جوزف مسیح کی زندگی کا ایک دن

جوزف مسیح کی زندگی کا ایک دن

Mar 10, 2022

محمد عاطف علیم کی کہانی

کہانی

جوزف مسیح کی زندگی کا ایک دن

محمد عاطف علیم

بے موسم کی بارش رات بھر سے ایک تار برس رہی تھی اور وہ دیر سے کھڑکی میں نصب آسمان کی وسعتوں میں دور کہیں بادلوں کے گرداب میں پھنسے ایک پرندے کی ناہموار پرواز پر نگاہیں جمائے بیٹھی تھی۔

جوزف چائے کی ٹرے لے کر آیا تو اس کا انہماک ٹوٹا۔

"شاید کوئی کبوتر ہے بیچارہ ، اپنی چھتری سے اڑا ہوگا کہ بارش میں پھنس گیا۔" اس نے عورت کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے رائے زنی کی۔

جوزف نے رات کی بچی ہوئی روٹی کو بھگو کر گھی میں تل دیا تھا جس کے بعد وہ رات کے بچے سالن اور چائے کے ساتھ ایک لذیذ ناشتہ کرنے کے قابل ہوگئے تھے۔

"بڑے سگھڑ ہوگئے ہو، خیر سے۔"عورت نے روٹی کا ٹکڑا اس کے سامنے لہراتے ہوئے ہنس کر کہا۔

"ہونا پڑتا ہے بھاگاں۔" اس نے ایک فلسفیانہ شان سے آہ بھرتے ہوئے کہا، " جب سر پر آئے تو سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔"

"البتہ تمہیں میری طرح چائے بنانی نہیں آئی۔"

"ہاں!" اس نے نوالے کو اپنے جیسی رنگت  والی چائے میں ڈبوتے ہوئے اضمحلال سے کہا اور پھر پولے منہ کے ساتھ سخت نوالہ چبانے لگا ۔ کچھ یاد آنے پر اس نے کہا، " پتی بس اتنی ہی تھی، دودھ کا ڈبہ بھی خالی ہوگیا ہے۔"

" آج نہ جاؤ ، موسم خراب ہے۔"بھاگاں نے بوجھل خاموشی  کی طوالت  میں  کچھ کہنے کو بات چلائی۔

جوزف نےآخری نوالہ چبانے کے بعد بے خیال نگاہوں سے دور چکراتے ہوئے کبوتر کو دیکھا اور گھی میں سنی ہوئی انگلیاں گدی کے بالوں میں رگڑ کر پونچھنے لگا۔

"جانا تو پڑے گا۔"اس نے دن کا پہلا سگریٹ سلگا کر  طمانیت بھراکش لیتے ہوئے  دھوئیں کو فضا میں چھوڑ دیا، "چھتری لے لوں گا۔"

"ٹھیک ہے مگر تیز تیز نہ چلنا، بھیگے ہوئے موسم میں تمہاری سانس جلدی پھول جاتی ہے۔ اور ماسک دروازے کے ہینڈل کے ساتھ لٹک رہا ہے، اسے پہنے رکھنا،کہیں جیب میں ڈ ال کر بھول نہ جانا ۔ اور ہاں!  سب سے دور دور رہنا ۔اپنے پھیپھڑوں کا ناس تم نے پہلے ہی مارا ہوا ہے۔اگر کسی سے کرونا  لگ گیا تو۔۔۔"

"اچھا ڈاکٹر صاحبہ، ہور حکم؟" جوزف نے ہنس کر کہا۔

"آج کتنی تاریخ ہے؟"بھاگاں نے خود کلامی کی اور منتر پڑھنے کی طرح منمناتے ہوئے حساب لگایا،"آج ہمارے چھیمے کو گئے تین سال اور سات مہینے پورے ہوگئے ہیں۔"

جوزف نے کچھ کہے بغیر چھوٹی میز پر رکھی چھیمے کی مسکراتی ہوئی تصویر کو نظر بھر کر دیکھا ۔عین اسی لمحے بادلوں میں بجلی کا کوندا لپکا اور چھیمے کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔

چھیما جس کا شناختی کارڈ میں  نام سلیم شہزاد لکھا گیا تھا، ان کی واحد اولاد تھا جو زندگی کے پہلے پانچ برس پورے کرنے کے بعد بھی زندہ رہا تھا۔اس سے پہلے ایک لڑکا اور دولڑکیاں ہوئیں لیکن بھاگاں کی اندرونی خرابی کے باعث تینوں بچے پیدائشی لاغر تھے اور اسی لاغر پن  کی حالت میں سال سال، چھ چھ مہینے نکال پائے تھے۔ چھیما ان کی پکی عمر کی اولاد اور ان کی آخری امید تھا کیونکہ ڈاکٹر نے اس کے بعد انہیں منع کردیا تھا۔جب چھیما پیدا ہوا تو جوزف کارپوریشن میں پکی پنشن والی نوکری کرتا تھا اور بھاگاں گھر گھر جھاڑو پونچھا کرتی تھی۔دونوں کماتے تھے ، خرچے نہ ہونے کے برابر تھے سو اچھی گذر رہی تھی۔بس ایک جہنم کی سفیر تند  ہوائیں تھیں جو ان کے ہر چراغ کو بجھانے پر تلی ہوئی تھیں۔ وہ کہ اوپر تلے کی تین موتوں سے دہلے ہوئے تھے،ان پر لازم ٹھہر چکا  تھا کہ وہ چھیمے کو  سانس سانس گن کر پروان چڑھائیں ۔اگر وہ اس کی ٹمٹماتی لو کو دونوں ہاتھوں کی آڑ نہ دیتے تو اس کے بعد ان کے لیے اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔

انہیں چھیمے کی خاطر پہلی قربانی اچھی کمائی کی دینا پڑی۔بھاگاں  کام چھوڑ کر گھر بیٹھ گئی اور جوزف نے بھی کارپوریشن کی نوکری چھوڑ دی جس کے دوران اسے چوبیس  گھنٹے بلاوے کا منتظر رہنا پڑتا تھا۔جوزف کو نوکری کی محتاجی یوں بھی نہ تھی کہ وہ موٹر وائنڈنگ اور بجلی کی گھریلو چیزوں کی مرمت کا کام جانتا تھا ۔لیکن  ضروری  تھا کہ اس کا  ٹھیا گھر کے آس پاس  ہی ہو تاکہ وہ جب چاہے گھر کا چکر لگا سکے۔بہت تلاش کرنے پر انہیں  پکی ٹھٹھی میں دو کمروں کا ایک قدرے خستہ  مکان  کرائے پرمل گیا جس کی بیٹھک گلی میں کھلتی تھی۔ وہ دونوں یہاں اٹھ آئے۔ جوزف نے بیٹھک کو اپنا ٹھیا بنالیا اور  زندگی کی گاڑی لشٹم پشٹم چلنے لگی۔

چھیماانچ انچ بڑھتا رہا اور وہ دونوں لمحہ لمحہ جوان ہوتے گئے۔

چھیما ایک طرح سے ان دونوں کا افسر تھا کہ  لاشعور میں چھپے موت کے  خوف کی وجہ سے  وہ اس سے دب کر رہنے پر مجبور تھے۔وہ اسے سمجھانے کی کوشش تو کرسکتے تھے لیکن اس پر حکم نہ چلا سکتے تھے۔چھیمے کو اپنی برتر حیثیت کا خوب علم تھا  لہٰذا اس نے اس فیصلے کے اختیار کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھا تھا کہ کون سی بات ماننی ہے اور کون سی نہیں ماننی۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ چھیما کچھ پڑھ لکھ جائے۔انہوں نے اسے سکول میں داخل کرایا بھی لیکن چھیمے کا اتھرا پن ماسٹر کی مار نہ سہ سکا ۔ وہ اسے سمجھاتے ہی رہ گئے لیکن وہ سنی ان سنی کرتے ہوئے  پرائمری پاس کرنے سے پہلے ہی گلیوں کا رزق بن گیا۔

ادھر چھیمے نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، ادھر جوزف کی نئی ڈیوٹی شروع ہوگئی۔ اسے اپنا کام چھوڑ چھوڑ  چھیمے کی ٹوہ لگانی پڑتی تھی اور اس پر نظریں جمائے سایہ بن کر پیچھے پیچھے چلنا پڑتا تھا۔بس  ایک ہی دھڑکا تھا کہ چھیما شراب، چرس  یا جوئے کے دھندے میں نہ پڑجائے جو پکی ٹھٹھی میں بہت نارمل بات تھی۔ایک روز جب اسے بھاگاں نے چائے کا مگ تھماتے ہوئے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ اس کے واحد نشے کا بتایا تو اس کے سینے سے بوجھ ہٹ گیا۔ چھیمے کو پیسے اور آوارگی سے مطلب نہیں تھا۔اس کا واحد خبط روزی تھی جس کے جذب نے اسے  تاریک راہوں کا راہی ہونے سے بچالیا تھا۔

اگلے روز چھیمے نے باپ کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں جب روزی سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا اور دبے لفظوں میں روزی نہ ملنے کے نتائج سے بھی آگاہ کیا تو جوزف کا قہقہہ گلی کی نکڑ تک سنا گیا۔چھیما حیران سا دیکھ رہا تھا کہ ایک طرف باپ ہنس ہنس کر دہرا ہورہا ہے اور دوسری طرف ماں بھی لجائی لجائی سی مسکرارہی ہے۔

باپ پنےکے ازلی خوف سے رہائی پائے جوزف نے ہنستے ہنستے اسے  بھینچ لیا اورآنکھیں پونچھتے ہوئے بولا:

"جھلیا، تو عین اپنے ابے پر  گیا ہے۔یہ جو تمہاری ماں بیٹھی ہے نا بھاگاں، یہ بھی کسی زمانے میں میری روزی ہوا کرتی تھی۔میں نے بھی اپنے باپ کے قدموں میں بیٹھ کر اسے ایسے ہی مانگا تھا جیسے بچے پاپڑ لے کر دینے کی ضد کرتے ہیں۔"

چھیمے نے اپنے تئیں ایک کٹھن مرحلے کو یوں آسانی سے سر ہوتے دیکھا تو ہونق سا انہیں تکنے لگا۔تب ماں کو اس پر لاڈ آیا تو اس نے جھپٹ کر اسے گود میں بھرلیا۔جوزف نے طمانیت بھرے لمحےمیں جشن کا رنگ بھرنے کے لیے سگریٹ سلگایا اور آنکھیں موند کر ایک گہرا کش لیتے ہوئے کہنے لگا:

"ٹھیک ہے، روزی کہیں نہیں گئی پر اسے لانے کے لیے کمائی تو کرنا پڑے گی۔ آج سے آوارگی چھوڑ اور  میرے ساتھ اڈے پر بیٹھنا شروع کردے۔"

چھیما باپ کے کام کو پسند نہیں کرتا تھا کیونکہ اس میں بندھ کر بیٹھنا پڑتا تھا جبکہ وہ جب تک روز دس گلیاں ناپ نہ لیتا اسے چین نہ پڑتا تھا اور یہ کام صرف کارپویشن کی نوکری میں ہی ہوسکتا تھا۔باپ کی چیخ پکار بیکار گئی۔اس نے نوکری کے لیے درخواست دے دی جو منظور بھی ہوگئی۔اب اس کے ہاتھ میں لمبی ڈانگ تھی اور علاقے بھر کے گٹر تھے جنہیں چالو رکھنا اس کی ذمہ داری تھی۔اس دوران اس کی منگنی بھی ہوگئی ۔روزی بھی بہانے بہانے گھر کا چکرلگانے لگی لیکن جب وہ کام سے لگا تو اس پر کھلا کہ اس سے سخت بے وقوفی سرزد ہوگئی ہے کہ گٹر میں اترنے سے باپ کے کام کی پابندی سو درجے بہتر اور عزت والی تھی۔باپ کی ناراضی ایک طرف خود روزی کو بھی اس کا یہ روپ پسند نہ آیا تھا۔اس نے نوکری سے رہائی کا  فیصلہ تو کرنا ہی تھا  لیکن تھوڑی تاخیر کرگیا اور یہی تاخیر ماں کا کلیجہ پھاڑنے کا باعث بن گئی۔

ایک روز اپنے ایک ساتھی کے ساتھ  اسے برسوں سے بند گٹر میں اترنا تھا۔وہ دونوں اس میں اترے بھی لیکن زندہ باہر نہ نکل سکے۔ٹی وی چینلوں پر چلنے والی خبروں اور سرکاری فائلوں میں درج رپورٹ کے مطابق گٹر میں برسوں سے بند قاتل گیس نے لمحہ بھر میں ہی ان کے زندہ رہنے کا حق سلب کرلیاتھا۔

چند روز کے رونے پیٹنے کے بعد زندگی معمول پر آگئی۔ روزی کے بارے میں بھی کچھ اور سوچا جانے لگا اور جوزف نے بھی کام میں خود کو کھپالیا لیکن بھاگاں  مہینوں طویل بیماری کے  بعد جب بستر سے اتری تو پتا چلا کہ وہ کبھی اپنے قدموں پر نہیں چل سکے گی۔ اس کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ نے اس کا جسمانی توازن  بگاڑ دیا تھا۔ وہ بظاہر اپنے کام سے لگی چلتی پھرتی رہتی لیکن کسی بھی لمحے اس کا سر چکراتا اور وہ کھڑے کھڑے شہتیر جیسی ڈھے جاتی۔کئی بار تو  وہ اس بری طرح گری کہ اسے ہسپتال لے جانا پڑا۔اب جوزف کو تاعمر سایہ سا اس کے ساتھ لگے  رہنا تھا۔ سو اس نے موٹر وائنڈنگ کے ساتھ ساتھ گھر گرہستی میں بھی مہارت حاصل کرلی تھی۔

جوزف نے طمانیت کے ساتھ دیکھا کہ رات بھر سے ایک تار برستی بارش کا دم ٹوٹنے لگا تھا۔

کھڑکی سے لگی بھاگاں  نے اب کے غور سے دیکھا تو بادلوں میں چکراتا کبوتر سرمئی سفیدی میں تحلیل ہوچکا تھا۔

اب کی بار بجلی کا کوندا  جولپکا تو بادلوں کی گرج نے انہیں پاؤں کے تلوؤں تک لرزا دیا۔بھاگاں نے سینے پر کراس بنایا اور اپنے گرد کھیس کس کر لپیٹ لیا۔

اپنی چارپائی پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا جوزف بھی اس گھن گرج سے سوچ میں پڑگیا تھا۔جب تک وہ سگریٹ کا آخری کش لے کر فیصلہ کن انداز میں کھڑا ہوتا کھانسی کے ایک مختصر سے دورے نے اسے دہرا کردیا۔

" میں تو کہتی ہوں رک جاؤ۔اس موسم میں چھتری بھی کام نہیں آتی۔اگر بارش پھر تیز ہوگئی تو؟"

