گورکن
گورکن
Mar 12, 2018
دیدبان شمارہ۔۷
ا فسانہ ۔۔۔ گورکن
راجہ یوسف ۔ کشمیر
زندہ ون گاؤں کے بیچوں بیچ حیات ندی بہہ رہی تھی ۔ ندی کا پانی زندہ ون گاؤں اور آس پاس کے علاقوں کے لئے آبِ حیات سے کچھ کم نہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے پہاڑی جھرنوں کا شفاف اور جھلملاتا پانی بل کھاتا گاؤں میں پہنچ جاتا تھا اور یہاں اس چشمے کے پانی میں مل جاتا تھا جو گاؤں کے متبرک اور تیرتھ استھاپن ’’ناگہ راد‘‘ میں ابلتا تھا ۔ جہاں سے حیات ندی جنم لیتی تھی۔ ’’ناگہ راد‘‘ تمام دھرموں اور مذاہب کا تیرتھ اور مقدس مقام تھا۔ یہاں ایک طرف شیوجی کا پرانا مندر اور دوسری جانب میاں احمدؔ صاحب کی زیارت گاہ تھی۔ بعد میں جدید طرز کا گوردوارہ بھی بنا گیاتھا۔۔۔ چشمے کے شفاف پانی سے میاں احمدؔ صاحب کے مزار پر آنے والے زائرین وضو کرتے تھے اور مندر میں جانے والے یاتری اشنان۔۔۔ گاؤں کے سبھی لوگ خوشحال تھے ۔ پریشان بس محمدرمضان تھا ۔۔۔
محمدرمضان زندہ ون گاؤں کا واحد گورکن۔۔۔ جس کے پاس نہ کھیتی تھی اور نہ کوئی دوسرا کام ۔ اُس کے گھر میں اُس کی بیوی کتج کے علاوہ ماں زون دید ، دو چھوٹے بچے عبدال سلام اور سونی تھے۔ گذارے کا انحصار گاؤں والوں کی مہربانی پر تھا۔ مُردوں کو دفنانے کا کام محمدرمضان کے ذمہ تھا ۔ جب کہ کوئی عورت مر جاتی تھی تو اُسے زون دید ہی نہلاتی تھی اور کفن پہناتی تھی ۔ پہلے پہل جب کوئی گاؤں میں مر جاتا تھا تو محمد رمضان کے گھر میں عید ہوتی تھی۔ پندراہ دن تک تعزیتی کھانا گھر میں آجاتا تھا۔ چوتھے پندریویں اور چالیسویں پر تو وازہ وان سے بھری ترامی اُن کے ہاں پہنچ جاتی تھی۔ سبھی گھر والے مزہ لے لے کر رستہ، گوشتابہ اور کباب کھاتے تھے۔ جب ذیلدار کے گھر کا کوئی مر جاتاتھا تو اُس کی برسی پر وازہ وان کے ساتھ ساتھ کچھ کپڑا ، لٹھا اور نقدی بھی آجاتی تھی۔ زون دید اور کتج کے پاس مری ہوئی عورتوں کے کئی جوڑے کپڑے پڑے تھے۔ کبھی کوئی دیالو عورت مر جاتی تو اُس کی گِلٹ، تانبے یا پیتل کے جھمکے اور چوڑیاں بھی مل جاتی تھیں۔وصیت کرتی تو اس کا قیمتی سوٹ اور چاندی کا چھلہ بھی مل جاتا تھا جبکہ مر دوں اور بچوں کے کپڑے محمدرمضان اور عبدال سلام کے حصے میں آجاتے تھے ۔۔۔
