اپنی تخلیقی مسافت میں تنقیدی ادراک و بصارت کو بھی شامل کر رکھا ہے۔ تنقید بھی ان کی نئی جولان گاہ ہے۔ وہ تخلیق اور تنقید کے امتزاج سے ادب کی نئی تختیاں تحریر کر رہے ہیں۔ ان تختیوں پر بہت سے گمنام اور فراموش کردہ شخصیتوں کے چہرے بھی روشن ہیں۔ وہ اجاڑ اور ویران علاقوں کو بھی اپنے لفظوں سے آباد کر رہے ہیں۔ ان کے یہاں لفظ بولتے ہیں اور بولتے بولتے جو لفظ خاموش ہو جاتے ہیں ان میں بھی بڑی توانائی ہے۔خورشید حیات کی تنقید ہمارے ذہنوں پر ایک نئی دستک دیتی ہے اور مجھے کامل یقین ہے کہ ان نئی دستکوں سے ادب جہاں کی کچھ نئی کھڑکیاں کھلیں گی اور نئے دریچے وا ہوں گے۔ ہمارے عہد کا نقّاد اگر ایک دریچہ بھی کھولنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ ہمارے لئے قابل احترام ہے۔“
اقبال مسعود رقم طراز ہیں:خورشید حیات میں تخلیقی وفور اس قدر شدید ہے کہ وہ ادبی اصناف کی چہار دیواری میں محبوس نہیں رہ سکتا۔ یہ تو وہ گنگا ہے جو آکاش سے اترتی ہے تو شیو کو بھی جھیلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ یہ اس چشمے کی طرح ہے جو ممتا کی بیقراری کے آگے سر نگوں ہو کر ریگستان میں جاری ہو جاتا ہے۔ خورشید حیات کی یہ گنگا کوہ ہمالیہ کی سنگلاخ برفانی چٹانوں سے اس طرح ابلتی ہے کہ پابندی کے ہر دائرے کو تہس نہس کر دیتی ہے۔ خورشید حیات کی اس تخلیقی کائنات میں کہانی ہو ، افسانہ ہو یا تنقید یا بیان واقعہ ، ہر جگہ تخلیقی نمو اظہار پاتا نظر آتا ہے۔ دراصل خورشید حیات کے یہ تنقیدی رشحات کے مطالعے کے لئے لفظ کے قدیم معنوں میں ترمیم کرنا ہو گی۔ اب تنقید کو سقراط کی طرح زہر پینے یا ادب کی سیتا کو اپنی حرمت کے لئے شعلوں سے گزرنے کا زمانہ بیت گیا اب قاری اساس تنقید ، مدرسی تنقید وغیرہ الفاظ کے احرام بنانے یا تاج محل تعمیر کرنے کا وقت نہیں ہے۔ ایک خوبصورت مہذب ماحول میں ، ایک تہذیب پروردہ لہجے میں ، لفظ و معنی کی دنیا اس طرح خلق کرنا کہ وہ پرانی روایات سے یکسر جدا ہوتے ہوئے بھی اس کی کوکھ سے جنم لے جیسے ایک بیج سے ہزار بیج . جیسے ایک پھول سے لاکھوں پھول کھل جاتے ہیں۔ کیوں کہ اب اس خون آشام دنیا میں ایک نئی محبّت کی تنقیدی تھیوری کے لئے میدان ہموار کرنا ہوگا اور اسی کسوٹی پر تخلیق کو پرکھنا ہو گا۔ جس کی خورشید حیات نے آبیاری کی ہے۔“
ڈاکٹر ابرار رحمانی لکھتے ہیں کہ خورشید حیات کا ’ادب کا بدلا ہوا چہرہ‘ پسند آیا۔ اس وجہ سے نہیں کہ اس میں ناچیز کا بھی ذکر ہوا ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں بے باکانہ باتیں کہی گئی ہیں۔یہ بھی صحیح ہے کہ بعض باتیں متنازع فیہ اور قابل توضیح ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اس مضمون کو پڑھ کر کتنے چغادریوں نے پہلو بدلے ہوں گے۔ یہ حالات آپ کے لئے پریشان کن ضرور ہوں گے۔ لیکن اس سے گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔“
