غضنفر کی مثنوی ’کرب جاں ‘کا فنی مطالعہ

غضنفر کی مثنوی ’کرب جاں ‘کا فنی مطالعہ

Mar 22, 2018

اردو میں مثنوی کی روایت بہت قدیم ہے

مصنف

    ڈاکٹر بی بی رضا خاتون

شمارہ

شمارہ -٧

 دیدبان شمارہ۔۷


غضنفرکی مثنوی ’کرب جاں ‘کا فنی مطالعہ

 علی رفاد فتیحی

            

    اردومیں مثنوی کی روایت بہت قدیم ہے۔افراد کی طرح اصناف کی زندگی میں بھی نشیب و فراز

آتے رہتے ہیں۔وقت کے ساتھ بدلتی ادبی قدروں نے مثنوی کو زوال آمادہ صنف قرار دے

دیا۔ کلاسیکی مثنوی کی اپنی شعریات ہیں اور اس کی ایک مخصوص ہیئت ہے۔ کسی فرد

یاشئے کی تلاش و جستجو اورخیر و شر ، سچ وجھوٹ اور محبت و نفرت کی معرکہ آرائی

،مافوق الفطری کردار اور محیرالعقول واقعات روایتی مثنوی کی شعریات ہےں۔مثنوی میں

کہانی بیان کی جاتی ہے وہ بھی قصہ در قصہ، موضوعات کی سطح پر روایتی مثنویوں

میںعشقیہ اور متصوفانہ رنگ غالب ہے۔ہیئت میں حمد ،نعت منقبت کے بعد شاعر اپنی

روداد حیات بیان کرتا ہے۔اپنی شاعرانہ قدرت کا فخریہ اظہار اور وجہ تسمیہ یعنی سبب

تصنیف بیان کرکے قصہ شروع کرتا ہے۔یہ تمام وہ خصوصیات ہیں جو مثنوی کو طویل نظم سے

مختلف بناتی ہیں۔جس شعری تخلیق میں مذکورہ بالا خصوصیات موجود ہوں گی وہ مثنوی کے

زمرے میں آئے گی۔


                غضنفر

کی مثنوی کرب جاں سے اردو میں مثنوی کی تجدیدہوئی ہے۔اس مثنوی میں واحد متکلم گم

گشتہ مشترکہ تہذیبی قدروں کا متلاشی ہے جو صدیوں سے ہندوستان کی شناخت اور یہاں کے

باشندوں کی خوشحال زندگی اور آپسی رواداری اور ہم آہنگی کی پہچان تھی۔ اس میں خیر

و شر کی معرکہ آرائی بھی ہے غضنفر نے اس معرکہ کو رمزیہ انداز میں پیش کیا ہے،کبھی

خیالات و علامات کے طورپر اورکبھی کرداروں کی شکل میں۔ان کے طرزبیان کوجدید تمثیل

کے طور پر دیکھا جاسکتاہے۔مثنوی کرب جاں میں واحد متکلم کو جس کی تلاش ہے وہ گنگا

جمنی تہذیب‘ ایک خوب رو محبوبہ ہے جو دنیا کےلئے

 بے

نظیر ہے( دنیا حیران ہے کہ ہندوستان ایک ایسا واحد ملک ہے جہاں کئی مذاہب کے ماننے

والے، متعدد زبانوں کے بولنے والے ،مختلف تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والے لوگ

