اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
Feb 10, 2024
دیدبان شمارہ ۔(۲۰ اور۲۱)۲۰۲۴
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
نظم نگار : سید محمد انجم معین بلے
... 1 .......
تُو وہاں کیسی ہے؟ مجھ کو ، کیا بتائے گا جہاں
کیسے تیری یاد پھیلی ، ہر گلی اور ہرمکاں
چاہتاہوں پھول بھِیجوں ،پَر تجھے کیسے وہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
...... 2 …
غم کے بادل آگئے ہیں ، اب بھلا کیسے چھٹیں
ہجرتوں کی زد میں آکر رات دن کیسے کٹیں
فاصلوں کی مٹھیوں میں آگئی ہے داستاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
........... 3 ….....
زندگی سے حسرتوں کا ساتھ کیسے چھوڑدیں
ہم امیدوں کے شجر سے پھول کیسے توڑدیں
دیکھو تنہا رہ گئی مونا وہاں، اور میں یہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
....... .4 …...
مجھ کو اب تک تیرے وعدے تیری قسمیں یاد ہیں
چاہتوں کے دم سے میرے سب جہاں آباد ہیں
اب تِری آہٹ نہیں ہے ،جس سے کھولوں کھڑکیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
....... .5 ……
راحتوں نے آنکھ کھولی کس طرح ہنستے ہوئے
ہر نظر پتھرا گئی ہے راستہ تکتے ہوئے
اب یہاں ملتے نہیں ہیں، تیرے قدموں کے نشاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-6 …....
توگئی تو ساتھ اپنے، ہر خوشی ہی لے گئی
وقت کی دہلیز پر اک نا اُمیدی دے گئی
بے بسی سے دیکھتا ہوں میں زمین و آسماں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-7………
وہ گئے دن کی مسافت ساتھ چلنے کا جنوں
ایک لمحے کی جدائی ، چِھن گیا میرا سکوں
رہ گئی ہیں ساتھ تیری یاد کی پرچھائیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
........-8…………
برتھ ڈےمونا مبارک ،اے مِری جان ِ وفا
اب اگرچہ کٹ گیا ہے گفتگو کا سلسلہ
سب درو دیوار ،آنگن ہوگئے ہیں بے زباں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.......-9…..
ہر مسرت، ہر خوشی ، ہر اِک تمنا ،آرزو
ناامیدی کے سفر میں کھوگئی ہے جستجو
دوریوں میں کھو گئی ہے زندگی کی کہکشاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
........-10……
میں نے سوچا ہی نہیں تھا اس طرح ہوجائے گا
سارا رستہ دو قدم کے بعد ہی کھو جائے گا
چہچہاتے گلستاں میں، ایک سونا آشیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
......-11…...
لمبی شامیں رہ گئی ہیں میرے جلنے کے لیے
دن ملے ہیں مجھ کو اب تو ہاتھ ملنے کے لیے
مولا ، کتنا رہ گیا ہے ؟ زندگی کا امتحاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-12………
اک تڑپ رہتی تھی تجھ کو مجھ سے ملنے کے لیے
ہمسفر جس کو چنا تھا ساتھ چلنے کے لیے
اب تو تیری یاد میں ہی بس رہا ہےیہ جہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
............-13………
پھول پتے چاند تارے یاد کرتے ہیں تجھے
راستوں کے پیڑ سارے یاد کرتے ہیں تجھے
تیری یادیں، تیری سوچیں، تیرے سپنے جان ِ جاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
........-14……
تیری جانب قافلوں کا راستہ چلتا نہیں
جاگنے تک یاد کا سورج کبھی ڈھلتا نہیں
اب فضا میں پھیلتا ہے ناامیدی کا دھواں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
..........-15………
میرے سر سے دور ہے اب راحتوں کا سائباں
دیکھ کر کیسےمیں چلتا تیرے قدموں کے نشاں
آرزوئیں کر رہی ہیں میرے دل کی دھجیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-16………
نقش ہے دِل پر مِرےعمّار کی ایک ایک بات
دورہےوہ مجھ سے پر،اب بھی ہے میرے ساتھ ساتھ
اُس کی یادوں کے اُجالوں سے ہے روشن یہ مکاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
............-17………
ساتھ وہ تنہائی میں ہے،راز کی یہ بات ہے
لگتاہے کہ ہر قدم پر میرا بیٹا ساتھ ہے
فاصلوں میں قربتیں ہیں ، قُربتوں میں دُوریاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
..........-18………
مونا اور عمّار دونوں ہی اَثاثہ ہیں مِرا
رشتے تو باقی رہے ، ٹوٹا رہا پَر رابطہ
بے سہارا کھینچتا کیسے؟ وہاں تک بادباں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.......... -19………
مونا اور عمار بے شک ہیں مِرےگھر کے مکیں
دنیا والوں کو مگر ، دونوں نظر آتے نہیں
دَم قَدم سے ان کے ہی آباد ہے میرا جہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-20………
رب العزّت تجھ سے میری ایک یہ بھی ہےدُعا
رکھنا اِن پرگرمیوں کی دھوپ میں سایہ گھنا
میں کہوں پر تُو یہ مت کہنا اے ربّ ِ دو جہا ں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-21………
کیا کہو ں عمار کی ہر اِک شرارت یاد ہے
مونا نے جتنی لُٹائی ہے محبت یاد ہے
میں بھی جی اُٹھتا ہوں اب تو یاد کرکے شوخیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-22.........