شاہد حبیب خورشید حیات کی کہانیوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ خورشید حیات کی کہانی کائنات بڑی وسیع ہے۔ان کے افسانوں کے موضوعات میں ایک تنوع پایا جاتا ہے۔ انہوںنے اپنے افسانوںمیںاپنے عہدکے جلتے موضوعات(Burning Topics) کو بھی فنی پاسداریوں کے ساتھ برتنے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ کہیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ فنکار کے پاس خبر تو ہے لیکن خبر کو کہانی بنانے کی ہنرمندی میں کوئی کمی رہ گئی ہے، بلکہ جس موضوع کو انہوں نے چھوا، اسے کہانی بنانے کے معراج تک پہنچایا ہے۔ وہ ایک حساس اور باخبر فنکار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اپنے مطالعہ حیات اور مشاہدہ زندگی کے وسیع تر تجربات کی روشنی میں جب وہ کوئی بات کہتے ہیں توان کی صداقت پر قاری کو کسی طرح کے تذبذب کا شکار نہیں ہونا پڑتا۔ کہانی کی روایت میں ایک طرح کی غیر منطقی ربط کے باوجود صرف مشاہدات کے بل بوتے ایسی باتیں بھی قاری سے منوا لے جاتے ہیں جس پر کہانی سے باہر کم ہی اعتماد کیا جا سکتا ہے۔خورشید حیات ایک انسان دوست فنکار ہیں اور انسانی اقدار پر چوٹ کرنے والی ہر بات ان کو پریشان کر دیتی ہے۔ اس لیے علامتی پیرائے میں اپنی باتیں کہنے کے باوجود انہوں نے بارہا ایسے موضوعات کا انتخاب کیاجو کسی نہ کسی انداز میں انسان کی زندگی کو منفی طور سے متاثر کر رہی تھیں۔ اس میں ایسی باتیں بھی آ گئیں ہیں جو کسی نہ کسی ناحیے سے حقوق انسانی سے متعلق کہی جا سکتی ہیں۔
ڈاکٹر محمد شاہد خورشید حیات کی تنقیدی بصیرت سے متاثر ہوکر لکھتے ہیں کہ تخلیقی تنقید کے حوالے سے خورشید حیات کا نام ادبی افق پر آفتاب تازہ کی مانند اپنی رعنائیاں اور رنگینیاں لٹا رہا ہے۔جدید تنقیدی شعور اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل جدید ذہنوں میں خورشید حیات منفرد اور نمایاں شناخت کا حامل نام ہے۔ تنقید دراصل تخلیقی تنقید میں تنقید اور تخلیق اسی طرح ہم آہنگ ہوگئی ہیں جس طرح یہ ترکیب (تخلیقی تنقید) دونوں (تخلیق اور تنقید) کے امتزاج سے عمل میں آئی ہے۔ یہ دو مختلف رنگوں کی جدید ادبی حسن کاری ہے۔ تخلیقی تنقید کسی تخلیق کی ایسی تنقید ہے جو اس میں تخلیق کی نئی جہتیں پیدا کر دیتی ہے، تخلیق شدہ فنپارے کو بنیاد بنا کر اس کی از سر تخلیق کرتی ہے اوراس تنقید و تخلیق کو ہم ملاکر ایک کر دیتی ہے۔ بقول خورشید حیات ”تخلیقی تنقید تخلیق کی از سر نو تخلیق کا نام ہے“۔ تخلیقی تنقید ، تنقید میں تخلیقی رنگ بھرنے کا عمل ہے۔
