گلیوں کے لوگ

گلیوں کے لوگ

Feb 7, 2018

تاریخ اور فکشن دونوں ہی ثقافتی سرگرمیاں ہیں

دیدبان شمارہ ۔ ۱

گلیوں کے لوگ -  میں گلیاں اور لوگ: ایک ثقافتی مطالعہ

تاریخ اور فکشن دونوں ہی ثقافتی سرگرمیاں ہیں۔ان کے ملاپ کی روایت یوں تو بہت پرانی ہے لیکن جب کوئی سنجیدہ فکشن نگار تاریخ کی گلیوں میں ان لوگوں کی تصویر کشی کرتا ہے جن کے گرد حادثات و واقعات گردش کرتے ہیں توایک ہاتھ میں تاریخ اور دوسرے میں فکشن تھامے رکھتا ہے۔تاریخ سنتالیس کی تقسیم کی ہو یا اس سے قبل یا ما بعد زمانوں کی خون ریزی کی اردو زبان و ادب کے فکشن نگاروں نے اپنے متون کی رنگت کو انسانی عداوتوں.. ہجرتوں اور خون آلود آہوں اور سسکیوں سے گھڑا اور گہرایا ہے۔ ان تخلیقات میں ادیبوں نے سیاسی نظریاتی ثقافتوں کے متون کو بھی ادبی اظہاریوں میں ڈھال کر ادب اور تاریخ کو ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔عبدل حلیم شرر اور قرة العین حیدر. جمیلہ ہاشمی  عبداللہ حسین مستنصر حسین تارڑ سے لے کر شمس الرحمان فاروقی تک فکشن نگاروں نے فکشن اور تاریخ کی کلوننگ سے بہت فکری موضوعات تخلیق کئے اور ادب اور سماج کو الگ الگ دیکھنے کی روش کی نفی کی ہے۔ تاریخ بھی ثقافتی بیانیہ ہی ہے . اس کے واقعات و حادثات ایک ثقافتی بیانوی وقت پہ محیط ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں اس تاریخ میں ثقافتی فسانویت کی آمیزش بھی ہوتی ہے لیکن جو اسلوب تاریخ اور فکشن میں خط تخصیص کھینچتا ہے وہ راوی کا نکتہ نظر.. اس کی سوچ  فکر اور انداز بیاں (اسلوب)ہے۔ فکشن کے تخلیق کار وں کا سروکار محلوں کے تاریخی ریکارڈ رکھنا نہیں ہوتا بلکہ اس تاریخی واقعہ میں ان مقامات کی پیش کش ہوتا ہے جو تاریخ اور مورخ کی نظر میں اضافی محسوس ہوتے ہیں۔انگریزی شاعری کے باپ چوسر نے کینٹربری کہانیوں سے اساطیری اور پاپائی بیانیوں کے طلسماتی اور مابعد الطبیعاتی ماحول سے نجات حاصل کر کے نہ صرف فکشن کو زمینی اور جمہوری بنایا بلکہ اس صنف ( ادب کی سماجیت) کی ابتدا بھی کی ۔چوسر اور اس کے بعد میں لکھے جانے والے ادب میں  ڈرامہ   ایپک اور فکشن نگارانسان اور ادب  یا حقیقت اور داستان کے درمیان خلاوں کو پر کرتے نظر آتے ہیں۔ اردو دنیا کی ادبی روایت میں یہ ثقافتی شعور ما بعد طلسم ہوش ربا دیکھنے کو ملتا ہے۔ مغرب میں ٹھامس میلوری کی بادشاہ آرتھر کی کہانیوں میں محلوں اور نوابوں کی جاگیروں اور حویلیوں کی محبت.. عداوت.. حسد.. جلن. شجاعت و شہادت قبائلی نفسیات ہوتے ہوئے بھی زمینی اور انسانی معاملات ہیں۔ طلسم ہوش ربا میں طلسماتی ماحول کی ہوش ربائیت کہانی کے متنی ماحول پہ چھائی رہتی ہے۔اس لئے یہ داستان تاریخی بیانیہ کی تمثیلی شکل کے طور پہ توپرکھی جا سکتی ہے لیکن جمہوری فسانویت ( چوسری تصور فکشن) غائب ہی رہتی ہے ۔اس میں ہوش ربائیت حقیقت اور طلسماتی فضا میں ایک فاصلہ برقرار رکھتی ہے۔ جس سے قاری کا تصورِ تناظر اور اس کی قبولیت دھندلا جاتی ہے۔ تاریخ کا مورخ یا فکشن کا راوی دونوں تخلیق کار ہوتے ہوئے مختلف سمتوں میں سفر کرتے ہیں۔ عام طور پہ مورخین بادشاہوں وزراءاور اشرافیہ کے عروج و زوال کی داستان لکھ کر تاریخ رقم کردیتے ہیں لیکن ایک سنجیدہ فکشن نگار کا راوی صرف کچھ ’ہونے ‘پہ اکتفا نہیں کرتا نہ ہی اس کی منشا میں ایک خاص واقعہ کی ظاہری ( کہانوی) تصویر کشی ہوتی ہے بلکہ وہ خاص و عام کرداروں کی واقعیت اور سراپائیت میں محو ہو کر ان کی ان خوبیوں، خوابوں اور نفسیاتی کمزوریوں کو متن کرتا ہے جو کسی واقعہ میں اہم محرکات رہے ہوں۔ وہ ان کرداروں سے منسلک جزئیات نگاری سے پلاٹ کو مزید نکھار تاہے ۔ ایک مورخ کا تصورِ انسان ایک ادیب جیسا بھی ہو سکتا ہے۔ دونوں کے تصورات میں مماثلت نظریاتی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک ادیب کا اصرار تاریخی کہانی نہیں بلکہ بپتا کی نوعیت، اسلوب اور سنجیدگی ہوتی ہے۔ جب وہ کردارتجسیم کرتا ہے تو اس کے ذہن میں کئی طرح کے سوالات ابھرتے ہیں ۔ مورخ ان سوالات کے جواب وضاحت کے ساتھ دینا پسند کرتاہے مگر فکشن نگار اپنی صراحت میں ایک التباس رکھتا ہے۔وہ علامت استعارہ مجاز کسی بھی ترکیب کا سہارا لے کر بیانیہ کو دلچسپ اور مختلف شکل دے سکتا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تاریخ دلچسپی سے عاری ہوتی ہے۔خاص طور پہ رزمیہ بیانیہ تاریخ کو بھی دلچسپ بنا کر پیش کرتا ہے۔

            ایک تاریخی واقعہ میں ہیرو شپ ایک ادارے کے طور پہ سامنے آتی ہے جو تاریخ کے قاری کو یقین دہانی کراتی ہے کہ جو کچھ بیاں کیاجا رہا ہے وہی حقیقت ہے لیکن ایک فکشن نگار اس حتمیت اور قطعیت سے فاصلہ رکھتے ہوئے اپنے قاری کو یہ باور کراتا ہے کہ دنیا امکانات اور ممکنات کی تجربہ گاہ ہے ۔ اس دنیا میں بسا اوقات ایسا بھی ہو سکتا ہے جو عام طور پہ ہماری نظر سے اوجھل رہتا ہے۔ تاریخ انسانی متن کو بین السطور دیکھنے سے قاصر رہتی ہے مگر فکشن نگار انسانی نفسیات کی کھوج میں لاشعوری محرکات اور انسانی جبلتوں کی تعبیر تک کا سفر اختیار کرتا ہے۔ یہی فرق ہمارے عہد کے ایک اہم ناول گلیوں کے لوگ  میں قائم رکھا گیا ہے۔ناول نگار اقبال حسن خان نے ناول کی صنف کی جمہوری قدروں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان عام لوگوں کی بپتاوں کویتاوں کو متن کیا ہے جوسیاست دانوں کے تاریخی فیصلوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ تقسیم اور در تقسیم کے عمل سے براہ راست گزرنے والے کرداروں کی زندگیوں کو بہت قریب سے دیکھنا ہو تو یہ ناول بہت اہم ہے۔ سماج کے چہرے کی کلوزریڈنگ سے متشکل شعور کا تخلیقی کرب اور اس کا رد عمل ایک ایسا ہی ناول ہو سکتا تھا۔متن کے مطابق ناول کی گلیوں کے لوگ ماضی قریب کی گرامر سے بندھے ایک دوسرے کے معنی کا سبب بنتے ہیں۔ ان سب کرداروں میں مرکزی کردار راوی کا ہے جس کی آنکھ اور تجربے سے دوسرے کردار منسلک ہیں۔ راوی کازیادہ تر فوکس انسان کم اور انسانی روئیے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اس لئے وہ کرداروں کے تعارف میں اختصار سے کام لیتا ہے لیکن ان کی سماجی سرگرمیوں میں وضاحت دکھاتا ہے۔ مصنف کا سروکار چونکہ نیا ثقافتی اور سماجی مزاج ہے اس لئے وہ بار باران کی ثقافتی نظریاتی ساختوں کو زیر بحث لاتاہے جس سے نیا مزاج اور نئی ذہن سازی مرتب ہو رہی ہے۔

           تقسیم کے وقت راوی نے جو دیکھا ، جن تجربات سے گزرا وہ اس ناول کا سیاق و سباق ہے، جو ماحول اسے ملا وہ اس کے متن کا تناظر ہے، اس نے عام انسانوں کی طرح کچھ خواب دیکھے، ان خوابوں کی تکمیل کا انتظار کیا، نعرے، دعوے امید بھرے الفاظ ہر طرف بکھرے تھے لیکن ان کے معنی غائب تھے۔ اس کے سوالات جمع ہوتے گئے ۔ جواب کس کے پاس تھا وہ نہیں جانتا ۔ انہی سوالات کے جوابات تلاش کرنے وہ خود بھی کہانی کا حصہ بنتا ہے۔ یہ کہانی تقسیم کے بعد کی گلیوں کے لوگوں کا اجتماعی شعور ہے۔ کئی لوگوں کی زندگیوں اور ان کے تجربات کا حاصل کل۔ ایک نظریاتی ریاست جب قائم ہوتی ہے تو بنیادی شے اس کا نظریہ ہوتا ہے نہ کہ انسان۔ سیاست دانوں کے تاریخی فیصلوں سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ عام طور پہ ریاستی قیام کے تاریخی عمل سے مختلف لوگ استفادہ کرتے ہیں لیکن شرط نظریاتی وابستگی ہوتی ہے۔ یہاں ریاست یا کوئی ادارہ قائم کرنے والوں کا عمل نہیں بلکہ نظریہ اہم ہوتا ہے۔ ان نفوس کو مراعات کی شکل میں وہ چھوٹ دی جاتی ہے جو نظریہ کی ترویج و پرچار میں معاون ثابت ہو۔ اس طرح نظریہ کے قریب ترین، قریب تر، قریب اور دور اور مردود سب افراد کی درجہ بندی نظریہ کی شرط پہ کی جاتی ہے۔ اس لئے جب تفریق و تقسیم کاسلسلہ شروع ہوتا ہے تو ایسے افراد جو نظریہ سے مطابقت نہ رکھتے ہوں ، نظریہ کی زد میںآکر کچلے جاتے ہیں ۔ ناول کے تناظر میں نظریہ دو طرح کا دیکھنے میں ملتا ہے ماورائی یا الہامی اور مادی۔ نظریہ پاکستان کے بارے حتمی طور پہ نہیں کہا جا سکتا یہ مادی ہے یا مذہبی۔ اور مذہب کے بارے بھی یہ نیتجہ اخذ کرنا خاصا مشکل ہے کہ اس کا جوہر طبیعاتی ہے یا مابعد طبیعاتی۔ اپنی سہولت کے لئے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ماورائی یا الہامی نظریہ کی اساس مذہبی تعلیمات ہوتی ہیں جب کہ مادی نظریہ سماجی و ثقافتی ماحول اور اس ماحول میںمادی اشیا ، تاریخ ، حالات و واقعات پہ دال کرتا ہے۔ چونکہ ناول کے متن میں گلیاں اور لوگ دونوں مادی ، سماجی و ثقافتی ہیں اس لئے ناول کا خیال اور اس کی تعبیر مادی ہی بنتی ہے۔ لیکن انہی گلیوں کے لوگ مذہبی نظریات کی رو سے اپنی زندگیوں کا تعین کرنے میں مصروف عمل ہیں۔اس لئے تقسیم کے سلسلے میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ مادہ مابعد طبیعاتی ڈسکورس سے تشکیل پایا جا رہا ہے۔ ثقافتی تنقید میں متن بذات خود کلچرل پراڈکٹ سمجھا جاتا ہے لیکن تناطر اور سیاق و سباق سے جوڑے بغیر اس کی تفہیم ادھوری رہ سکتی ہے۔ ناول کے متن سے ثقافت کے نہاں پہلو قاری پہ عیاں ہوتے ہیں۔ ناول کے تناظر میں پھیلی کفر و ایمان کی حرارت نہیں بلکہ آگ ایک تاریخی حقیقت سامنے لاتی ہے کہ اس طرح کی خون کی ہولیاں زیادہ تر محروم طبقات کی ثقافتی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اشرافیہ ہندو ہو یا مسلمان، عیسائی یا سکھ، یا شیعہ، سنی، وہابی، احمدی ، اپنے مادی حالات کی وجہ سے قریب قریب ہوتی ہیں ۔ یہ لوگ اختلافات کے باوجود مادی وسائل اور مفادات سے جڑے رہتے ہیں جبکہ انہی وسائل سے محرومی کے شکار نفوس کے پاس مذہبی اور فرقہ وارانہ مسائل کی ثقافت کاشت کرنے کی رغبت کافی زیاددہ ہوتی ہے جو ان افراد کو گروہ بندیوں میں جکڑ لیتی ہے ۔یہاں تک کہ ایمان و کفر کی شرائط کی رو سے جبر و استحصال کی ثقافت کو جائز سمجھ لیا جاتا ہے۔ ناول کے دو کردارشکنتلا اور بسم اللہ جان چونکہ بنیادی نظریہ سے دور ہیں اس لئے ان کرداروں نے زیادہ مشکلات اٹھائیں اورمروج نظریہ کی قلم رو سے باہر نکلنا ان کی اولین ترجیح بن گئی۔ ان کے ساتھ کامریڈ صفدر ہے جو اپنے فکری اختلاف کے سبب نئی ریاست کی نظریاتی سرحدوں سے باہر نکلنے کا خواہاں ہے۔ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ ناول کے تمام اہم نسائی کردار اپنی لوکیل یا اپنے گرد موجود حصاروں سے یا نفسیاتی طور پہ پدرسری روایتوں سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ شکنتلا جنسی درندگی کا شکار ہو کر اپنی بچی کے ساتھ ہندوستان چلی جاتی ہے۔ بسم اللہ جان ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آتی ہے اور چند سالوں کے تلخ تجربات کے بعد وہ بھی شکنتلا کے ساتھ سرحد پار کر جاتی ہے۔ درشہوار جو نظریاتی طور پہ راوی کے خلاف ہے ، بھی ناول کے اختتام پہ فرار کا راستہ اختیار کرتی ہے اور دادا کی حویلی سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کر لیتی ہے۔ ملکوں کی حویلی سے راوی کو دو نسائی کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان میں فرق یوں بیان کیا گیا ہے” ایک سے تو میں گفتگو بھی کرچکا تھا ۔دوسری مجھ سے ملنے کی مشتاق تھی۔ میرے مطالعے نے مجھے بتایا کہ ان دونوں شخصیات کے حوالے سے ایک فرق بہت نمایاں تھا۔ایک یعنی در شہوار گھنے درختوں کے نیچے بہنے والی کسی شانت ندی کی طرح تھی تو دوسری تنگ گھاٹیوں سے گزرنے والے پانیوں کی سی جو رستہ تلاش کرنے کو ہر پتھر سے ٹکراتے اور کف چھوڑتے بڑھتے ہیں“ صفحہ 140۔ اس پیچیدہ ”میٹرآف فیکٹ قسم کی عور ت“ نے راوی کو ایک ہی لوکیل میں دو صفات میں سے روشناس کرایا ۔اس مختصر کردار کا نام نورین ہے۔ نورین ایک فطری انسان ہے جو اپنے فطری تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ دینیاتی تصور ِ گناہ سے کافی فاصلے پہ کھڑی یہ عورت اپنی جبلتوں اور نفسیاتی خلاوں کی تکمیل میں باطنی نا آسودگی کی علامت بن کر ظاہر ہوتی ہے۔ بظاہر یہ باغی کردار رات کی تاریکیوں میں پناہوں کی متلاشی نظر آتی ہے لیکن اسی کردار سے قاری کو بڑی حویلیوں اور ان کے باسیوں کے اذہان کی تحلیلِ نفسی کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ناول کی یہ نسائی کردار بھی اپنی لوکیل کی گھٹن سے کھلی فضا میں سانس لینا چاہتی ہے۔ ان کرداروں کے برعکس، نواب صاحب، سلیم میاں، مولانا عماد الدین ، میر صاحب، گلو بدمعاش، راوی کا تایا، وڈا ماما، حاجی نثار، پتن خان اور دوسرے کئی کردار طبقاتی اونچ نیچ کے باوجود غیر محفوظ نہیں ہیں۔ اسکا سبب ان افراد کی ریاستی نظریہ یا سماجی روایات سے جڑت ہے۔ ان پہ کفر کا نہ تو فتوی صادر آسکتا ہے نہ ہی بغاوت کا مقدمہ بن سکتا ہے۔ ملک سرفراز صاحب نے نظریہ کی خدمت کے عوض اپنے کتوں کو بھی مراعات یافتہ بنا لیا۔نظریاتی طاقت کا ترجمان ملک صاحب کا کردار ہمارے سماج کا ایسا اہم کردار ہے جس کی تقلید تمام طاقت محبِ وطن افراد کا کلچر ہے۔ناول چونکہ ایک زمینی خطے کی تقسیم کے تناظر میں لکھا گیا ہے اس لئے لفظ تقسیم غیر مشروط اہمیت کا حامل ہے۔ ایک ریاست کی تقسیم کا مطلب سب سے پہلے تو طاقت کی تقسیم ٹھہرتا ہے۔ اس کے بعد وسائل کی تقسیم، طبقات کی تقسیم اور اس کے بعد اختیارات اور فرائض کی تقسیم۔ کمزور افراد کافرض ٹھہرایا جاتا ہے کہ وہ طاقت ور کی خدمت پہ مامور رہیں۔جس نظریہ میں صبر و شکر اور قسمت پرستی ہو اس کے افراددلخراش واقعات و حادثات کے باوجود مایوسی کو گناہ سمجھتے ہوئے ہر حال میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کی مشروط زندگیوں سے نظریہ کا ایندھن بنتا ہے۔ صرف یہی نہیں ریاست کے تمام وسائل، اجناس، موسم، آب و ہوا، ایجادات اور دریافتیں ، چرند پرند سبھی اپنی باری پہ نظریہ ہی کی خدمت کرتے ہیں۔ ناول میں ریلوے ٹرین ، پلیٹ فارم، پٹریاں ، ریل کے ڈبے، سڑکیں، فصلیں، اسلحہ، محراب و ممبر،ملازمتیں اور سرکاری ادارے نظریاتی آسمان تلے حاکمین کی اطاعت کرتے ہیں۔ طاقت ور کے اختیار میں سبھی فیصلوں کا حق دے دیا جاتا ہے ایسے ہی جیسے اس ناول کے کردار ملک صاحب اور مولانا عماد الدین کے ان گنت اور منہ زور اختیارات ہیں۔ مذہبی نظریاتی ریاست میں دو طرح کے اختیارات دیکھنے کو ملے ہیں۔ انفرادی یا شخصی اختیارات اور قانونی اختیارات۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ نظریہ کی پاسداری میں لوگ انسانیت کو کچل کر اپنے نظریہ کی پاسداری کا اعلان کرتے ہیں۔نظریہ انسان سے کہیں بڑا ، مقدس اور معتبر سمجھا جاتاہے۔یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ ناول کا تھیم بار بار اس دو قومی نظریہ سے جڑتا ہے جو سنتالیس کی تقسیم کا جواز بنا۔ اس نظریہ میں ایمانی شرط تو واضح تھی لیکن مادی وسائل کی تقسیم کا ذکر تک نہیں تھا۔ ناول کا راوی ایک پڑھا لکھا باشعور انسان ہے۔ بیانیہ کے سفر میں ایک جگہ رک کر اسے کہنا پڑتا ہے کہ