یگانگت کے ساتھ رہتے ہیں)،جسے جمہور کے ابلیس (ارباب سیاست) نے اغواءکرکے مقید

کردیاہے۔مرکزی کردار اس کی تلاش میں ہے کہ وہ مل جائے تو زندگی ( ہندوستانی قوم کی

اجتماعی زندگی) میں پھر سے بہار آجائے، امن و امان قائم ہوجائے، اس ہم آہنگی کے

سبب خوشحالی کا دوردورہ ہوگا۔اس مثنوی میں کردار تو مافوق الفطری نہیں ہیں لیکن ان

کی حرکتیں محیرالعقول ہیں۔ انسان میں روز بروز بڑھتی مادہ پرستی ، اخلاقی قدروں کا

زوال ،بے حسی،تعصب، علاقائیت ، مذہبی شدت پسندی،عدم تحمل وغیرہ جیسے منفی رویوں کے

سبب رونما ہونے والے واقعات، خوف کی فضا اور خون ریزی حیران کن ہے۔ جوملک امن و

شانتی کا سرچشمہ رہاہے وہاںانسانیت کی بقا کا سوال مثنوی نگار کو ذہنی و قلبی کرب

میں مبتلاکردیتا ہے اوریہ کرب جب الفاظ کے پیکر میں ڈھلتا ہے تو کرب جاں کہلاتاہے۔


                مثنوی

کا چمن ایک عرصے سے جس بہار کا منتظر تھا وہ بہارمثنوی کرب جاں لے کر آئی ہے۔یہ

فطرت کا دستور ہے کہ ایک تخلیق ایک کرب کے بعد ہی معرض وجود میں آتی ہے۔ایک ہستی

جب خلوص دل سے کسی کرب کو اٹھاتی ہے تو نتیجے میں رونما ہونے والی تخلیق سینکڑوں

کو مستفیض کرتی ہے۔دانا خاک میں مل کر گل گلزار ہونے سے پہلے ایک کرب سے دو چار

ہوتا ہے۔ایک دانا مٹی میں مل کرایک ان دیکھے کرب سے گزرتا ہے تو تب کہیں جاکر

کونپل، پودا اور پھر شجر کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔پھول پھل ،ٹھنڈی ہوا اور تپتی

دھوپ میں اپنے سایہ تلے بیٹھنے والوں کو چھاﺅں

فراہم کرتا ہے، اسی طرح ایک لکڑی کی ٹہنی کو جب درخت سے کاٹا جاتا ہے تو وہ اپنی

جڑوں سے کٹنے اور اپنوں سے بچھڑنے کے کرب کو سہتی ہے اور جب اسے بانسری کی شکل میں

تراشہ جاتا ہے تو اس کا کرب سروں میں ڈھل کر دلوں کو تسکین بہم پہنچانے کا سامان

بن جاتا ہے۔جس طرح ایک کرب سے گزر کر ایک بیج شجر ہوتا ہے اور ایک قطرہ گہر ہوتا

ہے اسی طرح ایک حساس اور باشعور شاعر کا کرب جب شعری پیکر میں ڈھل کر منظر عام پر

آتا ہے تو فکر و فن کا شاہکار ”کرب جاں “ بن جاتا ہے۔


                ہیئت

اور اسلوبِ بیان کے لحاظ سے غضنفر نے کلاسیکی مثنوی کی پاسداری کی ہے اور موضوع کے

اعتبار سے جدت پسندی سے کام لیا ہے۔یہ محض تصوراتی یا تخیلی داستان نہیں ہے۔اس کا

تعلق حقیقی زندگی سے ہے۔اس میں شاعر نے ہندوستانی قوم کی اجتماعی زندگی کوتاریخ و

تہذیب کی روشنی میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی ہے۔مثنوی کاکینوس صدیوں پر محیط

ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد، ان کااس مٹی میں رچ بس جانا،صدیوں کے بعدباہری

کہلانا اور مشکوک نگاہوں سے دیکھاجانا‘اس ایک داستان میں کئی داستانیں ہیں۔جیسے


آغازکرب ِ جاں کے قصے کا:

مثنوی

کے ابتدائی اشعار میں شاعر نے اپنی مثنوی کو اردو کی روایتی مثنویوں سے مختلف

بتاتے ہوئے تمام منثور و منظوم داستانوں کی روایت کو چند مصرعوں میں اس طرح قلمبند

کرکے گویا دریاکوکوزے میں سمودینے کے مصداق ہے۔


داستاناساسِ قصہ کی :

