شہرام سرمدی کا شعری مجموعہ "حواشی"

شہرام سرمدی کا شعری مجموعہ "حواشی"

Feb 18, 2025

مصنف

نسترن احسن فتیحی

شمارہ

شمارہ -٨ ٢

شہرام سرمدی کا شعری مجموعہ "حواشی"

نسترن احسن فتیحی

آج کل شہرام سرمدی کا شعری مجموعہ حواشی زیرِ مطالعہ ہے۔" حواشی " نہ صرف نظموں کے تخلیقی اور منفرد انداز کا آئینہ دار ہے بلکہ ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے ایک نایاب خزانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مجموعہ ان کے ادبی سفر کی ایک اہم کڑی ہے، جس میں فکر و خیال کی گہرائی اور جذبات کی شدت محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان کےشائع شدہ مجموعہ" ناموعود " اور" رباعیات سرمد"اب تک میرے مطالعے میں نہیں آ سکے ۔ حواشی نے ان کی علمی وسعت اور ادبی بصیرت کا قائل کر دیا۔ "حواشی" کو کتاب کے لیے عنوان کے طور پر اختیار کرنے کا جواز اس نکتے پر مبنی ہے کہ یہ کتاب محض متن تک محدود نہیں بلکہ اس میں متن سے ماورا کئی اہم پہلوؤں پر بات کی گئی ہے۔ اس حقیقت سے تو ہم سب واقف ہیں کہ حواشی، دراصل، متن کے ساتھ موجود وہ اضافی اور وضاحتی مواد ہوتے ہیں جو کسی کتاب کے معنیاتی اور فکری دائرے کو وسیع کرتے ہیں۔ اس شعری مجموعہ کے متن میں جو بات کہی گئی ہے، وہ مکمل تصویر پیش کرتی ہے ۔ پھر بھی شہرام سرمدی "حواشی" کے عنوان کے ذریعے یہ واضح کرتے ہیں کہ قاری کو متن سے باہر موجود گہرے اور ضمنی پہلوؤں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ گویا یہ عنوان تفہیم میں وسعت کا اشارہ ہے۔ حواشی کا استعمال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس میں وہ مضمرات اور معانی بھی شامل ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے اضافی پس منظر فراہم کیا جانا چاہیے ۔ بطور عنوان "حواشی" قاری کے ساتھ ایک مکالمہ قائم کرنے کی کوشش ہے، جہاں متن میں پوشیدہ پہلوؤں کی وضاحت کی گئی ہے ۔حواشی علمی روایت کا ایک اہم حصہ ہے، اور اس عنوان کے ذریعے یہ شعری مجموعہ اپنی علمی نوعیت کو ظاہر کرتا ہے اور قاری کو اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ مجموعہ میں متن کے ساتھ اضافی معلومات اور دلائل بھی شامل ہیں۔

شہرام سرمدی کی شاعری میں متنوع موضوعات اور رنگوں کی جھلک موجود ہے۔ ان کی نظموں میں تصوف کے نورانی پہلو، مادیت کی تاریکی، اور فلسفے کے گہرے چراغ روشن نظر آتے ہیں۔ یہ نظمیں نہ صرف قاری کو ظاہر کی سطح پر متاثر کرتی ہیں بلکہ بین السطور میں چھپی ایک گہری دنیا کی دعوت دیتی ہیں، جو قاری کو باطن کی گہرائی میں جھانکنے پر مجبور کرتی ہے۔ شہرام سرمدی کی شاعری میں متنوع موضوعات اور رنگوں کی موجودگی ان کے تخلیقی وژن اور گہرے ادبی شعور کی عکاس ہے۔ ان کی شاعری مختلف جہتوں کو یکجا کرتی ہے، جہاں تصوف، مادیت اور فلسفہ ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔

ان کی نظموں میں روحانی تجربات اور تصوف کے گہرے مفاہیم کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ پہلو قاری کو ایک ماورائی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں روشنی، سکون اور روح کی پاکیزگی کا احساس غالب رہتا ہے۔

