کرشن  نے کہا ارجن سے

کرشن  نے کہا ارجن سے

Sep 24, 2023

نیم سچی کہانی۔۔۔افسانہ۔

دیدبان شمارہ ۔ ۱۹

کرشن  نے کہا ارجن سے

نیم سچی کہانی۔۔۔افسانہ۔۔۔

“(گنگا جمنی تہذیب کا ایک اور نوحہ)

مندرا۔۔۔ اےشبھانگو ۔۔مندرا کہاں گئی”

“ مر گئی مندرا، چھ برس ہوئے۔۔پگلانے کا ڈھونگ نہ کرو موسی۔۔تمہارے ناٹکوں نے اسکا جیون اجیرن رکھا تھا۔۔ اچھا ہوا مر گئی۔۔ گاسلیٹ چھڑک کر آگ لگائی ۔۔ ذرا سمجھ ہوتی تو تم سے لپٹ جاتی ۔۔ کیسا ارمان ہے میرا تجھے بھی زندہ جلتے دیکھوں۔۔ تیری چیخیں سُنوں۔۔ ایشور ہے تو تجھے اسی جنم میں تیرے کرموں کا پھل دے۔۔ کیسے لوگوں کے جیون نشٹ کئے ہیں تو نے۔۔ کوکھ نہیں نرک ہے تیرے اندر۔۔ کوئی تجھے زندہ نہ گاڑھے “

شبھانگو بڑبڑاتا رہا۔۔ کملا دیبی نے جیسے سنا ان سنا کر دیا۔۔ ہمیشہ ہی ایسے کہتا ہے۔۔ نئی بات تھوڑا ہی تھی۔۔تو کوئی پوچھے باؤلے کو ُہش کیوں کرتی ہو؟ لیکن دن کیسے کٹے گا؟؟؟ بیٹا ہے۔۔ جنم کا روگی ہے۔۔۔سب مجھے موسی کہتے ہیں تو یہ بھی موسی ہی کہتا ہے۔۔آجکل ڈپریشن کس کو نہیں؟ ایشور کی دیا تھی مجھے نہیں ، کملا دیبی نے ایشور کو کوٹی کوٹی پرنام کیا۔۔۔باہر گلی کے جوان رتھ یاترا کی تیاری میں جُٹے تھے۔۔شوالوں کی گھنٹیاں بج رہی تھیں، ہوا میں چندن ، گائے کے سچے گھی اور موگرا کی خوشبو تھی۔۔ صبح سے سوچ رہی تھی  سلطانہ اور بچیاں تو سہمی ہونگی۔۔روہلکھنڈ کے پٹھانوں کا یہ ایک ہی گھر تھا مئو ناتھ بھنجن  کے پہاڑ پورہ محلے میں میں۔۔ ویسے تو اب بھی پورے مئو میں مسلمانوں کی سنکھیا زیادہ تھی۔۔ کیسے بھومی ُپُتر تھے۔۔ پورے یوپی سے لاکھوں لوگ پاکستان گئے پر مئو سے نہ ہونے کے برابر۔۔ کملا دیبی کو یاد تھا کہ بڑے ہوتے کم ہی دھیان ہوتا کہ مسلمان کوئی اور دھرم ہے، ہزاروں جاتیاں تھیں۔۔ ہم سریواستو تھے، کوئی ماتھر تھا، کوئی شیخ ، کوئی پٹھان ، کوئی اہیر ، پھر شرنارتھی آئے تو کوئی وٹو، کوئی کرپلانی سندھی، کوئی سردار پنجابی۔۔ مئو میں آدھی سے زیادہ آبادی اب بھی مسلمان تھی۔۔ ساڑھیوں کے کروڑ پتی بیوپاری سے لے کر دزدوز اور چمار تک۔۔۔لیکن بھئی وقت بدل گیا۔۔ اب دونوں طرف سے دل میں جدائی آ گئی۔۔ ہم سری واستو تو ہمیشہ سے اردو فارسی جانتے اور چکن مٹن کھاتے۔۔ بس منگل کو ورت ہوتا۔۔ اب تو بھائی مسلمانوں کے ہاتھ میں مٹن دیکھ وواد ہو جاتا۔۔ سلطانہ لوگ تو ہمیشہ سے پہاڑ پورہ میں تھے۔۔ کون سوچتا تھا کہ کون ذات رہتی ہے، سُبھاؤ کیسا ہے یہ دیکھتے تھے۔۔ روہلکھنڈی تھے۔۔ لڑاکا عورتیں۔۔ لیکن اب تو سب کی پھُس نکل گئی۔۔ سکطانہ بھی میری طرح ودھوا ہے۔۔ بس نصیب اچھے ہیں کہ تین بیٹے تینوں چاند۔۔ میرے شبھانگو کی طرح دشمناگی والے نہیں تھے۔۔

