کے بی فراق کی تین نظمیں
کے بی فراق کی تین نظمیں
Apr 7, 2025


مصنف
کے بی فراق
کے۔ بی۔ فراق صاحب کا تعلق گوادر، بلوچستان سے ہے۔ بلوچی اور اردو دونوں میں طبع آزمائی فرما رہے ہیں۔ آپ نے بلوچی زبان میں سے بہت سی کہانیاں اور نظمیں اردو میں ترجمہ بھی کی ہیں جس میں بلوچی ادب کے ایک اہم فکشن نگار منیر احمد بادینی کا ایک ناول "چاند کو ڈھلنے دو" ،ڈاکٹر اسلم دوستین کا ناول "سوتکال"اور کہانیاں "یخ میں تپ اور دوسری کہانیاں" بھی شامل ہیں۔۔ایک کتاب بلوچی اور اردو کے معروف ادیب و دانشور کی فکرونظر پر مبنی کتا ب " زندساچیں کارست : عبداللہ جان جمالدینی :کے نام سے مرتب کی گئی۔ آپ جیوز گوادر کے بینر تلے ایک لائبریری"جیوز ریفرنس لائبریری"، جیوز پبلیکیشن، شگراللہ آرٹ گیلری، اور ادبی و علمی پروگرام کے انعقاد کی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔
ایک معزور شہر سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب شہر میں گونگے پن کو
شعار بتایا گیا ہے
اور لوگوں کی لائنیں لگ گئیں
کہ انھیں بولنے کی قدرت سے
چھٹکارا دلایا جائے
تاکہ اس کے ساتھ ہی سُن بھی نہ سکیں
چونکہ بولنا سُننے میں تشکیل پاتا ہے
جبکہ لوگ سُننےاور بولنے سے عاری
اور بولنے کی سرحد سے پرے
جہاں بے حِسی کی عنکبوت میں لپٹے
اور چپ کر جانے کی صورت
جس میں سب کے لیے الزائمر کا نسخہ
تجویز کیا گیا ہو
کہ اس کو آزمانے میں شانت رہنا طے ہے
اور ایک دوسرے کی پہچان سے بھی رہائی ملے گی
اور کیا آدم کیا آدم زات
سب کچھ ایک پرکار کے موافق
بس یونہی لکیر کھینچ دیا
اور لائن بن گئی
اور اس لائن میں سب لوگ سما گئے
کہ اب کے ہمارے شہر میں یہی دستور چل نکلا ہے
جس کی تائید
سب پر واجب
جس کے حق میں نہ ہونا
گونگے پن کی سزا کے مستحق
قرار دیے جانے کا تعزیہ
سر پر ہوگا
اور لوگ ہیں کہ
سرشاری کے عالم میں
یہ اعزاز پانے کی لگن میں
جیے جاتے ہیں
مرے جاتے ہیں
کے بی فراق
****
سمندر کے تشت میں امبر نیلا
****
کے بی فراق
ہم بچپن سے
لکیر کھینچ کر
کھیل شغل کیا کرتے تھے
جس میں ایک کھیل کا منظر
سمندر کنارے اکثر دیکھا
اور ابھی اِس کھیل کھیل میں
شبد یونہی امتحان کے مَیں نے
ازبر کر کے
یہیں کہیں سے
پلتے اور بڑھتے دیکھے
لیکن ایک لکیر انوکھی
میرے دماغ کے
بائیں جانب
ازخود کھینچتا چلا گیا
اور اتنا پھیل گیا کہ پھر
سُرخ لکیر کی صورت ایسے
مجھ کو اور میرے ایسوں کو
اور اِس نگری کے
منتر ماپنے والے چہروں پر
تحلیل ہوا
سانسیں دم بھر
ٹھہر سی گئیں
بس ایک ہی نُقطے میں خود کو پایا
کہ جینے کا بھرسک گیان ملا اور
پھلانگ گیا اِس کھینچی لکیر کو
جن میں ایک لکیر کے اندر
جیون ایک
آتم گیان کی صورت
نیلا امبر تھام رہا تھا
اور کہیں مَیں
پرومیتھیس کو اپنے
سمندرسروپ آتش کا دُلاب پہن کر
جاگ رہا تھا
اور غاروں کے اوراق پلٹتے
شبد بِلو کر
لکھتا رہا ہوں.
.................