انور سدید ( پاکستان ) ، گوپی چند نارنگ ، تارا چرن رستوگی ، ہندی کے مشہور آلوچک ڈاکٹر سریندر چودھری ، رام لعل۔ مظہر امام ، نسیم سید ، احمد سہیل ، کلام حیدری ، احمد یوسف ، شوکت حیات ، افتخار امام صدیقی ، ڈاکٹر محمود شیخ ، نور الحسنین ، جوگندر پال ، حقانی القاسمی ، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی ، شمویل احمد ، اور درجنوں ایسے معتبر نام ہیں جنہوں نے ان کے افسانوں اور تنقید کی تخلیقی نثر کی تعریف کی ہے۔
کلام حیدری فرماتے ہیں " گولڈ رش کے تحت دوڑتا بھاگتا فرد ایک بھیڑ چال کی نمائندگی کرتا ہے۔ سادگی معصومیت اور قناعت سے قطع تعلق۔ جس تعلق کو جنم دیتا ہے وہ Fatal ہے۔ فطرت سے انحراف کی سزا فطرت ہی تجویز کرتی ہے۔ حرص بربادی کی سو صورتیں رکھتی ہے۔ افسانہ ’ایڈز‘ جدید مغربی تہذیب پر بھی طنز ہے اور ایشیائی غریب ملکوں کی بے چارگی پر بھی۔
احمد یوسف :
خورشید حیات افسانہ نگاروں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، جو جدیدیدت کا طوفان تھمنے کے بعد ہمارے سامنے آیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو نہ تو ادب میں صرف خاک و خوں میں لتھڑی ہوئی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے تھے اور نہ وہ تھے جو زندگی کی بے معنویت کے قائل تھے۔
انور خاں:
”ایڈز“ کا مرکزی خیال بہت اچھا ہے۔
جوگندر پال :
آپ کا افسانوی مجموعہ ’ایڈز‘ ملا۔ اس گراں قدر تحفے کے لئے شکر گزار ہوں۔ میں نے آپ کی کہانیاں پڑھ لی ہیں۔ آپ کے یہاں جینے جھیلنے کی معانی کی تلاش کا جو عمل کارفرما ہے اس میں برابر شریک رہا ہوں۔ اور محظوظ ہوا ہوں۔ اپنے بارے میں آپ کے نوٹ میں اور آپ کے تعلق سے نغمہ حیات کے نوٹ ”حروف جو لفظ بن گئے“ نے بھی مجھے خاص طور پر متوجہ کیا ہے۔ (27اگست 2000)
گوپی چند نارنگ :
آپ کا ’میں‘ بہت خوب ہے۔ لفظ کی حرمت مٹی کی ہانڈی ، لوہے کے برتن ، اپنی مٹی وغیرہ استعاروں کی مدد سے آپ نے اپنی بات نہایت خوبصورتی سے کہہ دی ہے۔
(9نومبر2000)
نظام صدیقی :
دنیا واقعتا بے رحم عجائب گاہ ہے جو مورتیوں کو توڑ کر ہی سجانے کی عادی ہے۔ آپ کا افسانہ ’سوالیہ نشان کے نیچے کا نقطہ‘ (قوس۔ نیا افسانہ نئے نام، مٹی 1985) بہت پسند آیا تھا۔ نویں دہائی کے افسانہ نگاروں پر تفصیل سے ناوک صاحب کی فرمائش پر لکھ دیا تھا۔ ان سے لے کر پڑھ لیجئے۔ مجھے محبت دنیا کی ہر شئے سے زیادہ عزیز ہے۔ آپ محبت کرتے ہیں اتنا ہی کافی ہے۔ (2نومبر 1985)
ڈاکٹر علیم اللہ حالی:
نئے احساسات اور آج کے مسائل کو عصری حالات میں پیش کرنے والی کہانی ’ایڈز‘ بہت دنوں تک یادر ہنے والی تخلیق ہے۔
