جدید مرثیہ اور مزاحمتی رویّے
جدید مرثیہ اور مزاحمتی رویّے
Jan 14, 2019
دیدبان شمارہ ۔ ۹
جدید مرثیہ اور مزاحمتی رویّے
عادل فراز
9936066598
بہترین ادب مزاحمت اور احتجاج کی کوکھ سے جنم لیتاہے ۔آج بھی عالمی ادب میں انہی فن پاروں کو آفاقی اہمیت حاصل ہے جو مزاحمت،بغاوت اور احتجاجی رویوں کی دین ہے۔اس ادب کی عمر بہت کم ہوتی ہے یا اسکا دائرہ بہت وسیع نہیں ہوتا جس ادب میں مزاحمت کی قوت نہیں ہوتی ۔کیونکہ ادیب فطری طور پر اپنی تخلیقی کائنات میں مزاحتمی و باغیانہ مزاج کا متحمل ہوتاہے ۔یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ خارجی عوامل کے تحت باغیانہ روش اختیار کرے بلکہ اسکے داخلی عوامل بھی احتجاج و بغاوت پر ابھارنے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔لہذا یہ کہنا کہ مزاحمت ،بغاوت اور احتجاج کے رویے خارجی عوامل کی بنیاد پر معرض وجود میں آتے ہیں ،درست نہیں ہے بلکہ انسان کی ذات اور اسکے داخلی عوامل بھی اس کے لئے ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔
جبر اور ظلم کے خلاف جد و جہد انسانی فطرت ہے ۔انسان ہی نہیں بلکہ ہر ذی روح اپنی ذات اور دوسروں پر ہورہے ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کرتاہے ۔ا س اختصاص کے ساتھ کہ جانور فقط خود پر ہورہے جبرو تعدی کے خلاف ہی مقاومت کرتے ہیں اور انسان سماج و معاشرہ میں ہورہے ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا شعور رکھتاہے ۔زمین پر رینگنے والا معمولی کیڑا بھی اپنی جان کو خطرہ میں پاکر اپنی تمام تر توانائی کو بروئے کار لاکر اپنی جان کی حفاظت کی کوشش کرتاہے ۔یعنی ظلم کے خلاف جدو جہد کرنا بقا کی جد و جہد ہے ۔دنیا کا ہر قانون خواہ اسکا تعلق مذہب سے ہو یا سماج سے اسکی اجازت دیتاہے ۔دنیا کا کوئی قانون انسانی جبلت کی نفی کرکے کبھی دوام نہیں پاسکتا ۔خاص کر وہ قانون جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے بنا ہو اس قانون میں اسکی گنجائش کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ انسانی جبلت اور فطرت کے خلاف نہ ہو ۔کیونکہ جو قانون انسانی جبلت کے موافق نہیں ہوتاہے اسکے خلاف بغاوت کی آوازیں ابھرنےلگتی ہیں اور پھر ایک دن اس قانون کو نذرآتش کردیا جاتاہے ۔
نسان کی فطرت میں مزاحمتی قدریں ازلی صورت میں موجود ہوتی ہیں بشرطیکہ انسان اس طاقت کو محسوس کرے اور بروئے کار لائے ۔بسا اوقات ایسا ہوتاہے کہ انسان اپنے اندر چھپی مزاحمتی صلاحیتوں کو محسوس نہیں کرتاہے اور اسکی قوت برداشت ایک حد کے بعد اسے بزدل بنادیتی ہے ۔یہ مزاحمتی رویے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ان رویوں میں یکسانیت نہ سہی مگر مماثلت ضرور ہوتی ہے ۔کیونکہ جانور دولت عقل سے محروم ہوتے ہیں اس لئے اسکی مزاحمت فقط خود کو تحفظ فراہم کرنے اور اپنے لئے اچھی غذا کے حصول تک سمٹ جاتی ہے ۔انسان جو عقل و شعور کا منبع ہے اسکی قوت مزاحمت اپنی ذات کے ساتھ ساتھ سماج و معاشرہ سے بھی وابستہ ہوتی ہے ۔اگر یہ قوت مزاحمت سماج و معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں صرف نہ ہو تو انسان کا ضمیر غلامی پسند ہوجاتاہے ۔
مزاحمت کی تعریف :
مزاحمت عربی نژاد لفظ ہے جو ’’زحمۃ‘‘ سے مشتق ہے ۔فرہنگ عامرہ اور لغات کشوری میں اس لفظ کے معنی ’’ کسی پہ تنگی کرنا ‘‘ کےبیان کئے گئے ہیں(فرہنگ عامرہ ص ۵۷۲ ،لغات کشوری ص ۴۵۷ )۔فرہنگ آصفیہ میں اس لفظ کے کئ معنی نقل کئے گئے جو تقریبا مترادف معنوں میں استعمال ہوتے ہیں،روک،تعرض،اٹکائو،ممانعت اور روک ٹوک ۔(فرہنگ آصفیہ جلد ۴ ص ۳۳۹)
لغوی اعتبار سے مزاحمت کے معنی میں محدودیت ہے اور جو معنوی جہتیں اور مفہومی وسعتیں اس لفظ میں پوشیدہ ہیں وہ لغوی معنی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ہر لفظ اپنا ایک شاندار سیاق اور خوش آئند سباق رکھتاہے جس کی افہام و تفہیم کے بغیر اس لفظ کی معنوی و مفہومی کیفیت اور لذت کو سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔مزاحمت بھی ایک ایسا ہی لفظ ہے جسکے لغوی معنی اسکی گہرائی اور معنوی جہتوں کو پوری طرح آشکار نہیں کرسکتے۔اس لفظ کو کسی ایک معنوی صورتحال میں محدود نہیں کیا جاسکتا ۔اصطلاحی تعریف بھی اس لفظ کی مکمل تاثیر کو پیش نہیں کرپاتی ہے ۔’’کسی ناموافق صورتحال ،عمل یا حرکت کو ناکارہ بنانے کو مزاحمت کا نام دیا گیا ہے‘‘۔مزاحمت کی تعریف بیان کرنے والا ہر شخص اپنے اعتبار اور سمجھ کے مطابق اسکی تعریف پیش کرے گا ۔یعنی مزاحمت کا مفہوم عام ہے مگر اسکی ایک سے زائد تعریفیں کی جاسکتی ہیں ۔
مزاحمت اور احتجاج میں فرق :
مزاحمت معنوی لحاظ سے احتجاج کے مفہوم سے قریب تر ہے ۔مگر دونوں الفاظ کی معنوی کیفیت مختلف ہے ۔احتجاج کسی لائحۂ عمل کے تحت،منظم ،اجتماعی اور شعوری طورپر وجود میں آتاہے مگر مزاحمت بغیر کسی لائحۂ عمل کے غیر منظم ،انفرادی ولاشعوری طورپر ایک رحجان کی شکل میں ظہورپزیر ہوتی ہے ۔احتجاج کی آواز بہت واضح اور بلند ہوتی ہے مگر مزاحمت کی لَے مخفی اور غیر محسوس انداز میں جنم لیتی ہے ۔
ڈاکٹر ابرار احمد مزاحمتی عمل کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ادب تخلیق کرنا-بذات خود ایک مزاحمتی عمل ہےکیونکہ ادیب اپنے گردوپیش سے Conform نہیں کرپاتااور اس کشمکش کی بنیاد پر وہ ادب تخلیق کرتاہے ایک طرح سے تو سارا ادب مزاحمتی ہے اور ہر ادیب باغی۔۔۔‘‘ (مزاحمتی ادب اردو ص۴۸ مرتبہ ڈاکٹر رشید امجد،مطبوعہ اکادمی ادبیات پاکستان)
مزاحمتی ادب کا سرچشمہ:
بظاہر یونانی سرزمین کو مزاحمتی ادب کی تخلیق کی سرزمین تصورکیا جاتاہے ۔یونان کی تہذیب کے اثرات براہ راست انسانی سماج پر مرتب ہوئے ہیں اور جس طرح یونانی تہذیب نے سماج کو متاثر کیا اسی طرح یونانی ادب نے بھی عالمی ادب پر گہرے نقوش مرتب کئے ،ہومر وہ پہلا شاعر ہے جسکی نظموں ’’ایلیڈ ‘‘ اور ’’اوڈیسی ‘‘نے مزاحمتی و مقاومتی ادب کی بنیاد رکھی ۔ایلیڈ ایک ایسی نظم ہے جس میں جنگ کی وحشت ناکیوں اور مفتوحہ ریاست ٹرائے کی تباہی وبربادی کا قصہ بیان کیا گیاہے ۔یہی قصہ مستقبل میں شاعری اورڈرامہ نگاری میں المیہ نگاری کی روح قرار پایا ۔دنیا کے چار عظیم المیہ نگاروں میں تین یونان کی سرزمین سے اٹھے ہیں جن میں اسکائی لس،سوفوکلیز اور یوری پیڈیز یونانی ہیں ااور چوتھا شکسپیر ہے ۔چونکہ یونان میں جمہوری نظام قائم تھا لہذا وہاںمزاحمت اور مقاومت کی راہیں کھلی رہیں اور فنون لطیفہ نے بھی خوب عروج پایا ۔
ہندوستان میں مزاحمتی ادب کے رجحانات :
یوں تو مزاحمت انسانی فطرت کا خاصہ ہے ۔لیکن بظاہر جب تک منظم یا غیر منظم طورپر انسان کسی نظام یا صورتحال کے خلاف کھڑا نہیں ہوتاہے ،یہ فطری عمل بھی بہت سی فطری خصوصیات کی طرح انسان پر آشکار نہیں ہوتا۔اس کے ادراک کے لئے انسان کا حساس اور بیدار مغز ہونا ضروری ہے تاکہ وہ بروقت اسکے تقاضوں کو سمجھ سکے اور اسکے اظہار میں مانع نہ ہو۔جو بروقت اس فطری عمل کے اظہار کی راہ کو ہموار کرتاہے وہ انسان وقت کے دھارے اور سماجی صورتحال کو بدلنے کی طاقت رکھتاہے۔ہمارے یہاں ایسے افراد نایاب ہیں مگر کمیاب نہیں ہیں۔ہمارا ادب ایسے افراد کےحوصلوں اور جذبوں سے آج بھی قوت نمو حاصل کررہاہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا۔
ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے بعد انگریزی نظام کی آمریت اور انکے استبداد کے خلاف نئ مزاحمتی قوت سامنے آتی ہے ۔جبر اور قہر و غلبہ کی بنیاد پر حاصل کی گئی حکومت کے خلاف مزاحمت کو ہر بار نیا روپ ادب نے ہی بخشا ۔مغربی معاشرہ ایک متحرک اور جدید طرز فکر کا حامل معاشرہ تھا ۔ایسا نظام زندگی جو کبھی ہندوستانی عوام نے تصور بھی نہیں کیا تھا ۔اس نظام کے غلبہ کے بعد جامد ہندوستانی سماج میں تحرک نظر آیا ۔چونکہ یہ نظام ہندوستانیوں کےلئے غلامی کا عذاب لیکر آیا تھا لہذا اسکی بعض خوبیوں پر بھی اسکی آمریت اور ظلم پسندی غالب آگئی ۔آہستہ آہستہ اس نظام کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں ۔حقیقت حال یہ ہے کہ ادب میں مزاحمتی و احتجاجی رویوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے کہ جتنا ادب پرانا ہے مگر اس مزاحمت کو تحریک کی شکل ترقی پسند تحریک نے دی ۔اگر ترقی پسند تحریک کا وجود نہ ہوتا تب بھی یہ لاوا کسی نا کسی شکل میں پھوٹ کر ضرور نکلتا مگر ترقی پسند تحریک نے ان مزاحمتی لہجوں کو منظم کیا اور ایک دستور بھی دیا جسکی بنیاد پر ادب تخلیق ہونے لگا ۔اس دستور نے ادب کی روح کو کتنا نقصان پہونچایا یہ الگ بحث ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس تحریک نے انقلاب و مزاحمت کی نئ معنویتوں کو جنم دیا ۔
ادب برائے زندگی کی تحریک نے اولاَ شاعری میں احتجاج اور مزاحمت کی آوازوں کو برتنے کا حوصلہ دیا تو ترقی پسند تحریک نے اس حوصلہ کو مہمیز کرتے ہوئے میدان عمل میں کود پڑنے کی دعوت دی ۔مگر یہ نعرہ ترقی پسندوں کے یہاں باالکل دوسرے معنوں میں استعمال ہوا ۔ادب برائے زندگی کو فقط سیاسی نعرہ بازی اور اپنے حریف کو کوسنا سمجھا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ اختر حسین رائے پوری نے شاعری کی دوسری اصناف کے ساتھ مرثیہ پر اعتراض وارد کیا ۔وہ لکھتے ہیں ’’ ۔۔۔۱۸۵۷ کا سانحہ تو ہندوستانی سماج کی بربادی کا پیش خیمہ تھا ۔کتنے شاعروں نے ان خونچکا واقعات کو نظم کیا ۔کتنے نوحے لکھے گئے ؟کہاں تھے وہ رجز گو مرثیہ خوان جنکی جادو بیانی سے محرم کی ہر محفل ماتم کدہ بن جاتی تھی ۔کسی شاعر نے پلاسی کی لڑائی پر ایک نوحہ نہ لکھا ۔واقعہ ۱۸۵۷ پر داغ ؔکا شہر آشوب اور غالبؔ کے خطوط پڑھیے اور سرپیٹ لیجیے کہ جب پوری قوم کی قسمت کا فیصلہ ہورہا تھا یہ حضرات اپنی روٹیوںکے سوا کچھ نہ سوچتے تھے تو ایسے بزدلانہ اور رجعت پرورانہ طریقوں سے جو زندگی اور شاعری کے لئے باعث ننگ ہیں۔اس ادب کی مثال امربیل سے دی جاسکتی ہے جو اسی درخت کو فنا کرتی ہے جس پر پرورش پاتی ہے ۔(مضمون قدیم ادب ہند کا معاشی تجزیہ مشمولہ ادب اور انقلاب ص ۵۱،۵۲)
اختر حسین رائے پوری کا اعتراض بجا ہے کہ جس وقت سماج تباہی و شکست و ریخت کے مرحلے سے گزررہا تھا ہمارے ادیب اپنی روٹیوں کی فکر میں مرے جارہے تھے مگر انکا اعتراض مرثیہ پر بے معنی اور تعصب کی حد میں نظر آتاہے ۔یہ مسئلہ صرف اختر حسین رائے پوری کا نہیں بلکہ پورے ترقی پسند ادب کا ہے ۔انکے نزدیک وہی ادب حقیقی معنوں میں ادب کہے جانے کے لائق ہے جو براہ راست نعرہ بازی ،چیخ و پکار اور زندہ باد و مردہ باد کا آئینہ بردار ہو ۔اختر حسین رائے پوری نے یا تو با ضابطہ مرثیوں کا مطالعہ نہیں کیا یا پھر عمداَ مرثیوں کی ادبی حیثیت اور مزاحمتی و انقلابی کیفیت کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے ۔انیس کے عہد میں جو مرثیہ لکھا گیا اس میں ۱۸۵۷ کے ظلم و جبر کی داستان بھی ہے اور تہذیبی و ثقافتی انحطاط و ہندوستانی سماج کی شکست و ریخت کا نوحہ بھی ہے ۔مگر یہ تمام مسائل براہ راست واقعہ نگاری کے طورپر بیان نہیں ہوئے بلکہ واقعہ کربلا کے سیاق و سباق کو ہندوستانی تہذیب و تمدن کے تناظر میں اس طرح پیش کیا گیا کہ تمام کردار عربی ہوتے ہوئے بھی ہندوستانی معلوم ہوتے ہیں۔اب یہاں دوسرا مسئلہ پیدا ہوتاہے کہ اگر مرثیہ نگار واقعہ کربلا کو عصری حسیت کے ساتھ پیش کرے تو اس پر ناقدین یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ مرثیہ کے کردار نہ پورے طورپر عربی ہیں اور نہ ہندوستانی ۔یہ مرثیہ کا بڑا سقم تسلیم کیا گیاہے ۔
اختر حسین رائے پوری اور ایسے ہی دیگر ناقدین کے اعتراضات کو یوں بھی جائز نہیں ٹہرایا جاسکتا کیونکہ تمام اصناف سخن کے ساتھ مرثیہ بھی عہد انیس تک اپنی ارتقائ منزلیں طے کررہا تھا ۔جس طرح ولی ؔ،میرو سودا و غالب سے پہلے غزل کی کوئی ادبی حیثیت نہیں تھی اسی طرح مرثیہ بھی میر ضمیرؔ اور میر انیسؔ کے عہد سے قبل تک وہ آفاقیت حاصل نہیں کرسکا تھا جوآگے چل کر اسکے نصیب میں آئی ۔جس طرح دیگر اصناف سخن نے بتدریج ارتقا ء کی منزلیں طے کیں اور مختلف موضوعاتی،ہئیتی اور اسلوبیاتی تبدیلیا ں رونما ہوئیں اسی طرح مرثیہ میں موضوعاتی و ہئیتی سطح پر مختلف تجربات سامنے آئے ۔اس لئے یہ کہنا کہ مرثیہ فقط مذہبی شاعری تک محدود رہا اور واقعہ ٔ کربلا کو نظم کرنے کےعلاوہ مرثیہ نگاروں نے کوئی اہم اقدام نہیں کیا سراسر ناانصافی ہے ۔اردو کی تمام تر اصناف سخن میں مرثیہ واحد ایسی صنف سخن ہے جو پوری طرح ظلم اور جبر کے خلاف مکمل اعلان جنگ ہے ۔میر انیسؔ واجد علی شاہ کی جلاوطنی اور ۱۸۵۷ ء میں اودھ کی بربادی و انتزاع سلطنت کی منظر کشی اس طرح کرتے ہیں کہ یہ سیاسی و معاشرتی زوال کا نوحہ امام حسینؑ کی مدینہ سے رخصتی کے مرثیہ میں اس طرح ضم ہوجاتاہے کہ واجد علی شاہ کی مظلومیت اور اودھ کی تباہی بربادی پر آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں اور ظالم و جابر فرمانرائوں کے چہرے بے نقاب معلوم ہوتے ہیں۔یہ بیان سامعین کے دلوں میں ظلم کے تئیں نفرت اور ظالموں کے خلاف مظلوموں کی حمایت میں مزاحمت کا جذبہ بیدارکرتاہے ۔ملاحظہ ہو؎
خلقت کا ہے مجمع در دولت پہ سحر سے جو آتاہے روتاہوا آتاہے وہ گھر سے
سب کہتے ہیں برساکے لہو دیدۂ ترسے چھپ جائے گا اب فاطمہ کا چاند نظر سے
اندھیر ہے گر یہ شہ والا نہ رہے گا
اب شہر کی گلیوں میں اجالا نہ رہے گا
وہ کہتا تھا کوفہ میں عجب غدر ہے مولا ہر سمت ہیں قصے ،تو فساد اٹھتے ہیں ہر جا
دور انکاہے کچھ جنکو مروت نہیں اصلا ہوتے ہیں ستم کوئ کسی کی نہیں سنتا
ٹوٹا ہے فلک ظلم کا شیعوں کے سروں پر
جب دیکھیے دوڑیں چلے آتے ہیں گھروں پر
اشراف ہیں جتنے وہ نکلتے نہیں گھر سے دروازے نہیں کھولتے لٹ جانے کے ڈر سے
ہوجاتی ہے جب شام تردد میں سحر سے سب کرتے ہیں سجدے کہ بلا ٹل گئی سر سے
یہ ظلم یہ بیداد نہیں اور کسی پر
مولایہ تباہی ہے محبان علی پر
