کہانی خ ت ت م

کہانی خ ت ت م

Mar 12, 2018

مصنف

قمر سبز واری

شمارہ

شمارہ -٧

دیدبان شمارہ ۔۷


کہانی خ ت ت م 

قمر سبزواری

عارف

اور کومل ماں کی ٹانگوں پر اوندھے پڑے تھے۔ وہ اپنی ننھی ننھی ٹھوڑیاں اُس کے

گھٹنوں پر ٹکائے کافی دیر سے کہانی سننے کی ضد کر رہے تھےجبکہ وہ بیڈ کی پشت سے

ٹیک لگائے چھت سے لٹکے پنکھے کے نیچے ٹانگیں پسارے ڈائری میں محلے کی کمیٹی کا

حساب لکھ رہی تھی۔


بچوں

کا باپ جو کہ ایک یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہےاسوقت اپنے بیڈ کے پاس پڑی کرسی

پر بیٹھا اپنی ٹانگیں تا حد وسعت پھیلائے ٹی وی کاریموٹ ہاتھ میں تھامے کسی خبر پر

توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ باہر گرمی اور مچھروں کی بھر مار تھی اور

نیچی چھت والے اس کمرے کے ماحول میں اکتاہٹ اور حبس کا راج

تھا۔ بچوں کی ضد اور بیوی کی ہٹ دھرمی سے تنگ آکر وہ

اپنے مخصوص دھیمے سے لہجے میں بولا


ان

کو ان کے کمرے میں لٹا آتیں تو بہتر نہیں تھا تم بھی تسلی سے لکھ پاتیں اور میں

بھی کچھ دیکھ سُن لیتا۔


یہ

نالائق جب تک کہانی نہ سنیں کہاں لیٹتے ہیں ۔ اُس کی بیوی نے ڈائری سے نظریں

اٹھائے بغیر کہا اور پھر یکدم ڈائری میں پین رکھ کر اُسے بند کرکے ایک طرف

رکھ دیا۔


ایک

ٹیبلٹ ہی کبھی لے آتے اِن کے لئے ، روز روز کی کہانی سے میری جان تو چھوٹتی انٹر

نیٹ پر بچوں کی کارٹون کہانیاں ہوتی ہیں نا بندہ لگا دیتا ہے روزانہ سوتے

وقت۔


پروفیسرنے کسی سوچ میں پڑتے ہوئے بے دھیانی میں گردن گھما کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔

وہقدرے خفیف ہو گئی۔

ویسے

اس بات سے یہ تو اندازہ ہوا کہ تمھاری بچوں کو فقط کہانی سنانےکی خدمت کی قیمت بھی

کم از کم تیس ہزار روپے تو ہے اور پھر وائی فائی کا ہزار پانچ سو ماہانہ الگ۔ وہ

ایک لمحے کو اسے طنز سمجھی لیکن

پھر اپنے خاوند کے چہرے پر پھیلی متانت میں تحسین کا رنگ

دیکھ کر جھینپتے ہوئے دھیرے سے بولی ، اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے ۔

ایسی ہی بات ہے سارہ ، ہم چیزوں کو اس قدر فار گرانٹڈ لے

لیتے ہیں کہ اُن کے ہونے کے احساس سے بھی عاری ہو جاتے ہیں۔

ابھی پروفیسر کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ بجلی چلی

گئی۔


چلوجی

دکھا لو بچوں کو ٹیبلیٹ پر کہانیاں، صبح سے گیس نہ ہونے کی وجہ سے چولہا بنداور اب

یہ بجلی بھی گئی ، تیسری بار گئی ہے صبح سے، سارہ نے چڑے ہوئے لہجے

میں کہا۔


بجلی

جانے پر صحن میں لگی ہوئی چھوٹی سی خود کار ایمرجنسی لائٹ جل اٹھی جس کی روشنی

کمرے کے اندر بھی آ رہی تھی۔ گرمی یکدم گھبراہٹ دینے لگی، دونوں بچوں کے

گرمی دانے جاگ اٹھے اور وہ بے چین ہو کرکہانی کی ضد بھول

گئے۔ لیکن روز روز کی مشق سے اب وہ کافی حد تک گرمی کے عادی بھی ہو چکے تھے۔


سارہ

نے کمر کے پیچھے رکھے دو تکیوں میں سے ایک نکال کر بیڈ پر رکھااور بچوں کو کروٹ

بدلاتے ہوئے بولی چلو جی یہاں لیٹو آج ممی کہانی سنانے کے بجائے اچھی اچھی باتیں

بتائے گی، ٹھیک ہے!؟ اُس نے چمکارتے ہوئے کہا۔

پروفیسر نے ریموٹ میز پر رکھ دیا اور اٹھ کر کمرے کے

دروازے کا پردہ ایک طرف سرکانے لگا تاکہ کچھ مزید روشنی اور ہوا کمرے کے اندر آ

سکے۔


خاوند

کی چند لمحے پہلے کہی گئی بات نے سارہ کے دل میں احساس کا جو ایک پھول کھلایا تھا

، پردہ سرکانے کے معمولی سے عمل نے جیسے اُس پھول کو مہکادیا اُس کے ذہن

میں کسی کتاب میں پڑھا ہوا ایک پرانا جملہ اپنے تمام تر

معانی کےساتھ تازہ ہو گیا کہ


محبت

دل میں دروازوں سے نہیں کھڑکیوں، روشن دانوں اورروزنوں سے آتی ہے یہ چھوٹی چھوٹی

باتوں، معمولی سے اشاروں سے غیر اعلانیہ احساس اور بالواسطہ

اظہار کے ذریعے دل میں داخل ہوتی ہے۔

یا تو ہم کہانی سنیں گے یا پھر کہانی سے بھی اچھی کوئی

بات ،عارف نے ماں کی بات سن کر ضد کی۔

بھیا بھلا کہانی سے اچھی بات بھی کوئی ہوتی ہے، کومل نے

بھائی کو اسکی کم فہمی کا احساس دلایا۔

بھئی دنیا میں کہانی سے اچھی بات تو پھر سوال ہی ہے،

پروفیسر نے بیڈکی طرف جھک کر بیٹی کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔

اےےےےے ہُرررررےےےے

بس تو پھر آج ہم جو سوال پوچھیں گے ممی اُس کا جواب دیں

گی عارف نےنعرہ لگایا۔

سارہ نے مصنوعی غصے سے اپنے خاوند کی طرف دیکھا۔

بھئی مجھے بھی یہ بات کل ہی اپنے ایک سٹوڈنٹ کی زبانی

پتہ چلی، بڑاہونہار بچہ ہے میں کہانی پر لیکچر دے رہا تھا۔


میں

نے کہا کہانی زندگی کا سب سے اہم مظہر ہے تو کہنے لگا سر مجھےآپ کی بات سے اختلاف

ہے، کہانی ہمیں ہانٹ کرتی ہے کیونکہ اس کے بطن سے سوال پیدا ہوتا

ہے، فلسفہ اور سائنس بھی سوال کرتے ہیں تو پھر سب سے اہم

تو سوال ہوا نا۔


توبہ

ہے ، یہ کلاس روم نہیں میرا بیڈ روم ہے اور کہانی ختم کر کے میں نے سونا بھی ہے

سارہ نے خاوند کو مٹیالے اجالے میں آنکھ مارکے اپنے کسی ارادے کااظہارکرتے

ہوئے کہا۔

ممی جب آپ چھوٹی ہوتی تھیں ، مطلب میرے یا کومل کے جیسی

تو اُس وقت کیا ہوتا تھا، عارف نے پہلا سوال کر دیا۔


سارہمچھروں سے بچانے کے لئے دوپٹہ بچوں کے اوپر ڈالتے ہوئے سوال سن کر سوچ میں پڑ گئی۔

اُسے

قریب کے پسماندہ شہر میں اپنا اور اپنے خاوند کا گاوں یاد آ گیا جہاں اُن کا بچپن

گزرا تھا۔


اُس

وقت اُس نے ایک لمبی سانس لی، کرسی پر بیٹھتے ہوئے پروفیسر کادھیان بیوی کے پاوں

کی طرف چلا گیا جس کا انگوٹھا بیڈ کی پائنتی کے ساتھ زورآزمائی کر کے

سوچ کے کسی دھارے کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا ۔


اُس

وقت نہ بجلی ہوتی تھی، نہ گیس، نہ ٹی وی اور اس کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کا تو کسی کو