شوکت حیات :
1970 کے افسانے کی زندہ حسیات کو جن چند افسانہ نگاروں نے تخلیقی صورتیں جھیلتے ہوئے نویں دہائی میں آگے بڑھایا اور تجربات کی نئی منزلوں سے ہمکنار کیا ان میں خورشید حیات کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے افسانے میں کثیر الجہت معنویت بحال کرتے ہوئے ستری افسانے کی نئی علامیت اور معنی آفرینی کی روایت کو تسلسل اور ارتقائ سے ہم آمیز کیا ہے۔۔
تجرید کو تجسیمیت اور راست بیانیہ کو تہہ داری سے منور کرتے ہوئے ’ایڈز‘،’طوفان سے پہلے اور طوفان کے بعد‘،’لفظوں کی موت‘، ’بابا‘ جیسے اہم افسانے انہوں نے تخلیق کئے جو زندگی کو فطرت کاعطیہ سمجھتے ہوئے آج کے Gold تھا۔ جس کی کارگزاریوں پر مشتمل گوپی چند نارنگ کی ضخیم کتاب ’نیا اردو افسانہ انتخاب، تجزیے اور مباحث‘ تاریخی اور دستاویزی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس ورکشاپ میں 1970 کے افسانہ نگار پیش پیش تھے۔ خورشید حیات نے اس ہنگامہ خیز ورکشاپ کے بعض اہم شرکائ کا انٹرویو لیا اور پورے ورکشاپ کا جائزہ لیتے ہوئے ’آہنگ‘ کے خصوصی شمارہ ورکشاپ نمبر کے توسط سے ایک نیا ویڑن عطا کیا۔ افسانوں کی تخلیقی تنقید کے سلسلے میں بھی سنجیدگی سے انہوں نے کئی قابل ذکر کام کئے ہیں۔
افتخار امام صدیقی
تخلیقی بیانیہ سے جنم لینے والے ایک معیاری تخلیق کار کا نام خورشید حیات ہے جس نے ’ایڈز‘ (دو ہزار عیسوی) کے ذریعے اپنا تخلیقی اظہارکیا تھا۔ اول تو یہ عنوان ہی ایک ایسا بلیغ استعارہ ہے کہ اس سے ہندوستانی سماج کی تمام تر برائیوں، خطرناک امراض کو اپنی کہانیوں کا موضوع کرنے والے خورشید حیات نے کہانی کو کسی نیپام بم کی طرح بنا دیا۔ خورشید حیات کی جو نمائندہ کہانیاں ہیں ان میں لفظوں کی موت، چلتی رکتی گاڑی کے بیچ، سوالیہ نشان کے نیچے کا نقطہ، نروان، بابا، طوفان سے پہلے اور طوفان کے بعد۔ خورشید کے یہاں ایک طرح کی خودکلامی ہے۔آئندہ جب بھی خورشید حیات پر کوئی مقالہ لکھوں گا تو ان کے افسانوں سے نثری قتلے،نظم درنظم سجا کر بتانے کی سعی کروں گا کہ خورشید اگر افسانہ نگار نہیں ہوتے تو شاعر ہوتے۔ (شاعر، نومبر 2010)
سچ تو یہ ہے کہ اس صدی میں بھی ان کی کہانیوں اور تنقید کی تخلیقی نثر کے اہل علم شیدائی ہیں۔
مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ خورشید حیات اپنے افسانے میں زندگی کے بہت سارے مسائل اور درد کو سمیٹے ہوئے آگے بڑھے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پیش کردہ تمام مسائل کو حل کرنا جانتے ہیں مگر اسے جان بوجھ کر اپنی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے تمام مسائل جب ان کے آس پاس گھر کرتے ہیں تو ان کا وجود مسائل کے بوجھ سے دب جاتا ہے۔