آفت یہ محلوں پہ بپا بند ہیں بازار
کوچے بھی اجڑ جانے سے بے ربط ہوئے ہیں جو بھاگے تھے ان سب کے مکاں ضبط ہوئے ہیں
حاکم شہر کے تکبرانہ مزاج اور آمریت کو بیان کرنے کا انداز ملاحظہ کریں :
پھرتے ہیں مکانون کے مکیں مضطر و ناشاد حاکم ہے وہ مغرور کہ سنتا نہیں فریاد
شہر کے حالات کی مزید تصویر کشی ملاحظہ ہو ۔
کچھ خوف سے مخفی ہیں گرفتار ہیں کچھ لوگ بگڑے ہوئے آمادہ ٔپیکار ہیں کچھ لوگ
میرانیسؔ کے علاوہ میرزا دبیرؔ،میرزااوجؔ،دولہا صاحب عروجؔ،میر مونس،انسؔ،جوش ؔ،مہدی نظمی،وحید اختر،جمیل مظہری اور دیگر مرثیہ نگاروں کے یہاں ایسے بند کثرت کے ساتھ موجود ہیں جن میں عصری حسیت اور مسائل کو موضوع گفتگو بنایا گیاہے ۔لہذا اخترحسین رائے پوری اور دیگر ناقدین کے بے وجہ اعتراضات کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی ۔اختر حسین رائے پوری کی رائے سے قطع نظر اگر ترقی پسند شاعری کا عبوری جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ مزاحمتی و بغاوتی شاعری کا بیشتر حصہ واقعہ کربلا سے مستعار ہے اور فیضؔ سے لیکر ن م راشدؔ تک اکثر شعراکی نظموں کا اسلوب مرثیہ کی اسلوبیاتی فضاسے ہم آہنگ معلوم ہوتاہے ۔
انیس کا مرثیہ فقط لکھنؤ کے سیاسی زوال کی داستان نہیں ہے بلکہ پورے اودھ اور پورے ہندوستان کے سیاسی بحران اور ظلم و استبداد کی کہانی ہے ۔انتظار حسین لکھتے ہیں’’انیس کے مرثیوں کو لکھنؤ کی تہذیبی و سیاسی صورتحال سے منقطع نہیں سمجھا جاسکتا۔ان مرثیوں میں لکھنؤ کی تہذیب کی تصویریں تو نقادوں کو باالعموم نظر آتی ہیںلیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی ہے کہ ایک مخصوص عہد کی سیاسی صورتحال بھی ان مرثیوں میں جا بجانظر آتی ہے ‘‘۔(انیس کے مرثیہ میں شہر ،مشمولہ انیس شناسی مرتبہ گوپی چند نارنگ ص ۱۵۸)لہذا انیس کا مرثیہ فقط لکھنوی تہذیب کے زوال اور سیاسی بحران کی تاریخ نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص عہد کے سیاسی بحران کی کہانی بیان کرتاہے ۔
انیس کے بعد مرثیہ نگاروں کی جو نئ کھیپ سامنے آتی ہے ان کی اکثریت اپنے عہد کے مسائل ،تہذیبی تنزلی اور سیاسی بحران کا احاطہ کرتے ہیں۔دولہا صاحب عروج ،نسیم امروہوی راجہ صاحب محمودآباد،جوش ملیح آبادی ،جمیل مظہری ،مہدی نظمی ،وحیداختر،ہلال نقوی ،ڈاکٹر یاور عباس ،شاہد نقوی ،وغیرہ ایسے مرثیہ نگار ہیں جنکی شاعری درحقیقت اپنے عہد کا آئینہ ہے ۔اگر انکے مرثیوں کو فقط واقعہ کربلا کے تناظر میں دیکھا جائے تو انصاف نہ ہوگا اور یہی ہوتا آیاہے کہ مرثیہ کی شاعری کو مذہبی شاعری یا واقعہ کربلاکا بیانیہ کہکر نظرانداز کیا گیا مگر مرثیہ فقط واقعہ کربلا کا بیان نہیں ہے ۔مرثیہ اپنے عہد کے نشیب و فراز کا بیان ہے ۔
۱۹۳۵ کے بعد جو مرثیہ لکھا گیا وہ مزاحمتی ادب میں ایک اضافہ کی حیثیت رکھتاہے مگر افسوس کہ مرثیہ کو مذہبی عینک لگاکر دیکھا گیا اور اسکے اثرات،جہات، دائرہ کار اور موضوعاتی و اسلوبیاتی تنوع کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی ۔جمیل مظہریؔ،راجہ صاحب محمودآباد،جوشؔ،نسیم امروہوی ارو ہلال نقوی جیسے مرثیہ نگاروں کے کلام کا باالاستیعاب مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مرثیہ کو دیگر اصناف کے ساتھ موازنہ کرکے پرکھا جاسکے اور اسکی ادبی حیثیت اور اہمیت کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔اگر کلیم الدین احمد جیسے متعصب ناقدین کی عینک سے مرثیہ کو پرکھنے کی کوشش کی جائے گی تو مرثیہ فقط ایک تاریخی اور مذہبی واقعہ کے بیانیہ کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا ۔لہذا مرثیہ کو فقط زبان و ادب کا قیمتی سرمایہ سمجھ کر پڑھا جائے اور اسکی حیثیت کو متعین کیا جائے ۔۱۹۳۵ ء کے بعد ادب کی تمام اصناف سخن نے جن مسائل اور موضوعات کا احاطہ کیاہے مرثیہ بھی ان اصناف سخن سے کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں رہا ۔ترقی پسند تحریک سے لیکر جدیدیت تک مرثیہ ہر ادبی و سماجی و سیاسی صورتحال کا عکاس رہاہے ۔جوش اور وحید اختر جیسے شعراقی پسند تحریک کے منثور کے ساتھ مرثیہ میں تجربے کررہے تھے تو جدیدیت کے دور کے مرثیہ نگار وں نے ترقی پسند تحریک کے منثور سے بغاوت کا اعلان بھی کیاہے ۔نسیم امروہوی ترقی پسند تحریک کے عہد میں مرثیہ لکھ رہے تھے تو انکا انداز اور فکری پس منظر باالکل جدا تھا ۔’’شہید معرکۂ جہد و ارتقا ء ہے حسین ‘‘ اس دعویٰ کی بہترین دلیل ہے ۔
حسین پیکر انسانیت کی جاں تو ہے زمین صبرو تحمل کا آسماں تو ہے
نہ صرف دین محمد کی عزو شاں توہے رہ حیات میں سالا کارواں تو ہے
جہاںکو خواب فنا سے جگایا تونے
بقا کے واسطے مرنا سکھادیا تونے
زہے یہ جذبہ ٔ ہمت یہ ذوق بیداری نہ ہونے دی بشریت کی ذلت و خواری
چلا جو رن کو سجا کر سلاح خودداری سپاہ ظلم کی تیغوں کو کردیا عاری
جتادیا کہ اجل حریت کا زیور ہے
دکھادیا کہ غلامی سے موت بہتر ہے
بقا کو ظلم کے طوفاں میں تو فنا سمجھا فنا کو جادہ انصاف میں بقا سمجھا
دوسرا مرثیہ ’’اے انقلاب مژدہ عزم و عمل ہے تو‘‘ بھی سماجی و سیاسی جبرو تشدد کے خلاف ایک منظم تحریک کے تحت لکھا گیاہے۔
ناگاہ ظلم و جور کا امڈا جو اک سحاب پیدا ہوا فضائے شریعت میں انقلاب
آئ ندائے غیب کہ اے جان بوتراب اب وقت آگیاہے کہ باطل ہو بے نقاب
سردے کے کفروشرک کی گردن مروڑ دے
اٹھ اور اٹھ کے ظلم کا پنجہ مروڑ دے
مرثیہ ’’ بادہ ٔ شوق سے لبریز ہے پیمانۂ دل‘‘میں بھی یہ انداز بہت واضح نظر آتاہے۔
مجھکو یہ فکر ریاضت کا ثمر کیا ہوگا دل کا یہ ذکر تغافل سے مگر کیا ہوگا
میں ہوں بسمل کہ بایں بندش پر کیا ہوگا دل ہے قائل کہ بجز فتح و ظفر کیا ہوگا
میرا کہنا یہی زنداں ہے تو جی چھوٹے گا
دل کا ایماء کہ تڑپ جب تو قفس ٹوٹے گا
تقسیم ہند کے بعد پاکستان وجود میں آیا ۔۱۹۶۵ ء میں دونوں ملکوں کے درمیان خوں آشام جنگ ہوئی ۔اس جنگ نے دونوں ملکوں کے ادبیوں کو ذہنی و تخلیقی سطح پر متاثر کیا ۔نسیم امروہوی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔انہوں نے اس جنگ کے پس منظر میں مکمل مرثیہ تخلیق کیا ۔مگر وہ اس مرثیہ مزاحمتی افکار کو عصبیت اور مذہبی منافرت سے محفوظ نہیں رہ سکے ۔
جوشؔ کی شاعری میں مزاحمت و بغاوت کا موجزن دریا موجود ہے مگر انکے مرثیوں کی لفاظی نے مرثیہ کے تاثر کو بڑھانے کے بجائے کم کیاہےبقول’ایلیٹ’انسان کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہ ہو تو الفاظ بیکار ہوتے ہیں‘‘ مگر جوش کے پاس بسا اوقات کہنے کے لئےکچھ نہیں ہوتاہے مگر وہ پھر بھی بے تحاشہ الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔جوش کی شاعری میں ترقی پسند شعراء کی طرح نعرے بازی ہے ۔انکا لہجہ خطیبانہ اور حد سے زیادہ لائوڈ ہے ۔اس کے باوجود انکا مرثیہ مزاحمتی لَے سے شروع ہوکر احتجاج کے آوازہ پر ختم ہوتاہے ۔جوش کا مزاحمتی لہجہ بھی احتجاج کی نعرہ زنی معلوم پڑتاہے ۔مگر کہیں کہیں وہ پوری توانائی کے ساتھ مزاحمتی رویہ اختیار کرتے ہیں تو انکا لہجہ اور رنگ دوسرے شعرا سے یکسر الگ اور ممتاز نظرآتاہے ۔’’حسین اور انقلاب‘‘ میں ان کا انداز معاصر شعرا سے باالکل جدا اور نیا ہے ۔
