کٹوری
کٹوری
Mar 12, 2018
دیدبان شمارہ۔۷
کٹوری
روما رضوی
"کہتے ہیں آزادی سب کو ہی بہت عزیز ہوتی ہے۔۔۔۔۔روکھی سوکھی کھا کر چین کی نیند سے بڑھ کر جیتے جاگتے انسان کے لئے کوئی نعمت نہیں۔۔۔۔۔ قید پرندے آزادی کے دن کبھی نہیں بھولتے"
۔۔۔قصہ کہنے والی نے انگڑائی لی اور آنکھوں کو افق پر جماتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"۔۔۔دور افق پر آزادی سے اڑتی چڑیاں ۔۔۔۔چہچہاتی بل کھاتی نظر آتیں تھیں ۔۔تو کبھی درختوں کی ایک سے دوسری شاخ پر ناچتی پھرتیں۔۔۔ہوا بھی ان کے پروں پر پیار سے تھپتھپاتی۔۔۔اور ان کو ذرا اور آگے دھکیل دیتی ۔۔۔پتے انکی شرارت پر کھل کھلا کر ہنس دیتے۔۔ پھر جب وہ ایک دوسرے پر چڑھتی۔۔ چونچوں میں پانی بھر کر پھنکتیں تو ننھے ننھے باتھ ان تماشوں پر تالیاں بجانے لگتے۔۔ اور ایسے میں ۔۔۔پانی سے بھرے تالاب جوش مارتی لہروں سے موج میں آجاتے۔۔۔۔بہار کا موسم تو جیسے ان کے نغموں کے راگ ہی چھیڑ دیتا ۔۔۔صبح نمودار ہوتی ۔۔۔تو سورج کی پہلی کرن کے ساتھ گلے صاف کرتی قطار در قطار چڑیاں سبز کونپلوں سے بھری شاخوں پر آبیٹھتیں۔۔۔۔جھنڈ کے جھنڈ اپنے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے فضا میں نغمے بکھیر دیتے۔۔۔ روشن دن شام ڈھلنے تک گہما گہمی کا شکار رہتا ۔۔۔ کھڑکیوں سے جھانکتی کنواریاں مٹھی بھر بھر کے میدانوں میں دانے بکھیرتی نظر آتیں۔۔۔
پنکھ پکھیروں دانہ چگتے تو بوڑھے ہاتھ بھی دعاووں کے لئیے اٹھ جاتے ۔۔۔قدرت اپنی اس تخلیق پر ناز کرنے لگتی۔۔
موسم بدلتے بہار سے گرمی اپنے روپ دکھاتی مگر ان کی آوازوں سے ۔۔۔۔بہار کا موسم نہ ھوتے ھوئے بھی ہر جانب بہار لگتی۔۔۔
ادھر کچھ ہی فاصلے پر موجود گھر میں ایک زنگ آلود پنجرہ بہت ہی حسرت سے یہ سب رونقیں دیکھا کرتا ۔۔۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ ان کے پھیلے پر ۔۔اس کی راتوں کی نیندیں حرام کر رکھتے تھے۔۔ چڑیاں یوں بھی کسی کی پرواہ کہاں کرتی تھیں۔۔ایک ڈال سے دوسری۔۔ پھر تیسری پر پھدکنا ۔۔۔پھسلنا بات بے بات چہکنا جاری تھا ۔۔
۔۔۔۔کچھ عرصہ اور یہ سب کچھ ویسے ھی رہتا کہ چڑیوں کے پسند کرنے والے بھی ان کی تاک میں رکنے لگے ۔۔۔وہ جال ڈالتے ۔۔۔ دانہ پھینکتے۔۔۔اور دو چار کو اپنے ڈبوں میں بند کر کے لے جاتے۔۔
چڑیوں کے غول میں ایک دم کمی ھوگئی ۔۔۔ان کی چہچہاہٹ کبھی کبھی سنائی دیتی۔۔۔
ادھر پنجرے کی سلاخوں کو بھی رنگ دیا گیا۔۔۔دانے دنکے سے بھری کٹوریاں پنجرے میں رکھ دی گئیں ۔۔۔
