ایک غزل اور ایک نظم:جمیل الرحمن
ایک غزل اور ایک نظم:جمیل الرحمن
Aug 7, 2018
دیدبان شمارہ۔۸
ایک غزل اور ایک نظم:جمیل الرحمن
غزل
دہلیز پہ اُس کی اگر آیا ہے صدا دے
اے دیدہ ء تر آنسو کو آواز بنا دے
اس کاسہء خاموش میں جھنکار سی بھر دے
اے میرے خدا مجھ کو مرے غم کی جزا دے
جو موسم ِ سفاک میں بھی سبز و گھنا ہو
ممکن ہو تو ہر بستی میں وہ پیڑ اگا دے
اک قتل گہ ِخواب ہے میدان ِ سیاست
یا عرصہ ء محشر ہے کوئی یہ تو بتا دے
وہ کانچ کی تلوار لیے سوچ رہے ہیں
اک وار میں کٹ جائیں گے پتھر کے پیادے
کوئی تو جمیل آئے مرا لاشہ اٹھانے
کوئی تو مرے اونٹ کو بھی پانی پلا دے
۔۔۔جمیل الرحمن۔۔۔۔۔۔
: نظم
نا شنیدہ آہٹوں کا منتظر خلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قصر ِ سیاہ کے بیرون کھلنے والے
سبھی دریچے
ملگجے جذبوں کے آہنی پردے
اور خوف کی طلسمی سلاخیں لگا کر
بند کر دئے گئے ہیں
ہوا اور روشنی کے امتناع کا حکم
جاری ہو چکا ہے
اب فکر و خیال کا کوئی پرندہ بھی
بلا اجازت
محل کی حدود میں
پر نہیں مار سکتا
!
دھوپ اور چاندنی
ڈیلفی کی سیڑھیوں پر بکھرے ہوئے
پھولوں کےاڑتے ہوئے رنگ
سنبھال کر
ایتھنز میں اترتی ہیں
ایتھنز کی پتھریلی گلیاں
سقراط کے لہجے کی کھنک
قدموں کی دھمک
اور اُس کے کپڑوں کی مہک
سنبھالنے سے
قاصر ہیں
ایتھنز کے شہریوں کے ذہن خالی ہیں
اور سقراط پر
ایتھنز کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا
سنگین الزام ہے
!
شہنشاہِ ساحراں افراسیاب کے
فرمان کی تعمیل میں
قصرِ سیاہ کی جانب نکلنے والے
ہر راستے کی نگہبانی پر
تیز نگاہ ساحر مامور ہیں
اور اُن کی دور تک پھیلی پرچھائیاں
آرزومندوں کے سینے کھرچ رہی ہیں
!
موت کے پیالے کے چاروں طرف
حلقہ زن
ڈبڈبائی آنکھیں
اور زہریلی کڑواہٹ میں گھلتے حلقوم لئے
سقراط کے سبھی شاگرد
اُسے
زہر کے گھونٹ بھرتے دیکھ رہے ہیں
لیکن
سقراط کا سب سے چہیتاحواری
مثالیت پرست افلاطون
مثالی خواب بننے میں ماہر
مسیح کے پطرس کی طرح
اس کے ارد گرد
کہیں موجود نہیں
!
ہر طلسم کو شکست دے کر
قلعے کے محل تک
رسائی حاصل کرنے والے
آخری شہزادے کے ہاتھ
قصر میں مقیّد
خوابیدہ شہزادی کے
جسم سےپہلی سوئی
نکالنے کے جرم میں
کلائیوں سے کاٹ کر
شہزادی کی مسہری پر
پھینک دئے گئے ہیں
اور اُس کے لبوں کو
اُسے داخلی راستہ دکھانے والی
بلّی کی آنتوں سے سی دیا گیا ہے
!
سقراط اپنی موت سے لاپرواہ
زہر کا آخری گھونٹ بھرنے تک
ایتھنز کے نوجوانوں کو
مسلسل گمراہ کررہا ہے
قصر سیاہ کی جانب آنے والے
سبھی راستے
ساحروں کی نگاہ میں ہیں
شہزادی کی خوابیدگی
ایک ابدی خواب میں بدل رہی ہے
لیکن سقراط کا چہیتا افلاطون
سقراط سے دُور
افراسیاب کے حضور
غلاموں کی طرح دست بستہ کھڑا
اس بات سے نا آشنا
کہ کسی بے ربط نظم کے بندوں
یا خواب و تعبیر کے مابین
موجود خلا کو
یومِ حساب کی معدوم آہٹیں ہی بھر سکتی ہیں
سقراط کے خیالوں میں گُم
کسی مثالی ریاست کا
خواب دیکھ رہا ہے
!