عالم میں ہوچکاہے مسلسل یہ تجربا قوت ہی زندگی کی رہی ہے گرہ کشا
سر ضعف کا ہمیشہ رہاہے جھکا ہوا ناطاقتی کی موت ہے طاقت کا سامنا
طاقت سی شے مگر خجل و بدنصیب تھی
ناطاقتی حسینؑ کی کتنی عجیب تھی
پانی سے تین روزہوئے جس کے لب نہ تر تیغ و تبر کو سونپ دیا جس نے گھر کا گھر
جو مرگیا ضمیر کی عزت کے نام پر ذلّت کے آستاں پہ جھکایا مگر نہ سر
لی جس نے سانس رشتۂ شاہی کو توڑ کر
جس نے کلائی موت کی رکھدی مروڑ کر (حسین اور انقلاب)
آغا سکندر مہدی مرثیہ نگاری کے میدان کے اہم شہسواروں میں شامل ہیں ۔ان کامرثیہ اپنے وقت کی صورتحال اور سیاسی و سماجی منظرنامے کو پیش کرنے میں کامیاب ہے۔اپنےایک مرثیہ میں وہ قیادت کی ناعاقبت اندیشیوں اور سیاست میں بصیرت کے فقدان پر رقمطراز ہیں ؎
بزم جہاں میں آج عجب خلفشار ہے ہر فرد پر جنون قیادت سوارہے
بادخزاںمیں دامن گل تارتار ہے پابندیٔ اصول مگر ناگوار ہے
عالم میں خودنمائی ہر ایک سرکا تاج ہے
بوجہل حکمراں ہے ،جہالت کا راج ہے
شہرت کی آرزو کہیں دولت کی جستجو کاسہ گدائی کا لئے پھرتاہے کوبکو
ہر اک سے کررہاہے لجاجت سے گفتگو سیلاب آرزو میں ہوئی غرق آبرو
بنیاد قصر زیست جو غیروں کا مال ہے
پھیلا ہر اک کے سامنےدست سوال ہے
دولت کے ہیر پھیر سے خیرہ ہوئی نگاہ زعم انا نے کردیا انسان کو تباہ
پھیلی ہے دشت و بحر میں ابلیس کی سپاہ انسان کا کوئی نہیں دنیا میں خیرخواہ
لاشیں پڑی ہیں خنجر قاتل کے سامنے
انسان سرجھکائے ہے باطل کے سامنے
مرزااوجؔ لکھنوی اپنے عہد کے بہترین مرثیہ گو اور معروف ناقد تھے ۔جوشؔ سے پہلے جدید مرثیہ کا اصلی رنگ مرزا اوج ؔکے یہاں نظر آتاہے مگر اوجؔ کا ہجویانہ مزاج اور غیر اعتدال پسندانہ تنقید نے مرثیہ کی فضا کو نقصان پہونچایا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ جن موضوعات کو اوجؔ برت چکے تھے انہی موضوعات کو جب جوشؔ نے اعتدال اور سلیقے سے برتا تو وہ جدید مرثیہ کے معمار کہلائے ۔اوجؔ ان ذاکرین کے خلاف میدان شاعری میں محاذ آرا تھے جو لکھنؤ کے زوال پزیر معاشرہ میں عوام کو غوروفکر کی دعوت کے بغیر فقط عزاداری امام حسینؑ کو رونے رلانے اور فرش عزا کے بچھانے کو نجات کا واحد ذریعہ سمجھتے تھے ۔ایسے ذاکرین جنہیں سماج و معاشرہ کی ہرلمحہ بدلتی ہوئی صورتحال اورتنزلی کے اسباب کے ادارک کی صلاحیت نہیں تھی ۔وہ مذہب اور مذہبی علوم کو اپنی بے بصیرتی اور غیر منطقانہ افکار کی پردہ پوشی کا ذریعہ بنائے ہوئے تھے ،ایسے مولویوں اور ذاکریں کے خلاف مرزا اوجؔ نے مزاحمتی لہجہ اختیار کیا مگر ان لہجہ بہت باغیانہ اور لائوڈ ہوگیا جس کے باعث انکی اہم اورمفکرانہ باتیں بھی بے مطلب قراردیدی گئیں۔اوجؔ نے ایسے مذہبی افراد کے خلاف بھی خوب لکھا جو عربی اور فارسی کے مقابلے میں اردو کو بہت حقیر یا باالکل بے قیمت زبان تصور کرتے تھے ۔بقول عاشور کاظمی’’ان کے مخالفین کا استدلال یہ تھا کہ دین کی کتاب اول،قرآن حکیم عربی میں ہے ،نہج البلاغہ عربی میں ہے ۔ساری مستند کتابیں عربی میں ہیںتو علوم دین اردو میں کیسے حاصل کئے جائیں۔پھر اس نبیؐ کی امت جس نے کہا علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے،اردو زبان پر کیوں اکتفا کرے۔کیا قرآن حکیم کے اردو ترجمے اور نہج البلاغہ کے اردو ترجمے کو اساس علم بنایا جاسکتاہے؟‘‘۔(مرثیہ نظم کی اصناف میںص۴۶)اوجؔ ایسے مذہبی افراد کو بے مایہ اور انکے استدلال کو بے بنیاد اور کم وقعت شمار کرتے تھے ۔کہتے ہیں:
ہے جاہلوں کا تو کیا ذکر علم کے طلباء کہ پڑھنے لکھنے کا رہتاہے جن کو شغل سدا
ہے جن سے مسجدوں کی زیب و زین نام خدا ہے خانقاہ و مدارس کے دل میں جن کی جا
نہ جانے کیسی وہاں تربیت یہ پاتے ہیں
سند وفور جہالت کی لے کے آتے ہیں
غرض تو یہ فضلیت سے بہرہ ور ہوتے کچھ اپنے دین و شریعت سے بہرہ ور ہوتے
فنون طبع و طباعت سے بہرہ ور ہوتے ادب سے،خُلق سے،حکمت سے بہرہ ور ہوتے
مراحم اور مظالم کو یہ سمجھ لیتے
محاسن اور مکارم کو یہ سمجھ لیتے
نہ یہ کہ سیکھ کے آتے ہیں مردم آزاری سیاق خودغرضیٔ و سباق طرّاری
لحاظ ماں کا نہ کچھ باپ کی طرفداری ہے غم خواری کے عوض ذوق و شوق میخواری
تمام شہر میں یکتا ہیں گھر میں فاصل ہیں
قمار بازوں کے جرگے میں فرد کامل ہیں
پڑھو تم اپنی زباں میں کہ فن کی ہو تسہیل مترجموں کی ہو محنت ذریعہ تحصیل
تمہاری منزل مقصود کی یہی ہے سبیل ہر ایک قوم کے پہلے یہی ہوئے ہیں کفیل
زبان غیر کو پڑھ پڑھ کے وقت کھوتے ہو
یہ تم ترقیوں کے حق میں کانٹے بوتے ہو
مصطفیٰ زیدی کا انداز متقدمین متاخرین سے جداہے ۔وہ سماجی و معاشرتی ناگفتہ بہ صورتحال پر غوروفکر کرکے اسے بدلنے کے بجائے نصابوں میں پڑھائے جانے کے خلاف آواز بلندکرتے ہیں۔
وہ جرمنی کا آشوز،جاپان کا ہیروشیما ان کی بھیانک نزع کی آواز کو کس نے سنا
ان کے تو لاکھوں دوست تھے لیکن یہ خونیں سانحا ان کے لئےعلمی مباحث کے سوا کچھ بھی نہ تھا
اپنی ذہانت کے علاوہ سب سے پردہ پوش تھے
سب جیسپرؔسب ماکروؔ سب سارترؔ خاموش تھے
سارے جرائم سے بڑی ہے یہ مہذب خامشی اس کے تو آگے ہیچ ہے قاتل کی زہریلی ہنسی
اس علم کے ساغر میں شامل ہے ہلاکت علم کی اس سے زیادہ اور کیا سنگین ہوگی دوستی
تاریخ پوچھے گی کہ جب مہمان ویرانے میں تھے
کوفے کے سارے مرد کس گھر کے نہاں خانے میں تھے
اور یاد رکھنا اے مرے ہم عصر ارباب ذکاء ہم پر بھی گر طاری رہاعالم سنہرے خواب کا
کل ہم بھی ہونگے روبرو ہم سے بھی پوچھا جائےگا سننا پڑے گا ہم سبھی کو کربلا کا فیصلہ
قاتل تو شاید عفو کے قابل ہوں وہ مجبور تھے
ہم دوست ہوکر کیوں ضمیر ارتقاء سے دور تھے
(ہردور میں مظلومیت کی داستاں لکھی گئی از مصطفیٰ زیدی)
موجودہ عہد میں بھی بہترین مزاحمتی ادب تخلیق ہورہاہے مگر چونکہ مرثیہ زوال کا شکار ہے اس لئے مرثیہ میں وہ توانا مزاحمتی روایت نہیں ملتی جو اس کا خاصہ رہی ہے ۔آ ج جو مرثیہ نگار اس صنف میں طبع آزمائی کررہے ہیں وہ مرثیہ گوئی کی روایت کو زندہ ضرور رکھے ہوئے ہیں مگر وہ ادبی و تہذیبی و ثقافتی روایت جو مرثیہ کی فضا میں سانس لیتی تھی اب موجود نہیں ہے ۔اس وقت ہندوستان میں کئی اہم مرثیہ نگار موجود ہیں جو مزاحمت ،احتجاج اور بغاوت کی لَے اور تاثیرانیسؔ،عروجؔ، جمیل مظہری،جوشؔ اورہلال نقوی جیسے شعرا کےیہاں موجود ہے، انکے کلام ان خصوصیات سے باالکل عاری ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ آ ج کا مرثیہ اپنے اجزائے ترکیبی سے ہٹ کر فقط مسدس کے فارم میں لکھا جارہاہے ،اسکے باجود وہ ان خصائص سے مبرّاہے ،لہذا حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے موجودہ مرثیہ نگار اس صنف کی بقاء اور ترقی کے لئے کس لائحۂ عمل کے تحت کام کررہے ہیں۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