           ”پھر اپنی تعلیم کے دوران اور محلے کی منڈلی کے یاروں کی صحبت نے میرے اندر یہ احساس اور مضبوط کردیا تھا کہ یہ ملک کچلے ، پسے ہوئے مسلمانوں کے لئے بنایا گیا تھا۔ یہاں کے انصاف کی دنیا بھر میں دھومیں ہونے والی تھیں۔ یہاں سے سچائی ایمانداری .حسن سلوک و اخلاق اور وطن دوستی کے جذبے کی وہ کرنیں پھوٹنے والی تھیں کہ جنہیں دنیا نے پہلے رشک سے دیکھنا اور پھر اپنانا تھا۔۔۔یہ مجھے بعد میں پتا چلا کہ مسلم لیگ کے منشور میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔شاید اس کی وجہ یہ بھی رہی ہو کہ مسلم لیگ میں بڑے بڑے جاگیر دار شامل تھے۔ صفحہ 135

           ناول نگار کا شعور جس خمیر سے متشکل ہوا ہے اس میں روایت دھند کا شکار اس لئے رہی تھی کہ بادشاہت کی سیاسی ثقافت ایک طویل عرصے تک پھیلتی رہی ۔ ملوکیت کی اس استبدادی ثقافت میں قسمت نصیب پرستی ایمان کا لازمی جزو ایک آہنی آرکیٹائپ بن کر انفرادی اور اجتماعی نفسیات کو ہانکتا رہا۔نظریہ ،سوال نہیں جواب اساس ہوتا ہے۔ تقسیم کے بعد یہ جوابات گلی گلی پھیل کر اپنی جڑیں مستحکم کرنے لگے۔ ناول کی گلیوں کے لوگ ایسے ہی کردار ہیں جو نظریہ بولتے ہیںاور نظریہ بولنے پہ مجبور کرتے ہیں۔جہاں نصاب سازی ہوئی وہیں اسلاف سازی بھی منظم طریقے سے ساخت کی گئی جس کے نتیجے میں سطورایا بیانیہ ثقافت کا اہم ستون بن گیا۔اس سطورائے بیانیہ کا براہ راست تعلق روحانیت اور مابعد الطبیعات سے تھااس لئے کسی سوال اٹھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔مگر ناول نگار کے ادراک میں ماورائی لسانی ساختوں       میں موجود ثقافتی سیاست اس کے کلامیہ کو زمین گریز نہیں ہونے دیتا۔ وہ اپنے زمان و مکان میں رہتے ہوئے مسائل کو متن کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس نے تاریخی مادیت کو چھیڑے بغیر تقسیم کی تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ایسا نہیں کہ اس نے مادی حوالوں کو نظر انداز کیا ۔ ناول کا بیانیہ اور اس کے کردار بشری اور مادی حوالوں سے حقیقت کی طرف مراجعیت کی متحرک صورت ہیں۔

           شعوری یا لا شعوری طور پہ ایک فکشن نگار کا کسی نظریہ کا پروردہ یا پاسدار ہونا ضروری نہیں۔ خاص طور پہ اس نظریہ کا جس میں طاقت مذہب کی طرح مظاہر کی رگوں میں دوڑتی پھرتی نظر آئے۔سنجیدہ ناول نگار کی جمہوریت سے مراد طاقت کا ڈسکورس نہیں ، وہ ہر عام انسان کی زندگی کے تجربات کو معاشرتی اور ثقافتی ماحول میں رکھ کر ہی اپنی تخلیق میں پیش کرتا ہے۔ وہ کسی گاوں کے کمہار پہ بھی لکھے تو محنت کی خوشبو متن کی شریانوں میں پھیل جاتی ہے۔ کسان پہ لکھے تو اس کے پسینے کی خوشبو سے متن میں ہریالی رقص کرنے لگے،گوئیے پہ لکھے تو ریاضت سر بکھیردے، وہ طوائف پہ لکھے تو انسانی ، بشری اور نفسیاتی تقاضے پورے ہوتے ہیں۔اسی پیش کش کو عام طور پہ ہم حقیقت نگاری کہتے ہیں۔عام طور پہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تخلیق تنقید سے مختلف کلامیہ ہے لیکن ایسا کہنا سمجھنا سمجھ سے باہر ہے۔ دنیا کا کوئی سنجیدہ ادب خاص طورپہ فکشن سماجی و ثقافتی رویوں پہ کڑی یا نرم تنقید سے عاری نہیں۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ فکشن نگار یہ نہیں بولتا کہ وہ کہیں تنقید کر رہا ہے۔ اسی تنقید میں ادیب یا فکشن نگار کا اپنا نظریہ بھی شامل ہو سکتا ہے ۔ سنجیدہ ادیب بیانیوی التباس سے کام لیتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں لاوڈ سپیکر نہیں ہوتا نہ ہی واعظ اس کا مطمع نظر ہوتا ہے۔ کردار بولتے ہیں، کرداروں کا ماحول اور ثقافت بولتی ہے، نعرے چیخیں، مسکراہٹیں، قہقہے، آنسو ، بین ، دھاڑیں بولتی ہیں۔ اس ناول کے سبھی کردار اپنی اپنی زندگی بولتے ہیں اور ان زندگیوں میں طاقت، جبر، ظلم، تشدد، استحصال، دکھ، کرب ، خواب و خواہش، ریاکاری، خوف، ڈر، موقع پرستی، دلیری، جہالت، تاریکی اور ہوس بولتی ہے۔ناول نگار کا تصور انسان بین السطور دیکھا پرکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ نظریہ کی ملوکیت کے حق میں ہے نہ اس کے مخالفت میں کسی آمریت کا طرف دار۔ دونوں کا نقاد ہے لیکن جہاں جہاں ان گلیوں میں اسے کوئی جمہوری انسان یا قدر ملتی ہے وہ اس کو قلم بند کرتا ہے۔جب ہم گلیوں کی بات کرتے ہیں تو ہر وہ شخص جو ان روایتی گلیوں کے تمدن کا تجربہ رکھتا ہے اس کے ذہن میں ان ثقافتی گلیوں کی زندگی متشکل ہوتے محسوس ہونے لگتی ہے۔ان گلیوں میں ایک ہی طبقے کے لوگ نہیں بستے، یہاں وقت کے بہاو میں ایک پورا تمدنی کلچر سانس لیتا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں موچی  نائی درزی قصاب تاجر دوکاندار ہیجڑے  طبلچی  سازندے طوائفیں مولوی ماسٹر چور ڈاکو مزدور گلو بدمعاش  حسو قصائی  ٹھسے دار عورتیں  تانا چھری  میوہ فروش تایا سیٹی، وڈا ماما، چاچے، مامے، تائے ،چاچا چوئی ، گھر گرہستی، باپردہ خواتین، مہاجر، نواب صاحبان،اور وضح دار لوگوں سمیت ایک جہاں ملتا ہے جن کے انفرادی اور اجتماعی عمل سے ان زندگیوں کی ثقافت سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔اس ناول میں نواب صاحب سے لے کر طوائف بسم اللہ جان تک بہت سے کردار ایسے ہیں جو ہجرت کا شکار ہوئے اور یہ کہنا تقریبا نا ممکن ہے کہ ہجرت نظریاتی نہیں ہوتی۔

           ناول’ مابعد تقسیم  پاکستانی معاشرت کا عکس ہے۔ کرداروں کی اکثریت فسادات کی آگ کے تجربے سے گرز کر ان گلیوں تک پہنچی ہے اور مقامیت کی درو دیوار اب بھی اس انسان دشمن آگ کی گواہ ہے جو تعصب کے حواریوں نے لگائی۔ناول راوی کی دلدوز یاد داشت ہے جس میں راو ی کی جوانی افراتفری سے گزرتے اپنے تجربات جھیلتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے راوی تقسیم بھگتتا ہے۔ اس کا شعور زندہ ہے اور گردو پیش پہ استدلال کرتا ہے۔واحد متکلم راوی چونکہ خود بھی کسی ناول کا کردار ہوتا ہے اس لئے سبھی حالات و واقعات، کردار اور لوکیل اسی کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ قاری راوی کے ساتھ چلتا جاتا ہے اور واقعات و تجربات سے گزرتا جاتا ہے۔راوی کی لوکیل ایک شہری علاقہ ہے جس میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہے۔اس کثیر الجہت ثقافت میں جو قدر مشترک ہے وہ اسلامیت اور پاکستانیت ہے۔ ماسوائے ایک منڈلی کے جہاں راوی بمشکل پہنچ پاتا ہے باقی سب کردار اس نظریہ کا شکار ہیں جو سکہ رائج الوقت ہے۔ کامیابی و ناکامی، جان بخشی یا جان خلاصی اسی نظریہ سے مشروط ہے۔

