غزلیں ۔۔ محسن شکیل
غزلیں ۔۔ محسن شکیل
Feb 12, 2024
دیدبان شمارہ ۔ (۲۰ اور ۲۱) ۲۰۲۴
غزل ۔۔ محسن شکیل
خموشی کی صدا کو انجمن کے بیچ رکھتا ہے
کہاں وہ تذکرہ میرا سخن کے بیچ رکھتا ہے
چٹک جاتے ہیں غنچے اُس نگاہِ آتشیں دم سے
قدم ایسے وہ شعلہ رُو چمن کے بیچ رکھتا ہے
بس اپنے آپ میں گم اپنے ہی ہمزاد سے باتیں
بتاتا کچھ نہیں ایسا جو من کے بیچ رکھتا ہے
بتائیں کیا اُسے احوالِ غم اور داستاں اپنی
جو اپنا سر بسر لہجہ چبھن کے بیچ رکھتا ہے
بہت روتا ہے اپنی خوابگاہِ حزن میں آ کر
بِنائے خواب وہ رنج و محن کے بیچ رکھتا ہے
مچل اٹھتا ہے پانی حسن کے اُٹھتے چھپاکوں سے
کبھی پاؤں جو اپنے وہ لگن کے بیچ رکھتا ہے
نہ اِس کا چاہیئے چارہ، نہ کچھ خواہش مٹانے کی
فراقِ یار جو ہم کو تھکن کے بیچ رکھتا یے
جو ہے تجرید اور ایہام کی تہذیب کا اکھوا
وہ ایسا منفرد لہجہ سخن کے بیچ رکھتا ہے
۔۔۔۔۔۔
غزل ۔۔ محسن شکیل
اگرچہ دیکھا نہیں تھا میں نے، پہ سوچتا تھا ہوا کا چہرہ
کواڑ بجنے لگے تو اک شب نظر میں آیا ہوا کا چہرہ
طویل مدت سے اس کے بارے میں سن رکھا تھا نظر نہ آئی
ذرا چلی جو شدید تر تو چراغ سمجھا ہوا کا چہرہ
کہ اڑتے بالوں کی اوٹ میں بھی دکھائی دیتا تھا صاف چھپ کر
سو گہرے آنچل کی سلوٹوں نے سنبھال رکھا ہوا کا چہرہ
غروب ہوتے ہوئے نظر میں شفق کی لو پھڑپھڑائی جس دم
دیئے کی مدھم سی روشنی میں ابھر رہا تھا ہوا کا چہرہ
کہیں اجاگر نقوش کر دے یہ وسعتوں کی اتھا کا صحرا
مدام موجوں کی شدتوں سے دکھائے دریا ہوا کا چہرہ
اب اس سے پیارا حسین منظر کہاں ملے گا کہ روک رکھو
یہ اڑتے بادل، برستی بارش، خرام کرتا ہوا کا چہرہ
دیدبان شمارہ ۔ (۲۰ اور ۲۱) ۲۰۲۴
غزل ۔۔ محسن شکیل
خموشی کی صدا کو انجمن کے بیچ رکھتا ہے
کہاں وہ تذکرہ میرا سخن کے بیچ رکھتا ہے
چٹک جاتے ہیں غنچے اُس نگاہِ آتشیں دم سے
قدم ایسے وہ شعلہ رُو چمن کے بیچ رکھتا ہے
بس اپنے آپ میں گم اپنے ہی ہمزاد سے باتیں
بتاتا کچھ نہیں ایسا جو من کے بیچ رکھتا ہے
بتائیں کیا اُسے احوالِ غم اور داستاں اپنی
جو اپنا سر بسر لہجہ چبھن کے بیچ رکھتا ہے
بہت روتا ہے اپنی خوابگاہِ حزن میں آ کر
بِنائے خواب وہ رنج و محن کے بیچ رکھتا ہے
مچل اٹھتا ہے پانی حسن کے اُٹھتے چھپاکوں سے
کبھی پاؤں جو اپنے وہ لگن کے بیچ رکھتا ہے
نہ اِس کا چاہیئے چارہ، نہ کچھ خواہش مٹانے کی
فراقِ یار جو ہم کو تھکن کے بیچ رکھتا یے
جو ہے تجرید اور ایہام کی تہذیب کا اکھوا
وہ ایسا منفرد لہجہ سخن کے بیچ رکھتا ہے
۔۔۔۔۔۔
غزل ۔۔ محسن شکیل
اگرچہ دیکھا نہیں تھا میں نے، پہ سوچتا تھا ہوا کا چہرہ
کواڑ بجنے لگے تو اک شب نظر میں آیا ہوا کا چہرہ
طویل مدت سے اس کے بارے میں سن رکھا تھا نظر نہ آئی
ذرا چلی جو شدید تر تو چراغ سمجھا ہوا کا چہرہ
کہ اڑتے بالوں کی اوٹ میں بھی دکھائی دیتا تھا صاف چھپ کر
سو گہرے آنچل کی سلوٹوں نے سنبھال رکھا ہوا کا چہرہ
غروب ہوتے ہوئے نظر میں شفق کی لو پھڑپھڑائی جس دم
دیئے کی مدھم سی روشنی میں ابھر رہا تھا ہوا کا چہرہ
کہیں اجاگر نقوش کر دے یہ وسعتوں کی اتھا کا صحرا
مدام موجوں کی شدتوں سے دکھائے دریا ہوا کا چہرہ
اب اس سے پیارا حسین منظر کہاں ملے گا کہ روک رکھو
یہ اڑتے بادل، برستی بارش، خرام کرتا ہوا کا چہرہ