"تمہیں پتا ہے سرکاری لوگوں کا۔اگر بلایا ہے تو جانا ہی پڑے گا ورنہ پھر بھوک تو ہے ای۔"

بھاگاں بھی جانتی تھی کہ جوزف کو جانا ہی ہوگا سو اس نے نیم رضامندی میں کندھے اچکادئیے ۔پھر بھی وہ فکرمندی کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکی۔

"اور تمہاری کھانسی؟"

" ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میری بے بے نہ بناکرو۔"

جوزف کو اپنی قدیمی کھانسی کی جانب ہلکا سا اشارہ بھی گوارا نہیں تھا کیونکہ اس کا الزام وہ اپنے سوائے کسی اور کے سر نہیں دھر سکتا تھا ۔ اس نے دورے سے سنبھل کر جھنجھلاہٹ کے عالم میں آنکھیں پونچھیں اور چھتری ٹانگ کے ساتھ ٹکا کر سر پر صافہ لپیٹتے ہوئے بڑبڑایا:

" اگر یہ منحوس لاک ڈاؤن نہ ہوتا، میرا کام چلتا رہتا  اور گھر میں پیسے آتے رہتے۔ بیٹھک کیا بند ہوئی لوگوں کو میرے پیسے مارنے  کا بہانہ مل گیا ورنہ میں کیوں جاتا حکومت سے بھیک مانگنے؟"

"ماسک!" بھاگاں نے اسے تنبیہ کی۔

جوزف نے اس بیکار کی فکر مندی سے جھنجھلا کر دروازے کے ہینڈل سے لٹکا کالے کپڑے کا ماسک نوچ کر منہ پر باندھ لیا۔

"کپڑے تو بدل لو، لوگ کیا کہیں گے۔" بھاگاں تھی کہ  بے بے بنے بغیررہ نہ سکتی تھی۔

جوزف نے جواب دینا ضروری نہ سمجھا اور جیب سے موبائل نکال کر کل رات کو بھیجا گیا میسج پھر سے اٹک اٹک کر پڑھنے لگا۔

"ایکسپو کی طرف جانا پڑے گا۔وہیں کہیں امدادی مرکز ہے۔" جوزف نے خود کو مخاطب کرکے کہا، "امیروں کا علاقہ ہے وہاں تو چنگ چی بھی نہیں جاتی، چار پانچ میل پیدل چلنا پڑے گا۔"

"وبا کے دنوں میں چنگ چی کہاں؟۔۔۔سب کچھ تو بند پڑا ہے۔"

جوزف نے اس کی طرف پر خیال نظروں سے دیکھا، "اور سنو، میرے جاتے ہی کام کاج میں نہ لگ جانا کہیں گرگرا گئی تو کوئی تمہیں اٹھانے والا بھی نہیں ہوگا۔"

وہ کئی دنوں بعد گھر سے نکلا تھا۔لاک ڈاؤن کے باعث گلیوں میں قدموں کی چاپ اور باتوں کا شور کم ہوا تواس   کی جگہ ویرانی کے احساس نے لے لی تھی ۔ باہر  لوگ کہاں  صرف چند بے فکرے تھے جو گلیوں کی نکڑوں میں بیٹھے  ملاوٹی شراب اور چرس کے خریداروں  کی راہ دیکھ رہے تھے۔

موسلادھار بارش اب معصوم سی کن من میں بدل گئی تھی۔یوں چھتری سر پر سے اتر کر ہاتھ میں آگئی تھی اور وہ اس سے کیچڑ میں پھسلاؤ سے بچنے  کا کام لینے لگا تھا۔ میلوں  چل کر وہ جب امدادی مرکز پہنچا تو سورج  ایک طویل قیلولے کے بعد بادلوں میں چھید کرکے جھلک دکھانا شروع ہوچکا تھا۔

وہاں پہنچ کر وہ پریشان ہوگیا کہ بارش کے باوجود وہاں میلہ سا لگا تھا۔چھوٹی سی جگہ تھی اور بندے پر بندہ چڑھا ہوا تھا۔ بے احتیاطی کا عالم یہ تھا کہ چند ہی لوگ ہوں گے جنہوں نے  وائرس سے بچنے کے لیے چہرے ڈھانپ رکھے ہوں۔ اسے بھی لگا کہ وباایک افواہ ہی ہوگی جو عورتیں بھی اور مرد بھی بے فکرے کھڑے بھوک اور بیروزگاری سے جڑا اپنا رونا رو رہے تھے اور لاک ڈاؤن پر حکومت کو کوس رہے تھے۔

وہاں امداد لینے والوں کے ہجوم کے علاوہ چند اونگھتے ہوئے پولیس والے اور بہت سے جلے تلوؤں والے ٹی وی رپورٹر بھی تھے جو اپنا اپنا نیوز  پیکج بنانے کے لیے تاڑی لگائے بیٹھے تھے کہ  اپنے مطلب کی چوندی چوندی بات نکلوانے کے لیے کس کے منہ میں مائیک ٹھونسا جائے ۔رپورٹر لوگ  خاص طور پر امدادی لفافہ لے کر نکلنے والوں  کی طرف لپکتے تھے تاکہ ان سے حکومت کے حق میں بات نکلوا کر اپنے بڑوں  سے داد سمیٹی جاسکے۔

وہ بھاگاں  کی نگران آنکھوں کی گھوری  کا تصور کرکے  اپنے چہرے کو نقاب سے آزاد کرنے سے بازرہا اور چپ چاپ لائن میں لگ گیا۔قطار شیطان کی آنت جیسی تھی اور اس عمر میں انتظار کی مشقت اس کی ہمت سے  سوا تھی ، سو وہ کبھی تھک کر بیٹھ جاتا اور کبھی بیٹھنے کی تھکن کے مارے  اٹھ کھڑا ہوتا۔ انتظار کی کوفت کو بہلانے کی واحد صورت یہ تھی کہ وہ اپنے گرد جمع لوگوں کو اپنی  دید اور شنید کا محور بنالے۔

اس نے ایک ایک کا جائزہ لینا شروع کیا تو  دیکھا کہ وہاں موجود  لوگ کیا تھے بس ٹین کے پچکے ہوئے بے مصرف ڈبوں کا ڈھیر تھا ۔شاید ہی کوئی ہو جس کے چہرے پر  حالات نے  ڈنٹ نہ ڈالے ہوں۔زندگی ان پر آسان کب تھی لیکن لاک ڈاؤن کی پابندیوں نے ان کی شکلوں کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ کیچڑ میں لت پت پاؤں اور آنکھوں میں آس کہ ان کی طرف دم بہ دم بڑھتی بھوک کو سرکاری لوگ کچھ دے دلا کر چند روز کے لیے ٹال دیں گے۔ عورتیں  توخاص اس مقصد کے لیے گھر سے  نیم برہنہ اور لاغر بچوں کو اٹھا  لائی تھیں کہ انہیں دکھا کر حکومتی اہلکاروں میں خوابیدہ ممتا  کے جذبے  کو ذرا سہولت سے  جگایا جاسکے۔

ٹین سے بنے ان  لوگوں میں سے جب کوئی اندر سے ہو آتا توخدا ترسی کی  ایک فاتحانہ چمک لیے قطاروں میں لگے لوگوں کو دیکھتا اور  ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر تیز قدموں وہاں سے چل پڑتا۔ کچھ لوگ تھے جو برافروختہ لوٹتے جب انہیں پتا چلتا کہ ان کا امدادی سنٹر دراصل کوئی اور تھا اور اب انہیں التوا شدہ امید کے ساتھ کہیں اور جاکر آس اور انتظار کا کھیل کھیلنا ہوگا۔

جب تک اس کی باری آتی  سائے دراز ہوچکے تھے۔عمارت کے داخلی دروازے پر اس کے بھی  ہاتھوں پر وائرس کش  محلول ملا گیا اور اور پھر ایک میز کے گرد جمع چند ماسک چڑھائے اہلکاروں میں سے ایک نے رجسٹر کے ایک خانے پر بال پوائنٹ کی نوک رکھی:

"نام؟"

"جوزف جی۔۔۔جوزف اقبال مسیح۔"

"ولدیت؟"

"بوٹا مسیح"

" ہوں! شناختی کارڈ؟"

جوزف نے جیب سے شناختی کارڈ نکال کر میز پر رکھ دیا۔

اہلکار نے  شناختی کارڈ لے کر الٹ پلٹ دیکھا  اور  رجسٹر پر کچھ درج کرکے بائیو میٹرک مشین اس کی طرف بڑھادی ۔اس نے ہدایت کے مطابق مشین کی ننھی سی سکرین پر دائیاں انگوٹھا رکھ کر دبایا اورپھر انگشت شہادت کے ساتھ یہی عمل کیا۔ اہلکار مطمئن نہ ہوا تو اس نے دوبارہ اسے انگوٹھا رکھنے کا کہا۔ اس بار اس نے دیر تک سکرین پر انگوٹھے کو چپکائے  رکھا۔اہلکار کے عدم اطمینان پر یہی عمل تیسری بار بھی دہرایا گیا  مگرنتیجہ وہی پہلے جیسا۔ کمپیوٹر سکرین پر نظریں جمائے اہلکار نے بے یقینی کے عالم میں سر کو کھجایا  اور پھر اٹھ کر ایک اور کمرے میں چلاگیا۔ واپس آیا تو اس نے ایک بار پھر اسے وہی عمل دہرانے کا کہا۔اس بار اس نے دونوں ہاتھوں کی تمام انگلیوں کو باری باری سکرین پر دیر تک دبائے رکھا۔

جوزف کا دل انجانے خدشے  سے دھڑک رہا تھا۔اس نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا:

" سر جی، کوئی مسئلہ ہے کیا؟"

" بزرگو!" اہلکار نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے  سپاٹ لہجے میں کہا، " آپ کو امداد نہیں مل سکتی۔"

جوزف نے بے یقینی سے اسے دیکھا تو اس نے وضاحت کی کہ اس کی انگلیوں کے نشان مٹ چکے ہیں ، جب تک مشین اس کے زندہ  ہونے کی تصدیق نہ کردے اس وقت تک اسے زندہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔

وہ ہونق سا کچھ دیر اپنے ہاتھوں کو اور اہلکاروں کے چہروں کو دیکھتا رہا۔اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس کے عین سامنے اس کے ہونے سے انکار کردیا جائے گا۔

اس نے بے یقینی کی ابتدائی کیفیت سے سنبھلنے کے بعد التجا تک کرکے دیکھ لی، جو منہ میں  آیا کہا لیکن سب بیکار۔البتہ اسے یہ تسلی ضرور تھمادی گئی کہ اس کے اور اس جیسے دو چار اور  لوگوں کے کیسوں کو اوپر بھیج دیا جائے گا اور جلد ہی اس کا حل بھی  نکال لیاجائے۔

وہ چھتری بغل میں دبائے بوجھل قدموں  نکلا تو ایک میڈیا  پارٹی اس کی جانب لپکی۔وہ کہ تب تک اپنی جھنجھلاہٹ اور طیش کو منت سماجت کے بوجھ تلے دبائے ہوئے تھا ، اچانک پھٹ پڑا۔ اور پھر ترنت ہی مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر لوگ ایک مجہول وضع کے اور طیش سے کپکپاتے ہوئے بڈھے کو  روتے کلپتے اور حکومت کو گالیاں دیتے  دیکھ کر  کئی روز تک چچ چچ کرتے  اور آنسوؤں  والا ایموجی بناتے رہے۔

"میں اٹھہتر سال سے اس دنیا میں ہوں۔ان تمام برسوں میں مجھے ہنسایا گیا،  رلایا گیا اور ٹھوکروں میں رکھا گیا لیکن کبھی کسی نے میرے  ہونے سے انکار نہیں کیا۔اور یہ ماں کے لوڑے  بکواس کررہے ہیں کہ میری انگلیوں کے نشان مٹ چکے ہیں ۔یعنی کمال ہے کہ میں زندہ بھی ہوں اور نہیں بھی۔"

ّ" جوزف!۔۔۔ وے جوزفا!"

جوزف دیر سے چپ چاپ زمین پر لکیریں کھینچے جارہا تھا ۔اس نے چونک کر سراٹھایا اور کچھ کہے بغیر اپنی مصروفیت جاری رکھی ۔ بھاگاں بستر سے اٹھ کر چھڑی ٹیکتی اس کے پاس آبیٹھی تھی۔

"پریشان کیوں ہوتے ہو،خداوند تو ہے نا۔"

" خداوند؟ کون خداوند؟؟"

" تم نے پھر منکروں جیسی باتیں شروع کردیں۔ تمہاری انہی باتوں کی وجہ سے۔۔۔"

وہ زمین پر لکیریں کھینچتے ہوئے بڑبڑایا:

"میں خود کو ایویں ای زندہ سمجھتا رہا اب تک،  لعنت ہے میری بے وقوفی پر۔"

" اچھا زیادہ نہ سوچو، کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔"

" کیا ہوجائے  گا اور کون کرے گا؟۔۔۔تمہارا خداوند؟؟"

"جوزفا!نہ کیا کر پہلے ہی ہم پکڑ میں آئے ہوئے ہیں۔۔۔اچھا چھوڑ یہ بتا اب کیا کرنا ہے؟"

"اچھا بھلا کام چل رہا تھا۔" جوزف خود سے مخاطب ہوا ۔ "جانے کہاں سے یہ منحوس وبا آگئی ۔اخے بند کردو، سب کچھ بند کردو اور جب بند کرکے گھر میں بیٹھ گئے تو بولے تمہارے ہاتھ کی لکیریں گھس گئی ہیں، مشین نے تمہیں زندوں میں شمار کرنے سے انکار کردیا  ہے۔بندہ  پوچھے، بہن کے دینو، بندہ  جیوندا جاگدا تمہارے سامنے کھڑا ہے، اٹھہتر سال سے تمہاری ماں کی ٹانگیں  کھجارہا ہے، اپنے حصے کے عذاب بھگت رہا ہے اور تم کہتے ہو کہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرو۔لا ؤ اپنی ماں کو میں پیش کرتا ہوں ثبوت اپنے زندہ ہونے کا۔"

بھاگاں کا دل دکھ سے بھر گیا۔اس نے جوزف کے ہاتھ کی پشت پر ابھری ہوئی رگوں پر پیار سے ہاتھ پھیرا تو وہ تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوا اور پھر ہوا کی زد میں آئے پتے کی طرح چکراتے ہوئی اپنی چارپائی پر ڈھیر ہوگیا۔بہت دیر بعد اس کی آواز ابھری:

"بھاگاں، ایک چھوٹی سی مشین نے مجھے جیتے جی ماردیا، میرے عین سامنے میرے ہونے سے انکار کردیا۔"

وہ  ایک جھٹکے کے اٹھ بیٹھا،"بھاگاں، تم اپنی  بتاؤ،کیا تم زندہ ہو؟"