“ اے شبھانگو۔۔ جا ذرا سلطانہ موسی کی خبر لے آ۔۔اور میں نے مونگ کی بڑیاں بنائی ہیں کہہ دو سکھا دیں۔۔ مرے چھت پر دھوپ نہیں آتی جب سے یہ سیوا والوں نے مندر کی چار منزلیں بنا دیں “

“ ہاں تو تم ہی بڑھ بڑھ کر چندہ دیتی تھیں۔۔ یہ سب جو ہو رہا ہے تمئارے کارن ہو رہا ہے۔۔ منہ دیکھی کی نہ کر ڈائن۔۔ رتھ والوں کو ووٹ بھی تو نے دیا۔۔ اب انکی فکر کاہے @

“ ہائے تو دان پُن بھی نہ کروں ۔۔ میں تو سب کو دان دیتی ہوں.. مجد ( مسجد) کو بھی دوں۔۔طاہر بابا کے مزار کو بھی دوں۔۔ یاد نہیں شاہی کٹرہ جب بھی جاؤں مجِؔد میں نذرانہ ڈلواؤں۔۔اب یہ رام جی کی جنم ستھان کو جیوائیں گے تو انہیں بھی دیدیا۔۔ اب وقت کیوں گنوا رہا ہے۔۔ جا سلطانہ موسی کو پوچھ آ۔۔ “

“ فون کیا اپنی موت کی خبر دینے لگوایا ہے۔۔ فون کرلو “

“ تو کیا بڑیاں بھی فون سے بھجواؤں۔۔دو فرلانگ تو ہے پٹھانوں کا گھر۔۔ جا دئیے آ”

“ دو فرلانگ ہے تو کیوں نہ تُم جاؤ۔۔۔ تھل تھل شریر دیکھو۔۔ چتا میں من بھر گھی لگے گا۔۔۔ مندرا پر تو گاسلیٹ چھڑکا تھا تو نے۔۔”

کملا دیبی نے پھر ان سُنی کی۔۔ نشہ ٹوٹ رہا تھا شُبھانگُو کا۔۔ اب جائے گا چھت کی کوٹھڑیا میں اور پنّی پر پاؤڈر چھڑک کر مندرا کی چیخیں بھلائے گا۔۔ میں تو پنّی بھی نہیں سُوتتی ۔۔ میں اسکی چیخیں کیسے بھلواؤں۔۔ کملا دیبی مصروف رہو۔۔ جس امریکہ کے راشٹر پتی نے لاکھوں جاپانیوں کو بم گر جھلسا کر مارا اور معذور کیا وہ بھی تو چین کی نیند سوتا تھا۔۔ خود پڑھا ہے میں نے۔۔ مصروف رہو تو نہ ڈپریشن ہوتا ہے نہ درد۔۔

سلطانہ کی منجھلی بہو نے فون اٹھایا۔۔ سلطانہ فون پر آئی

“ بڑی سوشیل ہے تمہاری منجھلی بہو۔۔ کتنے پیار سے بات کرتی ہے”

“ ہاں ہمارے ہاں بہوؤں کی عزت کرتے ہیں۔۔ جہیز نہ لانے پر چولہا نہیں پلٹتے” سلطانہ بھی چھ سال سے یوں ہی روکھی بات کرتی تھی۔۔ جب سے مندرا مری تھی۔۔ سب یوں ہی روکھے ئو گئے تھے۔۔ خیر۔۔

“ اے بی ۔۔ تم سب کے بارے سوچ رہی تھی۔۔ آج رتھ یاترا ہے پہاڑ پورہ میں۔۔ تم اکیلے مسلمان ۔۔ جی چاہے تو سب یہیں آ جاؤ۔۔۔”

