ہائی وے پر کھڑا آدمی

ہائی وے پر کھڑا آدمی

Mar 14, 2021

ناول کا ایک باب

مصنف

مشرف عالم ذوقی

شمارہ

شمارہ - ١٣


ہائی وے پر کھڑا آدمی
( ناول کا ایک باب )
مشرف عالم ذوقی

میں عامر ریاض.... ابھی تک جو کڑیاں میرے ہاتھ لگی تھیں، اس سے کچھ بھی خاص برآمد نہیں ہوا تھا۔ ان کڑیوں کو جوڑتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ شمس کے قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوسکتاہے۔ اس درمیان ایک خبر اور آئی۔ مولانا اسیر، مولانا فرقان اور مولانا ظفر علی کو مشن ہاؤس سے بلاوہ آیا تھا۔ ملاقات کے بعد ان تینوں نے مشن سے ملنے کا مقصد بیان کیا کہ مشن نے مسلمانوں کے تحفظ کا وعدہ کیا ہے.... اور وہ لوگ اگلے مہینے ایک اہم کانفرنس کے لیے جنیوا جارہے ہیں۔ اس درمیان جو رپورٹ میرے ہاتھ لگی تھی، اس کی تفصیلات مولانا ہاشمی کو بتانا ض روری تھا۔صبح کے وقت مولانا الیاس ہاشمی سے گفتگو ہوئی۔ انہوں نے گیارہ بجے کا وقت دیا۔ ٹھیک گیارہ بجے تنظیم لبیک کے دفتر میں پہنچ چکا تھا۔باہر پتھر کی بنی کچھ نشستیں تھیں۔ میں ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ سورج سرپر آگیا تھا، لیکن بینچ کے قریب درخت نے سایہ کررکھا تھا۔ ہوا چل رہی تھی۔ میں اس قافلہ کو دیکھ رہا تھا، جس نے ہندوستان کی سرزمین پر صوفی ازم کی بنیاد ڈالی تھی۔ محمد بن قاسم کی فوجیں سندھ میں داخل ہوئیں توایک نئی تہذیب کی داغ بیل پڑ چکی تھی۔ آٹھویں صدی میں صوفیا کرام کی باضابطہ آمد کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے اپنے قافلے کے ساتھ راجستھان کی تپتی ہوئی زمین پر قدم رکھا۔ بغداد اور ایران میں صوفی ازم کی شاخیں سر نکال رہی تھیں۔ خواجہ کے مریدوں کی بڑی تعداد آہستہ آہستہ ہندوستان کے دوسرے خطوں میں پھیل گئی۔ حضرت خواجہ بختیار کاکی، حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر، حضرت خواجہ نظام الدین اولیا، امیر خسرو اور اس طرح مختلف سلسلے قادری، چشتی، سہر وردی، نقشبندی، شاذلی کی موجودگی میں صوفی ازم فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن پسند کارواں کی علامت بن چکا تھا۔ سیاسی اقتدار پر بھی صوفیوں کا فیض عام تھا۔ عد م تشدد، انسان دوستی، رواداری کی مثالوں نے اور آفاقی تعلیمات نے ایک زمانے کا دل جیتا۔ صوفی ازم کے ساتھ محبت کی قندیلیں روشن تھیں۔ اس لیے خواجہ کے پاؤں اس سرزمین پر پڑے تو دیگرمذاہب کے لوگ بھی خواجہ کے شیدائی ہوتے گئے۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے دیوانے ہزاروں تھے مگر خسرو جیسا سر پھرا دیوانہ دوسرا کہاں تھا۔گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈارے کیسچل خسرو گھر آپنے سانجھ بھئی چو دیسسانجھ ہوگئی تھی....صوفیا کرام کا زمانہ کہیں پیچھے چھوٹ گیا تھا۔ صوفیائے کرام روحانی طورپر اقتدار پر قابض تھے اور اب جسمانی طورپر اقتدار کا حصہ بننے کا سلسلہ جاری تھا۔میں اس وقت چونکا جب ایک خادم میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔’ حضرت آپ کو یاد کررہے ہیں۔‘کچھ ہی دیر میں سیڑھیاں طے کرتا ہوا میں حضرت کے حجرے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میں ان حقیقتوں سے بے نیاز ہوں جب سمندر سے اونچی اونچی لہریں اٹھتی ہیں اور ریت کی آندھی سے خوفناک آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔مولانا الیاس ہاشمی میری طرف دیکھ رہے تھے۔’ عامر ریاض..... کس دنیا میں کھو گئے آپ؟‘میں صوفیائے کرام کی دنیا سے واپس آیا تو مکروفریب کی دنیا سامنے تھی۔ یہاں ہر شخص بہروپیا تھا۔ ہر شخص اداکار۔ اداکاری میں بھی کررہا تھا۔ میں نے سر اٹھایا۔ حضرت کو دیکھا۔’ سوچ رہا تھا.....‘’ آپ سوچتے بہت ہیں۔‘ حضرت مسکرائے۔’ یہاں جلوہ ہی جلوہ ہے۔ گلستاں میں جو بھی ہے قیدی معلوم ہورہا ہے۔‘’ یا شہنشاہ؟‘ مولانا الیاس ہنسے۔’ شہنشاہ بھی۔‘’ پھر قیدی کون ہے؟‘’ میں۔ شمس تبریز.....‘مولانا الیاس ہنستے ہوئے خاموش ہو گئے ’....ہے.....ہے..... مقام عشق یہ بھی ہے کہ ایک نام خنجر کی طرح سیدھے آپ کے دل میں پیوست ہوجاتا ہے۔‘’ لیکن سوال اب بھی قائم کہ خنجر کس نے مارا۔؟‘’ آپ کی تحقیقات کیا کہتی ہیں۔؟‘’ ابھی کچھ اشارے ملے ہیں....‘’ مجھے سب معلوم ہے....‘ مولانا الیاس ہاشمی نے آنکھیں بند کیں۔ آپ کہاں گئے۔ کس کس سے ملے سب معلوم.....ابھی دریا میں پتھر اچھالتے رہیے.....‘’ بھنور بننے لگے ہیں۔‘’ اور بنیں گے۔‘ مولانا الیاس ہاشمی سنجیدہ تھے۔ زندگی بھی تو ایک بھنور ہے عامر ریاض.... ہے ہے.... بھنور در بھنور.... ہم پھنستے چلے جاتے ہیں پھر ایک دن موت سر پر آکھڑی ہوتی ہے،ہے ہے....‘مولانا الیاس ہاشمی نے اس طرح اپنی بات پوری کی جیسے کوئی بڑا فلسفہ بیان کیا ہو۔ مجھے یقین ہے، اس وقت میرے اندر کچھ چیخیں جمع ہورہی تھیں۔ مگر میں اس چیخ کو روکنا چاہتا تھا۔ میں نے نوٹ بندی اور پچاس کروڑ کا ذکر چھیڑا تو حضرت مسکرائے۔’ میں نے کہا تھا نا، مجھے سب پتہ ہے۔‘’ جی۔‘’ یہ وہ کام ہے، جو اس زمانے میں سب کررہے تھے۔ میں بھی کررہا تھا اور پچاس کروڑ کی رقم میں آدھے سے زیادہ تو یوں بھی چلے جاتے۔ کچھ اور ہے، جس کی طرف شاید آپ کی نگاہ اب تک نہیں پہنچی۔‘مولانا گہری سوچ میں گرفتار تھے۔ہے ہے، کچھ اور ہے.... کبھی کبھی یہ کچھ  سامنے ہوتا ہے مگر ہم سمجھ نہیں پاتے....‘میرے پاؤں قیمتی صوفے پر رکھے تھے اور اس وقت میرا ذہن ہوا میں اڑ رہا تھا۔ میرے اندر کی چیخ باہر آنے کا راستہ تلاش کررہی تھی۔’ اور میں نے اسی لیے آپ کا انتخاب کیا...ہے....ہے.... کچھ پوشیدہ ہے.... جیسے نور پوشیدہ ہوتا ہے... ہم ایک وقت میں کسی کے اندر پوشیدہ نور کی عظمت کو سمجھ نہیں پاتے.... کچھ چھوٹ رہا ہے آپ سے عامر ریاض.....‘ایک شعلہ کو ندا۔ ایک چیخ اٹھی۔میں نے حضرت کی طرف دیکھا۔ ’جب ہندوستان میں تصوف کی خوشبو پھیلی۔ صوفیائے کرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر خطے میں روشنی بکھر گئی۔روشنی کے گم ہونے کے بعد نسبی شہزادوں کا دور آیا۔ خانقاہیں دکانوں میں تبدیل ہوگئیں۔ سجادہ نشیں اپنی اپنی دکانیں کھول کر بیٹھ گئے اور اس کے بعد ایک تحریک چلی۔ حصول علم کی تحریک.... اور اس تحریک میں اس دورکے تمام بڑے شامل تھے۔ سرسید بھی۔ اقبال بھی۔ اب ایک طرف سجادہ نشینوں کی بستیاں آباد تھیں اور دوسری طرف مدارس کی تجارت کا دوسرا دور شروع ہوا.....‘’ ہے  ہے..... تجارت کا دور.... اس سے آگے.....‘’ اس سے آگے.....‘’ ہمہ اوست۔‘حضرت نے آنکھیں بند کرلیں۔ اس سے آگے.....ہمہ اوست....’ اس سے آگے کیا.....‘’ ایک تیسرا راستہ۔‘ حضرت کی آنکھیں بند تھیں۔’ تیسرا راستہ۔؟‘’ جب دو راستے کھلتے ہیں، تو وقت کے ساتھ یہ دو راستے پرانے ہوجاتے ہیں۔ پھر ایک تیسرا راستہ کھلتا ہے۔ تجارت کے باب کا تیسرا راستہ۔‘’ تیسرا راستہ۔‘’ اگر یہ ملک ہمارے لیے کافرستان ہے تو تیسرا راستہ کیاہے؟‘’ حکومت؟‘’ حکومت نہیں نظریہ۔ اس وقت کوئی حکومت نہیں ہے۔ نظر یہ ہے۔‘’ اورتیسرا راستہ؟‘’ آپ پچھلے برس علما کی عالمی کانفرنس میں شریک ہوئے؟‘’ نہیں۔‘’ہے ہے.... تیسرا راستہ..... نظریہ کی حمایت کا راستہ۔ کیا کوئی اس تیسرے راستے سے انکار کرسکتا ہے......؟‘’ مطلب شمس کا قتل.....‘’ ہوسکتا ہے، اس کی بنیاد اسی تیسرے راستے پر پڑی ہو.....‘اس وقت میرے اندر کی چیخ پر حضرت کی چیخ بھاری پڑ گئی تھی۔ مجھے یقین ہے، وہ لمحہ جس دوران میں حضرت کو دیکھ رہا تھا، وہ لمحہ رُک گیا تھا۔ وقت کی چال ٹھہر گئی تھی.......’ کیا اس میں نسبی مجاہد بھی شامل ہیں؟‘’ ہمہ اوست۔‘’ کیا اس میں مدارس بھی شامل ہیں؟‘’ ہمہ اوست۔‘ حضرت کی آنکھیں اب بھی بند تھیں......شمس کو اس تیسرے راستے میں تلاش کیجیے۔ مذہب کے اجتہاد میں سب جائز ہے۔حضرت بولتے ہوئے ٹھہرے،جیسے انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا ہو۔ انہوں نے اس بار غور سے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔تصفیہ قلوب اب کہاں جو خانقاہوں کی پرانی رسم تھی۔ہے ہے... اس کے باوجود.... ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔‘اب اس داستان میں میرے لیے لطف کی گنجائش نہ تھی۔ مسجد سے اذاں کی آواز آئی تو حضرت اٹھ کھڑے ہوئے۔’یقین ہے کہ جلد ملاقات ہوگی۔‘میں باہر نکلا تو شام کی سیاہی پھیل چکی تھی۔حضرت کی باتیں کانوں میں گونج رہی تھیں۔ حکومت نہیں نظریہ.... نظریہ کی حمایت.... تیسرا راستہ... پھر چوتھا راستہ.....آگے دھند ہے۔دھند میں ہر راستہ تاریکی کی طرف جاتا ہے.....گھر جانے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ کچھ خیال مجتمع ہوکر میرے ذہن میں آرہے تھے کہ آخر مولانا الیاس ہاشمی مجھ سے چاہتے کیا ہیں، اگر وہ سب کچھ جانتے ہیں تو اس کی مدد لینی اور رقم خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس لیے یہ خیال پختہ تھا کہ تیسرے راستے کے بارے میں ابھی مولانا بھی محض قیاس تک پہنچے ہیں، ہاں یہ ممکن ہے کہ شمس کے قتل میں ان کا کوئی ہاتھ نہ ہو۔ اب میں سڑک کو عبور کرکے سامنے کے بازار تک پہنچ گیا تھا۔ اسی درمیان فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف وینتی تھی۔’ ابھی مل سکتے ہو؟‘’ کوئی ضروری کام؟‘وینتی ہنسی۔’ضروری کام ہو تبھی ملوگے....‘’ میں آرہا ہوں۔‘ میں نے قہقہہ لگایا۔’ پورے شیطان ہو......‘جب میں وینتی کے گھر پہنچا، وہ لیپ ٹاپ پر جھکی ہوئی تھی۔ اب تاریکی کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ ہر شے پُر فریب اور دلکش نظر آرہی تھی۔ خاص کر وینتی۔ عورت ہر بار ایک نئی شکل میں ہوتی ہے۔ خاص کر اس وقت جب وہ آپ پر مہربان ہو۔ وہ آہستہ آہستہ کھلتی ہے اور آخر تک خود کو بے نقاب نہیں کرتی۔ وہ کچھ نہ کچھ جوہر چھپاکر لے ہی جاتی ہے جو اگلی بار اس کے کام آتا ہے....وینتی مسکرا رہی تھی—’ جب بہت سارے کتے گھیر لیں؟‘’ ہمیں اس وقت بھیڑیا بالکل بھی نہیں بننا چاہیے۔‘’ اور جب بہت سارے بھیڑیے گھیر لیں؟‘’ پھر بہتر ہے کہ ہم اپنی نیکیوں کو یاد کرلیں۔‘’ شاید خدا مہربان ہوجائے۔پورے شیطان ہو....‘ وینتی ہنسی.... یاد کرنا مطلب.... گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرنا۔رائٹ؟‘’ بالکل سہی۔‘’ شمس کے معاملے میں ایک گرہ رہ گئی ہے.....‘’ کون سی گرہ....‘’ اتیت جس کو تم ماضی کہتے ہو۔ ہوسکتا ہے، شمس کی زندگی کے ساتھ آج سے کچھ برس قبل کے واقعات وابستہ ہوں.....‘میں نے آہستہ سے دہرایا—تیسرا راستہ۔وینتی میری طرف دیکھ رہی تھی۔میں اس کی آواز پر اچھل گیا۔’مطلب.....‘’ ہم ابھی کے حالات پر نظر رکھ رہے ہیں۔جبکہ ہوسکتا ہے کچھ پرانے واقعات رہے ہوں..... کچھ ایسے واقعات جن سے بہت سے لوگوں کا تعلق رہا ہو.....‘وینتی ہنسی..... یہ بات میرے ذہن میں تھی عامر۔ میں مشن کے ایک خاص آدمی سے ملی او راس نے بتایا، ذرا پیچھے جاؤ۔ ذرا پیچھے جاؤکے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟‘’ اتیت؟‘’ رائٹ..... یہ دیکھو.....‘’ اس درمیان گھرآ کر میں نے سیاست کے کئی دنگل دیکھے—جن کا تعلق۷۔۵ برس پہلے سے تھا۔ مجھے یہاں کامیابی ملی.....‘اس نے لیپ ٹاپ پر دکھایا۔چیخنے چلانے کی آوازیں تھیں...... میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جسے کمال مہارت سے وینتی نے حاصل کیا تھا.....‘وینتی نے پھر کہا.....’ہوسکتا ہے.... ہمارا قیاس درست نہ ہو۔ مگر کوشش کرنے میں کیا حرج ہے.....‘’ یہ حادثہ تو ہوا تھا اور اس حادثے میں......‘’ کچھ لوگ بھیڑیے بن گئے تھے۔‘’ اور جب بہت سے بھیڑیے آپ کو گھیر لیں؟‘ وینتی مسکرائی۔’ پھر ایک تیسرا راستہ کھلتا ہے.....‘اس بار وینتی چونکی تھی.... تیسرا راستہ۔میں زور سے ہنسا۔ ’تم نہیں سمجھوگی۔‘اس تیسرے راستے سے اچانک ایک چہرہ میرے سامنے آگیا تھا۔ میں اس چہرے کو ہجوم کے درمیان تیزی سے بھاگتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ڈڈ’ کیا تم ٹھیک ہو؟‘’ نہیں۔ہم سب اپنی اپنی موت اٹھائے پھر رہے ہیں؟‘’ کیا دلبر نگر میں کچھ ملنے کی امید ہے؟‘’ موت کا سایہ۔ ایک مدت گزر گئی، لیکن یقینا موت کا سایہ موجود ہوگا۔‘یہ ددّو شاستری تھا، جس نے چوڑی مہری کی پینٹ پہن رکھی تھی، ایک کھادی کا کرتا اس کے بدن پر جھول رہا تھا۔ وہ دلبر نگر اسٹیشن پر اترتے ہوئے مجھے خاصہ پریشان نظر آیا۔’ ۳۱۰۲۔ ایک قیامت آئی تھی۔‘’ کیا قیامت گزرگئی۔؟‘’ مجرم آزاد ہوگئے۔ چالیس سے زیادہ مجرم....‘موسم خزاں کی شام— ہر طرف بکھری ہوئی چیخوں سے معمور تھی۔ فضاکی موسیقی میں بھی درد شامل تھا۔ اس وقت باہر نکلتے ہوئے آسمان پر بڑے بڑے بادلوں کے ٹکڑے دکھائی دیے۔خدشہ اس بات کا تھا کہ کہیں بارش نہ ہوجائے۔ کیا یہاں زندگی کے آثار باقی ہیں؟ کیا جو حادثہ ہوا وہ غیر متوقع نہیں تھا۔ شکوک وشبہات کے ہر راستے میں ایک خون کی ندی آتی ہے۔جب گھر سلگ رہے ہوں گے۔ کیا کچھ لوگ ایسے حادثوں سے خوش بھی ہوسکتے ہیں۔؟’ وہاں کچھ گھوڑے والے بھی تھے۔ کچھ بنکر بھی مگر جوبھی تھے، ایک خاص کمیونٹی کے۔‘ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔ ہم اسٹیشن سے باہر نکل آئے تھے۔ کچھ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ کچھ آٹو والے تھے، جو سواریوں کے انتظار میں تھے۔اسٹیشن سے بائیں طرف ایک رکشہ اسٹینڈ تھا۔ کچھ مسافر تھے، جو سواریوں کے منتظر تھے۔ ایک مسلمان فقیر نظر آیا تو ددّو شاستری نے حیر ت سے دیکھا۔ پینٹ سے نکال کر دس کا سکہ اس کے ہاتھوں میں رکھ دیا۔ میرے طرف دیکھا۔ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔’ کچھ دیر اسٹیشن سے باہر کا نظارہ کرتے ہیں.....‘’ مگر کیوں؟‘ میں نے دریافت کیا۔’ یہاں کہانیاں ہی کہانیاں ہیں۔ دلبر نگر۔ ۴۱۰۲ میں ملک کا انتخاب ہوا تھا۔‘ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔ ملک کی سب سے بڑی ریا ست جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے بھی بڑی ہے۔ ۰۸ سیٹ مطلب حکومت کا فیصلہ...... اور اس فیصلے کے درمیان.....‘ددّو شاستری خاموش تھا.....’ایک مہرہ بلکہ وزیر دلبر نگر بھی ثابت ہوا۔ وہ دیکھو......‘ہم باہر ایک پتھر کی بینچ پر بیٹھ گئے۔ کچھ نوجوان زعفرانی لباس میں، پیشانی پر بڑا سا ٹیکہ لگائے جارہے تھے۔دوسری طرف سے سادھوؤں کا ایک ہجوم آرہا تھا۔ سڑک ٹوٹی ہوئی تھی اور دور تک کچی دکانیں تھیں۔ زیادہ تر دکانوں پر ویشنو بھوجن لکھا ہوا تھا۔شدّھ شاکا ہاری کھانے۔’ جنگیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔‘ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔’جنگوں سے ایک نئی تہذیب برآمد ہوتی ہے۔ اس تہذیب میں جنگ کے نئے صفحے لکھے ہوتے ہیں۔جنگیں ماضی کی وراثت کو نہیں ڈھویا کرتیں۔چنگیز، ہلاکو، نادر شاہ.... جنگ کی تہذیبیں ہربار نیاہلاکو پیدا کرلیتی ہیں۔ نیا چنگیز اور نیا نادر شاہ..... ہزار برسوں کی تاریخ بھی یہی تھی۔ غوری چاہتا تو ایران کے قریب پارسیوں کے آتشکدہ کو برباد کر سکتا تھا مگر وہاں کیا ملتا۔ یہاں سومناتھ کا مندر تھا۔ سونے اور ہیروں سے بھرا ہوا۔ مذہب کے ہزار رنگ۔ ان میں سب سے پختہ رنگ انتہا پسندی کا ہے۔ یہ انتہا پسندی دونوں طرف رائج ہے.......‘سادھوؤں کا ہجوم گزر گیا۔ ان کے جانے کے بعد دو تین ناگا سادھو بھی نظر آئے جو ننگ دھڑنگ تھے اور جنہوں نے سرتا پا اپنے جسم پر بھبھوت مل رکھا تھا۔ میں نے ددّو شاستری کی طرف دیکھا۔’ ایک حد تک تم صحیح ہو۔بڑی جنگوں کے درمیان چھوٹی جنگیں مسلسل چلتی رہیں۔آزادی کے بہتّر برس بعد بھی جنگیں جاری ہیں۔یہ جنگیں فرقہ وارانہ فسادات میں تبدیل ہوچکی ہیں لیکن فسادات میں کون مارا جاتا ہے؟ پولیس کس نظام کے تحت کام کرتی ہے؟ حکومت کی منشا کیا رہتی ہے۔ ایک مہذب دنیا میں ہزارو ں سوالات ہمیں پریشان کرتے ہیں اور خاص کر یہ فسادات، جو ہماری بھاگتی دوڑتی زندگی کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔‘’ تمہیں ٹروجن کی جنگ یاد ہے؟‘ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔ میں خاموش تھا۔فاختائیں غائب ہوگئیں۔آسمان پر گدھوں کا ہجوم تھا۔ گدھ غائب نہیں ہوئے تھے۔واپس آگئے تھے۔ یہ گدھ جاتے کہاں ہیں۔یونانیوں نے فتح حاصل کی اور ٹرائے (Troy) کو جلاکر راکھ کردیا۔ یہ فتح کا نشہ بھی عجیب ہوتاہے۔ کچھ ہی ٹروجن اس جنگ میں زندہ بچ پائے۔ ان میں ایک مشہور جنگجو بھی شامل تھا، جس نے بعد میں روم شہر کی بنیاد رکھی۔ ٹرائے کی جنگ محبت کے لیے ہوئی تھی۔محبت جو آہستہ آہستہ نفرت میں تبدیل ہوگئی۔ٹرائے کی جنگ ہیلن کے لیے ہوئی تھی۔ ایک جنگ جو۲۱ویں اور ۳۱ویں صدی قبل مسیح کے درمیان لڑی گئی..... اور محبت کی اس جنگ نے ایک شہر کو تباہ اور برباد کردیا۔ قدیم یونانی اساطیر کے مطابق دیوتایلیوس کی شادی سمندر کی دیوی سے طے ہوئی۔ بادشاہ اس دعوت میں ایرس کی دیوی کو دعوت دینا بھول گیا۔ اس دعوت میں بہت سی  خوبصورت عورتیں موجود تھیں۔ ایرس کی دیوی نے دیوتا یلیوس سے انتقام لینے کی تیاری کی...... اور دل ہی دل میں کہا کہ تمہاری اس جرأت کو ہلاکت میں تبدیل کردوں گی۔بغیر بلائے وہ دعوت میں شریک ہوئی اور اس نے سونے کا ایک سیب موجود عورتوں کی طرف پھینکا، جس پر تحریر تھا،’اس چہرے کے لیے جس سے زیادہ خوبصورت چہرے کا تصور موجود نہیں۔‘اس تحریر کو پڑھ کر موجود خواتین کے درمیان خود کو سب سے خوبصورت ثابت کرنے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ ان میں کئی دیویاں شامل تھیں۔ ایک دیوی کا نام ہیرا تھا۔ یہ آسمان کی دیوی تھی۔ ایک دیوی ایتھینا تھی جو حکمت کی دیوی کہلاتی تھی۔ ایک دیوی افرودتیہ تھی جو محبت کی دیوی کہلاتی تھی۔تینوں دیویاں محبت کے تاج کو اپنے سر پر رکھنا چاہتی تھیں۔میں محبت ہوں، جس کی ضرورت ہے—میں حکمت ہوں،جو محبت اور اقتدار دونوں کے لیے ضروری—میں آسمان کی دیوی ہوں اور حسن کے معراج پر بیٹھی ہوں —محبت، حکمت اور آسمان کے درمیان تنازعہ بڑھا توٹرائے کے بادشاہ نے  فیصلہ کی ذمہ داری اپنے بیٹے کے سپرد کی۔ حکمت نے محبت کی طرف دیکھا اور محبت نے آسمان کی طرف...... اور ہمیشہ قائم رہنے والی محبت کو یقین تھا کہ یہ تاج اس کا ہے۔ٹرائے کے بادشاہ نے فیصلہ کرتے ہوئے اس بات کو نظر انداز کیاکہ محبت کے راستے میں بھیانک تباہی کو بھی دخل ہوتا ہے۔محبت اکثر جیت کر بھی ہار جاتی ہے۔ جس وقت بادشاہ کے بیٹے نے فیصلہ سنایا اس وقت محبت کی دیوی ہیلن کے لباس میں تھی۔ہیلن کی صورت میں تھی۔ہیلن اسپارٹا کے بادشاہ کی بیوی تھی اور اس وقت دنیا کی سب سے خوبصورت عورت میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ ٹرائے کے بادشاہ کا بیٹا جس نے فیصلہ سنایا تھا، اسپارٹا کے بادشاہ سے ملا۔ اس کا مہمان بن کر محل میں ٹھہرا اور ہیلن کو بھگاکر ٹرائے لے آیا۔ اسپارٹا نے یونانی شہزادوں سے مدد مانگی اور ہیلن کو واپس لانے کا تہیہ کرلیا۔ یونانی فوج نے ٹرائے پر حملہ کردیا۔ جنگ برسوں چلتی رہی۔ ٹرائے کے شہزادے نے اپولوسے مدد مانگی لیکن یونانیوں کی مکاری کے آگے ٹرائے کی فوج کمزور پڑگئی۔ یونانیوں نے فتح کے لیے لکڑی کے گھوڑے تیار کیے اور یہ ٹروجن گھوڑے شہر کی فصیل کے چاروں طرف کھڑے کردیے گئے۔ ٹرائے کے لوگوں نے سمجھا کہ یونانیوں نے زبردست تیاری کے ساتھ حملہ کردیا ہے اور یونانیوں کی فوج ٹرائے میں داخل ہوچکی ہے— ٹرائے کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ ہیلن کو آزاد کرا لیا گیا۔ محل کی شاہی خاندان کی عورتیں قیدی بنا لی گئیں... اور بہت سے ٹروجن مردوں کی ناک کاٹ دی گئی۔نک کٹوے۔اس طرح ٹروجن باغیوں کی شناخت میں آسانی ہوتی تھی۔ددّو شاستری پاس سے گزرتے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا۔ اتفاق سے اس کی ناک کٹی ہوئی تھی۔سر پر ٹوپی تھی۔’ نک کٹوے......‘میں کچھ نہیں بولا۔ ادھر ادھر جاتے ہوئے رکشے والوں کو دیکھتا رہا..... اور یہ بھی بھول گیا کہ دلبر نگر میں کیوں آیا ہوں۔ نک کٹوے.... ایک محبت جو آہستہ آہستہ ختم کردی گئی۔ ایک رسم جو آہستہ آہستہ اٹھ گئی—بادلوں کا ہجوم غائب تھا۔ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔ ’ کیاسوچنے لگے....؟‘’ ہوانے رخ تبدیل کردیا ہے۔‘’ سیاست میں صرف ایک ہی ہوا ہے۔‘’ سیاست ہی کیوں؟‘’ ہندو ہوا اور مسلم ہوا.....‘ ددّو شاستری زور سے ہنسا۔ چلو چلتے ہیں۔دلبر نگر کتنا خوبصورت نام ہے..... دلبر محبوب کو کہتے ہیں مگر یہ نام.....‘’ اب محبوب بھی کہاں ملتے ہیں۔‘کچھ دیر ہم نے پیدل چلنے کا فیصلہ کیا۔ اسٹیشن سے باہر نکلنے کے بعدرکشہ والوں، ٹیمپو والوں اور گاڑیوں کی آمد ورفت سے ٹریفک کا شور کانوں کو ناگوار گزر رہا تھا۔ فٹ پاتھ پر بھی دکانیں سجی تھیں۔ مگر شہر میں ایک عجیب طرح کی اداسی کا احساس ہوا۔ آگے بڑھنے پر ایک چھوٹا سا مال نظر آیا۔ مال کے قریب کچھ مسلمانوں کی دکانیں بھی تھیں۔حادثوں کو بھولنے میں کیا وقت لگتا ہے؟ یا کچھ حادثے بھلانے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔نہ فراموش کیا جائے تو حادثے زندگی کا روگ بن جاتے ہیں۔اس لیے یہ سوال اہم تھا کہ کیا اس شہر نے چھ سات برس قبل ہوئے حادثوں کو فراموش کردیا ہے۔؟ قصبہ جیٹھوارہ، ہمیں اس قصبے کی طرف جانا تھا۔ حادثے کا شکار یہ قصبہ بھی ہوا تھا۔کچھ دوری پر ایک ٹیمپو والازور زور سے جیٹھوارہ کانام لے کر چلاّ رہا تھا۔ ایسے کئی ٹیمپو ایک قطار سے مسافروں کو ’بھرنے‘ کے لیے کھڑے تھے۔ددّو نے میری طرف دیکھا اور ہم ایک خستہ سے ٹیمپو میں سوار ہوگئے۔ آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ایک کچا راستہ شروع ہوا۔ اس کچے راستے پر ٹیمپو چلانا آسان نہیں تھا۔ ٹیمپو بار بار اچھل رہا تھا۔ آگے کچھ دور جانے کے بعد ایک ٹوٹی سڑک تھی۔ شاید کچھ دن قبل ہی بنی تھی۔ سڑک سے کچھ آگے بڑھنے کے بعد دونوں طرف درختوں کی قطار تھی۔ایک کنواں تھا، جس کے پاس کوئی آبادی نہیں تھی۔ کنویں کے ساتھ دوچار مکان تھے، جن میں شاید اب کوئی نہیں رہتا تھا۔ہم جیٹھوارہ میں داخل ہوچکے تھے۔شام کے چھ بج گئے تھے۔سورج غروب ہونے کی تیاریاں کررہا تھا۔ کچھ آگے ٹیمپو اسٹینڈ تھا۔ یہاں سے ہمیں کچھ دور تک پیدل چلنا تھا۔معلوم ہوا کہ اس بستی میں پہلے ۰۰۵ گھر ہوا کرتے تھے، اب صرف چار سو گھر ہیں۔۳۱۰۲ کے فسادات میں زندہ رہنے والے اس حد تک خائف تھے کہ راتوں رات اپنا آشیانہ چھوڑکر چلے گئے۔مسافروں کے ساتھ اتر کر، ہم ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ ایک نوجوان تھا جس نے ہمیں شک کی نگاہوں سے دیکھا۔ اس نے لوکل لہجہ میں دریافت کیا۔’ کس سے ملنا ہے؟‘’ کسی سے نہیں۔‘’ پترکار ہو ؟‘ اس کے لہجے میں نفرت شامل تھی۔’ نہیں۔‘’ پھر کس لیے جارہے ہو؟‘’ یونہی۔‘’  پھر ضرور پترکار ہوگے۔‘ددّو نے میری طرف دیکھا۔نوجوان نے آگے کہا،’جیٹھوارہ کے لوگ پتر کاروں کو پسند نہیں کرتے۔ تم لوگ بہت اُلٹا پلٹا لکھتے ہو۔‘’ ہم پترکار نہیں ہیں۔‘”ٹھیک ہے۔‘ نوجوان آگے بڑھ گیا۔ ددّو شاستری نے مجھے رُکنے کا اشارہ کیااور کہا۔’ ایک راؤنڈ دیکھتے ہیں۔ ویسے یہاں کچھ حاصل ہونے کی امید نہیں ہے۔‘’ مجھے بھی یہی لگتا ہے۔‘مجھے یقین تھا کہ میں کسی شہر خموشاں میں آگیا ہوں۔ ایک کچی دیوار ان مکانوں کے قریب سے دور تک چلی گئی تھی۔ کچے پکے مکانات تھے۔ کچھ مکان دو تین منزلہ تھے۔ کئی مکانات خالی نظر آئے۔ایک سوال تو یہ بھی تھا کہ کیا ان مکانا ت میں اب تک کوئی نہیں رہتا۔ کیا یہ وہی لوگ تھے جو راتوں رات اپنا آشیانہ چھوڑ گئے اور دوبارہ پلٹ کر نہیں آئے۔ قصبے کے قریب ایک قطار سے کئی دکانیں تھیں۔ کچھ لوگ خریداری بھی کررہے تھے۔ مگر ان سب کے باوجود ماحول میں اداس نغمہ گونجتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔پاس میں ایک مندر بھی تھا، جہاں سے بھجن کی آواز آرہی تھی۔ اب تک عمارتوں میں روشنی ہوچکی تھی۔ کچھ عورتیں تھیں جو سج سنور کر مندر جارہی تھیں۔ اچانک وہ نوجوان دوبارہ نظر آیا۔وہ مندر سے لوٹ رہا تھا۔ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا، پھر نوجوان کو اشارہ کیا۔اس بار نوجوان کے چہرے پر کہیں کوئی ناراضی نہیں تھی، وہ چلتا ہوا ہمارے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ددّو نے پوچھا۔’ پانچ سوروپے کماؤگے ؟‘اس بار نوجوان کے چہرے پر خوشی تھی۔’ کیوں نہیں‘ نوجوان نے مسکرا کر کہا ’پترکار ہونا.....؟’ ہاں۔‘’ میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا۔ لاؤ پانچ سو کے نوٹ دو۔‘میں نے پانچ سو کا نوٹ بڑھایا۔نوجوان نے پوچھا۔ کیا نام ہے تمہارا۔ددّو شاستری نے کہا۔ میں ددّو شاستری اور یہ رویش کمار۔‘’ رویش..... وہ والا.....‘ نوجوان ہنسا۔ جو ٹی وی پر الٹا پلٹا بولتا ہے۔‘’ نہیں یہ وہ رویش نہیں ہے۔‘’ پھر ٹھیک ہے۔یہاں باہر سے پترکار ہی آتے ہیں اورمیں ہر پترکار کو اپنے چچا سے ملواتا ہوں۔‘’ چچا؟‘’ وہ پولیس میں ہیں۔ یہاں پاس میں ہی تھانہ ہے۔‘ددّو کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ لیکن وہ ایک ہزار لیں گے۔ میں اپنے گھر پر ہی بلا لوں گا۔‘’ ٹھیک ہے۔‘’ آؤمیرے ساتھ۔‘تھوڑی دور چلنے کے بعد نوجوان ایک گھر کے آگے رُکا۔یہ تین منزلہ پختہ مکان تھا۔گھر کے باہر دو گائیں بندھی تھیں۔ ایک مرد تھا، جو دودھ ’دوہ‘ رہا تھا۔ نوجوان نے آگے بڑھ کر باہر کا بیٹھکا کھول دیا۔ یہ چھوٹا سا کمرہ تھا۔ مذہبی کلینڈر جھول رہے تھے۔ ایک طرف دیوی دیوتا کی مورتیوں کے ساتھ چھوٹا سا مندر بھی بنا رکھا تھا۔ کمرے میں حبس تھا۔ چھت سے قدیم زمانے کا ایک پنکھا لٹکا ہوا تھا۔ ریک کے پاس دو تین آدھی جلی موم بتیاں بھی نظر آئیں، جو اس بات کی گواہ تھیں کہ اس قصبہ میں روشنی کا نظام درست نہیں ہے۔ دو کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ نوجوان نے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر کہا۔میں تھانے سے چچا کو لے کر آتا ہوں۔ تب تک میں سامنے سے چائے بھجواتا ہوں۔نوجوان کھلے دروازے سے نکل گیا۔اس درمیان ایک چھوٹا سا بچہ گلاس میں دو چائے لے کر آگیا۔اس کے ماتھے پر تلک لگا ہوا تھا۔ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔’ اب یہاں صرف ایک ہی قوم کے لوگ رہتے ہیں۔‘میرے اندر شدید طور پر ایک سنسناہٹ دوڑ گئی۔’ کیا یہ کوئی پرتیک ہے؟‘ ددّو میری طرف دیکھ رہے تھے۔’ پتہ نہیں۔‘’ اب ایسے کئی قصبے ملیں گے۔‘’ پتہ نہیں۔‘’ ایک ہی قوم۔‘ ددّو کے لہجے میں ناراضی پوشیدہ تھی۔ کیا یہ وجے کی علامت ہے؟ جشن کی؟‘’ پتہ نہیں۔‘’ لیکن اس نوجوان کو سب پتہ ہے۔‘’ جو ابھی ابھی یہاں سے اٹھ کر گیا ہے۔؟‘’ ہاں۔‘’ ایک راشٹر..... ایک دھرم......‘مجھے اب خیال آیا کہ یہ شہر مجھے شہر خموشاں کیوں لگ رہا تھا۔ خوش ہونے کے باوجود یہ لوگ ابھی بھی اس جشن کا حصہ نہیں بن سکے تھے جو خوشی انہیں کچھ لوگوں کے گھر چھوڑنے سے ملی تھی۔ یہ بھی ایک طرح کی بیزاری ہے کہ ایک رنگ مسلسل نگاہوں کے سامنے رہے تو کچھ دیر بعد یہ رنگ آنکھوں کو چبھنے لگتا ہے۔ یہ رنگ میں نے پہاڑوں پر بسنے والوں کی آنکھوں میں بھی دیکھے تھے، جنھیں پہاڑوں کی خاموشی بیزار بنا دیتی ہے۔کچھ دیر بعد نوجوان اپنے چچا کو لے کر آگیا۔ چچا کا نام ناگیندر پانڈے تھا۔ وہ تھانے میں حوالدار تھا۔ اس کا چہرہ سیاہ اور مونچھیں گھنی تھیں۔ کمرے میں ایک بستر بھی تھا۔ وہ بستر پر بیٹھ گیا۔ اس کا قد چھوٹا تھا اور چہرے سے مکاری و عیاری صاف نظر آتی تھی۔’ پہلے روپے دو۔‘میں نے پانچ سو کے دو نوٹ اس کی طرف بڑھائے۔ اس نے نوٹ اپنی یونیفارم کی جیب میں ڈال دیا۔ وہ زور سے ہنسا۔’ پیسہ بولتا ہے۔‘ددّو مسکرایا۔پیسہ چیختا بھی ہے۔ناگیندر کھلکھلا کر ہنسا۔ اس کے ہنسنے کا انداز بے حد ڈراؤنا تھا۔ll۳۱۰۲ء مئیپچھلی تین راتوں سے لگاتار ٹرک آرہے تھے۔ کبھی کبھی ایک ساتھ تین چار ٹرک۔ ٹرک کے گھڑگھڑانے کی آواز کچھ دیر تک رہتی، پھر خاموش ہوجاتی۔ جیٹھوارہ میں برہمن، یادو، کرمی، بنیا کے ساتھ پچاس خاندان مسلمانوں کے آباد تھے۔ محمد علی بھائی، شکیل میاں،نصیر میاں، امجد بھائی یہ چاروں دوست تھے اور جیٹھوارہ سے باہر ان کا کاروبار تھا۔ کاروبار اچھا چل رہا تھا۔ ان کی دکانیں دلبر نگر میں تھیں۔ ٹرک انہی کے گھر آیا کرتے تھے۔تھانہ کے انسپکٹر کو شک تھا کہ ٹرک میں مال کے ذریعہ کچھ اور لایا جارہا ہے۔ تھانیدار شیو پال یادو اونچی پہنچ کا آدمی تھا۔ سیاسی تعلقات تھے۔سب انسپکٹر رادھے چتر ویدی کو بھی شک تھا کہ جیٹھوارہ کی فضا کو  خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مگر جب تک اوپر سے کوئی آرڈر نہ آئے، وہ کسی بھی تفتیش سے گھبراتے تھے۔خاص طورپر شیو پال یادو سے ڈرتے تھے۔یوپی میں اس وقت یادؤں کی حکومت تھی۔ شیو پال کے پاس فون آیا۔ فون لکھنؤ سے آیا۔’ سب خیریت ہے؟‘’ نہیں سر۔‘’ ہمیں پتہ ہے۔‘یہ ستیندر یادو تھے۔ حکومت کے خاص آدمی۔ان کو جیٹھوارہ پرنظر رکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔شیو پال نے رات کے وقت آنے والے ٹرکوں کی اطلاع دی تو دوسری طرف سے کہا گیا۔’ ہمیں پتہ ہے۔‘’ پھر کیا کیا جائے۔؟‘’ معاملہ ذرا دھارمک ہے.....‘’ لیکن جیٹھ واڑہ پر اس کا اثر پڑ رہا ہے۔‘’ ہمیں پتہ ہے۔‘ دوسری طرف سے کہا گیا۔ الیکشن میں زیادہ دن نہیں ہیں۔’ پھر کیا کیا جائے۔؟‘’ ابھی کچھ مت کیجیے۔  انتظار کیجیے۔‘کچھ دن تک ٹرک کے آنے کا سلسلہ بند رہا۔ ایک مہینے بعد رات میں پھر ٹرک کے گھڑ گھڑانے کی آواز آئی تو شیو پال یادو، رادھے پولیس اہلکاروں کے ساتھ جائے واردات پر پہنچ گئے۔ ٹرک روکا گیا۔ڈرائیور نے بھاگنے کی کوشش کی تو انکاؤنٹر میں مارا گیا۔ ٹرک میں اسلحے تھے۔ اے کے۷۴بھی۔پولیس نے جب امجد میاں، محمد علی بھائی، شکیل میاں اور قیصر میاں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو کئی گھروں کے مسلمانوں نے دھاوا بول دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جیٹھ واڑہ کی فضا خراب ہوگئی۔ انکاؤنٹر میں چاروں مارے گئے۔پولیس نے بڑی تعداد میں ان کے گھر سے اسلحے برآمد کیے اور گھر کو سیل کردیا۔تنازعہ نے دیکھتے ہی دیکھتے فرقہ وارانہ فسادات کا رُخ اختیار کرلیا۔ کافی لوگ مارے گئے، ان میں دونوں مذہب کے لوگ تھے۔ قصبہ میں کرفیو لگا دیا گیا۔ ایک ہفتہ تک لگاتار جیٹھواڑہ اماحول خراب رہا۔ ماحول اتنا خراب تھا کہ دس دن کے اندر مسلمانوں میں سے جو لوگ زندہ بچے تھے، وہ جیٹھواڑہ سے ہجرت کرگئے......٢٠١٣ نومبرلکھی پورہ  کیمپایک کیمپ سے جمیلہ کی چیخ گونجی تو آس پاس کیمپوں میں رہنے والی عورتیں جمع ہوگئیں۔ جمیلہ حاملہ تھی اور وقت قریب آپہنچا تھا۔ کیمپ میں چاروں طرف بدبوکی حکومت تھی۔ رہائش کے علاوہ کوئی بھی انتظام نہیں تھا۔ پانی کا ایک ٹینکر صبح اور شام آیا کرتا تھا۔ ان حفاظتی کیمپوں میں رہنے والوں کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ یہاں محفوظ بھی ہیں یا نہیں یا ان لوگوں کو کب تک ان کیمپوں میں رہنا ہوگا۔کبھی ٹی وی چینلز والے چلے آتے۔ کبھی ملی تنظیموں کے لوگ آکر گفتگو کرتے۔ کبھی پولیس بھی دو چار چکر دن میں کاٹ جاتی۔حکومت کے آدمی بھی آس پاس گھومتے رہتے۔ پانی کا ٹینکر آتا تو پانی بھرنے کے لیے قطار لگ جاتی۔ قطارمیں اکثر بدنظمی سامنے آتی اور گالیوں تک کی نوبت آجاتی۔لکھی پورہ کیمپ میں زندگی گزارنے والے ہر عمر کے لوگ تھے۔ ان میں کچھ بزرگ مرد اور عورتیں بھی تھیں۔ بزرگوں نے تقسیم کے دور کی کہانیاں سنی تھیں اب جو کچھ وہ محسوس کررہے تھے، وہ تقسیم کی ہولناک کہانیوں سے کہیں زیادہ ڈراؤنا تھا۔ایک تیز بدبو حفاظتی کیمپوں میں بڑھتی جارہی تھی اور کیمپ میں رہنے والے یہ سوچنے پر بھی مجبور تھے کہ اگر یہی حال رہا تو وہ بیماریوں سے مرجائیں گے۔حفاظتی کیمپ نام کا کیمپ تھا، یہاں آنے کے بعد بیشتر لوگ بیمار ہوگئے۔ آشیانے لٹ چکے تھے، یہ درد اپنی جگہ۔ دوسرے آشیانے کی تلاش اس زندگی میں ممکن ہوگی بھی یا نہیں،یہ سوال بھی منہ پھاڑے اپنی جگہ کھڑا تھا۔ حکومت نے معاوضے کا اعلان تو کیا تھا مگر اب تک کسی کو معاوضے کی کوئی رقم نہیں ملی تھی اور نہ ملنے کی امید تھی۔ پہلی اور دوسری ریاستی حکومت تک  کیمپ میں رہنے والوں کے لیے زندگی عذاب بن چکی تھی۔اس  کیمپ میں ۰۸ برس کے محمد ہاشم تھے، جو ٹی بی میں مبتلا تھے۔ حفاظتی کیمپ میں اب تک ۵۱ سے زیادہ لوگوں کی جانیں جاچکی تھیں۔ محمد ہاشم کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ محبت کی رسم کیو ں اور کیسے ٹوٹ گئی؟ پہلی جنگ عظیم آزادی کے بعد سے یہ پورا علاقہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت تھا۔۷۵۸۱ء کی آگ بھی یہاں نہیں پہنچی تھی۔ یہ آگ میرٹھ تک پہنچی مگر دلبر نگر کو نہیں چھو سکی۔ وہیں کیمپ میں مولانا ناظم علی ہیں جو بچوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ اب  کیمپ میں موت کا انتظار کررہے ہیں۔ان کی پیدائش آزادی سے پندرہ سال پہلے ہوئی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنی نفرت نہیں دیکھی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ دلبر نگر کے غیر مسلم بچے ان کے پاؤں چھوکر ان سے آشیرواد لیا کرتے تھے۔ حملہ آوروں نے ان کی، بارہ کمروں کی حویلی جلادی۔ ان کو یقین ہے، یہ لوگ باہر سے آئے تھے...... اور فساد کے چھ ماہ قبل سے کچھ خطرناک سرگرمیاں اس علاقے میں بڑھ چکی تھیں۔ ملی تنظیموں کے لوگ بھی اس علاقے میں کئی بار دیکھے گئے اور اس بات کا اندازہ ہوچکا تھا کہ دلبر نگر میں کچھ خطرناک کھچڑی ضرور پک رہی ہے۔ لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر فسادات ہوں گے جو کئی خاندانوں اورسینکڑوں لوگوں کی تباہی کا باعث بن جائیں گے۔اسی کیمپ میں رہنے والی ایک بزرگ خاتوں نعیمہ بی نے بتایا کہ پہلی بار اس نے لو جہاد کا نام سنا۔ ایک ہندو لڑکی کسی مسلم لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی، لیکن یہ کوئی نئی بات تو نہیں تھی۔ ایسا تو ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ جاٹ مسلمانوں کے خلاف ہوگئے۔ پنچایت بنی۔ پھر پنچایت مہا پنچایت میں تبدیل ہوئی۔ پھر مہاپنچایت کے بعد مہا بھارت کا کھیل شروع ہوگیا۔ فساد سے چھ ماہ قبل ہندوؤں کے درمیان مسلمانوں کے لیے اتنی نفرت بھری جانے لگی کہ مسلمانوں نے خوف کے مارے گھروں سے نکلنا بھی بند کردیا تھا۔ باہر سے اسلحے آنے لگے تھے۔ لاؤڈسپیکر میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں دہرائی جاتیں۔چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے اندر بھی زہر بھرنے کی کوشش کی جاتی۔نعیمہ بی بتاتی ہیں کہ یہ تو ایک دن ہونا ہی تھا۔سیواڑہ بستی کی کہانی بھی ان کہانیوں سے ملتی جلتی ہے۔فساد متاثرین میں سب سے بڑی تعداد نچلے طبقے کے لوگوں کی تھی۔ خوشحال مسلمان بھی نشانہ بنے۔ کیمپ میں رہنے والے زیادہ تر کا تعلق سیفی، سلمانی جیسی مسلم برادریوں سے تھا، ان میں  زیادہ تعداد میں وہ لوگ تھے جو لوہار، دھوبی، بڑھئی جیسے پیشوں سے وابستہ تھے۔ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جو جاٹوں کے ملازم تھے۔ نفرت کی آگ پھیلی تو تمام رشتے ختم ہوگئے۔ متاثرین کو شکایت رہی کہ ان کو بچانے کے لیے ملی تنظیمیں سامنے نہیں آئیں۔ جب عذاب گزر گیا تو ایسے لوگ خیریت پوچھنے کیمپوں میں نظرآرہے ہیں۔سیلواڑہ کے کیمپ میں رہنے والے محمد حنیف کو خدشہ ہے کہ  مستقبل میں یہ نفرت مزید بڑھتی جائے گی۔ذات پات کی سیاست نے بھی فسادات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ کھاپ اور جتھے دار مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ پنچایتوں نے فسادات سے پہلے ہی مسلمانوں کی دکانوں سے خرید وفروخت پر پابندی لگادی تھی۔کیمپ کے سلیم بھی کھاپ پنچایت کو فسادات کے لیے قصور وار مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے چھوٹے معاملات بھی کھاپ پنچایت تک پہنچ جاتے ہیں۔ مثال کے لیے دو چھوٹے بچوں کی لڑائی۔ اگر ان میں دو ذات کے لوگ ہیں تو کھاپ کا فیصلہ مسلم بچے کے خلاف ہوگا۔ ہندو مسلم شادی کی بات ہوتو کھاپ پنچایت میں تلواریں کھیچ جاتی ہیں...... اور پھرمسلم خاندان کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ جب تک عشق کے خلاف انتقام پورا نہیں ہوجاتا، کھاپ پنچایتیں خاموش نہیں بیٹھتیں۔اب سب کو اذیت کا ذائقہ لگ چکا ہے۔بڑھئی کاکام کرنے والے انیس میاں نے بتایا کہ اب کھاپ پنچایت کے نام پرڈر لگتا ہے۔اب یہ پنچایتیں روز بیٹھنے لگی ہیں۔ کبھی بھی گاؤں والوں کو جمع کرلیا جاتا ہے۔ بستی کے ہندو اور مسلمان عرصہ پہلے دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔پھر فسادات کا سلسلہ— گاؤں کے گاؤں، بستی کی بستی مسلمانوں سے خالی ہوگئی۔عبدالرؤف کی سیواڑہ میں کپڑوں کی دکان تھی۔رؤف نے بتایا کہ تجارتی سطح پر پہلے ہندو مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔کئی جگہ دونوں برابر کے حصے دار تھے۔چینی اور گڑ کی ملیں ہندوؤں کی تھیں۔ لوہے کی بڑی بڑی ملیں مسلمانوں کے پاس تھیں۔ ملوں کے علاوہ دیگر کاروبار میں ۰۶ فی صد ہندو اور ۰۴ فی صد مسلمان شامل تھے۔ اب مسلمانوں کی تجارت ان علاقوں میں تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ سفینہ بی بی نے بتایا کہ اب سب کچھ اجڑ گیا۔ ایسا لگتا ہے، ہم کسی اجنبی ملک میں رہ رہے ہیں۔llوہ نیا انسان تھا اور اس کی پیدائش تیز بارش اور آندھی کے درمیان ہوئی تھی۔ لکھی پورہ کیمپ سے جمیلہ کی چیخیں گونجیں، اس وقت آسمان گرج رہا تھا۔ بدبوکی ایک تیز لہر تھی جو ماحول میں پھیلی ہوئی تھی۔ جمیلہ جس حصے میں تھی، اس حصے میں بھی زبر دست سیلن اور بدبو بھری تھی۔ عورتوں نے فیصلہ کیا کہ پاس میں ہی عیدگاہ ہے، جمیلہ کو لے کر وہیں چلتے ہیں۔ کیمپ کے مردوں نے منع کیا لیکن عورتوں میں غضب کا جوش تھا۔ کیمپ میں یہ کسی بچے کی پہلی پیدائش تھی۔ جمیلہ کا درد ناقابل برداشت ہوا جارہا تھا۔ عورتیں جمیلہ کو سمجھا رہی تھیں۔ کیمپ میں جندو بھائی رکشہ چلاتے تھے، وہ رکشہ لے کر آگئے۔ جمیلہ کو کسی طرح رکشے پر سوار کیا گیا۔ بادل گرج ضرور رہے تھے لیکن اس بات کی امید کم تھی کہ بارش ہوگی۔ بارش کے ہونے کا احساس ہوتا تو شاید جمیلہ کی کوٹھری میں بیٹھی عورتیں مان بھی جاتیں۔ کچھ عورتوں نے پیدل ہی عید گاہ جانا قبول کیا۔ ویسے بھی چار قدم کا راستہ تھا اور یہ بات  کیمپ کے مرد اور عورتوں کو تقویت پہنچا رہی تھی کہ پہلے بچے کی پیدائش عید گاہ میں ہوگی۔عید گاہ والا علاقہ سنسان تھا۔ گھر فساد میں لٹ چکا تھا اور اب  کیمپ کے پہلے بچے کی پیدائش۔چالیس پچاس کی تعداد میں مرد عورتوں کا قافلہ عید گاہ پہنچ گیا۔ عید گاہ کی مٹی والی زمین پر چھوٹی چھوٹی گھانس اگ آئی تھی۔ ببول کے درخت بھی تھے۔زمین ابھی خشک تھی مگر بارش ہوجانے کے بعد چلنا مشکل ہوجاتا تھا۔جس وقت قافلہ عید گاہ پہنچا، ٹھیک اسی وقت بادل زور سے گڑ گڑائے، بلکہ بادلوں کا کارواں آہستہ آہستہ نیلے آسمان پر پھیل گیا۔ بجلی چمکی اور کچھ ہی دیر میں بارش شروع ہوگئی۔جمیلہ کو رکشہ سے اتارا گیا۔ وہ درد سے تڑپ رہی تھی۔ جمیلہ کو ایک بہتر جگہ لٹادیا گیا۔ ان عورتوں نے ساری تیاری کی ہوئی تھی۔ یہ وہ عورتیں تھیں، جن کو بچے کے پیدائش کے لیے کسی اسپتال یا کسی سرجری کی ضرورت نہیں ر ہتی ہے۔بچہ ہونے، نال کاٹنے تمام عمل میں یہ عورتیں ہوشیار تھیں.... اور جس وقت بارش کی بوندوں نے برسنا شروع کیا، ان عورتوں نے جمیلہ کے ارد گرد گھیرا بنالیا۔ دور سے یہ منظر دیکھنے پر ایسا لگتا تھا جیسے بارش میں زمین سے گندھی عورتوں نے رقص کرنا شروع کردیا ہو۔ مرد الگ بھیگ رہے تھے۔ وقت قریب آچکا تھا۔ موقع دیکھ کر عورتوں نے مقامی گیت گنگنانے شروع کردیے۔ یہ ایسا گیت تھا، جس میں صرف جمیلہ کے نام کو سنا جاسکتا تھا۔بارش میں گھیرا ڈالے ہوئے عورتیں بھیگ رہی تھیں۔ مگر ان عورتوں کا ہدف یہی تھا کہ بارش کے قطروں سے جمیلہ کو محفوظ رکھا جائے۔جب گھیرا کم ہونے کا احساس ہوا تو ان عورتوں نے مردوں کوآواز دی۔ اس طرح اب اس گھیرے میں مرد بھی شامل ہوگئے۔بجلی چمک رہی تھی۔بادل گرج رہے تھے۔بارش تیز ہوگئی تھی۔ یہ نئے انسان کے طلوع ہونے کا منظر تھا جو اس لہو موسم میں، تیز بارش میں، گھاس پھوس اور پتھروں کے درمیان پیدا ہونے والا تھا۔اس پُر آشوب موسم میں، نفرت کی فضا میں اس نے آنے کے لیے یہی وقت مقرر کیا تھا۔بارش کے قطرے روحانی موسیقی میں تبدیل ہوگئے تھے۔اور میرے ننھے شہزادے‘تمہارا استقبالتم اس تیز آندھی اور بارش میں آئےتمہارا استقبالتم زرد موسموں کے درمیان آئےتمہارا استقبالاور بہت جلد ہم تمہیں پاؤ ں پاؤں چلتا ہوا دیکھیں گےتم امید کے گھوڑے پر سوار ہوگےکیونکہ تم ایک نئی دنیا کے جشن کے ساتھ آئے ہواس موسلا دھار بارش میںاور عید گاہ کی نرم زمین پرتمہارا استقبال......عورتیں ابھی بھی جمیلہ کو گھیرے میں لیے ہوئے گیت گارہی تھیں۔ مرد بھی ان کے سر میں سُر ملا رہے تھے۔آسمان میں تیز بجلی چمکی۔ نوزائیدہ کے رونے کی آواز ابھری۔ گھیرا ڈالے مرد عورتیں اس بار خوشی سے ناچنے لگے۔ گھیرے کے اندر بیٹھی عورت نے آواز لگائی۔ بیٹا ہوا ہے۔اس بار ان کی خوشیوں میں بادل کی گرج کا اضافہ ہوچکا تھا۔یہ کیمپ میں پہلے بچے کی پیدائش تھی۔...سیواڑہ، لکھی پورہ کو دیکھنے سے قبل یہ پوری داستان ددّو شاستری نے سنائی تھی۔ اب نیند نے گھیرنا شروع کردیا تھا۔چھ برس یادوں کو بھولنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔صبح ہوتے ہی ہم نے ہوٹل چھوڑ دیا۔ بس سے سیواڑہ کا راستہ دوگھنٹے کا راستہ تھا۔ ہم پرانی یادوں سے کیا برآمد کرنے جارہے تھے، یہ ہمیں بھی پتہ نہیں تھا۔ بس میں کافی بھیڑ تھی۔ مشکل سے ہمیں کھڑے ہونے کے لیے جگہ ملی۔ سیواڑہ بس اسٹینڈ کے پاس بس رُک گئی۔ پہلے ہم نے ایک سڑک چھاپ ہوٹل کے پاس کھڑے ہوکر چائے پی۔پھر آس پاس گھومنے کا ارادہ کیا۔آزادی کے بعد پہلی بار ان بستیوں کو دیکھنے کا اتفاق ہورہا تھا، جہاں سے مسلمان ہجرت کرگئے تھے۔ اب ان بستیوں میں مسلمانوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ایک مسجد ملی، جو ٹوٹی ہوئی تھی اور چھ برس پرانی کہانی سنا رہی تھی۔ سڑک کے کنارے کنارے چھوٹی دکانیں تھیں۔ ہم ان سے گزرتے ہوئے آگے بڑھے تو تقریباً ایک میل چلتے ہوئے اپنے گھر کے باہر دھنی رمائے چارپائی پر بیٹھے ایک صاحب نظر آئے۔ کبھی کبھی چھٹی حس کچھ ایسا کہہ جاتی ہے، جس کے بارے میں آپ کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ ایک چھوٹا سا کچا گھر تھا۔ چارپائی پر بیٹھے شخص کانام رما شنکر تھا۔ عمر ۱۵ کے آس پاس۔ ماتھے پر ٹیکہ لگا ہوا تھا۔ ہم نے نمستے کے لیے ہاتھ جوڑے تو انہوں نے چارپائی پر بیٹھنے کے لیے کہا۔سورج شان سے نکلا تھا اور دھوپ کی قرمزی شعاؤں نے سیواڑہ پر اپنا آنچل پسار دیا تھا۔’ اجنبی ہو.....‘’ جی۔‘’ نام کیا ہے؟‘ رما شنکر نے ددّو شاستری سے پوچھا۔ددّو نے اپنا نام بتایا۔ پھر رما شنکر نے مسکراکر میری طرف دیکھا۔’ تم تو مسلمان ہو۔‘اب چونکنے کی میری باری تھی۔’ مسلمان اپنے طور طریقوں سے پہچانے جاتے ہیں۔‘ رما شنکر نے مسکرا کر کہا۔ ’سیواڑہ میں سب اپنے تھے۔ غیر کون تھا۔ ایک ہوا چلی اور سب کچھ چلا گیا۔ میں نے آنکھوں کے سامنے اپنے دوست زین العابدین کو مرتے ہوئے دیکھا۔ موت کا تانڈو چلا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ ختم۔ جو اپنے تھے، وہ گھروں کو چھوڑ گئے۔ رما شنکر رہ گیا۔ نام کا پنڈت۔ ان لوگوں نے دھرم کو سمجھا ہی کیا ہے۔ لیکن ایک بات ہے۔ یہاں بہت سے ایسے لوگ ہیں اب جنہیں چھ برس پہلے کے حادثے پر افسوس ہورہا ہے۔‘ رما شنکر خاموش ہوگئے۔ جیسے یادوں کا ایک کارواں آنکھوں کے آگے سے گزر گیا ہو۔ وہ اب بھی اسی کارواں کے ساتھ تھے۔’چھوٹے چھوٹے معصوم بچے تھے۔ عورتیں تھیں جن کو ہم بھابھی بھابھی کہتے تھے۔ ان کی شادیاں اسی گاؤں میں ہوئیں۔ ہمارے لیے سارے پرب تہوار ایک جیسے تھے۔ فرق بس لباس کا تھا۔ یہاں ایک مزار ہوا کرتی تھی۔ وہ مزار اب بھی ہے۔ ستم ڈھانے والے مزار توڑنے کی ہمت نہیں کرسکے۔ عورتوں کی عزت کو لوٹا۔ بچوں کو گولیاں ماریں..... اور....‘رما شنکر کی آنکھوں میں آنسو جھلملارہے تھے۔’ سب کچھ ان آنکھوں نے دیکھا۔‘ رما شنکر نے ہنستے ہوئے کہا.....’اسی قصبے میں میرا ایک دوست تھا، رحیم میاں۔ بڑا دلچسپ۔ اس کو میرے پاس بیٹھنے میں بہت مزہ ملتا تھا۔ وہ اردو کی کتابیں خوب پڑھتا تھا۔ جانتے ہو ایک دن اس نے کیا کہا۔ مجھے ابھی بھی اس کی بات یاد ہے....‘ رما شنکر دوبارہ ہنسے۔ اب وہ سنجیدہ تھے۔  ’رحیم کہتا تھا، مسجدوں میں رقص کرنا منع ہے۔مگر جاہل مسجدوں میں ناچا کرتے ہیں  یہ جاہل مندروں میں بھی ناچتے ہیں۔سڑکوں پر بھی۔ ان جاہلوں نے مذہب کو نہیں سمجھا۔ گاؤں کے حسن کو تباہ کردیا۔‘’ مگر یہ سب اچانک......‘ ددّو شاستری نے پوچھا۔’ کیا اچانک کچھ ہوتا ہے۔؟اچانک کچھ بھی نہیں ہوتا۔‘’ پھر یہ سب....‘’ پرانے زخم کیوں کریدتے ہو میاں.....‘’ کیا زخم بھر گئے؟‘’ نہیں میاں۔زخم تو جان جانے کے بعد بھی نہیں بھریں گے۔‘’ پھر بتائیے... یہ سب کیوں اور کیسے ہوا۔‘ میں نے رما شنکر کے چہرے کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر اچانک جھرّیاں پیدا ہوگئی تھیں۔’ کچھ باہر لوگ آنے لگے تھے۔‘’ باہری.....‘’ جو ہمارے قصبے کے نہیں تھے۔ شہر سے تھے۔دلّی کے تھے۔ لکھنؤ کے تھے۔ ممبئی کے تھے....‘’ کیوں؟ ‘’ یہ لوگ سارا دن آس پاس منڈلایا کرتے تھے۔ کبھی مکھیا سے مل رہے ہیں۔ کبھی سرپنچ سے۔ ان میں......‘رما شنکر نے میری طرف دیکھا۔’ان میں تمہارے لوگ بھی تھے۔ ایک نوجوان تھا۔ اس کی تصویر میرے بیٹے کے پاس ہوگی۔ کچھ لوگوں کے ساتھ آیاتھا۔ میرے بیٹے سے دوستی ہوگئی۔وہ مسجد میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ٹھہرا تھا۔ میرے بیٹے نے اس کے ساتھ تصویر بھی لی تھی......‘رما شنکر کہتے کہتے رُک گئے۔’ پھر وہ کہاں چلا گیا؟ ‘’ جہاں سے آیا تھا، وہیں چلا گیا۔ اس کے بعد کچھ سناتنی آئے۔ یہ سمجھ میں آنے لگا تھا کہ گاؤں کی فضا کو خراب کیا جارہا ہے۔ کچھ ہونے والا ہے۔لیکن ایک بات سیواڑہ کے بارے میں کہوں گا۔‘’ وہ کیا؟‘ ددّو شاستری نے پوچھا۔’ جوکچھ ہوا، اس کو صرف دنگے کے نظریے سے مت دیکھو۔ سماجی ذات پات کا فرق بھی میں سمجھتا ہوں،یہ بھی اہم کڑی ثابت ہوا۔سماجی دنگے کو سمجھنے کے لیے اس پورے ڈھانچے کو سمجھنا ہوگا جس نے ہمارے معاشرے اور سماج کو کئی حصوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ یہاں عوام کی پہچان مذہب سے زیادہ برادری سے ہوتی ہے۔ پہلے پوچھا جاتا ہے، کس برادری سے ہو بھائی؟ اب مسلمانوں کو ہی لو۔ جاٹ برادری سے جو لوگ مسلمان بنے وہ مولا جٹ کہلائے۔ تیاگی سماج سے جو لوگ مسلمان بنے، وہ مسیہرا کہلائے۔ راجپوتوں کو راندھڑ کہا گیا۔ جو گوجر ایمان لائے، وہ مسلم گوجر ہوگئے۔جن راجپوتوں نے اسلام قبول کیا، ان کی برادری میں ’گوتر‘ میں شادی کو اچھا نہیں مانا جاتا۔آج بھی وہاں وہی رسمیں چلی آرہی ہیں جب وہ ہندو ہوا کرتے تھے۔ اس لیے سیواڑہ میں مذہب الگ ہونے کے باوجود کبھی کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ مگر برادریوں کے درمیان فرق پیدا ہوچکا تھا۔‘’ برادریوں کے درمیان مطلب۔؟‘’ اونچ نیچ برادری۔ مگر یہاں تک سب ٹھیک تھا۔ اس کے بعد۔‘’ اس کے بعد؟‘ ددّو شاستری نے پوچھا۔’ اس کے بعد یہ کہہ کر ماحول کو خراب کیا گیا کہ مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر ہندوؤں کو اپنے مذہب میں کنورٹ کیا ہے۔ ایسے مسلمانوں کو گھر واپسی کے لیے کہا جانے لگا، اس سے سیواڑہ کی فضا میں تناؤبڑھ گیا...... اور پھر ایک دن دو گروہوں میں ہاتھا پائی ہوئی۔ پھر گولیاں چلیں اور ماحول بے قابو ہوگیا۔‘’ ابھی آپ نے کہا کہ ہمارے لو گ بھی تھے؟‘’ ہاں۔حادثے کے پہلے تمہارے لوگ بھی آرہے تھے۔؟‘’ مسلمانوں کو سمجھانے؟‘’ راجنیتی سے کھیلنے.......‘  رما شنکر آہستہ سے بولے۔’ راجنیتی سے کھیلنے مطلب؟ ‘ ددّو شاستری نے پوچھا۔’ آگ میں گھی ڈالنے۔ راجنیتی کا کوئی دھرم نہیں ہوتا، اس سے آگے مت پوچھو۔‘’ آپ نے کہا کہ آپ کے بیٹے کے پاس.....‘’ ایک تصویر ہے..... ابھی دکھاتا ہوں۔‘ رما شنکر نے اپنے بیٹے کو آواز لگائی۔ اس کا بیٹا شمبھو دو ایک آواز کے بعد دوڑا ہوا آیا۔ اس کی عمر تقریباً ۰۳ سال ہوگی۔ گیہواں رنگ، قد میانہ.... اور رما شنکر کی طرح اس کے چہرے سے بھی شرافت برستی تھی۔رما شنکر نے اس کے کان میں کچھ کہا۔ شمبھو اندر چلا گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ اپنا موبائل لے کر آیا۔موبائل پر کچھ دیر تک وہ تلاش کرتا رہا۔ پھر ایک تصویر آگے کردی۔ شمبھو کے ساتھ ایک تصویر تھی۔ دونوں مسکرا رہے تھے۔ میں اور ددّو شاستری دونوں اس تصویر کو دیکھ کر چونک گئے۔’ یہ تو اپنا شمس ہے۔‘’ ہاں۔‘ میں نے ددّو کی طرف دیکھا۔’ ہاں شمس.... بڑا پیارا نوجوان تھا۔ مگر کیا ہوا۔؟‘’ شمس کو قتل کردیا گیا۔‘ ددّو شاستری بولے......’ مجھے معلوم تھا۔‘ رما شنکر آہستہ سے بولے۔’ کیا معلوم تھا؟ ‘’ راجنیتی.......‘میں سناٹے میں تھا۔’ گویا یہ آپ کہہ رہے ہیں......‘’ میرا منہ مت کھلواؤ۔‘ رما شنکر نے بیٹے کو جانے کا اشارہ کیا۔’ یہ فساد ایک طرفہ نہیں تھا۔ بلکہ......‘’ تھا تو ایک طرفہ۔ مگر......رنگ دونوں نے مل کر دیا۔‘’ کیا یہ ممکن ہے؟‘میرے ذہن ودماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں۔’ اس دیش میں اب سب کچھ ممکن ہے۔ ہوا پہلے خراب نہیں تھی۔ پھر سیواڑہ دونوں جماعتوں کے لوگ آنے لگے۔ سیاسی لوگ بھی ترشول اٹھائے گھومتے تھے ماحول اچانک خراب نہیں ہوا۔ مگر جو گزری وہ معصوم بیماروں پر۔ جو بچ گئے وہ سیواڑہ چھوڑکر چلے گئے۔رما شنکر کا بیٹا اس درمیان چائے اور  بسکٹ لے آیا۔ کچھ دیر بعد ہم رما شنکر کے یہاں سے نکل گئے۔ابھی قصبے کا جائزہ لینا تھا۔ یہاں ایک تھانہ بھی تھا۔ کچھ دور پر پولیس کی ایک جیپ کھڑی تھی۔ آس پاس کئی مندر تھے۔ پھر وہ مزار بھی مل گیا جس کے بارے میں رما شنکر نے کہا تھا۔ ابھی بھی مزار پر دو عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ شہر کی کچھ دیواروں پر زہریلے نعرے ابھی بھی لکھے ہوئے تھے۔ وقت کی دھول میں بھی تحریریں زندہ رہ گئی تھیں۔ ہم دیر تک سیواڑہ میں گھومتے رہے۔ جو کچھ رما شنکر نے بتایا اس سے زیادہ کچھ حاصل ہونے کی امید نہیں تھی۔مندر سے آرتی کی آواز گونج رہی تھی۔ کچھ صحت مند اور مسٹنڈے نوجوان ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔سیواڑہ کے علاوہ دو ایک بستیوں کو اور دیکھنا تھا۔ اس درمیان دوبار وینتی چوپڑہ کا فون آیا۔ ایک بار اس نے  خوف زدہ لہجے میں بتایا کہ اس کا این جی او آفس تک پیچھا کیا گیا، یہ اس کا وہم بھی ہوسکتا ہے۔ مگر وینتی کو پہلی بار میں نے خوفزدہ محسوس کیا تھا جبکہ وہ اس طرح کی خاتون نہیں تھی۔دو دن ہم نے سیر سپاٹے میں گزارے۔ یہ تمام بستیاں آس پاس تھیں.... اور چھ برس قبل یہاں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔لکھی پورہ میں زیادہ تر نچلی ذات کے لوگ تھے۔ یہاں کچھ مسلمان اب بھی آباد تھے۔ لیکن یہاں کوئی بھی ایسا نہیں ملا جو پرانی یادوں کی یاد تازہ کرنا چاہتا ہو۔سمبھلی گاؤں اور دیگر گاؤں کا جائزہ لیتے ہوئے دو دن گزر گئے۔ اب ہمیں دلی واپس لوٹنا تھا۔ دلی کے بعد سنبھل، راجو کے دیے گئے پتہ پر جانا تھا اور اجو چا چاسے ملاقات کرنی تھی۔ مگر اس دورہ کا یہ فائدہ ہوا کہ جو معلومات ہمیں آسانی سے حاصل ہوئی، وہ خوفزدہ حقیقت کو بیان کرنے کے لیے کافی تھی۔ رما شنکر کی بات یاد آرہی تھی۔ راجنیتی میں دھرم نہیں ہوتا۔ راجنیتی میں سب جائز ہے۔اب ہمیں دلی واپس لوٹنا تھا۔ لیکن ہمارا ایک مشن مکمل ہوچکا تھا۔ شمس سیواڑہ آیا تھا۔ لیکن کیوں آیا تھا؟ اور کن لوگوں کے ساتھ آیا تھا۔؟ان لوگوں کی منشا کیا تھی۔؟کیا شمس کچھ ایسی باتوں کو جان گیا تھا، جو شاید اسے نہیں جاننا چاہیے تھا۔؟کیا شمس اپنے ہی لوگوں سے بیزار تھا۔؟ فرض کیجیے، یہ کسی ایک تنظیم کا مسئلہ تھا۔ کیا شمس تبریز کے ساتھ جو کہانیاں سامنے آرہی تھیں، اس نے بیشتر تنظیموں کے لیے شک کے جال بن دیے تھے۔؟ ان کے ساتھ سب سے اہم سوال یہ بھی تھا کہ حق وصداقت کے کلمات جو ان تنظیموں سے ابھرتے تھے، وہ کیا تھے؟۔ مساوات اور ملت کے نعرے جو دیے جاتے تھے، کیا وہ سب کھوکھلے تھے؟ سارا معاملہ،سارامشن اسپانسرڈ تھا۔؟پھر دودھ کا دھلا کون تھا۔ ہندو جماعتیں یا ملی تنظیمیں۔ ہندو سبھا، ہندو واہنی یا حکومت کے ذریعہ پیسہ حاصل کرنے والی تنظیمیں۔ یہ تنظیمیں جو بدلتی ہوئی سیاست کے ساتھ چلتی ہیں۔ حکومت کے بڑے فیصلوں میں ان کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کیا اسی لیے ملک کی ایک بڑی آبادی نے ان تنظیموں کو قبول نہیں کیا۔؟آگے بڑھنے پر ایک سور باڑا نظر آیا۔ کچھ جنگلی سور نالیوں میں لوٹ رہے تھے۔ سیاہ چمڑے پر مٹی لگی ہوئی تھی۔ اس طرف تیز بدبو تھی۔ بدبو کے ساتھ ساتھ کچھ دور چلنے پر بس اسٹینڈ تھا۔ اب ہمیں دلبر نگر اسٹیشن جانا تھا اور وہاں سے دلی کے لیے ٹرین پکڑنی تھی۔فیض اچانک سامنے آگئے۔’ ہمیں حیرتوں کے لیے تیار رہنا چاہیے‘’ یہ کیا بات ہوئی؟‘ فیض نے قہقہہ لگایا۔ تمہارا دور حیرتوں کا ہے۔ حیرتوں سے نجات نہیں۔‘’ آپ کیا کرتے؟‘’ میں شاعری بند کردیتا۔ کسان بن جاتا۔‘’ لیکن اس ملک کے کسان تو خود کشی کررہے ہیں۔‘’ پھر میں بھی خود کشی کرلیتا۔‘فیض مسکرائے اور نظروں سے غائب ہو گئے۔ابھی دلبر نگر کی ٹرین نہیں آئی تھی۔ ہم دیر تک اسٹیشن پر آوارہ گردی کرتے رہے۔


