غزلیں
غزلیں
Apr 18, 2024
دیدبان شمارہ ۔۲۴
غزلیں
ڈاکٹر جمیل حیات
ہے ستائش جمیل کی خواہش؟
کس لیے وہ دہائی دیتا ہے
دھول اڑتی ہے چار سو میرے
ہجر تیرا دہائی دیتا ہے
اس لیے وہ خبر نہیں رکھتا
اس کو اونچا سنائی دیتا ہے
زنگ اترتا ہے آئنے سے، تب
اس کا جلوہ دکھائی دیتا ہے
اس پہ کیسے کریں بھروسہ، اب
اس کو دھندلا دکھائی دیتا ہے
بولتا ہے وہ ، جب مرے اندر
کچھ نہ مجھ کو سنائی دیتا ہے
وہ بھلے منہ سے کچھ بھی نہ بولے
اس کا چہرہ گواہی دیتا ہے
پھر برستی ہیں لعنتیں اس پر
جب وہ جھوٹی گواہی دیتا ہے
بھر لے اپنی اڑان ، جو چاہے
دل مرا تجھ کو رہائی دیتا ہے
کیا عجب ڈھنگ ہے محبت کا
وصل کی شب ، جدائی دیتا ہے
اب اسے کیسے راہ پر لائیں؟
اس کو الٹا سجھائی دیتا ہے
۔۔۔
دل نشیں داستان ہے مرشد
دل ربا میری جان ہے مرشد
سوچ ہے ، نہ گمان ہے مرشد
دل کا مالک مکان ہے مرشد
دیکھتا ہوں میں جب تری جانب
دور ہوتی تھکان ہے مرشد
اور جاؤں تو میں کہاں جاؤں
تیرا ہی آستان ہے مرشد
کیا بیاں تجھ سے میں کروں آخر
لمبی اک داستان ہے مرشد
سب سے دامن چھڑا لیا میں نے
اب تمھارا ہی دھیان ہے مرشد
یہ عطا ہے جمیل مرشد کی
میرا سارا جہان ہے مرشد
دیدبان شمارہ ۔۲۴
غزلیں
ڈاکٹر جمیل حیات
ہے ستائش جمیل کی خواہش؟
کس لیے وہ دہائی دیتا ہے
دھول اڑتی ہے چار سو میرے
ہجر تیرا دہائی دیتا ہے
اس لیے وہ خبر نہیں رکھتا
اس کو اونچا سنائی دیتا ہے
زنگ اترتا ہے آئنے سے، تب
اس کا جلوہ دکھائی دیتا ہے
اس پہ کیسے کریں بھروسہ، اب
اس کو دھندلا دکھائی دیتا ہے
بولتا ہے وہ ، جب مرے اندر
کچھ نہ مجھ کو سنائی دیتا ہے
وہ بھلے منہ سے کچھ بھی نہ بولے
اس کا چہرہ گواہی دیتا ہے
پھر برستی ہیں لعنتیں اس پر
جب وہ جھوٹی گواہی دیتا ہے
بھر لے اپنی اڑان ، جو چاہے
دل مرا تجھ کو رہائی دیتا ہے
کیا عجب ڈھنگ ہے محبت کا
وصل کی شب ، جدائی دیتا ہے
اب اسے کیسے راہ پر لائیں؟
اس کو الٹا سجھائی دیتا ہے
۔۔۔
دل نشیں داستان ہے مرشد
دل ربا میری جان ہے مرشد
سوچ ہے ، نہ گمان ہے مرشد
دل کا مالک مکان ہے مرشد
دیکھتا ہوں میں جب تری جانب
دور ہوتی تھکان ہے مرشد
اور جاؤں تو میں کہاں جاؤں
تیرا ہی آستان ہے مرشد
کیا بیاں تجھ سے میں کروں آخر
لمبی اک داستان ہے مرشد
سب سے دامن چھڑا لیا میں نے
اب تمھارا ہی دھیان ہے مرشد
یہ عطا ہے جمیل مرشد کی
میرا سارا جہان ہے مرشد