بھاگاں جوسیرو کا سہارا لیتے ہوئے اپنی چارپائی پر دراز ہوچکی تھی یونہی تکیے میں منہ دیے اسے بھگوتی رہی۔

بہت دیر بعد جوزف اپنی چارپائی سے اٹھا اور بھاگاں کے ساتھ لیٹ  گیا۔وہ اسے اپنے ساتھ بھینچے  دیر تک اس کی بند آنکھوں پر انگلیاں پھیرتا رہا۔بھاگاں  اسی  کروٹ پڑے دھیرج سے بولی:

" تو تو ایک بار مرا ہے جوزف!میری دلی جانے کب کب اجڑی اور کب کب آباد ہوئی۔"

" میں جانتا ہوں ، چھیمے تجھے بھی قبر میں ساتھ لے گیا تھا۔"

" نہیں جوزف، میں چھیمے کے ساتھ نہیں مری تھی۔میں تو اس وقت مری تھی جب تم  حکومتی لوگوں سے چھیمے کی موت کے پیسے کھرے کرکے لائے تھے اور پھر تم نے ان پیسوں سے اس گھر کو خرید ا تھا۔"

جوزف کچھ کہے بغیر اس کے بالوں کو سہلاتا رہا۔

"یہ تمہارے لیے  گھرہوگا، میرے لیے تو یہ قبر ہے جس میں میں چھیمے کے ساتھ رہتی ہوں۔ناں  بتا تو سہی،  جو پہلے سے قبر میں ہو اسے کیا فرق پڑتا ہے جینے اور مرنے سے؟"

"ٹھیک ہے بھاگاں، ایسے تو پھر ایسے ہی سہی،میں بھی تمہارے ساتھ اسی قبر میں دفن ہوجاؤں گا۔"

اچانک بھاگاں جیسے جاگ گئی ہو۔ وہ اٹھ بیٹھی اور اپنی  آنکھوں کو پونچھتے ہوئے مسکرا دی۔

"نہیں جوزف، تو نہیں مرے گا۔ تو نے ابھی بہت کام کرنے ہیں۔"

جوزف نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا کہ اچانک دروازے کے باہر ایک موٹر سائیکل رکا اور پھر دروازہ دھڑدھڑایا جانے لگا۔اس  نے سرہانے سے سر اٹھا کر تعجب سے دروازے کو دیکھا۔کوئی اس کا نام لے کر پکار رہا تھا۔شام ڈھلے کون ان سے ملنے آسکتا تھا ؟پوری پکی ٹھٹھی میں کوئی ایسا نہیں تھا جو اس سے ملنے کو بے قرار رہتا ہو اور پھر یہ آواز بھی ان سنی سی تھی۔جوزف نے  بیوی کی طرف الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا۔پھر بیوی کے اشارہ کرنے پر وہ اٹھا اور ذرا سا دروازہ کھول دیا۔باہر موٹر سائیکل پر ایک نوجوان بیٹھا بے تابی سے اس کا انتظار کررہا تھا۔اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں  اور موٹر سائیکل کے ہینڈل پر جمے اس کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ تھی۔جوزف نے باہر نکل کر سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے پچھلی سیٹ کی طرف اشارہ کردیا۔

"لیکن کہاں، اور تم کون ہو؟"

"سوال جواب کا وقت نہیں ہے چاچا!سخت ایمرجنسی ہے۔ہم ایک مشکل میں پھنس گئے ہیں اور صرف تم ہی ہماری مدد کرسکتے ہو۔"

"خیر تو ہے نا؟"

"پتا نہیں۔ میرے پیچھے بیٹھ جاؤ۔"

جوزف کو خاموش دیکھ کر نوجوان نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے:

"چاچا جوزف!میرا اعتبار کرو ،تھوڑی دیر بعد میں تمہیں واپس چھوڑ جاؤں گا۔"

جوزف  نے دیکھ کہ وہ مارے ضبط کے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے بھینچے ہوئے تھا۔وہ کچھ دیر اس نوجوان کے چہرے پر آتے جاتے رنگوں کو دیکھتا رہا اور پھر کچھ سوچ کر بھاگاں کو بتانے کے بعد اس کے پیچھے بیٹھ گیا۔

موٹر سائیکل تیز ہوا کے ساتھ ساتھ اڑتا ہاؤسنگ سوسائٹی کے پیچھے ایک گندے نالے کے کنارے  رک گیا۔وہاں ایک ہجوم جمع تھا ۔ سب کے چہرے فق تھے اور سب گنگ تھے۔جوزف کی دھڑکن بھی تیز ہوگئی۔پہلا خیال جو اس کے دماغ میں آیا   یہ تھاکہ کسی کو قتل کرکے گندے نالے میں پھینک دیا گیا ہے اور یہاں موجود لوگ مقتول کے لواحقین ہیں جو لاش کو نالے سے نکالنے کے خواہاں ہیں۔لیکن اسے کیوں بلایا گیا ہے؟ یہ سوال ہنوز جواب طلب تھا۔

تب ایک سفید چمکیلی داڑھی والا شخص اس کی طرف بڑھا۔جوزف نے تعجب سے دیکھا ۔ وہ حاجی خدا بخش  تھا، ایک دولت مند تاجر جو  ہاؤسنگ سوسائٹی کے سب سے بڑے اور سب سے  قیمتی مکان میں رہتا تھا۔اس کی نیکی، دینداری  اور سخاوت مقامی  آبادی کا دور دور تک شہرہ تھا اور اس شہرت کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کا خاص اہتمام بھی کیا جاتا تھا ۔جب وبا کی مصیبت شروع ہوئی اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کو گھروں میں بند ہونا پڑا تو وہی تھا جس نے ایک مذہبی جماعت کی فلاحی تنظیم کے بینر تلے غریب خاندانوں کو راشن کی تقسیم شروع کی تھی۔جوزف بھی ناچار ایک روز جاکر چپ چاپ امداد لینے والوں کی قطار میں جابیٹھا تھا۔وہاں راشن کے تھیلوں سے بھرا ایک ٹرک کھڑا تھا اور لاؤڈ سپیکر سے نشر ہوتی نعتوں سے گدرائے ہوئے ماحول میں  حاجی کے کارندے سامان تقسیم کرنے میں اس  کی مدد کررہے تھے۔  بہت دیر بعد جوزف کی باری آئی تو کسی نے حاجی کے کان میں کچھ کہا جس پر حاجی کے چہرے سے چپکی مربیانہ مسکراہٹ غائب ہوگئی اور اس کی بجائے ماتھے پر سلوٹیں ابھر آئیں۔

"تمہارا نام جوزف مسیح ہے؟"

"جی حاجی صاب، پکی ٹھٹھی میں رہتا ہوں۔"

"ہوں! دیکھو یہ امداد مسلمانوں کے لیے ہے۔ تمہارا ذمہ دار چرچ ہے، اس سے مانگو۔"

حاجی یہ کہہ کر اگلے مستحق کی طرف متوجہ ہوگیا اور جوزف جو چرچ سے ہمیشہ لاتعلق رہا تھا اپنی دھوتی سنبھالتا وہاں سے چلدیا ۔

آج وہی حاجی شام کے جھٹپٹے میں اس کے سامنے  خشک پتے کی طرح لرزیدہ کھڑا تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہی اس پر جھپٹا اور اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کے شکنجے میں کس لیا۔اس کے ہونٹ کپکپارہے تھے اور آنکھوں میں ویرانی تھی۔اس نے بمشکل الفاظ کا جوڑ بٹھاتے اور لہجے میں التجا بھرتے ہوئے کہا:

"جوزف، میرے بھائی، میرے دو بچے، ایک پوتا اور ایک نواسا کھیلتے ہوئے ۔۔۔"

الفاظ اس کے رندھے ہوئے گلے میں بھیگ گئے  تو کسی اور رندھے گلے والے نے اس کی بات کو مکمل کیا:

" وہ دونوں بچے افطاری کے وقت کھیل رہے تھے کہ ان کے پاؤں پھسلے اور وہ نالے میں جاگرے۔"

"جوزف چاچا،صرف تم ہی انہیں نکال کر لاسکتے ہو۔" کسی اور نے اس سے التجا کی۔

جوزف نے ایک نظر نالے کی طرف دیکھا۔ ہاؤسنگ سوسائٹی کی تعمیر سے بہت پہلے جب وہاں کھیت ہوا کرتے تھے تو ان کی آبیاری کے لیے اس نالے کو ایک قریبی نہر سے نکالا گیا تھا۔جب پراپرٹی ڈیلروں نے کھیت نگل لیے تو کیچڑ اور تعفن سے بھرا  یہ نالہ بھی اپنے جواز سے محروم ہوکر گندے پانی کے نکاس کا ذریعہ بن گیا تھا ۔بہت مدت سے مطالبہ کیا جارہا تھا کہ اس نالے کو پاٹ کر سڑک بنادی جائے کیونکہ اس  کی بدبو کی وجہ سے پوری سوسائٹی کی صحت سخت خطرات سے دوچار تھی۔

یہ سیدھے کناروں والا تنگ نالہ تھا اور اس قدر گہرا کہ  خود رو پودوں  اور سرکنڈوں کی بہتات کے باعث  اس کی گہرائی  میں جھانکنا مشکل تھا۔لوگ اس نالے کی طرف آنے سے کتراتے تھے کیونکہ مشہور تھا کہ نالہ  زہریلے سانپو ں اور طرح طرح کے موذی حشرات کی آماجگاہ ہے جو اکثر باہر نکل کر رینگتے پھرتے تھے۔جوزف نے قریب ہوکر نالے میں جھانکا اور پھر گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا۔لمحہ لمحہ اترتی رات  نے نالے کی گہرائی کو خوف  سےبھردیا تھا۔اس نے حاجی کو مخاطب کرکے لجاجت سے کہا:

"حاجی صاب، اب میری ہڈیوں میں ست کہاں؟پکی ٹھٹھی میں آپ کو بہت سے جوان مل جائیں گے۔"

"بہت ترلے کر چکے ہیں ہم لیکن کوئی حرام خور  نالے میں اترنے کو تیار نہیں ہے۔ سب کیچڑ اور سانپوں سے ڈرتے ہیں۔"

" ون ون ٹو ٹو؟"

"وہ گھنٹہ بھر سے پہلے نہیں آسکیں گے۔تراویح کے بہانے سب غائب ہیں ۔اس وقت تک جانے کیا ہوجائے؟"

"بچوں کی عمریں کتنی ہیں؟"

حاجی کی بجائے کسی اور نے جواب دیا:

" ایک عدنان ہے آٹھ ساڑھے آٹھ سال کا اور دوسرا  اس کا کزن ہے عدیل، وہ دس سال کا ہے۔ دونوں کھیلتے ہوئے جانے کیسے اس طرف آنکلے تھے۔"

" ہائے میرے بچے۔۔۔ہائے میرے نورِ عین!"دور حاجی کی آواز آئی جو پچھاڑ کھا کر زمین پر ڈھے پڑا تھا۔

" اباجی، حوصلہ رکھیں، اللہ نے چاہا تو بچے خیریت سے آجائیں گے۔"

"مجھے تسلیاں نہ دو لڑکوں کو نکالو۔" حاجی نے دھاڑ کر کہا۔پھر وہ اٹھا اور ڈگمگاتے ہوئے قدموں جوزف کی طرف بڑھا۔

"دیکھو جوزف بھائی!" اس  نے اپنے لہجے میں جہاں بھر کی لجاجت بھرتے ہوئے کہا، "بچے سب  سے سانجھے ہوتے ہیں۔تمہارا بیٹا ہوتا تو۔۔۔"

حاجی نے  چونک کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا اور مجرموں کی طرح سر جھکا دیا۔ جوزف نے کڑے تیوروں اس کی طرف دیکھا۔ اس بار بھی حاجی ہی تھا جس کے بلانے پر چھیما اپنے ساتھی کے ساتھ گٹر صاف کرنے گیا تھا۔وہ اگر چاہتا تو احتیاط کے تقاضے پورے کرکے  گٹر کا ڈھکن کھلوا سکتا تھا اور اندر جمع شدہ گیس خارج ہونے تک انتظار کرسکتا تھا لیکن اس نے نہایت بے رحمانہ تکبر کے ساتھ ان پر دباؤ ڈال کر انہیں ڈھکن ہٹا کر گٹر میں اترنے پر مجبور کردیا تھا۔

جوزف بے دم سا زمین پر بیٹھ گیا۔اتنی کڑی آزمائش کب اس پر آئی تھی۔

حاجی خدا بخش چھیمے کی قربانی کے بعد اس سے قربانی مانگ رہا تھا۔

تب حاجی نے اچانک  ایک عجیب حرکت کی۔ اس نے جھک کر اس کے پاؤں پر اپنی ٹوپی رکھ دی اور نم آنکھوں سے ہاتھ جوڑے اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔

"میں  جانتا ہوں جوزف بھائی، کہ بچے اب تک زندہ نہیں ہوں گے۔ چلو جو اللہ کی رضا۔مجھے ان کی لاشیں ہی مل جائیں تو  تسلی  توہو کہ اپنے ہاتھوں انہیں دفن کیاہے۔"

جوزف نے گھوم کر دیکھا ۔اس کے گرد دس بارہ آدمی کھڑے تھے اور وہ ان کی التجا بھری نظروں کا محور تھا۔اچانک ایک خیال نے اس کی الجھن ختم کردی اور وہ جھٹکے سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔

بھاگاں کے خداوند نے اسے اپنے زندہ ہونے کو ثابت کرنے کا موقع فراہم کردیا تھا۔

اس نے ایک سگریٹ سلگایا اور گہرے کش لے کر اپنی ہمتوں کو سمیٹنے لگا۔سگریٹ کے آخری کش کے بعد معمول کی کھانسی کے بعد جب اس کا دھونکنی سا چلتا ہوا سینہ نارمل ہوا  تو اس نے قمیض اتار دی اور شلوار کو رانوں تک چڑھالیا۔ اس کے کہنے پر ایک لمبا اور موٹا رسا منگوایا گیا جسے اس کی کمرکے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا گیا۔اس کے ساتھ ہی اس کے ماتھے پر  کان کنوں والی ٹارچ باندھ دی گئی۔اوروہ  نعرہ ہائے تحسین کے جلو میں کمال سکون کے ساتھ  خود رو گھاس کے سرکنڈوں کو تھام کر نیچے اترگیا۔

کئی فٹ گہری  سطح کو محسوس کرنے  پر اس نے کمر سے بندھی رسی کھول دی اورٹارچ کی روشنی گھماتے ہوئے  یہاں سے وہاں تک نالے کا جائزہ لیا۔ اس کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے پہلوان اکھاڑے میں پنجہ لڑانے سے پہلے اپنے حریف کے تیور بھانپنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ نالہ بھی ایک پہلوان تھا جسے پچھاڑنے وہ اس کی جوہ میں اتر آیا تھا۔وہ  کچھ دیر پانی کی سیاہ کثافت کے کنارے کھڑے  سوچا کیا اور پھر  اس نے آسمان کو دیکھتے ہوئے  اس نے خود کو تعفن چھوڑتے  پانی  میں چھپے سانپوں کے حوالے کردیا۔