ہائی وے پر کھڑا آدمی
( ناول کا ایک باب )
مشرف عالم ذوقی

میں عامر ریاض.... ابھی تک جو کڑیاں میرے ہاتھ لگی تھیں، اس سے کچھ بھی خاص برآمد نہیں ہوا تھا۔ ان کڑیوں کو جوڑتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ شمس کے قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوسکتاہے۔ اس درمیان ایک خبر اور آئی۔ مولانا اسیر، مولانا فرقان اور مولانا ظفر علی کو مشن ہاؤس سے بلاوہ آیا تھا۔ ملاقات کے بعد ان تینوں نے مشن سے ملنے کا مقصد بیان کیا کہ مشن نے مسلمانوں کے تحفظ کا وعدہ کیا ہے.... اور وہ لوگ اگلے مہینے ایک اہم کانفرنس کے لیے جنیوا جارہے ہیں۔ اس درمیان جو رپورٹ میرے ہاتھ لگی تھی، اس کی تفصیلات مولانا ہاشمی کو بتانا ض روری تھا۔صبح کے وقت مولانا الیاس ہاشمی سے گفتگو ہوئی۔ انہوں نے گیارہ بجے کا وقت دیا۔ ٹھیک گیارہ بجے تنظیم لبیک کے دفتر میں پہنچ چکا تھا۔باہر پتھر کی بنی کچھ نشستیں تھیں۔ میں ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ سورج سرپر آگیا تھا، لیکن بینچ کے قریب درخت نے سایہ کررکھا تھا۔ ہوا چل رہی تھی۔ میں اس قافلہ کو دیکھ رہا تھا، جس نے ہندوستان کی سرزمین پر صوفی ازم کی بنیاد ڈالی تھی۔ محمد بن قاسم کی فوجیں سندھ میں داخل ہوئیں توایک نئی تہذیب کی داغ بیل پڑ چکی تھی۔ آٹھویں صدی میں صوفیا کرام کی باضابطہ آمد کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے اپنے قافلے کے ساتھ راجستھان کی تپتی ہوئی زمین پر قدم رکھا۔ بغداد اور ایران میں صوفی ازم کی شاخیں سر نکال رہی تھیں۔ خواجہ کے مریدوں کی بڑی تعداد آہستہ آہستہ ہندوستان کے دوسرے خطوں میں پھیل گئی۔ حضرت خواجہ بختیار کاکی، حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر، حضرت خواجہ نظام الدین اولیا، امیر خسرو اور اس طرح مختلف سلسلے قادری، چشتی، سہر وردی، نقشبندی، شاذلی کی موجودگی میں صوفی ازم فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن پسند کارواں کی علامت بن چکا تھا۔ سیاسی اقتدار پر بھی صوفیوں کا فیض عام تھا۔ عد م تشدد، انسان دوستی، رواداری کی مثالوں نے اور آفاقی تعلیمات نے ایک زمانے کا دل جیتا۔ صوفی ازم کے ساتھ محبت کی قندیلیں روشن تھیں۔ اس لیے خواجہ کے پاؤں اس سرزمین پر پڑے تو دیگرمذاہب کے لوگ بھی خواجہ کے شیدائی ہوتے گئے۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے دیوانے ہزاروں تھے مگر خسرو جیسا سر پھرا دیوانہ دوسرا کہاں تھا۔گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈارے کیسچل خسرو گھر آپنے سانجھ بھئی چو دیسسانجھ ہوگئی تھی....صوفیا کرام کا زمانہ کہیں پیچھے چھوٹ گیا تھا۔ صوفیائے کرام روحانی طورپر اقتدار پر قابض تھے اور اب جسمانی طورپر اقتدار کا حصہ بننے کا سلسلہ جاری تھا۔میں اس وقت چونکا جب ایک خادم میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔’ حضرت آپ کو یاد کررہے ہیں۔‘کچھ ہی دیر میں سیڑھیاں طے کرتا ہوا میں حضرت کے حجرے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میں ان حقیقتوں سے بے نیاز ہوں جب سمندر سے اونچی اونچی لہریں اٹھتی ہیں اور ریت کی آندھی سے خوفناک آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔مولانا الیاس ہاشمی میری طرف دیکھ رہے تھے۔’ عامر ریاض..... کس دنیا میں کھو گئے آپ؟‘میں صوفیائے کرام کی دنیا سے واپس آیا تو مکروفریب کی دنیا سامنے تھی۔ یہاں ہر شخص بہروپیا تھا۔ ہر شخص اداکار۔ اداکاری میں بھی کررہا تھا۔ میں نے سر اٹھایا۔ حضرت کو دیکھا۔’ سوچ رہا تھا.....‘’ آپ سوچتے بہت ہیں۔‘ حضرت مسکرائے۔’ یہاں جلوہ ہی جلوہ ہے۔ گلستاں میں جو بھی ہے قیدی معلوم ہورہا ہے۔‘’ یا شہنشاہ؟‘ مولانا الیاس ہنسے۔’ شہنشاہ بھی۔‘’ پھر قیدی کون ہے؟‘’ میں۔ شمس تبریز.....‘مولانا الیاس ہنستے ہوئے خاموش ہو گئے ’....ہے.....ہے..... مقام عشق یہ بھی ہے کہ ایک نام خنجر کی طرح سیدھے آپ کے دل میں پیوست ہوجاتا ہے۔‘’ لیکن سوال اب بھی قائم کہ خنجر کس نے مارا۔؟‘’ آپ کی تحقیقات کیا کہتی ہیں۔؟‘’ ابھی کچھ اشارے ملے ہیں....‘’ مجھے سب معلوم ہے....‘ مولانا الیاس ہاشمی نے آنکھیں بند کیں۔ آپ کہاں گئے۔ کس کس سے ملے سب معلوم.....ابھی دریا میں پتھر اچھالتے رہیے.....‘’ بھنور بننے لگے ہیں۔‘’ اور بنیں گے۔‘ مولانا الیاس ہاشمی سنجیدہ تھے۔ زندگی بھی تو ایک بھنور ہے عامر ریاض.... ہے ہے.... بھنور در بھنور.... ہم پھنستے چلے جاتے ہیں پھر ایک دن موت سر پر آکھڑی ہوتی ہے،ہے ہے....‘مولانا الیاس ہاشمی نے اس طرح اپنی بات پوری کی جیسے کوئی بڑا فلسفہ بیان کیا ہو۔ مجھے یقین ہے، اس وقت میرے اندر کچھ چیخیں جمع ہورہی تھیں۔ مگر میں اس چیخ کو روکنا چاہتا تھا۔ میں نے نوٹ بندی اور پچاس کروڑ کا ذکر چھیڑا تو حضرت مسکرائے۔’ میں نے کہا تھا نا، مجھے سب پتہ ہے۔‘’ جی۔‘’ یہ وہ کام ہے، جو اس زمانے میں سب کررہے تھے۔ میں بھی کررہا تھا اور پچاس کروڑ کی رقم میں آدھے سے زیادہ تو یوں بھی چلے جاتے۔ کچھ اور ہے، جس کی طرف شاید آپ کی نگاہ اب تک نہیں پہنچی۔‘مولانا گہری سوچ میں گرفتار تھے۔ہے ہے، کچھ اور ہے.... کبھی کبھی یہ کچھ  سامنے ہوتا ہے مگر ہم سمجھ نہیں پاتے....‘میرے پاؤں قیمتی صوفے پر رکھے تھے اور اس وقت میرا ذہن ہوا میں اڑ رہا تھا۔ میرے اندر کی چیخ باہر آنے کا راستہ تلاش کررہی تھی۔’ اور میں نے اسی لیے آپ کا انتخاب کیا...ہے....ہے.... کچھ پوشیدہ ہے.... جیسے نور پوشیدہ ہوتا ہے... ہم ایک وقت میں کسی کے اندر پوشیدہ نور کی عظمت کو سمجھ نہیں پاتے.... کچھ چھوٹ رہا ہے آپ سے عامر ریاض.....‘ایک شعلہ کو ندا۔ ایک چیخ اٹھی۔میں نے حضرت کی طرف دیکھا۔ ’جب ہندوستان میں تصوف کی خوشبو پھیلی۔ صوفیائے کرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر خطے میں روشنی بکھر گئی۔روشنی کے گم ہونے کے بعد نسبی شہزادوں کا دور آیا۔ خانقاہیں دکانوں میں تبدیل ہوگئیں۔ سجادہ نشیں اپنی اپنی دکانیں کھول کر بیٹھ گئے اور اس کے بعد ایک تحریک چلی۔ حصول علم کی تحریک.... اور اس تحریک میں اس دورکے تمام بڑے شامل تھے۔ سرسید بھی۔ اقبال بھی۔ اب ایک طرف سجادہ نشینوں کی بستیاں آباد تھیں اور دوسری طرف مدارس کی تجارت کا دوسرا دور شروع ہوا.....‘’ ہے  ہے..... تجارت کا دور.... اس سے آگے.....‘’ اس سے آگے.....‘’ ہمہ اوست۔‘حضرت نے آنکھیں بند کرلیں۔ اس سے آگے.....ہمہ اوست....’ اس سے آگے کیا.....‘’ ایک تیسرا راستہ۔‘ حضرت کی آنکھیں بند تھیں۔’ تیسرا راستہ۔؟‘’ جب دو راستے کھلتے ہیں، تو وقت کے ساتھ یہ دو راستے پرانے ہوجاتے ہیں۔ پھر ایک تیسرا راستہ کھلتا ہے۔ تجارت کے باب کا تیسرا راستہ۔‘’ تیسرا راستہ۔‘’ اگر یہ ملک ہمارے لیے کافرستان ہے تو تیسرا راستہ کیاہے؟‘’ حکومت؟‘’ حکومت نہیں نظریہ۔ اس وقت کوئی حکومت نہیں ہے۔ نظر یہ ہے۔‘’ اورتیسرا راستہ؟‘’ آپ پچھلے برس علما کی عالمی کانفرنس میں شریک ہوئے؟‘’ نہیں۔‘’ہے ہے.... تیسرا راستہ..... نظریہ کی حمایت کا راستہ۔ کیا کوئی اس تیسرے راستے سے انکار کرسکتا ہے......؟‘’ مطلب شمس کا قتل.....‘’ ہوسکتا ہے، اس کی بنیاد اسی تیسرے راستے پر پڑی ہو.....‘اس وقت میرے اندر کی چیخ پر حضرت کی چیخ بھاری پڑ گئی تھی۔ مجھے یقین ہے، وہ لمحہ جس دوران میں حضرت کو دیکھ رہا تھا، وہ لمحہ رُک گیا تھا۔ وقت کی چال ٹھہر گئی تھی.......’ کیا اس میں نسبی مجاہد بھی شامل ہیں؟‘’ ہمہ اوست۔‘’ کیا اس میں مدارس بھی شامل ہیں؟‘’ ہمہ اوست۔‘ حضرت کی آنکھیں اب بھی بند تھیں......شمس کو اس تیسرے راستے میں تلاش کیجیے۔ مذہب کے اجتہاد میں سب جائز ہے۔حضرت بولتے ہوئے ٹھہرے،جیسے انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا ہو۔ انہوں نے اس بار غور سے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔تصفیہ قلوب اب کہاں جو خانقاہوں کی پرانی رسم تھی۔ہے ہے... اس کے باوجود.... ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔‘اب اس داستان میں میرے لیے لطف کی گنجائش نہ تھی۔ مسجد سے اذاں کی آواز آئی تو حضرت اٹھ کھڑے ہوئے۔’یقین ہے کہ جلد ملاقات ہوگی۔‘میں باہر نکلا تو شام کی سیاہی پھیل چکی تھی۔حضرت کی باتیں کانوں میں گونج رہی تھیں۔ حکومت نہیں نظریہ.... نظریہ کی حمایت.... تیسرا راستہ... پھر چوتھا راستہ.....آگے دھند ہے۔دھند میں ہر راستہ تاریکی کی طرف جاتا ہے.....گھر جانے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ کچھ خیال مجتمع ہوکر میرے ذہن میں آرہے تھے کہ آخر مولانا الیاس ہاشمی مجھ سے چاہتے کیا ہیں، اگر وہ سب کچھ جانتے ہیں تو اس کی مدد لینی اور رقم خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس لیے یہ خیال پختہ تھا کہ تیسرے راستے کے بارے میں ابھی مولانا بھی محض قیاس تک پہنچے ہیں، ہاں یہ ممکن ہے کہ شمس کے قتل میں ان کا کوئی ہاتھ نہ ہو۔ اب میں سڑک کو عبور کرکے سامنے کے بازار تک پہنچ گیا تھا۔ اسی درمیان فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف وینتی تھی۔’ ابھی مل سکتے ہو؟‘’ کوئی ضروری کام؟‘وینتی ہنسی۔’ضروری کام ہو تبھی ملوگے....‘’ میں آرہا ہوں۔‘ میں نے قہقہہ لگایا۔’ پورے شیطان ہو......‘جب میں وینتی کے گھر پہنچا، وہ لیپ ٹاپ پر جھکی ہوئی تھی۔ اب تاریکی کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ ہر شے پُر فریب اور دلکش نظر آرہی تھی۔ خاص کر وینتی۔ عورت ہر بار ایک نئی شکل میں ہوتی ہے۔ خاص کر اس وقت جب وہ آپ پر مہربان ہو۔ وہ آہستہ آہستہ کھلتی ہے اور آخر تک خود کو بے نقاب نہیں کرتی۔ وہ کچھ نہ کچھ جوہر چھپاکر لے ہی جاتی ہے جو اگلی بار اس کے کام آتا ہے....وینتی مسکرا رہی تھی—’ جب بہت سارے کتے گھیر لیں؟‘’ ہمیں اس وقت بھیڑیا بالکل بھی نہیں بننا چاہیے۔‘’ اور جب بہت سارے بھیڑیے گھیر لیں؟‘’ پھر بہتر ہے کہ ہم اپنی نیکیوں کو یاد کرلیں۔‘’ شاید خدا مہربان ہوجائے۔پورے شیطان ہو....‘ وینتی ہنسی.... یاد کرنا مطلب.... گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرنا۔رائٹ؟‘’ بالکل سہی۔‘’ شمس کے معاملے میں ایک گرہ رہ گئی ہے.....‘’ کون سی گرہ....‘’ اتیت جس کو تم ماضی کہتے ہو۔ ہوسکتا ہے، شمس کی زندگی کے ساتھ آج سے کچھ برس قبل کے واقعات وابستہ ہوں.....‘میں نے آہستہ سے دہرایا—تیسرا راستہ۔وینتی میری طرف دیکھ رہی تھی۔میں اس کی آواز پر اچھل گیا۔’مطلب.....‘’ ہم ابھی کے حالات پر نظر رکھ رہے ہیں۔جبکہ ہوسکتا ہے کچھ پرانے واقعات رہے ہوں..... کچھ ایسے واقعات جن سے بہت سے لوگوں کا تعلق رہا ہو.....‘وینتی ہنسی..... یہ بات میرے ذہن میں تھی عامر۔ میں مشن کے ایک خاص آدمی سے ملی او راس نے بتایا، ذرا پیچھے جاؤ۔ ذرا پیچھے جاؤکے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟‘’ اتیت؟‘’ رائٹ..... یہ دیکھو.....‘’ اس درمیان گھرآ کر میں نے سیاست کے کئی دنگل دیکھے—جن کا تعلق۷۔۵ برس پہلے سے تھا۔ مجھے یہاں کامیابی ملی.....‘اس نے لیپ ٹاپ پر دکھایا۔چیخنے چلانے کی آوازیں تھیں...... میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جسے کمال مہارت سے وینتی نے حاصل کیا تھا.....‘وینتی نے پھر کہا.....’ہوسکتا ہے.... ہمارا قیاس درست نہ ہو۔ مگر کوشش کرنے میں کیا حرج ہے.....‘’ یہ حادثہ تو ہوا تھا اور اس حادثے میں......‘’ کچھ لوگ بھیڑیے بن گئے تھے۔‘’ اور جب بہت سے بھیڑیے آپ کو گھیر لیں؟‘ وینتی مسکرائی۔’ پھر ایک تیسرا راستہ کھلتا ہے.....‘اس بار وینتی چونکی تھی.... تیسرا راستہ۔میں زور سے ہنسا۔ ’تم نہیں سمجھوگی۔‘اس تیسرے راستے سے اچانک ایک چہرہ میرے سامنے آگیا تھا۔ میں اس چہرے کو ہجوم کے درمیان تیزی سے بھاگتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ڈڈ’ کیا تم ٹھیک ہو؟‘’ نہیں۔ہم سب اپنی اپنی موت اٹھائے پھر رہے ہیں؟‘’ کیا دلبر نگر میں کچھ ملنے کی امید ہے؟‘’ موت کا سایہ۔ ایک مدت گزر گئی، لیکن یقینا موت کا سایہ موجود ہوگا۔‘یہ ددّو شاستری تھا، جس نے چوڑی مہری کی پینٹ پہن رکھی تھی، ایک کھادی کا کرتا اس کے بدن پر جھول رہا تھا۔ وہ دلبر نگر اسٹیشن پر اترتے ہوئے مجھے خاصہ پریشان نظر آیا۔’ ۳۱۰۲۔ ایک قیامت آئی تھی۔‘’ کیا قیامت گزرگئی۔؟‘’ مجرم آزاد ہوگئے۔ چالیس سے زیادہ مجرم....‘موسم خزاں کی شام— ہر طرف بکھری ہوئی چیخوں سے معمور تھی۔ فضاکی موسیقی میں بھی درد شامل تھا۔ اس وقت باہر نکلتے ہوئے آسمان پر بڑے بڑے بادلوں کے ٹکڑے دکھائی دیے۔خدشہ اس بات کا تھا کہ کہیں بارش نہ ہوجائے۔ کیا یہاں زندگی کے آثار باقی ہیں؟ کیا جو حادثہ ہوا وہ غیر متوقع نہیں تھا۔ شکوک وشبہات کے ہر راستے میں ایک خون کی ندی آتی ہے۔جب گھر سلگ رہے ہوں گے۔ کیا کچھ لوگ ایسے حادثوں سے خوش بھی ہوسکتے ہیں۔؟’ وہاں کچھ گھوڑے والے بھی تھے۔ کچھ بنکر بھی مگر جوبھی تھے، ایک خاص کمیونٹی کے۔‘ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔ ہم اسٹیشن سے باہر نکل آئے تھے۔ کچھ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ کچھ آٹو والے تھے، جو سواریوں کے انتظار میں تھے۔اسٹیشن سے بائیں طرف ایک رکشہ اسٹینڈ تھا۔ کچھ مسافر تھے، جو سواریوں کے منتظر تھے۔ ایک مسلمان فقیر نظر آیا تو ددّو شاستری نے حیر ت سے دیکھا۔ پینٹ سے نکال کر دس کا سکہ اس کے ہاتھوں میں رکھ دیا۔ میرے طرف دیکھا۔ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔’ کچھ دیر اسٹیشن سے باہر کا نظارہ کرتے ہیں.....‘’ مگر کیوں؟‘ میں نے دریافت کیا۔’ یہاں کہانیاں ہی کہانیاں ہیں۔ دلبر نگر۔ ۴۱۰۲ میں ملک کا انتخاب ہوا تھا۔‘ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔ ملک کی سب سے بڑی ریا ست جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے بھی بڑی ہے۔ ۰۸ سیٹ مطلب حکومت کا فیصلہ...... اور اس فیصلے کے درمیان.....‘ددّو شاستری خاموش تھا.....’ایک مہرہ بلکہ وزیر دلبر نگر بھی ثابت ہوا۔ وہ دیکھو......‘ہم باہر ایک پتھر کی بینچ پر بیٹھ گئے۔ کچھ نوجوان زعفرانی لباس میں، پیشانی پر بڑا سا ٹیکہ لگائے جارہے تھے۔دوسری طرف سے سادھوؤں کا ایک ہجوم آرہا تھا۔ سڑک ٹوٹی ہوئی تھی اور دور تک کچی دکانیں تھیں۔ زیادہ تر دکانوں پر ویشنو بھوجن لکھا ہوا تھا۔شدّھ شاکا ہاری کھانے۔’ جنگیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔‘ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔’جنگوں سے ایک نئی تہذیب برآمد ہوتی ہے۔ اس تہذیب میں جنگ کے نئے صفحے لکھے ہوتے ہیں۔جنگیں ماضی کی وراثت کو نہیں ڈھویا کرتیں۔چنگیز، ہلاکو، نادر شاہ.... جنگ کی تہذیبیں ہربار نیاہلاکو پیدا کرلیتی ہیں۔ نیا چنگیز اور نیا نادر شاہ..... ہزار برسوں کی تاریخ بھی یہی تھی۔ غوری چاہتا تو ایران کے قریب پارسیوں کے آتشکدہ کو برباد کر سکتا تھا مگر وہاں کیا ملتا۔ یہاں سومناتھ کا مندر تھا۔ سونے اور ہیروں سے بھرا ہوا۔ مذہب کے ہزار رنگ۔ ان میں سب سے پختہ رنگ انتہا پسندی کا ہے۔ یہ انتہا پسندی دونوں طرف رائج ہے.......‘سادھوؤں کا ہجوم گزر گیا۔ ان کے جانے کے بعد دو تین ناگا سادھو بھی نظر آئے جو ننگ دھڑنگ تھے اور جنہوں نے سرتا پا اپنے جسم پر بھبھوت مل رکھا تھا۔ میں نے ددّو شاستری کی طرف دیکھا۔’ ایک حد تک تم صحیح ہو۔بڑی جنگوں کے درمیان چھوٹی جنگیں مسلسل چلتی رہیں۔آزادی کے بہتّر برس بعد بھی جنگیں جاری ہیں۔یہ جنگیں فرقہ وارانہ فسادات میں تبدیل ہوچکی ہیں لیکن فسادات میں کون مارا جاتا ہے؟ پولیس کس نظام کے تحت کام کرتی ہے؟ حکومت کی منشا کیا رہتی ہے۔ ایک مہذب دنیا میں ہزارو ں سوالات ہمیں پریشان کرتے ہیں اور خاص کر یہ فسادات، جو ہماری بھاگتی دوڑتی زندگی کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔‘’ تمہیں ٹروجن کی جنگ یاد ہے؟‘ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔ میں خاموش تھا۔فاختائیں غائب ہوگئیں۔آسمان پر گدھوں کا ہجوم تھا۔ گدھ غائب نہیں ہوئے تھے۔واپس آگئے تھے۔ یہ گدھ جاتے کہاں ہیں۔یونانیوں نے فتح حاصل کی اور ٹرائے (Troy) کو جلاکر راکھ کردیا۔ یہ فتح کا نشہ بھی عجیب ہوتاہے۔ کچھ ہی ٹروجن اس جنگ میں زندہ بچ پائے۔ ان میں ایک مشہور جنگجو بھی شامل تھا، جس نے بعد میں روم شہر کی بنیاد رکھی۔ ٹرائے کی جنگ محبت کے لیے ہوئی تھی۔محبت جو آہستہ آہستہ نفرت میں تبدیل ہوگئی۔ٹرائے کی جنگ ہیلن کے لیے ہوئی تھی۔ ایک جنگ جو۲۱ویں اور ۳۱ویں صدی قبل مسیح کے درمیان لڑی گئی..... اور محبت کی اس جنگ نے ایک شہر کو تباہ اور برباد کردیا۔ قدیم یونانی اساطیر کے مطابق دیوتایلیوس کی شادی سمندر کی دیوی سے طے ہوئی۔ بادشاہ اس دعوت میں ایرس کی دیوی کو دعوت دینا بھول گیا۔ اس دعوت میں بہت سی  خوبصورت عورتیں موجود تھیں۔ ایرس کی دیوی نے دیوتا یلیوس سے انتقام لینے کی تیاری کی...... اور دل ہی دل میں کہا کہ تمہاری اس جرأت کو ہلاکت میں تبدیل کردوں گی۔بغیر بلائے وہ دعوت میں شریک ہوئی اور اس نے سونے کا ایک سیب موجود عورتوں کی طرف پھینکا، جس پر تحریر تھا،’اس چہرے کے لیے جس سے زیادہ خوبصورت چہرے کا تصور موجود نہیں۔‘اس تحریر کو پڑھ کر موجود خواتین کے درمیان خود کو سب سے خوبصورت ثابت کرنے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ ان میں کئی دیویاں شامل تھیں۔ ایک دیوی کا نام ہیرا تھا۔ یہ آسمان کی دیوی تھی۔ ایک دیوی ایتھینا تھی جو حکمت کی دیوی کہلاتی تھی۔ ایک دیوی افرودتیہ تھی جو محبت کی دیوی کہلاتی تھی۔تینوں دیویاں محبت کے تاج کو اپنے سر پر رکھنا چاہتی تھیں۔میں محبت ہوں، جس کی ضرورت ہے—میں حکمت ہوں،جو محبت اور اقتدار دونوں کے لیے ضروری—میں آسمان کی دیوی ہوں اور حسن کے معراج پر بیٹھی ہوں —محبت، حکمت اور آسمان کے درمیان تنازعہ بڑھا توٹرائے کے بادشاہ نے  فیصلہ کی ذمہ داری اپنے بیٹے کے سپرد کی۔ حکمت نے محبت کی طرف دیکھا اور محبت نے آسمان کی طرف...... اور ہمیشہ قائم رہنے والی محبت کو یقین تھا کہ یہ تاج اس کا ہے۔ٹرائے کے بادشاہ نے فیصلہ کرتے ہوئے اس بات کو نظر انداز کیاکہ محبت کے راستے میں بھیانک تباہی کو بھی دخل ہوتا ہے۔محبت اکثر جیت کر بھی ہار جاتی ہے۔ جس وقت بادشاہ کے بیٹے نے فیصلہ سنایا اس وقت محبت کی دیوی ہیلن کے لباس میں تھی۔ہیلن کی صورت میں تھی۔ہیلن اسپارٹا کے بادشاہ کی بیوی تھی اور اس وقت دنیا کی سب سے خوبصورت عورت میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ ٹرائے کے بادشاہ کا بیٹا جس نے فیصلہ سنایا تھا، اسپارٹا کے بادشاہ سے ملا۔ اس کا مہمان بن کر محل میں ٹھہرا اور ہیلن کو بھگاکر ٹرائے لے آیا۔ اسپارٹا نے یونانی شہزادوں سے مدد مانگی اور ہیلن کو واپس لانے کا تہیہ کرلیا۔ یونانی فوج نے ٹرائے پر حملہ کردیا۔ جنگ برسوں چلتی رہی۔ ٹرائے کے شہزادے نے اپولوسے مدد مانگی لیکن یونانیوں کی مکاری کے آگے ٹرائے کی فوج کمزور پڑگئی۔ یونانیوں نے فتح کے لیے لکڑی کے گھوڑے تیار کیے اور یہ ٹروجن گھوڑے شہر کی فصیل کے چاروں طرف کھڑے کردیے گئے۔ ٹرائے کے لوگوں نے سمجھا کہ یونانیوں نے زبردست تیاری کے ساتھ حملہ کردیا ہے اور یونانیوں کی فوج ٹرائے میں داخل ہوچکی ہے— ٹرائے کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ ہیلن کو آزاد کرا لیا گیا۔ محل کی شاہی خاندان کی عورتیں قیدی بنا لی گئیں... اور بہت سے ٹروجن مردوں کی ناک کاٹ دی گئی۔نک کٹوے۔اس طرح ٹروجن باغیوں کی شناخت میں آسانی ہوتی تھی۔ددّو شاستری پاس سے گزرتے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا۔ اتفاق سے اس کی ناک کٹی ہوئی تھی۔سر پر ٹوپی تھی۔’ نک کٹوے......‘میں کچھ نہیں بولا۔ ادھر ادھر جاتے ہوئے رکشے والوں کو دیکھتا رہا..... اور یہ بھی بھول گیا کہ دلبر نگر میں کیوں آیا ہوں۔ نک کٹوے.... ایک محبت جو آہستہ آہستہ ختم کردی گئی۔ ایک رسم جو آہستہ آہستہ اٹھ گئی—بادلوں کا ہجوم غائب تھا۔ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔ ’ کیاسوچنے لگے....؟‘’ ہوانے رخ تبدیل کردیا ہے۔‘’ سیاست میں صرف ایک ہی ہوا ہے۔‘’ سیاست ہی کیوں؟‘’ ہندو ہوا اور مسلم ہوا.....‘ ددّو شاستری زور سے ہنسا۔ چلو چلتے ہیں۔دلبر نگر کتنا خوبصورت نام ہے..... دلبر محبوب کو کہتے ہیں مگر یہ نام.....‘’ اب محبوب بھی کہاں ملتے ہیں۔‘کچھ دیر ہم نے پیدل چلنے کا فیصلہ کیا۔ اسٹیشن سے باہر نکلنے کے بعدرکشہ والوں، ٹیمپو والوں اور گاڑیوں کی آمد ورفت سے ٹریفک کا شور کانوں کو ناگوار گزر رہا تھا۔ فٹ پاتھ پر بھی دکانیں سجی تھیں۔ مگر شہر میں ایک عجیب طرح کی اداسی کا احساس ہوا۔ آگے بڑھنے پر ایک چھوٹا سا مال نظر آیا۔ مال کے قریب کچھ مسلمانوں کی دکانیں بھی تھیں۔حادثوں کو بھولنے میں کیا وقت لگتا ہے؟ یا کچھ حادثے بھلانے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔نہ فراموش کیا جائے تو حادثے زندگی کا روگ بن جاتے ہیں۔اس لیے یہ سوال اہم تھا کہ کیا اس شہر نے چھ سات برس قبل ہوئے حادثوں کو فراموش کردیا ہے۔؟ قصبہ جیٹھوارہ، ہمیں اس قصبے کی طرف جانا تھا۔ حادثے کا شکار یہ قصبہ بھی ہوا تھا۔کچھ دوری پر ایک ٹیمپو والازور زور سے جیٹھوارہ کانام لے کر چلاّ رہا تھا۔ ایسے کئی ٹیمپو ایک قطار سے مسافروں کو ’بھرنے‘ کے لیے کھڑے تھے۔ددّو نے میری طرف دیکھا اور ہم ایک خستہ سے ٹیمپو میں سوار ہوگئے۔ آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ایک کچا راستہ شروع ہوا۔ اس کچے راستے پر ٹیمپو چلانا آسان نہیں تھا۔ ٹیمپو بار بار اچھل رہا تھا۔ آگے کچھ دور جانے کے بعد ایک ٹوٹی سڑک تھی۔ شاید کچھ دن قبل ہی بنی تھی۔ سڑک سے کچھ آگے بڑھنے کے بعد دونوں طرف درختوں کی قطار تھی۔ایک کنواں تھا، جس کے پاس کوئی آبادی نہیں تھی۔ کنویں کے ساتھ دوچار مکان تھے، جن میں شاید اب کوئی نہیں رہتا تھا۔ہم جیٹھوارہ میں داخل ہوچکے تھے۔شام کے چھ بج گئے تھے۔سورج غروب ہونے کی تیاریاں کررہا تھا۔ کچھ آگے ٹیمپو اسٹینڈ تھا۔ یہاں سے ہمیں کچھ دور تک پیدل چلنا تھا۔معلوم ہوا کہ اس بستی میں پہلے ۰۰۵ گھر ہوا کرتے تھے، اب صرف چار سو گھر ہیں۔۳۱۰۲ کے فسادات میں زندہ رہنے والے اس حد تک خائف تھے کہ راتوں رات اپنا آشیانہ چھوڑکر چلے گئے۔مسافروں کے ساتھ اتر کر، ہم ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ ایک نوجوان تھا جس نے ہمیں شک کی نگاہوں سے دیکھا۔ اس نے لوکل لہجہ میں دریافت کیا۔’ کس سے ملنا ہے؟‘’ کسی سے نہیں۔‘’ پترکار ہو ؟‘ اس کے لہجے میں نفرت شامل تھی۔’ نہیں۔‘’ پھر کس لیے جارہے ہو؟‘’ یونہی۔‘’  پھر ضرور پترکار ہوگے۔‘ددّو نے میری طرف دیکھا۔نوجوان نے آگے کہا،’جیٹھوارہ کے لوگ پتر کاروں کو پسند نہیں کرتے۔ تم لوگ بہت اُلٹا پلٹا لکھتے ہو۔‘’ ہم پترکار نہیں ہیں۔‘”ٹھیک ہے۔‘ نوجوان آگے بڑھ گیا۔ ددّو شاستری نے مجھے رُکنے کا اشارہ کیااور کہا۔’ ایک راؤنڈ دیکھتے ہیں۔ ویسے یہاں کچھ حاصل ہونے کی امید نہیں ہے۔‘’ مجھے بھی یہی لگتا ہے۔‘مجھے یقین تھا کہ میں کسی شہر خموشاں میں آگیا ہوں۔ ایک کچی دیوار ان مکانوں کے قریب سے دور تک چلی گئی تھی۔ کچے پکے مکانات تھے۔ کچھ مکان دو تین منزلہ تھے۔ کئی مکانات خالی نظر آئے۔ایک سوال تو یہ بھی تھا کہ کیا ان مکانا ت میں اب تک کوئی نہیں رہتا۔ کیا یہ وہی لوگ تھے جو راتوں رات اپنا آشیانہ چھوڑ گئے اور دوبارہ پلٹ کر نہیں آئے۔ قصبے کے قریب ایک قطار سے کئی دکانیں تھیں۔ کچھ لوگ خریداری بھی کررہے تھے۔ مگر ان سب کے باوجود ماحول میں اداس نغمہ گونجتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔پاس میں ایک مندر بھی تھا، جہاں سے بھجن کی آواز آرہی تھی۔ اب تک عمارتوں میں روشنی ہوچکی تھی۔ کچھ عورتیں تھیں جو سج سنور کر مندر جارہی تھیں۔ اچانک وہ نوجوان دوبارہ نظر آیا۔وہ مندر سے لوٹ رہا تھا۔ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا، پھر نوجوان کو اشارہ کیا۔اس بار نوجوان کے چہرے پر کہیں کوئی ناراضی نہیں تھی، وہ چلتا ہوا ہمارے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ددّو نے پوچھا۔’ پانچ سوروپے کماؤگے ؟‘اس بار نوجوان کے چہرے پر خوشی تھی۔’ کیوں نہیں‘ نوجوان نے مسکرا کر کہا ’پترکار ہونا.....؟’ ہاں۔‘’ میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا۔ لاؤ پانچ سو کے نوٹ دو۔‘میں نے پانچ سو کا نوٹ بڑھایا۔نوجوان نے پوچھا۔ کیا نام ہے تمہارا۔ددّو شاستری نے کہا۔ میں ددّو شاستری اور یہ رویش کمار۔‘’ رویش..... وہ والا.....‘ نوجوان ہنسا۔ جو ٹی وی پر الٹا پلٹا بولتا ہے۔‘’ نہیں یہ وہ رویش نہیں ہے۔‘’ پھر ٹھیک ہے۔یہاں باہر سے پترکار ہی آتے ہیں اورمیں ہر پترکار کو اپنے چچا سے ملواتا ہوں۔‘’ چچا؟‘’ وہ پولیس میں ہیں۔ یہاں پاس میں ہی تھانہ ہے۔‘ددّو کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ لیکن وہ ایک ہزار لیں گے۔ میں اپنے گھر پر ہی بلا لوں گا۔‘’ ٹھیک ہے۔‘’ آؤمیرے ساتھ۔‘تھوڑی دور چلنے کے بعد نوجوان ایک گھر کے آگے رُکا۔یہ تین منزلہ پختہ مکان تھا۔گھر کے باہر دو گائیں بندھی تھیں۔ ایک مرد تھا، جو دودھ ’دوہ‘ رہا تھا۔ نوجوان نے آگے بڑھ کر باہر کا بیٹھکا کھول دیا۔ یہ چھوٹا سا کمرہ تھا۔ مذہبی کلینڈر جھول رہے تھے۔ ایک طرف دیوی دیوتا کی مورتیوں کے ساتھ چھوٹا سا مندر بھی بنا رکھا تھا۔ کمرے میں حبس تھا۔ چھت سے قدیم زمانے کا ایک پنکھا لٹکا ہوا تھا۔ ریک کے پاس دو تین آدھی جلی موم بتیاں بھی نظر آئیں، جو اس بات کی گواہ تھیں کہ اس قصبہ میں روشنی کا نظام درست نہیں ہے۔ دو کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ نوجوان نے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر کہا۔میں تھانے سے چچا کو لے کر آتا ہوں۔ تب تک میں سامنے سے چائے بھجواتا ہوں۔نوجوان کھلے دروازے سے نکل گیا۔اس درمیان ایک چھوٹا سا بچہ گلاس میں دو چائے لے کر آگیا۔اس کے ماتھے پر تلک لگا ہوا تھا۔ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔’ اب یہاں صرف ایک ہی قوم کے لوگ رہتے ہیں۔‘میرے اندر شدید طور پر ایک سنسناہٹ دوڑ گئی۔’ کیا یہ کوئی پرتیک ہے؟‘ ددّو میری طرف دیکھ رہے تھے۔’ پتہ نہیں۔‘’ اب ایسے کئی قصبے ملیں گے۔‘’ پتہ نہیں۔‘’ ایک ہی قوم۔‘ ددّو کے لہجے میں ناراضی پوشیدہ تھی۔ کیا یہ وجے کی علامت ہے؟ جشن کی؟‘’ پتہ نہیں۔‘’ لیکن اس نوجوان کو سب پتہ ہے۔‘’ جو ابھی ابھی یہاں سے اٹھ کر گیا ہے۔؟‘’ ہاں۔‘’ ایک راشٹر..... ایک دھرم......‘مجھے اب خیال آیا کہ یہ شہر مجھے شہر خموشاں کیوں لگ رہا تھا۔ خوش ہونے کے باوجود یہ لوگ ابھی بھی اس جشن کا حصہ نہیں بن سکے تھے جو خوشی انہیں کچھ لوگوں کے گھر چھوڑنے سے ملی تھی۔ یہ بھی ایک طرح کی بیزاری ہے کہ ایک رنگ مسلسل نگاہوں کے سامنے رہے تو کچھ دیر بعد یہ رنگ آنکھوں کو چبھنے لگتا ہے۔ یہ رنگ میں نے پہاڑوں پر بسنے والوں کی آنکھوں میں بھی دیکھے تھے، جنھیں پہاڑوں کی خاموشی بیزار بنا دیتی ہے۔کچھ دیر بعد نوجوان اپنے چچا کو لے کر آگیا۔ چچا کا نام ناگیندر پانڈے تھا۔ وہ تھانے میں حوالدار تھا۔ اس کا چہرہ سیاہ اور مونچھیں گھنی تھیں۔ کمرے میں ایک بستر بھی تھا۔ وہ بستر پر بیٹھ گیا۔ اس کا قد چھوٹا تھا اور چہرے سے مکاری و عیاری صاف نظر آتی تھی۔’ پہلے روپے دو۔‘میں نے پانچ سو کے دو نوٹ اس کی طرف بڑھائے۔ اس نے نوٹ اپنی یونیفارم کی جیب میں ڈال دیا۔ وہ زور سے ہنسا۔’ پیسہ بولتا ہے۔‘ددّو مسکرایا۔پیسہ چیختا بھی ہے۔ناگیندر کھلکھلا کر ہنسا۔ اس کے ہنسنے کا انداز بے حد ڈراؤنا تھا۔ll۳۱۰۲ء مئیپچھلی تین راتوں سے لگاتار ٹرک آرہے تھے۔ کبھی کبھی ایک ساتھ تین چار ٹرک۔ ٹرک کے گھڑگھڑانے کی آواز کچھ دیر تک رہتی، پھر خاموش ہوجاتی۔ جیٹھوارہ میں برہمن، یادو، کرمی، بنیا کے ساتھ پچاس خاندان مسلمانوں کے آباد تھے۔ محمد علی بھائی، شکیل میاں،نصیر میاں، امجد بھائی یہ چاروں دوست تھے اور جیٹھوارہ سے باہر ان کا کاروبار تھا۔ کاروبار اچھا چل رہا تھا۔ ان کی دکانیں دلبر نگر میں تھیں۔ ٹرک انہی کے گھر آیا کرتے تھے۔تھانہ کے انسپکٹر کو شک تھا کہ ٹرک میں مال کے ذریعہ کچھ اور لایا جارہا ہے۔ تھانیدار شیو پال یادو اونچی پہنچ کا آدمی تھا۔ سیاسی تعلقات تھے۔سب انسپکٹر رادھے چتر ویدی کو بھی شک تھا کہ جیٹھوارہ کی فضا کو  خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مگر جب تک اوپر سے کوئی آرڈر نہ آئے، وہ کسی بھی تفتیش سے گھبراتے تھے۔خاص طورپر شیو پال یادو سے ڈرتے تھے۔یوپی میں اس وقت یادؤں کی حکومت تھی۔ شیو پال کے پاس فون آیا۔ فون لکھنؤ سے آیا۔’ سب خیریت ہے؟‘’ نہیں سر۔‘’ ہمیں پتہ ہے۔‘یہ ستیندر یادو تھے۔ حکومت کے خاص آدمی۔ان کو جیٹھوارہ پرنظر رکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔شیو پال نے رات کے وقت آنے والے ٹرکوں کی اطلاع دی تو دوسری طرف سے کہا گیا۔’ ہمیں پتہ ہے۔‘’ پھر کیا کیا جائے۔؟‘’ معاملہ ذرا دھارمک ہے.....‘’ لیکن جیٹھ واڑہ پر اس کا اثر پڑ رہا ہے۔‘’ ہمیں پتہ ہے۔‘ دوسری طرف سے کہا گیا۔ الیکشن میں زیادہ دن نہیں ہیں۔’ پھر کیا کیا جائے۔؟‘’ ابھی کچھ مت کیجیے۔  انتظار کیجیے۔‘کچھ دن تک ٹرک کے آنے کا سلسلہ بند رہا۔ ایک مہینے بعد رات میں پھر ٹرک کے گھڑ گھڑانے کی آواز آئی تو شیو پال یادو، رادھے پولیس اہلکاروں کے ساتھ جائے واردات پر پہنچ گئے۔ ٹرک روکا گیا۔ڈرائیور نے بھاگنے کی کوشش کی تو انکاؤنٹر میں مارا گیا۔ ٹرک میں اسلحے تھے۔ اے کے۷۴بھی۔پولیس نے جب امجد میاں، محمد علی بھائی، شکیل میاں اور قیصر میاں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو کئی گھروں کے مسلمانوں نے دھاوا بول دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جیٹھ واڑہ کی فضا خراب ہوگئی۔ انکاؤنٹر میں چاروں مارے گئے۔پولیس نے بڑی تعداد میں ان کے گھر سے اسلحے برآمد کیے اور گھر کو سیل کردیا۔تنازعہ نے دیکھتے ہی دیکھتے فرقہ وارانہ فسادات کا رُخ اختیار کرلیا۔ کافی لوگ مارے گئے، ان میں دونوں مذہب کے لوگ تھے۔ قصبہ میں کرفیو لگا دیا گیا۔ ایک ہفتہ تک لگاتار جیٹھواڑہ اماحول خراب رہا۔ ماحول اتنا خراب تھا کہ دس دن کے اندر مسلمانوں میں سے جو لوگ زندہ بچے تھے، وہ جیٹھواڑہ سے ہجرت کرگئے......٢٠١٣ نومبرلکھی پورہ  کیمپایک کیمپ سے جمیلہ کی چیخ گونجی تو آس پاس کیمپوں میں رہنے والی عورتیں جمع ہوگئیں۔ جمیلہ حاملہ تھی اور وقت قریب آپہنچا تھا۔ کیمپ میں چاروں طرف بدبوکی حکومت تھی۔ رہائش کے علاوہ کوئی بھی انتظام نہیں تھا۔ پانی کا ایک ٹینکر صبح اور شام آیا کرتا تھا۔ ان حفاظتی کیمپوں میں رہنے والوں کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ یہاں محفوظ بھی ہیں یا نہیں یا ان لوگوں کو کب تک ان کیمپوں میں رہنا ہوگا۔کبھی ٹی وی چینلز والے چلے آتے۔ کبھی ملی تنظیموں کے لوگ آکر گفتگو کرتے۔ کبھی پولیس بھی دو چار چکر دن میں کاٹ جاتی۔حکومت کے آدمی بھی آس پاس گھومتے رہتے۔ پانی کا ٹینکر آتا تو پانی بھرنے کے لیے قطار لگ جاتی۔ قطارمیں اکثر بدنظمی سامنے آتی اور گالیوں تک کی نوبت آجاتی۔لکھی پورہ کیمپ میں زندگی گزارنے والے ہر عمر کے لوگ تھے۔ ان میں کچھ بزرگ مرد اور عورتیں بھی تھیں۔ بزرگوں نے تقسیم کے دور کی کہانیاں سنی تھیں اب جو کچھ وہ محسوس کررہے تھے، وہ تقسیم کی ہولناک کہانیوں سے کہیں زیادہ ڈراؤنا تھا۔ایک تیز بدبو حفاظتی کیمپوں میں بڑھتی جارہی تھی اور کیمپ میں رہنے والے یہ سوچنے پر بھی مجبور تھے کہ اگر یہی حال رہا تو وہ بیماریوں سے مرجائیں گے۔حفاظتی کیمپ نام کا کیمپ تھا، یہاں آنے کے بعد بیشتر لوگ بیمار ہوگئے۔ آشیانے لٹ چکے تھے، یہ درد اپنی جگہ۔ دوسرے آشیانے کی تلاش اس زندگی میں ممکن ہوگی بھی یا نہیں،یہ سوال بھی منہ پھاڑے اپنی جگہ کھڑا تھا۔ حکومت نے معاوضے کا اعلان تو کیا تھا مگر اب تک کسی کو معاوضے کی کوئی رقم نہیں ملی تھی اور نہ ملنے کی امید تھی۔ پہلی اور دوسری ریاستی حکومت تک  کیمپ میں رہنے والوں کے لیے زندگی عذاب بن چکی تھی۔اس  کیمپ میں ۰۸ برس کے محمد ہاشم تھے، جو ٹی بی میں مبتلا تھے۔ حفاظتی کیمپ میں اب تک ۵۱ سے زیادہ لوگوں کی جانیں جاچکی تھیں۔ محمد ہاشم کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ محبت کی رسم کیو ں اور کیسے ٹوٹ گئی؟ پہلی جنگ عظیم آزادی کے بعد سے یہ پورا علاقہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت تھا۔۷۵۸۱ء کی آگ بھی یہاں نہیں پہنچی تھی۔ یہ آگ میرٹھ تک پہنچی مگر دلبر نگر کو نہیں چھو سکی۔ وہیں کیمپ میں مولانا ناظم علی ہیں جو بچوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ اب  کیمپ میں موت کا انتظار کررہے ہیں۔ان کی پیدائش آزادی سے پندرہ سال پہلے ہوئی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنی نفرت نہیں دیکھی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ دلبر نگر کے غیر مسلم بچے ان کے پاؤں چھوکر ان سے آشیرواد لیا کرتے تھے۔ حملہ آوروں نے ان کی، بارہ کمروں کی حویلی جلادی۔ ان کو یقین ہے، یہ لوگ باہر سے آئے تھے...... اور فساد کے چھ ماہ قبل سے کچھ خطرناک سرگرمیاں اس علاقے میں بڑھ چکی تھیں۔ ملی تنظیموں کے لوگ بھی اس علاقے میں کئی بار دیکھے گئے اور اس بات کا اندازہ ہوچکا تھا کہ دلبر نگر میں کچھ خطرناک کھچڑی ضرور پک رہی ہے۔ لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر فسادات ہوں گے جو کئی خاندانوں اورسینکڑوں لوگوں کی تباہی کا باعث بن جائیں گے۔اسی کیمپ میں رہنے والی ایک بزرگ خاتوں نعیمہ بی نے بتایا کہ پہلی بار اس نے لو جہاد کا نام سنا۔ ایک ہندو لڑکی کسی مسلم لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی، لیکن یہ کوئی نئی بات تو نہیں تھی۔ ایسا تو ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ جاٹ مسلمانوں کے خلاف ہوگئے۔ پنچایت بنی۔ پھر پنچایت مہا پنچایت میں تبدیل ہوئی۔ پھر مہاپنچایت کے بعد مہا بھارت کا کھیل شروع ہوگیا۔ فساد سے چھ ماہ قبل ہندوؤں کے درمیان مسلمانوں کے لیے اتنی نفرت بھری جانے لگی کہ مسلمانوں نے خوف کے مارے گھروں سے نکلنا بھی بند کردیا تھا۔ باہر سے اسلحے آنے لگے تھے۔ لاؤڈسپیکر میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں دہرائی جاتیں۔چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے اندر بھی زہر بھرنے کی کوشش کی جاتی۔نعیمہ بی بتاتی ہیں کہ یہ تو ایک دن ہونا ہی تھا۔سیواڑہ بستی کی کہانی بھی ان کہانیوں سے ملتی جلتی ہے۔فساد متاثرین میں سب سے بڑی تعداد نچلے طبقے کے لوگوں کی تھی۔ خوشحال مسلمان بھی نشانہ بنے۔ کیمپ میں رہنے والے زیادہ تر کا تعلق سیفی، سلمانی جیسی مسلم برادریوں سے تھا، ان میں  زیادہ تعداد میں وہ لوگ تھے جو لوہار، دھوبی، بڑھئی جیسے پیشوں سے وابستہ تھے۔ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جو جاٹوں کے ملازم تھے۔ نفرت کی آگ پھیلی تو تمام رشتے ختم ہوگئے۔ متاثرین کو شکایت رہی کہ ان کو بچانے کے لیے ملی تنظیمیں سامنے نہیں آئیں۔ جب عذاب گزر گیا تو ایسے لوگ خیریت پوچھنے کیمپوں میں نظرآرہے ہیں۔سیلواڑہ کے کیمپ میں رہنے والے محمد حنیف کو خدشہ ہے کہ  مستقبل میں یہ نفرت مزید بڑھتی جائے گی۔ذات پات کی سیاست نے بھی فسادات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ کھاپ اور جتھے دار مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ پنچایتوں نے فسادات سے پہلے ہی مسلمانوں کی دکانوں سے خرید وفروخت پر پابندی لگادی تھی۔کیمپ کے سلیم بھی کھاپ پنچایت کو فسادات کے لیے قصور وار مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے چھوٹے معاملات بھی کھاپ پنچایت تک پہنچ جاتے ہیں۔ مثال کے لیے دو چھوٹے بچوں کی لڑائی۔ اگر ان میں دو ذات کے لوگ ہیں تو کھاپ کا فیصلہ مسلم بچے کے خلاف ہوگا۔ ہندو مسلم شادی کی بات ہوتو کھاپ پنچایت میں تلواریں کھیچ جاتی ہیں...... اور پھرمسلم خاندان کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ جب تک عشق کے خلاف انتقام پورا نہیں ہوجاتا، کھاپ پنچایتیں خاموش نہیں بیٹھتیں۔اب سب کو اذیت کا ذائقہ لگ چکا ہے۔بڑھئی کاکام کرنے والے انیس میاں نے بتایا کہ اب کھاپ پنچایت کے نام پرڈر لگتا ہے۔اب یہ پنچایتیں روز بیٹھنے لگی ہیں۔ کبھی بھی گاؤں والوں کو جمع کرلیا جاتا ہے۔ بستی کے ہندو اور مسلمان عرصہ پہلے دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔پھر فسادات کا سلسلہ— گاؤں کے گاؤں، بستی کی بستی مسلمانوں سے خالی ہوگئی۔عبدالرؤف کی سیواڑہ میں کپڑوں کی دکان تھی۔رؤف نے بتایا کہ تجارتی سطح پر پہلے ہندو مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔کئی جگہ دونوں برابر کے حصے دار تھے۔چینی اور گڑ کی ملیں ہندوؤں کی تھیں۔ لوہے کی بڑی بڑی ملیں مسلمانوں کے پاس تھیں۔ ملوں کے علاوہ دیگر کاروبار میں ۰۶ فی صد ہندو اور ۰۴ فی صد مسلمان شامل تھے۔ اب مسلمانوں کی تجارت ان علاقوں میں تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ سفینہ بی بی نے بتایا کہ اب سب کچھ اجڑ گیا۔ ایسا لگتا ہے، ہم کسی اجنبی ملک میں رہ رہے ہیں۔llوہ نیا انسان تھا اور اس کی پیدائش تیز بارش اور آندھی کے درمیان ہوئی تھی۔ لکھی پورہ کیمپ سے جمیلہ کی چیخیں گونجیں، اس وقت آسمان گرج رہا تھا۔ بدبوکی ایک تیز لہر تھی جو ماحول میں پھیلی ہوئی تھی۔ جمیلہ جس حصے میں تھی، اس حصے میں بھی زبر دست سیلن اور بدبو بھری تھی۔ عورتوں نے فیصلہ کیا کہ پاس میں ہی عیدگاہ ہے، جمیلہ کو لے کر وہیں چلتے ہیں۔ کیمپ کے مردوں نے منع کیا لیکن عورتوں میں غضب کا جوش تھا۔ کیمپ میں یہ کسی بچے کی پہلی پیدائش تھی۔ جمیلہ کا درد ناقابل برداشت ہوا جارہا تھا۔ عورتیں جمیلہ کو سمجھا رہی تھیں۔ کیمپ میں جندو بھائی رکشہ چلاتے تھے، وہ رکشہ لے کر آگئے۔ جمیلہ کو کسی طرح رکشے پر سوار کیا گیا۔ بادل گرج ضرور رہے تھے لیکن اس بات کی امید کم تھی کہ بارش ہوگی۔ بارش کے ہونے کا احساس ہوتا تو شاید جمیلہ کی کوٹھری میں بیٹھی عورتیں مان بھی جاتیں۔ کچھ عورتوں نے پیدل ہی عید گاہ جانا قبول کیا۔ ویسے بھی چار قدم کا راستہ تھا اور یہ بات  کیمپ کے مرد اور عورتوں کو تقویت پہنچا رہی تھی کہ پہلے بچے کی پیدائش عید گاہ میں ہوگی۔عید گاہ والا علاقہ سنسان تھا۔ گھر فساد میں لٹ چکا تھا اور اب  کیمپ کے پہلے بچے کی پیدائش۔چالیس پچاس کی تعداد میں مرد عورتوں کا قافلہ عید گاہ پہنچ گیا۔ عید گاہ کی مٹی والی زمین پر چھوٹی چھوٹی گھانس اگ آئی تھی۔ ببول کے درخت بھی تھے۔زمین ابھی خشک تھی مگر بارش ہوجانے کے بعد چلنا مشکل ہوجاتا تھا۔جس وقت قافلہ عید گاہ پہنچا، ٹھیک اسی وقت بادل زور سے گڑ گڑائے، بلکہ بادلوں کا کارواں آہستہ آہستہ نیلے آسمان پر پھیل گیا۔ بجلی چمکی اور کچھ ہی دیر میں بارش شروع ہوگئی۔جمیلہ کو رکشہ سے اتارا گیا۔ وہ درد سے تڑپ رہی تھی۔ جمیلہ کو ایک بہتر جگہ لٹادیا گیا۔ ان عورتوں نے ساری تیاری کی ہوئی تھی۔ یہ وہ عورتیں تھیں، جن کو بچے کے پیدائش کے لیے کسی اسپتال یا کسی سرجری کی ضرورت نہیں ر ہتی ہے۔بچہ ہونے، نال کاٹنے تمام عمل میں یہ عورتیں ہوشیار تھیں.... اور جس وقت بارش کی بوندوں نے برسنا شروع کیا، ان عورتوں نے جمیلہ کے ارد گرد گھیرا بنالیا۔ دور سے یہ منظر دیکھنے پر ایسا لگتا تھا جیسے بارش میں زمین سے گندھی عورتوں نے رقص کرنا شروع کردیا ہو۔ مرد الگ بھیگ رہے تھے۔ وقت قریب آچکا تھا۔ موقع دیکھ کر عورتوں نے مقامی گیت گنگنانے شروع کردیے۔ یہ ایسا گیت تھا، جس میں صرف جمیلہ کے نام کو سنا جاسکتا تھا۔بارش میں گھیرا ڈالے ہوئے عورتیں بھیگ رہی تھیں۔ مگر ان عورتوں کا ہدف یہی تھا کہ بارش کے قطروں سے جمیلہ کو محفوظ رکھا جائے۔جب گھیرا کم ہونے کا احساس ہوا تو ان عورتوں نے مردوں کوآواز دی۔ اس طرح اب اس گھیرے میں مرد بھی شامل ہوگئے۔بجلی چمک رہی تھی۔بادل گرج رہے تھے۔بارش تیز ہوگئی تھی۔ یہ نئے انسان کے طلوع ہونے کا منظر تھا جو اس لہو موسم میں، تیز بارش میں، گھاس پھوس اور پتھروں کے درمیان پیدا ہونے والا تھا۔