           راوی کے گھر سے ملحقہ ایک اہم تہذیبی روایت بستی ہے ۔ اس روایت کی ترجمانی بسم اللہ جان کے پاس ہے۔ اپنی روایت کا بوجھ اٹھائے یہ کردار بھی ہجرت کاشکار ہوئی۔ ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ کردا رراوی کی ذات کا دوسرا اہم پہلو ہے جو تقسیم پہ خاموش، مصلحت پسند، انسان دوست ہے ،تعصب، حسد، جلن سے دور، اور انسانی ہمدردی سے مالا مال ہے۔ صرف ہمسائیگی کے رشتے سے ہی نہیں یہ دونوں کردار فکری طور پہ بھی ایک دوسرے کے ہم نوا ہیں۔ ناول کے متن کی رو سے بھی یہ ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہیں کہ ایک کا وجود دوسرے کے بغیر نامکمل ہے۔ ناول کی ابتدا میں راوی کی اس کردار سے لا تعلقی کرداروں کی انفرادی زندگی کی غماز ہے لیکن چونکہ ایک سماج میں رہتے انسانوں کی زندگیاں ایک دوسرے سے مشروط ہوتی ہیں اس لئے کہیں تو بسم اللہ جان کو راوی کی ضرورت ہے اور کہیں راوی کو بسم اللہ جان کی۔ بس اللہ جان ایک ڈی آئیڈیالوجیکل یا لانظریاتی کردار ہے۔ اس کا کردار کئی دلچسپ حوالوں دیکھا جا سکتا ہے ، ایک تو اس کا سماج میں طوائف کا کردار( جسے عرف عام میں بدکردار سمجھا جاتا ہے) دوسرا اس کا سوشل اور جمہوری کردار تیسرا اس کا رومانوی پہلو جس سے اس کے نفسیاتی خلاوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور اس کا طوائف کی روایت سے جڑت۔ ان تمام کرداروں کو نبھاتی بسم اللہ جان سود و زیاں کی دھوپ چھاوں سے گزرتی ہے۔ نعمان ،منڈلی کے ایک باغی نوجوان ، سے اس کی بے لوث محبت نے اسے اپنی ذات کی دریافتوں میں مدد کی۔ نعمان اس سلسلے میں ایک ترغیب ہے جس کا شکار ایک تجربہ کار طوائف ہوئی۔ اس کی محبت اس کے تمام تر تجربات سے ہار گئی۔ نظریہ کی سیاست بھی کچھ ایسی ہی دلکش ترغیب ہوتی ہے جس کے اثرات تجربات کے بعد ہی نظر آتے ہیں۔نعمان ایک نیا انسان ہے ، نئی ریاست کا نیا امبیشس( مفاد پرست) انسان۔ یا اس نئی نظریاتی ریاست کا اجتماعی فیوچرسٹ شعور جو غلط صحیح، خیر و شرکی تخصیص میں کنفیوزڈ بھی ہے اور ذات مرکزی ہوتے گردو پیش کے مسائل سے لا تعلق بھی۔ لیکن یہ کردار بیانوی ادھورے پن کا شکار نظر آتا ہے۔ اس نئے انسان سے بہت اہم کام لیا جا سکتا تھا ۔اس کا اچانک منظر عام سے غائب ہو جانا اس کو موقع پرست تو ظاہر کرتا ہے مگر اس کے عمل سے بسم اللہ جان کی نفسیات پہ کیا اثر ہوا یہ بھی سوالیہ نشان ہی رہا۔ دلچسپ ہوتے ہوئے بھی فلیٹ کردار۔ اس کردار کا رد عمل پیر بخش سارنگیا ہے جو بسم اللہ جان کے پس منظر کا نمائندہ ہے۔ اس شخص کے گھر کا مستقبل بسم اللہ جان کے وجود اور کوٹھے سے ہے اس لئے اس کا فکر مند ہونا فطری ہوتے بھی سماجی اور ثقافتی عمل ہے۔ پیر بخش کا بار بار بسم اللہ کو ترغیب سے دور رکھنے کا عمل علامتی طور پہ روایت پرست رویہ ہے جس کی ضد نعمان کی ترغیب انفرادی خواہش کی تکمیل کی طرف ایک سفر ہے۔ جس طرح نیا سماج نئے تضادات اور متناقضات کا شکار ہے اسی طرح بسم اللہ جان کا دل ابہاموں کی دھند میں شفافیت کی تلاش کا سفر ہے۔ بسم اللہ جان بظاہر ایک طوائف ایک پروفیشن کی ترجمان ہے لیکن اس کے علاوہ ایک عورت بھی ہے جس کا دل  روح  دماغ ،سوچ ،فکر، احساس، جذبات اس کے وجود کے اندر ہوتے ہیں مگر ممکن ہے عام انسانوں کی ترجیحات کی طرح ایک طوائف بھی کچھ مصلحتوں کا شکار ہو جائے یا کچھ عرصے کے لئے ایک جزو یا اکائی کو معطل کردے ۔ہر انسان میں محبت اور نفرت موجود ہوتی ہے لیکن زمان و مکان کے بدلنے سے دل و دماغ میں ممکنہ تبدیلی ایک فطری عمل ہے۔ طوائف کا کردار عام عورت کی نسبت زیادہ پیچیدہ سمجھا جاتا ہے، خاص طور پہ جہاں معاملہ دل اور محبت کا ہو۔ اس کے ماحول میں محبت کا ہر روز مول لگتا ہے۔ ہر روز دل کا سوداہوتا ہے اور دل جسم کا التباس ٹھہرتا ہے۔ لفظ اور معنی گڈ مڈ ہوتے ہیں اور گوناگونیت در آتی ہے ، ایسے ہی جیسے طوائف اور پراسٹی چیوٹ کولونیل عہد میں گڈمڈ ہوگئے۔محبت کا ڈسکورس ایک پیشہ کی صورت بسم اللہ کے کوٹھے میں اس کی سانسوں کی شہادت دیتا ہے۔ یہ ایک مشروط عمل ہے جس سے گزرنا طوائف کی مجبوری ہے۔ اس کے کوٹھے پہ بولی گائی جانے والی شاعری ایک غرض سے مشروط ہوتی ہے جس میں رومانوی الفاظ کا معنوی نظام اپنے شیڈز بدلتا رہتا ہے۔اس تعلق کی بیرونی سطح پہ لفظ محبت سے ہی ملمع کاری ہوتی ہے اور اس طرح اندرونی سطحوں پہ سلسلہ وار جسم کی آڑھت جاری رہتی ہے۔ بسم اللہ طوائف کے شعور میں یہ بات شامل تھی کہ کوٹھے پہ عاشق اور معشوق دوعام انسانوں کی طرح نہیں بلکہ طوائف اور تماش بین کے رشتے سے منسلک ہوتے ہیں۔اس کے کلچر میں ٹھیکے کی محبت کا چلن ہے جس میں میں فریقین کو طے شدہ معاہدے کی رو سے اپنے جزبات میں مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے ۔ وہ خود کئی بار یہ معاہدہ کر چکی ہے اور اب اپنی لے پالک بیٹیوں جواہر اور موتی سے کرواتی ہے ۔ بسم اللہ جان جانتی ہے کہ کوٹھے کی ثقافت میں محبت کا معنی مال و دولت سے مشروط ہے۔ طوائف باطنی طور پہ ایک مرد سے نفرت کے باوجود اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریوں کے سبب اپنی بدنی شکست قبول کرنے کو تیار ہو سکتی ہے ۔ اس کے جسم کی زندگی عام طور پہ، محبت کے لمس کے حوالے سے، کثیر الجہت ہوتی ہے۔ اس لئے اس کے لئے کسی نعمان جیسے نوجوان کے الفاظ کو پرکھنا مشکل نہیں تھا لیکن بسم اللہ جان پدرسری ڈسکورس کے سامنے ہار گئی۔ شکست در شکست تجربات کے باوجود اس کے وجود کی ویران گھپاوں میں ایک مرد سہارے کی تلاش لاشعوری طور پہ جاری رہی۔ بظاہر مضبوط دیواریں اتنی شکستہ بھی ہو سکتی ہیں یہ اس کردار کے فیصلے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے۔ ناول نگار نے تمام نسائی کرداروں کی طرح بسم اللہ جان میں بھی ایک ا رتقا رکھا ہے۔ وہ فلیٹ کرداروں کا ایک گھسا پٹا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک متحرک کردار ہے۔ یہ طوائف اپنی ذات کی نفی سے گزرکر زندگی کا بھید اور مقصد بھی پا لیتی ہے ۔ جس طرح وہ تعلق نبھانا جانتی ہے اسی طرح وہ احسان فراموش ہے نہ موقع پرست۔ راوی نے اسے نعمان کے مزموم مقاصد سے آگاہ کیا جس کے جواب میں بسم اللہ جان نے آخری حد تک روای سے وفا داری نبھائی۔ شکنتلا اور اس کی بیٹی کو اپنے گھر پہ پناہ دی۔ خطرات کے باوجود اس کے قدموں میں لغزش نہیں آئی۔ ناول کے آخری حصے میں بسم اللہ موپاساں کے ایک مشہور کردار’ بال آف فیٹ ‘کی صورت نظر آتی ہے۔ اس کردار نے بھی معصوم عورتوں کی جان بچانے کے لئے اپنی جان خطرات کے حوالے کردی۔ بسم اللہ نے شکنتلا کی بیٹی کو پال پوس کر جوان کیا اور ڈاکٹر بنایا۔ موپاساں سے منٹو تک ایسے بے شمار کردار ہیں جن کی تعبیر و تفہیم کے سلسلے میں روایتی خیر و شر کے تصورات ناکام رہتے ہیں۔ انسانی تشخص میں انسانی نفسیات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ، وہ تشخص خواہ کسی طوائف کا ہی کیوں نہ ہو۔

            طوائف کلچر کے کرداروں کی طرح بسم اللہ جان کی بھی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ مارکیٹ میں اس کا نام چلتا رہے دوسری طرف وہ سماجی اور نفسیاتی خلاوں کو پر کرنے کے جتن کرتی ہے۔ اس سلسلے میں رفاح عامہ ، مساجد اور مزاروں کی خدمت، عرس، میلاد، سب سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ جس نظریاتی معاشرت میں انسان زندگی گزارتا ہے وہاں کے تصورات بھی اس کی نفسیات کاحصہ بن جاتے ہیں۔ ہندو ثقافت کے نقوش ہندو طوائف کے ذہن میں محفوط ہوتے ہیں جو اس کو ایک خاص طرز معاشرت اپنانے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ تصورات زبان کے سبب انسانی شعور و لاشعور اور نفسیات کا حصہ بنتے ہیں۔ طوائف بھی غیرت، گناہ، جرم، بدکاری جیسے الفاظ کے معنی سے آشنا ہوتی ہے لیکن وہ عملی طور پہ اس معنیاتی نظام کو اس لئے قبول کر لیتی ہے کہ جب ایک بار انسان ایک دنیا اختیار کر لیتا ہے تو وہ نفسیاتی یا (لا)شعوری طور پہ اس کا قائل بھی ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی جیسے عام لوگ بہت سی سماجی خرابیوں کو قبول یا نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بسم اللہ جان کی زندگی بھی انہی کلچرل متون سے متشکل ہوتی ہے۔ اس نے آخری حد تک بقاکی جنگ لڑی مگر وہ پھر بھی ہار گئی۔ وہ جس دنیا میں رہتی ہے وہاں انسانیت اور اخلاقیات کا دعوی دینے والے بہت سے افراد ہیں اور بسم اللہ جان ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکی۔ اس کی شکست سے اس کے مخالفین کی ذات کے نفسیاتی خلاوں کو تکمیلیت ملتی ہے دوسرا ثقافتی تفاخر بھی ان کی ثقافتی نفسیات کا حصہ بن جاتا ہے۔ بسم اللہ جان کی مخالفت میں مذہبی فرینچائزیشن کے آڑھتی ہر جگہ سماجی اداروں کو ہائی جیک کرتے نظر آتے ہیں۔ اسے اخلاقیات کے ان آڑھتیوں سے بچنے کے لئے خاموشی کی آڑھ میں جانا پڑا۔ مولانا عماد الدین جیسی شخصیات نئی ریاست کے سماجی بہاوکو آئیڈیالوجیکل رخ دیتے ہوئے اپنی طاقت کا سکہ منواتے ہیں۔ اس قسم کی سوشل اینکروچمنٹ غیر محسوس اور ’قابل قدر ہتھکنڈوں سے ممکنائی جاتی ہے ۔ ریاست خدا کے نام پہ معرض وجود میں آئی یا سیاسی سماجی تناطر میں ، مولانا عماد الدینیت کا غلبہ مسلم تھا۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ طوائفوں کا بدن ایک ایسا متن ہے جس کا سیاق و سباق طاقت ور اور دولت مندوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ سماجی اور ثقافتی ساختوں کی پر فریب زندگی میں جکڑی یہ ہمدرد عورت اپنے گھر کو پھر خیر باد کہ کر نئی ہجرت کے سفر کو نکل جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بسم اللہ دوہری ہجرت کے تجربے سے کیوں گزری؟ اس سوال کے جواب کے لئے قاری کو اس کردار اور اس کے سیاق و سباق کو سمجھنا ہوگا۔

           ناول کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ تاریخ نصابوں کی بجائے فکشن میں زیادہ معتبر اور قابل یقین ہے۔ جناح کا تصورِ ریاست  عام آدمی اور مزدور  ورکر کا  یا جس نے اپنی جان و مال کی قربانی دی ، ہجرتوں کے تجربات سے گزرا اس کا تصور ریاست،اشرافیائی عورت اور عام عورت، مزدور عورت کا تصورِ ریاست عماد الدینیت یا ملک سرفرازیت سے کس طرح مختلف تھی یہ معمہ ابھی تک حل طلب ہے۔ عماد الدینیت ایک انڈر ورلڈ کا نام ہے جو ریاست اور سماج کے تمام اداروں اور تصورات کو کنٹرول کر کے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کا تحفظ یقینی بناتی ہے۔ اسی طرح سرفرازیت اس ذہنیت کا نام ہے جو ریاست کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے۔ منڈلی پہ اور راوی اور اسکے دوست کامریڈ صفدر کے مابین ہونے والی مباحث کو دیکھ کر قاری بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ ' کچھ'  لوگوں کے اذہان میں سولات جنم لے رہے ہیں یا پہلے سے موجود تھے جن کا اظہار وہ مختلف اوقات میں کرتے ہیں۔ لفظ ' آزادی' کی رد تشکیلی تنقید کریں تو اس کے معنی میں جس طرح التوا محسوس ہوتا ہے اسی طرح ابہام بھی۔کون اور کیسے آزاد ہوا یہ اہم مسئلہ ہے۔ راوی اور اس کا دوست کامریڈ صفدر دونوں اس مخمصے کا شکار ہیں۔ کامریڈ صفدر راوی کی شخصیت کا پہلا عکس ہے۔ اس کادوسرا عکس وہ واحد متکلم راوی ہے ہے جو ہمیں متن میں حرکت پزیر نظر آتا ہے۔اس کردار کی شناخت سینٹر لیفٹ سے کی جا سکتی ہے۔ایک نظریاتی ریاست میں رد قبول کی کشمکش کے تجربے سے گزرتا یہ راوی لفظوں کی بجائے معنی کی تلاش میں سفر جاری رکھتا ہے۔وہ اس نئی ریاست میں جنم لینے والی ابن الوقتیت سے آگاہ ہے جہاں ہر شخص، مروج نظریہ سے فائدہ اٹھاتے، اپنی جائز ناجائز خواہشات کی تکمیل کی خاطر جائز ناجائز تگ و دو میں مصروف عمل ہے۔ راوی نے کامریڈ کو اپنے گھر ہی پناہ نہیں دی بلکہ اس کو ہمیشہ کے لئے اپنا کامریڈ بنایا ہے۔ یہ کردار راوی کے فکری اطمینان اور جزباتی و ذہنی تشفی کا سبب ہے ۔ راوی کو جب بھی تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی ضرورت ہو اس کردار کو سامنے لے آتا ہے۔ مروج ڈسکورس کی نفی کی علامت کے طور پہ بھی یہ کردار خاصا دلچسپ اور گہرا ہے۔ ایسا بھی محسوس ہوتا ہے جیسے راوی بعض اوقات خود چپ رہنا چاہتا ہے اور کامریڈ کے منہ سے کچھ سننا چاہتا ہے تاکہ قاری کے ذہن کی وہ گتھیاں سلجھ جائیں جو راوی کا مخفی اور(لا) شعوری متنی ارادہ ہے۔اقبال حسن خان کے پاس ائیڈیلائزڈ کردار نہیں نہ ہی اسے ان میں دلچسپی ہے بلکہ صورت حال اس سے برعکس ہے۔ وہ کسی بھی قسم کی عینیت یا مثالیت پسندی کے خلاف ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ راوی کے سامنے جووطن ہے وہ سیاسی وطنیت پہ دال ضرور کرتاہے مگر عملاعوام اساس نہیںبن سکا۔ اس طرح یہ ٹریجیڈی آف آیڈیلزم ہے۔ جہاں ریل کے ڈبوں میں عام مسافروں کی جگہ نوابوں کے کتے بیٹھنے لگیں وہاں مساوات ، عدل، اخوت، دیانت اور امانت کی دھجیاں بکھرتی محسوس ہوتی ہیں۔ ناول کا راوی ایک باشعور انسان ہے۔ وہ اپنی سیاسی بصیرت کے سبب تمام اسباب و علل کو بروئے کار لاکر اپنے نکتہ نظر کی وضاحت کرتا ہے۔ ناول میں مثالیت پسندی کا معنی مختلف ہوتا ہے۔ اس میں بیانیہ حکمیہ، مدرسانہ، خطیبانہ، متصوفانہ، امریہ، التجائیہ، اور وکیلانہ ہونے کی بجائے مثالوں سے وضاحت کا متقاضی ہوتا ہے۔ مثالوں سے یہاں مراد کسی ناول کے ان کرداروں کا زندگی میں عملی طور پہ شامل ہونا ہوتا ہے جو راوی کے تھیم سے مطابقت رکھتے ہوں۔ ناول کا خیال، تھیم اور کردار ایک دوسرے سے مشروط ہوتے ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ فکشن کے کردارمثلائے یا مثالائے گئے ہوتے ہیں۔ یہ کردار حقیقی نہ بھی ہوں تو حقیقت کی امکانی شکل ضرور ہوتے ہیں۔ لیکن ایک ایسے سماج میں جہاں ہر علاقے میں ایک ہی طرح کے کردار بالحاظ قدر و قیمت با آسانی دستیاب ہوں وہاں کسی کردار کو ممکنانے یا فکشنلائز کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ ناول نگار یا راوی تو اس کردار کو کسی تشدید سے گزارے بغیر تجسیم کرے لیکن اس کردار کی اصل اس نقل ( فکشنل کردار)سے کہیں بھیانک ہو، گمبھیر، وسیع اور گہری یا مکروہ ہو۔ نوابی اور جاگیردارانہ نظام ہر علاقے میں بظاہر ایک ہی طرح کا نظر آتا ہے لیکن کثیر الجہت بھی ہے۔ مثال کے طور پہ جیلانی بانو کے ناول’ بارش سنگ‘ کے نواب اور جاگیردار ملک سرفرازیت سے مختلف ہوتے ہوئے بھی ایک جیسے نظر آتے ہیں ۔ دونوں ناول نئی ریاستوں کے نئے سیاسی و سماجی نظامات کے رد عمل کے طور پہ سامنے آتے ہیں۔ انگریز ان کرداروں کاتقرر ایسے کر گیا جیسے کعبہ میں ہبل و نسرو نائلہ اور لات و منات کھڑے ہوں۔ اب باقی عوام پہ ان کی تقدیس اور خدمت واجب ٹھہری۔ بت پرستی کی یہ مجازی شکل مذہبی ثقافتوں میں اس لئے قابل قبول اور ان کی روایت اس لئے رچ بس گئی ہے ہے کہ تقدیر پرستی عام ہے۔ جاگیر کو تقدیر کے ساتھ نتھی کر کے دیکھا جاتا ہے اس لئے سوال کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ سنجیدہ فکشن نگار جانتا ہے کہ جاگیر دار انسان سے زیادہ ایک کردار بھی ہے۔ اس کردار کے تنوع کی نسبت سے اس کو ہمہ گیریت بھی حاصل ہے۔ اردو فکشن میں جاگیردارانہ نظام پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن ہر ناول نگار اور اس کے راوی کا نکتہ نظر دوسرے متن سے مطابقت رکھتے ہوئے بھی مختلف ہے۔ یہی صورت حال کچھ اس ناول میں ہے۔ ناول کی متنی تقسیم سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ناول نگار نے اس کے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ شہری زندگی اور دیہاتی زندگی ان دو دنیاوں کے درمیان ا سٹیشن ہے۔ جب ناول ا سٹیشن سے باہر نکلتا ہے تو گلیوں کے لوگ اس کا متنی مواد نہیں ہوتے بلکہ حویلیوں کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس ناول میں ایک بڑی حویلی جاگیردار ملک سرفراز کی ہے جس کا تعارف بھی راوی خود کرانا نہیں چاہتا نہ ہی اس کی فرعونی تاریخ پہ خود بولنا چاہتا ہے بلکہ اسی سماجی ماحول سے ایک مزدور کراتا ہے ۔ ناول نگار جانتا ہے کہ یہاں راوی نظریاتی تعصب کا شکار ہو سکتا ہے اس لئے اس نے تیقن کی صورت حال کو مد نظر رکھتے قابل یقین کرداروں کو شامل کیا ہے۔ ملک کی جاگیر میں راوی کا مکالمہ بیانیہ کا حصہ بھی ہے اور راوی کا مطمہ نظر بھی۔