لیکن اب وقت بدل رہا تھا ۔زندہ ون کے گلاب لوگ اڑوس پڑوس کے ببُول شہروں میں آنے جانے لگے۔ جہاں کسی طرح ان کے گلشن ذہنوں میں کیکر کے بیج ڈالے گئے جو یہاں کی پھلواریوں میں آہستہ آہستہ جڑیں پھیلانے لگے تھے ۔ اب یہاں بھی لوگ اپنے ہی بارے میں سوچنے لگے تھے۔ اقربا پروری بڑھ رہی تھی۔ غریب پروری مفقود ہورہی تھی۔ ہاتھ پھیلانے والوں کو دھتکارا جارہا تھا ۔ نذرو نیاز ، خیرات پر طرح طرح کے فتوے لگ رہے تھے۔ ’’ناگہ راد‘‘ جیسی متبرک جگہ پر قبضے کی سوچ بڑھنے لگی تھی۔ اب اگر کوئی مر بھی جاتا تھا تو لوگ زیادہ دنوں تک یاد نہیں رکھتے تھے۔ محمدرمضان کا حال دن بدن بُرا ہورہا تھا ۔ مردے کو دفنانے کے بعد اس کے ہاتھ پر سو دو سو روپے رکھ کر ٹرخایا جاتا تھا ۔ چوتھے اور چالیسویں پر کھانا آنا بھی بند ہوگیا تھا ۔ ایسے میں اب محمدرمضان کو خود ہی برتن لے کر لوگوں کے دروازوں پر جانا پڑتا تھا۔ جہاں سے اکثر وہ خالی ہاتھ ہی لوٹ آتا تھا۔ ایسے وقت پر زون دید اور کتج کی آنکھوں میں غصے اور نفرت کے آنسوں آجاتے تھے اور بچوں کے چہروں پر یاس اور ناامیدی کا سوکھا پن جم جاتا تھا۔۔۔
کئی دنوں سے سونی بیمار تھی ۔ بخار سے برا حال تھا ۔ محمد رمضان نے حکیم صاحب کے گھر کے گرد کئی چکر کاٹے مگر خالی ہاتھ ہونے کے سبب اندر جانے کی ہمت نہیں پڑرہی تھی۔پچھلی سردیوں میں جب زون دید کو کھانسی ہوگئی تھی تو اس کی دوائی کے پیسے ابھی تک حکیم صاحب کو نہیں دیئے تھے ۔ کتج نے میاں احمد ؔ صاحب کے آستانے سے مٹی لائی تھی جس کا لیپ سونی کے ماتھے پر سوکھ بھی چکا تھا ۔ مگر سونی کا بخار اتر نے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔آنکھ بچاکر شیو جی کے مندر سے دھول بھی اٹھا لائی تھی پر کوئی افاقہ نہ ہوا اور یوں بنا علاج کے ایک دن سونی بخار کے ہتھے چڑھ ہی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
سونی کی موت نے جیسے زون دید کی کمر توڑ کے رکھ دی ۔ کتج گم سم رہنے لگی تھی۔عبدل سلام ڈرا ڈرا اور سہما سہما لگ رہا تھا ۔ محمدرمضان بے چین اور پریشان تھا۔ وہ صبح سویرے گھر سے نکل جاتا اور شام کو دیر سے لوٹتا تھا ۔ زون دید خاموش لیکن مایوس نگاہوں سے بیٹے کو تکتی رہتی تھی ۔ آخر ایک شام کچھ زیادہ ہی دیر سے گھرآکر محمدرمضانہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔۔۔
’’ماں میں یہ گاؤں چھوڑ کر شہر جا رہا ہوں ۔ وہاں کوئی کام کروں گا ۔ مزدوری کرکے کچھ کمالوں گا ۔ یہ اپنی بے سرو سامانی اور تم لوگوں کی فاقہ کشی اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔عبدل سلام دن بدن کمزور ہورہا ہے کہیں سونی کی طرح۔۔۔‘‘ اس کے آگے محمد رمضان کچھ کہہ نہ سکا۔اس کی ہچکی بندھ گئی۔ کتج نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ۔ وہ بھی شوہر کے ساتھ شہر جانا چاہتی تھی۔ شہر میں کچھ کام کرکے اپنے میاں کا ہاتھ بٹانا چاہتی تھی۔ زون دید کی خشک آنکھیں تر ہوگئیں۔۔۔