وہ کبھی اچھا تیراک ہوا کرتا تھا لیکن وہ جوانی کی بات تھی۔اب تو جانے کتنی مدت سے اس کے تلوؤں نے پانی کو چھوا بھی نہ تھا۔اسے قدرے اطمینان ہوا کہ نالے میں پانی زیادہ نہیں تھا، مشکل سے گھٹنوں تک آرہا تھا ۔اس نے ٹارچ کی روشنی میں چمکتے ہوئے پانی کو جانچنے والی نگاہوں سے دیکھا۔ پانی کا بہاؤ اتنا ضرور تھا کہ آٹھ دس سال کے بچے کو ٹھہرنے نہ دے۔خود  اسے درپیش مسئلہ پانی کے بہاؤ کا نہیں کیچڑ کا تھا جو چلتے ہوئے اس کے پاؤں دبارہا تھا۔اسے نالے کے بارے  میں کچھ پتا نہیں تھا لہٰذا وہ محتاط ہوکر قدم قدم چل رہا تھا کہ جانے آگے دلدل آنی ہے یا پانی نے گہرا ہونا ہے اور پھر سانپوں کا دھڑکا الگ کہ کسی بھی وقت کوئی  سانپ اس کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ سکتا تھا۔کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اس پراسرار نالے میں اترنے کا تصور بھی نہ کرسکتا تھا لیکن بائیو میٹرک مشین کو جھٹلانے کی دھن نے اس پر واپسی کے دروازے بند کردئیے تھے۔

اس نے  گھپ اندھیرے میں کچھ آگے جاکر  بچوں کو آواز دی لیکن جواب میں خاموشی نے اس کے خدشے کی تصدیق کردی۔پانی کا بہاؤ انہیں کہیں آگے لے گیا تھایا شاید کہیں وہ کیچڑ میں دب گئے ہوں گے۔وہ انہیں تھوڑی تھوڑی دیر بعد پکارتا آگے بڑھنے لگا کہ یکایک  اس کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی اور  وہ ٹھوڑی تک پانی میں ڈوب گیا۔وہاں  کوئی گہرا گڑھا تھا جہاں پانی  بھنور بنا تے ہوئے اسے گہرائی میں لے جانے کے لیے زور لگا رہا تھا۔ اسے غوطہ لگا تو اس نے پانی میں ہاتھ پاؤں چلانا شروع کردئیے۔پیراکی کی مشقت اس کی ہمت سے سوا تھی کہ اس عمر میں اس کا ماس ہڈیوں پر ڈھیلا پڑچکا تھا مگر اسے بہر طور اپنی خفتہ قوتوں کو کام میں لانا تھا ۔ذرا آگے پانی کی گہرائی کم ہوئی تو اس نے رک کر سانس کو متوازن کیا اور ایک بار پھر ہانک لگائی:

"چھیمے۔۔۔او چھیمے!"

اپنی آواز پر وہ چونک گیا۔اسے گمان گزرا کہ اس نے پہلے بھی بچوں  کو اسی نام سے پکارا ہوگا۔اس پکار کے بعد اس نے حیرت سے محسوس کیا کہ اس کے بازو ؤںاور پنڈلیوں کے گرد گوشت میں سختی آرہی ہے اور تھکان کی جگہ توانائی نے لینا شروع کردی ہے۔اسے برسوں سے ایک ہی قلق کھائے جارہا تھا کہ کاش وہ چھیمے کے ساتھ گٹر میں اترا ہوتا  اور جونہی قاتل گیس ان کی طرف لپکتی وہ اسے  باہر دھکیل کر اس کی جگہ خود مرجاتا۔اب اسے قدرت نے چھیمے کو بچانے کا ایک عجیب سا موقع فراہم کردیا تھا۔اس نے اس گھپ اندھیرے میں غیب سے  کسی کو مدد کے لیے پکارنا چاہا تو بے اختیار اس کے منہ سے یسوع مسیح کی بجائے بالمیک کا نام نکلا۔وہ بالمیکی نہیں تھا بلکہ وہ ٹھیک سے مسیحی بھی نہیں تھاپھر بھی جانے کیسے اس کے منہ سے وہ نام نکلا  جس سے کئی پشتوں پہلے اس کے بزرگ اپنا صدیوں کا ناطہ توڑ کر امریکن  پریس بائٹیرین چرچ کے خدا ترس مشنریوں کی خدا ترسی سے فیض یاب ہونے کے لیے مسیحی بن گئے تھے۔عقیدے کے اس پھیر نے اسے کچھ دیر کو الجھا دیا۔

" بالمیک کیوں مسیح کیوں نہیں؟"

وہ الجھتا رہا کہ وہ تو بالمیک کو ٹھیک طرح جانتا بھی نہیں نہ کبھی بالمیکیوں کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا رہا تھا۔تو کیا اس کے  بزرگو ں کا سفر اکارت گیا تھا؟ اچانک اس کے علم میں لائے بغیر ایک خیال اس کے لاشعور میں جھلملایا۔جو بات وہ نہیں جانتا تھا   یہ تھی کہ بظاہر  وہ نالے میں اپنے وجود کو ثابت کرنے اترا تھا لیکن نالے کی گہرائیوں میں پہنچ کر اس کی ڈیوٹی بدل گئی تھی۔اب اسے جس چیلنج کا سامنا تھا وہ تھا مسیحی کی بجائے  بالمیکی چوہڑے ہونے کو اعتبار بخشنے کا کہ وہ صدیوں کا بیٹا تھا اور اسے صدیوں طویل عزت کی جنگ میں ایک ہیرو کا کردار ادا کرنے کے لیے چن لیا گیا تھا۔

اس بار اس نے ایک گہرا سانس لے کر  سچے دل کے ساتھ بالمیک عرف گگا پیر کو یاد کیا اورپاؤں پاؤں آگے بڑھتے ہوئے دانستہ چھیمے کا نام پکارا کیونکہ اس نے محسوس کیا کہ  ہر بار جب وہ یہ نام لیتا تو اس کے منہ میں شیرینی گھل جاتی تھی۔

اسے فاصلے کا اندازہ تو نہیں تھا لیکن شاید وہ کافی دور نکل آیا تھا۔ایک دو بار اسے لگا بھی کہ کوئی سانپ ایسی چیز اس کی پنڈلیوں سے مس ہوتی گزر گئی ہے لیکن وہ اس وقت صدیوں کا بیٹا  تھا اور ہر خوف سے آزاد تھا۔کچھ اور آگے جاکر جب پانی اس کے گھٹنوں سے نیچے تھا، کیچڑ دلدل جیسا نرم ہوگیا تھا اور وہ اسے اپنے وجود کا حصہ بنانے پر آمادہ دکھائی دے رہا تھا۔اس نے کنارے  پر باہر کو نکلی ایک جڑ کو تھام کر زور لگا یا تو دلدل نے اس کے پاؤں کو چھوڑ دیا۔وہ   سرک کر کنارے پر ہوگیا جہاں زمین  قدرےسخت تھی ۔اسے خیال گزرا کہ دونوں بچے یہیں کہیں دلدل میں نہ دھنس گئے ہوں۔یہ خیال آتے ہی اس کا دل ڈوب گیا ۔ اگر پانی کے زور سے بچے آگے نہ نکل پائے ہوں گے تو وہ اب تک اس دلدل کا رزق بن گئے ہوں گے۔اس بھیانک امکان نے کچھ دیر کو اسے نالے کی دیوار کے ساتھ چپکائے رکھا۔اس نے ٹارچ کی روشنی میں دور تک غور سے دیکھا لیکن وہاں کیچڑ میں دھنسا کوئی وجود تھا نہ  ایسے آثار تھے کہ انہیں کیچڑ نے نگل لیا ہو۔

وہ کیچڑ پر نظریں جمائے آگے بڑھا تو اچانک اس کے پاؤں گہرائی میں پڑے اور وہ پانی میں غوطے کھانے لگا۔یہاں بھی کوئی گڑھا تھا جہاں سے پانی چکرا کر گزر رہا تھا۔کوشش کرکے وہ  گھمن گھیری سے بچنے کے لیے کنارے کے ساتھ ساتھ تیرنے لگا۔تیرتے ہوئے اچانک اس کا ماتھا کسی سخت چیز سے ٹکرایا تو اس نے بھنا کر ماں کی گالی دی۔سرت بحال ہونے پر  اس نے غور کیا تو وہ  گئے  زمانوں کے کسی متروک پل کے لکڑی کےتختے تھے  جو کیچڑ میں  آڑے ترچھے گڑے ہوئے تھے۔وہ  ایک تختے کو تھام کر رک گیاکہ ذرا سانس بحال کرلے۔اچانک اسے لگا کہ کوئی انسانی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ہے۔یقینا یہ اس کی اپنی آواز کی بازگشت نہیں تھی۔ اس نے اس بار زیادہ بلند آواز میں پکارا تو اس بار زیادہ واضح جواب سنائی دیا۔کوئی تھا جو وہیں کہیں تھا۔

اس بار اس نے تیزی سے ہاتھ پاؤں چلانا شروع کردئیے، ساتھ ہی شاوا شاوا کی آوازیں بھی منہ سے نکالنے لگا۔اسے زیادہ دور نہیں جانا پڑا کہ ایک موٹی جڑ پر اس کا ہاتھ پڑا اور وہ اسے تھام کر رک گیا۔اس نے ٹارچ کی روشنی سے معلوم کیا کہ یہ کسی بوڑھے برگد کی پھیلی ہوئی جڑیں تھیں جو نالے کی چوڑائی کے آر پار تھیں۔ان گتھی اور الجھی ہوئی جڑوں نے نالے پر ایک پل سا بنادیا تھا مگر یہ قابل استعمال نہیں تھا کہ شاخیں زمین کی سطح سے کافی نیچے تھیں۔

" میں یہاں ہوں۔"اچانک کسی بچے کی دبی دبی آواز سنائی دی۔اس نے گردن گھما کر دیکھا، آواز بہت قریب سے آئی تھی۔

جوزف نے جڑوں کے اس الجھے ہوئے سلسلے میں ٹارچ کی روشنی گھمائی تو دیکھا ایک لڑکا جڑوں کے گنجل میں سمٹا ہوا بیٹھا تھا۔جوزف ایک دم سے پرجوش ہوگیا ۔اس نے مزید نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ دوسرا لڑکا جو جسامت میں چھوٹا تھاایک موٹی جڑ کو بازوؤں میں جکڑے لٹک رہا تھا یوں کہ سر باہر اور دھڑ پانی کے اندر تھا۔جوزف نے اسے ہلایا جلایا مگر کوئی حرکت نہ ہوئی۔جوزف نے اندازہ لگایا کہ وہ زندہ تھا مگر مارے خوف کے بے ہوش ہوگیا تھا۔ یہ معجزہ ہی تھا کہ بے ہوشی میں بھی  جڑ پر اس کے بازوؤں کی گرفت کمزور نہ ہوپائی تھی ورنہ  وہ بہاؤ  کے زور میں کہیں آگے نکل گیا ہوتا۔جوزف کو دیکھتے ہی جڑوں کے اوپر بیٹھا لڑکا کچھ کہنے کی کوشش کرنے لگا مگر خوف کےمارے اس سے بات نہیں ہوپارہی تھی۔جوزف کو سمجھ آئی کہ پانی کے بہاؤ کے باعث بڑا لڑکا کسی طرح سے جڑ کے اوپر چڑھنے میں کامیاب ہوگیا تھا جبکہ چھوٹا لڑکا اس کوشش میں دہشت کے مارے کامیاب نہ ہوسکا تھا۔اس  نے سارا ماجرا سمجھ کر  بڑے لڑکے کی ہمت بندھائی  اور اسے واپس آنے کا کہہ کر چھوٹے لڑکے کی گرفت بصد مشکل ڈھیلی کی اور اسے اپنی پشت پر جماکرپانی کے بہاؤ کی مخالف سمت تیرنے لگا۔

برسوں  بعد اپنی موت سے ذرا پہلے اسے یاد کرنا تھا کہ کیسے وہ ان لڑکوں کو ایک کے بعد ایک اپنی کمر پر لادے  وہاں سے زندہ  نکال لایا تھا۔اس روز جو ہوا وہ ناممکن تھاجو جانے کیسے ممکن ہوگیا تھا۔اسے یاد کرنا تھا کہ جب اس نے باری باری   دونوں لڑکے کنارے پر اتار دئیے تو انہیں زندہ پا کر وہاں موجود لوگوں خاص طور پر حاجی اور ان لڑکوں کے باپوں کی خوشی کو بیان کے دائرے میں لانا ممکن نہیں تھا۔وہ پچھاڑیں کھا رہے تھے، ہنس ہنس کر رو رہے تھے اور رو رو کر ہنس رہے تھے۔جوزف کو یہ بھی یاد تھا کہ ان لوگوں کے جانے کے بعد  وہ رات کی تاریکی میں سنسان کنارے پر ایک فراموش کردہ وجود کی طرح پڑا تھا۔البتہ وہ اپنی مٹھی میں ایک کرارے نوٹ کی چبھن محسوس کرسکتا تھا جو نیم بے ہوشی کی حالت میں کسی نے اس کی مٹھی میں ٹھونس دیا تھا۔

جوزف کی زندگی کے اس طویل ترین دن کے بعد اس کی آنکھ کھلی تو وہ اپنی چارپائی پر پڑا تھااور اس کا ایک بازو اس طرح پھیلا ہوا تھا جیسے اس نے مٹھی میں کوئی کرارا نوٹ دبا رکھا ہو۔

جوزف کو قدرے غیر واضح سا یاد رہا  تھا کہ بھاگاں جو اس کی پائنتی لگی بیٹھی تھی سایہ سا اٹھی اور لاٹھی ٹیکتے باورچی خانے میں گئی۔جب لوٹی تو اس کے ہاتھ میں چائے کا ایک خالی ڈبہ تھا۔اس نے ڈبا اس کی پھیلی ہوئی ہتھیلی پر رکھا اور اس کے ساتھ لگ کر بیٹھتے ہوئے رسان سے کہنے لگی:

"جوزفا، پریشان کیوں ہوتا ہے۔یہ دیکھ اس ڈبے میں بہت سے پیسے ہیں جو میں نے اپنے  اور تمہارے کفن کے لیے جوڑ رکھے تھے۔اب یہ پیسے ہمیں زندہ رکھنے کے کام آئیں گے۔"

جوزف نے بے خیال نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ کہے گئی:

"ایسی کئی وبائیں آئیں اور گئیں، ہم کیوں مریں خیری سلا۔ ہم بھی زندہ رہیں گے اور ہمارے ساتھ ہمارا چھیما بھی زندہ رہے گا۔"

