غزل : پرتپال سنگھ بیتاب

غزل : پرتپال سنگھ بیتاب

Mar 31, 2021

کرونا دور میں لکھی گئی غزل

غزل :۔۔۔

کعبہ بھی ہوا بند کلیسا بھی ہوا بند۔

کُچھ میری دعا بند ہے کُچھ اُس کی رضا بند۔

میں سوچتا تھا میں ہی اکیلا ہوں پڑا بند۔

باہر ذرا جھانکا تو ہوا بند فضا بند۔

در بند نظر بند زباں بند ادا بند۔

جو بند ہے وہ بند مگر جو  ہے کھلا بند۔

بس ایک گھٹن دور تلک پھیلی ہوئی ہے

ہنسنا بھی ہوا بند ہوئی آہ و بکا بند۔

گنبد میں دریچہ ہے نہ دروازہ ہے کوئی

ہے حبس کُچھ ایسا کہ بقا بند فنا بند۔

وہ جو ہے قفس میں وہ تو ہے بند یقیناً

لیکِن ہے غضب یہ کہ جو باہر ہے کھلا بند۔

اک عمر سے اس خول میں ہوں قید کُچھ ایسے

دریا کوئی گویا کسی کوزے میں ہوا بند۔

گھر بند گلی بند  نگر بند ہے بیتاب

اک چرخ کہ چکر میں تھا یک لخت ہوا بند۔

ہر خواب یہاں بند ہے تعبیر یہاں بند۔

دیکھو تو نظر بند ہے بولو تو زباں بند۔

میزان سبھی بند سبھی سود و زیاں بند۔

بازار وہاں بند خریدار یہاں بند۔

خلوت ہے پریشان تو جلوت ہے ہراساں

کیا کہئیے بہاروں کی ہوئی آج خزاں بند۔

موقوف ہوئے ذہن تو دل بھی ہوئے بے حس

اندازے سبھی بند ہیں سب وہم و گماں بند۔

عظمت نہ کسی کی رہی آفات کے ڈر سے

شجرا نہ نصب کوئی رہا نام و نشاں بند۔

ہم تو ہیں فقط اپنے ہی اطراف سے واقف

کیا جانیے دُنیا ہے کہاں اور کہاں بند۔

جو حدِ نظر میں ہے نظر میں نہیں وہ بھی

ہیں بند مظاہر تو سب اسرارِ نہاں بند۔

وہ پہلی سے رونق نہ رہی شہر میں بیتاب

کل تک تھا دراز آج ہے سب کار جہاں بند۔

پرتپال سنگھ بیتاب

غزل :۔۔۔

کعبہ بھی ہوا بند کلیسا بھی ہوا بند۔

کُچھ میری دعا بند ہے کُچھ اُس کی رضا بند۔

میں سوچتا تھا میں ہی اکیلا ہوں پڑا بند۔

باہر ذرا جھانکا تو ہوا بند فضا بند۔

در بند نظر بند زباں بند ادا بند۔

جو بند ہے وہ بند مگر جو  ہے کھلا بند۔

بس ایک گھٹن دور تلک پھیلی ہوئی ہے

ہنسنا بھی ہوا بند ہوئی آہ و بکا بند۔

گنبد میں دریچہ ہے نہ دروازہ ہے کوئی

ہے حبس کُچھ ایسا کہ بقا بند فنا بند۔

وہ جو ہے قفس میں وہ تو ہے بند یقیناً

لیکِن ہے غضب یہ کہ جو باہر ہے کھلا بند۔

اک عمر سے اس خول میں ہوں قید کُچھ ایسے

دریا کوئی گویا کسی کوزے میں ہوا بند۔

گھر بند گلی بند  نگر بند ہے بیتاب

اک چرخ کہ چکر میں تھا یک لخت ہوا بند۔

ہر خواب یہاں بند ہے تعبیر یہاں بند۔

دیکھو تو نظر بند ہے بولو تو زباں بند۔

میزان سبھی بند سبھی سود و زیاں بند۔

بازار وہاں بند خریدار یہاں بند۔

خلوت ہے پریشان تو جلوت ہے ہراساں

کیا کہئیے بہاروں کی ہوئی آج خزاں بند۔

موقوف ہوئے ذہن تو دل بھی ہوئے بے حس

اندازے سبھی بند ہیں سب وہم و گماں بند۔

عظمت نہ کسی کی رہی آفات کے ڈر سے

شجرا نہ نصب کوئی رہا نام و نشاں بند۔

ہم تو ہیں فقط اپنے ہی اطراف سے واقف

کیا جانیے دُنیا ہے کہاں اور کہاں بند۔

جو حدِ نظر میں ہے نظر میں نہیں وہ بھی

ہیں بند مظاہر تو سب اسرارِ نہاں بند۔

وہ پہلی سے رونق نہ رہی شہر میں بیتاب

کل تک تھا دراز آج ہے سب کار جہاں بند۔

پرتپال سنگھ بیتاب

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024