ختم شد
دیدبان شمارہ ۔ ۹
جدید مرثیہ اور مزاحمتی رویّے
عادل فراز
9936066598
بہترین ادب مزاحمت اور احتجاج کی کوکھ سے جنم لیتاہے ۔آج بھی عالمی ادب میں انہی فن پاروں کو آفاقی اہمیت حاصل ہے جو مزاحمت،بغاوت اور احتجاجی رویوں کی دین ہے۔اس ادب کی عمر بہت کم ہوتی ہے یا اسکا دائرہ بہت وسیع نہیں ہوتا جس ادب میں مزاحمت کی قوت نہیں ہوتی ۔کیونکہ ادیب فطری طور پر اپنی تخلیقی کائنات میں مزاحتمی و باغیانہ مزاج کا متحمل ہوتاہے ۔یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ خارجی عوامل کے تحت باغیانہ روش اختیار کرے بلکہ اسکے داخلی عوامل بھی احتجاج و بغاوت پر ابھارنے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔لہذا یہ کہنا کہ مزاحمت ،بغاوت اور احتجاج کے رویے خارجی عوامل کی بنیاد پر معرض وجود میں آتے ہیں ،درست نہیں ہے بلکہ انسان کی ذات اور اسکے داخلی عوامل بھی اس کے لئے ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔
جبر اور ظلم کے خلاف جد و جہد انسانی فطرت ہے ۔انسان ہی نہیں بلکہ ہر ذی روح اپنی ذات اور دوسروں پر ہورہے ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کرتاہے ۔ا س اختصاص کے ساتھ کہ جانور فقط خود پر ہورہے جبرو تعدی کے خلاف ہی مقاومت کرتے ہیں اور انسان سماج و معاشرہ میں ہورہے ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا شعور رکھتاہے ۔زمین پر رینگنے والا معمولی کیڑا بھی اپنی جان کو خطرہ میں پاکر اپنی تمام تر توانائی کو بروئے کار لاکر اپنی جان کی حفاظت کی کوشش کرتاہے ۔یعنی ظلم کے خلاف جدو جہد کرنا بقا کی جد و جہد ہے ۔دنیا کا ہر قانون خواہ اسکا تعلق مذہب سے ہو یا سماج سے اسکی اجازت دیتاہے ۔دنیا کا کوئی قانون انسانی جبلت کی نفی کرکے کبھی دوام نہیں پاسکتا ۔خاص کر وہ قانون جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے بنا ہو اس قانون میں اسکی گنجائش کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ انسانی جبلت اور فطرت کے خلاف نہ ہو ۔کیونکہ جو قانون انسانی جبلت کے موافق نہیں ہوتاہے اسکے خلاف بغاوت کی آوازیں ابھرنےلگتی ہیں اور پھر ایک دن اس قانون کو نذرآتش کردیا جاتاہے ۔
نسان کی فطرت میں مزاحمتی قدریں ازلی صورت میں موجود ہوتی ہیں بشرطیکہ انسان اس طاقت کو محسوس کرے اور بروئے کار لائے ۔بسا اوقات ایسا ہوتاہے کہ انسان اپنے اندر چھپی مزاحمتی صلاحیتوں کو محسوس نہیں کرتاہے اور اسکی قوت برداشت ایک حد کے بعد اسے بزدل بنادیتی ہے ۔یہ مزاحمتی رویے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ان رویوں میں یکسانیت نہ سہی مگر مماثلت ضرور ہوتی ہے ۔کیونکہ جانور دولت عقل سے محروم ہوتے ہیں اس لئے اسکی مزاحمت فقط خود کو تحفظ فراہم کرنے اور اپنے لئے اچھی غذا کے حصول تک سمٹ جاتی ہے ۔انسان جو عقل و شعور کا منبع ہے اسکی قوت مزاحمت اپنی ذات کے ساتھ ساتھ سماج و معاشرہ سے بھی وابستہ ہوتی ہے ۔اگر یہ قوت مزاحمت سماج و معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں صرف نہ ہو تو انسان کا ضمیر غلامی پسند ہوجاتاہے ۔
مزاحمت کی تعریف :
مزاحمت عربی نژاد لفظ ہے جو ’’زحمۃ‘‘ سے مشتق ہے ۔فرہنگ عامرہ اور لغات کشوری میں اس لفظ کے معنی ’’ کسی پہ تنگی کرنا ‘‘ کےبیان کئے گئے ہیں(فرہنگ عامرہ ص ۵۷۲ ،لغات کشوری ص ۴۵۷ )۔فرہنگ آصفیہ میں اس لفظ کے کئ معنی نقل کئے گئے جو تقریبا مترادف معنوں میں استعمال ہوتے ہیں،روک،تعرض،اٹکائو،ممانعت اور روک ٹوک ۔(فرہنگ آصفیہ جلد ۴ ص ۳۳۹)
لغوی اعتبار سے مزاحمت کے معنی میں محدودیت ہے اور جو معنوی جہتیں اور مفہومی وسعتیں اس لفظ میں پوشیدہ ہیں وہ لغوی معنی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ہر لفظ اپنا ایک شاندار سیاق اور خوش آئند سباق رکھتاہے جس کی افہام و تفہیم کے بغیر اس لفظ کی معنوی و مفہومی کیفیت اور لذت کو سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔مزاحمت بھی ایک ایسا ہی لفظ ہے جسکے لغوی معنی اسکی گہرائی اور معنوی جہتوں کو پوری طرح آشکار نہیں کرسکتے۔اس لفظ کو کسی ایک معنوی صورتحال میں محدود نہیں کیا جاسکتا ۔اصطلاحی تعریف بھی اس لفظ کی مکمل تاثیر کو پیش نہیں کرپاتی ہے ۔’’کسی ناموافق صورتحال ،عمل یا حرکت کو ناکارہ بنانے کو مزاحمت کا نام دیا گیا ہے‘‘۔مزاحمت کی تعریف بیان کرنے والا ہر شخص اپنے اعتبار اور سمجھ کے مطابق اسکی تعریف پیش کرے گا ۔یعنی مزاحمت کا مفہوم عام ہے مگر اسکی ایک سے زائد تعریفیں کی جاسکتی ہیں ۔
مزاحمت اور احتجاج میں فرق :
مزاحمت معنوی لحاظ سے احتجاج کے مفہوم سے قریب تر ہے ۔مگر دونوں الفاظ کی معنوی کیفیت مختلف ہے ۔احتجاج کسی لائحۂ عمل کے تحت،منظم ،اجتماعی اور شعوری طورپر وجود میں آتاہے مگر مزاحمت بغیر کسی لائحۂ عمل کے غیر منظم ،انفرادی ولاشعوری طورپر ایک رحجان کی شکل میں ظہورپزیر ہوتی ہے ۔احتجاج کی آواز بہت واضح اور بلند ہوتی ہے مگر مزاحمت کی لَے مخفی اور غیر محسوس انداز میں جنم لیتی ہے ۔
ڈاکٹر ابرار احمد مزاحمتی عمل کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ادب تخلیق کرنا-بذات خود ایک مزاحمتی عمل ہےکیونکہ ادیب اپنے گردوپیش سے Conform نہیں کرپاتااور اس کشمکش کی بنیاد پر وہ ادب تخلیق کرتاہے ایک طرح سے تو سارا ادب مزاحمتی ہے اور ہر ادیب باغی۔۔۔‘‘ (مزاحمتی ادب اردو ص۴۸ مرتبہ ڈاکٹر رشید امجد،مطبوعہ اکادمی ادبیات پاکستان)
مزاحمتی ادب کا سرچشمہ:
بظاہر یونانی سرزمین کو مزاحمتی ادب کی تخلیق کی سرزمین تصورکیا جاتاہے ۔یونان کی تہذیب کے اثرات براہ راست انسانی سماج پر مرتب ہوئے ہیں اور جس طرح یونانی تہذیب نے سماج کو متاثر کیا اسی طرح یونانی ادب نے بھی عالمی ادب پر گہرے نقوش مرتب کئے ،ہومر وہ پہلا شاعر ہے جسکی نظموں ’’ایلیڈ ‘‘ اور ’’اوڈیسی ‘‘نے مزاحمتی و مقاومتی ادب کی بنیاد رکھی ۔ایلیڈ ایک ایسی نظم ہے جس میں جنگ کی وحشت ناکیوں اور مفتوحہ ریاست ٹرائے کی تباہی وبربادی کا قصہ بیان کیا گیاہے ۔یہی قصہ مستقبل میں شاعری اورڈرامہ نگاری میں المیہ نگاری کی روح قرار پایا ۔دنیا کے چار عظیم المیہ نگاروں میں تین یونان کی سرزمین سے اٹھے ہیں جن میں اسکائی لس،سوفوکلیز اور یوری پیڈیز یونانی ہیں ااور چوتھا شکسپیر ہے ۔چونکہ یونان میں جمہوری نظام قائم تھا لہذا وہاںمزاحمت اور مقاومت کی راہیں کھلی رہیں اور فنون لطیفہ نے بھی خوب عروج پایا ۔
ہندوستان میں مزاحمتی ادب کے رجحانات :
یوں تو مزاحمت انسانی فطرت کا خاصہ ہے ۔لیکن بظاہر جب تک منظم یا غیر منظم طورپر انسان کسی نظام یا صورتحال کے خلاف کھڑا نہیں ہوتاہے ،یہ فطری عمل بھی بہت سی فطری خصوصیات کی طرح انسان پر آشکار نہیں ہوتا۔اس کے ادراک کے لئے انسان کا حساس اور بیدار مغز ہونا ضروری ہے تاکہ وہ بروقت اسکے تقاضوں کو سمجھ سکے اور اسکے اظہار میں مانع نہ ہو۔جو بروقت اس فطری عمل کے اظہار کی راہ کو ہموار کرتاہے وہ انسان وقت کے دھارے اور سماجی صورتحال کو بدلنے کی طاقت رکھتاہے۔ہمارے یہاں ایسے افراد نایاب ہیں مگر کمیاب نہیں ہیں۔ہمارا ادب ایسے افراد کےحوصلوں اور جذبوں سے آج بھی قوت نمو حاصل کررہاہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا۔
ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے بعد انگریزی نظام کی آمریت اور انکے استبداد کے خلاف نئ مزاحمتی قوت سامنے آتی ہے ۔جبر اور قہر و غلبہ کی بنیاد پر حاصل کی گئی حکومت کے خلاف مزاحمت کو ہر بار نیا روپ ادب نے ہی بخشا ۔مغربی معاشرہ ایک متحرک اور جدید طرز فکر کا حامل معاشرہ تھا ۔ایسا نظام زندگی جو کبھی ہندوستانی عوام نے تصور بھی نہیں کیا تھا ۔اس نظام کے غلبہ کے بعد جامد ہندوستانی سماج میں تحرک نظر آیا ۔چونکہ یہ نظام ہندوستانیوں کےلئے غلامی کا عذاب لیکر آیا تھا لہذا اسکی بعض خوبیوں پر بھی اسکی آمریت اور ظلم پسندی غالب آگئی ۔آہستہ آہستہ اس نظام کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں ۔حقیقت حال یہ ہے کہ ادب میں مزاحمتی و احتجاجی رویوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے کہ جتنا ادب پرانا ہے مگر اس مزاحمت کو تحریک کی شکل ترقی پسند تحریک نے دی ۔اگر ترقی پسند تحریک کا وجود نہ ہوتا تب بھی یہ لاوا کسی نا کسی شکل میں پھوٹ کر ضرور نکلتا مگر ترقی پسند تحریک نے ان مزاحمتی لہجوں کو منظم کیا اور ایک دستور بھی دیا جسکی بنیاد پر ادب تخلیق ہونے لگا ۔اس دستور نے ادب کی روح کو کتنا نقصان پہونچایا یہ الگ بحث ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس تحریک نے انقلاب و مزاحمت کی نئ معنویتوں کو جنم دیا ۔
ادب برائے زندگی کی تحریک نے اولاَ شاعری میں احتجاج اور مزاحمت کی آوازوں کو برتنے کا حوصلہ دیا تو ترقی پسند تحریک نے اس حوصلہ کو مہمیز کرتے ہوئے میدان عمل میں کود پڑنے کی دعوت دی ۔مگر یہ نعرہ ترقی پسندوں کے یہاں باالکل دوسرے معنوں میں استعمال ہوا ۔ادب برائے زندگی کو فقط سیاسی نعرہ بازی اور اپنے حریف کو کوسنا سمجھا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ اختر حسین رائے پوری نے شاعری کی دوسری اصناف کے ساتھ مرثیہ پر اعتراض وارد کیا ۔وہ لکھتے ہیں ’’ ۔۔۔۱۸۵۷ کا سانحہ تو ہندوستانی سماج کی بربادی کا پیش خیمہ تھا ۔کتنے شاعروں نے ان خونچکا واقعات کو نظم کیا ۔کتنے نوحے لکھے گئے ؟کہاں تھے وہ رجز گو مرثیہ خوان جنکی جادو بیانی سے محرم کی ہر محفل ماتم کدہ بن جاتی تھی ۔کسی شاعر نے پلاسی کی لڑائی پر ایک نوحہ نہ لکھا ۔واقعہ ۱۸۵۷ پر داغ ؔکا شہر آشوب اور غالبؔ کے خطوط پڑھیے اور سرپیٹ لیجیے کہ جب پوری قوم کی قسمت کا فیصلہ ہورہا تھا یہ حضرات اپنی روٹیوںکے سوا کچھ نہ سوچتے تھے تو ایسے بزدلانہ اور رجعت پرورانہ طریقوں سے جو زندگی اور شاعری کے لئے باعث ننگ ہیں۔اس ادب کی مثال امربیل سے دی جاسکتی ہے جو اسی درخت کو فنا کرتی ہے جس پر پرورش پاتی ہے ۔(مضمون قدیم ادب ہند کا معاشی تجزیہ مشمولہ ادب اور انقلاب ص ۵۱،۵۲)
اختر حسین رائے پوری کا اعتراض بجا ہے کہ جس وقت سماج تباہی و شکست و ریخت کے مرحلے سے گزررہا تھا ہمارے ادیب اپنی روٹیوں کی فکر میں مرے جارہے تھے مگر انکا اعتراض مرثیہ پر بے معنی اور تعصب کی حد میں نظر آتاہے ۔یہ مسئلہ صرف اختر حسین رائے پوری کا نہیں بلکہ پورے ترقی پسند ادب کا ہے ۔انکے نزدیک وہی ادب حقیقی معنوں میں ادب کہے جانے کے لائق ہے جو براہ راست نعرہ بازی ،چیخ و پکار اور زندہ باد و مردہ باد کا آئینہ بردار ہو ۔اختر حسین رائے پوری نے یا تو با ضابطہ مرثیوں کا مطالعہ نہیں کیا یا پھر عمداَ مرثیوں کی ادبی حیثیت اور مزاحمتی و انقلابی کیفیت کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے ۔انیس کے عہد میں جو مرثیہ لکھا گیا اس میں ۱۸۵۷ کے ظلم و جبر کی داستان بھی ہے اور تہذیبی و ثقافتی انحطاط و ہندوستانی سماج کی شکست و ریخت کا نوحہ بھی ہے ۔مگر یہ تمام مسائل براہ راست واقعہ نگاری کے طورپر بیان نہیں ہوئے بلکہ واقعہ کربلا کے سیاق و سباق کو ہندوستانی تہذیب و تمدن کے تناظر میں اس طرح پیش کیا گیا کہ تمام کردار عربی ہوتے ہوئے بھی ہندوستانی معلوم ہوتے ہیں۔اب یہاں دوسرا مسئلہ پیدا ہوتاہے کہ اگر مرثیہ نگار واقعہ کربلا کو عصری حسیت کے ساتھ پیش کرے تو اس پر ناقدین یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ مرثیہ کے کردار نہ پورے طورپر عربی ہیں اور نہ ہندوستانی ۔یہ مرثیہ کا بڑا سقم تسلیم کیا گیاہے ۔
اختر حسین رائے پوری اور ایسے ہی دیگر ناقدین کے اعتراضات کو یوں بھی جائز نہیں ٹہرایا جاسکتا کیونکہ تمام اصناف سخن کے ساتھ مرثیہ بھی عہد انیس تک اپنی ارتقائ منزلیں طے کررہا تھا ۔جس طرح ولی ؔ،میرو سودا و غالب سے پہلے غزل کی کوئی ادبی حیثیت نہیں تھی اسی طرح مرثیہ بھی میر ضمیرؔ اور میر انیسؔ کے عہد سے قبل تک وہ آفاقیت حاصل نہیں کرسکا تھا جوآگے چل کر اسکے نصیب میں آئی ۔جس طرح دیگر اصناف سخن نے بتدریج ارتقا ء کی منزلیں طے کیں اور مختلف موضوعاتی،ہئیتی اور اسلوبیاتی تبدیلیا ں رونما ہوئیں اسی طرح مرثیہ میں موضوعاتی و ہئیتی سطح پر مختلف تجربات سامنے آئے ۔اس لئے یہ کہنا کہ مرثیہ فقط مذہبی شاعری تک محدود رہا اور واقعہ ٔ کربلا کو نظم کرنے کےعلاوہ مرثیہ نگاروں نے کوئی اہم اقدام نہیں کیا سراسر ناانصافی ہے ۔اردو کی تمام تر اصناف سخن میں مرثیہ واحد ایسی صنف سخن ہے جو پوری طرح ظلم اور جبر کے خلاف مکمل اعلان جنگ ہے ۔میر انیسؔ واجد علی شاہ کی جلاوطنی اور ۱۸۵۷ ء میں اودھ کی بربادی و انتزاع سلطنت کی منظر کشی اس طرح کرتے ہیں کہ یہ سیاسی و معاشرتی زوال کا نوحہ امام حسینؑ کی مدینہ سے رخصتی کے مرثیہ میں اس طرح ضم ہوجاتاہے کہ واجد علی شاہ کی مظلومیت اور اودھ کی تباہی بربادی پر آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں اور ظالم و جابر فرمانرائوں کے چہرے بے نقاب معلوم ہوتے ہیں۔یہ بیان سامعین کے دلوں میں ظلم کے تئیں نفرت اور ظالموں کے خلاف مظلوموں کی حمایت میں مزاحمت کا جذبہ بیدارکرتاہے ۔ملاحظہ ہو؎
خلقت کا ہے مجمع در دولت پہ سحر سے جو آتاہے روتاہوا آتاہے وہ گھر سے
سب کہتے ہیں برساکے لہو دیدۂ ترسے چھپ جائے گا اب فاطمہ کا چاند نظر سے
اندھیر ہے گر یہ شہ والا نہ رہے گا
اب شہر کی گلیوں میں اجالا نہ رہے گا
وہ کہتا تھا کوفہ میں عجب غدر ہے مولا ہر سمت ہیں قصے ،تو فساد اٹھتے ہیں ہر جا
دور انکاہے کچھ جنکو مروت نہیں اصلا ہوتے ہیں ستم کوئ کسی کی نہیں سنتا
ٹوٹا ہے فلک ظلم کا شیعوں کے سروں پر
جب دیکھیے دوڑیں چلے آتے ہیں گھروں پر
اشراف ہیں جتنے وہ نکلتے نہیں گھر سے دروازے نہیں کھولتے لٹ جانے کے ڈر سے
ہوجاتی ہے جب شام تردد میں سحر سے سب کرتے ہیں سجدے کہ بلا ٹل گئی سر سے
یہ ظلم یہ بیداد نہیں اور کسی پر
مولایہ تباہی ہے محبان علی پر
آفت یہ محلوں پہ بپا بند ہیں بازار