۔۔پھر۔۔۔ پنجرے میں قید پہلی ننھی منی پھدکتی ھوئی چڑیا زوروں سے پھڑپھڑائی۔۔۔۔اور جالیوں سے ٹکرا کر اپنی ننھی سی آواز میں چیختی رہی۔۔۔
کچھ دن گزرے اس نے اب بولنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔
اب وہ اپنے پر بھی نہ پھیلاتی۔۔۔۔ دن گزرتے رہے۔۔ اب اس نے دانہ چگنا چھوڑ دیا۔۔۔
پھر ایک دن۔۔۔صبح اس کو مردہ پاکر ۔۔گھر کے باہر پھینک دیا گیا۔۔۔اس کی روح آزاد ہوگئ تھی۔۔۔
پنجرے میں ایک نئی چڑیا قید کرلی گئی تھی۔۔۔
جو پھر اڑان بھرنے کو پر تول رہی تھی ۔۔
اور اور ۔۔۔
پھر وہ بھی اسی بھری کٹوری کے دھوکے میں جالیوں کی بھینٹ چڑھ گئ
۔۔چند دن گزرے دانے کی سنہری کٹوریاں پھر روز بھری جانے لگیں ۔۔۔قید چڑیا کی آواز گونجتی پھر ۔۔۔ایک دن اس نے بھی پہلی چڑیا کی طرح بولنا چھوڑا دوسرے دن اس نے دانے پانی سے منہ پھیر لیا ۔۔کچھ دن بعد سڑک کے کنارے مردہ چڑیا کو کوے چونچ میں دبائے کھینچا تانی کرتے نظر آئے
اور دوسری طرف؟؟ ۔۔
دوسری طرف خالی پنجرے پر روغن ہوتا نظر آیا سنہری کٹوریاں دانے و پانی سے بھر دی گئیں۔۔پنجرہ پھر سے نئی چڑیا کی راہ تکنے لگا تھا۔۔
ہوا میں پر کھولے چہچہاتی پھدکتی کھیلتی۔۔۔۔آزاد ۔۔۔ بے پرواہ ۔۔۔
معصوم ننھی چڑیاں
دیدبان شمارہ۔۷
کٹوری
روما رضوی
"کہتے ہیں آزادی سب کو ہی بہت عزیز ہوتی ہے۔۔۔۔۔روکھی سوکھی کھا کر چین کی نیند سے بڑھ کر جیتے جاگتے انسان کے لئے کوئی نعمت نہیں۔۔۔۔۔ قید پرندے آزادی کے دن کبھی نہیں بھولتے"
۔۔۔قصہ کہنے والی نے انگڑائی لی اور آنکھوں کو افق پر جماتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"۔۔۔دور افق پر آزادی سے اڑتی چڑیاں ۔۔۔۔چہچہاتی بل کھاتی نظر آتیں تھیں ۔۔تو کبھی درختوں کی ایک سے دوسری شاخ پر ناچتی پھرتیں۔۔۔ہوا بھی ان کے پروں پر پیار سے تھپتھپاتی۔۔۔اور ان کو ذرا اور آگے دھکیل دیتی ۔۔۔پتے انکی شرارت پر کھل کھلا کر ہنس دیتے۔۔ پھر جب وہ ایک دوسرے پر چڑھتی۔۔ چونچوں میں پانی بھر کر پھنکتیں تو ننھے ننھے باتھ ان تماشوں پر تالیاں بجانے لگتے۔۔ اور ایسے میں ۔۔۔پانی سے بھرے تالاب جوش مارتی لہروں سے موج میں آجاتے۔۔۔۔بہار کا موسم تو جیسے ان کے نغموں کے راگ ہی چھیڑ دیتا ۔۔۔صبح نمودار ہوتی ۔۔۔تو سورج کی پہلی کرن کے ساتھ گلے صاف کرتی قطار در قطار چڑیاں سبز کونپلوں سے بھری شاخوں پر آبیٹھتیں۔۔۔۔جھنڈ کے جھنڈ اپنے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے فضا میں نغمے بکھیر دیتے۔۔۔ روشن دن شام ڈھلنے تک گہما گہمی کا شکار رہتا ۔۔۔ کھڑکیوں سے جھانکتی کنواریاں مٹھی بھر بھر کے میدانوں میں دانے بکھیرتی نظر آتیں۔۔۔