فون کے اس طرف خاموشی رہی پھر پلٹ کر گویا تیر اندازی ہوئی

“ بچپن سے جانتی ہو ہمیں کمل۔۔ ہم پٹھانوں کا نطفہ ہیں۔۔خوف ہم سے خوف کھائے ہے۔۔ یاد ہے تم تو تاریخ اتہاس کی ٹیچر تھیں۔۔ پورا یوپی گیا لیکن مئو ناتھ کے مسلمانوں نے گاندھی جی کو بلوا کر زبان دی کہ اپنا وطن نہ چھوڑیں گے۔۔ یہ بھڑوا اڈوانی ہمیں رتھ یاترا سے ڈرائے گا اور تم۔۔ مئو پر آج تک حکومت ہماری مگر ہم نے نام نہ بدلا۔۔ بیبی ہمیں نہ ڈراؤ”

“ اے سلطانہ بڑی کڑوی ہو رہی ہو۔۔ میں نے تو پڑوسی کا حق ادا کیا۔۔ نمک کھایا ہے ہم سب نے ایک دوسرے کا”

“ ہاں پتہ ہے۔۔ اور یہ بھی پتہ ہے کہ رتھ کے ان بھڑوے جوان چماروں کا کھانا بھی تیرے گھر سے جاتا ہے۔۔ ہوا بدل گئی ہے۔۔ خیر۔۔ شکریہ۔۔ کچھ ہوا تو گانڈ پر لات مار کر خود بھگادیں گے۔۔ اللہ نہ کرے تم جیسی کے پناہ لیں۔۔ اور ہاں پتہ ہے تمہیں بڑیاں مرچیں سکھوانی ہوں گی۔۔ ساون سے پہلے۔۔ متین کو بھیج دوں گی۔۔ ہزار برس حکومت کی ہے ہم نے سو دو سو سال میں وقار نہ جائے گا” فون کھٹاک سے بند۔۔ مندرا والے واقعے کے بعد سلطانہ اور خاندان بھی ناراض تھا۔۔ کملا دیبی چھت پر گئیں۔۔ بچپن میں جہاں آرا شہزادی کے کٹتے سلطانہ ، صبیحہ اور کتنی سہیلیاں۔۔۔۔۔ سب یادیں ہیں اب۔۔

رتھ کے ڈھول بج رہے تھے۔۔ گیروے لنگوٹ باندھے پندرہ سے پچیس تک کے جوان بھبھوت ملے۔۔ ڈھول بجا رہے تھے۔۔ طبل جنگ گویا۔۔ جیسے کرشن نے پھونکا تھا شنکھ۔۔ “ نہ پیار بڑھا دشمن سے۔۔ ُیدھ کر”۔۔ اور یہ سلطانہ اور مسلمانوں کو جو ہزار برسوں کی ٹیں ہے اسی وجہ سے ذلیل ہو رہے ہیں۔۔ کملا دیبی نے بڑیاں سمیٹیں۔۔ مندرا کی ہاتھ کی بڑیاں بھی کیا سواد تھیں۔۔ ہائے مندرا۔۔

کملا دیبی کو یاد آیا۔۔ سلطانہ کے ابا سنسکرت کے پنڈت بھی تھے۔۔ سمجھاتے تھے بچوں کو کہ پیا محمد اور پیا کرشن نے جو ُیدھ کا کہا ہے وہ اپنے اندر کے راکھشس کے لئے۔۔۔ کر ودھ دشمن ہے۔۔ کرشن نے اصل میں یہ کہا تھا کہ کرودھ سے پیار نہ بڑھا۔۔

کملا دیبی نے سر جھٹکا۔۔۔ مئو ناتھ بھنجن کا نام مسلمانوں نے بھلا کیا رکھنا تھا؟ سب نام تو رکھ دئیے تھے۔۔۔

شبھانگو کوٹھڑی میں تھا۔۔ پسینے کی بو اور پاؤڈر کی کھینچ۔۔ ہے بھگوان۔۔ صرف بیوی ہی مری تھی اسکی ۔۔ اتنا نشہ۔۔۔ کوئی صاف ستھری مصروفیت ڈھونڈھتا۔۔ رتھ کے جوان کتنے کسرتی ہیں ۔۔ دھومر پان کچھ نہیں۔۔ہے ایشور۔۔ شبھانگو کو عقل دے۔۔