کوچے بھی اجڑ جانے سے بے ربط ہوئے ہیں جو بھاگے تھے ان سب کے مکاں ضبط ہوئے ہیں
حاکم شہر کے تکبرانہ مزاج اور آمریت کو بیان کرنے کا انداز ملاحظہ کریں :
پھرتے ہیں مکانون کے مکیں مضطر و ناشاد حاکم ہے وہ مغرور کہ سنتا نہیں فریاد
شہر کے حالات کی مزید تصویر کشی ملاحظہ ہو ۔
کچھ خوف سے مخفی ہیں گرفتار ہیں کچھ لوگ بگڑے ہوئے آمادہ ٔپیکار ہیں کچھ لوگ
میرانیسؔ کے علاوہ میرزا دبیرؔ،میرزااوجؔ،دولہا صاحب عروجؔ،میر مونس،انسؔ،جوش ؔ،مہدی نظمی،وحید اختر،جمیل مظہری اور دیگر مرثیہ نگاروں کے یہاں ایسے بند کثرت کے ساتھ موجود ہیں جن میں عصری حسیت اور مسائل کو موضوع گفتگو بنایا گیاہے ۔لہذا اخترحسین رائے پوری اور دیگر ناقدین کے بے وجہ اعتراضات کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی ۔اختر حسین رائے پوری کی رائے سے قطع نظر اگر ترقی پسند شاعری کا عبوری جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ مزاحمتی و بغاوتی شاعری کا بیشتر حصہ واقعہ کربلا سے مستعار ہے اور فیضؔ سے لیکر ن م راشدؔ تک اکثر شعراکی نظموں کا اسلوب مرثیہ کی اسلوبیاتی فضاسے ہم آہنگ معلوم ہوتاہے ۔
انیس کا مرثیہ فقط لکھنؤ کے سیاسی زوال کی داستان نہیں ہے بلکہ پورے اودھ اور پورے ہندوستان کے سیاسی بحران اور ظلم و استبداد کی کہانی ہے ۔انتظار حسین لکھتے ہیں’’انیس کے مرثیوں کو لکھنؤ کی تہذیبی و سیاسی صورتحال سے منقطع نہیں سمجھا جاسکتا۔ان مرثیوں میں لکھنؤ کی تہذیب کی تصویریں تو نقادوں کو باالعموم نظر آتی ہیںلیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی ہے کہ ایک مخصوص عہد کی سیاسی صورتحال بھی ان مرثیوں میں جا بجانظر آتی ہے ‘‘۔(انیس کے مرثیہ میں شہر ،مشمولہ انیس شناسی مرتبہ گوپی چند نارنگ ص ۱۵۸)لہذا انیس کا مرثیہ فقط لکھنوی تہذیب کے زوال اور سیاسی بحران کی تاریخ نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص عہد کے سیاسی بحران کی کہانی بیان کرتاہے ۔
انیس کے بعد مرثیہ نگاروں کی جو نئ کھیپ سامنے آتی ہے ان کی اکثریت اپنے عہد کے مسائل ،تہذیبی تنزلی اور سیاسی بحران کا احاطہ کرتے ہیں۔دولہا صاحب عروج ،نسیم امروہوی راجہ صاحب محمودآباد،جوش ملیح آبادی ،جمیل مظہری ،مہدی نظمی ،وحیداختر،ہلال نقوی ،ڈاکٹر یاور عباس ،شاہد نقوی ،وغیرہ ایسے مرثیہ نگار ہیں جنکی شاعری درحقیقت اپنے عہد کا آئینہ ہے ۔اگر انکے مرثیوں کو فقط واقعہ کربلا کے تناظر میں دیکھا جائے تو انصاف نہ ہوگا اور یہی ہوتا آیاہے کہ مرثیہ کی شاعری کو مذہبی شاعری یا واقعہ کربلاکا بیانیہ کہکر نظرانداز کیا گیا مگر مرثیہ فقط واقعہ کربلا کا بیان نہیں ہے ۔مرثیہ اپنے عہد کے نشیب و فراز کا بیان ہے ۔
۱۹۳۵ کے بعد جو مرثیہ لکھا گیا وہ مزاحمتی ادب میں ایک اضافہ کی حیثیت رکھتاہے مگر افسوس کہ مرثیہ کو مذہبی عینک لگاکر دیکھا گیا اور اسکے اثرات،جہات، دائرہ کار اور موضوعاتی و اسلوبیاتی تنوع کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی ۔جمیل مظہریؔ،راجہ صاحب محمودآباد،جوشؔ،نسیم امروہوی ارو ہلال نقوی جیسے مرثیہ نگاروں کے کلام کا باالاستیعاب مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مرثیہ کو دیگر اصناف کے ساتھ موازنہ کرکے پرکھا جاسکے اور اسکی ادبی حیثیت اور اہمیت کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔اگر کلیم الدین احمد جیسے متعصب ناقدین کی عینک سے مرثیہ کو پرکھنے کی کوشش کی جائے گی تو مرثیہ فقط ایک تاریخی اور مذہبی واقعہ کے بیانیہ کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا ۔لہذا مرثیہ کو فقط زبان و ادب کا قیمتی سرمایہ سمجھ کر پڑھا جائے اور اسکی حیثیت کو متعین کیا جائے ۔۱۹۳۵ ء کے بعد ادب کی تمام اصناف سخن نے جن مسائل اور موضوعات کا احاطہ کیاہے مرثیہ بھی ان اصناف سخن سے کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں رہا ۔ترقی پسند تحریک سے لیکر جدیدیت تک مرثیہ ہر ادبی و سماجی و سیاسی صورتحال کا عکاس رہاہے ۔جوش اور وحید اختر جیسے شعراقی پسند تحریک کے منثور کے ساتھ مرثیہ میں تجربے کررہے تھے تو جدیدیت کے دور کے مرثیہ نگار وں نے ترقی پسند تحریک کے منثور سے بغاوت کا اعلان بھی کیاہے ۔نسیم امروہوی ترقی پسند تحریک کے عہد میں مرثیہ لکھ رہے تھے تو انکا انداز اور فکری پس منظر باالکل جدا تھا ۔’’شہید معرکۂ جہد و ارتقا ء ہے حسین ‘‘ اس دعویٰ کی بہترین دلیل ہے ۔
حسین پیکر انسانیت کی جاں تو ہے زمین صبرو تحمل کا آسماں تو ہے
نہ صرف دین محمد کی عزو شاں توہے رہ حیات میں سالا کارواں تو ہے
جہاںکو خواب فنا سے جگایا تونے
بقا کے واسطے مرنا سکھادیا تونے
زہے یہ جذبہ ٔ ہمت یہ ذوق بیداری نہ ہونے دی بشریت کی ذلت و خواری
چلا جو رن کو سجا کر سلاح خودداری سپاہ ظلم کی تیغوں کو کردیا عاری
جتادیا کہ اجل حریت کا زیور ہے
دکھادیا کہ غلامی سے موت بہتر ہے
بقا کو ظلم کے طوفاں میں تو فنا سمجھا فنا کو جادہ انصاف میں بقا سمجھا
دوسرا مرثیہ ’’اے انقلاب مژدہ عزم و عمل ہے تو‘‘ بھی سماجی و سیاسی جبرو تشدد کے خلاف ایک منظم تحریک کے تحت لکھا گیاہے۔
ناگاہ ظلم و جور کا امڈا جو اک سحاب پیدا ہوا فضائے شریعت میں انقلاب
آئ ندائے غیب کہ اے جان بوتراب اب وقت آگیاہے کہ باطل ہو بے نقاب
سردے کے کفروشرک کی گردن مروڑ دے
اٹھ اور اٹھ کے ظلم کا پنجہ مروڑ دے
مرثیہ ’’ بادہ ٔ شوق سے لبریز ہے پیمانۂ دل‘‘میں بھی یہ انداز بہت واضح نظر آتاہے۔
مجھکو یہ فکر ریاضت کا ثمر کیا ہوگا دل کا یہ ذکر تغافل سے مگر کیا ہوگا
میں ہوں بسمل کہ بایں بندش پر کیا ہوگا دل ہے قائل کہ بجز فتح و ظفر کیا ہوگا
میرا کہنا یہی زنداں ہے تو جی چھوٹے گا
دل کا ایماء کہ تڑپ جب تو قفس ٹوٹے گا
تقسیم ہند کے بعد پاکستان وجود میں آیا ۔۱۹۶۵ ء میں دونوں ملکوں کے درمیان خوں آشام جنگ ہوئی ۔اس جنگ نے دونوں ملکوں کے ادبیوں کو ذہنی و تخلیقی سطح پر متاثر کیا ۔نسیم امروہوی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔انہوں نے اس جنگ کے پس منظر میں مکمل مرثیہ تخلیق کیا ۔مگر وہ اس مرثیہ مزاحمتی افکار کو عصبیت اور مذہبی منافرت سے محفوظ نہیں رہ سکے ۔
جوشؔ کی شاعری میں مزاحمت و بغاوت کا موجزن دریا موجود ہے مگر انکے مرثیوں کی لفاظی نے مرثیہ کے تاثر کو بڑھانے کے بجائے کم کیاہےبقول’ایلیٹ’انسان کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہ ہو تو الفاظ بیکار ہوتے ہیں‘‘ مگر جوش کے پاس بسا اوقات کہنے کے لئےکچھ نہیں ہوتاہے مگر وہ پھر بھی بے تحاشہ الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔جوش کی شاعری میں ترقی پسند شعراء کی طرح نعرے بازی ہے ۔انکا لہجہ خطیبانہ اور حد سے زیادہ لائوڈ ہے ۔اس کے باوجود انکا مرثیہ مزاحمتی لَے سے شروع ہوکر احتجاج کے آوازہ پر ختم ہوتاہے ۔جوش کا مزاحمتی لہجہ بھی احتجاج کی نعرہ زنی معلوم پڑتاہے ۔مگر کہیں کہیں وہ پوری توانائی کے ساتھ مزاحمتی رویہ اختیار کرتے ہیں تو انکا لہجہ اور رنگ دوسرے شعرا سے یکسر الگ اور ممتاز نظرآتاہے ۔’’حسین اور انقلاب‘‘ میں ان کا انداز معاصر شعرا سے باالکل جدا اور نیا ہے ۔
