’’کرفیو زدہ علاقے کی بیوہ سڑکیں‘‘

’’کرفیو زدہ علاقے کی بیوہ سڑکیں‘‘

Jan 22, 2023

مصنف

نسترن احسن فتیحی

شمارہ

شمارہ - ١٦

دیدبان شمارہ ۔ ۱۶

’’کرفیو زدہ علاقے کی بیوہ سڑکیں‘‘

(سفرنامہ)

نسترن احسن فتیحی

/۲۵ستمبر ۲۰۱۸

کشمیر  ہندوستان کے نقشے پر سب سے اوپر نظر آتا ہے۔ اور کشمیر کی خوبصورتی کی کہانیاں ہماری زندگی میں بچپن سے ایسے شامل ہوتی ہیں کہ اسے ہم حقیقت سے زیادہ خواب سمجھنے لگتے ہیں۔ اور یہ ہمارے تخیّل میں یوں بس جاتا ہے جیسے بہت دور دراز علاقے کی  کوئی ایسی جگہ ہو جہاں پہنچنا  ناممکنات میں سے ہو۔ بچپن گزرنے کے بعد کشمیر تک ہماری رسائی آئے دن کی خبروں کے ذریعے ہوتی رہی ،کشمیری لوگ ہمیں ہمارے علاقے میں مل جاتے ہیں ،کہیں طالب علم کی شکل میں تو کہیں تجارت کرتے ہوئے ۔ اسی لئے کشمیر کےسیب ہوں یا آخروٹ اور بادام، فرن اور شال ہوں یا زعفران ۔ کانگڑی ہو یا قہوہ ہم تک بہ آسانی پہنچ جاتا ہے۔ اور کشمیر ہماری زندگی میں ہر جگہ اور ہر وقت شامل رہتا ہے ، مگر جبـ’’ جشن نسائی ادب ‘‘ میں ا کیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگوجیزکے توسط سے کشمیر آنے کا دعوت نامہ ملا تو احساس ہوا کہ جو کشمیر ہم میں ہر وقت شامل ہے اس میں، میں پہلی بار  شامل ہونے جا رہی ہوں۔ اب تک ہندوستان کے نہ جانے کتنے علاقوں کی سیاحت کر لینےکے بعد بھی کشمیر کی طرف رخ کرنے کا زندگی نے موقع نہیں دیا تھا۔اس لئے کشمیر کے حوالے سے تصور میں جو چند تصویریں بہت گہری بنتی تھیں،وہ  ۔۔۔ وہاں کی برفیلی چوٹیاں، مشکل ترین راستے۔بہت زیادہ ٹھنڈ اور تمام وادی میں سرسراتی ہوئی ایک دہشت۔۔ اس تصور کو آئے دن کی خبروں نے بہت توانا کر دیا تھا جسکی وجہ سے خوف کے سائے اتنے گہرے تھے کہ کشمیر کی خوبصورتی کا خیال دھندھلا پڑ چکا تھا۔ مگر اس دعوت نے شوق کو مہمیز دی اور زمیں پرامیرخسرو کی بتائی ہوئی جنت کے نشان تلاش کرنے اور کرشن چندر کے بیانیہ میں درج رنگوں کو پرکھنے کے لئے  ہم نے یہ سفر طے کر لیا، جوبنات کی کشمیر شاخ کی تین رکن شبنم عشائی ،نکہت فاروق نظر اور رخسانہ جبیں صاحبہ کی کوششو ںسے ممکن ہوا۔ اس طرح بہت دور دراز لگنے والے اس علاقے میں ہم پلین سے صرف سوا گھنٹے کی مسافت طے کرکے پہنچ گئے۔ہماری میزبان خواتین شبنم عشائی اور نکہت فاروق نے تسلی دی تھی کہ ابھی موسم معتدل ہے اسلئے ایک ہلکی سی شال اور سویٹر کے علاوہ کسی اور تفکرکی ضرورت نہیں۔

اکیڈمی کی گاڑی میں ہم نو عورتوں کا مختصر سا قافلہ ہوٹل شہنشاہ کی طرف رواں دواں تھا۔ان سڑکوں کے اطراف دوڑتے ہوئے مناظر سے دل نے پوچھا ۔۔۔ کیا یہ ہی’’ کرفیو زدہ علاقے کی بیوہ سڑکیں ہیں۔‘‘ میں عصر حاضر کی نظم گو شاعرہ شبنم عشائی کی  دھیمی دھیمی لو دیتی ہوئی نظموں میں ہمیشہ خود کو پگھلتا ہوامحسوس کرتی ہوں۔اور اب میں ان نظموں میں چھپے درد کو اس علاقے میں تلاش کرنا چاہتی تھی ۔ اسی لئے میں نے اس سفر نامے کا عنوان شبنم عشائی کی نظم سے ہی اٹھایا اور اپنے ملے جلے جزبات اور احساسات کے ساتھ اپنی اس تحقیق کو بھی کھلی آنکھوں سے دیکھنے اورسمجھنے نکل آئی جو آنے سے قبل شاعری میں تلاش کر رہی تھی ۔