پتہ بھی نہیں ہوتا تھا، ہم لوگ بس مغرب تک کھیلتے تھے پھر کمروں میں دبک

جاتے تھے اور عشا تک تو سو بھی جاتے تھے۔


بجلی

، گیس اور کمپیوٹر تو اس وقت بھی نہیں ہے ، کومل نے معصوم لہجے میں سب کو اطلاع دی

لیکن کسی نے اُس کی بات کا جواب نہ دیا۔

اور مما اُس سے بھی پہلے جب آپ کے ممی پپا بھی نہیں

ہوتے تھے، کومل نے اپنی بات کو غیر اہم سمجھ کر اگلا سوال کیا۔

جب میرے ممی پپا بھی نہیں ہوتے تھے مطلب؟ سارہ نے نہ

سمجھتے ہوئےکہا۔

مطلب بہت بہت بہت پہلے عارف کے الفاظ اُس کے تجسس کا

ساتھ نہیں دےرہے تھے۔


بہت

پہلے تو بڑے بڑے جاگیر داروں، راجوں، مہاراجوں،اور بادشاہوں کی حکومت ہوتی تھی وہ

اپنے بڑے بڑے محلوں اور قلعوں میں رہتے تھے اور جو چاہے کرتے

تھے سارہ نے جان چھڑانے کے لئے قصہ مختصر کرنا چاہا۔


اُن

کے محل کتنے پیارے ہوتے ہوں گے، ہے نا عارف، کومل نے بھائی سےتصدیق چاہی، جیسے

کارٹونوں میں ہوتے ہیں، ممی کیا لوگ اُن کے محلوں میں جا کر رہتے

تھے، کیا کبھی آپ کسی محل کے اندر گئی ہیں؟ کومل نے

تجسس سے پوچھا۔

میری بچی اُن کے محلوں کے اندر تو کیا اُن کے قریب بھی

کوئی نہ جاسکتا تھا بلکہ اُن کے جو نوکر جو غلام تھے وہ بھی کسی عام انسان کو

انسان نہ سمجھتے تھے۔


تو

کوئی انھیں بتاتا کیوں نہیں تھا کہ تمھارا بادشاہ برا ہے اور سب ملکر اس کو روکو،

عارف نے جیسے سیدھا سادا سا حل پیش کر کے معاملہ سلجھا دیا۔


جو

لوگوں کو بادشاہ کے بارے میں سچ بتائے یا اُس کی حکومت کے بارے میں کچھ غلط بولے

اُس کو بادشاہ کے لوگ اٹھا کر لے جاتے تھے اور پھر اُس کا کچھ پتہ نہیں چلتا

کہ وہ کہاں گیا۔ماں نے بچے کے معصوم سوال کا آسان زبان

میں جواب دیا۔

تو کیا لوگ شور نہیں مچاتے تھے۔ عارف کا دل نہیں مان رہا

تھا کہ اتنی غلط بات اتنی آسانی سے ہو سکتی ہے۔

بیٹاچالاک بادشاہ اور اُس کے سپاہی کسی کو اٹھانے سے

پہلے اُس پرالزام لگا دیتے تھے کہ یہ جھوٹا ہے یا یہ اللہ میاں کو نہیں مانتا یا

یہ کہ اس نےچوری کی ہے۔

اس لئے پھر لوگ بھی شور نہیں کرتے تھے کہ چلو بُرا انسان

تھااچھا ہوا پکڑا گیا۔

شکر ہے اللہ میاں کا کہ سارے بادشاہ ختم ہو گئے ہیں کومل

نے ماضی کی بھیانک تصویر دیکھ کر حال پر خدا کا شکر ادا کیا۔

اُس کی بات سُن کر اُس کے باپ کی ہنسی نکل گئی۔

آج کل یہ تکلفات بھی کہاں کرتے ہیں اُس نے قمیض کے بازو

اڑستے ہوئےسوچا۔

سارہ سوال جواب کا یہ سلسلہ ختم کرنا چاہ رہی تھی۔


کتنا

عجیب تعلق ہے نا سوال اور جواب کا بھی سوال ہم آغوشی کی طرح چند لمحوں کا بے خودی

پر مبنی ایک پرمسرت عمل اور جواب، جواب جیسے سچ کی پیدائش

کا ایک ایسا عمل جس میں جواب دینے والے کی اپنی ذات کی

ایک طرح سے تکمیل تو ہو لیکن درد زہ برداشت کر کے، اُس نےچھت کی طرف دیکھتے ہوئے

خود کلامی کے انداز میں کہا۔

کیوں درد ممی ، کس کو چوٹ لگی کومل نے بے چین ہو کر

پوچھا۔

کچھ نہیں بیٹا ویسے تمھارے بابا سے بات کر رہی تھی کسی

کو چوٹ نہیں لگی، سارہ نے بات ٹال دی۔


آج

آپ نے کہانی خت۔۔۔تم نہیں کہا نا مما، آپ کو پتہ ہے کہانی ختم نہ کہو تو کہانی

چلتی ہی رہتی ہے اور انسان کہانی کے اندر گم ہو جاتا ہے، عارف نے ماں کو یاد

دلایا۔

تم نہیں بولو بیٹا تم سونے کی کوشش کرو، میں ابھی سناتی

ہوں۔

شاید اسی لئے !!! شاید فطرت نے زندگی کے سوال کے لئے ہی

عورت کو پیداکیا اور پھر بچوں کے سوالوں کے لئے ماں ، ہاں ماں ہی تو ہے جو بچوں کے

سوالات

کےجواب دے سکتی ہے ، پروفیسر نے بند ٹی وی کی سکرین پر

نظریں گھماتے ہوئے جواب دیا۔

لیکن پھر ہمارے تمھارے سوالوں کا کیا، سارہ نے کچھ سوچتے

ہوئے بےدھیانی میں کہہ دیا۔

ریاست ، سارہ، ریاست اپنے شہریوں کے لئے ماں کا کردار

ادا کرتی ہے،پالتی پوستی ہے ، حفاظت کرتی ہے، تاآنکہ بانجھ یا سوتیلی ہو۔

ریاست سوالوں کا جواب ہوتی ہے۔

دیکھو، زندگی، عورت، ماں، ریاست سب مونث ایک ہی جیسے نام

جیسے تخلیق کے استعارے۔

آپ بھی نا، بہت ہی بڑھا دیتے ہیں بات کو، سارہ نے

جھینپتے ہوئے کہا۔

میں ٹھیک کہہ رہا ہوں، اسی لئے تو جبر، جواب نہیں دیتا،

قانون جواب نہیں دیتا۔


اور

مذہب، سارہ نے دیوار پر آویزاں خطاطی کے ایک نمونے کو اندھیرے میں گھورتے ہوئے

اپنے خاوند سے پوچھا۔


مذہبی

فکر کا معاملہ دوسرا ہے ، مذہب جواب نہیں دیتا توجیہات پیش کرتا ہےاُن سوالوں کے

جواب نہیں جو آپ کریں بلکہ اُن سوالوں کے پیچھے جو محرکات ہوتے اُن

کی توجیہات جس سے آپ سوال کے وجود کی ہی نفی کرنے لگتے

ہیں اور یوں آپ سوال کی تشنگی کے عذاب سے بچ جاتے ہیں اور سکون پا لیتے ہیں ، اسی

لئے،

تم نےدیکھا ہو گا کہ بالکل اسی لئے جن معاشروں میں ریاست

ماں کا کردار نہیں نبھاتی وہاں مذہب زور پکڑتا ہے ، جب جواب نہیں تو سوال کا وجود

ہی سوالیہ نشان بن

جاتا ہے۔


محروم،

بے بس، گرمی سردی، بے روزگاری اور حالات کے ستائے ہوئے شکست خوردہ لوگ مذہب کی

محبت میں اُس کی طرف راغب نہیں ہوتے بلکہ اپنے سوالوں کے اسقاط حمل کے

لئے اس کلینک کے چکر لگاتے ہیں۔


لوگوں

کا رجحان تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ریاست کیوں مذہب کو ڈھال بنا لیتی ہے۔