محمد رمضان تیاریوں میں جُٹ گیا تو زون دید زیادہ پریشان ہوگئی ۔ وہ محمد رمضان کی منت سماجت کرنے لگی۔ گھر چھوڑ کر نہ جانے کے لئے ہاتھ جوڑنے لگی مگرمحمد رمضان کے سامنے گھر کی افلاس کسی ا ژدرکی طرح پھن پھیلائے کھڑی تھی۔ وہ زون دید کے پاؤں پڑا۔اُس کے ہاتھ چومے۔ وہ ماں کو بھی اپنے ساتھ شہر لے جانا چاہتا تھا لیکن زون دیدنے اس کی ایک نہ مانی۔۔آج شام کے دھندلکے میں جب محمد رمضان اپنی بیوی اور بچے کو لیکر جانے لگا تو اچانک ۔۔۔زون دید کی خشک آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوں گرنے لگے۔ ا ن آنکھوں کا پانی حیات ندی کے آبِ حیات سے بھی زیادہ متبرک، شفاف اور پاکیزہ تھا۔ اس نے نم آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ جب اس کی نگاہیں لوٹ کر آگئیں تومحمد رمضان اور کتج نے اس کی آنکھوں میں شعلے دیکھے ، تپش دیکھی، نفرت سے بھراجوش و جلال دیکھا ۔ وہ ایک عزم کے ساتھ اُٹھی ۔۔۔۔۔قبر کھودنے والا پھاؤڑا اُٹھایا اور قبرستان کی طرف بڑھنے لگی ۔ محمد رمضان اور کتج بھی اس کے پیچھے پیچھے حیران و پریشان قبرستان پہنچے۔۔۔ زون دید قبرستان کے بیچوں بیچ حنظل کے پیڑ کے قریب کھڑی ہوگئی ۔۔۔ محمد رمضان نے آسمان کی جانب نظریں اٹھائیں تو اسے لگا پورا ’’ناگ راد‘‘ اندھیرے میں ڈوب رہا ہے۔ ماحول میں ایک عجیب سی ہلچل پیدا ہورہی ہے ۔ اچانک بجلیاں کڑکنے لگیں ، زور زور سے آندھیاں چلنے لگیں اور کچھ ہی پل میں بوندا باندی شروع ہوگئی ۔۔۔ زون دید نے ایک نظر اپنے بیٹے محمد رمضان پر ڈالی، پھر آسمان کی طرف د یکھا ۔۔۔ پھاؤڑا اٹھا کرسر سے بلند کیا اور پوری طاقت کے ساتھ حنظل کے درخت کے تنے پر دے مارا۔ پھاؤڑے کا تیز دھا ر والا پھل درخت کے سینے میں اندر تک گھس گیا۔۔۔ پھر جیسے ’’ ناگ راد ‘‘ میں چھپے بیٹھے سارے حشرات الارض جاگ گئے ہوں ۔ جیسے میاں احمدؔ صاحب کے مزار کی ساری چادریں ہوا میں اُڑ نے لگی ہوں۔روحیں آسمان کی طرف پرواز کررہی ہوں۔ جیسے شیوجی کے مندر کی ساری گھنٹیاں ایک ساتھ بج اُٹھی ہوں۔ ترشول آسمان کو چھید رہے ہوں ۔۔۔۔۔ محمد رمضان ماں کی طرف دوڑنے لگا۔۔۔۔ وہ چلا رہا تھا۔۔۔
’’ نہیں ماں نہیں۔۔۔ ایسا مت کر و ماااااں ‘‘ محمدرمضان دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ زون دید ہاتھ اٹھایئے آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے سر کی چادر ہوا میں اُڑ گئی تھی ۔ اُلجھے سفید بال ہوا میں لہرا رہے تھے ۔۔۔ اب بارش تیزہوگئی تھی ۔محمد رمضان بڑی مشکل سے زون دید کو گود میں اٹھا کر گھر لایا ۔ کتج اورعبدال سلام بھی اندر آگئے ۔وہ سارے بھیگ چُکے تھے۔ محمدرمضان نے زون دید کو ایک پھٹی چادر پر لٹا دیا۔ وہ لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی، اس کا سینہ دھونکنی کی طرح اوپر نیچے ہورہا تھا۔ محمد رمضان نے ماں کا سر اپنی گود میں لے لیااور اس کے الجھے بالوں میں انگلیا پھرنے لگا۔ کتج ساس کے پیر سہلا رہی تھی تو عبدل سلام نے دادی کا ہاتھ اپنے ننھے ہاتھوں میں لے رکھا تھا ۔۔۔۔ آہستہ آہستہ زون دید کی اُترتی چڑھتی سانسوں میں ٹھہراؤ سا آگیا ۔ اس نے آنکھیں کھولیں ۔ حسرت سے بیٹے کو دیکھا پھر بہو اور پوتے کو دیکھا۔ یاس اور ناامیدی اس کے چہرے کو مرجھا چکی تھی ۔اُس نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ بادلوں کی گھن گرج میں کتج کی چیخیں دب کر رہ گئیں ۔۔۔
زون دیدکی موت کوئی بڑاحادثہ یا کوئی تاریخی واقعہ نہ تھا، جو وہ حالات بدلنے کا سبب بنتی ۔شاید حالات کو بدلنا ہوتا ہے۔ اور ایسے کئی واقعات ایک ساتھ مل جاتے ہیں، جو تاریخ رقم کر دیتے ہیں ۔یا کبھی ایسے حالات بنائے جاتے ہیں جس سے پوری انسانیت کانپ اٹھتی ہے ۔ یہ انسان ہی تو ہے جس نے ماحول میں تعصب کا زہر گھول دیا ہے ۔ انسان کو انسان کے خلاف اکسانے کا ایسا نشہ اگایا ہے جس کا اثر صدیوں تک زائل ہونے کے آثارہی نہیں لگ رہے ہیں ۔ پھر اس زہریلی ہوا سے زندہ ون کی صاف و شفاف فضاٗ کیسے بچ پاتی ۔۔۔
یہاں کے برف سے ڈھکے پہاڑ جیسے اچانک آتش فشان بن گئے ۔ ’’ ناگ راد‘‘ کے سُوتے نفرت اور تعصب کے فوارے اُبلنے لگے ۔ حیات ندی کا شفاف پانی سرخ ہوگیا ۔ زندہ ون جیسے مرگ ون میں بدل گیا۔ مرغزار قبرستان بن گئے۔ روز ایک دو تین یہاں تک کہ کھبی کھبی دس بارہ لوگ مر نے لگے ۔۔۔ سر سبز اور شاداب ’ناگہ راد‘‘ تیزی کے ساتھ کیکروں کا جنگل بن رہا تھا۔
محمدرمضان کے گھر پراب بھیڑ لگی رہتی ہے۔ دن تو دن رات کو بھی اس کے دروازے پر مرنے والوں کے رشتہ دار اور احباب منت سماجت کرتے رہتے ہیں۔وہ قبریں کھود کر رکھنے لگا ۔اور اپنی مرضی کی قیمت بھی وصول کررہا ہے۔ اب وہ کسی کے چوتھے چالیسویں یا برسی پر کسی کے گھر نہیں جاتا ہے۔ نہ کھانا لانے والوں کو گھر آنے دیتا ہے۔ اس کے گھر میں ہر روز اچھے اچھے پکوان بنتے ہیں۔ کتج اورعبدال سلام کے لئے کپڑے بازار سے آتے ہیں ۔۔۔
گھر میں عیش و آرام کی ساری چیزیں تو آگئیں لیکن زون دید اور سونی کی کسمپرسی والی موت یہ لوگ نہیں بھول پارہے ہیں۔شاید اسی وجہ سے حنظل کے پیڑ سے پھاوڈا نکالنے کی طرف ان کا ظن نہیں جارہا ہے ۔جو ابھی بھی کسی مقدس نشانی کی طرح لٹک رہا ہے اور حنظل کی پیٹھ سے گاڑھا گاڑھا سبز مواد رِس رہا ہے ۔۔