اس سیمینار کے لئے لکھے گئے اپنے مقالے کے لئے میں نے کشمیری شاعرات کی اردو شاعری میں جس احتجاج کو تلاش کیا تھا اس احتجاج سےاور اس درد و غم سے رو برو ہونا چاہتی تھی ۔ مگر درد تو دل کے نہا خانوں میں چھپا ہوتا ہے، ان سڑکوں اور سر سبز وادیوں  پرتو خاموشی کے اسرار کاپر دہ تھا ۔ یہ وادیاں اپنی مسحورکن فضا سے آج بھی نو واردوں کا استقال اسی خوش خلقی سے کرتی ہیں ۔ اپنے زخم نہیں دکھاتیں۔ہم سب نو واردان وہاں کے سر سبز و شاداب اور روح پرور فضا میں گم  جلد ہی ہوٹل شہنشاہ  پہنچ گئ تھیں۔ وہاں پر جوش استقبال تھا، آرام دہ کمرہ تھا، دریچے سے ڈل لیک کے مناظر تھے اورہوٹل کے کینٹین میں گرم گرم کھانا تھا۔ اس آسائش میں بھلا غم کا گزر کیا ہوتا۔آج کھانے کے بعد پورا دن میسّرتھا،سیمینار اگلے دو دن ہونا تھا ۔ ہماری میزبان نکہت فاروق نے کہا کہ آج سےکچھ دنوں تک پوری مغلیہ سلطنت آپ کی دسترس میں ہے ، کہ شہنشاہ آپکا میزبان ہے اور جہانگیر آپ کا ڈرایئور ہے ۔اس لئے آپ لوگ کھانے کے بعد کشمیر کی سیر پر نکلئے۔‘‘ یوں محفل کو زعفران زار بناتے ہوئے اکیڈمی کی گاڑی اور ہماری میزبان خاتون کی ذاتی کار میں ہم سب شالیمار باغ کے لئے روانہ ہوئے اور اس دن معلوم ہوا کہ نکہت صرف اچھی شاعرہ اور فکشن نگار ہی نہیں ہیں بلکہ وہ کار بھی بہت اچھی طرح ڈرائیو کرتی ہیں ۔ ابھی ان کشمیری خواتین کی بہت سی خوبیاں آنے والے دنوں میں ہمارے سامنے آنے والی تھیں۔

   شالیمار باغ ہماری منزل تھا راستے میں نشاط باغ اور کشمیر یونیورسٹی کو دیکھنے کی خواہش د ل میں دبانا پڑی کہ وقت کا خیال بھی رکھنا تھا  ، بس گزرتے ہوئے باہر سے ہی اسکا آرکیٹکچر دیکھ کر محظوظ ہوئے۔

شالیمار باغ سے ہمیں جلد نکلنا تھا تاکہ کچھ اور بھی دیکھ سکیں ۔۔۔ مگر یہاں اترنے کے بعد وقت کا خیال  خام ہو گیا۔۔ اور یہاںہم مغل سلطنت کے شاندار ماضی کی ایک جھلک پا کر ہی سب کچھ بھول گئے۔  شالیمار باغ کو شہنشاہ جہانگیر نے اپنی ملکہ نور جہاں کے لئے ۱۶۱۹؁  میں تعمیر کروایا تھا۔یہ ڈل جھیل کے شمال مشرق سے ایک رودبار کے ذریعے منسلک ہے اور دائیں کنارے پر سری نگر شہر واقعہ ہے ۔جموں اور کشمیر کے محکمہ سیاحت نے اسے بہت اچھی طرح آراستہ اور برقرار

رکھا ہے ۔ یہاں کھلے ہوئے خوشنما پھول دل و دماغ کی ساری کثافتیں دھونے پر قادر ہیں۔ ہم اس باغ کے طویل سلسلے کو جو آگے بڑھتے ہوئے کچھ اونچائی پر واقع ہوتا گیا تھا ،دوڑ۔دوڑ کر جہاں تک دیکھ سکتے تھے دیکھ آئے ۔ اور ان حسین مناظر کو نظروں سے دل و دماغ میں محفوظ کر لائے۔

ہماری اگلی منزل حضرت بل تھی۔ حضرت بل کی زیارت کشمیر پہنچنے کے پہلے ہی دن ہمارا نصیب ہوئی ۔اور یہ دن حضرت بل کے خوشگوار زیارت پر ختم ہوا۔ نظروں میں اس پاک مسجد کی سحر انگیز فضا کو سمیٹنے کی بھوک لئے ہم نے نماز عصر ادا کی ۔ دل میں موئے مبارک کے تصور سے  رقت پیدا ہوئی ۔ اور وہاں سے نکل کر مسجد کے قدموں کو دھوتی ہوئی ڈل کے کنارے جا کر غروب آفتاب کا مزہ لیا۔ ایسی وارفتگی اس ماحول میں تھی کہ ہمارا وہاں سے نکلنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ مگر وقت کی بیڑیاں کون کاٹ سکا ہے ۔ہم ہوٹل واپس آگئے ۔ دوسرے دن کی تیاری کے لئے کہ جس مقصد کے تحت یہ سفر درپیش تھا۔

 ۲۶  / اکتوبر ۲۰۱۸؁ :۔۔۔

آنے والے دو دن مصروفیت بھرے تھے ۔سیمینار کےپہلےدن کا ’افتتاحی اجلاس ‘ میںعلاقائی ادبی شخصیات سے متعارف ہونے کا دن تھا

