"کتبے پر لکھی نظم"
"کتبے پر لکھی نظم"
May 15, 2019
عظیم شاعر مجید امجد کی برسی پر ایک نظم ان کے نام۔
عظیم شاعر مجید امجد کی برسی پر ایک نظم ان کے نام۔
"کتبے پر لکھی نظم" ----عامر عبداللہ
تو کیا اب بھی
کہیں وہ چوڑیاں محفوظ ہوں گی
ایک نازک سی
بیاض عشق پر مرقوم وہ اک نام
اک شاعر کا نام
اب بھی لکھا ہو گا۔۔۔۔؟
بیاض عشق اک جزدان میں
لپٹی ہوئی ہو گی
یا پھر میلی پرانی یاد بن کر
اک سیاہ صندوق کی تہ میں پڑی ہو گی
کسے معلوم ہے
میونخ میں گرتی برف کے نیچے
دبا کیا ہے۔۔۔؟
کسے معلوم ہے کہ ٹیکسلا کے سب نوادر میں
کسی کا دل دھڑکتا ہے
سبھی کھنڈرات میں اب بھی
کسی کی گم شدہ سی مسکراہٹ
لہر بن کر لوٹتی ہے
ریت پر ابھرے ہوئے کچھ نقش
اب بھی چاندنی میں جگمگاتے ہیں
محبت وجد میں آیا ہوا لمحہ ہے
جس کے دائرے میں گھومتا
میونخ بھی ساہیوال بھی ہے
محبت، ایک شاعر کی محبت
روشنی کی کرچیوں پر رقص
برفیلی ہوا کی دھار پر دو نیم ہونے کا عمل
کرنوں کے پیوست ِگلو ہونے کی
وہ چبھتی اذیت ہے
جو روحیں چھیدتی ہے
درد بن کر سانس کے ہمراہ چلتی ہے
محبت سرخ رنگی چوڑیوں سی ہے
جنہیں شالاط کی نازک کلائی پر
کھنکنے کی تمنا ہے
مگر جو ٹوٹ کر
شاعر کے دل میں کھب گئی ہیں
ہجر کے افسوس میں رستے ہوئے
اک قطرہ خوں میں بسی ہیں
دائمی دکھ ہے مجید امجد محبت
جو تمہارے دل سے میرے دل تک آیا ہے
تمہاری میز پر جلتی ہوئی
اک شمع میں روشن
مرے تاریک سینے میں
چراغ اس نے جلایا ہے ۔۔۔!!!!
عظیم شاعر مجید امجد کی برسی پر ایک نظم ان کے نام۔
"کتبے پر لکھی نظم" ----عامر عبداللہ
تو کیا اب بھی
کہیں وہ چوڑیاں محفوظ ہوں گی
ایک نازک سی
بیاض عشق پر مرقوم وہ اک نام
اک شاعر کا نام
اب بھی لکھا ہو گا۔۔۔۔؟
بیاض عشق اک جزدان میں
لپٹی ہوئی ہو گی
یا پھر میلی پرانی یاد بن کر
اک سیاہ صندوق کی تہ میں پڑی ہو گی
کسے معلوم ہے
میونخ میں گرتی برف کے نیچے
دبا کیا ہے۔۔۔؟
کسے معلوم ہے کہ ٹیکسلا کے سب نوادر میں
کسی کا دل دھڑکتا ہے
سبھی کھنڈرات میں اب بھی
کسی کی گم شدہ سی مسکراہٹ
لہر بن کر لوٹتی ہے
ریت پر ابھرے ہوئے کچھ نقش
اب بھی چاندنی میں جگمگاتے ہیں
محبت وجد میں آیا ہوا لمحہ ہے
جس کے دائرے میں گھومتا
میونخ بھی ساہیوال بھی ہے
محبت، ایک شاعر کی محبت
روشنی کی کرچیوں پر رقص
برفیلی ہوا کی دھار پر دو نیم ہونے کا عمل
کرنوں کے پیوست ِگلو ہونے کی
وہ چبھتی اذیت ہے
جو روحیں چھیدتی ہے
درد بن کر سانس کے ہمراہ چلتی ہے
محبت سرخ رنگی چوڑیوں سی ہے
جنہیں شالاط کی نازک کلائی پر
کھنکنے کی تمنا ہے
مگر جو ٹوٹ کر
شاعر کے دل میں کھب گئی ہیں
ہجر کے افسوس میں رستے ہوئے
اک قطرہ خوں میں بسی ہیں
دائمی دکھ ہے مجید امجد محبت
جو تمہارے دل سے میرے دل تک آیا ہے
تمہاری میز پر جلتی ہوئی
اک شمع میں روشن
مرے تاریک سینے میں
چراغ اس نے جلایا ہے ۔۔۔!!!!