------------------
دیدبان شمارہ۔۷
ا فسانہ ۔۔۔ گورکن
راجہ یوسف ۔ کشمیر
زندہ ون گاؤں کے بیچوں بیچ حیات ندی بہہ رہی تھی ۔ ندی کا پانی زندہ ون گاؤں اور آس پاس کے علاقوں کے لئے آبِ حیات سے کچھ کم نہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے پہاڑی جھرنوں کا شفاف اور جھلملاتا پانی بل کھاتا گاؤں میں پہنچ جاتا تھا اور یہاں اس چشمے کے پانی میں مل جاتا تھا جو گاؤں کے متبرک اور تیرتھ استھاپن ’’ناگہ راد‘‘ میں ابلتا تھا ۔ جہاں سے حیات ندی جنم لیتی تھی۔ ’’ناگہ راد‘‘ تمام دھرموں اور مذاہب کا تیرتھ اور مقدس مقام تھا۔ یہاں ایک طرف شیوجی کا پرانا مندر اور دوسری جانب میاں احمدؔ صاحب کی زیارت گاہ تھی۔ بعد میں جدید طرز کا گوردوارہ بھی بنا گیاتھا۔۔۔ چشمے کے شفاف پانی سے میاں احمدؔ صاحب کے مزار پر آنے والے زائرین وضو کرتے تھے اور مندر میں جانے والے یاتری اشنان۔۔۔ گاؤں کے سبھی لوگ خوشحال تھے ۔ پریشان بس محمدرمضان تھا ۔۔۔
محمدرمضان زندہ ون گاؤں کا واحد گورکن۔۔۔ جس کے پاس نہ کھیتی تھی اور نہ کوئی دوسرا کام ۔ اُس کے گھر میں اُس کی بیوی کتج کے علاوہ ماں زون دید ، دو چھوٹے بچے عبدال سلام اور سونی تھے۔ گذارے کا انحصار گاؤں والوں کی مہربانی پر تھا۔ مُردوں کو دفنانے کا کام محمدرمضان کے ذمہ تھا ۔ جب کہ کوئی عورت مر جاتی تھی تو اُسے زون دید ہی نہلاتی تھی اور کفن پہناتی تھی ۔ پہلے پہل جب کوئی گاؤں میں مر جاتا تھا تو محمد رمضان کے گھر میں عید ہوتی تھی۔ پندراہ دن تک تعزیتی کھانا گھر میں آجاتا تھا۔ چوتھے پندریویں اور چالیسویں پر تو وازہ وان سے بھری ترامی اُن کے ہاں پہنچ جاتی تھی۔ سبھی گھر والے مزہ لے لے کر رستہ، گوشتابہ اور کباب کھاتے تھے۔ جب ذیلدار کے گھر کا کوئی مر جاتاتھا تو اُس کی برسی پر وازہ وان کے ساتھ ساتھ کچھ کپڑا ، لٹھا اور نقدی بھی آجاتی تھی۔ زون دید اور کتج کے پاس مری ہوئی عورتوں کے کئی جوڑے کپڑے پڑے تھے۔ کبھی کوئی دیالو عورت مر جاتی تو اُس کی گِلٹ، تانبے یا پیتل کے جھمکے اور چوڑیاں بھی مل جاتی تھیں۔وصیت کرتی تو اس کا قیمتی سوٹ اور چاندی کا چھلہ بھی مل جاتا تھا جبکہ مر دوں اور بچوں کے کپڑے محمدرمضان اور عبدال سلام کے حصے میں آجاتے تھے ۔۔۔