پھر وہ ان ہی مسائل میں اپنے آپ کو تلاش بھی کرلیتے ہیں اور ان مسائل کو زندہ رکھنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ زندگی کے یہ مسائل جب خورشید حیات کے افسانوں میں خروج کرتے ہیں توایسا محسوس ہوتا ہے یہ کسی انجانی وحدت میں سمٹ آ ئے ہیں۔ اس طرح مسائل کے ساتھ ان کا ربط باقی بھی رہتا ہے اور مسائل اپنے حل کے بغیر باقی بھی رہ جاتے ہیں۔ اس طرح داستان رنگ زندگی کے مسائل کو سمجھنے میں وہ بہت بے باک ہیں۔اسی بے باکی نے انہیں مسائل کے اسرار سے گذرنا سکھایا ہے۔ان کا افسانہ چھالیا دےکھےں
زمین سے لے کر آسمانوں تک کے دُھواں دُھواں منظر کو دیکھ جب وہ مضطرب ہو جاتی ، اور رات ایک انجانے خوف سے سہمے ہوئے گزر جاتی - تب ہوتا یہ تھا کہ ا ±س کی
بوجھل آنکھوں میں ص ±بح کی سپیدی ات ±ر آتی تھی اور شام ا ±داس ا ±داس سی سیاہ رنگت لئے رات کی سیاہی سے جا ملتی تھی -
ہر روز ک ±چھ ایسا ہی ہوتا تھا - ایک نیا درد سینے میں دبا کر وہ سو جایا کرتی تھی - کلینڈر کی ہر تاریخ پر س ±رخ دائرے کا رنگ گہرا ہو جایا کرتا تھا اور سبز دائرے کی تاریخیں مدھم مدھم سی ہوئی جاتی تھیں - معلوم نہیں ، کب اور کیسے تہذیب کی سوندھی سوندھی خوشبوو ¿ں والی گلیاں ،سڑک سے جا ملیں - اسے جوانی کا وہ زمانہ یاد آیا جب وہ غرارہ پہنے ، گرمی کی تپتی دوپہریا میں ، اپنی خوبصورت جوتیوں کو مٹی رنگ گلی کی سہیلی بنا کر ، کولتار کی " نئی سڑک " پر نکلی تھی تو ج ±وتیاں سڑک کے پگھلتے کولتار سے چپک چپک سی گئی تھیں - پھر ہ ±وا یہ کہ سڑک بہت ڈراﺅنی صورت لئے سامنے آئی -- کہیں ایسا تو نہیں کہ گر گے اسی زمانے سے گ ±رگابی کو کچھ زیادہ پریشان کر نا شروع کیے ہوں ۔
’دولا مولا ‘ کا ’ د ±ولا ب ‘ بڑے دالان میں اب کہاں ؟
ہر تاریخ رفتنی -
سنہری تہذیب کا روحا کنواں ، گزشتنی -
حدود سے تجاوز کرنا بھی ہمیں فنا کے کتنے قریب لے آیا ہے -
وہ اکثر عرق گ ±لاب میں گ ±ھل مل چکے سفید چ ±ونا کو ململ کے پھٹے ہ ±وئے د ±وپٹّے سے چھانتے وقت سوچا کرتی , یہ سفیدی اور سیاہی کے رشتے بھی کتنے گہرے ہوتے ہیں - کبھی ختم نہیں ہوتے اور وہ جو عبا والے ہیں سفید چھوروں کے غ ±لام بن کر ، رک ±وع کی حالت میں ، ک ±چھ اس طرح مغرب کی طرف بڑھے چلے جا رہے ہیں ، کہ ا ±نہیں نہ تو عالم دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی رب العالمین !
سترہ بیویوں کے پینتالیس بیٹوں کی شاہی ک ±رسیاں ہر دن اونچی ہوتی جا رہی ہیں اور ماضی کی طرف پیٹھ کر کے مستقبل کی فکر میں ج ±ٹے مٹی بدن شہزادے ، س ±نہری تہذیب کے ورق ورق ، پرت پرت کو مٹانے میں لگے ہیں - صحرائی دولت کے مرکز پر سب کی نگاہیں ٹکی ہیں - مگر یہ شہزادے ، اپنی آنکھوں میں ایک الگ قسم کا خمار اور سرور لئے لبوں پر رقص کرتی راگنی کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھے چلے جا رہے ہیں -