یہ حوایلی کس کی ہے؟

یہ سوال سن کر کھیرا ہنسا اور بیل کو ہلکی سی چھڑی مار کر بولا

ملک سرفراز کی ہے جی۔ ملک صاحب کے پڑدادے نے بنوائی تھی۔ سنا ہے کہ پتھر لگانے میں کوئی بیس پچیس آدمی اوپر سے گر کر مر گئے تھے۔ بڑا تکڑا آدمی تھا جی۔ جب انگریز یہاں نئے نئے آئے تھے تو اس نے بڑی سیوا کی تھی ان کی۔ پہلے دو چار کینال کا زمیندار تھا۔پھر اس نے انگریز کو خوش کیا۔ انگریزوں کی لڑائی میں انگریزوں کی مدد کے لئے اپنے بندے دلی تک بھیجے۔ جب لڑائی ختم ہو گئی تو انگریزوں نے جگہ جگہ ان لوگوں کو پھانسیاں دیں جو ان کے مخالف ہو گئے تھے اور انہیں بڑی زمینیں دیں جنہوں نے ان کی مدد کی تھی۔ اس طرح ملک سرفراز خان کے پرکھوں کو بھی سینکڑوں مربعے مل گئے۔ یوں سمجھ لیں جی کہ انگریزوں نے انہیں علاقے کا بادشاہ بنا دیااور ابھی تک ان کی بادشاہی علاقے میں چلتی ہے۔  صفحہ 138

           ناول نگار جدلیات کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ اس نے ناول میں ریاستی نظریہ کو مادی حوالوں سے بھی دیکھا ہے۔ کسی بھی نظریہ سازی میں مال و دولت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر کوئی نظریہ مالداروں کے مال سے متصادم ہو تو وہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور ہر وہ نظریہ جو ان کے مال و مفادات کے تحفظ کا ضامن بنے وہی قابل قبول ہوتا ہے۔ نواب جاگیرداراور سرمایہ دارکامریڈ صفدر کے نکتہ نظر سے مخالفت ہی کریں گے۔ جہاں رعب، دبدبہ، جاہ جلال، ٹھاٹھیت اور آمریت کا کلچر ہو وہاں جمہوری حقوق، رواداری، مساوات مسخ ہو جاتے ہیں۔ کسی نظریہ سے وفاداری سیاسی و معاشی مفادات سے عاری نہیں ہو سکتی۔ پاکستان ایک نئی ریاست تھی اور اس نئی ریاست میں جاگیرداروں، وڈیروں اور نوابوں کی وابستگیاں ان کے مفادات سے مشروط تھیں نہ کہ کسی مذہبی تشخص سے۔اسلامی تشخص میں اگر جاگیردارانہ اور نوابی کلچر کی گنجائش ہے تو جبر و استحصال اس کلچر کا لازمی جزو ہے ۔ تشخص اور انسانی نفسیات میں گہرا ربط ہوتا ہے۔ کوئی بھی تشخص ایک موضوعیت ہوتا ہے جس میں سماجی و ثقافتی محرکات کی عمل داری شرط ہے۔ فرد واحد اپنا تشخص خود کیسے متشکل کر سکتا ہے۔ ایک تشخص ایک اجتماعی شعور و لاشعور کا پیش خیمہ یا حاصل کل بھی ہوتا ہے۔ اس لئے اسلامی تشخص کی لسانی ترکیب میں ثقافتی مادیت سے علیحدگی ممکن نہیں۔ ناول نگار کا اس مادی پہلو پہ قلم اٹھانا ناول کو فکری طور پہ روسی اور ترقی پسند ناول نگاروں کے قریب کرتا ہے۔کسی بھی فکشن کے متن کی خوبصورتی اس کے جدلیاتی عمل میں ہے اس لئے ناول نگار نے مکالماتی فضا کو برقرار رکھا اور راوی کا مختلف کرداروں سے تفاعل اس امر کی دلیل ہے کہ راوی بیانیہ کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی بجائے کرداروں کی کشاکش سے متن اور خیال تجسیم کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ناول نگار جانتا ہے کہ راوی ایک فرد واحد ہے اس لئے متن میں صرف راوی کا بولنا فردِ واحد کا نکتہ نظر سمجھا جائے گا۔ کسی بھی ریاست کے وجود پہ اٹھنے والے سوالات راوی کے اپنے بھی ہو سکتے ہیں اور ان افراد کے بھی جو سماج میں سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ۔ اس ناول میں کرداروں کی مختلف اقسام ہیں۔لیکن بنیادی طور پہ دو اقسام ہیں ایک قسم وہ ہے جس میں کردار سوال کی صحبت میں رہتے ہیں اور دوسری قسم وہ ہے جو جواب جانتے اور مانتے ہیں۔ ناول کی گلیوں کے عام لوگ یہاں تک کہ بسم اللہ جان بھی جواب کی دنیا میں رہتی ہے ، اسی طرح ملکوں کے ڈیروں پہ کام کرنے والے’ اوپر خدا نیچے ملک صاحب‘ کے ڈسکورس سے باہر نہیں نکل سکتے۔ صدیوں کے طوق انسانی نفسیات کا حصہ بن چکے۔ اس طوق سے مراد وہ طوق بھی ہیں جو نظریاتی ہوتے ہیں، وہ طوق کی شکل نظر نہیں آتے لیکن افراد کے اعمال سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ راوی کا تایا جو کہ بقول راوی انسانی خوشی کا ازلی دشمن ہے گو کہ پلاٹ میں اتنا اہم کردار نہیں پھر بھی اپنے روئیے سے عدمیت پسند کردار ہے ۔

یار حسو میں نے سنا ہے کہ امریکہ نے ایک ایسا بم نکال دیا ہے کہ دو بم ساری دنیا کی تباہی کے لئے کافی ہونگے۔ میں کہتا ہوں امریکہ ہی اس دنیا کا قصہ تمام کردے صفحہ30

تایا اپنے ذات کے تشکیل پہ نہ بھی بات کرے تو اس کے ڈسکورس سے اس کی آئیڈیالوجی جھلکتی ہے۔ طاقت پرست کلچر کا نمائندہ کردار ہے ایسے ہی طاقت پرست کردار اس ناول میں جگہ جگہ بکھرے ہیں۔ جو کبھی تو اپنے علم اور تجربات سے اپنی طاقت کی دھاک بٹھاتے نظر آتے ہیں اور کبھی نظریاتی غلبہ کی خواہش میں غلطاں ۔ شعور باطل کچی لسی کی طرح جتنا چاہو بڑھا سکتے ہیں۔ صرف لفاظی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص مرد یا عورت، اگر سمجھتا ہے کہ اس کی زبان اثر رکھتی ہے وہ شعور باطل کی فصل ایسے کاشت کرتا ہے جیسے عوام کے دل و دماغ اس کی ملکیت ہوں۔ حق ملکیت میں کشاکش سماجی نراجیت کو جنم دیتی ہے۔طوائف الملوکیت کرداروں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے ۔ ریاست ایک جنگل کی مانند ابھرتی ہے جہاں بڑے پنجوںاور جبڑوں والے جانور چھوٹے گھاس خوروں کا شکار کرنے کا پیدائشی حق رکھتے ہوں۔ راوی اس سیاسی روش کا ادراک رکھتے ایسے کرداروں اور ان کی خواہشات اور نظریاتی جڑت کے اسباب کو مکالموں سے عیاں کرتا ہے۔

اس واسطے ان کو پاکستان کے صرف اس حصے سے محبت تھی، جہاں ان کی جاگیریں تھیں۔ جاگیروں کو کسی خطرے سے بچانے کے لئے سیاست کی ضرورت تھی اور اسمبلی میں لگی خاندانی کرسی مستقل رکھنے کو ووٹر اپنے غلام تھے۔ چناچہ پاکستان بننے اور ہجرت کے نتیجے میں لاکھوں خاندانوں کے کروڑوں لوگوں کی سماجی اور معاشی حالت تہہ و بالا ہوئی اور وہ اپنی اس زمین سے کٹے جہاں سے ان کا خمیر اٹھا تھا۔ انہوں نے پاکستان کی خاطر عزتیں .. مال اور جان کی قربانیاں دیں اور پیاروں کی مستقل جدائی کا درد سہا.. ملک سرفراز جیسے لوگوں کو ذرہ برابر

فرق نہ پڑا سوائے اس کے کہ پہلے انگریز کے تحت چلنے والی اسمبلیوں میں بیٹھا کرتے تھے اب ہرے جھنڈے والی عمارت میں بیٹھنے لگے۔ پہلے وہ اپنی انگریز دوستی کے باوجود، انگریز کے بنائے ہوئے قانون سے ڈرتے تھے، پھر اپنے قوانین بنانے اور ملکی قوانین کا مذاق اڑانے کو آزاد ہو گئے۔  صفحہ 135

ناول کے نسائی کرداروں میں ایک اہم کردار شکنتلا کا ہے۔ جس طرح شکنتلا کی آواز جبر کی پکی دیواروں میں دبی رہتی ہے اسی طرح ناول کے مجموعی متنی ماحول میں بھی اسکا حصہ غیر اہم ہی رہا۔ اس پہ جنسی تشدد کا وقت کیسے گزرا یہ راوی کے لئے اعصاب شکن تھا اس لئے اس کو حذف کرتے راوی کسی فیصلے پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ بیانوی عجلت بین السطور راوی کی اپنے کرب اوراذیت سے آزادی کی علامت محسوس ہوتی ہے۔ تقسیم سے پہلے یہ کردار آئیڈئیل رومانوی کردار تھا مگر تقسیم کے دوران اس کے جسم کی تقسیم بھی کی گئی۔ راوی کی محبت اور دکھ سے متشکل یہ کردار ناول کے بیانیہ پہ بھی اثر اندازہ ہوتا ہے۔ جب تک شکنتلا منظر عام پہ نہیں آتی بیانیہ کا تناظر زیادہ تر سیاسی و ثقافتی ہی رہتا ہے لیکن اس کردار کی موجودگی سے راوی داخلی کرب میں مبتلا ہوجاتا ہے اور بیانیہ میں راوی کی داخلی کیفیات و احساسات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں راوی کی ادبی نثر میں ندرت اور نکھار پیدا ہوجاتاہے۔

پھر مجھے لگا جیسے میں بیٹھے بیٹھے پگھل رہا تھا۔ عنقریب اس نشست پر جس پر میں بیٹھا ہوا تھا، میرا وجود ایک مائع بن کر پھیلنے والا تھا۔ میں نے خود کو بے وزن محسوس کیا۔ یہ تجربہ مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا شاید میں مر رہا تھا۔ میری روح میرے جسم کا ساتھ چھوڑ رہی تھی۔ لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ میں بے دم ضرور ہو گیا۔ میرے چاروں طرف دھواں تھا۔ ایک ایسا دھواں جس کی کرواہٹ میرے حلق کو تلخ کر رہی تھی- صفحہ 211

           بہت ممکن تھا کہ اسی طرز کی بنانوی اذیت سے شکنتلااور اس کی بیٹی کوگزارا جاتا لیکن جن حالات میں ان کرداروں کوسرحد کے پاس لایا گیا اس افراتفری میں راوی صرف اپنی ذات کو قاری پہ کھول سکا۔شکنتلا کس کرب کے عالم میں سرحد پار گئی یہ راز شکنتلا کے ساتھ ہی مرگیا۔البتہ راوی کے جزبات و احساسات سے قاری آگاہ ہوجاتا ہے۔

اس نے میرے جواب کا انتظار نہیں کیا اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ مجھے لگا جیسے میرے گھٹنے بے دم ہو گئے ہوں۔ میں نے

جیسے اچانک اٹھائیس سے نوے برس کی عمر میں چھلانگ لگا دی تھی۔ میں دیوار کا سہارا لے کر چارپائی تک گیااور اس پر گر گیااور چند لمحوں تک اسی کیفیت میں پڑا رہا۔ میرے گرد تنگ کمرے کی دیواریں نہیں بلکہ ایک سفید دھند پھیلی ہوئی تھی۔ پہلے مجھے لگا جیسے شاید میں مر رہا تھا۔ پھر لگا جیسے میرا نیا جنم ہوا تھا۔ میرے گرد سرخ سفید نارنجی دائرے بننے اور پھیلنے لگے۔ میرے گلے میں ایک بہت بڑا گولہ اٹک گیا تھا۔ مجھے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ لیکن وہ کوئی گولہ نہیں تھا، ایک بہت بڑی چٹان تھی جس نے میرے اندر کے جوالہ مکھی کے منہ کو ڈھانپ رکھا تھا۔ پھر وہ چٹان ہٹی اور جوالہ مکھی آزاد ہو گیا- صفحہ265

           زندگی دائروں کی صورت چکر کاٹتی ہے۔ در شہوار جس کو راوی نے اس کی لوکیل سے آزاد ی میں مدد کی وہی آخر میں راوی کو اس کے مسائل سے آزاد کراتی ہے۔ جہاں کچھ کردار ایک دوسرے کی اذیت کا سبب بنتے ہیں وہیں کچھ کردار ایسے بھی ہیں جو ایک دوسرے کے سفر میں سنگ میل ثابت ہوتے ذہنوں پہ گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔ بسم اللہ جان اور شکنتلا نے سرحد پار کی، شکنتلا کی موت ایک ایسی چیخ ہے جو اس سرحد کے آر پار نکل جاتی ہے۔ سرحد کے پاس جہاں منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے اور جہاں قاسمی کا پرمیشر سنگھ ہے.. جہاں سے بیپسی سدھوا کی شانتا تقسیم ہونے کے بعد گھائل بدن گھسیٹے سرحد پار کر رہی ہے . جہاں سے .. یا کچھ فاصلے پہ، کرشن چندر کی پشاور ایکسپریس گزری شاید وہیں کہیں ایک ویران سی جگہ ہے جس کا نام شکنتلا ہے۔ اس کردار نے مہابھارت سے جنم لیا تھا اور تقسیم کے وقت ختم ہو گئی۔ بسم اللہ جان نے اس کی حفاظت ایسے ہی کی تھی جیسے منیکا پری نے داستانوی کردار شکنتلا کو بچانے کی خاطر کی۔ ناول میں بسم اللہ نے جغرافیائی اور شکنتلا نے اس سفر میں زمان و مکان دونوں کو خیر باد کہا۔ راوی نے جن کرداروں کو سرحدپار کرائی انہی کی تلاش میں پھر ہندوستان میں مارا مارا پھرنے لگا۔ یہی زندگی ہے۔ اس میں کچھ کردار ایسے بھی ہوتے ہیں جو بچھڑ کر بھی کبھی نہیں بچھڑتے۔ آنکھیں ان کی تلاش میں وقت کی چوکھٹ پہ دھری رہ جاتی ہیں۔ ناول نگار اقبال حسن خان نے تاریخ کے سنگلاخ سفر میں اندوہناک حقیقتوں کو کامیابی سے متن کیا ہے۔تقسیم کی تاریخ پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن ایک سنجیدہ فکشنل متن کی کائنات تاریخ سے کہیں گہری اوروسیع ہوتی ہے۔ مورخ نتائجیت پسند ہوتا ہے اس لئے اسے حقائق سے اور اعداد و شمار سے دلچسپی ہوتی ہے نہ کہ وقت کی خون آشام نفسیات سے، نہ ہی اس کی ترجیحات میں یہ پردرد عوامی جمہوریہ کلام اور بیانیہ ہوتا ہے۔ مجموعی طور پہ ناول ڈس الیوژنمنٹ کا کلامیہ ہے جس کا اختتام حیقیقت پسندانہ قنوطیت پہ ہوتاہے۔