اس

حصے میںہندوستان میں مسلمانوں کی آمد‘ صوفیائے کرام کے سلسلے چشتیہ ، قادریہ،

سہروردیہ، نقش بندیہ، مسلمان بادشاہوں اور تاجروں کے قافلوں کی آمد کی داستان بیان

کی ہے۔


داستانان قیام کے اسباب کی:

اس

حصے میں شاعر نے یہ بتایا ہے کہ کیسے ہندوستان کی مٹی نے انھیں اپنالیا، انھوں نے

اس مٹی کو اپنالیا۔ جغرافیائی ماحول کے زیر اثران کے رنگ و روپ اور جسمانی قد و

خال میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں اور لسانی اثربھی گہرا ہوتا گیا۔ہندوستانی

آوازیں ان کی زبان میں شامل ہوگئیں، لہجہ بھی بدلنے لگا۔یہاں کی پرسکون فضا انھیں

راس آنے لگی عیش و عشرت سے بھری زندگی مل گئی ۔یہاں کا ماحول ان کے قیام کے لےے ہر

طرح سے ساز گار ثابت ہوا۔


داستانان کے دم سے سماں بدلنے کی:

ہندوستان

میں جو سماجی نظام رائج تھا۔ طبقاتی تقسیم کے سبب‘ عدم مساوات عام تھی۔نچلے طبقے

کا صدیوں سے استحصال ہورہاتھا۔انھیںعلوم و فنون اور دولت و حشمت سے محروم

رکھاگیا۔ایک مستقل احساس ِ کمتری کے ساتھ بدحال زندگی گزار نے پر مجبور انسانوں کو

جب اسلام کے ذریعے مساوات کا پیغام ملا تووہ اس کی طرف مائل ہوتے گئے جس میں نہ تو

کوئی نسلی امتیاز تھا نہ طبقاتی۔


                                        سمٹنے لگا نسل کا امتیاز                             

                                رہا کوئی بندہ نہ بندہ نواز                                    

 داستان بدلے ہوئے سماںکے ردِعمل کی:

اس

حصہ میں شاعر نے استعاراتی اور علامتی انداز میں یہ بتایا ہے کہ کس طرح تفرقہ اور

نفرت کا ناگ کینچلی بدل بدل کر نمودار ہوتا رہااور اپنے زہرسے آپسی رواداری کو

مفلوج کرتاگیا۔


داستانمنتھن اور چنتن منن کی :

اس

داستان میںسازشوں کے جال بچھانے کی تیاریاں ہوتی ہیں۔منظم اور منصوبہ بند طریقے سے

ایک قوم کو بدنام کرنے،کمزور کرنے اور خوف کی فضا میں جینے کے لےے مجبورکرنے نیز

دہشت گرد کہہ کر ہراساں کرنے کی سازشوں پر عمل آوری ہوتی ہے۔


داستانخیمے سے نکلی ہوئی روشنی کی:

اس

حصے میں شاعرنے ہندوستان میں صدیوں سے چلے آرہے اتحاد و اتفاق ، آپسی رواداری اور

ہم آہنگی کی داستان بیان کی ہے اور اس کی بازیافت کی ضرورت و اہمیت کو واضح کیاہے۔


                                        جہاں ساتھ اکبر کے اک مان تھا

                                        جہاں کوئی جودھا پہ قربان تھا

داستانٹھٹھکے ہوئے قدموں کی روانی کی:

                یہ

داستان ہمیں بتاتی ہے کہ جب متعصب ذہنوں کے ہاتھ میں قیادت کی ڈور آگئی تو وہ

پرامن اور خوشگوار فضا کو زہرناک بنانے میں کامیاب ہوگئے۔


                                عنانِ قیادت انھیں مل گئی

                                قیادت سے دل کی کلی کھل گئی

جسکے دم سے ہستی ہنوز باقی ہے داستان اس وجودکی:

                اس حصہ

میں شاعر کہتا ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو امن

پسند ہیں۔جیو اور جینے دو کی فلاسفی پرعمل کرتے ہیں۔ شاعر نے ہندومت، بدھ مت، جین

دھرم کی تلمیحات کے ذریعے اس خیال کو واضح کیا ہے کہ سب آپس میں مل جل کر امن و

آتشی سے رہنا چاہتے ہیں ۔ ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں جہاں خوشحالی ہو ، ہر عورت کی

عزت و عصمت کی حفاظت ہو، مذہبی رواداری اور ہم آہنگی ہو، کوئی نہیں چاہتے کہ کسی

ماں کی گود سنسان ہو، کسی سہاگن کی مانگ اجڑے، کوئی بچہ یتیم ہو، اسی طبقہ کے دم

سے ہندوستان میں امن و امان قائم ہے۔ اسی نے انسانیت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ طبقہ

مانتا ہے کہ یہاں کوئی باہری نہیں ہے۔ ان کی سانسوں میں اس سرزمین کی ہوا اور ان

کے لہو میں آبِ گنگ و جمن کی روانی ہے۔آگے شاعر ہندوستان میں مسلمانوں کے ہنر و

کاریگری کا تذکرہ کرتاہے۔زعفران کی کھیتی، سورت میں کپڑوں کی بنکاری ، لکھنو کی

چکن کاری، فیروز آباد میں چوڑیوں کی صنعت ، عطر کی تیاری، طرح طرح کے پکوان وغیرہ

‘ یہ طبقہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی صورت گری میں مسلمان طبقے کی خدمات کا دل سے

معترف ہے۔


                فنون

لطیفہ میں خصوصیت سے موسیقی کی مختلف قسموں کی ایجادات کا سہرہ مسلمانوں کے

اختراعی اذہان کے سر ہے۔شہنائی ، ستار، بربط اور طبلے وغیرہ سبھی مسلمانوں کے

مرہون منت ہیں۔


 یہ طبقہ چاہتا ہے کہ

ہندوستان کے تمام شہری ایسی خوشحال بے فکر زندگی جئیں جیسے باغ میں تتلیاں بے خوف

اڑتی ہیں، پانی میں مچھلیاں تیرتی ہیں، پرندے درختوں پر چہچہاتے ہیں، ندی اپنی

مستی میں اچھلتی مچلتی ہوئی جیسے بہتی چلی جاتی ہے، جیسے چشمے ابلتے ہیں جیسے بادل

برستے ہیں۔ انسانوں کو بھی ایسی ہی بے خوف اور حسین زندگی گزارنے کا حق ہے۔


                مثنوی

کرب جاں کے اس حصہ سے محاکات نگاری کے کچھ اور اشعار ملاحظہ ہوجن میں بیان کردہ

واقعات اور مناظر کی تصویریں آنکھوں کے آگے آجاتی ہےں۔


                ہوا کیطرح سرسراتے ہوئے

                فضا کیطرح مسکراتے ہوئے

                پرندہصفت چہچہاتے ہوئے   

ترانہکوئی گنگناتے ہوئے

                شجر کیطرح لہلہاتے ہوئے

گلوںکی طرح کھلکھلاتے ہوئے

اچھلتیمچلتی ندی کی طرح

                کسی موجکی زندگی کی طرح

                ابلتاہے چشمہ رواں جس طرح

                برستاہے ابر رواں جس طرح

 

                مذکورہ

بالا بند میں شاعرنے محاکات نگاری پر اپنی قدرتِ کمال کو ثابت کردیا ہے۔ تمام

قافیوں میں اس طرح کا آہنگ پیدا کردیا ہے کہ موسیقی کا سا گماں ہوتا ہے۔فطرت کے

نظام میں تمام جانداراپنے اپنے حساب سے اپنی زندگی بھر پور جیتے ہیں۔ایک دوسرے کے

لےے کبھی مانع نہیں ہوتے اور انسان جسے ان سب میں اشرف قرار دیاگیاوہ ایسا کیوں

کرتا ہے؟ یہ حصہ اس فکرانگیز خیال پر ختم ہوتا ہے ۔


داستانایک خوف کے اسباب کی:

                ایک

طبقے کے دل میں زہر پنپنے لگا، وہ احساس کمتری میں مبتلا تھا اسے ڈر تھا کہ مسلمان

پھر سے مقتدرہوجائیں گے۔ طرح طرح کی سازشوں کے جال بننے لگا۔ تیر و نشتر بھی نکل

آئے ۔ فضا میں نفرت کا کالا دھواں پھیلنے لگا جس کے سبب بصارتیں و بصیرتیں

دھندلانے لگیں۔


داستاناندیشہ ہائے دوردراز:

اس

حصے میں تین کرداروں کی کیفیات بیان کی گئی ہیں ایک جسے باہری کہاگیا، دوسرا جس نے

پہلے کو باہری کانام دیا، تیسرا معتدل اور سیکیولر فکرونظر کا مالک ہے۔ تیسرا

کردار نہایت اہم رول ادا کررہاہے۔


داستانصفِ بے زبانی کے کردارکی:

 صف بے زبانی کا کردار

یعنی تخلیق کا ر شاعر کسی چارہ گر کی تلاش میں ہے۔ وطن میں پہلے جیسی رواداری و ہم

آہنگی کی فضا قائم کرنے کا متمنی ہے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ محبت ہی اس کا

علاج ہے کیونکہ محبت میں وہ طاقت ہے جوسرابوں کو دریا بنائے، خرابوں میں غنچے

کھلائے، فسردہ شجر کو شگفتہ بنائے،چٹانوں سے دودھ کے دریا بہائے۔


                محبت سےفولاد بن جائے موم           نکل جائے اعلیٰ دماغی کو زعم

                محبت،محبت کے جھونکے چلائے                       محبت ہوا کی طرح پھیل جائے

 

                اس

مضمون میں موضوع سے قطع نظر مثنوی کرب جاں کی فنی وبدیعاتی خصوصیات کو اجاگر کرنے

کی کوشش کی جائے گی۔ اردو مثنوی کی روایت رہی ہے کہ شاعر مثنوی میںوجہ تسمیہ کو

بیان کرتے ہوئے مثنوی کی تخلیق کو اپنی شاعرانہ قدرت اور جودت طبع کے جوہر دکھلانے

کا ایک موقع /سبب قرار دیتا ہے۔ جیسے کہ ابن نشا طی اپنی مثنوی ”پھول بن “ میں علم

معنی میں اپنی دسترس کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھتا ہے۔


                        جو کئی صنعت سمجھتا ہے سو گیانی                وہی سمجھے مری یو نکتہ دانی

                        وہ سمجے سمج ہے جن کوں کچہ بات                جو میں باندیاں ہوں یوں صنعت سوں ابیات

                        ہنر کوئی دکھائے سودکھاےا           صنائع ایک کم چالیس لایا

                        ایک مصرعہ اوپر ہو کر بجد خوب               رکھا میں قافیہ لا مستندخوب

                        بندھا ہر حرف میں یوں قرینہ           بوجھے سچہ بھی یہ صنعت کا نگینہ

        غضنفر نے بھیمثنوی ”کرب جاں“ میں مثنوی کے اس انداز بیان کی پاسداری کرتے ہوئے لکھا ہے ۔

                        طبیعت کا ہو جائے پھر امتحاں           دکھائیں ہنر پھر زباں و بیاں

                        بیاں میں بلاغت کا جوہر کھلے            زبان میں فصاحت کی مصری گھلے

                اس

مثنوی میں صناعی کی متعدد خوبصورت مثالیںوجود ہ ہیں۔بے شمار بلاغت کے نگینے اپنی

چمک سے مثنوی کو تابناکی عطا کر رہے ہیں اور فصاحت کی مصری اس کی شیرینی کو دو

بالا کر رہی ہے۔غضنفر نے علم بیان و علم معنی کے استعمال پر اپنی فنکارا نہ قدرت

کا بیان بڑی خوبصورتی سے اور مدلل انداز میںکیا ہے۔دعوی و دلیل کے اس انوکھے انداز

سے شاعرکی جدت پسندی عیاں راچہ بیاں کی مصداق ہے۔


                جہاں وہ

کسی صنعت میں کمال دکھانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دوسرے ہی شعر یا مصرعہ میں اس کی