٭٭٭٭

کہانی

جوزف مسیح کی زندگی کا ایک دن

محمد عاطف علیم

بے موسم کی بارش رات بھر سے ایک تار برس رہی تھی اور وہ دیر سے کھڑکی میں نصب آسمان کی وسعتوں میں دور کہیں بادلوں کے گرداب میں پھنسے ایک پرندے کی ناہموار پرواز پر نگاہیں جمائے بیٹھی تھی۔

جوزف چائے کی ٹرے لے کر آیا تو اس کا انہماک ٹوٹا۔

"شاید کوئی کبوتر ہے بیچارہ ، اپنی چھتری سے اڑا ہوگا کہ بارش میں پھنس گیا۔" اس نے عورت کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے رائے زنی کی۔

جوزف نے رات کی بچی ہوئی روٹی کو بھگو کر گھی میں تل دیا تھا جس کے بعد وہ رات کے بچے سالن اور چائے کے ساتھ ایک لذیذ ناشتہ کرنے کے قابل ہوگئے تھے۔

"بڑے سگھڑ ہوگئے ہو، خیر سے۔"عورت نے روٹی کا ٹکڑا اس کے سامنے لہراتے ہوئے ہنس کر کہا۔

"ہونا پڑتا ہے بھاگاں۔" اس نے ایک فلسفیانہ شان سے آہ بھرتے ہوئے کہا، " جب سر پر آئے تو سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔"

"البتہ تمہیں میری طرح چائے بنانی نہیں آئی۔"

"ہاں!" اس نے نوالے کو اپنے جیسی رنگت  والی چائے میں ڈبوتے ہوئے اضمحلال سے کہا اور پھر پولے منہ کے ساتھ سخت نوالہ چبانے لگا ۔ کچھ یاد آنے پر اس نے کہا، " پتی بس اتنی ہی تھی، دودھ کا ڈبہ بھی خالی ہوگیا ہے۔"

" آج نہ جاؤ ، موسم خراب ہے۔"بھاگاں نے بوجھل خاموشی  کی طوالت  میں  کچھ کہنے کو بات چلائی۔

جوزف نےآخری نوالہ چبانے کے بعد بے خیال نگاہوں سے دور چکراتے ہوئے کبوتر کو دیکھا اور گھی میں سنی ہوئی انگلیاں گدی کے بالوں میں رگڑ کر پونچھنے لگا۔

"جانا تو پڑے گا۔"اس نے دن کا پہلا سگریٹ سلگا کر  طمانیت بھراکش لیتے ہوئے  دھوئیں کو فضا میں چھوڑ دیا، "چھتری لے لوں گا۔"

"ٹھیک ہے مگر تیز تیز نہ چلنا، بھیگے ہوئے موسم میں تمہاری سانس جلدی پھول جاتی ہے۔ اور ماسک دروازے کے ہینڈل کے ساتھ لٹک رہا ہے، اسے پہنے رکھنا،کہیں جیب میں ڈ ال کر بھول نہ جانا ۔ اور ہاں!  سب سے دور دور رہنا ۔اپنے پھیپھڑوں کا ناس تم نے پہلے ہی مارا ہوا ہے۔اگر کسی سے کرونا  لگ گیا تو۔۔۔"

"اچھا ڈاکٹر صاحبہ، ہور حکم؟" جوزف نے ہنس کر کہا۔

"آج کتنی تاریخ ہے؟"بھاگاں نے خود کلامی کی اور منتر پڑھنے کی طرح منمناتے ہوئے حساب لگایا،"آج ہمارے چھیمے کو گئے تین سال اور سات مہینے پورے ہوگئے ہیں۔"

جوزف نے کچھ کہے بغیر چھوٹی میز پر رکھی چھیمے کی مسکراتی ہوئی تصویر کو نظر بھر کر دیکھا ۔عین اسی لمحے بادلوں میں بجلی کا کوندا لپکا اور چھیمے کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔

چھیما جس کا شناختی کارڈ میں  نام سلیم شہزاد لکھا گیا تھا، ان کی واحد اولاد تھا جو زندگی کے پہلے پانچ برس پورے کرنے کے بعد بھی زندہ رہا تھا۔اس سے پہلے ایک لڑکا اور دولڑکیاں ہوئیں لیکن بھاگاں کی اندرونی خرابی کے باعث تینوں بچے پیدائشی لاغر تھے اور اسی لاغر پن  کی حالت میں سال سال، چھ چھ مہینے نکال پائے تھے۔ چھیما ان کی پکی عمر کی اولاد اور ان کی آخری امید تھا کیونکہ ڈاکٹر نے اس کے بعد انہیں منع کردیا تھا۔جب چھیما پیدا ہوا تو جوزف کارپوریشن میں پکی پنشن والی نوکری کرتا تھا اور بھاگاں گھر گھر جھاڑو پونچھا کرتی تھی۔دونوں کماتے تھے ، خرچے نہ ہونے کے برابر تھے سو اچھی گذر رہی تھی۔بس ایک جہنم کی سفیر تند  ہوائیں تھیں جو ان کے ہر چراغ کو بجھانے پر تلی ہوئی تھیں۔ وہ کہ اوپر تلے کی تین موتوں سے دہلے ہوئے تھے،ان پر لازم ٹھہر چکا  تھا کہ وہ چھیمے کو  سانس سانس گن کر پروان چڑھائیں ۔اگر وہ اس کی ٹمٹماتی لو کو دونوں ہاتھوں کی آڑ نہ دیتے تو اس کے بعد ان کے لیے اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔

انہیں چھیمے کی خاطر پہلی قربانی اچھی کمائی کی دینا پڑی۔بھاگاں  کام چھوڑ کر گھر بیٹھ گئی اور جوزف نے بھی کارپوریشن کی نوکری چھوڑ دی جس کے دوران اسے چوبیس  گھنٹے بلاوے کا منتظر رہنا پڑتا تھا۔جوزف کو نوکری کی محتاجی یوں بھی نہ تھی کہ وہ موٹر وائنڈنگ اور بجلی کی گھریلو چیزوں کی مرمت کا کام جانتا تھا ۔لیکن  ضروری  تھا کہ اس کا  ٹھیا گھر کے آس پاس  ہی ہو تاکہ وہ جب چاہے گھر کا چکر لگا سکے۔بہت تلاش کرنے پر انہیں  پکی ٹھٹھی میں دو کمروں کا ایک قدرے خستہ  مکان  کرائے پرمل گیا جس کی بیٹھک گلی میں کھلتی تھی۔ وہ دونوں یہاں اٹھ آئے۔ جوزف نے بیٹھک کو اپنا ٹھیا بنالیا اور  زندگی کی گاڑی لشٹم پشٹم چلنے لگی۔

چھیماانچ انچ بڑھتا رہا اور وہ دونوں لمحہ لمحہ جوان ہوتے گئے۔

چھیما ایک طرح سے ان دونوں کا افسر تھا کہ  لاشعور میں چھپے موت کے  خوف کی وجہ سے  وہ اس سے دب کر رہنے پر مجبور تھے۔وہ اسے سمجھانے کی کوشش تو کرسکتے تھے لیکن اس پر حکم نہ چلا سکتے تھے۔چھیمے کو اپنی برتر حیثیت کا خوب علم تھا  لہٰذا اس نے اس فیصلے کے اختیار کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھا تھا کہ کون سی بات ماننی ہے اور کون سی نہیں ماننی۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ چھیما کچھ پڑھ لکھ جائے۔انہوں نے اسے سکول میں داخل کرایا بھی لیکن چھیمے کا اتھرا پن ماسٹر کی مار نہ سہ سکا ۔ وہ اسے سمجھاتے ہی رہ گئے لیکن وہ سنی ان سنی کرتے ہوئے  پرائمری پاس کرنے سے پہلے ہی گلیوں کا رزق بن گیا۔

ادھر چھیمے نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، ادھر جوزف کی نئی ڈیوٹی شروع ہوگئی۔ اسے اپنا کام چھوڑ چھوڑ  چھیمے کی ٹوہ لگانی پڑتی تھی اور اس پر نظریں جمائے سایہ بن کر پیچھے پیچھے چلنا پڑتا تھا۔بس  ایک ہی دھڑکا تھا کہ چھیما شراب، چرس  یا جوئے کے دھندے میں نہ پڑجائے جو پکی ٹھٹھی میں بہت نارمل بات تھی۔ایک روز جب اسے بھاگاں نے چائے کا مگ تھماتے ہوئے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ اس کے واحد نشے کا بتایا تو اس کے سینے سے بوجھ ہٹ گیا۔ چھیمے کو پیسے اور آوارگی سے مطلب نہیں تھا۔اس کا واحد خبط روزی تھی جس کے جذب نے اسے  تاریک راہوں کا راہی ہونے سے بچالیا تھا۔

اگلے روز چھیمے نے باپ کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں جب روزی سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا اور دبے لفظوں میں روزی نہ ملنے کے نتائج سے بھی آگاہ کیا تو جوزف کا قہقہہ گلی کی نکڑ تک سنا گیا۔چھیما حیران سا دیکھ رہا تھا کہ ایک طرف باپ ہنس ہنس کر دہرا ہورہا ہے اور دوسری طرف ماں بھی لجائی لجائی سی مسکرارہی ہے۔

باپ پنےکے ازلی خوف سے رہائی پائے جوزف نے ہنستے ہنستے اسے  بھینچ لیا اورآنکھیں پونچھتے ہوئے بولا:

"جھلیا، تو عین اپنے ابے پر  گیا ہے۔یہ جو تمہاری ماں بیٹھی ہے نا بھاگاں، یہ بھی کسی زمانے میں میری روزی ہوا کرتی تھی۔میں نے بھی اپنے باپ کے قدموں میں بیٹھ کر اسے ایسے ہی مانگا تھا جیسے بچے پاپڑ لے کر دینے کی ضد کرتے ہیں۔"

چھیمے نے اپنے تئیں ایک کٹھن مرحلے کو یوں آسانی سے سر ہوتے دیکھا تو ہونق سا انہیں تکنے لگا۔تب ماں کو اس پر لاڈ آیا تو اس نے جھپٹ کر اسے گود میں بھرلیا۔جوزف نے طمانیت بھرے لمحےمیں جشن کا رنگ بھرنے کے لیے سگریٹ سلگایا اور آنکھیں موند کر ایک گہرا کش لیتے ہوئے کہنے لگا:

"ٹھیک ہے، روزی کہیں نہیں گئی پر اسے لانے کے لیے کمائی تو کرنا پڑے گی۔ آج سے آوارگی چھوڑ اور  میرے ساتھ اڈے پر بیٹھنا شروع کردے۔"

چھیما باپ کے کام کو پسند نہیں کرتا تھا کیونکہ اس میں بندھ کر بیٹھنا پڑتا تھا جبکہ وہ جب تک روز دس گلیاں ناپ نہ لیتا اسے چین نہ پڑتا تھا اور یہ کام صرف کارپویشن کی نوکری میں ہی ہوسکتا تھا۔باپ کی چیخ پکار بیکار گئی۔اس نے نوکری کے لیے درخواست دے دی جو منظور بھی ہوگئی۔اب اس کے ہاتھ میں لمبی ڈانگ تھی اور علاقے بھر کے گٹر تھے جنہیں چالو رکھنا اس کی ذمہ داری تھی۔اس دوران اس کی منگنی بھی ہوگئی ۔روزی بھی بہانے بہانے گھر کا چکرلگانے لگی لیکن جب وہ کام سے لگا تو اس پر کھلا کہ اس سے سخت بے وقوفی سرزد ہوگئی ہے کہ گٹر میں اترنے سے باپ کے کام کی پابندی سو درجے بہتر اور عزت والی تھی۔باپ کی ناراضی ایک طرف خود روزی کو بھی اس کا یہ روپ پسند نہ آیا تھا۔اس نے نوکری سے رہائی کا  فیصلہ تو کرنا ہی تھا  لیکن تھوڑی تاخیر کرگیا اور یہی تاخیر ماں کا کلیجہ پھاڑنے کا باعث بن گئی۔

ایک روز اپنے ایک ساتھی کے ساتھ  اسے برسوں سے بند گٹر میں اترنا تھا۔وہ دونوں اس میں اترے بھی لیکن زندہ باہر نہ نکل سکے۔ٹی وی چینلوں پر چلنے والی خبروں اور سرکاری فائلوں میں درج رپورٹ کے مطابق گٹر میں برسوں سے بند قاتل گیس نے لمحہ بھر میں ہی ان کے زندہ رہنے کا حق سلب کرلیاتھا۔

چند روز کے رونے پیٹنے کے بعد زندگی معمول پر آگئی۔ روزی کے بارے میں بھی کچھ اور سوچا جانے لگا اور جوزف نے بھی کام میں خود کو کھپالیا لیکن بھاگاں  مہینوں طویل بیماری کے  بعد جب بستر سے اتری تو پتا چلا کہ وہ کبھی اپنے قدموں پر نہیں چل سکے گی۔ اس کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ نے اس کا جسمانی توازن  بگاڑ دیا تھا۔ وہ بظاہر اپنے کام سے لگی چلتی پھرتی رہتی لیکن کسی بھی لمحے اس کا سر چکراتا اور وہ کھڑے کھڑے شہتیر جیسی ڈھے جاتی۔کئی بار تو  وہ اس بری طرح گری کہ اسے ہسپتال لے جانا پڑا۔اب جوزف کو تاعمر سایہ سا اس کے ساتھ لگے  رہنا تھا۔ سو اس نے موٹر وائنڈنگ کے ساتھ ساتھ گھر گرہستی میں بھی مہارت حاصل کرلی تھی۔

جوزف نے طمانیت کے ساتھ دیکھا کہ رات بھر سے ایک تار برستی بارش کا دم ٹوٹنے لگا تھا۔

کھڑکی سے لگی بھاگاں  نے اب کے غور سے دیکھا تو بادلوں میں چکراتا کبوتر سرمئی سفیدی میں تحلیل ہوچکا تھا۔

اب کی بار بجلی کا کوندا  جولپکا تو بادلوں کی گرج نے انہیں پاؤں کے تلوؤں تک لرزا دیا۔بھاگاں نے سینے پر کراس بنایا اور اپنے گرد کھیس کس کر لپیٹ لیا۔

اپنی چارپائی پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا جوزف بھی اس گھن گرج سے سوچ میں پڑگیا تھا۔جب تک وہ سگریٹ کا آخری کش لے کر فیصلہ کن انداز میں کھڑا ہوتا کھانسی کے ایک مختصر سے دورے نے اسے دہرا کردیا۔

" میں تو کہتی ہوں رک جاؤ۔اس موسم میں چھتری بھی کام نہیں آتی۔اگر بارش پھر تیز ہوگئی تو؟"

"تمہیں پتا ہے سرکاری لوگوں کا۔اگر بلایا ہے تو جانا ہی پڑے گا ورنہ پھر بھوک تو ہے ای۔"