عید اور تہوار بے شک ، اب بھی آتے ہیں مگر
پیار میں کرتا ہوں جن سے، وہ نہیں آتے نظر
کس سے پوچھوں دور کیسے ہوں مِری تنہائیاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-23………
دیکھئے ، توجابسے ہیں دونوں مجھ سے کوسوں دور
موناہے دل کاسکوں ، عمار ہے آنکھوں کا نور
ختم کب ہوں گی ، خدا جانے مِری بے تابیاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-24………
گھر کادروازہ کھلا رکھتا ہوں اکثر رات بھر
ملنے کو شاید چلے آئیں وہ ، مجھ سے اپنے گھر
عید سے پہلے ہی ہوگا ، عید کا گھر میں سماں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
............-25………
جب بھی ہو ممکن چلے تم آؤ ، دونوں میرے پاس
کہہ رہی ہے میری آنکھوں کی نمی، دل ہے اداس
دور ہوسکتی ہیں ، یہ دونوں طرف کی دوریاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
........-26…….
مونا اور عمار کا رہتا ہے ہر دَم انتظار
جاچکا پت جھڑ ، نظر آنے لگے رنگ ِ بہار
تُم بھی لوٹ آؤ تو اب لوٹ آئیں گی رعنائیاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
...........-27……...
دور ہو نظروں سے یوں دیدار کرسکتا نہیں
پیار تو کرتاہوں میں ،اظہار کر سکتا نہیں
کیا کہوں ؟ ہے بے زبانی جان ِ من میری زباں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.......… 28 ………
دُوریاں تو مجھ سے ہوسکتی نہیں مولا ، عبور
بخش دے میری خطائیں اے مِرے رب ِ غفور
پھر سے تُوآباد کر دے ، یہ مِرا اُجڑا جہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.......… 29 ………
ہے سمندر پار انجم میری منزل کا نشاں
سامنے ہیں مونا و عمّار ، ملتے ہیں کہاں
ہوگیا ہے کارواں سے دور میر ِ کارواں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
...… .30 …………
ہے سمندر میں سفینہ ، دور تک ساحل نہیں
مولا تُندو تیز موجیں تو مِری منزل نہیں
ا لامان و الحفیظ ُ ، الحفیظ و الا ماں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
نوٹ: اپنی لائف پارٹنر میمونہ المعروف مونا اور اپنے بہت پیارے بیٹے بلکہ میری آن ، بان ، شان ، جان اور پہچان عمار کی یاد میں چند آنسو ، جو ایک نظم کی صورت میں آپ کے سامنے آئے ہیں ۔۔ اک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں ۔۔ یہ میں نے لکھا اور سوچا ضرور لیکن کبھی عمار اور مونا کو خود سے دور نہیں جانا ، یہ دونوں میرے دل میں دھڑ کتے ہیں ۔ میری اس نظم میں بھی آپ نے میرے دل کی دھڑکنیں ضرور سنی ہوں گی کیونکہ میں نے صرف شاعری نہیں کی بلکہ اپنے احساسات اور دلی جذبات کو زبان دی ہے۔۔۔۔ سید محمد انجم معین بلے
دیدبان شمارہ ۔(۲۰ اور۲۱)۲۰۲۴
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
نظم نگار : سید محمد انجم معین بلے
... 1 .......
