حبیب احسن کی غزلیں اور نظمیں

حبیب احسن کی غزلیں اور نظمیں

Jun 12, 2019

مصنف

حبیب احسن

شمارہ

شمارہ - ١٠

غزلیں اور نظمیں :حبیب احسن۔

۱

۔ ساحل کی دھوپ،ریت، بگولے،سراب دو

مہکی ہوئ ہوائیں دو ، موسم کا خواب دو

جس کا ہو حرف حرف محبت سے آشنا

بک شیلف سے نکال کر ایسی کتاب دو

مجھ کو بھی کالی رات میں رستہ دکھائی دے

ایسا کوئ چراغ ، کوئ ماہتاب دو ۔

اب تک چمن میں خار ہی چنتا رہا ہوں میں

مجھ کو رتوں کے خواب دکھاو ، گلاب دو

آئے ہیں آسمان سے جو بن کر محتسب

احسن تمام عمر کا ان کو حساب دو۔

۲۔

گھٹا رونے لگی ہے دیکھئے تو

کہانی کیا سنی ہے دیکھئے تو

سروں کو کیوں پٹکتی ہیں ہوائیں

یہ کیسی بے کلی ہے دیکھئے تو

اتر آئے اندھیرے کیا دلوں میں،

گھروں میں سنسنی ہے دیکھئے تو

یہ زخم دل مہکنے لگ گیا ہے ،

کہ اب جاں پر بنی ہے دیکھئے تو

ہوئے احسن گرفتار بلا کیا؟

جو یہ دیوانگی ہے دیکھئے تو۔

۳

۔ مصلوب ہے یہ کون یہاں کچھ نہ پوچھئے

کاٹی گئی ہے کس کی زباں کچھ نہ پوچھئے

کس کا لہو چراغ جلاتا ہے رات دن

آنکھوں سے کس کی خوں ہے رواں کچھ نہ پوچھئے

کس کے بدن کو کاٹ گئی ہے ستم کی آگ

جلنے لگے ہیں کس کے مکاں کچھ نہ پوچھئے

کتنے تھے جو شہید ہوئے گمشدہ ہوئے۔

معصوم اور ضعیف، جواں کچھ نہ پوچھئے

اب تو کسی کا بھی کوئ وارث نہیں رہا

ہر شخص بے نشاں ہے یہاں کچھ نہ پوچھئے ۔

نظمیں: حبیب احسن

1

فشار درد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فشار درد

یہ میرا

محبت کی علامت ہے

تمنا کی علامت ہے

نہاں سوز جگر کی بھی علامت ہے

قتیل وقت کی بھی یہ علامت ہے

ہمارے خون میں شامل

ہماری آرزوں کی علامت ہے

اگرچہ اس

فشار درد

میں شا،ل

ستاروں کی چمک بھی ہے

گلوں کی تازگی بھی ہے

مگر اس کا

سکوں سے بے سکونی کی طرف احسن

سفر جاری رہیگا!!!

۲

سر کشیدہ لوح قلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوچتا ہوں

میں بغاوت کا علم لے کر چلوں

سر کشیدہ

اپنے یہ لوح و قلم لے کر چلوں

مارکس کی ساری کتابیں

کھا گئیں جو دیمکیں

وقت کے سارے صحیفے

عالموں کے پیٹ کا ایندھن بنیں

خون میں ڈوبی ہوئی

انگلیاں مزدور کی

ہر طرف بکھری ہوئ احساس کی یہ کرچیاں

سوچتا ہوں

کیا کروں،میں کیا کروں؟

کیا بغاوت کا علم لے کر چلوں؟

یا خیال و خواب کی دیمک بنوں؟

یا میں اپنے پیٹ کا ایندھن بنوں؟

کس طرح میں سر کشیدہ

اپنے یہ لوح و قلم لے کر چلوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳

۔ میں نے پھول چرایا ہے

اپنے گھر آنگن کو میں نے یوں گلرنگ بنایا ہے

میں نے پھول چرایا ہے !

جس کی خاطر دنیا بھر میں رسوا اور بدنام ہوئے

ایسے پیارے پیارے چہرے پتھر کے اصنام ہوئے۔

برسوں جس کو چاہا میں نے اس نے درد جگایا ہے

میں نے پھول چرایا ہے !

اس کی یاد کا گلشن کتنا پیارا پیارا لگتا ہے

خواب کی رنگیں بستی میں وہ چاند ستارہ لگتا ہے

انگلی بھی ہے زخمی زخمی ، دامن بھی الجھایا ہے۔

میں نے پھول چرایا ہے!

کیسے کیسے موسم آئے،کیسے کیسے پھول کھلے

کیسی کیسی راتیں آئیں ، کیسے کیسے دن نکلے۔

آتی جاتی رت نے کیا کیا من میں دیپ جلایا ہے ۔

میں نے پھول چرایا ہے !