پنکھ پکھیروں دانہ چگتے تو بوڑھے ہاتھ بھی دعاووں کے لئیے اٹھ جاتے ۔۔۔قدرت اپنی اس تخلیق پر ناز کرنے لگتی۔۔
موسم بدلتے بہار سے گرمی اپنے روپ دکھاتی مگر ان کی آوازوں سے ۔۔۔۔بہار کا موسم نہ ھوتے ھوئے بھی ہر جانب بہار لگتی۔۔۔
ادھر کچھ ہی فاصلے پر موجود گھر میں ایک زنگ آلود پنجرہ بہت ہی حسرت سے یہ سب رونقیں دیکھا کرتا ۔۔۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ ان کے پھیلے پر ۔۔اس کی راتوں کی نیندیں حرام کر رکھتے تھے۔۔ چڑیاں یوں بھی کسی کی پرواہ کہاں کرتی تھیں۔۔ایک ڈال سے دوسری۔۔ پھر تیسری پر پھدکنا ۔۔۔پھسلنا بات بے بات چہکنا جاری تھا ۔۔
۔۔۔۔کچھ عرصہ اور یہ سب کچھ ویسے ھی رہتا کہ چڑیوں کے پسند کرنے والے بھی ان کی تاک میں رکنے لگے ۔۔۔وہ جال ڈالتے ۔۔۔ دانہ پھینکتے۔۔۔اور دو چار کو اپنے ڈبوں میں بند کر کے لے جاتے۔۔
چڑیوں کے غول میں ایک دم کمی ھوگئی ۔۔۔ان کی چہچہاہٹ کبھی کبھی سنائی دیتی۔۔۔
ادھر پنجرے کی سلاخوں کو بھی رنگ دیا گیا۔۔۔دانے دنکے سے بھری کٹوریاں پنجرے میں رکھ دی گئیں ۔۔۔
۔۔پھر۔۔۔ پنجرے میں قید پہلی ننھی منی پھدکتی ھوئی چڑیا زوروں سے پھڑپھڑائی۔۔۔۔اور جالیوں سے ٹکرا کر اپنی ننھی سی آواز میں چیختی رہی۔۔۔
کچھ دن گزرے اس نے اب بولنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔
اب وہ اپنے پر بھی نہ پھیلاتی۔۔۔۔ دن گزرتے رہے۔۔ اب اس نے دانہ چگنا چھوڑ دیا۔۔۔
پھر ایک دن۔۔۔صبح اس کو مردہ پاکر ۔۔گھر کے باہر پھینک دیا گیا۔۔۔اس کی روح آزاد ہوگئ تھی۔۔۔
پنجرے میں ایک نئی چڑیا قید کرلی گئی تھی۔۔۔
جو پھر اڑان بھرنے کو پر تول رہی تھی ۔۔
اور اور ۔۔۔
پھر وہ بھی اسی بھری کٹوری کے دھوکے میں جالیوں کی بھینٹ چڑھ گئ
۔۔چند دن گزرے دانے کی سنہری کٹوریاں پھر روز بھری جانے لگیں ۔۔۔قید چڑیا کی آواز گونجتی پھر ۔۔۔ایک دن اس نے بھی پہلی چڑیا کی طرح بولنا چھوڑا دوسرے دن اس نے دانے پانی سے منہ پھیر لیا ۔۔کچھ دن بعد سڑک کے کنارے مردہ چڑیا کو کوے چونچ میں دبائے کھینچا تانی کرتے نظر آئے
اور دوسری طرف؟؟ ۔۔
دوسری طرف خالی پنجرے پر روغن ہوتا نظر آیا سنہری کٹوریاں دانے و پانی سے بھر دی گئیں۔۔پنجرہ پھر سے نئی چڑیا کی راہ تکنے لگا تھا۔۔
ہوا میں پر کھولے چہچہاتی پھدکتی کھیلتی۔۔۔۔آزاد ۔۔۔ بے پرواہ ۔۔۔
معصوم ننھی چڑیاں