گُلِ رُخ کاظمی کی نثری نظمیں

گُلِ رُخ کاظمی کی نثری نظمیں

Aug 5, 2018

مصنف

گل رخ کاظمی

شمارہ

شمارہ - ۸

’’خواب نما تعبیر‘‘

گو ہم،

قسطوں میں زندگی کو جینے کے، سبھی داؤپیچ سے واقف ہیں

اور تھکن کے دام میں اُلجھے زرد گھروں میں مقید

خواہشوں کے داغ،سودوزیاں کے رنگ اورہجرووصال کے نغمے

پہنتے اور گنگناتے ہیں

ہم کوئی بھی خواب کیونکر دیکھیں

جن کی نہ تو کوئی تعبیر ہے

اور نہ بجھتی ہوئی آنکھوں میں گمراہ مسافتوں کی تنویر

ہم کہ جو خوش ہیں

لفظ بھی قوتِ گویائی سے محروم ہیں

زندہ ہو کے بھی اپنی اپنی قبروں سے ،

باہر آنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے

ہم سا کسی نے دیکھا ہے کوئی

جو زہرِہلاہل کے ہر گھونٹ کو آب حیات کہتے ہیں!

اور سسکنے والے لمحوں کو ساعتِ بقا سمجھتے ہیں!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’کشف‘‘

عجب انکشاف کا لمحہ تھا

بے رنگ اور بے جان احساس کہ اب وہ جا چکا ہے

میں نے پیچھے مڑ کے دیکھنا چاہا

لیکن انگلی کی پور سے خون رِس رہا تھا

جنگل دھیرے دھیرے تاریک ہو رہا تھا

یادیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کب کی جم چکی تھیں

وہ کہیں بھی نہیں تھا

جنگلی جانوروں کی گھورتی آنکھیں

بھوکی نظریں بے چینی سے میرے گرنے کا انتظار کر رہی تھیں

یہ وہ کہانی تو نہیں جو بچپن میں سنی تھی

ایک شہزادے اور شہزادی کی

میں کانپتے جسم،بجتے دانتوں اور یخ بستہ ہاتھوں سے

پرانی کہانی کو ڈھونڈتی، عجب طرح کی دھند میں لپٹی ہوں

جہاں، ایک کنارے پہ میں ہوں

اور، دوسرے پر بھی شائد میں ہی ہوں

وہ تیسرا تو کہیں نہیں ہے

دکھائی دیتا بھی ہے اور نہیں ہے!!!!!

------------------------

"معراج"

آج پھر خواب حروف اور لفظوں کا کارواں لئے جاگتی آنکھوں میں اترے

دفتر کو جانے میں ہمیشہ کی طرح دیر ہو گئی

آپ ٹھیک سے سوئے نہیں؟

جناب!آپ کو کیا غم ہے

اور کیوں رنجیدہ ہیں؟

ان سے ملتے جلتے ہزاروں سوال پھر سےدہرائے جائیں گے

دوستوں کو مسکرا کے ٹال دیتا ہوں

اپنے ماتحتوں پہ تو غصہ بھی اتار دیتا ہوں

اپنے سامنے پوری ,ادھ کھلی فائلوں کا ڈھیر لگا کے خود کو مصروف ظاہر کرنے کے سب داؤ پیچ بھی آزماتا ہوں

