غزل
غزل
Mar 24, 2021
غزل
دیکھتے دیکھتے منظر سے الگ ہو جانا
اندر اندر کہیں باہر سے الگ ہو جانا
خود کو ٹھکرا کے لپٹ جانا کسی سائے کے ساتھ
اور خُود اپنی ہی ٹھوکر سے الگ ہو جانا
اپنی ہی دُھن میں نکلتے چلے جانا کہیں اور
اور یوں اپنے ہی محور سے الگ ہو جانا
ایک عالم کو سمیٹے ہوئے رہنا خود میں
اِسی عالم میں جہاں بھر سے الگ ہو جانا
لُطف لیتے ہوئے پرواز کا اُڑنا ، اور پھر
اُڑتے اُڑتے کبھی شہپر سے الگ ہو جانا
یہ بھی اک طُرفہ ستم ہے کہ ہُوا ہے مجھ پر
میرا اُس دستِ ستمگر سے الگ ہو جانا
سانحہ ہے کہ رہائی ، مُجھے معلوم نہیں
یہ مرا اپنے ہی اندر سے الگ ہو جانا
اِس طرح سر مرا گُھوما ہے کہ مَیں جانتا ہوں
مَیں کہ اب چاہتا ہوں سر سے الگ ہو جانا
سلسلہ اور ہی اب چاہیے مُجھ کو ، یعنی
اِس الگ ہونے کے چکّر سے الگ ہو جانا
-----------------
آفتاب حسین
غزل
دیکھتے دیکھتے منظر سے الگ ہو جانا
اندر اندر کہیں باہر سے الگ ہو جانا
خود کو ٹھکرا کے لپٹ جانا کسی سائے کے ساتھ
اور خُود اپنی ہی ٹھوکر سے الگ ہو جانا
اپنی ہی دُھن میں نکلتے چلے جانا کہیں اور
اور یوں اپنے ہی محور سے الگ ہو جانا
ایک عالم کو سمیٹے ہوئے رہنا خود میں
اِسی عالم میں جہاں بھر سے الگ ہو جانا
لُطف لیتے ہوئے پرواز کا اُڑنا ، اور پھر
اُڑتے اُڑتے کبھی شہپر سے الگ ہو جانا
یہ بھی اک طُرفہ ستم ہے کہ ہُوا ہے مجھ پر
میرا اُس دستِ ستمگر سے الگ ہو جانا
سانحہ ہے کہ رہائی ، مُجھے معلوم نہیں
یہ مرا اپنے ہی اندر سے الگ ہو جانا
اِس طرح سر مرا گُھوما ہے کہ مَیں جانتا ہوں
مَیں کہ اب چاہتا ہوں سر سے الگ ہو جانا
سلسلہ اور ہی اب چاہیے مُجھ کو ، یعنی
اِس الگ ہونے کے چکّر سے الگ ہو جانا
-----------------