بھاگاں بھی جانتی تھی کہ جوزف کو جانا ہی ہوگا سو اس نے نیم رضامندی میں کندھے اچکادئیے ۔پھر بھی وہ فکرمندی کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکی۔

"اور تمہاری کھانسی؟"

" ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میری بے بے نہ بناکرو۔"

جوزف کو اپنی قدیمی کھانسی کی جانب ہلکا سا اشارہ بھی گوارا نہیں تھا کیونکہ اس کا الزام وہ اپنے سوائے کسی اور کے سر نہیں دھر سکتا تھا ۔ اس نے دورے سے سنبھل کر جھنجھلاہٹ کے عالم میں آنکھیں پونچھیں اور چھتری ٹانگ کے ساتھ ٹکا کر سر پر صافہ لپیٹتے ہوئے بڑبڑایا:

" اگر یہ منحوس لاک ڈاؤن نہ ہوتا، میرا کام چلتا رہتا  اور گھر میں پیسے آتے رہتے۔ بیٹھک کیا بند ہوئی لوگوں کو میرے پیسے مارنے  کا بہانہ مل گیا ورنہ میں کیوں جاتا حکومت سے بھیک مانگنے؟"

"ماسک!" بھاگاں نے اسے تنبیہ کی۔

جوزف نے اس بیکار کی فکر مندی سے جھنجھلا کر دروازے کے ہینڈل سے لٹکا کالے کپڑے کا ماسک نوچ کر منہ پر باندھ لیا۔

"کپڑے تو بدل لو، لوگ کیا کہیں گے۔" بھاگاں تھی کہ  بے بے بنے بغیررہ نہ سکتی تھی۔

جوزف نے جواب دینا ضروری نہ سمجھا اور جیب سے موبائل نکال کر کل رات کو بھیجا گیا میسج پھر سے اٹک اٹک کر پڑھنے لگا۔

"ایکسپو کی طرف جانا پڑے گا۔وہیں کہیں امدادی مرکز ہے۔" جوزف نے خود کو مخاطب کرکے کہا، "امیروں کا علاقہ ہے وہاں تو چنگ چی بھی نہیں جاتی، چار پانچ میل پیدل چلنا پڑے گا۔"

"وبا کے دنوں میں چنگ چی کہاں؟۔۔۔سب کچھ تو بند پڑا ہے۔"

جوزف نے اس کی طرف پر خیال نظروں سے دیکھا، "اور سنو، میرے جاتے ہی کام کاج میں نہ لگ جانا کہیں گرگرا گئی تو کوئی تمہیں اٹھانے والا بھی نہیں ہوگا۔"

وہ کئی دنوں بعد گھر سے نکلا تھا۔لاک ڈاؤن کے باعث گلیوں میں قدموں کی چاپ اور باتوں کا شور کم ہوا تواس   کی جگہ ویرانی کے احساس نے لے لی تھی ۔ باہر  لوگ کہاں  صرف چند بے فکرے تھے جو گلیوں کی نکڑوں میں بیٹھے  ملاوٹی شراب اور چرس کے خریداروں  کی راہ دیکھ رہے تھے۔

موسلادھار بارش اب معصوم سی کن من میں بدل گئی تھی۔یوں چھتری سر پر سے اتر کر ہاتھ میں آگئی تھی اور وہ اس سے کیچڑ میں پھسلاؤ سے بچنے  کا کام لینے لگا تھا۔ میلوں  چل کر وہ جب امدادی مرکز پہنچا تو سورج  ایک طویل قیلولے کے بعد بادلوں میں چھید کرکے جھلک دکھانا شروع ہوچکا تھا۔

وہاں پہنچ کر وہ پریشان ہوگیا کہ بارش کے باوجود وہاں میلہ سا لگا تھا۔چھوٹی سی جگہ تھی اور بندے پر بندہ چڑھا ہوا تھا۔ بے احتیاطی کا عالم یہ تھا کہ چند ہی لوگ ہوں گے جنہوں نے  وائرس سے بچنے کے لیے چہرے ڈھانپ رکھے ہوں۔ اسے بھی لگا کہ وباایک افواہ ہی ہوگی جو عورتیں بھی اور مرد بھی بے فکرے کھڑے بھوک اور بیروزگاری سے جڑا اپنا رونا رو رہے تھے اور لاک ڈاؤن پر حکومت کو کوس رہے تھے۔

وہاں امداد لینے والوں کے ہجوم کے علاوہ چند اونگھتے ہوئے پولیس والے اور بہت سے جلے تلوؤں والے ٹی وی رپورٹر بھی تھے جو اپنا اپنا نیوز  پیکج بنانے کے لیے تاڑی لگائے بیٹھے تھے کہ  اپنے مطلب کی چوندی چوندی بات نکلوانے کے لیے کس کے منہ میں مائیک ٹھونسا جائے ۔رپورٹر لوگ  خاص طور پر امدادی لفافہ لے کر نکلنے والوں  کی طرف لپکتے تھے تاکہ ان سے حکومت کے حق میں بات نکلوا کر اپنے بڑوں  سے داد سمیٹی جاسکے۔

وہ بھاگاں  کی نگران آنکھوں کی گھوری  کا تصور کرکے  اپنے چہرے کو نقاب سے آزاد کرنے سے بازرہا اور چپ چاپ لائن میں لگ گیا۔قطار شیطان کی آنت جیسی تھی اور اس عمر میں انتظار کی مشقت اس کی ہمت سے  سوا تھی ، سو وہ کبھی تھک کر بیٹھ جاتا اور کبھی بیٹھنے کی تھکن کے مارے  اٹھ کھڑا ہوتا۔ انتظار کی کوفت کو بہلانے کی واحد صورت یہ تھی کہ وہ اپنے گرد جمع لوگوں کو اپنی  دید اور شنید کا محور بنالے۔

اس نے ایک ایک کا جائزہ لینا شروع کیا تو  دیکھا کہ وہاں موجود  لوگ کیا تھے بس ٹین کے پچکے ہوئے بے مصرف ڈبوں کا ڈھیر تھا ۔شاید ہی کوئی ہو جس کے چہرے پر  حالات نے  ڈنٹ نہ ڈالے ہوں۔زندگی ان پر آسان کب تھی لیکن لاک ڈاؤن کی پابندیوں نے ان کی شکلوں کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ کیچڑ میں لت پت پاؤں اور آنکھوں میں آس کہ ان کی طرف دم بہ دم بڑھتی بھوک کو سرکاری لوگ کچھ دے دلا کر چند روز کے لیے ٹال دیں گے۔ عورتیں  توخاص اس مقصد کے لیے گھر سے  نیم برہنہ اور لاغر بچوں کو اٹھا  لائی تھیں کہ انہیں دکھا کر حکومتی اہلکاروں میں خوابیدہ ممتا  کے جذبے  کو ذرا سہولت سے  جگایا جاسکے۔

ٹین سے بنے ان  لوگوں میں سے جب کوئی اندر سے ہو آتا توخدا ترسی کی  ایک فاتحانہ چمک لیے قطاروں میں لگے لوگوں کو دیکھتا اور  ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر تیز قدموں وہاں سے چل پڑتا۔ کچھ لوگ تھے جو برافروختہ لوٹتے جب انہیں پتا چلتا کہ ان کا امدادی سنٹر دراصل کوئی اور تھا اور اب انہیں التوا شدہ امید کے ساتھ کہیں اور جاکر آس اور انتظار کا کھیل کھیلنا ہوگا۔

جب تک اس کی باری آتی  سائے دراز ہوچکے تھے۔عمارت کے داخلی دروازے پر اس کے بھی  ہاتھوں پر وائرس کش  محلول ملا گیا اور اور پھر ایک میز کے گرد جمع چند ماسک چڑھائے اہلکاروں میں سے ایک نے رجسٹر کے ایک خانے پر بال پوائنٹ کی نوک رکھی:

"نام؟"

"جوزف جی۔۔۔جوزف اقبال مسیح۔"

"ولدیت؟"

"بوٹا مسیح"

" ہوں! شناختی کارڈ؟"

جوزف نے جیب سے شناختی کارڈ نکال کر میز پر رکھ دیا۔

اہلکار نے  شناختی کارڈ لے کر الٹ پلٹ دیکھا  اور  رجسٹر پر کچھ درج کرکے بائیو میٹرک مشین اس کی طرف بڑھادی ۔اس نے ہدایت کے مطابق مشین کی ننھی سی سکرین پر دائیاں انگوٹھا رکھ کر دبایا اورپھر انگشت شہادت کے ساتھ یہی عمل کیا۔ اہلکار مطمئن نہ ہوا تو اس نے دوبارہ اسے انگوٹھا رکھنے کا کہا۔ اس بار اس نے دیر تک سکرین پر انگوٹھے کو چپکائے  رکھا۔اہلکار کے عدم اطمینان پر یہی عمل تیسری بار بھی دہرایا گیا  مگرنتیجہ وہی پہلے جیسا۔ کمپیوٹر سکرین پر نظریں جمائے اہلکار نے بے یقینی کے عالم میں سر کو کھجایا  اور پھر اٹھ کر ایک اور کمرے میں چلاگیا۔ واپس آیا تو اس نے ایک بار پھر اسے وہی عمل دہرانے کا کہا۔اس بار اس نے دونوں ہاتھوں کی تمام انگلیوں کو باری باری سکرین پر دیر تک دبائے رکھا۔

جوزف کا دل انجانے خدشے  سے دھڑک رہا تھا۔اس نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا:

" سر جی، کوئی مسئلہ ہے کیا؟"

" بزرگو!" اہلکار نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے  سپاٹ لہجے میں کہا، " آپ کو امداد نہیں مل سکتی۔"

جوزف نے بے یقینی سے اسے دیکھا تو اس نے وضاحت کی کہ اس کی انگلیوں کے نشان مٹ چکے ہیں ، جب تک مشین اس کے زندہ  ہونے کی تصدیق نہ کردے اس وقت تک اسے زندہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔

وہ ہونق سا کچھ دیر اپنے ہاتھوں کو اور اہلکاروں کے چہروں کو دیکھتا رہا۔اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس کے عین سامنے اس کے ہونے سے انکار کردیا جائے گا۔

اس نے بے یقینی کی ابتدائی کیفیت سے سنبھلنے کے بعد التجا تک کرکے دیکھ لی، جو منہ میں  آیا کہا لیکن سب بیکار۔البتہ اسے یہ تسلی ضرور تھمادی گئی کہ اس کے اور اس جیسے دو چار اور  لوگوں کے کیسوں کو اوپر بھیج دیا جائے گا اور جلد ہی اس کا حل بھی  نکال لیاجائے۔

وہ چھتری بغل میں دبائے بوجھل قدموں  نکلا تو ایک میڈیا  پارٹی اس کی جانب لپکی۔وہ کہ تب تک اپنی جھنجھلاہٹ اور طیش کو منت سماجت کے بوجھ تلے دبائے ہوئے تھا ، اچانک پھٹ پڑا۔ اور پھر ترنت ہی مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر لوگ ایک مجہول وضع کے اور طیش سے کپکپاتے ہوئے بڈھے کو  روتے کلپتے اور حکومت کو گالیاں دیتے  دیکھ کر  کئی روز تک چچ چچ کرتے  اور آنسوؤں  والا ایموجی بناتے رہے۔

"میں اٹھہتر سال سے اس دنیا میں ہوں۔ان تمام برسوں میں مجھے ہنسایا گیا،  رلایا گیا اور ٹھوکروں میں رکھا گیا لیکن کبھی کسی نے میرے  ہونے سے انکار نہیں کیا۔اور یہ ماں کے لوڑے  بکواس کررہے ہیں کہ میری انگلیوں کے نشان مٹ چکے ہیں ۔یعنی کمال ہے کہ میں زندہ بھی ہوں اور نہیں بھی۔"

ّ" جوزف!۔۔۔ وے جوزفا!"

جوزف دیر سے چپ چاپ زمین پر لکیریں کھینچے جارہا تھا ۔اس نے چونک کر سراٹھایا اور کچھ کہے بغیر اپنی مصروفیت جاری رکھی ۔ بھاگاں بستر سے اٹھ کر چھڑی ٹیکتی اس کے پاس آبیٹھی تھی۔

"پریشان کیوں ہوتے ہو،خداوند تو ہے نا۔"

" خداوند؟ کون خداوند؟؟"

" تم نے پھر منکروں جیسی باتیں شروع کردیں۔ تمہاری انہی باتوں کی وجہ سے۔۔۔"

وہ زمین پر لکیریں کھینچتے ہوئے بڑبڑایا:

"میں خود کو ایویں ای زندہ سمجھتا رہا اب تک،  لعنت ہے میری بے وقوفی پر۔"

" اچھا زیادہ نہ سوچو، کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔"

" کیا ہوجائے  گا اور کون کرے گا؟۔۔۔تمہارا خداوند؟؟"

"جوزفا!نہ کیا کر پہلے ہی ہم پکڑ میں آئے ہوئے ہیں۔۔۔اچھا چھوڑ یہ بتا اب کیا کرنا ہے؟"

"اچھا بھلا کام چل رہا تھا۔" جوزف خود سے مخاطب ہوا ۔ "جانے کہاں سے یہ منحوس وبا آگئی ۔اخے بند کردو، سب کچھ بند کردو اور جب بند کرکے گھر میں بیٹھ گئے تو بولے تمہارے ہاتھ کی لکیریں گھس گئی ہیں، مشین نے تمہیں زندوں میں شمار کرنے سے انکار کردیا  ہے۔بندہ  پوچھے، بہن کے دینو، بندہ  جیوندا جاگدا تمہارے سامنے کھڑا ہے، اٹھہتر سال سے تمہاری ماں کی ٹانگیں  کھجارہا ہے، اپنے حصے کے عذاب بھگت رہا ہے اور تم کہتے ہو کہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرو۔لا ؤ اپنی ماں کو میں پیش کرتا ہوں ثبوت اپنے زندہ ہونے کا۔"

بھاگاں کا دل دکھ سے بھر گیا۔اس نے جوزف کے ہاتھ کی پشت پر ابھری ہوئی رگوں پر پیار سے ہاتھ پھیرا تو وہ تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوا اور پھر ہوا کی زد میں آئے پتے کی طرح چکراتے ہوئی اپنی چارپائی پر ڈھیر ہوگیا۔بہت دیر بعد اس کی آواز ابھری:

"بھاگاں، ایک چھوٹی سی مشین نے مجھے جیتے جی ماردیا، میرے عین سامنے میرے ہونے سے انکار کردیا۔"

وہ  ایک جھٹکے کے اٹھ بیٹھا،"بھاگاں، تم اپنی  بتاؤ،کیا تم زندہ ہو؟"

بھاگاں جوسیرو کا سہارا لیتے ہوئے اپنی چارپائی پر دراز ہوچکی تھی یونہی تکیے میں منہ دیے اسے بھگوتی رہی۔