۔ پھر دوسرے  دو سیشن میں ہمیں اپنے اپنے مقالات پیش کرنے تھے ۔ہم تیار ہوکراور ہوٹل شہنشاہ کےدربار ہال میں جمع ہو چکے تھے ۔ بڑی گہما گہمی تھی ، ساری نشستیں پر ہو چکی تھیں۔افتتاحی اجلاس میں ہم جن شخصیات سے متعارف ہوئے اس نے ہم سب کو ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا ۔ یہ صرف کشمیر میں ممکن تھا اور یہ صرف ہماری میزبان خواتین کی ہمت کی وجہ سے ممکن ہوا تھا کہ ایک ادبی سیمینار کی ذمہ داری میںاکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لیگویجز کے ساتھ کارپوریٹ دنیا کی دو اہم شخصیات بھی شامل ہوئی تھی ۔ہوٹل اور بینک جن کا نصب العین ہی معاشی فائدے سے جڑا ہوا  ہوتا ہے ۔ مگراس کانفرنس کی مہمان نوازی میں اکیڈمی کے سیکریٹری ڈاکٹر عزیز حاجنی کے ساتھ ہوٹل شہنشاہ کے مالک  حاجی سعید اور جمواینڈ کشمیر  بینک کے کارپوریٹ مینیجر جناب سجاد بزاز پیش پیش تھے ۔ ان کے اندر زبان و ادب کی اتنی گہری دلچسپی اور اس کے لئے کام کرنے کا  ایساجزبہ کار فرما ہو سکتا ہےیہ جان کر اور دیکھ کر ہم سب  حیران بھی ہوئے اور خوش بھی ۔ یہ حیرت بھری خوشی اس وقت اور دوبالہ ہوئی جب اس پروگرام میں شرکت کرنے کے لئے آنے والی خواتین  زندگی کے ہر دوسرے شعبے کی نمائیندگی کرنے والی نظر آئیں ۔۔ جس میں ۔۔۔۔ محترمہ نصرت اندرابی جواستاد ،سماجی کارکن اور کئی اداروں کی سرپرست  رہ چکی ہیں، محترمہ شفیقہ پروین  (ماہر تعلیم اور شاعرہ)،ریٹائرڈ آئ اے ایس محترمہ نسیم لنکر، محترمہ غوث النساٗ  جو جموںکشمیر کی پہلی خاتون جج (ریٹائرڈ)، اور رٹائرڈ ڈائریکٹر کشمیر دور درشن محترمہ شہزادی سائمن ، وغیرہ  ذوق و شوق سے شامل رہیں۔ اور جشن نسائی ادب کے حسن کو دوبالا کر دیا۔ مرد حضرات کی موجودگی بھی اس کانفرنس کے وقار  میں اضافے کا سبب بنی۔محترم شاعر جناب فاروق نازکی ،پروفیسر جناب زماں آذردہ ،مشہور و معروف افسانہ نگار جناب نور شاہ ،  شاعر اور ناول نگار جناب شفق سوپوری ،جموں کشمیر ورلڈ فلم فیسٹیول کے ڈائریکٹر جناب مشتاق علی احمد خان ،مشہور اسکرین پلے رائٹر ڈائریکٹر پروڈیوسرمحی الدین مرزا وغیرہ نے جشن نسائی ادب میں شامل ہوکر خواتین تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی  ۔

اس کے بعد مقالے کا  دونوں اجلاس بہت کامیاب رہا ۔کانفرنس کی کئی رپورٹ اب تک سامنے آچکی ہے اس لئے میں اس سے گریز کرتے ہوئے  اپنے سفر کی روداد کو آگے بڑھاتی ہوں۔

۲۶ /ستمبر  :۔۔۔

چونکہ یہ ادبی سفر تھا اس لئے دو دن کے کانفرنس کا ذکرآنا ناگزیر ہے ۔دو دن جس جوش  خروش اور خوشگوار تجربات کے ساتھ گزرا ۲۶  ستمبر کی صبح  ایک نا خوشگوار اور مایوسکن خبر کے ساتھ نمودار ہوئی۔کہیں فائیرنگ میں کسی نوجوان کی موت اور وادی میںچھ  یا سات جگہ کرفیو نافز ہونے کی خبر نے ہمیں کشمیر کے حالیہ حالات کے رو برو لا کھڑا کیا ۔۔۔ اب ہمارے ذہنوں سے مغلیہ دور کی شان  کانشہ اتر چکا تھا اور ہم  آج کے کشمیر کے حالات کے رو برو تھے ۔ آج کے اجلاس کی ناکامی کی فکر کے ساتھ ہم دربار ہال میں جمع تھے ۔ ہماری میزبان خواتین بھی شبہے میں تھیں کہ ان حالات میں کوئی سیمینار میں کیونکر شرکت کر سکتا ہے ۔ اداس دل کے سا تھ پہلے اجلاس کی ابتدا کی  کوشش شروع ہوئی مگر اس سے پہلے کے اس کی شروعات ہوتی دربار ہال  دیکھتے ہی دیکھتے  اس میں شرکت کے لئے آنے والوں سے بھر گیا ۔ اور ہمارا تعارف ان حالات میں جینے والوں کی  اس ہمت سے ہوا ۔جسے ہم یہاں آئے بغیر کبھی نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ یہ سب یہاں کے ان نا مساعد حالات کے اتنے عادی ہیں کہ اسے خاطر میں نہیں لاتے ۔ پروگرام میں شاعری کے سوز اور دلوں کے گداز نے سب کو خوب خوب رلایا۔

مجھے لگا کہ ملاقات اور گفتگو کے اس سلسلے نے ہماری رسائی دل میں چھپے درد  تک کرا دی ہے ۔ وہ درد جو میں یہاں کی شاعرات کی شاعری میں تلاش کر آئی تھی ۔ مگر اس درد کے باوجود ان کی ہمت سے پہلی بار متعارف ہو رہی تھی ۔یہاں کی لڑکیاں بہت تعلیم یافتہ اور مضبوط ہیں ۔غم کی شکل کوئی سی ہو ،سب سے زیادہ متاثر وہی ہوتی ہیں ، شوہر ، بیٹا، باپ  یا اپنی عزت ،کسی کو  بھی کھو دینے کا خوف معمولی نہیں ہوتا مگر وہ نہ  کہ ہر غم کا مقابلہ کرتی ہیں بلکہ دوسروں کی مدد کے لئے ہر وقت مستعد رہتی ہیں ۔ میں ننھی سی افسانہ نگار رافعہ ولی کو اور پنک بینک کی امپلائی ریما کو کبھی نہیںبھول سکونگی۔رافعیہ ولی نے ان حالات کا شکار لڑکیوں پر ایسا خوبصورت افسانہ پیش کیا کہ ہر کوئی عش عش کر اٹھا۔اور ریما نے خواتین کے حالات اور جبر کا ذکر کرتے ہوئے اپنا دل نکال کر سامعین کے سامنے رکھ دیا ۔ کشمیر کی موجودہ صورت حال میں ان کی جاب جاب سے زیادہ سوشل ورک ہے۔