ابھی اپنے بچوں کے سوالات کے جواب دے رہی تھی نا تم، یہ

انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی زندگی کا زندگی کے دوسرے نمونوں سے موازنہ کرتا رہتا

ہے ، ان حالات میں جب تم اور تمھارے بچے بنیادی سہولتوں سے محروم ہو، چھوٹی چھوٹی

خوشیوں کی کم یابی ہے تو کیا تم لوگ اپنی زندگی کا دوسرے ممالک کے عوام کی طرز

زندگی سے موازنہ کر کے خوش ہو سکتے ہو ، کبھی نہیں بلکہ مایوسی اور اضطراب ہی بڑھے

گا اور اگر ماضی کی طرف دیکھو گے تو لاشعوری طور پر خود کو پیچھے کی طرف جاتا ہوا

محسوس کرو گے ۔ جیسے کہ اگر تمھیں کہا جائے ک اپنی گاوں والی زندگی یا اپنے ماں

باپ کے طرز زندگی سے اپنا موازنہ کرو۔

تو؟ سارہ تجسس سے بولی۔

تو، ایک ہی جہت ہے جس میں ہم پستی کی طرف ،پیچھے کی طرف

سفر کر کے بھی فخر محسوس کر سکتے ہیں ، اور وہ ہے مذہب۔


آپ

نا، ایسی باتیں اپنے لکچرز کے دوران بھی کرتے ہوں گے ضرور، کچھ احتیاط کیا کریں

جناب۔


پتہ

ہے کتنے سال گزر گئے آپ کو اسی پوسٹ پر اور ہم کو اس شہر میں آئے ہوئے اور ابھی

تک آپ اسسٹنٹ ہی ہیں آپ کو اپنی پروموشن نہیں ملی جس کے کہ آپ بہت پہلےحقدارتھے۔


نہیں

لکچرز میں میں کیا کہوں گا، بس وہی گھسی پٹی باتیں اور اگر کوئی طالب علم سوال کر

بھی دے تو میں مزید چند سوال ہی ابھار سکتا ہوں جس سے سلسلہ چلتا

رہے ۔

میاں بیوی کی سمجھ نہ آنے والی باتوں سے اکتا کر بچے

وہیں سو گئے تھے۔

سارہ اٹھ کر بچوں کو دوسرے کمرے میں اُن کے بیڈ پر لٹانے

کی تیاری کرہی رہی تھی کے باہر کے دروا زے پر دستک ہوئی۔

پروفیسر باہر دروازہ دیکھنے نکلا تو سارہ عارف کو اٹھا

کر ساتھ والےکمرے کی طرف بڑھی۔


وہ

بچے کو بیڈ پر ڈال کر سیدھی ہوئی تو اُسے دروازے پرسرگوشیوں کی آواز سنائی دے رہی

تھی وہ بچی کو اٹھانے کے لئے اپنے کمرے کی طرف بڑھی تو اُسے اپنے

خاوند کی قدرے بلند آواز سنائی دی، لیکن اس وقت ؟؟؟ اور

پھر ایسے کیوں ؟؟؟ اور پھر جانا کہاں ہے؟؟؟ ۔۔۔پھر آواز ایسے دم توڑ گئی جیسے کسی

نے اُس کےخاوند کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا

ہو۔


وہ

دوڑ کر بیڈ پر پڑے اپنے دوپٹے تک پہنچی اور پھر باہر کی طرف لپکی۔ جب اُسنے گلی کا

دروازہ کھولا تو باہر ایک بڑی سی ٹرک نما گاڑی تھی جس پر موٹا سا کپڑاپڑا ہوا تھا۔

گلی میں ہر طرف اندھیرا تھا، گاڑی کی سب بتیاں بھی گل

تھیں اُسے بس چند افراد کے ہیولے دکھائی دیئے جیسے اندھیرے میں اندھیرے کا ہی ایک

حصہ متحرک تھا وہ اُس کے خاوند کو گاڑی کیطرف

لے کر جا رہے تھے۔ ابھی اُس کی پھٹی پھٹی آنکھیں اتنا

منظر ہی دیکھ پائی تھیں کہ ان میں سے ایک نے اُس کے خاوند کے منہ پر ہاتھ رکھا اور

دو نےاُسے اٹھا کر

اُس ٹرک نما گاڑی کے پچھلے حصے میں ڈال دیا گاڑی سرعت

سےآگے بڑھی اور موڑ مڑ گئی۔


سارہ

پہلے چند ثانیے تو وہیں کھڑی رہی نہ اُس نے کوئی حرکت کی نہ کوئی آواز نکالی اور

نہ کوئی رد عمل اور پھر وآپس اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پرایسے بیٹھ گئی جیسےکوئی

بے جان شے کہیں رکھی جاتی ہے۔


صحن

میں لگی ایمرجنسی لائٹ بجھنے کے قریب تھی، گھر جو کچھ دیر پہلےگرمی سے دہک رہا تھا

اب اُسے ایک سرد تہہ خانے کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔

بجلی اور گیس کی عدم دستیابی اُسے بھول چکی تھی۔ بچوں کے

گرمی دانے اور اُن کی بے آرامی غیر اہم ہو چکی تھی۔

وہ بالکل ایسے محسوس کرنے لگی جیسے وہ کسی زندان میں کسی

بادشاہ کے عقوبت خانے میں ہے اور فقط زندہ رہنے کی اجازت ملنا ہی سب سے بڑی نعمت

ہے ۔یہ بھی کیا کم تھا کہ وہ اُس کے خاوند کو لے گئے تھے لیکن اُسے کچھ نہ کہا

تھا۔ اُس نے پاس سوئی بیٹی کی ٹانگوں پر لرزتا ہوا ہاتھ پھیرا تو غیر ارادی طور پر

اُس کے لب ہلے کہانی خت ۔۔تم ۔۔۔۔ لیکن اتنی دیر میں شاید سب کچھ کہانی کے اندر گم

ہو چکا تھا۔


٧ 

ناکہ بندی 

ڈاکٹر ریاض توحیدیکشمیر


چار

مہینے کا ننھا سا پھول دودھ کی ایک ایک بو ند کے لئے ترس رہا تھا۔ اُس کی دلخراش

چیخیں ماں باپ کے جگر کو پارہ پارہ کررہی تھیں ۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ان

کے کلیجے کو تیزدار تلوار سے کاٹا جارہا ہے ۔ بھوکے بچے کی ابتر حالت اور اپنی بے

بسی و بے کسی کا رونا روتے روتے ساجدہ اور بشیر ملک کی آنکھیں پتھر ا گئی تھیں

۔بنجر زمین کے بنجر ذہن آدھی باسیوں نے سرسبز اور شاداب وادی کے بے مثل مہمان نواز

انسانوں کا دانہ پانی بند کر دیا تھا ۔ کئی مہینوں سے چل رہی اقتصادی ناکہ بندی کے

ٹوٹنے کے تمام راستے بلوایوں کے محسن جمہوریت پسند سیاستدانوں کی شاطرانہ مصلحت

آمیزی اور جانبدار نہ پالیسوں کے بھنور میں پھنسے ہوئے تھے اور وادی کے طول و عرض

میں قحط نما صورت حال تھی ۔

” بشیر ! منا بے ہوش ہو گیا ہے “ساجدہ نے رقت آمیز لہجے

میں کہا ۔ ” کہیں سے آٹو کا انتظام کرو اس کو اسپتال لے جاینگے۔“

” اس اندھیری وحشت ناک رات میں ہم کس طرح گھر سے نکلیں

گے ۔“ بشیر ملک نے آنکھیں موندتے ہوئے کہا” باہر کرفیو لگا ہوا ہے

۔ صبح تک

انتظار کرنا پڑے گا۔ پھر .... صبح کو بھی کون اسپتال جانے دیگا ۔“

لیکن بشیر .... صبح ....؟ ساجدہ کچھ اور نہ کہہ سکی۔

” ساجدہ ! کسی پڑوسی سے منا کے لئے دودھ ادھار مانگ لو“

بشیر ملک نے کہا۔

ساجدہ غم ناک آواز میں بولی ” وہ لوگ مجھ سے ہی دودھ کے

بارے میں پوچھ رہے تھے ۔ان کے بچے بھی بھوک سے بلک رہے ہیں۔“

کچھ دیر کے بعد فون کی گھنٹی بجنے لگی ۔ بشیر ملک نے

ریسور اٹھایا ۔ جموں سے اُس کا چھوٹا بھائی عرفان ایک ہی سانس میں بول پڑا ” بھائی

جان ! اندھیرے کا سہارالے کر میں ٹرک لے کر جموں سے گزر رہا ہوں ۔ فکر مت کرنا !