اپنے گھر آنگن کو میں نے یوں گلرنگ بنایا ہے !!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزلیں اور نظمیں :حبیب احسن۔

۱

۔ ساحل کی دھوپ،ریت، بگولے،سراب دو

مہکی ہوئ ہوائیں دو ، موسم کا خواب دو

جس کا ہو حرف حرف محبت سے آشنا

بک شیلف سے نکال کر ایسی کتاب دو

مجھ کو بھی کالی رات میں رستہ دکھائی دے

ایسا کوئ چراغ ، کوئ ماہتاب دو ۔

اب تک چمن میں خار ہی چنتا رہا ہوں میں

مجھ کو رتوں کے خواب دکھاو ، گلاب دو

آئے ہیں آسمان سے جو بن کر محتسب

احسن تمام عمر کا ان کو حساب دو۔

۲۔

گھٹا رونے لگی ہے دیکھئے تو

کہانی کیا سنی ہے دیکھئے تو

سروں کو کیوں پٹکتی ہیں ہوائیں

یہ کیسی بے کلی ہے دیکھئے تو

اتر آئے اندھیرے کیا دلوں میں،

گھروں میں سنسنی ہے دیکھئے تو

یہ زخم دل مہکنے لگ گیا ہے ،

کہ اب جاں پر بنی ہے دیکھئے تو

ہوئے احسن گرفتار بلا کیا؟

جو یہ دیوانگی ہے دیکھئے تو۔

۳

۔ مصلوب ہے یہ کون یہاں کچھ نہ پوچھئے

کاٹی گئی ہے کس کی زباں کچھ نہ پوچھئے

کس کا لہو چراغ جلاتا ہے رات دن

آنکھوں سے کس کی خوں ہے رواں کچھ نہ پوچھئے

کس کے بدن کو کاٹ گئی ہے ستم کی آگ

جلنے لگے ہیں کس کے مکاں کچھ نہ پوچھئے

کتنے تھے جو شہید ہوئے گمشدہ ہوئے۔

معصوم اور ضعیف، جواں کچھ نہ پوچھئے

اب تو کسی کا بھی کوئ وارث نہیں رہا

ہر شخص بے نشاں ہے یہاں کچھ نہ پوچھئے ۔

نظمیں: حبیب احسن

1

فشار درد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فشار درد

یہ میرا

محبت کی علامت ہے

تمنا کی علامت ہے

نہاں سوز جگر کی بھی علامت ہے

قتیل وقت کی بھی یہ علامت ہے

ہمارے خون میں شامل

ہماری آرزوں کی علامت ہے

اگرچہ اس

فشار درد

میں شا،ل

ستاروں کی چمک بھی ہے

گلوں کی تازگی بھی ہے

مگر اس کا

سکوں سے بے سکونی کی طرف احسن

سفر جاری رہیگا!!!

۲

سر کشیدہ لوح قلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوچتا ہوں

میں بغاوت کا علم لے کر چلوں

سر کشیدہ

اپنے یہ لوح و قلم لے کر چلوں

مارکس کی ساری کتابیں

کھا گئیں جو دیمکیں

وقت کے سارے صحیفے

عالموں کے پیٹ کا ایندھن بنیں

خون میں ڈوبی ہوئی

انگلیاں مزدور کی

ہر طرف بکھری ہوئ احساس کی یہ کرچیاں

سوچتا ہوں

کیا کروں،میں کیا کروں؟

کیا بغاوت کا علم لے کر چلوں؟

یا خیال و خواب کی دیمک بنوں؟

یا میں اپنے پیٹ کا ایندھن بنوں؟

کس طرح میں سر کشیدہ

اپنے یہ لوح و قلم لے کر چلوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳

۔ میں نے پھول چرایا ہے

اپنے گھر آنگن کو میں نے یوں گلرنگ بنایا ہے

میں نے پھول چرایا ہے !

جس کی خاطر دنیا بھر میں رسوا اور بدنام ہوئے

ایسے پیارے پیارے چہرے پتھر کے اصنام ہوئے۔

برسوں جس کو چاہا میں نے اس نے درد جگایا ہے

میں نے پھول چرایا ہے !

اس کی یاد کا گلشن کتنا پیارا پیارا لگتا ہے

خواب کی رنگیں بستی میں وہ چاند ستارہ لگتا ہے

انگلی بھی ہے زخمی زخمی ، دامن بھی الجھایا ہے۔

میں نے پھول چرایا ہے!

کیسے کیسے موسم آئے،کیسے کیسے پھول کھلے

کیسی کیسی راتیں آئیں ، کیسے کیسے دن نکلے۔

آتی جاتی رت نے کیا کیا من میں دیپ جلایا ہے ۔

میں نے پھول چرایا ہے !

اپنے گھر آنگن کو میں نے یوں گلرنگ بنایا ہے !!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024