ڈھول کی تاپ بس بڑھتی گئی۔۔ مئو ناتھ بھنجن پر چیخیں مارتی شام اتر رہی تھی

فیالبدیہہ راجہ شہزاد ۵ جولائی ۲۰۲۰

دیدبان شمارہ ۔ ۱۹

کرشن  نے کہا ارجن سے

نیم سچی کہانی۔۔۔افسانہ۔۔۔

“(گنگا جمنی تہذیب کا ایک اور نوحہ)

مندرا۔۔۔ اےشبھانگو ۔۔مندرا کہاں گئی”

“ مر گئی مندرا، چھ برس ہوئے۔۔پگلانے کا ڈھونگ نہ کرو موسی۔۔تمہارے ناٹکوں نے اسکا جیون اجیرن رکھا تھا۔۔ اچھا ہوا مر گئی۔۔ گاسلیٹ چھڑک کر آگ لگائی ۔۔ ذرا سمجھ ہوتی تو تم سے لپٹ جاتی ۔۔ کیسا ارمان ہے میرا تجھے بھی زندہ جلتے دیکھوں۔۔ تیری چیخیں سُنوں۔۔ ایشور ہے تو تجھے اسی جنم میں تیرے کرموں کا پھل دے۔۔ کیسے لوگوں کے جیون نشٹ کئے ہیں تو نے۔۔ کوکھ نہیں نرک ہے تیرے اندر۔۔ کوئی تجھے زندہ نہ گاڑھے “

شبھانگو بڑبڑاتا رہا۔۔ کملا دیبی نے جیسے سنا ان سنا کر دیا۔۔ ہمیشہ ہی ایسے کہتا ہے۔۔ نئی بات تھوڑا ہی تھی۔۔تو کوئی پوچھے باؤلے کو ُہش کیوں کرتی ہو؟ لیکن دن کیسے کٹے گا؟؟؟ بیٹا ہے۔۔ جنم کا روگی ہے۔۔۔سب مجھے موسی کہتے ہیں تو یہ بھی موسی ہی کہتا ہے۔۔آجکل ڈپریشن کس کو نہیں؟ ایشور کی دیا تھی مجھے نہیں ، کملا دیبی نے ایشور کو کوٹی کوٹی پرنام کیا۔۔۔باہر گلی کے جوان رتھ یاترا کی تیاری میں جُٹے تھے۔۔شوالوں کی گھنٹیاں بج رہی تھیں، ہوا میں چندن ، گائے کے سچے گھی اور موگرا کی خوشبو تھی۔۔ صبح سے سوچ رہی تھی  سلطانہ اور بچیاں تو سہمی ہونگی۔۔روہلکھنڈ کے پٹھانوں کا یہ ایک ہی گھر تھا مئو ناتھ بھنجن  کے پہاڑ پورہ محلے میں میں۔۔ ویسے تو اب بھی پورے مئو میں مسلمانوں کی سنکھیا زیادہ تھی۔۔ کیسے بھومی ُپُتر تھے۔۔ پورے یوپی سے لاکھوں لوگ پاکستان گئے پر مئو سے نہ ہونے کے برابر۔۔ کملا دیبی کو یاد تھا کہ بڑے ہوتے کم ہی دھیان ہوتا کہ مسلمان کوئی اور دھرم ہے، ہزاروں جاتیاں تھیں۔۔ ہم سریواستو تھے، کوئی ماتھر تھا، کوئی شیخ ، کوئی پٹھان ، کوئی اہیر ، پھر شرنارتھی آئے تو کوئی وٹو، کوئی کرپلانی سندھی، کوئی سردار پنجابی۔۔ مئو میں آدھی سے زیادہ آبادی اب بھی مسلمان تھی۔۔ ساڑھیوں کے کروڑ پتی بیوپاری سے لے کر دزدوز اور چمار تک۔۔۔لیکن بھئی وقت بدل گیا۔۔ اب دونوں طرف سے دل میں جدائی آ گئی۔۔ ہم سری واستو تو ہمیشہ سے اردو فارسی جانتے اور چکن مٹن کھاتے۔۔ بس منگل کو ورت ہوتا۔۔ اب تو بھائی مسلمانوں کے ہاتھ میں مٹن دیکھ وواد ہو جاتا۔۔ سلطانہ لوگ تو ہمیشہ سے پہاڑ پورہ میں تھے۔۔ کون سوچتا تھا کہ کون ذات رہتی ہے، سُبھاؤ کیسا ہے یہ دیکھتے تھے۔۔ روہلکھنڈی تھے۔۔ لڑاکا عورتیں۔۔ لیکن اب تو سب کی پھُس نکل گئی۔۔ سکطانہ بھی میری طرح ودھوا ہے۔۔ بس نصیب اچھے ہیں کہ تین بیٹے تینوں چاند۔۔ میرے شبھانگو کی طرح دشمناگی والے نہیں تھے۔۔