دیدبان شمارہ ۔ ۱

گلیوں کے لوگ -  میں گلیاں اور لوگ: ایک ثقافتی مطالعہ

تاریخ اور فکشن دونوں ہی ثقافتی سرگرمیاں ہیں۔ان کے ملاپ کی روایت یوں تو بہت پرانی ہے لیکن جب کوئی سنجیدہ فکشن نگار تاریخ کی گلیوں میں ان لوگوں کی تصویر کشی کرتا ہے جن کے گرد حادثات و واقعات گردش کرتے ہیں توایک ہاتھ میں تاریخ اور دوسرے میں فکشن تھامے رکھتا ہے۔تاریخ سنتالیس کی تقسیم کی ہو یا اس سے قبل یا ما بعد زمانوں کی خون ریزی کی اردو زبان و ادب کے فکشن نگاروں نے اپنے متون کی رنگت کو انسانی عداوتوں.. ہجرتوں اور خون آلود آہوں اور سسکیوں سے گھڑا اور گہرایا ہے۔ ان تخلیقات میں ادیبوں نے سیاسی نظریاتی ثقافتوں کے متون کو بھی ادبی اظہاریوں میں ڈھال کر ادب اور تاریخ کو ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔عبدل حلیم شرر اور قرة العین حیدر. جمیلہ ہاشمی  عبداللہ حسین مستنصر حسین تارڑ سے لے کر شمس الرحمان فاروقی تک فکشن نگاروں نے فکشن اور تاریخ کی کلوننگ سے بہت فکری موضوعات تخلیق کئے اور ادب اور سماج کو الگ الگ دیکھنے کی روش کی نفی کی ہے۔ تاریخ بھی ثقافتی بیانیہ ہی ہے . اس کے واقعات و حادثات ایک ثقافتی بیانوی وقت پہ محیط ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں اس تاریخ میں ثقافتی فسانویت کی آمیزش بھی ہوتی ہے لیکن جو اسلوب تاریخ اور فکشن میں خط تخصیص کھینچتا ہے وہ راوی کا نکتہ نظر.. اس کی سوچ  فکر اور انداز بیاں (اسلوب)ہے۔ فکشن کے تخلیق کار وں کا سروکار محلوں کے تاریخی ریکارڈ رکھنا نہیں ہوتا بلکہ اس تاریخی واقعہ میں ان مقامات کی پیش کش ہوتا ہے جو تاریخ اور مورخ کی نظر میں اضافی محسوس ہوتے ہیں۔انگریزی شاعری کے باپ چوسر نے کینٹربری کہانیوں سے اساطیری اور پاپائی بیانیوں کے طلسماتی اور مابعد الطبیعاتی ماحول سے نجات حاصل کر کے نہ صرف فکشن کو زمینی اور جمہوری بنایا بلکہ اس صنف ( ادب کی سماجیت) کی ابتدا بھی کی ۔چوسر اور اس کے بعد میں لکھے جانے والے ادب میں  ڈرامہ   ایپک اور فکشن نگارانسان اور ادب  یا حقیقت اور داستان کے درمیان خلاوں کو پر کرتے نظر آتے ہیں۔ اردو دنیا کی ادبی روایت میں یہ ثقافتی شعور ما بعد طلسم ہوش ربا دیکھنے کو ملتا ہے۔ مغرب میں ٹھامس میلوری کی بادشاہ آرتھر کی کہانیوں میں محلوں اور نوابوں کی جاگیروں اور حویلیوں کی محبت.. عداوت.. حسد.. جلن. شجاعت و شہادت قبائلی نفسیات ہوتے ہوئے بھی زمینی اور انسانی معاملات ہیں۔ طلسم ہوش ربا میں طلسماتی ماحول کی ہوش ربائیت کہانی کے متنی ماحول پہ چھائی رہتی ہے۔اس لئے یہ داستان تاریخی بیانیہ کی تمثیلی شکل کے طور پہ توپرکھی جا سکتی ہے لیکن جمہوری فسانویت ( چوسری تصور فکشن) غائب ہی رہتی ہے ۔اس میں ہوش ربائیت حقیقت اور طلسماتی فضا میں ایک فاصلہ برقرار رکھتی ہے۔ جس سے قاری کا تصورِ تناظر اور اس کی قبولیت دھندلا جاتی ہے۔ تاریخ کا مورخ یا فکشن کا راوی دونوں تخلیق کار ہوتے ہوئے مختلف سمتوں میں سفر کرتے ہیں۔ عام طور پہ مورخین بادشاہوں وزراءاور اشرافیہ کے عروج و زوال کی داستان لکھ کر تاریخ رقم کردیتے ہیں لیکن ایک سنجیدہ فکشن نگار کا راوی صرف کچھ ’ہونے ‘پہ اکتفا نہیں کرتا نہ ہی اس کی منشا میں ایک خاص واقعہ کی ظاہری ( کہانوی) تصویر کشی ہوتی ہے بلکہ وہ خاص و عام کرداروں کی واقعیت اور سراپائیت میں محو ہو کر ان کی ان خوبیوں، خوابوں اور نفسیاتی کمزوریوں کو متن کرتا ہے جو کسی واقعہ میں اہم محرکات رہے ہوں۔ وہ ان کرداروں سے منسلک جزئیات نگاری سے پلاٹ کو مزید نکھار تاہے ۔ ایک مورخ کا تصورِ انسان ایک ادیب جیسا بھی ہو سکتا ہے۔ دونوں کے تصورات میں مماثلت نظریاتی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک ادیب کا اصرار تاریخی کہانی نہیں بلکہ بپتا کی نوعیت، اسلوب اور سنجیدگی ہوتی ہے۔ جب وہ کردارتجسیم کرتا ہے تو اس کے ذہن میں کئی طرح کے سوالات ابھرتے ہیں ۔ مورخ ان سوالات کے جواب وضاحت کے ساتھ دینا پسند کرتاہے مگر فکشن نگار اپنی صراحت میں ایک التباس رکھتا ہے۔وہ علامت استعارہ مجاز کسی بھی ترکیب کا سہارا لے کر بیانیہ کو دلچسپ اور مختلف شکل دے سکتا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تاریخ دلچسپی سے عاری ہوتی ہے۔خاص طور پہ رزمیہ بیانیہ تاریخ کو بھی دلچسپ بنا کر پیش کرتا ہے۔

            ایک تاریخی واقعہ میں ہیرو شپ ایک ادارے کے طور پہ سامنے آتی ہے جو تاریخ کے قاری کو یقین دہانی کراتی ہے کہ جو کچھ بیاں کیاجا رہا ہے وہی حقیقت ہے لیکن ایک فکشن نگار اس حتمیت اور قطعیت سے فاصلہ رکھتے ہوئے اپنے قاری کو یہ باور کراتا ہے کہ دنیا امکانات اور ممکنات کی تجربہ گاہ ہے ۔ اس دنیا میں بسا اوقات ایسا بھی ہو سکتا ہے جو عام طور پہ ہماری نظر سے اوجھل رہتا ہے۔ تاریخ انسانی متن کو بین السطور دیکھنے سے قاصر رہتی ہے مگر فکشن نگار انسانی نفسیات کی کھوج میں لاشعوری محرکات اور انسانی جبلتوں کی تعبیر تک کا سفر اختیار کرتا ہے۔ یہی فرق ہمارے عہد کے ایک اہم ناول گلیوں کے لوگ  میں قائم رکھا گیا ہے۔ناول نگار اقبال حسن خان نے ناول کی صنف کی جمہوری قدروں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان عام لوگوں کی بپتاوں کویتاوں کو متن کیا ہے جوسیاست دانوں کے تاریخی فیصلوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ تقسیم اور در تقسیم کے عمل سے براہ راست گزرنے والے کرداروں کی زندگیوں کو بہت قریب سے دیکھنا ہو تو یہ ناول بہت اہم ہے۔ سماج کے چہرے کی کلوزریڈنگ سے متشکل شعور کا تخلیقی کرب اور اس کا رد عمل ایک ایسا ہی ناول ہو سکتا تھا۔متن کے مطابق ناول کی گلیوں کے لوگ ماضی قریب کی گرامر سے بندھے ایک دوسرے کے معنی کا سبب بنتے ہیں۔ ان سب کرداروں میں مرکزی کردار راوی کا ہے جس کی آنکھ اور تجربے سے دوسرے کردار منسلک ہیں۔ راوی کازیادہ تر فوکس انسان کم اور انسانی روئیے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اس لئے وہ کرداروں کے تعارف میں اختصار سے کام لیتا ہے لیکن ان کی سماجی سرگرمیوں میں وضاحت دکھاتا ہے۔ مصنف کا سروکار چونکہ نیا ثقافتی اور سماجی مزاج ہے اس لئے وہ بار باران کی ثقافتی نظریاتی ساختوں کو زیر بحث لاتاہے جس سے نیا مزاج اور نئی ذہن سازی مرتب ہو رہی ہے۔

           تقسیم کے وقت راوی نے جو دیکھا ، جن تجربات سے گزرا وہ اس ناول کا سیاق و سباق ہے، جو ماحول اسے ملا وہ اس کے متن کا تناظر ہے، اس نے عام انسانوں کی طرح کچھ خواب دیکھے، ان خوابوں کی تکمیل کا انتظار کیا، نعرے، دعوے امید بھرے الفاظ ہر طرف بکھرے تھے لیکن ان کے معنی غائب تھے۔ اس کے سوالات جمع ہوتے گئے ۔ جواب کس کے پاس تھا وہ نہیں جانتا ۔ انہی سوالات کے جوابات تلاش کرنے وہ خود بھی کہانی کا حصہ بنتا ہے۔ یہ کہانی تقسیم کے بعد کی گلیوں کے لوگوں کا اجتماعی شعور ہے۔ کئی لوگوں کی زندگیوں اور ان کے تجربات کا حاصل کل۔ ایک نظریاتی ریاست جب قائم ہوتی ہے تو بنیادی شے اس کا نظریہ ہوتا ہے نہ کہ انسان۔ سیاست دانوں کے تاریخی فیصلوں سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ عام طور پہ ریاستی قیام کے تاریخی عمل سے مختلف لوگ استفادہ کرتے ہیں لیکن شرط نظریاتی وابستگی ہوتی ہے۔ یہاں ریاست یا کوئی ادارہ قائم کرنے والوں کا عمل نہیں بلکہ نظریہ اہم ہوتا ہے۔ ان نفوس کو مراعات کی شکل میں وہ چھوٹ دی جاتی ہے جو نظریہ کی ترویج و پرچار میں معاون ثابت ہو۔ اس طرح نظریہ کے قریب ترین، قریب تر، قریب اور دور اور مردود سب افراد کی درجہ بندی نظریہ کی شرط پہ کی جاتی ہے۔ اس لئے جب تفریق و تقسیم کاسلسلہ شروع ہوتا ہے تو ایسے افراد جو نظریہ سے مطابقت نہ رکھتے ہوں ، نظریہ کی زد میںآکر کچلے جاتے ہیں ۔ ناول کے تناظر میں نظریہ دو طرح کا دیکھنے میں ملتا ہے ماورائی یا الہامی اور مادی۔ نظریہ پاکستان کے بارے حتمی طور پہ نہیں کہا جا سکتا یہ مادی ہے یا مذہبی۔ اور مذہب کے بارے بھی یہ نیتجہ اخذ کرنا خاصا مشکل ہے کہ اس کا جوہر طبیعاتی ہے یا مابعد طبیعاتی۔ اپنی سہولت کے لئے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ماورائی یا الہامی نظریہ کی اساس مذہبی تعلیمات ہوتی ہیں جب کہ مادی نظریہ سماجی و ثقافتی ماحول اور اس ماحول میںمادی اشیا ، تاریخ ، حالات و واقعات پہ دال کرتا ہے۔ چونکہ ناول کے متن میں گلیاں اور لوگ دونوں مادی ، سماجی و ثقافتی ہیں اس لئے ناول کا خیال اور اس کی تعبیر مادی ہی بنتی ہے۔ لیکن انہی گلیوں کے لوگ مذہبی نظریات کی رو سے اپنی زندگیوں کا تعین کرنے میں مصروف عمل ہیں۔اس لئے تقسیم کے سلسلے میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ مادہ مابعد طبیعاتی ڈسکورس سے تشکیل پایا جا رہا ہے۔ ثقافتی تنقید میں متن بذات خود کلچرل پراڈکٹ سمجھا جاتا ہے لیکن تناطر اور سیاق و سباق سے جوڑے بغیر اس کی تفہیم ادھوری رہ سکتی ہے۔ ناول کے متن سے ثقافت کے نہاں پہلو قاری پہ عیاں ہوتے ہیں۔ ناول کے تناظر میں پھیلی کفر و ایمان کی حرارت نہیں بلکہ آگ ایک تاریخی حقیقت سامنے لاتی ہے کہ اس طرح کی خون کی ہولیاں زیادہ تر محروم طبقات کی ثقافتی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اشرافیہ ہندو ہو یا مسلمان، عیسائی یا سکھ، یا شیعہ، سنی، وہابی، احمدی ، اپنے مادی حالات کی وجہ سے قریب قریب ہوتی ہیں ۔ یہ لوگ اختلافات کے باوجود مادی وسائل اور مفادات سے جڑے رہتے ہیں جبکہ انہی وسائل سے محرومی کے شکار نفوس کے پاس مذہبی اور فرقہ وارانہ مسائل کی ثقافت کاشت کرنے کی رغبت کافی زیاددہ ہوتی ہے جو ان افراد کو گروہ بندیوں میں جکڑ لیتی ہے ۔یہاں تک کہ ایمان و کفر کی شرائط کی رو سے جبر و استحصال کی ثقافت کو جائز سمجھ لیا جاتا ہے۔ ناول کے دو کردارشکنتلا اور بسم اللہ جان چونکہ بنیادی نظریہ سے دور ہیں اس لئے ان کرداروں نے زیادہ مشکلات اٹھائیں اورمروج نظریہ کی قلم رو سے باہر نکلنا ان کی اولین ترجیح بن گئی۔ ان کے ساتھ کامریڈ صفدر ہے جو اپنے فکری اختلاف کے سبب نئی ریاست کی نظریاتی سرحدوں سے باہر نکلنے کا خواہاں ہے۔ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ ناول کے تمام اہم نسائی کردار اپنی لوکیل یا اپنے گرد موجود حصاروں سے یا نفسیاتی طور پہ پدرسری روایتوں سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ شکنتلا جنسی درندگی کا شکار ہو کر اپنی بچی کے ساتھ ہندوستان چلی جاتی ہے۔ بسم اللہ جان ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آتی ہے اور چند سالوں کے تلخ تجربات کے بعد وہ بھی شکنتلا کے ساتھ سرحد پار کر جاتی ہے۔ درشہوار جو نظریاتی طور پہ راوی کے خلاف ہے ، بھی ناول کے اختتام پہ فرار کا راستہ اختیار کرتی ہے اور دادا کی حویلی سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کر لیتی ہے۔ ملکوں کی حویلی سے راوی کو دو نسائی کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان میں فرق یوں بیان کیا گیا ہے” ایک سے تو میں گفتگو بھی کرچکا تھا ۔دوسری مجھ سے ملنے کی مشتاق تھی۔ میرے مطالعے نے مجھے بتایا کہ ان دونوں شخصیات کے حوالے سے ایک فرق بہت نمایاں تھا۔ایک یعنی در شہوار گھنے درختوں کے نیچے بہنے والی کسی شانت ندی کی طرح تھی تو دوسری تنگ گھاٹیوں سے گزرنے والے پانیوں کی سی جو رستہ تلاش کرنے کو ہر پتھر سے ٹکراتے اور کف چھوڑتے بڑھتے ہیں“ صفحہ 140۔ اس پیچیدہ ”میٹرآف فیکٹ قسم کی عور ت“ نے راوی کو ایک ہی لوکیل میں دو صفات میں سے روشناس کرایا ۔اس مختصر کردار کا نام نورین ہے۔ نورین ایک فطری انسان ہے جو اپنے فطری تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ دینیاتی تصور ِ گناہ سے کافی فاصلے پہ کھڑی یہ عورت اپنی جبلتوں اور نفسیاتی خلاوں کی تکمیل میں باطنی نا آسودگی کی علامت بن کر ظاہر ہوتی ہے۔ بظاہر یہ باغی کردار رات کی تاریکیوں میں پناہوں کی متلاشی نظر آتی ہے لیکن اسی کردار سے قاری کو بڑی حویلیوں اور ان کے باسیوں کے اذہان کی تحلیلِ نفسی کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ناول کی یہ نسائی کردار بھی اپنی لوکیل کی گھٹن سے کھلی فضا میں سانس لینا چاہتی ہے۔ ان کرداروں کے برعکس، نواب صاحب، سلیم میاں، مولانا عماد الدین ، میر صاحب، گلو بدمعاش، راوی کا تایا، وڈا ماما، حاجی نثار، پتن خان اور دوسرے کئی کردار طبقاتی اونچ نیچ کے باوجود غیر محفوظ نہیں ہیں۔ اسکا سبب ان افراد کی ریاستی نظریہ یا سماجی روایات سے جڑت ہے۔ ان پہ کفر کا نہ تو فتوی صادر آسکتا ہے نہ ہی بغاوت کا مقدمہ بن سکتا ہے۔ ملک سرفراز صاحب نے نظریہ کی خدمت کے عوض اپنے کتوں کو بھی مراعات یافتہ بنا لیا۔نظریاتی طاقت کا ترجمان ملک صاحب کا کردار ہمارے سماج کا ایسا اہم کردار ہے جس کی تقلید تمام طاقت محبِ وطن افراد کا کلچر ہے۔ناول چونکہ ایک زمینی خطے کی تقسیم کے تناظر میں لکھا گیا ہے اس لئے لفظ تقسیم غیر مشروط اہمیت کا حامل ہے۔ ایک ریاست کی تقسیم کا مطلب سب سے پہلے تو طاقت کی تقسیم ٹھہرتا ہے۔ اس کے بعد وسائل کی تقسیم، طبقات کی تقسیم اور اس کے بعد اختیارات اور فرائض کی تقسیم۔ کمزور افراد کافرض ٹھہرایا جاتا ہے کہ وہ طاقت ور کی خدمت پہ مامور رہیں۔جس نظریہ میں صبر و شکر اور قسمت پرستی ہو اس کے افراددلخراش واقعات و حادثات کے باوجود مایوسی کو گناہ سمجھتے ہوئے ہر حال میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کی مشروط زندگیوں سے نظریہ کا ایندھن بنتا ہے۔ صرف یہی نہیں ریاست کے تمام وسائل، اجناس، موسم، آب و ہوا، ایجادات اور دریافتیں ، چرند پرند سبھی اپنی باری پہ نظریہ ہی کی خدمت کرتے ہیں۔ ناول میں ریلوے ٹرین ، پلیٹ فارم، پٹریاں ، ریل کے ڈبے، سڑکیں، فصلیں، اسلحہ، محراب و ممبر،ملازمتیں اور سرکاری ادارے نظریاتی آسمان تلے حاکمین کی اطاعت کرتے ہیں۔ طاقت ور کے اختیار میں سبھی فیصلوں کا حق دے دیا جاتا ہے ایسے ہی جیسے اس ناول کے کردار ملک صاحب اور مولانا عماد الدین کے ان گنت اور منہ زور اختیارات ہیں۔ مذہبی نظریاتی ریاست میں دو طرح کے اختیارات دیکھنے کو ملے ہیں۔ انفرادی یا شخصی اختیارات اور قانونی اختیارات۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ نظریہ کی پاسداری میں لوگ انسانیت کو کچل کر اپنے نظریہ کی پاسداری کا اعلان کرتے ہیں۔نظریہ انسان سے کہیں بڑا ، مقدس اور معتبر سمجھا جاتاہے۔یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ ناول کا تھیم بار بار اس دو قومی نظریہ سے جڑتا ہے جو سنتالیس کی تقسیم کا جواز بنا۔ اس نظریہ میں ایمانی شرط تو واضح تھی لیکن مادی وسائل کی تقسیم کا ذکر تک نہیں تھا۔ ناول کا راوی ایک پڑھا لکھا باشعور انسان ہے۔ بیانیہ کے سفر میں ایک جگہ رک کر اسے کہنا پڑتا ہے کہ