لیکن اب وقت بدل رہا تھا ۔زندہ ون کے گلاب لوگ اڑوس پڑوس کے ببُول شہروں میں آنے جانے لگے۔ جہاں کسی طرح ان کے گلشن ذہنوں میں کیکر کے بیج ڈالے گئے جو یہاں کی پھلواریوں میں آہستہ آہستہ جڑیں پھیلانے لگے تھے ۔ اب یہاں بھی لوگ اپنے ہی بارے میں سوچنے لگے تھے۔ اقربا پروری بڑھ رہی تھی۔ غریب پروری مفقود ہورہی تھی۔ ہاتھ پھیلانے والوں کو دھتکارا جارہا تھا ۔ نذرو نیاز ، خیرات پر طرح طرح کے فتوے لگ رہے تھے۔ ’’ناگہ راد‘‘ جیسی متبرک جگہ پر قبضے کی سوچ بڑھنے لگی تھی۔ اب اگر کوئی مر بھی جاتا تھا تو لوگ زیادہ دنوں تک یاد نہیں رکھتے تھے۔ محمدرمضان کا حال دن بدن بُرا ہورہا تھا ۔ مردے کو دفنانے کے بعد اس کے ہاتھ پر سو دو سو روپے رکھ کر ٹرخایا جاتا تھا ۔ چوتھے اور چالیسویں پر کھانا آنا بھی بند ہوگیا تھا ۔ ایسے میں اب محمدرمضان کو خود ہی برتن لے کر لوگوں کے دروازوں پر جانا پڑتا تھا۔ جہاں سے اکثر وہ خالی ہاتھ ہی لوٹ آتا تھا۔ ایسے وقت پر زون دید اور کتج کی آنکھوں میں غصے اور نفرت کے آنسوں آجاتے تھے اور بچوں کے چہروں پر یاس اور ناامیدی کا سوکھا پن جم جاتا تھا۔۔۔
کئی دنوں سے سونی بیمار تھی ۔ بخار سے برا حال تھا ۔ محمد رمضان نے حکیم صاحب کے گھر کے گرد کئی چکر کاٹے مگر خالی ہاتھ ہونے کے سبب اندر جانے کی ہمت نہیں پڑرہی تھی۔پچھلی سردیوں میں جب زون دید کو کھانسی ہوگئی تھی تو اس کی دوائی کے پیسے ابھی تک حکیم صاحب کو نہیں دیئے تھے ۔ کتج نے میاں احمد ؔ صاحب کے آستانے سے مٹی لائی تھی جس کا لیپ سونی کے ماتھے پر سوکھ بھی چکا تھا ۔ مگر سونی کا بخار اتر نے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔آنکھ بچاکر شیو جی کے مندر سے دھول بھی اٹھا لائی تھی پر کوئی افاقہ نہ ہوا اور یوں بنا علاج کے ایک دن سونی بخار کے ہتھے چڑھ ہی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
سونی کی موت نے جیسے زون دید کی کمر توڑ کے رکھ دی ۔ کتج گم سم رہنے لگی تھی۔عبدل سلام ڈرا ڈرا اور سہما سہما لگ رہا تھا ۔ محمدرمضان بے چین اور پریشان تھا۔ وہ صبح سویرے گھر سے نکل جاتا اور شام کو دیر سے لوٹتا تھا ۔ زون دید خاموش لیکن مایوس نگاہوں سے بیٹے کو تکتی رہتی تھی ۔ آخر ایک شام کچھ زیادہ ہی دیر سے گھرآکر محمدرمضانہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔۔۔
’’ماں میں یہ گاؤں چھوڑ کر شہر جا رہا ہوں ۔ وہاں کوئی کام کروں گا ۔ مزدوری کرکے کچھ کمالوں گا ۔ یہ اپنی بے سرو سامانی اور تم لوگوں کی فاقہ کشی اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔عبدل سلام دن بدن کمزور ہورہا ہے کہیں سونی کی طرح۔۔۔‘‘ اس کے آگے محمد رمضان کچھ کہہ نہ سکا۔اس کی ہچکی بندھ گئی۔ کتج نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ۔ وہ بھی شوہر کے ساتھ شہر جانا چاہتی تھی۔ شہر میں کچھ کام کرکے اپنے میاں کا ہاتھ بٹانا چاہتی تھی۔ زون دید کی خشک آنکھیں تر ہوگئیں۔۔۔