س ±نہری تہذیب کی ہر تحریر کے ساتھ چلنے والے فرزند کے ہمراہ پاو ¿ں کے چھالے اور پپڑ ائے ہونٹ چلتے تھے مگر آج ؟ -
او میرے روحا کنواں -
او مور سنگی اب تو گھر ما ، نہ تو انگنا ہے اور نہ کنواں
وہ جو ایک گاو ¿ں تھا زمانہ جاہلیت میں جہاں ہر سال میلہ لگا کرتا تھا اور بے سرو سامان / کمزور کے جنوں رنگ " عشق " کو اک " معجزہ " اعتبار دے جاتا تھا - اب وہ " گاو ¿ں "، گاو ¿ں نہ رہا
یوماً فیوماًتاریخیں مٹ رہی ہیں اور نئی تاریخ کی عالی شان عمارت کھڑی ہو رہی ہے -
ہر شجر کی شاخیں ٹوٹ رہی ہیں ، سبز پتے زرد ہو رہے ہیں ، اور اپنی چہچہاہٹوں کو کائنات کا حصہ بنانے والی گوریّا اپنی قبر کو ساتھ لئے اڑتی پھر رہی ہے -
گوریّا ،بیٹیاں
اک طرف کالے کوو ¿ں کی کائیں کائیں
دوسری طرف مائیں مائیں -
یہ چہار س ±و پھیلتے اندھیاروں کا قد ہر روز کاہے بڑا ہ ±وا جائے ہے جی -----؟
کبھی روشنی کی گود میں اندھیرا تو کبھی اندھیرے کی گود کے ایک کونے میں د ±بکی ہوئی ، سمٹی ہوئی روشنی کی سسکیاں اور ہم ہیں کہ ہر دن گود بھرائی کا جشن مناتے رہتے ہیں -
سنتے ہیں اندھیرے کی جب موت ہوتی ہے تو ایک نئے ا ±جیارے کا جنم ہوتا ہے اور جب ا ±جلے ا ±جلے سے ابدان کی بہت تیزی سے موت ہونے لگتی ہے تو رات ، لمبی اور گہری سیاہی لئے سارے عالم کو ڈھانپنے کی ج ±گت میں لگ جاتی ہے -
---
س ±لطانی و قہّاری کے مظاہر میں اتنی دیری کاہے کرو ہو جی "
کہانی نے انگنائی میں پھر سے انگڑائی لی -
اکثر جب وہ بڑے دالان میں تنہا ہوتی اور ٹی - وی پر خبریں دیکھتی - س ±نتی تو ا ±س کی زبان سے لہ ±و لہ ±و منظر دیکھ , نا چاہتے ہوئے بھی اس طرح کے جم ±لے زبان سے ادا ہو جاتے کہ صندل باہیں جو سوتے جاگتے تکیہ ہوا کرتی تھیں وہ تتلی کی طرح اک نیا منظر لکھ پھ ±ر سے اڑ گئیں - تتلی ہو یا سہیلی وہ زیادہ عمر لے کر کہاں آتی ہے شاید کہ اس کی وجہ رنگریز سے ان کا گہرا رشتہ رہا ہو - شاید کہ اس کی وجہ باغیچہ کے بعض پھولوں میں تیزی سے رچتی بستی جا رہی زہریلی خوشبو رہی ہو - اب تو باغیچہ کے مخملی احساس والے نقوش بھی تاریخ کی طرح مٹتے جا رہے ہیں - کہیں ایسا تو نہیں کہ راجہ نے ہر باغیچہ کو درباریوں کے حوالے کر دیا ہے -
راگ درباری -درباری راگ -
ؒ ُسروں کی بڑھت تان پلٹا اور مینڈھ کے معنی تیزی سے بدلتے جا رہے ہیں اور چھالیا ؟
اس کے معنی بھی بدل گئے ہیں کہ موت کی تجارت میں بہت مہنگی ہو گئی ہے س ±پاری -
----
گولیوں کی آوازوں سے سارے پنچھی جاگے ہیں رے ---------- !