تُو وہاں کیسی ہے؟ مجھ کو ، کیا بتائے گا جہاں
کیسے تیری یاد پھیلی ، ہر گلی اور ہرمکاں
چاہتاہوں پھول بھِیجوں ،پَر تجھے کیسے وہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
...... 2 …
غم کے بادل آگئے ہیں ، اب بھلا کیسے چھٹیں
ہجرتوں کی زد میں آکر رات دن کیسے کٹیں
فاصلوں کی مٹھیوں میں آگئی ہے داستاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
........... 3 ….....
زندگی سے حسرتوں کا ساتھ کیسے چھوڑدیں
ہم امیدوں کے شجر سے پھول کیسے توڑدیں
دیکھو تنہا رہ گئی مونا وہاں، اور میں یہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
....... .4 …...
مجھ کو اب تک تیرے وعدے تیری قسمیں یاد ہیں
چاہتوں کے دم سے میرے سب جہاں آباد ہیں
اب تِری آہٹ نہیں ہے ،جس سے کھولوں کھڑکیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
....... .5 ……
راحتوں نے آنکھ کھولی کس طرح ہنستے ہوئے
ہر نظر پتھرا گئی ہے راستہ تکتے ہوئے
اب یہاں ملتے نہیں ہیں، تیرے قدموں کے نشاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-6 …....
توگئی تو ساتھ اپنے، ہر خوشی ہی لے گئی
وقت کی دہلیز پر اک نا اُمیدی دے گئی
بے بسی سے دیکھتا ہوں میں زمین و آسماں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-7………
وہ گئے دن کی مسافت ساتھ چلنے کا جنوں
ایک لمحے کی جدائی ، چِھن گیا میرا سکوں
رہ گئی ہیں ساتھ تیری یاد کی پرچھائیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
........-8…………
برتھ ڈےمونا مبارک ،اے مِری جان ِ وفا
اب اگرچہ کٹ گیا ہے گفتگو کا سلسلہ
سب درو دیوار ،آنگن ہوگئے ہیں بے زباں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.......-9…..
ہر مسرت، ہر خوشی ، ہر اِک تمنا ،آرزو
ناامیدی کے سفر میں کھوگئی ہے جستجو
دوریوں میں کھو گئی ہے زندگی کی کہکشاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
........-10……
میں نے سوچا ہی نہیں تھا اس طرح ہوجائے گا
سارا رستہ دو قدم کے بعد ہی کھو جائے گا
چہچہاتے گلستاں میں، ایک سونا آشیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
......-11…...
لمبی شامیں رہ گئی ہیں میرے جلنے کے لیے
دن ملے ہیں مجھ کو اب تو ہاتھ ملنے کے لیے
مولا ، کتنا رہ گیا ہے ؟ زندگی کا امتحاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-12………
اک تڑپ رہتی تھی تجھ کو مجھ سے ملنے کے لیے
ہمسفر جس کو چنا تھا ساتھ چلنے کے لیے
اب تو تیری یاد میں ہی بس رہا ہےیہ جہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
............-13………
پھول پتے چاند تارے یاد کرتے ہیں تجھے
راستوں کے پیڑ سارے یاد کرتے ہیں تجھے
تیری یادیں، تیری سوچیں، تیرے سپنے جان ِ جاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
........-14……
تیری جانب قافلوں کا راستہ چلتا نہیں
جاگنے تک یاد کا سورج کبھی ڈھلتا نہیں
اب فضا میں پھیلتا ہے ناامیدی کا دھواں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
..........-15………
میرے سر سے دور ہے اب راحتوں کا سائباں
دیکھ کر کیسےمیں چلتا تیرے قدموں کے نشاں
آرزوئیں کر رہی ہیں میرے دل کی دھجیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-16………
نقش ہے دِل پر مِرےعمّار کی ایک ایک بات
دورہےوہ مجھ سے پر،اب بھی ہے میرے ساتھ ساتھ
اُس کی یادوں کے اُجالوں سے ہے روشن یہ مکاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
............-17………
ساتھ وہ تنہائی میں ہے،راز کی یہ بات ہے
لگتاہے کہ ہر قدم پر میرا بیٹا ساتھ ہے
فاصلوں میں قربتیں ہیں ، قُربتوں میں دُوریاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
..........-18………
مونا اور عمّار دونوں ہی اَثاثہ ہیں مِرا
رشتے تو باقی رہے ، ٹوٹا رہا پَر رابطہ
بے سہارا کھینچتا کیسے؟ وہاں تک بادباں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.......... -19………
مونا اور عمار بے شک ہیں مِرےگھر کے مکیں
دنیا والوں کو مگر ، دونوں نظر آتے نہیں
دَم قَدم سے ان کے ہی آباد ہے میرا جہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-20………
رب العزّت تجھ سے میری ایک یہ بھی ہےدُعا
رکھنا اِن پرگرمیوں کی دھوپ میں سایہ گھنا
میں کہوں پر تُو یہ مت کہنا اے ربّ ِ دو جہا ں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-21………
کیا کہو ں عمار کی ہر اِک شرارت یاد ہے
مونا نے جتنی لُٹائی ہے محبت یاد ہے
میں بھی جی اُٹھتا ہوں اب تو یاد کرکے شوخیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-22.........