بہت دیر بعد جوزف اپنی چارپائی سے اٹھا اور بھاگاں کے ساتھ لیٹ  گیا۔وہ اسے اپنے ساتھ بھینچے  دیر تک اس کی بند آنکھوں پر انگلیاں پھیرتا رہا۔بھاگاں  اسی  کروٹ پڑے دھیرج سے بولی:

" تو تو ایک بار مرا ہے جوزف!میری دلی جانے کب کب اجڑی اور کب کب آباد ہوئی۔"

" میں جانتا ہوں ، چھیمے تجھے بھی قبر میں ساتھ لے گیا تھا۔"

" نہیں جوزف، میں چھیمے کے ساتھ نہیں مری تھی۔میں تو اس وقت مری تھی جب تم  حکومتی لوگوں سے چھیمے کی موت کے پیسے کھرے کرکے لائے تھے اور پھر تم نے ان پیسوں سے اس گھر کو خرید ا تھا۔"

جوزف کچھ کہے بغیر اس کے بالوں کو سہلاتا رہا۔

"یہ تمہارے لیے  گھرہوگا، میرے لیے تو یہ قبر ہے جس میں میں چھیمے کے ساتھ رہتی ہوں۔ناں  بتا تو سہی،  جو پہلے سے قبر میں ہو اسے کیا فرق پڑتا ہے جینے اور مرنے سے؟"

"ٹھیک ہے بھاگاں، ایسے تو پھر ایسے ہی سہی،میں بھی تمہارے ساتھ اسی قبر میں دفن ہوجاؤں گا۔"

اچانک بھاگاں جیسے جاگ گئی ہو۔ وہ اٹھ بیٹھی اور اپنی  آنکھوں کو پونچھتے ہوئے مسکرا دی۔

"نہیں جوزف، تو نہیں مرے گا۔ تو نے ابھی بہت کام کرنے ہیں۔"

جوزف نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا کہ اچانک دروازے کے باہر ایک موٹر سائیکل رکا اور پھر دروازہ دھڑدھڑایا جانے لگا۔اس  نے سرہانے سے سر اٹھا کر تعجب سے دروازے کو دیکھا۔کوئی اس کا نام لے کر پکار رہا تھا۔شام ڈھلے کون ان سے ملنے آسکتا تھا ؟پوری پکی ٹھٹھی میں کوئی ایسا نہیں تھا جو اس سے ملنے کو بے قرار رہتا ہو اور پھر یہ آواز بھی ان سنی سی تھی۔جوزف نے  بیوی کی طرف الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا۔پھر بیوی کے اشارہ کرنے پر وہ اٹھا اور ذرا سا دروازہ کھول دیا۔باہر موٹر سائیکل پر ایک نوجوان بیٹھا بے تابی سے اس کا انتظار کررہا تھا۔اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں  اور موٹر سائیکل کے ہینڈل پر جمے اس کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ تھی۔جوزف نے باہر نکل کر سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے پچھلی سیٹ کی طرف اشارہ کردیا۔

"لیکن کہاں، اور تم کون ہو؟"

"سوال جواب کا وقت نہیں ہے چاچا!سخت ایمرجنسی ہے۔ہم ایک مشکل میں پھنس گئے ہیں اور صرف تم ہی ہماری مدد کرسکتے ہو۔"

"خیر تو ہے نا؟"

"پتا نہیں۔ میرے پیچھے بیٹھ جاؤ۔"

جوزف کو خاموش دیکھ کر نوجوان نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے:

"چاچا جوزف!میرا اعتبار کرو ،تھوڑی دیر بعد میں تمہیں واپس چھوڑ جاؤں گا۔"

جوزف  نے دیکھ کہ وہ مارے ضبط کے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے بھینچے ہوئے تھا۔وہ کچھ دیر اس نوجوان کے چہرے پر آتے جاتے رنگوں کو دیکھتا رہا اور پھر کچھ سوچ کر بھاگاں کو بتانے کے بعد اس کے پیچھے بیٹھ گیا۔

موٹر سائیکل تیز ہوا کے ساتھ ساتھ اڑتا ہاؤسنگ سوسائٹی کے پیچھے ایک گندے نالے کے کنارے  رک گیا۔وہاں ایک ہجوم جمع تھا ۔ سب کے چہرے فق تھے اور سب گنگ تھے۔جوزف کی دھڑکن بھی تیز ہوگئی۔پہلا خیال جو اس کے دماغ میں آیا   یہ تھاکہ کسی کو قتل کرکے گندے نالے میں پھینک دیا گیا ہے اور یہاں موجود لوگ مقتول کے لواحقین ہیں جو لاش کو نالے سے نکالنے کے خواہاں ہیں۔لیکن اسے کیوں بلایا گیا ہے؟ یہ سوال ہنوز جواب طلب تھا۔

تب ایک سفید چمکیلی داڑھی والا شخص اس کی طرف بڑھا۔جوزف نے تعجب سے دیکھا ۔ وہ حاجی خدا بخش  تھا، ایک دولت مند تاجر جو  ہاؤسنگ سوسائٹی کے سب سے بڑے اور سب سے  قیمتی مکان میں رہتا تھا۔اس کی نیکی، دینداری  اور سخاوت مقامی  آبادی کا دور دور تک شہرہ تھا اور اس شہرت کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کا خاص اہتمام بھی کیا جاتا تھا ۔جب وبا کی مصیبت شروع ہوئی اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کو گھروں میں بند ہونا پڑا تو وہی تھا جس نے ایک مذہبی جماعت کی فلاحی تنظیم کے بینر تلے غریب خاندانوں کو راشن کی تقسیم شروع کی تھی۔جوزف بھی ناچار ایک روز جاکر چپ چاپ امداد لینے والوں کی قطار میں جابیٹھا تھا۔وہاں راشن کے تھیلوں سے بھرا ایک ٹرک کھڑا تھا اور لاؤڈ سپیکر سے نشر ہوتی نعتوں سے گدرائے ہوئے ماحول میں  حاجی کے کارندے سامان تقسیم کرنے میں اس  کی مدد کررہے تھے۔  بہت دیر بعد جوزف کی باری آئی تو کسی نے حاجی کے کان میں کچھ کہا جس پر حاجی کے چہرے سے چپکی مربیانہ مسکراہٹ غائب ہوگئی اور اس کی بجائے ماتھے پر سلوٹیں ابھر آئیں۔

"تمہارا نام جوزف مسیح ہے؟"

"جی حاجی صاب، پکی ٹھٹھی میں رہتا ہوں۔"

"ہوں! دیکھو یہ امداد مسلمانوں کے لیے ہے۔ تمہارا ذمہ دار چرچ ہے، اس سے مانگو۔"

حاجی یہ کہہ کر اگلے مستحق کی طرف متوجہ ہوگیا اور جوزف جو چرچ سے ہمیشہ لاتعلق رہا تھا اپنی دھوتی سنبھالتا وہاں سے چلدیا ۔

آج وہی حاجی شام کے جھٹپٹے میں اس کے سامنے  خشک پتے کی طرح لرزیدہ کھڑا تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہی اس پر جھپٹا اور اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کے شکنجے میں کس لیا۔اس کے ہونٹ کپکپارہے تھے اور آنکھوں میں ویرانی تھی۔اس نے بمشکل الفاظ کا جوڑ بٹھاتے اور لہجے میں التجا بھرتے ہوئے کہا:

"جوزف، میرے بھائی، میرے دو بچے، ایک پوتا اور ایک نواسا کھیلتے ہوئے ۔۔۔"

الفاظ اس کے رندھے ہوئے گلے میں بھیگ گئے  تو کسی اور رندھے گلے والے نے اس کی بات کو مکمل کیا:

" وہ دونوں بچے افطاری کے وقت کھیل رہے تھے کہ ان کے پاؤں پھسلے اور وہ نالے میں جاگرے۔"

"جوزف چاچا،صرف تم ہی انہیں نکال کر لاسکتے ہو۔" کسی اور نے اس سے التجا کی۔

جوزف نے ایک نظر نالے کی طرف دیکھا۔ ہاؤسنگ سوسائٹی کی تعمیر سے بہت پہلے جب وہاں کھیت ہوا کرتے تھے تو ان کی آبیاری کے لیے اس نالے کو ایک قریبی نہر سے نکالا گیا تھا۔جب پراپرٹی ڈیلروں نے کھیت نگل لیے تو کیچڑ اور تعفن سے بھرا  یہ نالہ بھی اپنے جواز سے محروم ہوکر گندے پانی کے نکاس کا ذریعہ بن گیا تھا ۔بہت مدت سے مطالبہ کیا جارہا تھا کہ اس نالے کو پاٹ کر سڑک بنادی جائے کیونکہ اس  کی بدبو کی وجہ سے پوری سوسائٹی کی صحت سخت خطرات سے دوچار تھی۔

یہ سیدھے کناروں والا تنگ نالہ تھا اور اس قدر گہرا کہ  خود رو پودوں  اور سرکنڈوں کی بہتات کے باعث  اس کی گہرائی  میں جھانکنا مشکل تھا۔لوگ اس نالے کی طرف آنے سے کتراتے تھے کیونکہ مشہور تھا کہ نالہ  زہریلے سانپو ں اور طرح طرح کے موذی حشرات کی آماجگاہ ہے جو اکثر باہر نکل کر رینگتے پھرتے تھے۔جوزف نے قریب ہوکر نالے میں جھانکا اور پھر گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا۔لمحہ لمحہ اترتی رات  نے نالے کی گہرائی کو خوف  سےبھردیا تھا۔اس نے حاجی کو مخاطب کرکے لجاجت سے کہا:

"حاجی صاب، اب میری ہڈیوں میں ست کہاں؟پکی ٹھٹھی میں آپ کو بہت سے جوان مل جائیں گے۔"

"بہت ترلے کر چکے ہیں ہم لیکن کوئی حرام خور  نالے میں اترنے کو تیار نہیں ہے۔ سب کیچڑ اور سانپوں سے ڈرتے ہیں۔"

" ون ون ٹو ٹو؟"

"وہ گھنٹہ بھر سے پہلے نہیں آسکیں گے۔تراویح کے بہانے سب غائب ہیں ۔اس وقت تک جانے کیا ہوجائے؟"

"بچوں کی عمریں کتنی ہیں؟"

حاجی کی بجائے کسی اور نے جواب دیا:

" ایک عدنان ہے آٹھ ساڑھے آٹھ سال کا اور دوسرا  اس کا کزن ہے عدیل، وہ دس سال کا ہے۔ دونوں کھیلتے ہوئے جانے کیسے اس طرف آنکلے تھے۔"

" ہائے میرے بچے۔۔۔ہائے میرے نورِ عین!"دور حاجی کی آواز آئی جو پچھاڑ کھا کر زمین پر ڈھے پڑا تھا۔

" اباجی، حوصلہ رکھیں، اللہ نے چاہا تو بچے خیریت سے آجائیں گے۔"

"مجھے تسلیاں نہ دو لڑکوں کو نکالو۔" حاجی نے دھاڑ کر کہا۔پھر وہ اٹھا اور ڈگمگاتے ہوئے قدموں جوزف کی طرف بڑھا۔

"دیکھو جوزف بھائی!" اس  نے اپنے لہجے میں جہاں بھر کی لجاجت بھرتے ہوئے کہا، "بچے سب  سے سانجھے ہوتے ہیں۔تمہارا بیٹا ہوتا تو۔۔۔"

حاجی نے  چونک کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا اور مجرموں کی طرح سر جھکا دیا۔ جوزف نے کڑے تیوروں اس کی طرف دیکھا۔ اس بار بھی حاجی ہی تھا جس کے بلانے پر چھیما اپنے ساتھی کے ساتھ گٹر صاف کرنے گیا تھا۔وہ اگر چاہتا تو احتیاط کے تقاضے پورے کرکے  گٹر کا ڈھکن کھلوا سکتا تھا اور اندر جمع شدہ گیس خارج ہونے تک انتظار کرسکتا تھا لیکن اس نے نہایت بے رحمانہ تکبر کے ساتھ ان پر دباؤ ڈال کر انہیں ڈھکن ہٹا کر گٹر میں اترنے پر مجبور کردیا تھا۔

جوزف بے دم سا زمین پر بیٹھ گیا۔اتنی کڑی آزمائش کب اس پر آئی تھی۔

حاجی خدا بخش چھیمے کی قربانی کے بعد اس سے قربانی مانگ رہا تھا۔

تب حاجی نے اچانک  ایک عجیب حرکت کی۔ اس نے جھک کر اس کے پاؤں پر اپنی ٹوپی رکھ دی اور نم آنکھوں سے ہاتھ جوڑے اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔

"میں  جانتا ہوں جوزف بھائی، کہ بچے اب تک زندہ نہیں ہوں گے۔ چلو جو اللہ کی رضا۔مجھے ان کی لاشیں ہی مل جائیں تو  تسلی  توہو کہ اپنے ہاتھوں انہیں دفن کیاہے۔"

جوزف نے گھوم کر دیکھا ۔اس کے گرد دس بارہ آدمی کھڑے تھے اور وہ ان کی التجا بھری نظروں کا محور تھا۔اچانک ایک خیال نے اس کی الجھن ختم کردی اور وہ جھٹکے سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔

بھاگاں کے خداوند نے اسے اپنے زندہ ہونے کو ثابت کرنے کا موقع فراہم کردیا تھا۔

اس نے ایک سگریٹ سلگایا اور گہرے کش لے کر اپنی ہمتوں کو سمیٹنے لگا۔سگریٹ کے آخری کش کے بعد معمول کی کھانسی کے بعد جب اس کا دھونکنی سا چلتا ہوا سینہ نارمل ہوا  تو اس نے قمیض اتار دی اور شلوار کو رانوں تک چڑھالیا۔ اس کے کہنے پر ایک لمبا اور موٹا رسا منگوایا گیا جسے اس کی کمرکے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا گیا۔اس کے ساتھ ہی اس کے ماتھے پر  کان کنوں والی ٹارچ باندھ دی گئی۔اوروہ  نعرہ ہائے تحسین کے جلو میں کمال سکون کے ساتھ  خود رو گھاس کے سرکنڈوں کو تھام کر نیچے اترگیا۔

کئی فٹ گہری  سطح کو محسوس کرنے  پر اس نے کمر سے بندھی رسی کھول دی اورٹارچ کی روشنی گھماتے ہوئے  یہاں سے وہاں تک نالے کا جائزہ لیا۔ اس کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے پہلوان اکھاڑے میں پنجہ لڑانے سے پہلے اپنے حریف کے تیور بھانپنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ نالہ بھی ایک پہلوان تھا جسے پچھاڑنے وہ اس کی جوہ میں اتر آیا تھا۔وہ  کچھ دیر پانی کی سیاہ کثافت کے کنارے کھڑے  سوچا کیا اور پھر  اس نے آسمان کو دیکھتے ہوئے  اس نے خود کو تعفن چھوڑتے  پانی  میں چھپے سانپوں کے حوالے کردیا۔