           ”پھر اپنی تعلیم کے دوران اور محلے کی منڈلی کے یاروں کی صحبت نے میرے اندر یہ احساس اور مضبوط کردیا تھا کہ یہ ملک کچلے ، پسے ہوئے مسلمانوں کے لئے بنایا گیا تھا۔ یہاں کے انصاف کی دنیا بھر میں دھومیں ہونے والی تھیں۔ یہاں سے سچائی ایمانداری .حسن سلوک و اخلاق اور وطن دوستی کے جذبے کی وہ کرنیں پھوٹنے والی تھیں کہ جنہیں دنیا نے پہلے رشک سے دیکھنا اور پھر اپنانا تھا۔۔۔یہ مجھے بعد میں پتا چلا کہ مسلم لیگ کے منشور میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔شاید اس کی وجہ یہ بھی رہی ہو کہ مسلم لیگ میں بڑے بڑے جاگیر دار شامل تھے۔ صفحہ 135

           ناول نگار کا شعور جس خمیر سے متشکل ہوا ہے اس میں روایت دھند کا شکار اس لئے رہی تھی کہ بادشاہت کی سیاسی ثقافت ایک طویل عرصے تک پھیلتی رہی ۔ ملوکیت کی اس استبدادی ثقافت میں قسمت نصیب پرستی ایمان کا لازمی جزو ایک آہنی آرکیٹائپ بن کر انفرادی اور اجتماعی نفسیات کو ہانکتا رہا۔نظریہ ،سوال نہیں جواب اساس ہوتا ہے۔ تقسیم کے بعد یہ جوابات گلی گلی پھیل کر اپنی جڑیں مستحکم کرنے لگے۔ ناول کی گلیوں کے لوگ ایسے ہی کردار ہیں جو نظریہ بولتے ہیںاور نظریہ بولنے پہ مجبور کرتے ہیں۔جہاں نصاب سازی ہوئی وہیں اسلاف سازی بھی منظم طریقے سے ساخت کی گئی جس کے نتیجے میں سطورایا بیانیہ ثقافت کا اہم ستون بن گیا۔اس سطورائے بیانیہ کا براہ راست تعلق روحانیت اور مابعد الطبیعات سے تھااس لئے کسی سوال اٹھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔مگر ناول نگار کے ادراک میں ماورائی لسانی ساختوں       میں موجود ثقافتی سیاست اس کے کلامیہ کو زمین گریز نہیں ہونے دیتا۔ وہ اپنے زمان و مکان میں رہتے ہوئے مسائل کو متن کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس نے تاریخی مادیت کو چھیڑے بغیر تقسیم کی تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ایسا نہیں کہ اس نے مادی حوالوں کو نظر انداز کیا ۔ ناول کا بیانیہ اور اس کے کردار بشری اور مادی حوالوں سے حقیقت کی طرف مراجعیت کی متحرک صورت ہیں۔

           شعوری یا لا شعوری طور پہ ایک فکشن نگار کا کسی نظریہ کا پروردہ یا پاسدار ہونا ضروری نہیں۔ خاص طور پہ اس نظریہ کا جس میں طاقت مذہب کی طرح مظاہر کی رگوں میں دوڑتی پھرتی نظر آئے۔سنجیدہ ناول نگار کی جمہوریت سے مراد طاقت کا ڈسکورس نہیں ، وہ ہر عام انسان کی زندگی کے تجربات کو معاشرتی اور ثقافتی ماحول میں رکھ کر ہی اپنی تخلیق میں پیش کرتا ہے۔ وہ کسی گاوں کے کمہار پہ بھی لکھے تو محنت کی خوشبو متن کی شریانوں میں پھیل جاتی ہے۔ کسان پہ لکھے تو اس کے پسینے کی خوشبو سے متن میں ہریالی رقص کرنے لگے،گوئیے پہ لکھے تو ریاضت سر بکھیردے، وہ طوائف پہ لکھے تو انسانی ، بشری اور نفسیاتی تقاضے پورے ہوتے ہیں۔اسی پیش کش کو عام طور پہ ہم حقیقت نگاری کہتے ہیں۔عام طور پہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تخلیق تنقید سے مختلف کلامیہ ہے لیکن ایسا کہنا سمجھنا سمجھ سے باہر ہے۔ دنیا کا کوئی سنجیدہ ادب خاص طورپہ فکشن سماجی و ثقافتی رویوں پہ کڑی یا نرم تنقید سے عاری نہیں۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ فکشن نگار یہ نہیں بولتا کہ وہ کہیں تنقید کر رہا ہے۔ اسی تنقید میں ادیب یا فکشن نگار کا اپنا نظریہ بھی شامل ہو سکتا ہے ۔ سنجیدہ ادیب بیانیوی التباس سے کام لیتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں لاوڈ سپیکر نہیں ہوتا نہ ہی واعظ اس کا مطمع نظر ہوتا ہے۔ کردار بولتے ہیں، کرداروں کا ماحول اور ثقافت بولتی ہے، نعرے چیخیں، مسکراہٹیں، قہقہے، آنسو ، بین ، دھاڑیں بولتی ہیں۔ اس ناول کے سبھی کردار اپنی اپنی زندگی بولتے ہیں اور ان زندگیوں میں طاقت، جبر، ظلم، تشدد، استحصال، دکھ، کرب ، خواب و خواہش، ریاکاری، خوف، ڈر، موقع پرستی، دلیری، جہالت، تاریکی اور ہوس بولتی ہے۔ناول نگار کا تصور انسان بین السطور دیکھا پرکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ نظریہ کی ملوکیت کے حق میں ہے نہ اس کے مخالفت میں کسی آمریت کا طرف دار۔ دونوں کا نقاد ہے لیکن جہاں جہاں ان گلیوں میں اسے کوئی جمہوری انسان یا قدر ملتی ہے وہ اس کو قلم بند کرتا ہے۔جب ہم گلیوں کی بات کرتے ہیں تو ہر وہ شخص جو ان روایتی گلیوں کے تمدن کا تجربہ رکھتا ہے اس کے ذہن میں ان ثقافتی گلیوں کی زندگی متشکل ہوتے محسوس ہونے لگتی ہے۔ان گلیوں میں ایک ہی طبقے کے لوگ نہیں بستے، یہاں وقت کے بہاو میں ایک پورا تمدنی کلچر سانس لیتا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں موچی  نائی درزی قصاب تاجر دوکاندار ہیجڑے  طبلچی  سازندے طوائفیں مولوی ماسٹر چور ڈاکو مزدور گلو بدمعاش  حسو قصائی  ٹھسے دار عورتیں  تانا چھری  میوہ فروش تایا سیٹی، وڈا ماما، چاچے، مامے، تائے ،چاچا چوئی ، گھر گرہستی، باپردہ خواتین، مہاجر، نواب صاحبان،اور وضح دار لوگوں سمیت ایک جہاں ملتا ہے جن کے انفرادی اور اجتماعی عمل سے ان زندگیوں کی ثقافت سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔اس ناول میں نواب صاحب سے لے کر طوائف بسم اللہ جان تک بہت سے کردار ایسے ہیں جو ہجرت کا شکار ہوئے اور یہ کہنا تقریبا نا ممکن ہے کہ ہجرت نظریاتی نہیں ہوتی۔

           ناول’ مابعد تقسیم  پاکستانی معاشرت کا عکس ہے۔ کرداروں کی اکثریت فسادات کی آگ کے تجربے سے گرز کر ان گلیوں تک پہنچی ہے اور مقامیت کی درو دیوار اب بھی اس انسان دشمن آگ کی گواہ ہے جو تعصب کے حواریوں نے لگائی۔ناول راوی کی دلدوز یاد داشت ہے جس میں راو ی کی جوانی افراتفری سے گزرتے اپنے تجربات جھیلتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے راوی تقسیم بھگتتا ہے۔ اس کا شعور زندہ ہے اور گردو پیش پہ استدلال کرتا ہے۔واحد متکلم راوی چونکہ خود بھی کسی ناول کا کردار ہوتا ہے اس لئے سبھی حالات و واقعات، کردار اور لوکیل اسی کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ قاری راوی کے ساتھ چلتا جاتا ہے اور واقعات و تجربات سے گزرتا جاتا ہے۔راوی کی لوکیل ایک شہری علاقہ ہے جس میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہے۔اس کثیر الجہت ثقافت میں جو قدر مشترک ہے وہ اسلامیت اور پاکستانیت ہے۔ ماسوائے ایک منڈلی کے جہاں راوی بمشکل پہنچ پاتا ہے باقی سب کردار اس نظریہ کا شکار ہیں جو سکہ رائج الوقت ہے۔ کامیابی و ناکامی، جان بخشی یا جان خلاصی اسی نظریہ سے مشروط ہے۔