عید اور تہوار بے شک ، اب بھی آتے ہیں مگر
پیار میں کرتا ہوں جن سے، وہ نہیں آتے نظر
کس سے پوچھوں دور کیسے ہوں مِری تنہائیاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-23………
دیکھئے ، توجابسے ہیں دونوں مجھ سے کوسوں دور
موناہے دل کاسکوں ، عمار ہے آنکھوں کا نور
ختم کب ہوں گی ، خدا جانے مِری بے تابیاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.........-24………
گھر کادروازہ کھلا رکھتا ہوں اکثر رات بھر
ملنے کو شاید چلے آئیں وہ ، مجھ سے اپنے گھر
عید سے پہلے ہی ہوگا ، عید کا گھر میں سماں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
............-25………
جب بھی ہو ممکن چلے تم آؤ ، دونوں میرے پاس
کہہ رہی ہے میری آنکھوں کی نمی، دل ہے اداس
دور ہوسکتی ہیں ، یہ دونوں طرف کی دوریاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
........-26…….
مونا اور عمار کا رہتا ہے ہر دَم انتظار
جاچکا پت جھڑ ، نظر آنے لگے رنگ ِ بہار
تُم بھی لوٹ آؤ تو اب لوٹ آئیں گی رعنائیاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
...........-27……...
دور ہو نظروں سے یوں دیدار کرسکتا نہیں
پیار تو کرتاہوں میں ،اظہار کر سکتا نہیں
کیا کہوں ؟ ہے بے زبانی جان ِ من میری زباں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.......… 28 ………
دُوریاں تو مجھ سے ہوسکتی نہیں مولا ، عبور
بخش دے میری خطائیں اے مِرے رب ِ غفور
پھر سے تُوآباد کر دے ، یہ مِرا اُجڑا جہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.......… 29 ………
ہے سمندر پار انجم میری منزل کا نشاں
سامنے ہیں مونا و عمّار ، ملتے ہیں کہاں
ہوگیا ہے کارواں سے دور میر ِ کارواں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
...… .30 …………
ہے سمندر میں سفینہ ، دور تک ساحل نہیں
مولا تُندو تیز موجیں تو مِری منزل نہیں
ا لامان و الحفیظ ُ ، الحفیظ و الا ماں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
نوٹ: اپنی لائف پارٹنر میمونہ المعروف مونا اور اپنے بہت پیارے بیٹے بلکہ میری آن ، بان ، شان ، جان اور پہچان عمار کی یاد میں چند آنسو ، جو ایک نظم کی صورت میں آپ کے سامنے آئے ہیں ۔۔ اک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں ۔۔ یہ میں نے لکھا اور سوچا ضرور لیکن کبھی عمار اور مونا کو خود سے دور نہیں جانا ، یہ دونوں میرے دل میں دھڑ کتے ہیں ۔ میری اس نظم میں بھی آپ نے میرے دل کی دھڑکنیں ضرور سنی ہوں گی کیونکہ میں نے صرف شاعری نہیں کی بلکہ اپنے احساسات اور دلی جذبات کو زبان دی ہے۔۔۔۔ سید محمد انجم معین بلے