اس پُر آشوب موسم میں، نفرت کی فضا میں اس نے آنے کے لیے یہی وقت مقرر کیا تھا۔بارش کے قطرے روحانی موسیقی میں تبدیل ہوگئے تھے۔اور میرے ننھے شہزادے‘تمہارا استقبالتم اس تیز آندھی اور بارش میں آئےتمہارا استقبالتم زرد موسموں کے درمیان آئےتمہارا استقبالاور بہت جلد ہم تمہیں پاؤ ں پاؤں چلتا ہوا دیکھیں گےتم امید کے گھوڑے پر سوار ہوگےکیونکہ تم ایک نئی دنیا کے جشن کے ساتھ آئے ہواس موسلا دھار بارش میںاور عید گاہ کی نرم زمین پرتمہارا استقبال......عورتیں ابھی بھی جمیلہ کو گھیرے میں لیے ہوئے گیت گارہی تھیں۔ مرد بھی ان کے سر میں سُر ملا رہے تھے۔آسمان میں تیز بجلی چمکی۔ نوزائیدہ کے رونے کی آواز ابھری۔ گھیرا ڈالے مرد عورتیں اس بار خوشی سے ناچنے لگے۔ گھیرے کے اندر بیٹھی عورت نے آواز لگائی۔ بیٹا ہوا ہے۔اس بار ان کی خوشیوں میں بادل کی گرج کا اضافہ ہوچکا تھا۔یہ کیمپ میں پہلے بچے کی پیدائش تھی۔...سیواڑہ، لکھی پورہ کو دیکھنے سے قبل یہ پوری داستان ددّو شاستری نے سنائی تھی۔ اب نیند نے گھیرنا شروع کردیا تھا۔چھ برس یادوں کو بھولنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔صبح ہوتے ہی ہم نے ہوٹل چھوڑ دیا۔ بس سے سیواڑہ کا راستہ دوگھنٹے کا راستہ تھا۔ ہم پرانی یادوں سے کیا برآمد کرنے جارہے تھے، یہ ہمیں بھی پتہ نہیں تھا۔ بس میں کافی بھیڑ تھی۔ مشکل سے ہمیں کھڑے ہونے کے لیے جگہ ملی۔ سیواڑہ بس اسٹینڈ کے پاس بس رُک گئی۔ پہلے ہم نے ایک سڑک چھاپ ہوٹل کے پاس کھڑے ہوکر چائے پی۔پھر آس پاس گھومنے کا ارادہ کیا۔آزادی کے بعد پہلی بار ان بستیوں کو دیکھنے کا اتفاق ہورہا تھا، جہاں سے مسلمان ہجرت کرگئے تھے۔ اب ان بستیوں میں مسلمانوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ایک مسجد ملی، جو ٹوٹی ہوئی تھی اور چھ برس پرانی کہانی سنا رہی تھی۔ سڑک کے کنارے کنارے چھوٹی دکانیں تھیں۔ ہم ان سے گزرتے ہوئے آگے بڑھے تو تقریباً ایک میل چلتے ہوئے اپنے گھر کے باہر دھنی رمائے چارپائی پر بیٹھے ایک صاحب نظر آئے۔ کبھی کبھی چھٹی حس کچھ ایسا کہہ جاتی ہے، جس کے بارے میں آپ کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ ایک چھوٹا سا کچا گھر تھا۔ چارپائی پر بیٹھے شخص کانام رما شنکر تھا۔ عمر ۱۵ کے آس پاس۔ ماتھے پر ٹیکہ لگا ہوا تھا۔ ہم نے نمستے کے لیے ہاتھ جوڑے تو انہوں نے چارپائی پر بیٹھنے کے لیے کہا۔سورج شان سے نکلا تھا اور دھوپ کی قرمزی شعاؤں نے سیواڑہ پر اپنا آنچل پسار دیا تھا۔’ اجنبی ہو.....‘’ جی۔‘’ نام کیا ہے؟‘ رما شنکر نے ددّو شاستری سے پوچھا۔ددّو نے اپنا نام بتایا۔ پھر رما شنکر نے مسکراکر میری طرف دیکھا۔’ تم تو مسلمان ہو۔‘اب چونکنے کی میری باری تھی۔’ مسلمان اپنے طور طریقوں سے پہچانے جاتے ہیں۔‘ رما شنکر نے مسکرا کر کہا۔ ’سیواڑہ میں سب اپنے تھے۔ غیر کون تھا۔ ایک ہوا چلی اور سب کچھ چلا گیا۔ میں نے آنکھوں کے سامنے اپنے دوست زین العابدین کو مرتے ہوئے دیکھا۔ موت کا تانڈو چلا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ ختم۔ جو اپنے تھے، وہ گھروں کو چھوڑ گئے۔ رما شنکر رہ گیا۔ نام کا پنڈت۔ ان لوگوں نے دھرم کو سمجھا ہی کیا ہے۔ لیکن ایک بات ہے۔ یہاں بہت سے ایسے لوگ ہیں اب جنہیں چھ برس پہلے کے حادثے پر افسوس ہورہا ہے۔‘ رما شنکر خاموش ہوگئے۔ جیسے یادوں کا ایک کارواں آنکھوں کے آگے سے گزر گیا ہو۔ وہ اب بھی اسی کارواں کے ساتھ تھے۔’چھوٹے چھوٹے معصوم بچے تھے۔ عورتیں تھیں جن کو ہم بھابھی بھابھی کہتے تھے۔ ان کی شادیاں اسی گاؤں میں ہوئیں۔ ہمارے لیے سارے پرب تہوار ایک جیسے تھے۔ فرق بس لباس کا تھا۔ یہاں ایک مزار ہوا کرتی تھی۔ وہ مزار اب بھی ہے۔ ستم ڈھانے والے مزار توڑنے کی ہمت نہیں کرسکے۔ عورتوں کی عزت کو لوٹا۔ بچوں کو گولیاں ماریں..... اور....‘رما شنکر کی آنکھوں میں آنسو جھلملارہے تھے۔’ سب کچھ ان آنکھوں نے دیکھا۔‘ رما شنکر نے ہنستے ہوئے کہا.....’اسی قصبے میں میرا ایک دوست تھا، رحیم میاں۔ بڑا دلچسپ۔ اس کو میرے پاس بیٹھنے میں بہت مزہ ملتا تھا۔ وہ اردو کی کتابیں خوب پڑھتا تھا۔ جانتے ہو ایک دن اس نے کیا کہا۔ مجھے ابھی بھی اس کی بات یاد ہے....‘ رما شنکر دوبارہ ہنسے۔ اب وہ سنجیدہ تھے۔  ’رحیم کہتا تھا، مسجدوں میں رقص کرنا منع ہے۔مگر جاہل مسجدوں میں ناچا کرتے ہیں  یہ جاہل مندروں میں بھی ناچتے ہیں۔سڑکوں پر بھی۔ ان جاہلوں نے مذہب کو نہیں سمجھا۔ گاؤں کے حسن کو تباہ کردیا۔‘’ مگر یہ سب اچانک......‘ ددّو شاستری نے پوچھا۔’ کیا اچانک کچھ ہوتا ہے۔؟اچانک کچھ بھی نہیں ہوتا۔‘’ پھر یہ سب....‘’ پرانے زخم کیوں کریدتے ہو میاں.....‘’ کیا زخم بھر گئے؟‘’ نہیں میاں۔زخم تو جان جانے کے بعد بھی نہیں بھریں گے۔‘’ پھر بتائیے... یہ سب کیوں اور کیسے ہوا۔‘ میں نے رما شنکر کے چہرے کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر اچانک جھرّیاں پیدا ہوگئی تھیں۔’ کچھ باہر لوگ آنے لگے تھے۔‘’ باہری.....‘’ جو ہمارے قصبے کے نہیں تھے۔ شہر سے تھے۔دلّی کے تھے۔ لکھنؤ کے تھے۔ ممبئی کے تھے....‘’ کیوں؟ ‘’ یہ لوگ سارا دن آس پاس منڈلایا کرتے تھے۔ کبھی مکھیا سے مل رہے ہیں۔ کبھی سرپنچ سے۔ ان میں......‘رما شنکر نے میری طرف دیکھا۔’ان میں تمہارے لوگ بھی تھے۔ ایک نوجوان تھا۔ اس کی تصویر میرے بیٹے کے پاس ہوگی۔ کچھ لوگوں کے ساتھ آیاتھا۔ میرے بیٹے سے دوستی ہوگئی۔وہ مسجد میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ٹھہرا تھا۔ میرے بیٹے نے اس کے ساتھ تصویر بھی لی تھی......‘رما شنکر کہتے کہتے رُک گئے۔’ پھر وہ کہاں چلا گیا؟ ‘’ جہاں سے آیا تھا، وہیں چلا گیا۔ اس کے بعد کچھ سناتنی آئے۔ یہ سمجھ میں آنے لگا تھا کہ گاؤں کی فضا کو خراب کیا جارہا ہے۔ کچھ ہونے والا ہے۔لیکن ایک بات سیواڑہ کے بارے میں کہوں گا۔‘’ وہ کیا؟‘ ددّو شاستری نے پوچھا۔’ جوکچھ ہوا، اس کو صرف دنگے کے نظریے سے مت دیکھو۔ سماجی ذات پات کا فرق بھی میں سمجھتا ہوں،یہ بھی اہم کڑی ثابت ہوا۔سماجی دنگے کو سمجھنے کے لیے اس پورے ڈھانچے کو سمجھنا ہوگا جس نے ہمارے معاشرے اور سماج کو کئی حصوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ یہاں عوام کی پہچان مذہب سے زیادہ برادری سے ہوتی ہے۔ پہلے پوچھا جاتا ہے، کس برادری سے ہو بھائی؟ اب مسلمانوں کو ہی لو۔ جاٹ برادری سے جو لوگ مسلمان بنے وہ مولا جٹ کہلائے۔ تیاگی سماج سے جو لوگ مسلمان بنے، وہ مسیہرا کہلائے۔ راجپوتوں کو راندھڑ کہا گیا۔ جو گوجر ایمان لائے، وہ مسلم گوجر ہوگئے۔جن راجپوتوں نے اسلام قبول کیا، ان کی برادری میں ’گوتر‘ میں شادی کو اچھا نہیں مانا جاتا۔آج بھی وہاں وہی رسمیں چلی آرہی ہیں جب وہ ہندو ہوا کرتے تھے۔ اس لیے سیواڑہ میں مذہب الگ ہونے کے باوجود کبھی کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ مگر برادریوں کے درمیان فرق پیدا ہوچکا تھا۔‘’ برادریوں کے درمیان مطلب۔؟‘’ اونچ نیچ برادری۔ مگر یہاں تک سب ٹھیک تھا۔ اس کے بعد۔‘’ اس کے بعد؟‘ ددّو شاستری نے پوچھا۔’ اس کے بعد یہ کہہ کر ماحول کو خراب کیا گیا کہ مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر ہندوؤں کو اپنے مذہب میں کنورٹ کیا ہے۔ ایسے مسلمانوں کو گھر واپسی کے لیے کہا جانے لگا، اس سے سیواڑہ کی فضا میں تناؤبڑھ گیا...... اور پھر ایک دن دو گروہوں میں ہاتھا پائی ہوئی۔ پھر گولیاں چلیں اور ماحول بے قابو ہوگیا۔‘’ ابھی آپ نے کہا کہ ہمارے لو گ بھی تھے؟‘’ ہاں۔حادثے کے پہلے تمہارے لوگ بھی آرہے تھے۔؟‘’ مسلمانوں کو سمجھانے؟‘’ راجنیتی سے کھیلنے.......‘  رما شنکر آہستہ سے بولے۔’ راجنیتی سے کھیلنے مطلب؟ ‘ ددّو شاستری نے پوچھا۔’ آگ میں گھی ڈالنے۔ راجنیتی کا کوئی دھرم نہیں ہوتا، اس سے آگے مت پوچھو۔‘’ آپ نے کہا کہ آپ کے بیٹے کے پاس.....‘’ ایک تصویر ہے..... ابھی دکھاتا ہوں۔‘ رما شنکر نے اپنے بیٹے کو آواز لگائی۔ اس کا بیٹا شمبھو دو ایک آواز کے بعد دوڑا ہوا آیا۔ اس کی عمر تقریباً ۰۳ سال ہوگی۔ گیہواں رنگ، قد میانہ.... اور رما شنکر کی طرح اس کے چہرے سے بھی شرافت برستی تھی۔رما شنکر نے اس کے کان میں کچھ کہا۔ شمبھو اندر چلا گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ اپنا موبائل لے کر آیا۔موبائل پر کچھ دیر تک وہ تلاش کرتا رہا۔ پھر ایک تصویر آگے کردی۔ شمبھو کے ساتھ ایک تصویر تھی۔ دونوں مسکرا رہے تھے۔ میں اور ددّو شاستری دونوں اس تصویر کو دیکھ کر چونک گئے۔’ یہ تو اپنا شمس ہے۔‘’ ہاں۔‘ میں نے ددّو کی طرف دیکھا۔’ ہاں شمس.... بڑا پیارا نوجوان تھا۔ مگر کیا ہوا۔؟‘’ شمس کو قتل کردیا گیا۔‘ ددّو شاستری بولے......’ مجھے معلوم تھا۔‘ رما شنکر آہستہ سے بولے۔’ کیا معلوم تھا؟ ‘’ راجنیتی.......‘میں سناٹے میں تھا۔’ گویا یہ آپ کہہ رہے ہیں......‘’ میرا منہ مت کھلواؤ۔‘ رما شنکر نے بیٹے کو جانے کا اشارہ کیا۔’ یہ فساد ایک طرفہ نہیں تھا۔ بلکہ......‘’ تھا تو ایک طرفہ۔ مگر......رنگ دونوں نے مل کر دیا۔‘’ کیا یہ ممکن ہے؟‘میرے ذہن ودماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں۔’ اس دیش میں اب سب کچھ ممکن ہے۔ ہوا پہلے خراب نہیں تھی۔ پھر سیواڑہ دونوں جماعتوں کے لوگ آنے لگے۔ سیاسی لوگ بھی ترشول اٹھائے گھومتے تھے ماحول اچانک خراب نہیں ہوا۔ مگر جو گزری وہ معصوم بیماروں پر۔ جو بچ گئے وہ سیواڑہ چھوڑکر چلے گئے۔رما شنکر کا بیٹا اس درمیان چائے اور  بسکٹ لے آیا۔ کچھ دیر بعد ہم رما شنکر کے یہاں سے نکل گئے۔ابھی قصبے کا جائزہ لینا تھا۔ یہاں ایک تھانہ بھی تھا۔ کچھ دور پر پولیس کی ایک جیپ کھڑی تھی۔ آس پاس کئی مندر تھے۔ پھر وہ مزار بھی مل گیا جس کے بارے میں رما شنکر نے کہا تھا۔ ابھی بھی مزار پر دو عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ شہر کی کچھ دیواروں پر زہریلے نعرے ابھی بھی لکھے ہوئے تھے۔ وقت کی دھول میں بھی تحریریں زندہ رہ گئی تھیں۔ ہم دیر تک سیواڑہ میں گھومتے رہے۔ جو کچھ رما شنکر نے بتایا اس سے زیادہ کچھ حاصل ہونے کی امید نہیں تھی۔مندر سے آرتی کی آواز گونج رہی تھی۔ کچھ صحت مند اور مسٹنڈے نوجوان ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔سیواڑہ کے علاوہ دو ایک بستیوں کو اور دیکھنا تھا۔ اس درمیان دوبار وینتی چوپڑہ کا فون آیا۔ ایک بار اس نے  خوف زدہ لہجے میں بتایا کہ اس کا این جی او آفس تک پیچھا کیا گیا، یہ اس کا وہم بھی ہوسکتا ہے۔ مگر وینتی کو پہلی بار میں نے خوفزدہ محسوس کیا تھا جبکہ وہ اس طرح کی خاتون نہیں تھی۔دو دن ہم نے سیر سپاٹے میں گزارے۔ یہ تمام بستیاں آس پاس تھیں.... اور چھ برس قبل یہاں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔لکھی پورہ میں زیادہ تر نچلی ذات کے لوگ تھے۔ یہاں کچھ مسلمان اب بھی آباد تھے۔ لیکن یہاں کوئی بھی ایسا نہیں ملا جو پرانی یادوں کی یاد تازہ کرنا چاہتا ہو۔سمبھلی گاؤں اور دیگر گاؤں کا جائزہ لیتے ہوئے دو دن گزر گئے۔ اب ہمیں دلی واپس لوٹنا تھا۔ دلی کے بعد سنبھل، راجو کے دیے گئے پتہ پر جانا تھا اور اجو چا چاسے ملاقات کرنی تھی۔ مگر اس دورہ کا یہ فائدہ ہوا کہ جو معلومات ہمیں آسانی سے حاصل ہوئی، وہ خوفزدہ حقیقت کو بیان کرنے کے لیے کافی تھی۔ رما شنکر کی بات یاد آرہی تھی۔ راجنیتی میں دھرم نہیں ہوتا۔ راجنیتی میں سب جائز ہے۔اب ہمیں دلی واپس لوٹنا تھا۔ لیکن ہمارا ایک مشن مکمل ہوچکا تھا۔ شمس سیواڑہ آیا تھا۔ لیکن کیوں آیا تھا؟ اور کن لوگوں کے ساتھ آیا تھا۔؟ان لوگوں کی منشا کیا تھی۔؟کیا شمس کچھ ایسی باتوں کو جان گیا تھا، جو شاید اسے نہیں جاننا چاہیے تھا۔؟کیا شمس اپنے ہی لوگوں سے بیزار تھا۔؟ فرض کیجیے، یہ کسی ایک تنظیم کا مسئلہ تھا۔ کیا شمس تبریز کے ساتھ جو کہانیاں سامنے آرہی تھیں، اس نے بیشتر تنظیموں کے لیے شک کے جال بن دیے تھے۔؟ ان کے ساتھ سب سے اہم سوال یہ بھی تھا کہ حق وصداقت کے کلمات جو ان تنظیموں سے ابھرتے تھے، وہ کیا تھے؟۔ مساوات اور ملت کے نعرے جو دیے جاتے تھے، کیا وہ سب کھوکھلے تھے؟ سارا معاملہ،سارامشن اسپانسرڈ تھا۔؟پھر دودھ کا دھلا کون تھا۔ ہندو جماعتیں یا ملی تنظیمیں۔ ہندو سبھا، ہندو واہنی یا حکومت کے ذریعہ پیسہ حاصل کرنے والی تنظیمیں۔ یہ تنظیمیں جو بدلتی ہوئی سیاست کے ساتھ چلتی ہیں۔ حکومت کے بڑے فیصلوں میں ان کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کیا اسی لیے ملک کی ایک بڑی آبادی نے ان تنظیموں کو قبول نہیں کیا۔؟آگے بڑھنے پر ایک سور باڑا نظر آیا۔ کچھ جنگلی سور نالیوں میں لوٹ رہے تھے۔ سیاہ چمڑے پر مٹی لگی ہوئی تھی۔ اس طرف تیز بدبو تھی۔ بدبو کے ساتھ ساتھ کچھ دور چلنے پر بس اسٹینڈ تھا۔ اب ہمیں دلبر نگر اسٹیشن جانا تھا اور وہاں سے دلی کے لیے ٹرین پکڑنی تھی۔فیض اچانک سامنے آگئے۔’ ہمیں حیرتوں کے لیے تیار رہنا چاہیے‘’ یہ کیا بات ہوئی؟‘ فیض نے قہقہہ لگایا۔ تمہارا دور حیرتوں کا ہے۔ حیرتوں سے نجات نہیں۔‘’ آپ کیا کرتے؟‘’ میں شاعری بند کردیتا۔ کسان بن جاتا۔‘’ لیکن اس ملک کے کسان تو خود کشی کررہے ہیں۔‘’ پھر میں بھی خود کشی کرلیتا۔‘فیض مسکرائے اور نظروں سے غائب ہو گئے۔ابھی دلبر نگر کی ٹرین نہیں آئی تھی۔ ہم دیر تک اسٹیشن پر آوارہ گردی کرتے رہے۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024