میں نے منے کے لئے دودھ کی ایک پیٹی بھی لائی ہے ،بشیر ملک نے یہ بات جب ساجدہ کو

بتائی تو اس کا چہرہ کِھل اٹھا۔

بشیر ملک نے کرسی پر بیٹھ کر تھوڑی سی راحت محسوس کی۔ وہ

گہری سوچ میں ڈوب گیا اور گزرے دنوں کی خوشنما یا دوں میں کھو گیا ۔ اسے یاد آرہا

تھا کہ کس طرح ہم کشمیری اپنی جنت میں وارد مہمانوں کا استقبال بے مثل فراخ دلی سے

کرتے تھے اور اپنی مہمان نوازی کے حسین نقوش ان کے دلوں پر چھوڑ کر بار بار یہ

ثابت کر تے آئے تھے کہ ” ذرا ذرا ہے میرے کشمیر کا مہمان نواز۔“ اُس کی آنکھیں نم

ہو رہی تھیں لیکن وہ اب کچھ اور ہی محسوس کر رہا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس

انسانی سلوک کے بدلے یہ لوگ حیوانیت پر اتر آئے ہیں، ان لوگوں نے اپنے زہر آلودہ

منصوبوں سے وادی کے خوش نما اور خوبصورت پھولوں کو مسلنے کی قسم کھائی ہیں۔ ان کی

خمیر میں ہی شاید منافرت کا زہر ملا ہوا ہے، نہیں تویہ لوگ کیسے بھول جاتے کہ جب

یہ لوگ کشمیر میں اپنے مذہبی مقامات پر زیارت کے لئے آتے تھے تو ہم لوگ جگہ جگہ ان

کے لئے کھانے پینے کا اعلیٰ انتظام کرتے تھے اور ماضی میں کئی بار جب موسم کی

خرابی کی وجہ سے یہ لوگ مصیبت میں پھنس گئے تھے تو ہمارے گھر ان کے لئے بہترین اور

پر امن پناہ گاہ ثابت ہوتے تھے اور آج یہی لوگ زمین کے وارثوں کو ہی کاشت کار

بنانا چاہتے ہیں اور مکان کے مکینوں کو کرایہ دار .... ! 

یہ لوگ پریشانیوں کی وجہ سے کئی راتوں سے سو نہیں پائے

تھے ۔ رات کے آخری حصے میں جب بشیر ملک کی آنکھ لگ گئی تو صبح سویرے انھیں فون پر

کسی دوست نے اطلاع دی کہ آج کسی رضاکار تنظیم کی طرف سے انسانی حقوق کے دفتر کے

سامنے ملک فوڈ بانٹا جائے گا۔ بشیر ملک یہ سُن کر گھر سے تیزی کے ساتھ نکلا اور

شہر کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا اور بڑی مشکل سے دودھ کا ایک ڈبہ

حاصل کر پایا ۔ ادھر ساجدہ اپنے بے ہوش لخت جگر کو لے کر اسپتال کی جانب دوڑ پڑی ۔

وہ جب پریشان حالت میں سنسان سڑک کو پار کر رہی تھی کہ اچانک کہیں سے آواز آئی ”

کرفیو ں میں کہاں جارہی ہو:؟“

ساجدہ نے خوف کے مارے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میںآنسو بہاتے

ہوئے کہا ۔

” بچہ بیمار .... اسپتال....! “ یہ سنتے ہی کئی وردی پوش

سڑک پر نمودار ہوگے۔ ساجدہ دہشت زدہ ہوئی، اُس نے بچے کو چھاتی سے لگایا۔

” اچھا ! بیما ر بچے کو اسپتال لے جانا ہے“ ایک وردی پوش

بولا” اسپتا ل جا کر کیا کروگی وہاں تو دوائی نہیں ہے ۔“

چند لمحوں بعد کہیں سے ایک سنساتی ہوئی گولی آئی اور بچے

کے پھول جیسے نازک بدن کو چیرتی ہوئی ماں کے دل میں پیوست ہو گی ۔ چاروں طرف ہنسنے

کی آوازیں آئیں اور خون میںلت پت دونوں لاشیں گھر کے صحن میں پھینک دی گئیں ۔

بشیر ملک شہر کی گنجان آبادی سے چوری چھپے خوش ہو کر

دودھ کا ڈبہ بغل میں چھپاتے ہوئے جب گھر کے مین گیٹ پر پہنچا ۔ تو صحن میں داخل

ہوتے ہی اُس کی نظر بیوی اور بچے کی لاش پر پڑی ۔ وہ حواس باختہ ہو کر چیخنے چلانے

لگا۔ اس کی چیخیں صدابہ صحرا ثابت ہو رہی تھیں کیونکہ وردی پوشوں کے خوف کی وجہ سے

تمام لوگ گھروں کے اندر سہم گئے تھے۔

عرفان جب رات کے اندھیرے میں چاول سے بھرا ٹرک کشمیر کی

طرف لے کر آرہا تھا تو بیچ سڑک پر اُسے بُلوایوں نے روکا ۔ وہ لوگ ہاتھوں میں تر

شول اور سرپر کیسری رنگ کے کپڑے باندھے نعرہ لگا رہے تھے۔

” ہر ہر مہادیو ۔ وندے ماترم ....بلوایوں نے ٹرک پر حملہ

کر کرے سارا چاول لوٹ لیا اور عرفان کو ٹرک کے ساتھ زندہ جلا ڈالا ۔ بشیر ملک اس

اندوہ ناک صورت حال سے بے خبر تھا۔ اُس نے عرفان پر مو بائل پر رابطہ کرنے کی کوشش

کی تاکہ وہ اسے گھر کے سانحہ کے بارے میں بتائے لیکن عرفان کا موبائل بند آرہا تھا

۔ ایک گھنٹے کے بعد عرفان کے ایک ساتھی ڈرائیور کا فون آیا‘ اُس نے بشیر ملک کو

عرفان کے حادثے کے بارے میں بتایا ۔ یہ خبر سنتے ہی بشیر ملک کے اوپر جیسے دو ہر ا

آسمان ٹوٹ پڑا ۔ اُس کی آواز بند ہوگی۔

کرفیو میں آدھے گھنٹے کی ڈھیل دی گی ۔ بشیر ملک گھر سے

باہر نکلا اور بازار کی طرف چل پڑا ۔ اُ س کے ہاتھ میں دودھ کا ڈبہ تھا ۔ کچھ لوگ

سڑک پر جمع ہو گے۔ بشیر ملک کے ہاتھ میں مِلک فوڈ دیکھ کر ایک آدمی سامنے آیا اور

بشیر ملک سے پوچھنے لگا۔ 

” اے بھائی ! تمہیں یہ دودھ کا ڈبہ کہاں سے ملا؟ کیا اسے

بیچو گے ؟“

بشیر ملک نے جب ہاں میں جواب دیا تو وہ آدمی حیران ہو کر

بول پڑا ۔

” لیکن کیوں! تمہیں بھی تو اپنے بچے کے لئے اس کی ضرورت

ہوگی۔“

” میرے بچے کو اب اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وہ کفن کے

انتظار میں ہے ۔ جس کے لئے مجھے پیسے چائیں ۔“ یہ کہتے ہوئے بشیر ملک کی آنکھوں سے

آنسوﺅں کی دھار اُمنڈ پڑی۔

اسی دوران لوگوں نے ناکہ بندی اور کرفیو کے خلاف پر امن

احتجاج شروع کیا۔ مظاہر ین کو خاموش کرانے کے لئے وردی پوشوں نے ان پر گولیوں کی

برسات برسائی۔ آدھے گھنٹے کی ڈھیل ختم ہوتے ہی دوسرے چند لوگوں کے ساتھ بشیر ملک

کی لاش بھی گولیوں سے چھلنی سڑک پر کفن کا انتظار کر رہی تھی ۔ اور قانون کی نظروں

میں دھول جھونکنے کے لئے دودھ کے ڈبے کو بم بنا کر پیش کیا گیا....!