!!!!!!!!!!!
جمیل الرحمن
دیدبان شمارہ۔۸
ایک غزل اور ایک نظم:جمیل الرحمن
غزل
دہلیز پہ اُس کی اگر آیا ہے صدا دے
اے دیدہ ء تر آنسو کو آواز بنا دے
اس کاسہء خاموش میں جھنکار سی بھر دے
اے میرے خدا مجھ کو مرے غم کی جزا دے
جو موسم ِ سفاک میں بھی سبز و گھنا ہو
ممکن ہو تو ہر بستی میں وہ پیڑ اگا دے
اک قتل گہ ِخواب ہے میدان ِ سیاست
یا عرصہ ء محشر ہے کوئی یہ تو بتا دے
وہ کانچ کی تلوار لیے سوچ رہے ہیں
اک وار میں کٹ جائیں گے پتھر کے پیادے
کوئی تو جمیل آئے مرا لاشہ اٹھانے
کوئی تو مرے اونٹ کو بھی پانی پلا دے
۔۔۔جمیل الرحمن۔۔۔۔۔۔
: نظم
نا شنیدہ آہٹوں کا منتظر خلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قصر ِ سیاہ کے بیرون کھلنے والے
سبھی دریچے
ملگجے جذبوں کے آہنی پردے
اور خوف کی طلسمی سلاخیں لگا کر
بند کر دئے گئے ہیں
ہوا اور روشنی کے امتناع کا حکم
جاری ہو چکا ہے
اب فکر و خیال کا کوئی پرندہ بھی
بلا اجازت
محل کی حدود میں
پر نہیں مار سکتا
!
دھوپ اور چاندنی
ڈیلفی کی سیڑھیوں پر بکھرے ہوئے
پھولوں کےاڑتے ہوئے رنگ
سنبھال کر
ایتھنز میں اترتی ہیں
ایتھنز کی پتھریلی گلیاں
سقراط کے لہجے کی کھنک
قدموں کی دھمک
اور اُس کے کپڑوں کی مہک
سنبھالنے سے
قاصر ہیں
ایتھنز کے شہریوں کے ذہن خالی ہیں
اور سقراط پر
ایتھنز کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا
سنگین الزام ہے
!
شہنشاہِ ساحراں افراسیاب کے
فرمان کی تعمیل میں
قصرِ سیاہ کی جانب نکلنے والے
ہر راستے کی نگہبانی پر
تیز نگاہ ساحر مامور ہیں
اور اُن کی دور تک پھیلی پرچھائیاں
آرزومندوں کے سینے کھرچ رہی ہیں
!
موت کے پیالے کے چاروں طرف
حلقہ زن
ڈبڈبائی آنکھیں
اور زہریلی کڑواہٹ میں گھلتے حلقوم لئے
سقراط کے سبھی شاگرد
اُسے
زہر کے گھونٹ بھرتے دیکھ رہے ہیں
لیکن
سقراط کا سب سے چہیتاحواری
مثالیت پرست افلاطون
مثالی خواب بننے میں ماہر
مسیح کے پطرس کی طرح
اس کے ارد گرد
کہیں موجود نہیں
!
ہر طلسم کو شکست دے کر
قلعے کے محل تک
رسائی حاصل کرنے والے
آخری شہزادے کے ہاتھ
قصر میں مقیّد
خوابیدہ شہزادی کے
جسم سےپہلی سوئی
نکالنے کے جرم میں
کلائیوں سے کاٹ کر
شہزادی کی مسہری پر
پھینک دئے گئے ہیں
اور اُس کے لبوں کو
اُسے داخلی راستہ دکھانے والی
بلّی کی آنتوں سے سی دیا گیا ہے
!
سقراط اپنی موت سے لاپرواہ
زہر کا آخری گھونٹ بھرنے تک
ایتھنز کے نوجوانوں کو
مسلسل گمراہ کررہا ہے
قصر سیاہ کی جانب آنے والے
سبھی راستے
ساحروں کی نگاہ میں ہیں
شہزادی کی خوابیدگی
ایک ابدی خواب میں بدل رہی ہے
لیکن سقراط کا چہیتا افلاطون
سقراط سے دُور
افراسیاب کے حضور
غلاموں کی طرح دست بستہ کھڑا
اس بات سے نا آشنا
کہ کسی بے ربط نظم کے بندوں
یا خواب و تعبیر کے مابین
موجود خلا کو
یومِ حساب کی معدوم آہٹیں ہی بھر سکتی ہیں
سقراط کے خیالوں میں گُم
کسی مثالی ریاست کا
خواب دیکھ رہا ہے
!
!!!!!!!!!!!
جمیل الرحمن