 پہلے دو دن، رات کے کھانے کے بعد ڈل کے کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے کچھ کشمیری نوجوان سے ملاقات ہوئی جو دور کے اپنے  کسی گائوں سے روزگار کے لئے رات کی تاریکی میں نکل کر آئے تھے اور اکا دکا سیاحوں کے سامنے اپنی معمولی سی گٹھری کا سرمایا کھول کر کم سے کم قیمت لگا کر اپنا سامان فروخت کرنے کی کوشش کر  رہے تھے۔ دن کی روشنی میں نکلنا ان کے لئے موت کا اندھیرا ثابت ہو سکتا تھا ۔ اس لئے وہ اسی وقت اندھیرے کی چادر اوڑھ کرنکلتے۔ وہ اتنے خوبصورت تھے کہ انہیں صرف شاہزادہ کہنے کا دل چاہتا تھا  لیکن ان کے تن پر معمولی لباس تھے ۔پر ان کا حسن کسی شاہی لباس کا مرہون منت نہیں تھا۔ا ن نوجوانوں کی تعداد بہت تیزی سے کم ہو گئی تھی ۔ یہ اپنے ہی ملک میں دربدر تھے ۔کیونکہ یہ دو ملکوںکے اقتدار کی جنگ میں پس گئے تھے ۔ ان سے کسی ملک کو کوئی ہمدردی نہیں تھی ۔۔ ان کی تعلیم اور روزگار کی کسی کو فکر نہیں تھی ۔ بلکہ یہ مظلوم  لالچ کے جبر کا شکار تھے ۔ یہ زمین کی جنت کے مالک تھے اس لئے انہیں حسد کی نظر کھا گئی تھی ۔  آج کے دن ہم چاہ کر بھی ڈل کے کنارے چہل قدمی کے لئے نہ نکل سکے ۔ صرف کمرے کے دریچے سے ڈل کا دیدار کرتے ہوئے سوچتے رہے کہ کل کا دن تو ہم کشمیر گھومنے کے لئے رکے تھے مگر اب نہ جانے یہ ممکن ہو سکیگا کہ نہیں ۔

دوسرے دن ہماری میزبان خواتین شبنم اور نکہت ایک نئی ہمت کے ساتھ کمر کس کر صبح صبح حاضر تھیں ، پورا کشمیر بند تھا ، اسکول اور بینک ہر جگہ چھٹی تھی ۔حالات کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں نے پروگرام میں کچھ تبدیلی کی اور بتایا کہ آج وہ ہمیں پری محل اور چشمہ شاہی کی سیر کے لئے لے جا رہی  ہیں۔آج اکیڈمی کی گاڑی ہمارے لئے موجود نہیں تھی کیونکہ سیمینار کے فرائض انجام  دے کر وہ فارغ ہو چکے تھے، اب ان کا ایک ہی کام بچا تھا ہمیں ائر پورٹ تک چھوڑنا۔ اس لئے اسے کل آنا تھا ۔مگر ہماری میزبان خواتین نے ہار ماننا نہیں سیکھا تھا ،انکی ذاتی کار تو تھی ہی اپنے روابط سے انہوں نے ایک بے حد مخلص اور انسان دوست شخص کو  اپنی اس کوشش میں شامل کیا۔ جنکے شامل ہونے سے سیر کا مزہ دوبالا ہوگیا  ۔۔ اور ہمارا قافلہ پری محل کے لئے نکل پڑا۔جگہ جگہ پولیس ناکے کشمیر کی اس خوبصورتی کو داغ لگانے کے لئے کافی تھے ۔ ایک جگہ ایسی بھی آئی جہاں سے گزرنے کے لئے کار سے اتر کر  سیکیورٹی چک کے لئے پیدل گزرنا ہوتا تھا ،مگر ہمارے میزبان نے اپنی فہم سے ہمیں اس زحمت سے بچا لیا اور ہماری گاڑیاں سہولت سے نکل گئیں۔  ان چوراہے ،نکڑ اور گلی سے گزرتے ہوئے  میں یہ بات ذہن سے نہیں نکال پا رہی تھی کہ ان مقامات پر ہی متعدد بار معصوم لوگوں کو گولیاں  کھانی پڑی ہونگی یا آنسو گیس اور زود کوب سے گزرنا پڑا ہوگا۔ڈاون ٹاون سے گزرتے ہوئے قدیم طرز کی عمارتوں اور لکڑیوں کی منقش در و دیوار سے جھانکتی ہوئی اداسیوں نےکان میں سرگوشی کی  کی یہی وہ کرفیو زدہ علاقے کی بیوہ سڑکیں ہیں،جن پر دو ملکوں کی ضد میں معصوم شہیدوں کا خون بہا ہے اور ان بے گناہوں کے خون کا رنگ ان سڑکوں نے یہاں کے گلوں کو بخش دیا ہے ۔اور اپنی مانگ سے زندگی کی کامرانیوں کا سیندور پوچھ کر بیوہ ہو گئی ہیں ۔ اور ان سڑکوں کے کنارے زندگی جینے کا ڈھونگ رچاتی  سجی ہوئی دکانیں اپنی بے مائیگی پر نوحہ کناں ہیں۔بڑے بڑے فائیو اسٹار ہوٹل سناٹوں کی دہشت میں لپٹے،ان اداس سڑکوں کے کنارے خالی پڑے ہیں۔اور اپنی رونق کے لئے آسمان کی طر ف دیکھتے ہیں ۔ ڈل جھیل کے سینے پر تیرتے رنگ برنگے شکارے  اور خاموشی سے پانی کی سطح پر ایستادہ ہائوس بوٹ  بھولے بھٹکے آئے ہوئے سیاحوں کی طرف اپنی اداس آنکھوں سے دیکھتے اور خود پر منحصر کرتی زندگیوں کے لئے فریاد کرتے نظر آتے ہیں ۔بادام ، آخروٹ اور سیب کاشت کرنے والے اور سونے و چاندی کے تاروں سے فرن  پر کشیدہ کرتے ہاتھ زر سے خالی ہیں ۔

اب وہ کوئی دہشت گرد ہو یا  محافظ دستے انہوں نے یہاں کی زندگی کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہاں کی عوام اپنی زیست کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے۔ بزرگوں کی اس بستی سےاپنی خالی آنکھوں میں سوال لئے پوچھ رہا ہے کہ آخر ہمارا قصور کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیدبان شمارہ ۔ ۱۶