“ اے شبھانگو۔۔ جا ذرا سلطانہ موسی کی خبر لے آ۔۔اور میں نے مونگ کی بڑیاں بنائی ہیں کہہ دو سکھا دیں۔۔ مرے چھت پر دھوپ نہیں آتی جب سے یہ سیوا والوں نے مندر کی چار منزلیں بنا دیں “

“ ہاں تو تم ہی بڑھ بڑھ کر چندہ دیتی تھیں۔۔ یہ سب جو ہو رہا ہے تمئارے کارن ہو رہا ہے۔۔ منہ دیکھی کی نہ کر ڈائن۔۔ رتھ والوں کو ووٹ بھی تو نے دیا۔۔ اب انکی فکر کاہے @

“ ہائے تو دان پُن بھی نہ کروں ۔۔ میں تو سب کو دان دیتی ہوں.. مجد ( مسجد) کو بھی دوں۔۔طاہر بابا کے مزار کو بھی دوں۔۔ یاد نہیں شاہی کٹرہ جب بھی جاؤں مجِؔد میں نذرانہ ڈلواؤں۔۔اب یہ رام جی کی جنم ستھان کو جیوائیں گے تو انہیں بھی دیدیا۔۔ اب وقت کیوں گنوا رہا ہے۔۔ جا سلطانہ موسی کو پوچھ آ۔۔ “

“ فون کیا اپنی موت کی خبر دینے لگوایا ہے۔۔ فون کرلو “

“ تو کیا بڑیاں بھی فون سے بھجواؤں۔۔دو فرلانگ تو ہے پٹھانوں کا گھر۔۔ جا دئیے آ”

“ دو فرلانگ ہے تو کیوں نہ تُم جاؤ۔۔۔ تھل تھل شریر دیکھو۔۔ چتا میں من بھر گھی لگے گا۔۔۔ مندرا پر تو گاسلیٹ چھڑکا تھا تو نے۔۔”

کملا دیبی نے پھر ان سُنی کی۔۔ نشہ ٹوٹ رہا تھا شُبھانگُو کا۔۔ اب جائے گا چھت کی کوٹھڑیا میں اور پنّی پر پاؤڈر چھڑک کر مندرا کی چیخیں بھلائے گا۔۔ میں تو پنّی بھی نہیں سُوتتی ۔۔ میں اسکی چیخیں کیسے بھلواؤں۔۔ کملا دیبی مصروف رہو۔۔ جس امریکہ کے راشٹر پتی نے لاکھوں جاپانیوں کو بم گر جھلسا کر مارا اور معذور کیا وہ بھی تو چین کی نیند سوتا تھا۔۔ خود پڑھا ہے میں نے۔۔ مصروف رہو تو نہ ڈپریشن ہوتا ہے نہ درد۔۔

سلطانہ کی منجھلی بہو نے فون اٹھایا۔۔ سلطانہ فون پر آئی

“ بڑی سوشیل ہے تمہاری منجھلی بہو۔۔ کتنے پیار سے بات کرتی ہے”

“ ہاں ہمارے ہاں بہوؤں کی عزت کرتے ہیں۔۔ جہیز نہ لانے پر چولہا نہیں پلٹتے” سلطانہ بھی چھ سال سے یوں ہی روکھی بات کرتی تھی۔۔ جب سے مندرا مری تھی۔۔ سب یوں ہی روکھے ئو گئے تھے۔۔ خیر۔۔

“ اے بی ۔۔ تم سب کے بارے سوچ رہی تھی۔۔ آج رتھ یاترا ہے پہاڑ پورہ میں۔۔ تم اکیلے مسلمان ۔۔ جی چاہے تو سب یہیں آ جاؤ۔۔۔”