           راوی کے گھر سے ملحقہ ایک اہم تہذیبی روایت بستی ہے ۔ اس روایت کی ترجمانی بسم اللہ جان کے پاس ہے۔ اپنی روایت کا بوجھ اٹھائے یہ کردار بھی ہجرت کاشکار ہوئی۔ ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ کردا رراوی کی ذات کا دوسرا اہم پہلو ہے جو تقسیم پہ خاموش، مصلحت پسند، انسان دوست ہے ،تعصب، حسد، جلن سے دور، اور انسانی ہمدردی سے مالا مال ہے۔ صرف ہمسائیگی کے رشتے سے ہی نہیں یہ دونوں کردار فکری طور پہ بھی ایک دوسرے کے ہم نوا ہیں۔ ناول کے متن کی رو سے بھی یہ ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہیں کہ ایک کا وجود دوسرے کے بغیر نامکمل ہے۔ ناول کی ابتدا میں راوی کی اس کردار سے لا تعلقی کرداروں کی انفرادی زندگی کی غماز ہے لیکن چونکہ ایک سماج میں رہتے انسانوں کی زندگیاں ایک دوسرے سے مشروط ہوتی ہیں اس لئے کہیں تو بسم اللہ جان کو راوی کی ضرورت ہے اور کہیں راوی کو بسم اللہ جان کی۔ بس اللہ جان ایک ڈی آئیڈیالوجیکل یا لانظریاتی کردار ہے۔ اس کا کردار کئی دلچسپ حوالوں دیکھا جا سکتا ہے ، ایک تو اس کا سماج میں طوائف کا کردار( جسے عرف عام میں بدکردار سمجھا جاتا ہے) دوسرا اس کا سوشل اور جمہوری کردار تیسرا اس کا رومانوی پہلو جس سے اس کے نفسیاتی خلاوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور اس کا طوائف کی روایت سے جڑت۔ ان تمام کرداروں کو نبھاتی بسم اللہ جان سود و زیاں کی دھوپ چھاوں سے گزرتی ہے۔ نعمان ،منڈلی کے ایک باغی نوجوان ، سے اس کی بے لوث محبت نے اسے اپنی ذات کی دریافتوں میں مدد کی۔ نعمان اس سلسلے میں ایک ترغیب ہے جس کا شکار ایک تجربہ کار طوائف ہوئی۔ اس کی محبت اس کے تمام تر تجربات سے ہار گئی۔ نظریہ کی سیاست بھی کچھ ایسی ہی دلکش ترغیب ہوتی ہے جس کے اثرات تجربات کے بعد ہی نظر آتے ہیں۔نعمان ایک نیا انسان ہے ، نئی ریاست کا نیا امبیشس( مفاد پرست) انسان۔ یا اس نئی نظریاتی ریاست کا اجتماعی فیوچرسٹ شعور جو غلط صحیح، خیر و شرکی تخصیص میں کنفیوزڈ بھی ہے اور ذات مرکزی ہوتے گردو پیش کے مسائل سے لا تعلق بھی۔ لیکن یہ کردار بیانوی ادھورے پن کا شکار نظر آتا ہے۔ اس نئے انسان سے بہت اہم کام لیا جا سکتا تھا ۔اس کا اچانک منظر عام سے غائب ہو جانا اس کو موقع پرست تو ظاہر کرتا ہے مگر اس کے عمل سے بسم اللہ جان کی نفسیات پہ کیا اثر ہوا یہ بھی سوالیہ نشان ہی رہا۔ دلچسپ ہوتے ہوئے بھی فلیٹ کردار۔ اس کردار کا رد عمل پیر بخش سارنگیا ہے جو بسم اللہ جان کے پس منظر کا نمائندہ ہے۔ اس شخص کے گھر کا مستقبل بسم اللہ جان کے وجود اور کوٹھے سے ہے اس لئے اس کا فکر مند ہونا فطری ہوتے بھی سماجی اور ثقافتی عمل ہے۔ پیر بخش کا بار بار بسم اللہ کو ترغیب سے دور رکھنے کا عمل علامتی طور پہ روایت پرست رویہ ہے جس کی ضد نعمان کی ترغیب انفرادی خواہش کی تکمیل کی طرف ایک سفر ہے۔ جس طرح نیا سماج نئے تضادات اور متناقضات کا شکار ہے اسی طرح بسم اللہ جان کا دل ابہاموں کی دھند میں شفافیت کی تلاش کا سفر ہے۔ بسم اللہ جان بظاہر ایک طوائف ایک پروفیشن کی ترجمان ہے لیکن اس کے علاوہ ایک عورت بھی ہے جس کا دل  روح  دماغ ،سوچ ،فکر، احساس، جذبات اس کے وجود کے اندر ہوتے ہیں مگر ممکن ہے عام انسانوں کی ترجیحات کی طرح ایک طوائف بھی کچھ مصلحتوں کا شکار ہو جائے یا کچھ عرصے کے لئے ایک جزو یا اکائی کو معطل کردے ۔ہر انسان میں محبت اور نفرت موجود ہوتی ہے لیکن زمان و مکان کے بدلنے سے دل و دماغ میں ممکنہ تبدیلی ایک فطری عمل ہے۔ طوائف کا کردار عام عورت کی نسبت زیادہ پیچیدہ سمجھا جاتا ہے، خاص طور پہ جہاں معاملہ دل اور محبت کا ہو۔ اس کے ماحول میں محبت کا ہر روز مول لگتا ہے۔ ہر روز دل کا سوداہوتا ہے اور دل جسم کا التباس ٹھہرتا ہے۔ لفظ اور معنی گڈ مڈ ہوتے ہیں اور گوناگونیت در آتی ہے ، ایسے ہی جیسے طوائف اور پراسٹی چیوٹ کولونیل عہد میں گڈمڈ ہوگئے۔محبت کا ڈسکورس ایک پیشہ کی صورت بسم اللہ کے کوٹھے میں اس کی سانسوں کی شہادت دیتا ہے۔ یہ ایک مشروط عمل ہے جس سے گزرنا طوائف کی مجبوری ہے۔ اس کے کوٹھے پہ بولی گائی جانے والی شاعری ایک غرض سے مشروط ہوتی ہے جس میں رومانوی الفاظ کا معنوی نظام اپنے شیڈز بدلتا رہتا ہے۔اس تعلق کی بیرونی سطح پہ لفظ محبت سے ہی ملمع کاری ہوتی ہے اور اس طرح اندرونی سطحوں پہ سلسلہ وار جسم کی آڑھت جاری رہتی ہے۔ بسم اللہ طوائف کے شعور میں یہ بات شامل تھی کہ کوٹھے پہ عاشق اور معشوق دوعام انسانوں کی طرح نہیں بلکہ طوائف اور تماش بین کے رشتے سے منسلک ہوتے ہیں۔اس کے کلچر میں ٹھیکے کی محبت کا چلن ہے جس میں میں فریقین کو طے شدہ معاہدے کی رو سے اپنے جزبات میں مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے ۔ وہ خود کئی بار یہ معاہدہ کر چکی ہے اور اب اپنی لے پالک بیٹیوں جواہر اور موتی سے کرواتی ہے ۔ بسم اللہ جان جانتی ہے کہ کوٹھے کی ثقافت میں محبت کا معنی مال و دولت سے مشروط ہے۔ طوائف باطنی طور پہ ایک مرد سے نفرت کے باوجود اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریوں کے سبب اپنی بدنی شکست قبول کرنے کو تیار ہو سکتی ہے ۔ اس کے جسم کی زندگی عام طور پہ، محبت کے لمس کے حوالے سے، کثیر الجہت ہوتی ہے۔ اس لئے اس کے لئے کسی نعمان جیسے نوجوان کے الفاظ کو پرکھنا مشکل نہیں تھا لیکن بسم اللہ جان پدرسری ڈسکورس کے سامنے ہار گئی۔ شکست در شکست تجربات کے باوجود اس کے وجود کی ویران گھپاوں میں ایک مرد سہارے کی تلاش لاشعوری طور پہ جاری رہی۔ بظاہر مضبوط دیواریں اتنی شکستہ بھی ہو سکتی ہیں یہ اس کردار کے فیصلے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے۔ ناول نگار نے تمام نسائی کرداروں کی طرح بسم اللہ جان میں بھی ایک ا رتقا رکھا ہے۔ وہ فلیٹ کرداروں کا ایک گھسا پٹا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک متحرک کردار ہے۔ یہ طوائف اپنی ذات کی نفی سے گزرکر زندگی کا بھید اور مقصد بھی پا لیتی ہے ۔ جس طرح وہ تعلق نبھانا جانتی ہے اسی طرح وہ احسان فراموش ہے نہ موقع پرست۔ راوی نے اسے نعمان کے مزموم مقاصد سے آگاہ کیا جس کے جواب میں بسم اللہ جان نے آخری حد تک روای سے وفا داری نبھائی۔ شکنتلا اور اس کی بیٹی کو اپنے گھر پہ پناہ دی۔ خطرات کے باوجود اس کے قدموں میں لغزش نہیں آئی۔ ناول کے آخری حصے میں بسم اللہ موپاساں کے ایک مشہور کردار’ بال آف فیٹ ‘کی صورت نظر آتی ہے۔ اس کردار نے بھی معصوم عورتوں کی جان بچانے کے لئے اپنی جان خطرات کے حوالے کردی۔ بسم اللہ نے شکنتلا کی بیٹی کو پال پوس کر جوان کیا اور ڈاکٹر بنایا۔ موپاساں سے منٹو تک ایسے بے شمار کردار ہیں جن کی تعبیر و تفہیم کے سلسلے میں روایتی خیر و شر کے تصورات ناکام رہتے ہیں۔ انسانی تشخص میں انسانی نفسیات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ، وہ تشخص خواہ کسی طوائف کا ہی کیوں نہ ہو۔

            طوائف کلچر کے کرداروں کی طرح بسم اللہ جان کی بھی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ مارکیٹ میں اس کا نام چلتا رہے دوسری طرف وہ سماجی اور نفسیاتی خلاوں کو پر کرنے کے جتن کرتی ہے۔ اس سلسلے میں رفاح عامہ ، مساجد اور مزاروں کی خدمت، عرس، میلاد، سب سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ جس نظریاتی معاشرت میں انسان زندگی گزارتا ہے وہاں کے تصورات بھی اس کی نفسیات کاحصہ بن جاتے ہیں۔ ہندو ثقافت کے نقوش ہندو طوائف کے ذہن میں محفوط ہوتے ہیں جو اس کو ایک خاص طرز معاشرت اپنانے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ تصورات زبان کے سبب انسانی شعور و لاشعور اور نفسیات کا حصہ بنتے ہیں۔ طوائف بھی غیرت، گناہ، جرم، بدکاری جیسے الفاظ کے معنی سے آشنا ہوتی ہے لیکن وہ عملی طور پہ اس معنیاتی نظام کو اس لئے قبول کر لیتی ہے کہ جب ایک بار انسان ایک دنیا اختیار کر لیتا ہے تو وہ نفسیاتی یا (لا)شعوری طور پہ اس کا قائل بھی ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی جیسے عام لوگ بہت سی سماجی خرابیوں کو قبول یا نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بسم اللہ جان کی زندگی بھی انہی کلچرل متون سے متشکل ہوتی ہے۔ اس نے آخری حد تک بقاکی جنگ لڑی مگر وہ پھر بھی ہار گئی۔ وہ جس دنیا میں رہتی ہے وہاں انسانیت اور اخلاقیات کا دعوی دینے والے بہت سے افراد ہیں اور بسم اللہ جان ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکی۔ اس کی شکست سے اس کے مخالفین کی ذات کے نفسیاتی خلاوں کو تکمیلیت ملتی ہے دوسرا ثقافتی تفاخر بھی ان کی ثقافتی نفسیات کا حصہ بن جاتا ہے۔ بسم اللہ جان کی مخالفت میں مذہبی فرینچائزیشن کے آڑھتی ہر جگہ سماجی اداروں کو ہائی جیک کرتے نظر آتے ہیں۔ اسے اخلاقیات کے ان آڑھتیوں سے بچنے کے لئے خاموشی کی آڑھ میں جانا پڑا۔ مولانا عماد الدین جیسی شخصیات نئی ریاست کے سماجی بہاوکو آئیڈیالوجیکل رخ دیتے ہوئے اپنی طاقت کا سکہ منواتے ہیں۔ اس قسم کی سوشل اینکروچمنٹ غیر محسوس اور ’قابل قدر ہتھکنڈوں سے ممکنائی جاتی ہے ۔ ریاست خدا کے نام پہ معرض وجود میں آئی یا سیاسی سماجی تناطر میں ، مولانا عماد الدینیت کا غلبہ مسلم تھا۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ طوائفوں کا بدن ایک ایسا متن ہے جس کا سیاق و سباق طاقت ور اور دولت مندوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ سماجی اور ثقافتی ساختوں کی پر فریب زندگی میں جکڑی یہ ہمدرد عورت اپنے گھر کو پھر خیر باد کہ کر نئی ہجرت کے سفر کو نکل جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بسم اللہ دوہری ہجرت کے تجربے سے کیوں گزری؟ اس سوال کے جواب کے لئے قاری کو اس کردار اور اس کے سیاق و سباق کو سمجھنا ہوگا۔

           ناول کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ تاریخ نصابوں کی بجائے فکشن میں زیادہ معتبر اور قابل یقین ہے۔ جناح کا تصورِ ریاست  عام آدمی اور مزدور  ورکر کا  یا جس نے اپنی جان و مال کی قربانی دی ، ہجرتوں کے تجربات سے گزرا اس کا تصور ریاست،اشرافیائی عورت اور عام عورت، مزدور عورت کا تصورِ ریاست عماد الدینیت یا ملک سرفرازیت سے کس طرح مختلف تھی یہ معمہ ابھی تک حل طلب ہے۔ عماد الدینیت ایک انڈر ورلڈ کا نام ہے جو ریاست اور سماج کے تمام اداروں اور تصورات کو کنٹرول کر کے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کا تحفظ یقینی بناتی ہے۔ اسی طرح سرفرازیت اس ذہنیت کا نام ہے جو ریاست کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے۔ منڈلی پہ اور راوی اور اسکے دوست کامریڈ صفدر کے مابین ہونے والی مباحث کو دیکھ کر قاری بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ ' کچھ'  لوگوں کے اذہان میں سولات جنم لے رہے ہیں یا پہلے سے موجود تھے جن کا اظہار وہ مختلف اوقات میں کرتے ہیں۔ لفظ ' آزادی' کی رد تشکیلی تنقید کریں تو اس کے معنی میں جس طرح التوا محسوس ہوتا ہے اسی طرح ابہام بھی۔کون اور کیسے آزاد ہوا یہ اہم مسئلہ ہے۔ راوی اور اس کا دوست کامریڈ صفدر دونوں اس مخمصے کا شکار ہیں۔ کامریڈ صفدر راوی کی شخصیت کا پہلا عکس ہے۔ اس کادوسرا عکس وہ واحد متکلم راوی ہے ہے جو ہمیں متن میں حرکت پزیر نظر آتا ہے۔اس کردار کی شناخت سینٹر لیفٹ سے کی جا سکتی ہے۔ایک نظریاتی ریاست میں رد قبول کی کشمکش کے تجربے سے گزرتا یہ راوی لفظوں کی بجائے معنی کی تلاش میں سفر جاری رکھتا ہے۔وہ اس نئی ریاست میں جنم لینے والی ابن الوقتیت سے آگاہ ہے جہاں ہر شخص، مروج نظریہ سے فائدہ اٹھاتے، اپنی جائز ناجائز خواہشات کی تکمیل کی خاطر جائز ناجائز تگ و دو میں مصروف عمل ہے۔ راوی نے کامریڈ کو اپنے گھر ہی پناہ نہیں دی بلکہ اس کو ہمیشہ کے لئے اپنا کامریڈ بنایا ہے۔ یہ کردار راوی کے فکری اطمینان اور جزباتی و ذہنی تشفی کا سبب ہے ۔ راوی کو جب بھی تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی ضرورت ہو اس کردار کو سامنے لے آتا ہے۔ مروج ڈسکورس کی نفی کی علامت کے طور پہ بھی یہ کردار خاصا دلچسپ اور گہرا ہے۔ ایسا بھی محسوس ہوتا ہے جیسے راوی بعض اوقات خود چپ رہنا چاہتا ہے اور کامریڈ کے منہ سے کچھ سننا چاہتا ہے تاکہ قاری کے ذہن کی وہ گتھیاں سلجھ جائیں جو راوی کا مخفی اور(لا) شعوری متنی ارادہ ہے۔اقبال حسن خان کے پاس ائیڈیلائزڈ کردار نہیں نہ ہی اسے ان میں دلچسپی ہے بلکہ صورت حال اس سے برعکس ہے۔ وہ کسی بھی قسم کی عینیت یا مثالیت پسندی کے خلاف ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ راوی کے سامنے جووطن ہے وہ سیاسی وطنیت پہ دال ضرور کرتاہے مگر عملاعوام اساس نہیںبن سکا۔ اس طرح یہ ٹریجیڈی آف آیڈیلزم ہے۔ جہاں ریل کے ڈبوں میں عام مسافروں کی جگہ نوابوں کے کتے بیٹھنے لگیں وہاں مساوات ، عدل، اخوت، دیانت اور امانت کی دھجیاں بکھرتی محسوس ہوتی ہیں۔ ناول کا راوی ایک باشعور انسان ہے۔ وہ اپنی سیاسی بصیرت کے سبب تمام اسباب و علل کو بروئے کار لاکر اپنے نکتہ نظر کی وضاحت کرتا ہے۔ ناول میں مثالیت پسندی کا معنی مختلف ہوتا ہے۔ اس میں بیانیہ حکمیہ، مدرسانہ، خطیبانہ، متصوفانہ، امریہ، التجائیہ، اور وکیلانہ ہونے کی بجائے مثالوں سے وضاحت کا متقاضی ہوتا ہے۔ مثالوں سے یہاں مراد کسی ناول کے ان کرداروں کا زندگی میں عملی طور پہ شامل ہونا ہوتا ہے جو راوی کے تھیم سے مطابقت رکھتے ہوں۔ ناول کا خیال، تھیم اور کردار ایک دوسرے سے مشروط ہوتے ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ فکشن کے کردارمثلائے یا مثالائے گئے ہوتے ہیں۔ یہ کردار حقیقی نہ بھی ہوں تو حقیقت کی امکانی شکل ضرور ہوتے ہیں۔ لیکن ایک ایسے سماج میں جہاں ہر علاقے میں ایک ہی طرح کے کردار بالحاظ قدر و قیمت با آسانی دستیاب ہوں وہاں کسی کردار کو ممکنانے یا فکشنلائز کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ ناول نگار یا راوی تو اس کردار کو کسی تشدید سے گزارے بغیر تجسیم کرے لیکن اس کردار کی اصل اس نقل ( فکشنل کردار)سے کہیں بھیانک ہو، گمبھیر، وسیع اور گہری یا مکروہ ہو۔ نوابی اور جاگیردارانہ نظام ہر علاقے میں بظاہر ایک ہی طرح کا نظر آتا ہے لیکن کثیر الجہت بھی ہے۔ مثال کے طور پہ جیلانی بانو کے ناول’ بارش سنگ‘ کے نواب اور جاگیردار ملک سرفرازیت سے مختلف ہوتے ہوئے بھی ایک جیسے نظر آتے ہیں ۔ دونوں ناول نئی ریاستوں کے نئے سیاسی و سماجی نظامات کے رد عمل کے طور پہ سامنے آتے ہیں۔ انگریز ان کرداروں کاتقرر ایسے کر گیا جیسے کعبہ میں ہبل و نسرو نائلہ اور لات و منات کھڑے ہوں۔ اب باقی عوام پہ ان کی تقدیس اور خدمت واجب ٹھہری۔ بت پرستی کی یہ مجازی شکل مذہبی ثقافتوں میں اس لئے قابل قبول اور ان کی روایت اس لئے رچ بس گئی ہے ہے کہ تقدیر پرستی عام ہے۔ جاگیر کو تقدیر کے ساتھ نتھی کر کے دیکھا جاتا ہے اس لئے سوال کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ سنجیدہ فکشن نگار جانتا ہے کہ جاگیر دار انسان سے زیادہ ایک کردار بھی ہے۔ اس کردار کے تنوع کی نسبت سے اس کو ہمہ گیریت بھی حاصل ہے۔ اردو فکشن میں جاگیردارانہ نظام پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن ہر ناول نگار اور اس کے راوی کا نکتہ نظر دوسرے متن سے مطابقت رکھتے ہوئے بھی مختلف ہے۔ یہی صورت حال کچھ اس ناول میں ہے۔ ناول کی متنی تقسیم سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ناول نگار نے اس کے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ شہری زندگی اور دیہاتی زندگی ان دو دنیاوں کے درمیان ا سٹیشن ہے۔ جب ناول ا سٹیشن سے باہر نکلتا ہے تو گلیوں کے لوگ اس کا متنی مواد نہیں ہوتے بلکہ حویلیوں کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس ناول میں ایک بڑی حویلی جاگیردار ملک سرفراز کی ہے جس کا تعارف بھی راوی خود کرانا نہیں چاہتا نہ ہی اس کی فرعونی تاریخ پہ خود بولنا چاہتا ہے بلکہ اسی سماجی ماحول سے ایک مزدور کراتا ہے ۔ ناول نگار جانتا ہے کہ یہاں راوی نظریاتی تعصب کا شکار ہو سکتا ہے اس لئے اس نے تیقن کی صورت حال کو مد نظر رکھتے قابل یقین کرداروں کو شامل کیا ہے۔ ملک کی جاگیر میں راوی کا مکالمہ بیانیہ کا حصہ بھی ہے اور راوی کا مطمہ نظر بھی۔