’’کرفیو زدہ علاقے کی بیوہ سڑکیں‘‘

(سفرنامہ)

نسترن احسن فتیحی

/۲۵ستمبر ۲۰۱۸

کشمیر  ہندوستان کے نقشے پر سب سے اوپر نظر آتا ہے۔ اور کشمیر کی خوبصورتی کی کہانیاں ہماری زندگی میں بچپن سے ایسے شامل ہوتی ہیں کہ اسے ہم حقیقت سے زیادہ خواب سمجھنے لگتے ہیں۔ اور یہ ہمارے تخیّل میں یوں بس جاتا ہے جیسے بہت دور دراز علاقے کی  کوئی ایسی جگہ ہو جہاں پہنچنا  ناممکنات میں سے ہو۔ بچپن گزرنے کے بعد کشمیر تک ہماری رسائی آئے دن کی خبروں کے ذریعے ہوتی رہی ،کشمیری لوگ ہمیں ہمارے علاقے میں مل جاتے ہیں ،کہیں طالب علم کی شکل میں تو کہیں تجارت کرتے ہوئے ۔ اسی لئے کشمیر کےسیب ہوں یا آخروٹ اور بادام، فرن اور شال ہوں یا زعفران ۔ کانگڑی ہو یا قہوہ ہم تک بہ آسانی پہنچ جاتا ہے۔ اور کشمیر ہماری زندگی میں ہر جگہ اور ہر وقت شامل رہتا ہے ، مگر جبـ’’ جشن نسائی ادب ‘‘ میں ا کیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگوجیزکے توسط سے کشمیر آنے کا دعوت نامہ ملا تو احساس ہوا کہ جو کشمیر ہم میں ہر وقت شامل ہے اس میں، میں پہلی بار  شامل ہونے جا رہی ہوں۔ اب تک ہندوستان کے نہ جانے کتنے علاقوں کی سیاحت کر لینےکے بعد بھی کشمیر کی طرف رخ کرنے کا زندگی نے موقع نہیں دیا تھا۔اس لئے کشمیر کے حوالے سے تصور میں جو چند تصویریں بہت گہری بنتی تھیں،وہ  ۔۔۔ وہاں کی برفیلی چوٹیاں، مشکل ترین راستے۔بہت زیادہ ٹھنڈ اور تمام وادی میں سرسراتی ہوئی ایک دہشت۔۔ اس تصور کو آئے دن کی خبروں نے بہت توانا کر دیا تھا جسکی وجہ سے خوف کے سائے اتنے گہرے تھے کہ کشمیر کی خوبصورتی کا خیال دھندھلا پڑ چکا تھا۔ مگر اس دعوت نے شوق کو مہمیز دی اور زمیں پرامیرخسرو کی بتائی ہوئی جنت کے نشان تلاش کرنے اور کرشن چندر کے بیانیہ میں درج رنگوں کو پرکھنے کے لئے  ہم نے یہ سفر طے کر لیا، جوبنات کی کشمیر شاخ کی تین رکن شبنم عشائی ،نکہت فاروق نظر اور رخسانہ جبیں صاحبہ کی کوششو ںسے ممکن ہوا۔ اس طرح بہت دور دراز لگنے والے اس علاقے میں ہم پلین سے صرف سوا گھنٹے کی مسافت طے کرکے پہنچ گئے۔ہماری میزبان خواتین شبنم عشائی اور نکہت فاروق نے تسلی دی تھی کہ ابھی موسم معتدل ہے اسلئے ایک ہلکی سی شال اور سویٹر کے علاوہ کسی اور تفکرکی ضرورت نہیں۔

اکیڈمی کی گاڑی میں ہم نو عورتوں کا مختصر سا قافلہ ہوٹل شہنشاہ کی طرف رواں دواں تھا۔ان سڑکوں کے اطراف دوڑتے ہوئے مناظر سے دل نے پوچھا ۔۔۔ کیا یہ ہی’’ کرفیو زدہ علاقے کی بیوہ سڑکیں ہیں۔‘‘ میں عصر حاضر کی نظم گو شاعرہ شبنم عشائی کی  دھیمی دھیمی لو دیتی ہوئی نظموں میں ہمیشہ خود کو پگھلتا ہوامحسوس کرتی ہوں۔اور اب میں ان نظموں میں چھپے درد کو اس علاقے میں تلاش کرنا چاہتی تھی ۔ اسی لئے میں نے اس سفر نامے کا عنوان شبنم عشائی کی نظم سے ہی اٹھایا اور اپنے ملے جلے جزبات اور احساسات کے ساتھ اپنی اس تحقیق کو بھی کھلی آنکھوں سے دیکھنے اورسمجھنے نکل آئی جو آنے سے قبل شاعری میں تلاش کر رہی تھی ۔

