غزلیں : سلیم محی الدین

غزلیں : سلیم محی الدین

Feb 27, 2023

دیدبان شمارہ ۔ ۱۷ ۲۰۲۳؁

۱ غزل

  سلیم محی الدین

کینوس پر اک ستارہ چاہئے

زندگی کو استعارہ چاہئے

رنگ اڑتا جاتا ہے تصویر کا

اب مصور کو پکارا چاہیے

سب جزیرے اس لئے دہشت میں ہیں

اک سمندر کو کنارا چاہیے

کوئی ڈوبے کوئی ابھرے کیا غرض

آنکھ والوں کو نظارہ چاہیے

چاہے رکھ لو تم چراغوں کی لویں

ہم کو طاقوں پر اجارہ چاہیے

حادثہ گر چھین بھی لے حافظہ

دل مگر ہم کو ہمارا چاہیے

جانتے ہیں کس گلی میں رزق ہے

عشق والوں کو گذارہ چاہیے

سلیم محی الدین

غزل ٢

یہ نا سمجھنا سکون شئے ہے

میاں محبت جنون  شئے  ہے

یہ  کہہ رہا  ہے  سفر ستارہ

نئی مسافت شگون شئے ہے

بھلا رہا ہوں میں زخم اپنے

خیال تیرا  نخون  شئے   ہے

نہ آنکھ دھڑکے نہ دل سے ٹپکے

رگوں میں دوڑے جو خون شئے ہے

مرے چراغو ! یہ جان رکھو

کہ روشنی تو درون شئے ہے

ہمارے  خیمے سلگ  رہے ہیں

جو وسط میں ہے ستون شئے ہے

ہے  شغل اچھا  سلیم  صاحب

یہ شاعری بھی فنون شئے ہے

سلیم محی الدین

غزل ۳

زمیں کم ہے یہاں پانی بہت ہے

تری دنیا میں حیرانی  بہت ہے

نہیں  لازم  ہمیں   صحرا نوردی

ہمیں تو گھر کی ویرانی بہت ہے

ہتھیلی کی لکیریں کہہ رہی ہیں

ستاروں  میں پریشانی بہت ہے

زمیں محو ر سے کترانے لگی ہے

یہ گردش بھی تو لا یعنی بہت ہے

کسی تصویر میں اس کی رعونت

ذرا بھی کم نہیں ، یعنی بہت ہے

اسی میں خواب ہیں نیندیں اسی میں

ہماری  آنکھ  میں پانی  بہت ہے

سلیم محی الدین

۴غزل

مجھے کہہ رہے   ہو  سمندر  صفت

بدلتے ہو خود بھی تو منظر صفت

ہر اک واقعہ تھا  لکیروں میں قید

ہر  اک  حادثہ   ہے   مقدر     صفت

پتہ یہ چلا میں بھی  سیارہ  ہوں

کوئی ہےجو دل میں ہے محور صفت

ہمارے   زمانے   میں  ایسا  نہ تھا

بزرگوں کے قصے ، صفت در صفت

دل و ذہن پر چھائے رہتے ہو کیوں

کبھی  شعر  میں آؤ  پیکر  صفت

میں پورس ہوں اندر سے بکھرا ہوا

مگر  جی  رہا  ہوں  سکندر صفت

یہ  دنیا  مجھے  جانتی  ہے  سلیم

مری  ہر  ادا  تھی   قلندر   صفت

سلیم محی الدین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیدبان شمارہ ۔ ۱۷ ۲۰۲۳؁

۱ غزل

  سلیم محی الدین

کینوس پر اک ستارہ چاہئے

زندگی کو استعارہ چاہئے

رنگ اڑتا جاتا ہے تصویر کا

اب مصور کو پکارا چاہیے

سب جزیرے اس لئے دہشت میں ہیں

اک سمندر کو کنارا چاہیے

کوئی ڈوبے کوئی ابھرے کیا غرض

آنکھ والوں کو نظارہ چاہیے

چاہے رکھ لو تم چراغوں کی لویں

ہم کو طاقوں پر اجارہ چاہیے

حادثہ گر چھین بھی لے حافظہ

دل مگر ہم کو ہمارا چاہیے

جانتے ہیں کس گلی میں رزق ہے

عشق والوں کو گذارہ چاہیے

سلیم محی الدین

غزل ٢

یہ نا سمجھنا سکون شئے ہے

میاں محبت جنون  شئے  ہے

یہ  کہہ رہا  ہے  سفر ستارہ

نئی مسافت شگون شئے ہے

بھلا رہا ہوں میں زخم اپنے

خیال تیرا  نخون  شئے   ہے

نہ آنکھ دھڑکے نہ دل سے ٹپکے

رگوں میں دوڑے جو خون شئے ہے

مرے چراغو ! یہ جان رکھو

کہ روشنی تو درون شئے ہے

ہمارے  خیمے سلگ  رہے ہیں

جو وسط میں ہے ستون شئے ہے

ہے  شغل اچھا  سلیم  صاحب

یہ شاعری بھی فنون شئے ہے

سلیم محی الدین

غزل ۳

زمیں کم ہے یہاں پانی بہت ہے

تری دنیا میں حیرانی  بہت ہے

نہیں  لازم  ہمیں   صحرا نوردی

ہمیں تو گھر کی ویرانی بہت ہے

ہتھیلی کی لکیریں کہہ رہی ہیں

ستاروں  میں پریشانی بہت ہے

زمیں محو ر سے کترانے لگی ہے

یہ گردش بھی تو لا یعنی بہت ہے

کسی تصویر میں اس کی رعونت

ذرا بھی کم نہیں ، یعنی بہت ہے

اسی میں خواب ہیں نیندیں اسی میں

ہماری  آنکھ  میں پانی  بہت ہے

سلیم محی الدین

۴غزل

مجھے کہہ رہے   ہو  سمندر  صفت

بدلتے ہو خود بھی تو منظر صفت

ہر اک واقعہ تھا  لکیروں میں قید

ہر  اک  حادثہ   ہے   مقدر     صفت

پتہ یہ چلا میں بھی  سیارہ  ہوں

کوئی ہےجو دل میں ہے محور صفت

ہمارے   زمانے   میں  ایسا  نہ تھا

بزرگوں کے قصے ، صفت در صفت

دل و ذہن پر چھائے رہتے ہو کیوں

کبھی  شعر  میں آؤ  پیکر  صفت

میں پورس ہوں اندر سے بکھرا ہوا

مگر  جی  رہا  ہوں  سکندر صفت

یہ  دنیا  مجھے  جانتی  ہے  سلیم

مری  ہر  ادا  تھی   قلندر   صفت

سلیم محی الدین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024