............٭٭٭........

 

دیدبان شمارہ ۔۷


کہانی خ ت ت م 

قمر سبزواری

عارف

اور کومل ماں کی ٹانگوں پر اوندھے پڑے تھے۔ وہ اپنی ننھی ننھی ٹھوڑیاں اُس کے

گھٹنوں پر ٹکائے کافی دیر سے کہانی سننے کی ضد کر رہے تھےجبکہ وہ بیڈ کی پشت سے

ٹیک لگائے چھت سے لٹکے پنکھے کے نیچے ٹانگیں پسارے ڈائری میں محلے کی کمیٹی کا

حساب لکھ رہی تھی۔


بچوں

کا باپ جو کہ ایک یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہےاسوقت اپنے بیڈ کے پاس پڑی کرسی

پر بیٹھا اپنی ٹانگیں تا حد وسعت پھیلائے ٹی وی کاریموٹ ہاتھ میں تھامے کسی خبر پر

توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ باہر گرمی اور مچھروں کی بھر مار تھی اور

نیچی چھت والے اس کمرے کے ماحول میں اکتاہٹ اور حبس کا راج

تھا۔ بچوں کی ضد اور بیوی کی ہٹ دھرمی سے تنگ آکر وہ

اپنے مخصوص دھیمے سے لہجے میں بولا


ان

کو ان کے کمرے میں لٹا آتیں تو بہتر نہیں تھا تم بھی تسلی سے لکھ پاتیں اور میں

بھی کچھ دیکھ سُن لیتا۔


یہ

نالائق جب تک کہانی نہ سنیں کہاں لیٹتے ہیں ۔ اُس کی بیوی نے ڈائری سے نظریں

اٹھائے بغیر کہا اور پھر یکدم ڈائری میں پین رکھ کر اُسے بند کرکے ایک طرف

رکھ دیا۔


ایک

ٹیبلٹ ہی کبھی لے آتے اِن کے لئے ، روز روز کی کہانی سے میری جان تو چھوٹتی انٹر

نیٹ پر بچوں کی کارٹون کہانیاں ہوتی ہیں نا بندہ لگا دیتا ہے روزانہ سوتے

وقت۔


پروفیسرنے کسی سوچ میں پڑتے ہوئے بے دھیانی میں گردن گھما کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔

وہقدرے خفیف ہو گئی۔

ویسے

اس بات سے یہ تو اندازہ ہوا کہ تمھاری بچوں کو فقط کہانی سنانےکی خدمت کی قیمت بھی

کم از کم تیس ہزار روپے تو ہے اور پھر وائی فائی کا ہزار پانچ سو ماہانہ الگ۔ وہ

ایک لمحے کو اسے طنز سمجھی لیکن

پھر اپنے خاوند کے چہرے پر پھیلی متانت میں تحسین کا رنگ

دیکھ کر جھینپتے ہوئے دھیرے سے بولی ، اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے ۔

ایسی ہی بات ہے سارہ ، ہم چیزوں کو اس قدر فار گرانٹڈ لے

لیتے ہیں کہ اُن کے ہونے کے احساس سے بھی عاری ہو جاتے ہیں۔

ابھی پروفیسر کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ بجلی چلی

گئی۔


چلوجی

دکھا لو بچوں کو ٹیبلیٹ پر کہانیاں، صبح سے گیس نہ ہونے کی وجہ سے چولہا بنداور اب

یہ بجلی بھی گئی ، تیسری بار گئی ہے صبح سے، سارہ نے چڑے ہوئے لہجے

میں کہا۔


بجلی

جانے پر صحن میں لگی ہوئی چھوٹی سی خود کار ایمرجنسی لائٹ جل اٹھی جس کی روشنی

کمرے کے اندر بھی آ رہی تھی۔ گرمی یکدم گھبراہٹ دینے لگی، دونوں بچوں کے

گرمی دانے جاگ اٹھے اور وہ بے چین ہو کرکہانی کی ضد بھول

گئے۔ لیکن روز روز کی مشق سے اب وہ کافی حد تک گرمی کے عادی بھی ہو چکے تھے۔


سارہ

نے کمر کے پیچھے رکھے دو تکیوں میں سے ایک نکال کر بیڈ پر رکھااور بچوں کو کروٹ

بدلاتے ہوئے بولی چلو جی یہاں لیٹو آج ممی کہانی سنانے کے بجائے اچھی اچھی باتیں

بتائے گی، ٹھیک ہے!؟ اُس نے چمکارتے ہوئے کہا۔

پروفیسر نے ریموٹ میز پر رکھ دیا اور اٹھ کر کمرے کے

دروازے کا پردہ ایک طرف سرکانے لگا تاکہ کچھ مزید روشنی اور ہوا کمرے کے اندر آ

سکے۔


خاوند

کی چند لمحے پہلے کہی گئی بات نے سارہ کے دل میں احساس کا جو ایک پھول کھلایا تھا

، پردہ سرکانے کے معمولی سے عمل نے جیسے اُس پھول کو مہکادیا اُس کے ذہن

میں کسی کتاب میں پڑھا ہوا ایک پرانا جملہ اپنے تمام تر

معانی کےساتھ تازہ ہو گیا کہ


محبت

دل میں دروازوں سے نہیں کھڑکیوں، روشن دانوں اورروزنوں سے آتی ہے یہ چھوٹی چھوٹی

باتوں، معمولی سے اشاروں سے غیر اعلانیہ احساس اور بالواسطہ

اظہار کے ذریعے دل میں داخل ہوتی ہے۔

یا تو ہم کہانی سنیں گے یا پھر کہانی سے بھی اچھی کوئی

بات ،عارف نے ماں کی بات سن کر ضد کی۔

بھیا بھلا کہانی سے اچھی بات بھی کوئی ہوتی ہے، کومل نے

بھائی کو اسکی کم فہمی کا احساس دلایا۔

بھئی دنیا میں کہانی سے اچھی بات تو پھر سوال ہی ہے،

پروفیسر نے بیڈکی طرف جھک کر بیٹی کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔

اےےےےے ہُرررررےےےے

بس تو پھر آج ہم جو سوال پوچھیں گے ممی اُس کا جواب دیں

گی عارف نےنعرہ لگایا۔

سارہ نے مصنوعی غصے سے اپنے خاوند کی طرف دیکھا۔

بھئی مجھے بھی یہ بات کل ہی اپنے ایک سٹوڈنٹ کی زبانی

پتہ چلی، بڑاہونہار بچہ ہے میں کہانی پر لیکچر دے رہا تھا۔


میں

نے کہا کہانی زندگی کا سب سے اہم مظہر ہے تو کہنے لگا سر مجھےآپ کی بات سے اختلاف

ہے، کہانی ہمیں ہانٹ کرتی ہے کیونکہ اس کے بطن سے سوال پیدا ہوتا

ہے، فلسفہ اور سائنس بھی سوال کرتے ہیں تو پھر سب سے اہم

تو سوال ہوا نا۔


توبہ

ہے ، یہ کلاس روم نہیں میرا بیڈ روم ہے اور کہانی ختم کر کے میں نے سونا بھی ہے

سارہ نے خاوند کو مٹیالے اجالے میں آنکھ مارکے اپنے کسی ارادے کااظہارکرتے

ہوئے کہا۔

ممی جب آپ چھوٹی ہوتی تھیں ، مطلب میرے یا کومل کے جیسی

تو اُس وقت کیا ہوتا تھا، عارف نے پہلا سوال کر دیا۔


سارہمچھروں سے بچانے کے لئے دوپٹہ بچوں کے اوپر ڈالتے ہوئے سوال سن کر سوچ میں پڑ گئی۔

اُسے

قریب کے پسماندہ شہر میں اپنا اور اپنے خاوند کا گاوں یاد آ گیا جہاں اُن کا بچپن

گزرا تھا۔


اُس

وقت اُس نے ایک لمبی سانس لی، کرسی پر بیٹھتے ہوئے پروفیسر کادھیان بیوی کے پاوں

کی طرف چلا گیا جس کا انگوٹھا بیڈ کی پائنتی کے ساتھ زورآزمائی کر کے

سوچ کے کسی دھارے کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا ۔


اُس

وقت نہ بجلی ہوتی تھی، نہ گیس، نہ ٹی وی اور اس کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کا تو کسی کو