فاطمہ ! اپنی بیٹی عالیہ کو پیٹھ پر باندھ لو - آدمی بارودی بدن لئے درس گاہوں میں گھوم رہے ہیںخالہ امّی کی آواز خود کو خود سے آزاد کرتے ہوئے ح ±جرے سے باہر نکلی -
سفید رنگ کے ساتھ نیلے بارڈر والی ساڑھی سے لپٹی ، چمکتی آنکھوں والی خالہ امّی تیز تیز ہاتھ ہلاتے ہوئے آنگن کی طرف لپکی آئیں - ان کی گفتگو کا دائرہ ، جو کبھی جانتا ، کوٹھی ، باورچی خانہ ، اور نعمت خانہ کے چھوٹے سے دروازے کو بند کرتے ہوئے مہمان خانہ تک پھیل جایا کرتا تھا آج پاندان میں سمٹا ہوا ہے - انہوں نے جھینی بینی کھڑکی سے باہر جھانکا - باہر پھلواری میں ہر رنگ کے اونچے چھوٹے قد والے اشجار اپنی جڑوں سے جڑے ہوئے تھے ، بہتے دریا کی نمی پا کر مدمست تھے مگر خبروں کی سرخیاں بن چکا آدمی ----؟
آدمی نے گاو ¿ں کے اس تالاب کا پانی پی لیا تھا جہاں اکثر رات گئے ایک خونخوار شیر آیا کرتا تھا - شیر نے تو کبھی گاو ¿ں کی الگ الگ درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے معص ±وم بچوں کا ک ±چھ نہیں بگاڑا مگر مر ب ±ھکّا کی محب ±وب غذا الف سے اللہ اور ای سے ایشور پڑھنے والے بچّے بن گئے -
خالہ امی کے شوہر وجاہت حسین کو دہشت گرد پچھلے برس ڈکار گئے تھے - تب سے وہ میرے ساتھ تھیں - قدرت نے انھیں نہ تو بیٹے دئے اور نہ ہی بیٹی - وہ بالکل اکیلی ہو گئی تھیں - جب جسم حوادث کا آئینہ بن جاتا ہے تو لفظ اور زبان دونوں شور کرتے ہیں -
گالیوں اور کوسنوں کی رفتار لئے خالہ امّی ، واپس میری پیٹھ سے چپکی عالیہ کے قریب آ گئیں -
"اف آج کی فاطمہ اور عالیہ اب درس گاہ کیسے جائیں گی -؟؟"
"بیٹیاں تو دہشت گرد نہیں ہوتیں پھر بیٹیوں کو ماں کی کوکھ میں کیوں مار دیتے ہیں - ؟"
"اچھا ہوا میں نے بچے نہیں جنے "
"بانجھ - بانجھ کی آوازیں پیچھا کرتی رہیں اور ت ±مرے خالو بھی ایسے تھے کہ دوسری عورت نہیں لائے "
ما فوق الفطرت کی ملکہ قادوسی چڑیا اب کاہے نہ آوے ہے جی خالہ امّی !، دیکھو نا گورے چھورے کو ، اندھیارے کی تجارت میں لگے ہیں اور قاضی کے گھر کے چوہے بھی سیانے ہوئے جائے ہیں -
عالیہ جو بہت دیر سے ہماری باتیں سن رہی تھی ،خالہ امی کے حجرہ کی طرف دبے قدموں سے جانے لگی - جہاں فرش پر تراشا ہوا کھوپرا ، چھالیوں کی پرتیں ، چاندی کی طشتری میں رکھے زعفران اور خالہ امی کی انگشتریاں پڑی تھیں -
باہر پھلواری کی طرف سے آوازوں کا شور ہم سب کا پیچھا کر رہا تھا -
مارون عبّاد !
مارون عبّاد !!
" "یس لہو کمال من ھ ±وا کاملاً
وہ جو بڑے کمالات کا تھا بے کمال ہو گیا -
" آدمی اب آدمی نہ رہ گئل "
"منیشی منیشی لاگا لیڑو "
" او نا دیوڈا "
گلی کے مقابلے میں سڑک اب کتنی ڈرا ﺅ نی ہو گئی آج کے گرامیر اولی گولی شہر راستہ ت ±ولنا بھیاوہ ہوئی گیچھے "
چھالیا کے بدلتے رنگ نے " چھاتم چھاتی" کے دھواں دھواں منظر کے درمیان چھاتی کے کواڑ " کھول کر رکھ دئے تھے اور خالہ امی ، مجھے اور عالیہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹے چاندی کے پاندان کو غور سے گھ ±ور رہی تھیں ۔
٭٭٭
Dr.Mansoor Khushter
Darbhanga Times
purani munsafi
Darbhanga
bihar 846004
mob -9234772764