سینڈ آرٹ کے آئینے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم مٹی ہو
اور مٹی سے اتنا ڈر کیسا
جب اس سے روپ سنوارے گئے
اور مرد و زن
سمندر کنارے
باہم ہوئے تو
دیکھا نہ گیا
قدرت کے جِلو میں
جینے والے مَنُش کی اِس
مٹی میں مٹی ہونے کو
مٹی نے اعتراض کیا
کہ مَیں کیونکر۔۔۔۔ منعکس ہوا اس میں
جب فطرت سے دوری رکھی گئی
اور دھول جمی آنکھوں میں
تب دیکھا نہ گیا
سمبھوگ میں جیون بھوگنے والوں کو
دیکھنے میں،
وحشت کیسی
اور دھول اٹی ذہنوں پر
فن پارے بھی
اندیم ہوا کرتے ہیں۔
کے بی فراق
19-01-2021
ایک معزور شہر سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب شہر میں گونگے پن کو
شعار بتایا گیا ہے
اور لوگوں کی لائنیں لگ گئیں
کہ انھیں بولنے کی قدرت سے
چھٹکارا دلایا جائے
تاکہ اس کے ساتھ ہی سُن بھی نہ سکیں
چونکہ بولنا سُننے میں تشکیل پاتا ہے
جبکہ لوگ سُننےاور بولنے سے عاری
اور بولنے کی سرحد سے پرے
جہاں بے حِسی کی عنکبوت میں لپٹے
اور چپ کر جانے کی صورت
جس میں سب کے لیے الزائمر کا نسخہ
تجویز کیا گیا ہو
کہ اس کو آزمانے میں شانت رہنا طے ہے
اور ایک دوسرے کی پہچان سے بھی رہائی ملے گی
اور کیا آدم کیا آدم زات
سب کچھ ایک پرکار کے موافق
بس یونہی لکیر کھینچ دیا
اور لائن بن گئی
اور اس لائن میں سب لوگ سما گئے
کہ اب کے ہمارے شہر میں یہی دستور چل نکلا ہے
جس کی تائید
سب پر واجب
جس کے حق میں نہ ہونا
گونگے پن کی سزا کے مستحق
قرار دیے جانے کا تعزیہ
سر پر ہوگا
اور لوگ ہیں کہ
سرشاری کے عالم میں
یہ اعزاز پانے کی لگن میں
جیے جاتے ہیں
مرے جاتے ہیں
کے بی فراق
****
سمندر کے تشت میں امبر نیلا
****
کے بی فراق
ہم بچپن سے
لکیر کھینچ کر
کھیل شغل کیا کرتے تھے
جس میں ایک کھیل کا منظر
سمندر کنارے اکثر دیکھا
اور ابھی اِس کھیل کھیل میں
شبد یونہی امتحان کے مَیں نے
ازبر کر کے
یہیں کہیں سے
پلتے اور بڑھتے دیکھے
لیکن ایک لکیر انوکھی
میرے دماغ کے
بائیں جانب
ازخود کھینچتا چلا گیا
اور اتنا پھیل گیا کہ پھر
سُرخ لکیر کی صورت ایسے
مجھ کو اور میرے ایسوں کو
اور اِس نگری کے
منتر ماپنے والے چہروں پر
تحلیل ہوا
سانسیں دم بھر
ٹھہر سی گئیں
بس ایک ہی نُقطے میں خود کو پایا
کہ جینے کا بھرسک گیان ملا اور
پھلانگ گیا اِس کھینچی لکیر کو
جن میں ایک لکیر کے اندر
جیون ایک
آتم گیان کی صورت
نیلا امبر تھام رہا تھا
اور کہیں مَیں
پرومیتھیس کو اپنے
سمندرسروپ آتش کا دُلاب پہن کر
جاگ رہا تھا
اور غاروں کے اوراق پلٹتے
شبد بِلو کر
لکھتا رہا ہوں.
.................
سینڈ آرٹ کے آئینے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم مٹی ہو
اور مٹی سے اتنا ڈر کیسا
جب اس سے روپ سنوارے گئے
اور مرد و زن
سمندر کنارے
باہم ہوئے تو
دیکھا نہ گیا
قدرت کے جِلو میں
جینے والے مَنُش کی اِس
مٹی میں مٹی ہونے کو
مٹی نے اعتراض کیا
کہ مَیں کیونکر۔۔۔۔ منعکس ہوا اس میں
جب فطرت سے دوری رکھی گئی
اور دھول جمی آنکھوں میں
تب دیکھا نہ گیا
سمبھوگ میں جیون بھوگنے والوں کو
دیکھنے میں،
وحشت کیسی
اور دھول اٹی ذہنوں پر
فن پارے بھی
اندیم ہوا کرتے ہیں۔
کے بی فراق
19-01-2021