پتہ بھی نہیں ہوتا تھا، ہم لوگ بس مغرب تک کھیلتے تھے پھر کمروں میں دبک

جاتے تھے اور عشا تک تو سو بھی جاتے تھے۔


بجلی

، گیس اور کمپیوٹر تو اس وقت بھی نہیں ہے ، کومل نے معصوم لہجے میں سب کو اطلاع دی

لیکن کسی نے اُس کی بات کا جواب نہ دیا۔

اور مما اُس سے بھی پہلے جب آپ کے ممی پپا بھی نہیں

ہوتے تھے، کومل نے اپنی بات کو غیر اہم سمجھ کر اگلا سوال کیا۔

جب میرے ممی پپا بھی نہیں ہوتے تھے مطلب؟ سارہ نے نہ

سمجھتے ہوئےکہا۔

مطلب بہت بہت بہت پہلے عارف کے الفاظ اُس کے تجسس کا

ساتھ نہیں دےرہے تھے۔


بہت

پہلے تو بڑے بڑے جاگیر داروں، راجوں، مہاراجوں،اور بادشاہوں کی حکومت ہوتی تھی وہ

اپنے بڑے بڑے محلوں اور قلعوں میں رہتے تھے اور جو چاہے کرتے

تھے سارہ نے جان چھڑانے کے لئے قصہ مختصر کرنا چاہا۔


اُن

کے محل کتنے پیارے ہوتے ہوں گے، ہے نا عارف، کومل نے بھائی سےتصدیق چاہی، جیسے

کارٹونوں میں ہوتے ہیں، ممی کیا لوگ اُن کے محلوں میں جا کر رہتے

تھے، کیا کبھی آپ کسی محل کے اندر گئی ہیں؟ کومل نے

تجسس سے پوچھا۔

میری بچی اُن کے محلوں کے اندر تو کیا اُن کے قریب بھی

کوئی نہ جاسکتا تھا بلکہ اُن کے جو نوکر جو غلام تھے وہ بھی کسی عام انسان کو

انسان نہ سمجھتے تھے۔


تو

کوئی انھیں بتاتا کیوں نہیں تھا کہ تمھارا بادشاہ برا ہے اور سب ملکر اس کو روکو،

عارف نے جیسے سیدھا سادا سا حل پیش کر کے معاملہ سلجھا دیا۔


جو

لوگوں کو بادشاہ کے بارے میں سچ بتائے یا اُس کی حکومت کے بارے میں کچھ غلط بولے

اُس کو بادشاہ کے لوگ اٹھا کر لے جاتے تھے اور پھر اُس کا کچھ پتہ نہیں چلتا

کہ وہ کہاں گیا۔ماں نے بچے کے معصوم سوال کا آسان زبان

میں جواب دیا۔

تو کیا لوگ شور نہیں مچاتے تھے۔ عارف کا دل نہیں مان رہا

تھا کہ اتنی غلط بات اتنی آسانی سے ہو سکتی ہے۔

بیٹاچالاک بادشاہ اور اُس کے سپاہی کسی کو اٹھانے سے

پہلے اُس پرالزام لگا دیتے تھے کہ یہ جھوٹا ہے یا یہ اللہ میاں کو نہیں مانتا یا

یہ کہ اس نےچوری کی ہے۔

اس لئے پھر لوگ بھی شور نہیں کرتے تھے کہ چلو بُرا انسان

تھااچھا ہوا پکڑا گیا۔

شکر ہے اللہ میاں کا کہ سارے بادشاہ ختم ہو گئے ہیں کومل

نے ماضی کی بھیانک تصویر دیکھ کر حال پر خدا کا شکر ادا کیا۔

اُس کی بات سُن کر اُس کے باپ کی ہنسی نکل گئی۔

آج کل یہ تکلفات بھی کہاں کرتے ہیں اُس نے قمیض کے بازو

اڑستے ہوئےسوچا۔

سارہ سوال جواب کا یہ سلسلہ ختم کرنا چاہ رہی تھی۔


کتنا

عجیب تعلق ہے نا سوال اور جواب کا بھی سوال ہم آغوشی کی طرح چند لمحوں کا بے خودی

پر مبنی ایک پرمسرت عمل اور جواب، جواب جیسے سچ کی پیدائش

کا ایک ایسا عمل جس میں جواب دینے والے کی اپنی ذات کی

ایک طرح سے تکمیل تو ہو لیکن درد زہ برداشت کر کے، اُس نےچھت کی طرف دیکھتے ہوئے

خود کلامی کے انداز میں کہا۔

کیوں درد ممی ، کس کو چوٹ لگی کومل نے بے چین ہو کر

پوچھا۔

کچھ نہیں بیٹا ویسے تمھارے بابا سے بات کر رہی تھی کسی

کو چوٹ نہیں لگی، سارہ نے بات ٹال دی۔


آج

آپ نے کہانی خت۔۔۔تم نہیں کہا نا مما، آپ کو پتہ ہے کہانی ختم نہ کہو تو کہانی

چلتی ہی رہتی ہے اور انسان کہانی کے اندر گم ہو جاتا ہے، عارف نے ماں کو یاد

دلایا۔

تم نہیں بولو بیٹا تم سونے کی کوشش کرو، میں ابھی سناتی

ہوں۔

شاید اسی لئے !!! شاید فطرت نے زندگی کے سوال کے لئے ہی

عورت کو پیداکیا اور پھر بچوں کے سوالوں کے لئے ماں ، ہاں ماں ہی تو ہے جو بچوں کے

سوالات

کےجواب دے سکتی ہے ، پروفیسر نے بند ٹی وی کی سکرین پر

نظریں گھماتے ہوئے جواب دیا۔

لیکن پھر ہمارے تمھارے سوالوں کا کیا، سارہ نے کچھ سوچتے

ہوئے بےدھیانی میں کہہ دیا۔

ریاست ، سارہ، ریاست اپنے شہریوں کے لئے ماں کا کردار

ادا کرتی ہے،پالتی پوستی ہے ، حفاظت کرتی ہے، تاآنکہ بانجھ یا سوتیلی ہو۔

ریاست سوالوں کا جواب ہوتی ہے۔

دیکھو، زندگی، عورت، ماں، ریاست سب مونث ایک ہی جیسے نام

جیسے تخلیق کے استعارے۔

آپ بھی نا، بہت ہی بڑھا دیتے ہیں بات کو، سارہ نے

جھینپتے ہوئے کہا۔

میں ٹھیک کہہ رہا ہوں، اسی لئے تو جبر، جواب نہیں دیتا،

قانون جواب نہیں دیتا۔


اور

مذہب، سارہ نے دیوار پر آویزاں خطاطی کے ایک نمونے کو اندھیرے میں گھورتے ہوئے

اپنے خاوند سے پوچھا۔


مذہبی

فکر کا معاملہ دوسرا ہے ، مذہب جواب نہیں دیتا توجیہات پیش کرتا ہےاُن سوالوں کے

جواب نہیں جو آپ کریں بلکہ اُن سوالوں کے پیچھے جو محرکات ہوتے اُن

کی توجیہات جس سے آپ سوال کے وجود کی ہی نفی کرنے لگتے

ہیں اور یوں آپ سوال کی تشنگی کے عذاب سے بچ جاتے ہیں اور سکون پا لیتے ہیں ، اسی

لئے،

تم نےدیکھا ہو گا کہ بالکل اسی لئے جن معاشروں میں ریاست

ماں کا کردار نہیں نبھاتی وہاں مذہب زور پکڑتا ہے ، جب جواب نہیں تو سوال کا وجود

ہی سوالیہ نشان بن

جاتا ہے۔


محروم،

بے بس، گرمی سردی، بے روزگاری اور حالات کے ستائے ہوئے شکست خوردہ لوگ مذہب کی

محبت میں اُس کی طرف راغب نہیں ہوتے بلکہ اپنے سوالوں کے اسقاط حمل کے

لئے اس کلینک کے چکر لگاتے ہیں۔


لوگوں

کا رجحان تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ریاست کیوں مذہب کو ڈھال بنا لیتی ہے۔

ابھی اپنے بچوں کے سوالات کے جواب دے رہی تھی نا تم، یہ

انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی زندگی کا زندگی کے دوسرے نمونوں سے موازنہ کرتا رہتا