فون کے اس طرف خاموشی رہی پھر پلٹ کر گویا تیر اندازی ہوئی

“ بچپن سے جانتی ہو ہمیں کمل۔۔ ہم پٹھانوں کا نطفہ ہیں۔۔خوف ہم سے خوف کھائے ہے۔۔ یاد ہے تم تو تاریخ اتہاس کی ٹیچر تھیں۔۔ پورا یوپی گیا لیکن مئو ناتھ کے مسلمانوں نے گاندھی جی کو بلوا کر زبان دی کہ اپنا وطن نہ چھوڑیں گے۔۔ یہ بھڑوا اڈوانی ہمیں رتھ یاترا سے ڈرائے گا اور تم۔۔ مئو پر آج تک حکومت ہماری مگر ہم نے نام نہ بدلا۔۔ بیبی ہمیں نہ ڈراؤ”

“ اے سلطانہ بڑی کڑوی ہو رہی ہو۔۔ میں نے تو پڑوسی کا حق ادا کیا۔۔ نمک کھایا ہے ہم سب نے ایک دوسرے کا”

“ ہاں پتہ ہے۔۔ اور یہ بھی پتہ ہے کہ رتھ کے ان بھڑوے جوان چماروں کا کھانا بھی تیرے گھر سے جاتا ہے۔۔ ہوا بدل گئی ہے۔۔ خیر۔۔ شکریہ۔۔ کچھ ہوا تو گانڈ پر لات مار کر خود بھگادیں گے۔۔ اللہ نہ کرے تم جیسی کے پناہ لیں۔۔ اور ہاں پتہ ہے تمہیں بڑیاں مرچیں سکھوانی ہوں گی۔۔ ساون سے پہلے۔۔ متین کو بھیج دوں گی۔۔ ہزار برس حکومت کی ہے ہم نے سو دو سو سال میں وقار نہ جائے گا” فون کھٹاک سے بند۔۔ مندرا والے واقعے کے بعد سلطانہ اور خاندان بھی ناراض تھا۔۔ کملا دیبی چھت پر گئیں۔۔ بچپن میں جہاں آرا شہزادی کے کٹتے سلطانہ ، صبیحہ اور کتنی سہیلیاں۔۔۔۔۔ سب یادیں ہیں اب۔۔

رتھ کے ڈھول بج رہے تھے۔۔ گیروے لنگوٹ باندھے پندرہ سے پچیس تک کے جوان بھبھوت ملے۔۔ ڈھول بجا رہے تھے۔۔ طبل جنگ گویا۔۔ جیسے کرشن نے پھونکا تھا شنکھ۔۔ “ نہ پیار بڑھا دشمن سے۔۔ ُیدھ کر”۔۔ اور یہ سلطانہ اور مسلمانوں کو جو ہزار برسوں کی ٹیں ہے اسی وجہ سے ذلیل ہو رہے ہیں۔۔ کملا دیبی نے بڑیاں سمیٹیں۔۔ مندرا کی ہاتھ کی بڑیاں بھی کیا سواد تھیں۔۔ ہائے مندرا۔۔

کملا دیبی کو یاد آیا۔۔ سلطانہ کے ابا سنسکرت کے پنڈت بھی تھے۔۔ سمجھاتے تھے بچوں کو کہ پیا محمد اور پیا کرشن نے جو ُیدھ کا کہا ہے وہ اپنے اندر کے راکھشس کے لئے۔۔۔ کر ودھ دشمن ہے۔۔ کرشن نے اصل میں یہ کہا تھا کہ کرودھ سے پیار نہ بڑھا۔۔

کملا دیبی نے سر جھٹکا۔۔۔ مئو ناتھ بھنجن کا نام مسلمانوں نے بھلا کیا رکھنا تھا؟ سب نام تو رکھ دئیے تھے۔۔۔

شبھانگو کوٹھڑی میں تھا۔۔ پسینے کی بو اور پاؤڈر کی کھینچ۔۔ ہے بھگوان۔۔ صرف بیوی ہی مری تھی اسکی ۔۔ اتنا نشہ۔۔۔ کوئی صاف ستھری مصروفیت ڈھونڈھتا۔۔ رتھ کے جوان کتنے کسرتی ہیں ۔۔ دھومر پان کچھ نہیں۔۔ہے ایشور۔۔ شبھانگو کو عقل دے۔۔

ڈھول کی تاپ بس بڑھتی گئی۔۔ مئو ناتھ بھنجن پر چیخیں مارتی شام اتر رہی تھی

فیالبدیہہ راجہ شہزاد ۵ جولائی ۲۰۲۰

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024