اس سیمینار کے لئے لکھے گئے اپنے مقالے کے لئے میں نے کشمیری شاعرات کی اردو شاعری میں جس احتجاج کو تلاش کیا تھا اس احتجاج سےاور اس درد و غم سے رو برو ہونا چاہتی تھی ۔ مگر درد تو دل کے نہا خانوں میں چھپا ہوتا ہے، ان سڑکوں اور سر سبز وادیوں  پرتو خاموشی کے اسرار کاپر دہ تھا ۔ یہ وادیاں اپنی مسحورکن فضا سے آج بھی نو واردوں کا استقال اسی خوش خلقی سے کرتی ہیں ۔ اپنے زخم نہیں دکھاتیں۔ہم سب نو واردان وہاں کے سر سبز و شاداب اور روح پرور فضا میں گم  جلد ہی ہوٹل شہنشاہ  پہنچ گئ تھیں۔ وہاں پر جوش استقبال تھا، آرام دہ کمرہ تھا، دریچے سے ڈل لیک کے مناظر تھے اورہوٹل کے کینٹین میں گرم گرم کھانا تھا۔ اس آسائش میں بھلا غم کا گزر کیا ہوتا۔آج کھانے کے بعد پورا دن میسّرتھا،سیمینار اگلے دو دن ہونا تھا ۔ ہماری میزبان نکہت فاروق نے کہا کہ آج سےکچھ دنوں تک پوری مغلیہ سلطنت آپ کی دسترس میں ہے ، کہ شہنشاہ آپکا میزبان ہے اور جہانگیر آپ کا ڈرایئور ہے ۔اس لئے آپ لوگ کھانے کے بعد کشمیر کی سیر پر نکلئے۔‘‘ یوں محفل کو زعفران زار بناتے ہوئے اکیڈمی کی گاڑی اور ہماری میزبان خاتون کی ذاتی کار میں ہم سب شالیمار باغ کے لئے روانہ ہوئے اور اس دن معلوم ہوا کہ نکہت صرف اچھی شاعرہ اور فکشن نگار ہی نہیں ہیں بلکہ وہ کار بھی بہت اچھی طرح ڈرائیو کرتی ہیں ۔ ابھی ان کشمیری خواتین کی بہت سی خوبیاں آنے والے دنوں میں ہمارے سامنے آنے والی تھیں۔

   شالیمار باغ ہماری منزل تھا راستے میں نشاط باغ اور کشمیر یونیورسٹی کو دیکھنے کی خواہش د ل میں دبانا پڑی کہ وقت کا خیال بھی رکھنا تھا  ، بس گزرتے ہوئے باہر سے ہی اسکا آرکیٹکچر دیکھ کر محظوظ ہوئے۔

شالیمار باغ سے ہمیں جلد نکلنا تھا تاکہ کچھ اور بھی دیکھ سکیں ۔۔۔ مگر یہاں اترنے کے بعد وقت کا خیال  خام ہو گیا۔۔ اور یہاںہم مغل سلطنت کے شاندار ماضی کی ایک جھلک پا کر ہی سب کچھ بھول گئے۔  شالیمار باغ کو شہنشاہ جہانگیر نے اپنی ملکہ نور جہاں کے لئے ۱۶۱۹؁  میں تعمیر کروایا تھا۔یہ ڈل جھیل کے شمال مشرق سے ایک رودبار کے ذریعے منسلک ہے اور دائیں کنارے پر سری نگر شہر واقعہ ہے ۔جموں اور کشمیر کے محکمہ سیاحت نے اسے بہت اچھی طرح آراستہ اور برقرار

رکھا ہے ۔ یہاں کھلے ہوئے خوشنما پھول دل و دماغ کی ساری کثافتیں دھونے پر قادر ہیں۔ ہم اس باغ کے طویل سلسلے کو جو آگے بڑھتے ہوئے کچھ اونچائی پر واقع ہوتا گیا تھا ،دوڑ۔دوڑ کر جہاں تک دیکھ سکتے تھے دیکھ آئے ۔ اور ان حسین مناظر کو نظروں سے دل و دماغ میں محفوظ کر لائے۔

ہماری اگلی منزل حضرت بل تھی۔ حضرت بل کی زیارت کشمیر پہنچنے کے پہلے ہی دن ہمارا نصیب ہوئی ۔اور یہ دن حضرت بل کے خوشگوار زیارت پر ختم ہوا۔ نظروں میں اس پاک مسجد کی سحر انگیز فضا کو سمیٹنے کی بھوک لئے ہم نے نماز عصر ادا کی ۔ دل میں موئے مبارک کے تصور سے  رقت پیدا ہوئی ۔ اور وہاں سے نکل کر مسجد کے قدموں کو دھوتی ہوئی ڈل کے کنارے جا کر غروب آفتاب کا مزہ لیا۔ ایسی وارفتگی اس ماحول میں تھی کہ ہمارا وہاں سے نکلنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ مگر وقت کی بیڑیاں کون کاٹ سکا ہے ۔ہم ہوٹل واپس آگئے ۔ دوسرے دن کی تیاری کے لئے کہ جس مقصد کے تحت یہ سفر درپیش تھا۔

 ۲۶  / اکتوبر ۲۰۱۸؁ :۔۔۔

آنے والے دو دن مصروفیت بھرے تھے ۔سیمینار کےپہلےدن کا ’افتتاحی اجلاس ‘ میںعلاقائی ادبی شخصیات سے متعارف ہونے کا دن تھا