ہے ، ان حالات میں جب تم اور تمھارے بچے بنیادی سہولتوں سے محروم ہو، چھوٹی چھوٹی

خوشیوں کی کم یابی ہے تو کیا تم لوگ اپنی زندگی کا دوسرے ممالک کے عوام کی طرز

زندگی سے موازنہ کر کے خوش ہو سکتے ہو ، کبھی نہیں بلکہ مایوسی اور اضطراب ہی بڑھے

گا اور اگر ماضی کی طرف دیکھو گے تو لاشعوری طور پر خود کو پیچھے کی طرف جاتا ہوا

محسوس کرو گے ۔ جیسے کہ اگر تمھیں کہا جائے ک اپنی گاوں والی زندگی یا اپنے ماں

باپ کے طرز زندگی سے اپنا موازنہ کرو۔

تو؟ سارہ تجسس سے بولی۔

تو، ایک ہی جہت ہے جس میں ہم پستی کی طرف ،پیچھے کی طرف

سفر کر کے بھی فخر محسوس کر سکتے ہیں ، اور وہ ہے مذہب۔


آپ

نا، ایسی باتیں اپنے لکچرز کے دوران بھی کرتے ہوں گے ضرور، کچھ احتیاط کیا کریں

جناب۔


پتہ

ہے کتنے سال گزر گئے آپ کو اسی پوسٹ پر اور ہم کو اس شہر میں آئے ہوئے اور ابھی

تک آپ اسسٹنٹ ہی ہیں آپ کو اپنی پروموشن نہیں ملی جس کے کہ آپ بہت پہلےحقدارتھے۔


نہیں

لکچرز میں میں کیا کہوں گا، بس وہی گھسی پٹی باتیں اور اگر کوئی طالب علم سوال کر

بھی دے تو میں مزید چند سوال ہی ابھار سکتا ہوں جس سے سلسلہ چلتا

رہے ۔

میاں بیوی کی سمجھ نہ آنے والی باتوں سے اکتا کر بچے

وہیں سو گئے تھے۔

سارہ اٹھ کر بچوں کو دوسرے کمرے میں اُن کے بیڈ پر لٹانے

کی تیاری کرہی رہی تھی کے باہر کے دروا زے پر دستک ہوئی۔

پروفیسر باہر دروازہ دیکھنے نکلا تو سارہ عارف کو اٹھا

کر ساتھ والےکمرے کی طرف بڑھی۔


وہ

بچے کو بیڈ پر ڈال کر سیدھی ہوئی تو اُسے دروازے پرسرگوشیوں کی آواز سنائی دے رہی

تھی وہ بچی کو اٹھانے کے لئے اپنے کمرے کی طرف بڑھی تو اُسے اپنے

خاوند کی قدرے بلند آواز سنائی دی، لیکن اس وقت ؟؟؟ اور

پھر ایسے کیوں ؟؟؟ اور پھر جانا کہاں ہے؟؟؟ ۔۔۔پھر آواز ایسے دم توڑ گئی جیسے کسی

نے اُس کےخاوند کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا

ہو۔


وہ

دوڑ کر بیڈ پر پڑے اپنے دوپٹے تک پہنچی اور پھر باہر کی طرف لپکی۔ جب اُسنے گلی کا

دروازہ کھولا تو باہر ایک بڑی سی ٹرک نما گاڑی تھی جس پر موٹا سا کپڑاپڑا ہوا تھا۔

گلی میں ہر طرف اندھیرا تھا، گاڑی کی سب بتیاں بھی گل

تھیں اُسے بس چند افراد کے ہیولے دکھائی دیئے جیسے اندھیرے میں اندھیرے کا ہی ایک

حصہ متحرک تھا وہ اُس کے خاوند کو گاڑی کیطرف

لے کر جا رہے تھے۔ ابھی اُس کی پھٹی پھٹی آنکھیں اتنا

منظر ہی دیکھ پائی تھیں کہ ان میں سے ایک نے اُس کے خاوند کے منہ پر ہاتھ رکھا اور

دو نےاُسے اٹھا کر

اُس ٹرک نما گاڑی کے پچھلے حصے میں ڈال دیا گاڑی سرعت

سےآگے بڑھی اور موڑ مڑ گئی۔


سارہ

پہلے چند ثانیے تو وہیں کھڑی رہی نہ اُس نے کوئی حرکت کی نہ کوئی آواز نکالی اور

نہ کوئی رد عمل اور پھر وآپس اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پرایسے بیٹھ گئی جیسےکوئی

بے جان شے کہیں رکھی جاتی ہے۔


صحن

میں لگی ایمرجنسی لائٹ بجھنے کے قریب تھی، گھر جو کچھ دیر پہلےگرمی سے دہک رہا تھا

اب اُسے ایک سرد تہہ خانے کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔

بجلی اور گیس کی عدم دستیابی اُسے بھول چکی تھی۔ بچوں کے

گرمی دانے اور اُن کی بے آرامی غیر اہم ہو چکی تھی۔

وہ بالکل ایسے محسوس کرنے لگی جیسے وہ کسی زندان میں کسی

بادشاہ کے عقوبت خانے میں ہے اور فقط زندہ رہنے کی اجازت ملنا ہی سب سے بڑی نعمت

ہے ۔یہ بھی کیا کم تھا کہ وہ اُس کے خاوند کو لے گئے تھے لیکن اُسے کچھ نہ کہا

تھا۔ اُس نے پاس سوئی بیٹی کی ٹانگوں پر لرزتا ہوا ہاتھ پھیرا تو غیر ارادی طور پر

اُس کے لب ہلے کہانی خت ۔۔تم ۔۔۔۔ لیکن اتنی دیر میں شاید سب کچھ کہانی کے اندر گم

ہو چکا تھا۔


٧ 

ناکہ بندی 

ڈاکٹر ریاض توحیدیکشمیر


چار

مہینے کا ننھا سا پھول دودھ کی ایک ایک بو ند کے لئے ترس رہا تھا۔ اُس کی دلخراش

چیخیں ماں باپ کے جگر کو پارہ پارہ کررہی تھیں ۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ان

کے کلیجے کو تیزدار تلوار سے کاٹا جارہا ہے ۔ بھوکے بچے کی ابتر حالت اور اپنی بے

بسی و بے کسی کا رونا روتے روتے ساجدہ اور بشیر ملک کی آنکھیں پتھر ا گئی تھیں

۔بنجر زمین کے بنجر ذہن آدھی باسیوں نے سرسبز اور شاداب وادی کے بے مثل مہمان نواز

انسانوں کا دانہ پانی بند کر دیا تھا ۔ کئی مہینوں سے چل رہی اقتصادی ناکہ بندی کے

ٹوٹنے کے تمام راستے بلوایوں کے محسن جمہوریت پسند سیاستدانوں کی شاطرانہ مصلحت

آمیزی اور جانبدار نہ پالیسوں کے بھنور میں پھنسے ہوئے تھے اور وادی کے طول و عرض

میں قحط نما صورت حال تھی ۔

” بشیر ! منا بے ہوش ہو گیا ہے “ساجدہ نے رقت آمیز لہجے

میں کہا ۔ ” کہیں سے آٹو کا انتظام کرو اس کو اسپتال لے جاینگے۔“

” اس اندھیری وحشت ناک رات میں ہم کس طرح گھر سے نکلیں

گے ۔“ بشیر ملک نے آنکھیں موندتے ہوئے کہا” باہر کرفیو لگا ہوا ہے

۔ صبح تک

انتظار کرنا پڑے گا۔ پھر .... صبح کو بھی کون اسپتال جانے دیگا ۔“

لیکن بشیر .... صبح ....؟ ساجدہ کچھ اور نہ کہہ سکی۔

” ساجدہ ! کسی پڑوسی سے منا کے لئے دودھ ادھار مانگ لو“

بشیر ملک نے کہا۔

ساجدہ غم ناک آواز میں بولی ” وہ لوگ مجھ سے ہی دودھ کے

بارے میں پوچھ رہے تھے ۔ان کے بچے بھی بھوک سے بلک رہے ہیں۔“

کچھ دیر کے بعد فون کی گھنٹی بجنے لگی ۔ بشیر ملک نے

ریسور اٹھایا ۔ جموں سے اُس کا چھوٹا بھائی عرفان ایک ہی سانس میں بول پڑا ” بھائی

جان ! اندھیرے کا سہارالے کر میں ٹرک لے کر جموں سے گزر رہا ہوں ۔ فکر مت کرنا !

