گلنازکوثر کی غزلیں
گلنازکوثر کی غزلیں
Aug 7, 2018
دیدبان شمارہ۔۸
گلنازکوثر کی غزلیں
غزل
آخر اک دن جان سے چمٹا روگ مٹے گا روتے دھوتے دل سے لپٹا غم جائے گا
کٹتے کٹتے سانس کی ڈوری کٹ جائے گی بہتے بہتے درد کا دریا تھگلناز کوژم جائےگا
شہزادے کی پتھر آنکھ سے ٹوٹتا آنسو دھک دھک کرتے ننھے دل میں پھیل رہا ہے
آج بھی برفیلی وادی سے دھوپ بھری بستی کی جانب ایک پرندہ کم جائے گا
الجھی سلجھی ایک کہانی چلتے چلتے آخری موڑ پہ ٹھیر گئی ہے سوچ رہی ہے
کوئی نیاکردارکہاں سے کس منظرمیں اترےگااورکون بہ چشم نم جائے گا
گرتی پڑتی پگڈنڈی پر ہارے ہوئےقدموں سے کوئی دورتلک چلتاجاتا ہے
منظر ڈھل جائے گا لیکن وقت کی آنکھ میں جلتا بجھتا گھائل لمحہ جم جائے گا
ایک صدی تک نیند میں ڈوبے شہر کے برجوں میناروں پر راج رہے گا سناٹے گا
ایک صدی تک گلیوں ، سڑکوں ، دیواروں سے چلتی ہوا کاجھونکا بھی مدھم جائے گا
گلناز کوثر
۔۔۔۔۔
غزل
چاند کے ساتھ ہی دور پیڑوں سے لپٹا ہوا زرد آسیب منظر بھی ڈھل جائے گا ، جی سنبھل جائے گا
دھیرے دھیرے خنک سائے بُنتی ہوائوں پہ بہتا ہوابرف موسم بدل جائے گا ، جی سنبھل جائے گا
دیکھتے دیکھتے سرمئی یاد کی شیلف پر گرد پڑنے لگی رنگ مرجھا گئے نقش مٹنےلگے
ایک دن جلتا بجھتا ہوا آخری نام بھی سوچ کےدائروں سے نکل جائے گاجی سنبھل جائےگا
وقت کے ہاتھ کو گہرے تاریک رستے بچھانے تو دو روشنی سے بھرے چاند تارے بجھانے تودو
اپنے آپ اک دیا سرسراتی ہوئی رات کے سرد خاموش پہلو میں جل جائے گا جی سنبھل جائے گا
شام آئے گی توجھلملاتی ہوئی نرم کرنوں سے بےچین لمحوں کو سہلاتے سہلاتے ڈھل جائے گی
دن چلے گا توگلیوں میں بکھرے ہوئے سوکھے پتے اٹھاتے گراتے بہل جائے گا جی سنبھل جائے گا
پھر خموشی کی لے تیز کردیں گی کمرے کی ساکت فضائوں میں چکراتی ان دیکھی سرشار تنہائیاں
اجنبی سرد سفاک لفظوں کا چہروں کا بے کار بے زار جنگل پگھل جائے گا جی سنبھل جائے گا
۔۔۔۔۔۔
غزل
جس گھڑی شام پتھرائی چوکھٹ کو چھونے لگی نرم دستک ہوئی کانپتے ہاتھ سے ایک لمحہ گرا دل دھڑکنے لگا
خواب تھا یا کسی جاگتی جیتی ساعت نے حیراں نگاہوں پہ جھکتے ہوئے دید کا ایک موتی دھرا دل دھڑکنے لگا
گاہے گاہے اٹھی تھی وہ ساحر نظر جس طرح روشنی سے بھری اپسرائوں کے رتھ گنگناتی ہوائوں پہ بہنے لگیں
دھیمے لہجے کی جادوگری تھی کہ شبدوں کا کومل فسوں جس کو چھو کے غزل سانس لینے لگی شعر کا دل دھڑکنے لگا
بادلوں کو جھٹکتے ہوئے مخملیں رات کی گود میں چاند نے سر دھرا کانچ کی جھیل میں نیلگوں نیند گھلنے لگی
سوئی سوئی نگاہوں میں اترا حسیں دلنشیں خواب بھٹکی ہوئی سوچ بہکے خیالوں کا ریلا چلا دل دھڑکنے لگا
دیکھ مرجھائے پھولوں سے خوشبو اٹھی ریشمیں رنگ روشن ہوئے قفل ٹوٹے تمنائوں کےآرزوئیں دہکنے لگیں
شوق کو اس قدر مت بڑھا خواہشوں کے خدا مان جاسرد خانوں سے اٹھتی صدا ٹھیر جا ٹھیر جا دل دھڑکنے لگا
بادشاہ سخن آج کی رات قدموں میں ہیں کہکشائوں بھرے آسماں ، وقت کی تال پر رقص کرتے ہوئے دو جہاں
زندگی آج جی لے مرے خواب گر، کل کی کس کو خبر ،سرد سوئی ہوئی خاک سے کوئی نغمہ اٹھا دل دھڑکنے لگا