۔ پھر دوسرے  دو سیشن میں ہمیں اپنے اپنے مقالات پیش کرنے تھے ۔ہم تیار ہوکراور ہوٹل شہنشاہ کےدربار ہال میں جمع ہو چکے تھے ۔ بڑی گہما گہمی تھی ، ساری نشستیں پر ہو چکی تھیں۔افتتاحی اجلاس میں ہم جن شخصیات سے متعارف ہوئے اس نے ہم سب کو ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا ۔ یہ صرف کشمیر میں ممکن تھا اور یہ صرف ہماری میزبان خواتین کی ہمت کی وجہ سے ممکن ہوا تھا کہ ایک ادبی سیمینار کی ذمہ داری میںاکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لیگویجز کے ساتھ کارپوریٹ دنیا کی دو اہم شخصیات بھی شامل ہوئی تھی ۔ہوٹل اور بینک جن کا نصب العین ہی معاشی فائدے سے جڑا ہوا  ہوتا ہے ۔ مگراس کانفرنس کی مہمان نوازی میں اکیڈمی کے سیکریٹری ڈاکٹر عزیز حاجنی کے ساتھ ہوٹل شہنشاہ کے مالک  حاجی سعید اور جمواینڈ کشمیر  بینک کے کارپوریٹ مینیجر جناب سجاد بزاز پیش پیش تھے ۔ ان کے اندر زبان و ادب کی اتنی گہری دلچسپی اور اس کے لئے کام کرنے کا  ایساجزبہ کار فرما ہو سکتا ہےیہ جان کر اور دیکھ کر ہم سب  حیران بھی ہوئے اور خوش بھی ۔ یہ حیرت بھری خوشی اس وقت اور دوبالہ ہوئی جب اس پروگرام میں شرکت کرنے کے لئے آنے والی خواتین  زندگی کے ہر دوسرے شعبے کی نمائیندگی کرنے والی نظر آئیں ۔۔ جس میں ۔۔۔۔ محترمہ نصرت اندرابی جواستاد ،سماجی کارکن اور کئی اداروں کی سرپرست  رہ چکی ہیں، محترمہ شفیقہ پروین  (ماہر تعلیم اور شاعرہ)،ریٹائرڈ آئ اے ایس محترمہ نسیم لنکر، محترمہ غوث النساٗ  جو جموںکشمیر کی پہلی خاتون جج (ریٹائرڈ)، اور رٹائرڈ ڈائریکٹر کشمیر دور درشن محترمہ شہزادی سائمن ، وغیرہ  ذوق و شوق سے شامل رہیں۔ اور جشن نسائی ادب کے حسن کو دوبالا کر دیا۔ مرد حضرات کی موجودگی بھی اس کانفرنس کے وقار  میں اضافے کا سبب بنی۔محترم شاعر جناب فاروق نازکی ،پروفیسر جناب زماں آذردہ ،مشہور و معروف افسانہ نگار جناب نور شاہ ،  شاعر اور ناول نگار جناب شفق سوپوری ،جموں کشمیر ورلڈ فلم فیسٹیول کے ڈائریکٹر جناب مشتاق علی احمد خان ،مشہور اسکرین پلے رائٹر ڈائریکٹر پروڈیوسرمحی الدین مرزا وغیرہ نے جشن نسائی ادب میں شامل ہوکر خواتین تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی  ۔

اس کے بعد مقالے کا  دونوں اجلاس بہت کامیاب رہا ۔کانفرنس کی کئی رپورٹ اب تک سامنے آچکی ہے اس لئے میں اس سے گریز کرتے ہوئے  اپنے سفر کی روداد کو آگے بڑھاتی ہوں۔

۲۶ /ستمبر  :۔۔۔

چونکہ یہ ادبی سفر تھا اس لئے دو دن کے کانفرنس کا ذکرآنا ناگزیر ہے ۔دو دن جس جوش  خروش اور خوشگوار تجربات کے ساتھ گزرا ۲۶  ستمبر کی صبح  ایک نا خوشگوار اور مایوسکن خبر کے ساتھ نمودار ہوئی۔کہیں فائیرنگ میں کسی نوجوان کی موت اور وادی میںچھ  یا سات جگہ کرفیو نافز ہونے کی خبر نے ہمیں کشمیر کے حالیہ حالات کے رو برو لا کھڑا کیا ۔۔۔ اب ہمارے ذہنوں سے مغلیہ دور کی شان  کانشہ اتر چکا تھا اور ہم  آج کے کشمیر کے حالات کے رو برو تھے ۔ آج کے اجلاس کی ناکامی کی فکر کے ساتھ ہم دربار ہال میں جمع تھے ۔ ہماری میزبان خواتین بھی شبہے میں تھیں کہ ان حالات میں کوئی سیمینار میں کیونکر شرکت کر سکتا ہے ۔ اداس دل کے سا تھ پہلے اجلاس کی ابتدا کی  کوشش شروع ہوئی مگر اس سے پہلے کے اس کی شروعات ہوتی دربار ہال  دیکھتے ہی دیکھتے  اس میں شرکت کے لئے آنے والوں سے بھر گیا ۔ اور ہمارا تعارف ان حالات میں جینے والوں کی  اس ہمت سے ہوا ۔جسے ہم یہاں آئے بغیر کبھی نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ یہ سب یہاں کے ان نا مساعد حالات کے اتنے عادی ہیں کہ اسے خاطر میں نہیں لاتے ۔ پروگرام میں شاعری کے سوز اور دلوں کے گداز نے سب کو خوب خوب رلایا۔

مجھے لگا کہ ملاقات اور گفتگو کے اس سلسلے نے ہماری رسائی دل میں چھپے درد  تک کرا دی ہے ۔ وہ درد جو میں یہاں کی شاعرات کی شاعری میں تلاش کر آئی تھی ۔ مگر اس درد کے باوجود ان کی ہمت سے پہلی بار متعارف ہو رہی تھی ۔یہاں کی لڑکیاں بہت تعلیم یافتہ اور مضبوط ہیں ۔غم کی شکل کوئی سی ہو ،سب سے زیادہ متاثر وہی ہوتی ہیں ، شوہر ، بیٹا، باپ  یا اپنی عزت ،کسی کو  بھی کھو دینے کا خوف معمولی نہیں ہوتا مگر وہ نہ  کہ ہر غم کا مقابلہ کرتی ہیں بلکہ دوسروں کی مدد کے لئے ہر وقت مستعد رہتی ہیں ۔ میں ننھی سی افسانہ نگار رافعہ ولی کو اور پنک بینک کی امپلائی ریما کو کبھی نہیںبھول سکونگی۔رافعیہ ولی نے ان حالات کا شکار لڑکیوں پر ایسا خوبصورت افسانہ پیش کیا کہ ہر کوئی عش عش کر اٹھا۔اور ریما نے خواتین کے حالات اور جبر کا ذکر کرتے ہوئے اپنا دل نکال کر سامعین کے سامنے رکھ دیا ۔ کشمیر کی موجودہ صورت حال میں ان کی جاب جاب سے زیادہ سوشل ورک ہے۔