میں نے منے کے لئے دودھ کی ایک پیٹی بھی لائی ہے ،بشیر ملک نے یہ بات جب ساجدہ کو

بتائی تو اس کا چہرہ کِھل اٹھا۔

بشیر ملک نے کرسی پر بیٹھ کر تھوڑی سی راحت محسوس کی۔ وہ

گہری سوچ میں ڈوب گیا اور گزرے دنوں کی خوشنما یا دوں میں کھو گیا ۔ اسے یاد آرہا

تھا کہ کس طرح ہم کشمیری اپنی جنت میں وارد مہمانوں کا استقبال بے مثل فراخ دلی سے

کرتے تھے اور اپنی مہمان نوازی کے حسین نقوش ان کے دلوں پر چھوڑ کر بار بار یہ

ثابت کر تے آئے تھے کہ ” ذرا ذرا ہے میرے کشمیر کا مہمان نواز۔“ اُس کی آنکھیں نم

ہو رہی تھیں لیکن وہ اب کچھ اور ہی محسوس کر رہا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس

انسانی سلوک کے بدلے یہ لوگ حیوانیت پر اتر آئے ہیں، ان لوگوں نے اپنے زہر آلودہ

منصوبوں سے وادی کے خوش نما اور خوبصورت پھولوں کو مسلنے کی قسم کھائی ہیں۔ ان کی

خمیر میں ہی شاید منافرت کا زہر ملا ہوا ہے، نہیں تویہ لوگ کیسے بھول جاتے کہ جب

یہ لوگ کشمیر میں اپنے مذہبی مقامات پر زیارت کے لئے آتے تھے تو ہم لوگ جگہ جگہ ان

کے لئے کھانے پینے کا اعلیٰ انتظام کرتے تھے اور ماضی میں کئی بار جب موسم کی

خرابی کی وجہ سے یہ لوگ مصیبت میں پھنس گئے تھے تو ہمارے گھر ان کے لئے بہترین اور

پر امن پناہ گاہ ثابت ہوتے تھے اور آج یہی لوگ زمین کے وارثوں کو ہی کاشت کار

بنانا چاہتے ہیں اور مکان کے مکینوں کو کرایہ دار .... ! 

یہ لوگ پریشانیوں کی وجہ سے کئی راتوں سے سو نہیں پائے

تھے ۔ رات کے آخری حصے میں جب بشیر ملک کی آنکھ لگ گئی تو صبح سویرے انھیں فون پر

کسی دوست نے اطلاع دی کہ آج کسی رضاکار تنظیم کی طرف سے انسانی حقوق کے دفتر کے

سامنے ملک فوڈ بانٹا جائے گا۔ بشیر ملک یہ سُن کر گھر سے تیزی کے ساتھ نکلا اور

شہر کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا اور بڑی مشکل سے دودھ کا ایک ڈبہ

حاصل کر پایا ۔ ادھر ساجدہ اپنے بے ہوش لخت جگر کو لے کر اسپتال کی جانب دوڑ پڑی ۔

وہ جب پریشان حالت میں سنسان سڑک کو پار کر رہی تھی کہ اچانک کہیں سے آواز آئی ”

کرفیو ں میں کہاں جارہی ہو:؟“

ساجدہ نے خوف کے مارے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میںآنسو بہاتے

ہوئے کہا ۔

” بچہ بیمار .... اسپتال....! “ یہ سنتے ہی کئی وردی پوش

سڑک پر نمودار ہوگے۔ ساجدہ دہشت زدہ ہوئی، اُس نے بچے کو چھاتی سے لگایا۔

” اچھا ! بیما ر بچے کو اسپتال لے جانا ہے“ ایک وردی پوش

بولا” اسپتا ل جا کر کیا کروگی وہاں تو دوائی نہیں ہے ۔“

چند لمحوں بعد کہیں سے ایک سنساتی ہوئی گولی آئی اور بچے

کے پھول جیسے نازک بدن کو چیرتی ہوئی ماں کے دل میں پیوست ہو گی ۔ چاروں طرف ہنسنے

کی آوازیں آئیں اور خون میںلت پت دونوں لاشیں گھر کے صحن میں پھینک دی گئیں ۔

بشیر ملک شہر کی گنجان آبادی سے چوری چھپے خوش ہو کر

دودھ کا ڈبہ بغل میں چھپاتے ہوئے جب گھر کے مین گیٹ پر پہنچا ۔ تو صحن میں داخل

ہوتے ہی اُس کی نظر بیوی اور بچے کی لاش پر پڑی ۔ وہ حواس باختہ ہو کر چیخنے چلانے

لگا۔ اس کی چیخیں صدابہ صحرا ثابت ہو رہی تھیں کیونکہ وردی پوشوں کے خوف کی وجہ سے

تمام لوگ گھروں کے اندر سہم گئے تھے۔

عرفان جب رات کے اندھیرے میں چاول سے بھرا ٹرک کشمیر کی

طرف لے کر آرہا تھا تو بیچ سڑک پر اُسے بُلوایوں نے روکا ۔ وہ لوگ ہاتھوں میں تر

شول اور سرپر کیسری رنگ کے کپڑے باندھے نعرہ لگا رہے تھے۔

” ہر ہر مہادیو ۔ وندے ماترم ....بلوایوں نے ٹرک پر حملہ

کر کرے سارا چاول لوٹ لیا اور عرفان کو ٹرک کے ساتھ زندہ جلا ڈالا ۔ بشیر ملک اس

اندوہ ناک صورت حال سے بے خبر تھا۔ اُس نے عرفان پر مو بائل پر رابطہ کرنے کی کوشش

کی تاکہ وہ اسے گھر کے سانحہ کے بارے میں بتائے لیکن عرفان کا موبائل بند آرہا تھا

۔ ایک گھنٹے کے بعد عرفان کے ایک ساتھی ڈرائیور کا فون آیا‘ اُس نے بشیر ملک کو

عرفان کے حادثے کے بارے میں بتایا ۔ یہ خبر سنتے ہی بشیر ملک کے اوپر جیسے دو ہر ا

آسمان ٹوٹ پڑا ۔ اُس کی آواز بند ہوگی۔

کرفیو میں آدھے گھنٹے کی ڈھیل دی گی ۔ بشیر ملک گھر سے

باہر نکلا اور بازار کی طرف چل پڑا ۔ اُ س کے ہاتھ میں دودھ کا ڈبہ تھا ۔ کچھ لوگ

سڑک پر جمع ہو گے۔ بشیر ملک کے ہاتھ میں مِلک فوڈ دیکھ کر ایک آدمی سامنے آیا اور

بشیر ملک سے پوچھنے لگا۔ 

” اے بھائی ! تمہیں یہ دودھ کا ڈبہ کہاں سے ملا؟ کیا اسے

بیچو گے ؟“

بشیر ملک نے جب ہاں میں جواب دیا تو وہ آدمی حیران ہو کر

بول پڑا ۔

” لیکن کیوں! تمہیں بھی تو اپنے بچے کے لئے اس کی ضرورت

ہوگی۔“

” میرے بچے کو اب اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وہ کفن کے

انتظار میں ہے ۔ جس کے لئے مجھے پیسے چائیں ۔“ یہ کہتے ہوئے بشیر ملک کی آنکھوں سے

آنسوﺅں کی دھار اُمنڈ پڑی۔

اسی دوران لوگوں نے ناکہ بندی اور کرفیو کے خلاف پر امن

احتجاج شروع کیا۔ مظاہر ین کو خاموش کرانے کے لئے وردی پوشوں نے ان پر گولیوں کی

برسات برسائی۔ آدھے گھنٹے کی ڈھیل ختم ہوتے ہی دوسرے چند لوگوں کے ساتھ بشیر ملک

کی لاش بھی گولیوں سے چھلنی سڑک پر کفن کا انتظار کر رہی تھی ۔ اور قانون کی نظروں

میں دھول جھونکنے کے لئے دودھ کے ڈبے کو بم بنا کر پیش کیا گیا....!


............٭٭٭........

 

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024