سرمدی نے جدید دنیا کی مادہ پرستی، انسانی قدروں کے زوال، اور روحانی خلا کو اپنی شاعری میں اجاگر کیا ہے۔ ان کے اشعار مادیت کی اندھیروں پر گہری تنقید کرتے ہیں اور ان اندھیروں میں روشنی کی تلاش کی دعوت دیتے ہیں۔

ان کی نظموں میں فلسفیانہ موضوعات اور گہرے سوالات نظر آتے ہیں جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ نظمیں ایک سطحی مطالعے سے آگے بڑھ کر بین السطور میں چھپی معانی کی دنیا دریافت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

سرمدی کی شاعری میں ایک خاص خوبی یہ ہے کہ وہ قاری کو محض سطحی معانی تک محدود نہیں رہنے دیتی بلکہ اس کے باطن میں چھپے گہرے مفاہیم کو دریافت کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ قاری کو خود اپنے اندر جھانکنے اور اپنے وجود کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی دعوت ہے۔ گویاشہرام سرمدی کی شاعری ایک ایسی دنیا کی عکاسی کرتی ہے جو تضادات اور گہرائیوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ نظمیں قاری کو صرف محظوظ نہیں کرتیں بلکہ اس کے ذہن و دل کو جھنجھوڑ کر ایک نئی دنیا کی سیر کراتی ہیں۔ ان کی شاعری میں موضوعات کی یہ رنگارنگی اور گہرائی اسے اردو ادب میں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔

دعائیں مانگنا پوری نہ ہوتا

قصہ تازہ سا لگتا ہے

مگر تاریخ کا

(وہ صفحہ اول بھی

تا محفوظ ہے آج تک)

اس قصہ کہنہ سے جو تازہ ہے

اسی سے چہرہ ہستی کا غازہ ہے

"سرمدی کی نظموں کا یہ منفرد اسلوب قاری کو ظاہر کے پردے سے پرے معانی کی گہرائی میں لے جاتا ہے۔ ان کے استعاراتی نظام میں لفظ نہ صرف ظاہری معنی رکھتے ہیں بلکہ ماضی، حال اور مستقبل کی کئی پرتوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔"

ان کی نظم "چند نامطبوعہ تراشے "اور "حضرت دہلی" اس بات کا بہترین اظہار ہیں، جہاں تاریخ، تہذیب اور وقت کے امتزاج کو تخلیقی انداز میں پیش کیا گیا ہے:

درویش

کوجہ داغ میں

مستانہ وار اک تارے پر گاتا ہوا

اردو ہے جس کا نام

شہرام سرمدی کی نظموں میں ہندی اور سنسکرت الفاظ کا خلاقانہ استعمال بھی ان کی شعری جمالیات میں اضافہ کرتا ہے۔ سمے، آواگمن، سندور، بھکشا، مون جیسے الفاظ ان کے کلام میں موتیوں کی مانند جڑے ہوئے ہیں، جو نظموں کے مفہوم کو مزید گہرائی اور رنگ عطا کرتے ہیں۔

تصوف سے ان کی وابستگی بھی ان کی شاعری کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ ان کی نظموں میں مولانا روم، داتا گنج بخش، اور دیگر صوفیائے کرام کے افکار جھلکتے ہیں۔ خاموشی کا احیا، چشم بددور، اور حکایت: تصفیہ کے بیان میں جیسی نظمیں تصوف کی گہرائی اور اس کے پیچیدہ موضوعات کو شعری پیرائے میں پیش کرتی ہیں۔

آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شہرام سرمدی کا شعری مجموعہ" حواشی "ایک ایسا ادبی شاہکار ہے جس کی گہرائی تک رسائی کے لیے ادبی غواصی کی ضرورت ہے۔ یہ مجموعہ قاری کو کھینچ کر معانی کی پرت در پرت گہرائی میں لے جاتا ہے۔ بازگشت بکس کے خوبصورت سرورق کے ساتھ شائع شدہ یہ مجموعہ اردو ادب کے خزانے میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔


شہرام سرمدی کا شعری مجموعہ "حواشی"

نسترن احسن فتیحی

آج کل شہرام سرمدی کا شعری مجموعہ حواشی زیرِ مطالعہ ہے۔" حواشی " نہ صرف نظموں کے تخلیقی اور منفرد انداز کا آئینہ دار ہے بلکہ ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے ایک نایاب خزانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مجموعہ ان کے ادبی سفر کی ایک اہم کڑی ہے، جس میں فکر و خیال کی گہرائی اور جذبات کی شدت محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان کےشائع شدہ مجموعہ" ناموعود " اور" رباعیات سرمد"اب تک میرے مطالعے میں نہیں آ سکے ۔ حواشی نے ان کی علمی وسعت اور ادبی بصیرت کا قائل کر دیا۔ "حواشی" کو کتاب کے لیے عنوان کے طور پر اختیار کرنے کا جواز اس نکتے پر مبنی ہے کہ یہ کتاب محض متن تک محدود نہیں بلکہ اس میں متن سے ماورا کئی اہم پہلوؤں پر بات کی گئی ہے۔ اس حقیقت سے تو ہم سب واقف ہیں کہ حواشی، دراصل، متن کے ساتھ موجود وہ اضافی اور وضاحتی مواد ہوتے ہیں جو کسی کتاب کے معنیاتی اور فکری دائرے کو وسیع کرتے ہیں۔ اس شعری مجموعہ کے متن میں جو بات کہی گئی ہے، وہ مکمل تصویر پیش کرتی ہے ۔ پھر بھی شہرام سرمدی "حواشی" کے عنوان کے ذریعے یہ واضح کرتے ہیں کہ قاری کو متن سے باہر موجود گہرے اور ضمنی پہلوؤں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ گویا یہ عنوان تفہیم میں وسعت کا اشارہ ہے۔ حواشی کا استعمال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس میں وہ مضمرات اور معانی بھی شامل ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے اضافی پس منظر فراہم کیا جانا چاہیے ۔ بطور عنوان "حواشی" قاری کے ساتھ ایک مکالمہ قائم کرنے کی کوشش ہے، جہاں متن میں پوشیدہ پہلوؤں کی وضاحت کی گئی ہے ۔حواشی علمی روایت کا ایک اہم حصہ ہے، اور اس عنوان کے ذریعے یہ شعری مجموعہ اپنی علمی نوعیت کو ظاہر کرتا ہے اور قاری کو اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ مجموعہ میں متن کے ساتھ اضافی معلومات اور دلائل بھی شامل ہیں۔

شہرام سرمدی کی شاعری میں متنوع موضوعات اور رنگوں کی جھلک موجود ہے۔ ان کی نظموں میں تصوف کے نورانی پہلو، مادیت کی تاریکی، اور فلسفے کے گہرے چراغ روشن نظر آتے ہیں۔ یہ نظمیں نہ صرف قاری کو ظاہر کی سطح پر متاثر کرتی ہیں بلکہ بین السطور میں چھپی ایک گہری دنیا کی دعوت دیتی ہیں، جو قاری کو باطن کی گہرائی میں جھانکنے پر مجبور کرتی ہے۔ شہرام سرمدی کی شاعری میں متنوع موضوعات اور رنگوں کی موجودگی ان کے تخلیقی وژن اور گہرے ادبی شعور کی عکاس ہے۔ ان کی شاعری مختلف جہتوں کو یکجا کرتی ہے، جہاں تصوف، مادیت اور فلسفہ ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔

ان کی نظموں میں روحانی تجربات اور تصوف کے گہرے مفاہیم کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ پہلو قاری کو ایک ماورائی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں روشنی، سکون اور روح کی پاکیزگی کا احساس غالب رہتا ہے۔