یہ حوایلی کس کی ہے؟

یہ سوال سن کر کھیرا ہنسا اور بیل کو ہلکی سی چھڑی مار کر بولا

ملک سرفراز کی ہے جی۔ ملک صاحب کے پڑدادے نے بنوائی تھی۔ سنا ہے کہ پتھر لگانے میں کوئی بیس پچیس آدمی اوپر سے گر کر مر گئے تھے۔ بڑا تکڑا آدمی تھا جی۔ جب انگریز یہاں نئے نئے آئے تھے تو اس نے بڑی سیوا کی تھی ان کی۔ پہلے دو چار کینال کا زمیندار تھا۔پھر اس نے انگریز کو خوش کیا۔ انگریزوں کی لڑائی میں انگریزوں کی مدد کے لئے اپنے بندے دلی تک بھیجے۔ جب لڑائی ختم ہو گئی تو انگریزوں نے جگہ جگہ ان لوگوں کو پھانسیاں دیں جو ان کے مخالف ہو گئے تھے اور انہیں بڑی زمینیں دیں جنہوں نے ان کی مدد کی تھی۔ اس طرح ملک سرفراز خان کے پرکھوں کو بھی سینکڑوں مربعے مل گئے۔ یوں سمجھ لیں جی کہ انگریزوں نے انہیں علاقے کا بادشاہ بنا دیااور ابھی تک ان کی بادشاہی علاقے میں چلتی ہے۔  صفحہ 138

           ناول نگار جدلیات کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ اس نے ناول میں ریاستی نظریہ کو مادی حوالوں سے بھی دیکھا ہے۔ کسی بھی نظریہ سازی میں مال و دولت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر کوئی نظریہ مالداروں کے مال سے متصادم ہو تو وہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور ہر وہ نظریہ جو ان کے مال و مفادات کے تحفظ کا ضامن بنے وہی قابل قبول ہوتا ہے۔ نواب جاگیرداراور سرمایہ دارکامریڈ صفدر کے نکتہ نظر سے مخالفت ہی کریں گے۔ جہاں رعب، دبدبہ، جاہ جلال، ٹھاٹھیت اور آمریت کا کلچر ہو وہاں جمہوری حقوق، رواداری، مساوات مسخ ہو جاتے ہیں۔ کسی نظریہ سے وفاداری سیاسی و معاشی مفادات سے عاری نہیں ہو سکتی۔ پاکستان ایک نئی ریاست تھی اور اس نئی ریاست میں جاگیرداروں، وڈیروں اور نوابوں کی وابستگیاں ان کے مفادات سے مشروط تھیں نہ کہ کسی مذہبی تشخص سے۔اسلامی تشخص میں اگر جاگیردارانہ اور نوابی کلچر کی گنجائش ہے تو جبر و استحصال اس کلچر کا لازمی جزو ہے ۔ تشخص اور انسانی نفسیات میں گہرا ربط ہوتا ہے۔ کوئی بھی تشخص ایک موضوعیت ہوتا ہے جس میں سماجی و ثقافتی محرکات کی عمل داری شرط ہے۔ فرد واحد اپنا تشخص خود کیسے متشکل کر سکتا ہے۔ ایک تشخص ایک اجتماعی شعور و لاشعور کا پیش خیمہ یا حاصل کل بھی ہوتا ہے۔ اس لئے اسلامی تشخص کی لسانی ترکیب میں ثقافتی مادیت سے علیحدگی ممکن نہیں۔ ناول نگار کا اس مادی پہلو پہ قلم اٹھانا ناول کو فکری طور پہ روسی اور ترقی پسند ناول نگاروں کے قریب کرتا ہے۔کسی بھی فکشن کے متن کی خوبصورتی اس کے جدلیاتی عمل میں ہے اس لئے ناول نگار نے مکالماتی فضا کو برقرار رکھا اور راوی کا مختلف کرداروں سے تفاعل اس امر کی دلیل ہے کہ راوی بیانیہ کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی بجائے کرداروں کی کشاکش سے متن اور خیال تجسیم کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ناول نگار جانتا ہے کہ راوی ایک فرد واحد ہے اس لئے متن میں صرف راوی کا بولنا فردِ واحد کا نکتہ نظر سمجھا جائے گا۔ کسی بھی ریاست کے وجود پہ اٹھنے والے سوالات راوی کے اپنے بھی ہو سکتے ہیں اور ان افراد کے بھی جو سماج میں سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ۔ اس ناول میں کرداروں کی مختلف اقسام ہیں۔لیکن بنیادی طور پہ دو اقسام ہیں ایک قسم وہ ہے جس میں کردار سوال کی صحبت میں رہتے ہیں اور دوسری قسم وہ ہے جو جواب جانتے اور مانتے ہیں۔ ناول کی گلیوں کے عام لوگ یہاں تک کہ بسم اللہ جان بھی جواب کی دنیا میں رہتی ہے ، اسی طرح ملکوں کے ڈیروں پہ کام کرنے والے’ اوپر خدا نیچے ملک صاحب‘ کے ڈسکورس سے باہر نہیں نکل سکتے۔ صدیوں کے طوق انسانی نفسیات کا حصہ بن چکے۔ اس طوق سے مراد وہ طوق بھی ہیں جو نظریاتی ہوتے ہیں، وہ طوق کی شکل نظر نہیں آتے لیکن افراد کے اعمال سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ راوی کا تایا جو کہ بقول راوی انسانی خوشی کا ازلی دشمن ہے گو کہ پلاٹ میں اتنا اہم کردار نہیں پھر بھی اپنے روئیے سے عدمیت پسند کردار ہے ۔

یار حسو میں نے سنا ہے کہ امریکہ نے ایک ایسا بم نکال دیا ہے کہ دو بم ساری دنیا کی تباہی کے لئے کافی ہونگے۔ میں کہتا ہوں امریکہ ہی اس دنیا کا قصہ تمام کردے صفحہ30

تایا اپنے ذات کے تشکیل پہ نہ بھی بات کرے تو اس کے ڈسکورس سے اس کی آئیڈیالوجی جھلکتی ہے۔ طاقت پرست کلچر کا نمائندہ کردار ہے ایسے ہی طاقت پرست کردار اس ناول میں جگہ جگہ بکھرے ہیں۔ جو کبھی تو اپنے علم اور تجربات سے اپنی طاقت کی دھاک بٹھاتے نظر آتے ہیں اور کبھی نظریاتی غلبہ کی خواہش میں غلطاں ۔ شعور باطل کچی لسی کی طرح جتنا چاہو بڑھا سکتے ہیں۔ صرف لفاظی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص مرد یا عورت، اگر سمجھتا ہے کہ اس کی زبان اثر رکھتی ہے وہ شعور باطل کی فصل ایسے کاشت کرتا ہے جیسے عوام کے دل و دماغ اس کی ملکیت ہوں۔ حق ملکیت میں کشاکش سماجی نراجیت کو جنم دیتی ہے۔طوائف الملوکیت کرداروں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے ۔ ریاست ایک جنگل کی مانند ابھرتی ہے جہاں بڑے پنجوںاور جبڑوں والے جانور چھوٹے گھاس خوروں کا شکار کرنے کا پیدائشی حق رکھتے ہوں۔ راوی اس سیاسی روش کا ادراک رکھتے ایسے کرداروں اور ان کی خواہشات اور نظریاتی جڑت کے اسباب کو مکالموں سے عیاں کرتا ہے۔

اس واسطے ان کو پاکستان کے صرف اس حصے سے محبت تھی، جہاں ان کی جاگیریں تھیں۔ جاگیروں کو کسی خطرے سے بچانے کے لئے سیاست کی ضرورت تھی اور اسمبلی میں لگی خاندانی کرسی مستقل رکھنے کو ووٹر اپنے غلام تھے۔ چناچہ پاکستان بننے اور ہجرت کے نتیجے میں لاکھوں خاندانوں کے کروڑوں لوگوں کی سماجی اور معاشی حالت تہہ و بالا ہوئی اور وہ اپنی اس زمین سے کٹے جہاں سے ان کا خمیر اٹھا تھا۔ انہوں نے پاکستان کی خاطر عزتیں .. مال اور جان کی قربانیاں دیں اور پیاروں کی مستقل جدائی کا درد سہا.. ملک سرفراز جیسے لوگوں کو ذرہ برابر

فرق نہ پڑا سوائے اس کے کہ پہلے انگریز کے تحت چلنے والی اسمبلیوں میں بیٹھا کرتے تھے اب ہرے جھنڈے والی عمارت میں بیٹھنے لگے۔ پہلے وہ اپنی انگریز دوستی کے باوجود، انگریز کے بنائے ہوئے قانون سے ڈرتے تھے، پھر اپنے قوانین بنانے اور ملکی قوانین کا مذاق اڑانے کو آزاد ہو گئے۔  صفحہ 135

ناول کے نسائی کرداروں میں ایک اہم کردار شکنتلا کا ہے۔ جس طرح شکنتلا کی آواز جبر کی پکی دیواروں میں دبی رہتی ہے اسی طرح ناول کے مجموعی متنی ماحول میں بھی اسکا حصہ غیر اہم ہی رہا۔ اس پہ جنسی تشدد کا وقت کیسے گزرا یہ راوی کے لئے اعصاب شکن تھا اس لئے اس کو حذف کرتے راوی کسی فیصلے پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ بیانوی عجلت بین السطور راوی کی اپنے کرب اوراذیت سے آزادی کی علامت محسوس ہوتی ہے۔ تقسیم سے پہلے یہ کردار آئیڈئیل رومانوی کردار تھا مگر تقسیم کے دوران اس کے جسم کی تقسیم بھی کی گئی۔ راوی کی محبت اور دکھ سے متشکل یہ کردار ناول کے بیانیہ پہ بھی اثر اندازہ ہوتا ہے۔ جب تک شکنتلا منظر عام پہ نہیں آتی بیانیہ کا تناظر زیادہ تر سیاسی و ثقافتی ہی رہتا ہے لیکن اس کردار کی موجودگی سے راوی داخلی کرب میں مبتلا ہوجاتا ہے اور بیانیہ میں راوی کی داخلی کیفیات و احساسات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں راوی کی ادبی نثر میں ندرت اور نکھار پیدا ہوجاتاہے۔

پھر مجھے لگا جیسے میں بیٹھے بیٹھے پگھل رہا تھا۔ عنقریب اس نشست پر جس پر میں بیٹھا ہوا تھا، میرا وجود ایک مائع بن کر پھیلنے والا تھا۔ میں نے خود کو بے وزن محسوس کیا۔ یہ تجربہ مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا شاید میں مر رہا تھا۔ میری روح میرے جسم کا ساتھ چھوڑ رہی تھی۔ لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ میں بے دم ضرور ہو گیا۔ میرے چاروں طرف دھواں تھا۔ ایک ایسا دھواں جس کی کرواہٹ میرے حلق کو تلخ کر رہی تھی- صفحہ 211

           بہت ممکن تھا کہ اسی طرز کی بنانوی اذیت سے شکنتلااور اس کی بیٹی کوگزارا جاتا لیکن جن حالات میں ان کرداروں کوسرحد کے پاس لایا گیا اس افراتفری میں راوی صرف اپنی ذات کو قاری پہ کھول سکا۔شکنتلا کس کرب کے عالم میں سرحد پار گئی یہ راز شکنتلا کے ساتھ ہی مرگیا۔البتہ راوی کے جزبات و احساسات سے قاری آگاہ ہوجاتا ہے۔

اس نے میرے جواب کا انتظار نہیں کیا اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ مجھے لگا جیسے میرے گھٹنے بے دم ہو گئے ہوں۔ میں نے

جیسے اچانک اٹھائیس سے نوے برس کی عمر میں چھلانگ لگا دی تھی۔ میں دیوار کا سہارا لے کر چارپائی تک گیااور اس پر گر گیااور چند لمحوں تک اسی کیفیت میں پڑا رہا۔ میرے گرد تنگ کمرے کی دیواریں نہیں بلکہ ایک سفید دھند پھیلی ہوئی تھی۔ پہلے مجھے لگا جیسے شاید میں مر رہا تھا۔ پھر لگا جیسے میرا نیا جنم ہوا تھا۔ میرے گرد سرخ سفید نارنجی دائرے بننے اور پھیلنے لگے۔ میرے گلے میں ایک بہت بڑا گولہ اٹک گیا تھا۔ مجھے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ لیکن وہ کوئی گولہ نہیں تھا، ایک بہت بڑی چٹان تھی جس نے میرے اندر کے جوالہ مکھی کے منہ کو ڈھانپ رکھا تھا۔ پھر وہ چٹان ہٹی اور جوالہ مکھی آزاد ہو گیا- صفحہ265

           زندگی دائروں کی صورت چکر کاٹتی ہے۔ در شہوار جس کو راوی نے اس کی لوکیل سے آزاد ی میں مدد کی وہی آخر میں راوی کو اس کے مسائل سے آزاد کراتی ہے۔ جہاں کچھ کردار ایک دوسرے کی اذیت کا سبب بنتے ہیں وہیں کچھ کردار ایسے بھی ہیں جو ایک دوسرے کے سفر میں سنگ میل ثابت ہوتے ذہنوں پہ گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔ بسم اللہ جان اور شکنتلا نے سرحد پار کی، شکنتلا کی موت ایک ایسی چیخ ہے جو اس سرحد کے آر پار نکل جاتی ہے۔ سرحد کے پاس جہاں منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے اور جہاں قاسمی کا پرمیشر سنگھ ہے.. جہاں سے بیپسی سدھوا کی شانتا تقسیم ہونے کے بعد گھائل بدن گھسیٹے سرحد پار کر رہی ہے . جہاں سے .. یا کچھ فاصلے پہ، کرشن چندر کی پشاور ایکسپریس گزری شاید وہیں کہیں ایک ویران سی جگہ ہے جس کا نام شکنتلا ہے۔ اس کردار نے مہابھارت سے جنم لیا تھا اور تقسیم کے وقت ختم ہو گئی۔ بسم اللہ جان نے اس کی حفاظت ایسے ہی کی تھی جیسے منیکا پری نے داستانوی کردار شکنتلا کو بچانے کی خاطر کی۔ ناول میں بسم اللہ نے جغرافیائی اور شکنتلا نے اس سفر میں زمان و مکان دونوں کو خیر باد کہا۔ راوی نے جن کرداروں کو سرحدپار کرائی انہی کی تلاش میں پھر ہندوستان میں مارا مارا پھرنے لگا۔ یہی زندگی ہے۔ اس میں کچھ کردار ایسے بھی ہوتے ہیں جو بچھڑ کر بھی کبھی نہیں بچھڑتے۔ آنکھیں ان کی تلاش میں وقت کی چوکھٹ پہ دھری رہ جاتی ہیں۔ ناول نگار اقبال حسن خان نے تاریخ کے سنگلاخ سفر میں اندوہناک حقیقتوں کو کامیابی سے متن کیا ہے۔تقسیم کی تاریخ پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن ایک سنجیدہ فکشنل متن کی کائنات تاریخ سے کہیں گہری اوروسیع ہوتی ہے۔ مورخ نتائجیت پسند ہوتا ہے اس لئے اسے حقائق سے اور اعداد و شمار سے دلچسپی ہوتی ہے نہ کہ وقت کی خون آشام نفسیات سے، نہ ہی اس کی ترجیحات میں یہ پردرد عوامی جمہوریہ کلام اور بیانیہ ہوتا ہے۔ مجموعی طور پہ ناول ڈس الیوژنمنٹ کا کلامیہ ہے جس کا اختتام حیقیقت پسندانہ قنوطیت پہ ہوتاہے۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024