میرے برابر والی کرسی پہ زندگی سے عاری چہرے والا فنکار گٹار بجاتا رہتا ہے

میں اس کے خالی ہاتھوں میں صبح تک جاگتی تنہائی تھماتا ہوں

اور کہتا ہوں

سنا ہے کل رات چاند پہ بہت رونق تھی

وہ بادلوں پہ سوار ہو کے

سورج کا ہاتھ پکڑ کے رات سے ملنے کو گئی تھی

ہمیشہ کی طرح جلدی میں جوتے پہننا بھول گئی ہو گی

مجھے آج صبح پھر تکیے کے نیچے سے چھوٹے بڑے , مدھم تارے ملے ہیں

ان میں سے ایک تارہ ابھی تک جل رہا ہے

دیکھو

یاد جس قدر بھی ہو تھوڑی ہوتی ہے

--------------------------

’’خواب نما تعبیر‘‘

گو ہم،

قسطوں میں زندگی کو جینے کے، سبھی داؤپیچ سے واقف ہیں

اور تھکن کے دام میں اُلجھے زرد گھروں میں مقید

خواہشوں کے داغ،سودوزیاں کے رنگ اورہجرووصال کے نغمے

پہنتے اور گنگناتے ہیں

ہم کوئی بھی خواب کیونکر دیکھیں

جن کی نہ تو کوئی تعبیر ہے

اور نہ بجھتی ہوئی آنکھوں میں گمراہ مسافتوں کی تنویر

ہم کہ جو خوش ہیں

لفظ بھی قوتِ گویائی سے محروم ہیں

زندہ ہو کے بھی اپنی اپنی قبروں سے ،

باہر آنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے

ہم سا کسی نے دیکھا ہے کوئی

جو زہرِہلاہل کے ہر گھونٹ کو آب حیات کہتے ہیں!

اور سسکنے والے لمحوں کو ساعتِ بقا سمجھتے ہیں!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’کشف‘‘

عجب انکشاف کا لمحہ تھا

بے رنگ اور بے جان احساس کہ اب وہ جا چکا ہے

میں نے پیچھے مڑ کے دیکھنا چاہا

لیکن انگلی کی پور سے خون رِس رہا تھا

جنگل دھیرے دھیرے تاریک ہو رہا تھا

یادیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کب کی جم چکی تھیں

وہ کہیں بھی نہیں تھا

جنگلی جانوروں کی گھورتی آنکھیں

بھوکی نظریں بے چینی سے میرے گرنے کا انتظار کر رہی تھیں

یہ وہ کہانی تو نہیں جو بچپن میں سنی تھی

ایک شہزادے اور شہزادی کی

میں کانپتے جسم،بجتے دانتوں اور یخ بستہ ہاتھوں سے

پرانی کہانی کو ڈھونڈتی، عجب طرح کی دھند میں لپٹی ہوں

جہاں، ایک کنارے پہ میں ہوں

اور، دوسرے پر بھی شائد میں ہی ہوں

وہ تیسرا تو کہیں نہیں ہے

دکھائی دیتا بھی ہے اور نہیں ہے!!!!!

------------------------

"معراج"

آج پھر خواب حروف اور لفظوں کا کارواں لئے جاگتی آنکھوں میں اترے

دفتر کو جانے میں ہمیشہ کی طرح دیر ہو گئی

آپ ٹھیک سے سوئے نہیں؟

جناب!آپ کو کیا غم ہے

اور کیوں رنجیدہ ہیں؟

ان سے ملتے جلتے ہزاروں سوال پھر سےدہرائے جائیں گے

دوستوں کو مسکرا کے ٹال دیتا ہوں

اپنے ماتحتوں پہ تو غصہ بھی اتار دیتا ہوں

اپنے سامنے پوری ,ادھ کھلی فائلوں کا ڈھیر لگا کے خود کو مصروف ظاہر کرنے کے سب داؤ پیچ بھی آزماتا ہوں

میرے برابر والی کرسی پہ زندگی سے عاری چہرے والا فنکار گٹار بجاتا رہتا ہے

میں اس کے خالی ہاتھوں میں صبح تک جاگتی تنہائی تھماتا ہوں

اور کہتا ہوں

سنا ہے کل رات چاند پہ بہت رونق تھی

وہ بادلوں پہ سوار ہو کے

سورج کا ہاتھ پکڑ کے رات سے ملنے کو گئی تھی

ہمیشہ کی طرح جلدی میں جوتے پہننا بھول گئی ہو گی

مجھے آج صبح پھر تکیے کے نیچے سے چھوٹے بڑے , مدھم تارے ملے ہیں

ان میں سے ایک تارہ ابھی تک جل رہا ہے

دیکھو

یاد جس قدر بھی ہو تھوڑی ہوتی ہے

--------------------------

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024