غزل - سلیم سرفراز
غزل - سلیم سرفراز
Aug 4, 2018
دیدبان شمارہ۔۸
غزل
سلیم سرفراز
اس بڑے شہر کا بازار نہیں ڈھونڈ سکا
میں غمِ دل کا خریدار نہیں ڈھونڈ سکا
ہوگیادفن یہاں گریہ و ماتم کے بغیر
اپنے لاشے پہ عزادار نہیں ڈھونڈ سکا
ڈھونڈ لاتی ہے زرومال کہاں سے دنیا
میں کہیں ایک بھی دینار نہیں ڈھونڈ سکا
دھوپ میں جلتے ہوئے عمر گزاری ساری
میں کہیں سایہءاشجار نہیں ڈھونڈ سکا
در بدر قافلہءشوق بھٹکتا ہی رہا
مدتوں سے کوئی سالار نہیں ڈھونڈ سکا
بیچتا ہو جو یہاں مہر و وفا کے موتی
میں کوئی ایسا دکاں دار نہیں ڈھونڈ سکا
میں جسے لشکرِ جاں کی یہ کماں سونپ سکوں
اب تلک ایسا وفادار نہیں ڈھونڈ سکا
کب سے سرمایہءاجداد لئے پھرتا ہوں
اس کا میں ایک بھی حقدار نہیں ڈھونڈ سکا
جانے کب وقت کے سیلاب میں وہ ڈوب گئیں
اپنے اسلاف کی اقدار نہیں ڈھونڈ سکا
عبرت انگیز زمانے کے تغیر میں کہیں
گرگئی سر سے جو دستار نہیں ڈھونڈ سکا
جس کے فرمان سے اجڑی ہے چمن کی رونق
اس کا کہنا ہے خطاکار نہیں ڈھونڈ سکا
سب کے سب ہوگئے شامل صف باطل میں سلیم
حق پہ رہ کر میں طرفدار نہیں ڈھونڈ سکا
دیدبان شمارہ۔۸
غزل
سلیم سرفراز
اس بڑے شہر کا بازار نہیں ڈھونڈ سکا
میں غمِ دل کا خریدار نہیں ڈھونڈ سکا
ہوگیادفن یہاں گریہ و ماتم کے بغیر
اپنے لاشے پہ عزادار نہیں ڈھونڈ سکا
ڈھونڈ لاتی ہے زرومال کہاں سے دنیا
میں کہیں ایک بھی دینار نہیں ڈھونڈ سکا
دھوپ میں جلتے ہوئے عمر گزاری ساری
میں کہیں سایہءاشجار نہیں ڈھونڈ سکا
در بدر قافلہءشوق بھٹکتا ہی رہا
مدتوں سے کوئی سالار نہیں ڈھونڈ سکا
بیچتا ہو جو یہاں مہر و وفا کے موتی
میں کوئی ایسا دکاں دار نہیں ڈھونڈ سکا
میں جسے لشکرِ جاں کی یہ کماں سونپ سکوں
اب تلک ایسا وفادار نہیں ڈھونڈ سکا
کب سے سرمایہءاجداد لئے پھرتا ہوں
اس کا میں ایک بھی حقدار نہیں ڈھونڈ سکا
جانے کب وقت کے سیلاب میں وہ ڈوب گئیں
اپنے اسلاف کی اقدار نہیں ڈھونڈ سکا
عبرت انگیز زمانے کے تغیر میں کہیں
گرگئی سر سے جو دستار نہیں ڈھونڈ سکا
جس کے فرمان سے اجڑی ہے چمن کی رونق
اس کا کہنا ہے خطاکار نہیں ڈھونڈ سکا
سب کے سب ہوگئے شامل صف باطل میں سلیم
حق پہ رہ کر میں طرفدار نہیں ڈھونڈ سکا