حمد اور نعت
حمد اور نعت
Jan 31, 2024
دبان شمارہ ۔(۲۰ اور ۲۱)۲۰۲۴
حمد باری تعالیٰ
شمع ظفر مہدی
حسن میں دلبری ،اسی کی ہے
عشق میں سروری اسی کی ہے
ہے یہ دنیا مصوری ، کی کتاب
ساری صورت گری اسی کی ہے
پھول مصرعے ہیں تتلیاں مصرعے
یہ حسیں شاعری اسی کی ہے
دھڑکنیں جیسے نغمہ ء پیہم
لے یہ جادو بھری اسی کی ہے
نظم سیارگاں بھی اسکا کمال
کشت گیتی ہری اسی کی ہے
دست موسی میں معجزے اسکے
سامر ساحری اسی کی ہے
آگ پھولوں میں ہوگی ء تبدیل
صفت داوری اسی کی ہے
ہر مہم اسکا اک اشارہ ہے
ا ور پھر رہبری اسی کی ہے
محو پرواز جستجو اسکی
ہم سفر شہ پری اسی کی ہے
دل کو تسکین اسکے ناموں سے
چشم نم میں۔ تری اسی کی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم
شمع ظفر مہدی
مجھے کس مقام پہ لے گئیں تھیں میری دعا کی تجلیاں
کہ میری نظر میں سما گئیں مصطفٰے کی تجلیاں
ہیں وہی مدینے کی رونقیں، وہی رحمتیں،وہی راحتیں
وہاں ہر طرف نظر آئیں گی، شہ دوسرا کی تجلیاں
یہ نبی کا شہر حسین ہے،یہ محبتوں کا امین ہے
یہاں زائروں کا ہجوم ہےیہاں ہے عطا کی تجلیاں
وہی ایک نکتہ نور ہے جو ازل سے محو سفر رہا
ہے ہر اک ستارہ لئے ہوئےاسی نقش پا کی تجلیا
جو ہمارا طرز نصاب ہے وہ تو معجزے کی کتاب ہے
کہ ورق ورق سے جھلک رہی ہیں ابھی ولا کی تجلیاں
ہے جو سر جھکائے قریب در وہی شمع منتظر کرم
کہ یہ راستہ تو دکھا گیء ہیں اسے ولا کی ثجلیاں
اقراء کہ کر وہ اجالوں کو بڑھانے والا
قطرہء نور کو سیلاب بنانے والا
منکشف کرتا ہے اذہان پہ اسرار جہاں
ذرے ذرا میں کرن بن کے سمانے والا
کیا مصور ہے بناتا ہے شبیہہ کیا کیا
اپنے عالم کو حسینوں سے سجانے والا
صبح خورشید جہاں تاب درخشاں خندہ
رات مہتاب دل آرام کو لانے والا
اذن سے اس کے ہواؤں کے سفر جاری ہیں
حسن ترتیب سے موسم کو بلانے والا
کبھی گرمی کبھی سردی کبھی برسات کا شور
وقت میں رنگ و ترنم کو ملانے والا
ذہن پر پھولوں کی بارش کا سماں رہتا ہے
مجھ کو اس حمد کے الفاظ سکھانے والا
اس کی قدرت ہے تنوع پہ وہی خالق ہے
ہر اک انسان کی الگ شکل بنانے والا
کتنا آسان ہے اس کے لئے نظم دنیا
اپنی تخلیق پہ نازاں ہے بنانے والا
مہربانی کی بھلا رکھی ہے کچھ حد اس نے
نعمتوں کے نئے انبار لگانے والا
مضطرب لمحوں میں جب اس کو پکارا ہے کبھی
وہ سکوں بن کے دلوں میں اتر آنے والا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دبان شمارہ ۔(۲۰ اور ۲۱)۲۰۲۴
حمد باری تعالیٰ
شمع ظفر مہدی
حسن میں دلبری ،اسی کی ہے
عشق میں سروری اسی کی ہے
ہے یہ دنیا مصوری ، کی کتاب
ساری صورت گری اسی کی ہے
پھول مصرعے ہیں تتلیاں مصرعے
یہ حسیں شاعری اسی کی ہے
دھڑکنیں جیسے نغمہ ء پیہم
لے یہ جادو بھری اسی کی ہے
نظم سیارگاں بھی اسکا کمال
کشت گیتی ہری اسی کی ہے
دست موسی میں معجزے اسکے
سامر ساحری اسی کی ہے
آگ پھولوں میں ہوگی ء تبدیل
صفت داوری اسی کی ہے
ہر مہم اسکا اک اشارہ ہے
ا ور پھر رہبری اسی کی ہے
محو پرواز جستجو اسکی
ہم سفر شہ پری اسی کی ہے
دل کو تسکین اسکے ناموں سے
چشم نم میں۔ تری اسی کی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم
شمع ظفر مہدی
مجھے کس مقام پہ لے گئیں تھیں میری دعا کی تجلیاں
کہ میری نظر میں سما گئیں مصطفٰے کی تجلیاں
ہیں وہی مدینے کی رونقیں، وہی رحمتیں،وہی راحتیں
وہاں ہر طرف نظر آئیں گی، شہ دوسرا کی تجلیاں
یہ نبی کا شہر حسین ہے،یہ محبتوں کا امین ہے
یہاں زائروں کا ہجوم ہےیہاں ہے عطا کی تجلیاں
وہی ایک نکتہ نور ہے جو ازل سے محو سفر رہا
ہے ہر اک ستارہ لئے ہوئےاسی نقش پا کی تجلیا
جو ہمارا طرز نصاب ہے وہ تو معجزے کی کتاب ہے
کہ ورق ورق سے جھلک رہی ہیں ابھی ولا کی تجلیاں
ہے جو سر جھکائے قریب در وہی شمع منتظر کرم
کہ یہ راستہ تو دکھا گیء ہیں اسے ولا کی ثجلیاں
اقراء کہ کر وہ اجالوں کو بڑھانے والا
قطرہء نور کو سیلاب بنانے والا
منکشف کرتا ہے اذہان پہ اسرار جہاں
ذرے ذرا میں کرن بن کے سمانے والا
کیا مصور ہے بناتا ہے شبیہہ کیا کیا
اپنے عالم کو حسینوں سے سجانے والا
صبح خورشید جہاں تاب درخشاں خندہ
رات مہتاب دل آرام کو لانے والا
اذن سے اس کے ہواؤں کے سفر جاری ہیں
حسن ترتیب سے موسم کو بلانے والا
کبھی گرمی کبھی سردی کبھی برسات کا شور
وقت میں رنگ و ترنم کو ملانے والا
ذہن پر پھولوں کی بارش کا سماں رہتا ہے
مجھ کو اس حمد کے الفاظ سکھانے والا
اس کی قدرت ہے تنوع پہ وہی خالق ہے
ہر اک انسان کی الگ شکل بنانے والا
کتنا آسان ہے اس کے لئے نظم دنیا
اپنی تخلیق پہ نازاں ہے بنانے والا
مہربانی کی بھلا رکھی ہے کچھ حد اس نے
نعمتوں کے نئے انبار لگانے والا
مضطرب لمحوں میں جب اس کو پکارا ہے کبھی
وہ سکوں بن کے دلوں میں اتر آنے والا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