دیدبان شمارہ۔۸
گلنازکوثر کی غزلیں
غزل
آخر اک دن جان سے چمٹا روگ مٹے گا روتے دھوتے دل سے لپٹا غم جائے گا
کٹتے کٹتے سانس کی ڈوری کٹ جائے گی بہتے بہتے درد کا دریا تھگلناز کوژم جائےگا
شہزادے کی پتھر آنکھ سے ٹوٹتا آنسو دھک دھک کرتے ننھے دل میں پھیل رہا ہے
آج بھی برفیلی وادی سے دھوپ بھری بستی کی جانب ایک پرندہ کم جائے گا
الجھی سلجھی ایک کہانی چلتے چلتے آخری موڑ پہ ٹھیر گئی ہے سوچ رہی ہے
کوئی نیاکردارکہاں سے کس منظرمیں اترےگااورکون بہ چشم نم جائے گا
گرتی پڑتی پگڈنڈی پر ہارے ہوئےقدموں سے کوئی دورتلک چلتاجاتا ہے
منظر ڈھل جائے گا لیکن وقت کی آنکھ میں جلتا بجھتا گھائل لمحہ جم جائے گا
ایک صدی تک نیند میں ڈوبے شہر کے برجوں میناروں پر راج رہے گا سناٹے گا
ایک صدی تک گلیوں ، سڑکوں ، دیواروں سے چلتی ہوا کاجھونکا بھی مدھم جائے گا
گلناز کوثر
۔۔۔۔۔
غزل
چاند کے ساتھ ہی دور پیڑوں سے لپٹا ہوا زرد آسیب منظر بھی ڈھل جائے گا ، جی سنبھل جائے گا
دھیرے دھیرے خنک سائے بُنتی ہوائوں پہ بہتا ہوابرف موسم بدل جائے گا ، جی سنبھل جائے گا
دیکھتے دیکھتے سرمئی یاد کی شیلف پر گرد پڑنے لگی رنگ مرجھا گئے نقش مٹنےلگے
ایک دن جلتا بجھتا ہوا آخری نام بھی سوچ کےدائروں سے نکل جائے گاجی سنبھل جائےگا
وقت کے ہاتھ کو گہرے تاریک رستے بچھانے تو دو روشنی سے بھرے چاند تارے بجھانے تودو
اپنے آپ اک دیا سرسراتی ہوئی رات کے سرد خاموش پہلو میں جل جائے گا جی سنبھل جائے گا
شام آئے گی توجھلملاتی ہوئی نرم کرنوں سے بےچین لمحوں کو سہلاتے سہلاتے ڈھل جائے گی
دن چلے گا توگلیوں میں بکھرے ہوئے سوکھے پتے اٹھاتے گراتے بہل جائے گا جی سنبھل جائے گا
پھر خموشی کی لے تیز کردیں گی کمرے کی ساکت فضائوں میں چکراتی ان دیکھی سرشار تنہائیاں
اجنبی سرد سفاک لفظوں کا چہروں کا بے کار بے زار جنگل پگھل جائے گا جی سنبھل جائے گا
۔۔۔۔۔۔
غزل
جس گھڑی شام پتھرائی چوکھٹ کو چھونے لگی نرم دستک ہوئی کانپتے ہاتھ سے ایک لمحہ گرا دل دھڑکنے لگا
خواب تھا یا کسی جاگتی جیتی ساعت نے حیراں نگاہوں پہ جھکتے ہوئے دید کا ایک موتی دھرا دل دھڑکنے لگا
گاہے گاہے اٹھی تھی وہ ساحر نظر جس طرح روشنی سے بھری اپسرائوں کے رتھ گنگناتی ہوائوں پہ بہنے لگیں
دھیمے لہجے کی جادوگری تھی کہ شبدوں کا کومل فسوں جس کو چھو کے غزل سانس لینے لگی شعر کا دل دھڑکنے لگا
بادلوں کو جھٹکتے ہوئے مخملیں رات کی گود میں چاند نے سر دھرا کانچ کی جھیل میں نیلگوں نیند گھلنے لگی
سوئی سوئی نگاہوں میں اترا حسیں دلنشیں خواب بھٹکی ہوئی سوچ بہکے خیالوں کا ریلا چلا دل دھڑکنے لگا
دیکھ مرجھائے پھولوں سے خوشبو اٹھی ریشمیں رنگ روشن ہوئے قفل ٹوٹے تمنائوں کےآرزوئیں دہکنے لگیں
شوق کو اس قدر مت بڑھا خواہشوں کے خدا مان جاسرد خانوں سے اٹھتی صدا ٹھیر جا ٹھیر جا دل دھڑکنے لگا
بادشاہ سخن آج کی رات قدموں میں ہیں کہکشائوں بھرے آسماں ، وقت کی تال پر رقص کرتے ہوئے دو جہاں
زندگی آج جی لے مرے خواب گر، کل کی کس کو خبر ،سرد سوئی ہوئی خاک سے کوئی نغمہ اٹھا دل دھڑکنے لگا