وہ کبھی اچھا تیراک ہوا کرتا تھا لیکن وہ جوانی کی بات تھی۔اب تو جانے کتنی مدت سے اس کے تلوؤں نے پانی کو چھوا بھی نہ تھا۔اسے قدرے اطمینان ہوا کہ نالے میں پانی زیادہ نہیں تھا، مشکل سے گھٹنوں تک آرہا تھا ۔اس نے ٹارچ کی روشنی میں چمکتے ہوئے پانی کو جانچنے والی نگاہوں سے دیکھا۔ پانی کا بہاؤ اتنا ضرور تھا کہ آٹھ دس سال کے بچے کو ٹھہرنے نہ دے۔خود  اسے درپیش مسئلہ پانی کے بہاؤ کا نہیں کیچڑ کا تھا جو چلتے ہوئے اس کے پاؤں دبارہا تھا۔اسے نالے کے بارے  میں کچھ پتا نہیں تھا لہٰذا وہ محتاط ہوکر قدم قدم چل رہا تھا کہ جانے آگے دلدل آنی ہے یا پانی نے گہرا ہونا ہے اور پھر سانپوں کا دھڑکا الگ کہ کسی بھی وقت کوئی  سانپ اس کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ سکتا تھا۔کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اس پراسرار نالے میں اترنے کا تصور بھی نہ کرسکتا تھا لیکن بائیو میٹرک مشین کو جھٹلانے کی دھن نے اس پر واپسی کے دروازے بند کردئیے تھے۔

اس نے  گھپ اندھیرے میں کچھ آگے جاکر  بچوں کو آواز دی لیکن جواب میں خاموشی نے اس کے خدشے کی تصدیق کردی۔پانی کا بہاؤ انہیں کہیں آگے لے گیا تھایا شاید کہیں وہ کیچڑ میں دب گئے ہوں گے۔وہ انہیں تھوڑی تھوڑی دیر بعد پکارتا آگے بڑھنے لگا کہ یکایک  اس کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی اور  وہ ٹھوڑی تک پانی میں ڈوب گیا۔وہاں  کوئی گہرا گڑھا تھا جہاں پانی  بھنور بنا تے ہوئے اسے گہرائی میں لے جانے کے لیے زور لگا رہا تھا۔ اسے غوطہ لگا تو اس نے پانی میں ہاتھ پاؤں چلانا شروع کردئیے۔پیراکی کی مشقت اس کی ہمت سے سوا تھی کہ اس عمر میں اس کا ماس ہڈیوں پر ڈھیلا پڑچکا تھا مگر اسے بہر طور اپنی خفتہ قوتوں کو کام میں لانا تھا ۔ذرا آگے پانی کی گہرائی کم ہوئی تو اس نے رک کر سانس کو متوازن کیا اور ایک بار پھر ہانک لگائی:

"چھیمے۔۔۔او چھیمے!"

اپنی آواز پر وہ چونک گیا۔اسے گمان گزرا کہ اس نے پہلے بھی بچوں  کو اسی نام سے پکارا ہوگا۔اس پکار کے بعد اس نے حیرت سے محسوس کیا کہ اس کے بازو ؤںاور پنڈلیوں کے گرد گوشت میں سختی آرہی ہے اور تھکان کی جگہ توانائی نے لینا شروع کردی ہے۔اسے برسوں سے ایک ہی قلق کھائے جارہا تھا کہ کاش وہ چھیمے کے ساتھ گٹر میں اترا ہوتا  اور جونہی قاتل گیس ان کی طرف لپکتی وہ اسے  باہر دھکیل کر اس کی جگہ خود مرجاتا۔اب اسے قدرت نے چھیمے کو بچانے کا ایک عجیب سا موقع فراہم کردیا تھا۔اس نے اس گھپ اندھیرے میں غیب سے  کسی کو مدد کے لیے پکارنا چاہا تو بے اختیار اس کے منہ سے یسوع مسیح کی بجائے بالمیک کا نام نکلا۔وہ بالمیکی نہیں تھا بلکہ وہ ٹھیک سے مسیحی بھی نہیں تھاپھر بھی جانے کیسے اس کے منہ سے وہ نام نکلا  جس سے کئی پشتوں پہلے اس کے بزرگ اپنا صدیوں کا ناطہ توڑ کر امریکن  پریس بائٹیرین چرچ کے خدا ترس مشنریوں کی خدا ترسی سے فیض یاب ہونے کے لیے مسیحی بن گئے تھے۔عقیدے کے اس پھیر نے اسے کچھ دیر کو الجھا دیا۔

" بالمیک کیوں مسیح کیوں نہیں؟"

وہ الجھتا رہا کہ وہ تو بالمیک کو ٹھیک طرح جانتا بھی نہیں نہ کبھی بالمیکیوں کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا رہا تھا۔تو کیا اس کے  بزرگو ں کا سفر اکارت گیا تھا؟ اچانک اس کے علم میں لائے بغیر ایک خیال اس کے لاشعور میں جھلملایا۔جو بات وہ نہیں جانتا تھا   یہ تھی کہ بظاہر  وہ نالے میں اپنے وجود کو ثابت کرنے اترا تھا لیکن نالے کی گہرائیوں میں پہنچ کر اس کی ڈیوٹی بدل گئی تھی۔اب اسے جس چیلنج کا سامنا تھا وہ تھا مسیحی کی بجائے  بالمیکی چوہڑے ہونے کو اعتبار بخشنے کا کہ وہ صدیوں کا بیٹا تھا اور اسے صدیوں طویل عزت کی جنگ میں ایک ہیرو کا کردار ادا کرنے کے لیے چن لیا گیا تھا۔

اس بار اس نے ایک گہرا سانس لے کر  سچے دل کے ساتھ بالمیک عرف گگا پیر کو یاد کیا اورپاؤں پاؤں آگے بڑھتے ہوئے دانستہ چھیمے کا نام پکارا کیونکہ اس نے محسوس کیا کہ  ہر بار جب وہ یہ نام لیتا تو اس کے منہ میں شیرینی گھل جاتی تھی۔

اسے فاصلے کا اندازہ تو نہیں تھا لیکن شاید وہ کافی دور نکل آیا تھا۔ایک دو بار اسے لگا بھی کہ کوئی سانپ ایسی چیز اس کی پنڈلیوں سے مس ہوتی گزر گئی ہے لیکن وہ اس وقت صدیوں کا بیٹا  تھا اور ہر خوف سے آزاد تھا۔کچھ اور آگے جاکر جب پانی اس کے گھٹنوں سے نیچے تھا، کیچڑ دلدل جیسا نرم ہوگیا تھا اور وہ اسے اپنے وجود کا حصہ بنانے پر آمادہ دکھائی دے رہا تھا۔اس نے کنارے  پر باہر کو نکلی ایک جڑ کو تھام کر زور لگا یا تو دلدل نے اس کے پاؤں کو چھوڑ دیا۔وہ   سرک کر کنارے پر ہوگیا جہاں زمین  قدرےسخت تھی ۔اسے خیال گزرا کہ دونوں بچے یہیں کہیں دلدل میں نہ دھنس گئے ہوں۔یہ خیال آتے ہی اس کا دل ڈوب گیا ۔ اگر پانی کے زور سے بچے آگے نہ نکل پائے ہوں گے تو وہ اب تک اس دلدل کا رزق بن گئے ہوں گے۔اس بھیانک امکان نے کچھ دیر کو اسے نالے کی دیوار کے ساتھ چپکائے رکھا۔اس نے ٹارچ کی روشنی میں دور تک غور سے دیکھا لیکن وہاں کیچڑ میں دھنسا کوئی وجود تھا نہ  ایسے آثار تھے کہ انہیں کیچڑ نے نگل لیا ہو۔

وہ کیچڑ پر نظریں جمائے آگے بڑھا تو اچانک اس کے پاؤں گہرائی میں پڑے اور وہ پانی میں غوطے کھانے لگا۔یہاں بھی کوئی گڑھا تھا جہاں سے پانی چکرا کر گزر رہا تھا۔کوشش کرکے وہ  گھمن گھیری سے بچنے کے لیے کنارے کے ساتھ ساتھ تیرنے لگا۔تیرتے ہوئے اچانک اس کا ماتھا کسی سخت چیز سے ٹکرایا تو اس نے بھنا کر ماں کی گالی دی۔سرت بحال ہونے پر  اس نے غور کیا تو وہ  گئے  زمانوں کے کسی متروک پل کے لکڑی کےتختے تھے  جو کیچڑ میں  آڑے ترچھے گڑے ہوئے تھے۔وہ  ایک تختے کو تھام کر رک گیاکہ ذرا سانس بحال کرلے۔اچانک اسے لگا کہ کوئی انسانی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ہے۔یقینا یہ اس کی اپنی آواز کی بازگشت نہیں تھی۔ اس نے اس بار زیادہ بلند آواز میں پکارا تو اس بار زیادہ واضح جواب سنائی دیا۔کوئی تھا جو وہیں کہیں تھا۔

اس بار اس نے تیزی سے ہاتھ پاؤں چلانا شروع کردئیے، ساتھ ہی شاوا شاوا کی آوازیں بھی منہ سے نکالنے لگا۔اسے زیادہ دور نہیں جانا پڑا کہ ایک موٹی جڑ پر اس کا ہاتھ پڑا اور وہ اسے تھام کر رک گیا۔اس نے ٹارچ کی روشنی سے معلوم کیا کہ یہ کسی بوڑھے برگد کی پھیلی ہوئی جڑیں تھیں جو نالے کی چوڑائی کے آر پار تھیں۔ان گتھی اور الجھی ہوئی جڑوں نے نالے پر ایک پل سا بنادیا تھا مگر یہ قابل استعمال نہیں تھا کہ شاخیں زمین کی سطح سے کافی نیچے تھیں۔

" میں یہاں ہوں۔"اچانک کسی بچے کی دبی دبی آواز سنائی دی۔اس نے گردن گھما کر دیکھا، آواز بہت قریب سے آئی تھی۔

جوزف نے جڑوں کے اس الجھے ہوئے سلسلے میں ٹارچ کی روشنی گھمائی تو دیکھا ایک لڑکا جڑوں کے گنجل میں سمٹا ہوا بیٹھا تھا۔جوزف ایک دم سے پرجوش ہوگیا ۔اس نے مزید نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ دوسرا لڑکا جو جسامت میں چھوٹا تھاایک موٹی جڑ کو بازوؤں میں جکڑے لٹک رہا تھا یوں کہ سر باہر اور دھڑ پانی کے اندر تھا۔جوزف نے اسے ہلایا جلایا مگر کوئی حرکت نہ ہوئی۔جوزف نے اندازہ لگایا کہ وہ زندہ تھا مگر مارے خوف کے بے ہوش ہوگیا تھا۔ یہ معجزہ ہی تھا کہ بے ہوشی میں بھی  جڑ پر اس کے بازوؤں کی گرفت کمزور نہ ہوپائی تھی ورنہ  وہ بہاؤ  کے زور میں کہیں آگے نکل گیا ہوتا۔جوزف کو دیکھتے ہی جڑوں کے اوپر بیٹھا لڑکا کچھ کہنے کی کوشش کرنے لگا مگر خوف کےمارے اس سے بات نہیں ہوپارہی تھی۔جوزف کو سمجھ آئی کہ پانی کے بہاؤ کے باعث بڑا لڑکا کسی طرح سے جڑ کے اوپر چڑھنے میں کامیاب ہوگیا تھا جبکہ چھوٹا لڑکا اس کوشش میں دہشت کے مارے کامیاب نہ ہوسکا تھا۔اس  نے سارا ماجرا سمجھ کر  بڑے لڑکے کی ہمت بندھائی  اور اسے واپس آنے کا کہہ کر چھوٹے لڑکے کی گرفت بصد مشکل ڈھیلی کی اور اسے اپنی پشت پر جماکرپانی کے بہاؤ کی مخالف سمت تیرنے لگا۔

برسوں  بعد اپنی موت سے ذرا پہلے اسے یاد کرنا تھا کہ کیسے وہ ان لڑکوں کو ایک کے بعد ایک اپنی کمر پر لادے  وہاں سے زندہ  نکال لایا تھا۔اس روز جو ہوا وہ ناممکن تھاجو جانے کیسے ممکن ہوگیا تھا۔اسے یاد کرنا تھا کہ جب اس نے باری باری   دونوں لڑکے کنارے پر اتار دئیے تو انہیں زندہ پا کر وہاں موجود لوگوں خاص طور پر حاجی اور ان لڑکوں کے باپوں کی خوشی کو بیان کے دائرے میں لانا ممکن نہیں تھا۔وہ پچھاڑیں کھا رہے تھے، ہنس ہنس کر رو رہے تھے اور رو رو کر ہنس رہے تھے۔جوزف کو یہ بھی یاد تھا کہ ان لوگوں کے جانے کے بعد  وہ رات کی تاریکی میں سنسان کنارے پر ایک فراموش کردہ وجود کی طرح پڑا تھا۔البتہ وہ اپنی مٹھی میں ایک کرارے نوٹ کی چبھن محسوس کرسکتا تھا جو نیم بے ہوشی کی حالت میں کسی نے اس کی مٹھی میں ٹھونس دیا تھا۔

جوزف کی زندگی کے اس طویل ترین دن کے بعد اس کی آنکھ کھلی تو وہ اپنی چارپائی پر پڑا تھااور اس کا ایک بازو اس طرح پھیلا ہوا تھا جیسے اس نے مٹھی میں کوئی کرارا نوٹ دبا رکھا ہو۔

جوزف کو قدرے غیر واضح سا یاد رہا  تھا کہ بھاگاں جو اس کی پائنتی لگی بیٹھی تھی سایہ سا اٹھی اور لاٹھی ٹیکتے باورچی خانے میں گئی۔جب لوٹی تو اس کے ہاتھ میں چائے کا ایک خالی ڈبہ تھا۔اس نے ڈبا اس کی پھیلی ہوئی ہتھیلی پر رکھا اور اس کے ساتھ لگ کر بیٹھتے ہوئے رسان سے کہنے لگی:

"جوزفا، پریشان کیوں ہوتا ہے۔یہ دیکھ اس ڈبے میں بہت سے پیسے ہیں جو میں نے اپنے  اور تمہارے کفن کے لیے جوڑ رکھے تھے۔اب یہ پیسے ہمیں زندہ رکھنے کے کام آئیں گے۔"

جوزف نے بے خیال نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ کہے گئی:

"ایسی کئی وبائیں آئیں اور گئیں، ہم کیوں مریں خیری سلا۔ ہم بھی زندہ رہیں گے اور ہمارے ساتھ ہمارا چھیما بھی زندہ رہے گا۔"

٭٭٭٭

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024