سرمدی نے جدید دنیا کی مادہ پرستی، انسانی قدروں کے زوال، اور روحانی خلا کو اپنی شاعری میں اجاگر کیا ہے۔ ان کے اشعار مادیت کی اندھیروں پر گہری تنقید کرتے ہیں اور ان اندھیروں میں روشنی کی تلاش کی دعوت دیتے ہیں۔

ان کی نظموں میں فلسفیانہ موضوعات اور گہرے سوالات نظر آتے ہیں جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ نظمیں ایک سطحی مطالعے سے آگے بڑھ کر بین السطور میں چھپی معانی کی دنیا دریافت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

سرمدی کی شاعری میں ایک خاص خوبی یہ ہے کہ وہ قاری کو محض سطحی معانی تک محدود نہیں رہنے دیتی بلکہ اس کے باطن میں چھپے گہرے مفاہیم کو دریافت کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ قاری کو خود اپنے اندر جھانکنے اور اپنے وجود کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی دعوت ہے۔ گویاشہرام سرمدی کی شاعری ایک ایسی دنیا کی عکاسی کرتی ہے جو تضادات اور گہرائیوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ نظمیں قاری کو صرف محظوظ نہیں کرتیں بلکہ اس کے ذہن و دل کو جھنجھوڑ کر ایک نئی دنیا کی سیر کراتی ہیں۔ ان کی شاعری میں موضوعات کی یہ رنگارنگی اور گہرائی اسے اردو ادب میں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔

دعائیں مانگنا پوری نہ ہوتا

قصہ تازہ سا لگتا ہے

مگر تاریخ کا

(وہ صفحہ اول بھی

تا محفوظ ہے آج تک)

اس قصہ کہنہ سے جو تازہ ہے

اسی سے چہرہ ہستی کا غازہ ہے

"سرمدی کی نظموں کا یہ منفرد اسلوب قاری کو ظاہر کے پردے سے پرے معانی کی گہرائی میں لے جاتا ہے۔ ان کے استعاراتی نظام میں لفظ نہ صرف ظاہری معنی رکھتے ہیں بلکہ ماضی، حال اور مستقبل کی کئی پرتوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔"

ان کی نظم "چند نامطبوعہ تراشے "اور "حضرت دہلی" اس بات کا بہترین اظہار ہیں، جہاں تاریخ، تہذیب اور وقت کے امتزاج کو تخلیقی انداز میں پیش کیا گیا ہے:

درویش

کوجہ داغ میں

مستانہ وار اک تارے پر گاتا ہوا

اردو ہے جس کا نام

شہرام سرمدی کی نظموں میں ہندی اور سنسکرت الفاظ کا خلاقانہ استعمال بھی ان کی شعری جمالیات میں اضافہ کرتا ہے۔ سمے، آواگمن، سندور، بھکشا، مون جیسے الفاظ ان کے کلام میں موتیوں کی مانند جڑے ہوئے ہیں، جو نظموں کے مفہوم کو مزید گہرائی اور رنگ عطا کرتے ہیں۔

تصوف سے ان کی وابستگی بھی ان کی شاعری کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ ان کی نظموں میں مولانا روم، داتا گنج بخش، اور دیگر صوفیائے کرام کے افکار جھلکتے ہیں۔ خاموشی کا احیا، چشم بددور، اور حکایت: تصفیہ کے بیان میں جیسی نظمیں تصوف کی گہرائی اور اس کے پیچیدہ موضوعات کو شعری پیرائے میں پیش کرتی ہیں۔

آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شہرام سرمدی کا شعری مجموعہ" حواشی "ایک ایسا ادبی شاہکار ہے جس کی گہرائی تک رسائی کے لیے ادبی غواصی کی ضرورت ہے۔ یہ مجموعہ قاری کو کھینچ کر معانی کی پرت در پرت گہرائی میں لے جاتا ہے۔ بازگشت بکس کے خوبصورت سرورق کے ساتھ شائع شدہ یہ مجموعہ اردو ادب کے خزانے میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔


خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024