محمد رمضان تیاریوں میں جُٹ گیا تو زون دید زیادہ پریشان ہوگئی ۔ وہ محمد رمضان کی منت سماجت کرنے لگی۔ گھر چھوڑ کر نہ جانے کے لئے ہاتھ جوڑنے لگی مگرمحمد رمضان کے سامنے گھر کی افلاس کسی ا ژدرکی طرح پھن پھیلائے کھڑی تھی۔ وہ زون دید کے پاؤں پڑا۔اُس کے ہاتھ چومے۔ وہ ماں کو بھی اپنے ساتھ شہر لے جانا چاہتا تھا لیکن زون دیدنے اس کی ایک نہ مانی۔۔آج شام کے دھندلکے میں جب محمد رمضان اپنی بیوی اور بچے کو لیکر جانے لگا تو اچانک ۔۔۔زون دید کی خشک آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوں گرنے لگے۔ ا ن آنکھوں کا پانی حیات ندی کے آبِ حیات سے بھی زیادہ متبرک، شفاف اور پاکیزہ تھا۔ اس نے نم آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ جب اس کی نگاہیں لوٹ کر آگئیں تومحمد رمضان اور کتج نے اس کی آنکھوں میں شعلے دیکھے ، تپش دیکھی، نفرت سے بھراجوش و جلال دیکھا ۔ وہ ایک عزم کے ساتھ اُٹھی ۔۔۔۔۔قبر کھودنے والا پھاؤڑا اُٹھایا اور قبرستان کی طرف بڑھنے لگی ۔ محمد رمضان اور کتج بھی اس کے پیچھے پیچھے حیران و پریشان قبرستان پہنچے۔۔۔ زون دید قبرستان کے بیچوں بیچ حنظل کے پیڑ کے قریب کھڑی ہوگئی ۔۔۔ محمد رمضان نے آسمان کی جانب نظریں اٹھائیں تو اسے لگا پورا ’’ناگ راد‘‘ اندھیرے میں ڈوب رہا ہے۔ ماحول میں ایک عجیب سی ہلچل پیدا ہورہی ہے ۔ اچانک بجلیاں کڑکنے لگیں ، زور زور سے آندھیاں چلنے لگیں اور کچھ ہی پل میں بوندا باندی شروع ہوگئی ۔۔۔ زون دید نے ایک نظر اپنے بیٹے محمد رمضان پر ڈالی، پھر آسمان کی طرف د یکھا ۔۔۔ پھاؤڑا اٹھا کرسر سے بلند کیا اور پوری طاقت کے ساتھ حنظل کے درخت کے تنے پر دے مارا۔ پھاؤڑے کا تیز دھا ر والا پھل درخت کے سینے میں اندر تک گھس گیا۔۔۔ پھر جیسے ’’ ناگ راد ‘‘ میں چھپے بیٹھے سارے حشرات الارض جاگ گئے ہوں ۔ جیسے میاں احمدؔ صاحب کے مزار کی ساری چادریں ہوا میں اُڑ نے لگی ہوں۔روحیں آسمان کی طرف پرواز کررہی ہوں۔ جیسے شیوجی کے مندر کی ساری گھنٹیاں ایک ساتھ بج اُٹھی ہوں۔ ترشول آسمان کو چھید رہے ہوں ۔۔۔۔۔ محمد رمضان ماں کی طرف دوڑنے لگا۔۔۔۔ وہ چلا رہا تھا۔۔۔
’’ نہیں ماں نہیں۔۔۔ ایسا مت کر و ماااااں ‘‘ محمدرمضان دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ زون دید ہاتھ اٹھایئے آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے سر کی چادر ہوا میں اُڑ گئی تھی ۔ اُلجھے سفید بال ہوا میں لہرا رہے تھے ۔۔۔ اب بارش تیزہوگئی تھی ۔محمد رمضان بڑی مشکل سے زون دید کو گود میں اٹھا کر گھر لایا ۔ کتج اورعبدال سلام بھی اندر آگئے ۔وہ سارے بھیگ چُکے تھے۔ محمدرمضان نے زون دید کو ایک پھٹی چادر پر لٹا دیا۔ وہ لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی، اس کا سینہ دھونکنی کی طرح اوپر نیچے ہورہا تھا۔ محمد رمضان نے ماں کا سر اپنی گود میں لے لیااور اس کے الجھے بالوں میں انگلیا پھرنے لگا۔ کتج ساس کے پیر سہلا رہی تھی تو عبدل سلام نے دادی کا ہاتھ اپنے ننھے ہاتھوں میں لے رکھا تھا ۔۔۔۔ آہستہ آہستہ زون دید کی اُترتی چڑھتی سانسوں میں ٹھہراؤ سا آگیا ۔ اس نے آنکھیں کھولیں ۔ حسرت سے بیٹے کو دیکھا پھر بہو اور پوتے کو دیکھا۔ یاس اور ناامیدی اس کے چہرے کو مرجھا چکی تھی ۔اُس نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ بادلوں کی گھن گرج میں کتج کی چیخیں دب کر رہ گئیں ۔۔۔
زون دیدکی موت کوئی بڑاحادثہ یا کوئی تاریخی واقعہ نہ تھا، جو وہ حالات بدلنے کا سبب بنتی ۔شاید حالات کو بدلنا ہوتا ہے۔ اور ایسے کئی واقعات ایک ساتھ مل جاتے ہیں، جو تاریخ رقم کر دیتے ہیں ۔یا کبھی ایسے حالات بنائے جاتے ہیں جس سے پوری انسانیت کانپ اٹھتی ہے ۔ یہ انسان ہی تو ہے جس نے ماحول میں تعصب کا زہر گھول دیا ہے ۔ انسان کو انسان کے خلاف اکسانے کا ایسا نشہ اگایا ہے جس کا اثر صدیوں تک زائل ہونے کے آثارہی نہیں لگ رہے ہیں ۔ پھر اس زہریلی ہوا سے زندہ ون کی صاف و شفاف فضاٗ کیسے بچ پاتی ۔۔۔
یہاں کے برف سے ڈھکے پہاڑ جیسے اچانک آتش فشان بن گئے ۔ ’’ ناگ راد‘‘ کے سُوتے نفرت اور تعصب کے فوارے اُبلنے لگے ۔ حیات ندی کا شفاف پانی سرخ ہوگیا ۔ زندہ ون جیسے مرگ ون میں بدل گیا۔ مرغزار قبرستان بن گئے۔ روز ایک دو تین یہاں تک کہ کھبی کھبی دس بارہ لوگ مر نے لگے ۔۔۔ سر سبز اور شاداب ’ناگہ راد‘‘ تیزی کے ساتھ کیکروں کا جنگل بن رہا تھا۔
محمدرمضان کے گھر پراب بھیڑ لگی رہتی ہے۔ دن تو دن رات کو بھی اس کے دروازے پر مرنے والوں کے رشتہ دار اور احباب منت سماجت کرتے رہتے ہیں۔وہ قبریں کھود کر رکھنے لگا ۔اور اپنی مرضی کی قیمت بھی وصول کررہا ہے۔ اب وہ کسی کے چوتھے چالیسویں یا برسی پر کسی کے گھر نہیں جاتا ہے۔ نہ کھانا لانے والوں کو گھر آنے دیتا ہے۔ اس کے گھر میں ہر روز اچھے اچھے پکوان بنتے ہیں۔ کتج اورعبدال سلام کے لئے کپڑے بازار سے آتے ہیں ۔۔۔
گھر میں عیش و آرام کی ساری چیزیں تو آگئیں لیکن زون دید اور سونی کی کسمپرسی والی موت یہ لوگ نہیں بھول پارہے ہیں۔شاید اسی وجہ سے حنظل کے پیڑ سے پھاوڈا نکالنے کی طرف ان کا ظن نہیں جارہا ہے ۔جو ابھی بھی کسی مقدس نشانی کی طرح لٹک رہا ہے اور حنظل کی پیٹھ سے گاڑھا گاڑھا سبز مواد رِس رہا ہے ۔۔
------------------