عالم میں ہوچکاہے مسلسل یہ تجربا قوت ہی زندگی کی رہی ہے گرہ کشا
سر ضعف کا ہمیشہ رہاہے جھکا ہوا ناطاقتی کی موت ہے طاقت کا سامنا
طاقت سی شے مگر خجل و بدنصیب تھی
ناطاقتی حسینؑ کی کتنی عجیب تھی
پانی سے تین روزہوئے جس کے لب نہ تر تیغ و تبر کو سونپ دیا جس نے گھر کا گھر
جو مرگیا ضمیر کی عزت کے نام پر ذلّت کے آستاں پہ جھکایا مگر نہ سر
لی جس نے سانس رشتۂ شاہی کو توڑ کر
جس نے کلائی موت کی رکھدی مروڑ کر (حسین اور انقلاب)
آغا سکندر مہدی مرثیہ نگاری کے میدان کے اہم شہسواروں میں شامل ہیں ۔ان کامرثیہ اپنے وقت کی صورتحال اور سیاسی و سماجی منظرنامے کو پیش کرنے میں کامیاب ہے۔اپنےایک مرثیہ میں وہ قیادت کی ناعاقبت اندیشیوں اور سیاست میں بصیرت کے فقدان پر رقمطراز ہیں ؎
بزم جہاں میں آج عجب خلفشار ہے ہر فرد پر جنون قیادت سوارہے
بادخزاںمیں دامن گل تارتار ہے پابندیٔ اصول مگر ناگوار ہے
عالم میں خودنمائی ہر ایک سرکا تاج ہے
بوجہل حکمراں ہے ،جہالت کا راج ہے
شہرت کی آرزو کہیں دولت کی جستجو کاسہ گدائی کا لئے پھرتاہے کوبکو
ہر اک سے کررہاہے لجاجت سے گفتگو سیلاب آرزو میں ہوئی غرق آبرو
بنیاد قصر زیست جو غیروں کا مال ہے
پھیلا ہر اک کے سامنےدست سوال ہے
دولت کے ہیر پھیر سے خیرہ ہوئی نگاہ زعم انا نے کردیا انسان کو تباہ
پھیلی ہے دشت و بحر میں ابلیس کی سپاہ انسان کا کوئی نہیں دنیا میں خیرخواہ
لاشیں پڑی ہیں خنجر قاتل کے سامنے
انسان سرجھکائے ہے باطل کے سامنے
مرزااوجؔ لکھنوی اپنے عہد کے بہترین مرثیہ گو اور معروف ناقد تھے ۔جوشؔ سے پہلے جدید مرثیہ کا اصلی رنگ مرزا اوج ؔکے یہاں نظر آتاہے مگر اوجؔ کا ہجویانہ مزاج اور غیر اعتدال پسندانہ تنقید نے مرثیہ کی فضا کو نقصان پہونچایا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ جن موضوعات کو اوجؔ برت چکے تھے انہی موضوعات کو جب جوشؔ نے اعتدال اور سلیقے سے برتا تو وہ جدید مرثیہ کے معمار کہلائے ۔اوجؔ ان ذاکرین کے خلاف میدان شاعری میں محاذ آرا تھے جو لکھنؤ کے زوال پزیر معاشرہ میں عوام کو غوروفکر کی دعوت کے بغیر فقط عزاداری امام حسینؑ کو رونے رلانے اور فرش عزا کے بچھانے کو نجات کا واحد ذریعہ سمجھتے تھے ۔ایسے ذاکرین جنہیں سماج و معاشرہ کی ہرلمحہ بدلتی ہوئی صورتحال اورتنزلی کے اسباب کے ادارک کی صلاحیت نہیں تھی ۔وہ مذہب اور مذہبی علوم کو اپنی بے بصیرتی اور غیر منطقانہ افکار کی پردہ پوشی کا ذریعہ بنائے ہوئے تھے ،ایسے مولویوں اور ذاکریں کے خلاف مرزا اوجؔ نے مزاحمتی لہجہ اختیار کیا مگر ان لہجہ بہت باغیانہ اور لائوڈ ہوگیا جس کے باعث انکی اہم اورمفکرانہ باتیں بھی بے مطلب قراردیدی گئیں۔اوجؔ نے ایسے مذہبی افراد کے خلاف بھی خوب لکھا جو عربی اور فارسی کے مقابلے میں اردو کو بہت حقیر یا باالکل بے قیمت زبان تصور کرتے تھے ۔بقول عاشور کاظمی’’ان کے مخالفین کا استدلال یہ تھا کہ دین کی کتاب اول،قرآن حکیم عربی میں ہے ،نہج البلاغہ عربی میں ہے ۔ساری مستند کتابیں عربی میں ہیںتو علوم دین اردو میں کیسے حاصل کئے جائیں۔پھر اس نبیؐ کی امت جس نے کہا علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے،اردو زبان پر کیوں اکتفا کرے۔کیا قرآن حکیم کے اردو ترجمے اور نہج البلاغہ کے اردو ترجمے کو اساس علم بنایا جاسکتاہے؟‘‘۔(مرثیہ نظم کی اصناف میںص۴۶)اوجؔ ایسے مذہبی افراد کو بے مایہ اور انکے استدلال کو بے بنیاد اور کم وقعت شمار کرتے تھے ۔کہتے ہیں:
ہے جاہلوں کا تو کیا ذکر علم کے طلباء کہ پڑھنے لکھنے کا رہتاہے جن کو شغل سدا
ہے جن سے مسجدوں کی زیب و زین نام خدا ہے خانقاہ و مدارس کے دل میں جن کی جا
نہ جانے کیسی وہاں تربیت یہ پاتے ہیں
سند وفور جہالت کی لے کے آتے ہیں
غرض تو یہ فضلیت سے بہرہ ور ہوتے کچھ اپنے دین و شریعت سے بہرہ ور ہوتے
فنون طبع و طباعت سے بہرہ ور ہوتے ادب سے،خُلق سے،حکمت سے بہرہ ور ہوتے
مراحم اور مظالم کو یہ سمجھ لیتے
محاسن اور مکارم کو یہ سمجھ لیتے
نہ یہ کہ سیکھ کے آتے ہیں مردم آزاری سیاق خودغرضیٔ و سباق طرّاری
لحاظ ماں کا نہ کچھ باپ کی طرفداری ہے غم خواری کے عوض ذوق و شوق میخواری
تمام شہر میں یکتا ہیں گھر میں فاصل ہیں
قمار بازوں کے جرگے میں فرد کامل ہیں
پڑھو تم اپنی زباں میں کہ فن کی ہو تسہیل مترجموں کی ہو محنت ذریعہ تحصیل
تمہاری منزل مقصود کی یہی ہے سبیل ہر ایک قوم کے پہلے یہی ہوئے ہیں کفیل
زبان غیر کو پڑھ پڑھ کے وقت کھوتے ہو
یہ تم ترقیوں کے حق میں کانٹے بوتے ہو
مصطفیٰ زیدی کا انداز متقدمین متاخرین سے جداہے ۔وہ سماجی و معاشرتی ناگفتہ بہ صورتحال پر غوروفکر کرکے اسے بدلنے کے بجائے نصابوں میں پڑھائے جانے کے خلاف آواز بلندکرتے ہیں۔
وہ جرمنی کا آشوز،جاپان کا ہیروشیما ان کی بھیانک نزع کی آواز کو کس نے سنا
ان کے تو لاکھوں دوست تھے لیکن یہ خونیں سانحا ان کے لئےعلمی مباحث کے سوا کچھ بھی نہ تھا
اپنی ذہانت کے علاوہ سب سے پردہ پوش تھے
سب جیسپرؔسب ماکروؔ سب سارترؔ خاموش تھے
سارے جرائم سے بڑی ہے یہ مہذب خامشی اس کے تو آگے ہیچ ہے قاتل کی زہریلی ہنسی
اس علم کے ساغر میں شامل ہے ہلاکت علم کی اس سے زیادہ اور کیا سنگین ہوگی دوستی
تاریخ پوچھے گی کہ جب مہمان ویرانے میں تھے
کوفے کے سارے مرد کس گھر کے نہاں خانے میں تھے
اور یاد رکھنا اے مرے ہم عصر ارباب ذکاء ہم پر بھی گر طاری رہاعالم سنہرے خواب کا
کل ہم بھی ہونگے روبرو ہم سے بھی پوچھا جائےگا سننا پڑے گا ہم سبھی کو کربلا کا فیصلہ
قاتل تو شاید عفو کے قابل ہوں وہ مجبور تھے
ہم دوست ہوکر کیوں ضمیر ارتقاء سے دور تھے
(ہردور میں مظلومیت کی داستاں لکھی گئی از مصطفیٰ زیدی)
موجودہ عہد میں بھی بہترین مزاحمتی ادب تخلیق ہورہاہے مگر چونکہ مرثیہ زوال کا شکار ہے اس لئے مرثیہ میں وہ توانا مزاحمتی روایت نہیں ملتی جو اس کا خاصہ رہی ہے ۔آ ج جو مرثیہ نگار اس صنف میں طبع آزمائی کررہے ہیں وہ مرثیہ گوئی کی روایت کو زندہ ضرور رکھے ہوئے ہیں مگر وہ ادبی و تہذیبی و ثقافتی روایت جو مرثیہ کی فضا میں سانس لیتی تھی اب موجود نہیں ہے ۔اس وقت ہندوستان میں کئی اہم مرثیہ نگار موجود ہیں جو مزاحمت ،احتجاج اور بغاوت کی لَے اور تاثیرانیسؔ،عروجؔ، جمیل مظہری،جوشؔ اورہلال نقوی جیسے شعرا کےیہاں موجود ہے، انکے کلام ان خصوصیات سے باالکل عاری ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ آ ج کا مرثیہ اپنے اجزائے ترکیبی سے ہٹ کر فقط مسدس کے فارم میں لکھا جارہاہے ،اسکے باجود وہ ان خصائص سے مبرّاہے ،لہذا حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے موجودہ مرثیہ نگار اس صنف کی بقاء اور ترقی کے لئے کس لائحۂ عمل کے تحت کام کررہے ہیں۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
ختم شد