 پہلے دو دن، رات کے کھانے کے بعد ڈل کے کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے کچھ کشمیری نوجوان سے ملاقات ہوئی جو دور کے اپنے  کسی گائوں سے روزگار کے لئے رات کی تاریکی میں نکل کر آئے تھے اور اکا دکا سیاحوں کے سامنے اپنی معمولی سی گٹھری کا سرمایا کھول کر کم سے کم قیمت لگا کر اپنا سامان فروخت کرنے کی کوشش کر  رہے تھے۔ دن کی روشنی میں نکلنا ان کے لئے موت کا اندھیرا ثابت ہو سکتا تھا ۔ اس لئے وہ اسی وقت اندھیرے کی چادر اوڑھ کرنکلتے۔ وہ اتنے خوبصورت تھے کہ انہیں صرف شاہزادہ کہنے کا دل چاہتا تھا  لیکن ان کے تن پر معمولی لباس تھے ۔پر ان کا حسن کسی شاہی لباس کا مرہون منت نہیں تھا۔ا ن نوجوانوں کی تعداد بہت تیزی سے کم ہو گئی تھی ۔ یہ اپنے ہی ملک میں دربدر تھے ۔کیونکہ یہ دو ملکوںکے اقتدار کی جنگ میں پس گئے تھے ۔ ان سے کسی ملک کو کوئی ہمدردی نہیں تھی ۔۔ ان کی تعلیم اور روزگار کی کسی کو فکر نہیں تھی ۔ بلکہ یہ مظلوم  لالچ کے جبر کا شکار تھے ۔ یہ زمین کی جنت کے مالک تھے اس لئے انہیں حسد کی نظر کھا گئی تھی ۔  آج کے دن ہم چاہ کر بھی ڈل کے کنارے چہل قدمی کے لئے نہ نکل سکے ۔ صرف کمرے کے دریچے سے ڈل کا دیدار کرتے ہوئے سوچتے رہے کہ کل کا دن تو ہم کشمیر گھومنے کے لئے رکے تھے مگر اب نہ جانے یہ ممکن ہو سکیگا کہ نہیں ۔

دوسرے دن ہماری میزبان خواتین شبنم اور نکہت ایک نئی ہمت کے ساتھ کمر کس کر صبح صبح حاضر تھیں ، پورا کشمیر بند تھا ، اسکول اور بینک ہر جگہ چھٹی تھی ۔حالات کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں نے پروگرام میں کچھ تبدیلی کی اور بتایا کہ آج وہ ہمیں پری محل اور چشمہ شاہی کی سیر کے لئے لے جا رہی  ہیں۔آج اکیڈمی کی گاڑی ہمارے لئے موجود نہیں تھی کیونکہ سیمینار کے فرائض انجام  دے کر وہ فارغ ہو چکے تھے، اب ان کا ایک ہی کام بچا تھا ہمیں ائر پورٹ تک چھوڑنا۔ اس لئے اسے کل آنا تھا ۔مگر ہماری میزبان خواتین نے ہار ماننا نہیں سیکھا تھا ،انکی ذاتی کار تو تھی ہی اپنے روابط سے انہوں نے ایک بے حد مخلص اور انسان دوست شخص کو  اپنی اس کوشش میں شامل کیا۔ جنکے شامل ہونے سے سیر کا مزہ دوبالا ہوگیا  ۔۔ اور ہمارا قافلہ پری محل کے لئے نکل پڑا۔جگہ جگہ پولیس ناکے کشمیر کی اس خوبصورتی کو داغ لگانے کے لئے کافی تھے ۔ ایک جگہ ایسی بھی آئی جہاں سے گزرنے کے لئے کار سے اتر کر  سیکیورٹی چک کے لئے پیدل گزرنا ہوتا تھا ،مگر ہمارے میزبان نے اپنی فہم سے ہمیں اس زحمت سے بچا لیا اور ہماری گاڑیاں سہولت سے نکل گئیں۔  ان چوراہے ،نکڑ اور گلی سے گزرتے ہوئے  میں یہ بات ذہن سے نہیں نکال پا رہی تھی کہ ان مقامات پر ہی متعدد بار معصوم لوگوں کو گولیاں  کھانی پڑی ہونگی یا آنسو گیس اور زود کوب سے گزرنا پڑا ہوگا۔ڈاون ٹاون سے گزرتے ہوئے قدیم طرز کی عمارتوں اور لکڑیوں کی منقش در و دیوار سے جھانکتی ہوئی اداسیوں نےکان میں سرگوشی کی  کی یہی وہ کرفیو زدہ علاقے کی بیوہ سڑکیں ہیں،جن پر دو ملکوں کی ضد میں معصوم شہیدوں کا خون بہا ہے اور ان بے گناہوں کے خون کا رنگ ان سڑکوں نے یہاں کے گلوں کو بخش دیا ہے ۔اور اپنی مانگ سے زندگی کی کامرانیوں کا سیندور پوچھ کر بیوہ ہو گئی ہیں ۔ اور ان سڑکوں کے کنارے زندگی جینے کا ڈھونگ رچاتی  سجی ہوئی دکانیں اپنی بے مائیگی پر نوحہ کناں ہیں۔بڑے بڑے فائیو اسٹار ہوٹل سناٹوں کی دہشت میں لپٹے،ان اداس سڑکوں کے کنارے خالی پڑے ہیں۔اور اپنی رونق کے لئے آسمان کی طر ف دیکھتے ہیں ۔ ڈل جھیل کے سینے پر تیرتے رنگ برنگے شکارے  اور خاموشی سے پانی کی سطح پر ایستادہ ہائوس بوٹ  بھولے بھٹکے آئے ہوئے سیاحوں کی طرف اپنی اداس آنکھوں سے دیکھتے اور خود پر منحصر کرتی زندگیوں کے لئے فریاد کرتے نظر آتے ہیں ۔بادام ، آخروٹ اور سیب کاشت کرنے والے اور سونے و چاندی کے تاروں سے فرن  پر کشیدہ کرتے ہاتھ زر سے خالی ہیں ۔

اب وہ کوئی دہشت گرد ہو یا  محافظ دستے انہوں نے یہاں کی زندگی کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہاں کی عوام اپنی زیست کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے۔ بزرگوں کی اس بستی سےاپنی خالی آنکھوں میں سوال لئے پوچھ رہا ہے کہ آخر ہمارا قصور کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024