دلیل پیش کر دیتے ہیں ۔انھوں نے اردو شاعری میں مروج بیشتر صنعتوں کی منظوم تعریف

بیان کی ہے اور اگلے ہی شعر میں اس صنعت کا بڑی ہنر مندی سے استعمال کرتے ہوئے

نظیر پیش کر دی ہے۔جس کے مطالعے کے بعد قاری عش عش کراٹھتا ہے۔مثلاً صنعت رعایت

لفظی اور محاکات نگاری کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:


                        صناعت دکھائیں ذرا صنعتیں            جگت کچھ لگائیں ذرا صنعتیں

                        لگے پھر سے میلا رعایات کا              کریں پھر نظارہ محاکات کا

                ان

اشعار میں شاعر نے صنعت رعایت لفظی اور محاکات کاتذکرہ کیا ہے اور اگلے ہی شعر میں

ان صنعتوں کا استعمال کیا ہے۔جیسے:


                        شجر ،شاخ،برگ و ثمر ایک ہوں               مژہ ،آنکھ،پتلی ،نظر ایک ہوں

                        کھلے گل توخوشبو دکھائی پڑے  بجے ساز تو سر کا چہرہ بنے

                پہلے

شعر میں صنعت رعایت لفظی کو استعمال کیا ہے۔جس میں ایک لفظ کی رعایت سے کچھ الفاظ

اسی انداز و مناسبت سے پیش کیے ہیں ۔ جیسے شجر کی مناسبت سے شاخ،برگ ا ور ثمر لائے

گئے ہیں ۔اسی طرح دوسرے مصرعے میں مژہ،پتلی، نظر‘ آنکھ کے تلازمے ہیں اور دوسرے

شعر میں ایسی خوبصورت تصویر کھینچ دی ہے جو محاکات نگاری کی عمدہ مثال ہے :


                        دیا نور حق کا جلاتے ہوئے               اندھیرا جہاں سے مٹاتے ہوئے

                        نہ شاخِ شجر پر رہے کوئی خار             نہ گل پر کسی طرح کا کوئی بار    

                صنعت

تضاد جس میں دو متضادخیالات کو ایک ہی شعریامصرعہ میں بیان کیا جاتا ہے، اس کی

تعریف بیان کرتے ہوئے غضنفرلکھتے ہیں:


                        چڑھے پھر سے چلہ تضادات کا          بڑھے تیر دن کی طرف رات کا

                        سنائی پڑے واہ کے ساتھ آہ             دکھائی پڑے اک جگہ مہر و ماہ

                متضاد

الفاظ دن اور رات،واہ اور آہ، مہر و ماہ(سورج اور چاند)کو ایک ساتھ استعمال کرکے

صنعت تضاد کی خوبصورت مثال پیش کی ہے۔مبالغہ یا غلو بھی شاعری کی ضرورت ہے اس سے

شعر میں حسن پیدا ہوتا ہے اور شاعر کے ندرت خیال اور تخیل کی بلندی کا اندازہ ہوتا

ہے:


                        غلو کی بھی تبلیغ ہو وے ذرا               زمیں اپنی حیرت بھی بووے ذرا

                        ستاروں سے سورج کو رستہ ملے         قمر جگنوﺅںکی نظر سے چلے

                غضنفرنے

مبالغہ کے استعمال سے ماخذ کو ماخوذین کا تابع بنا دیا ہے۔سورج کی روشنی مستعار لے

کرسارے ستارے جگمگاتے ہیں ۔سورج کو ستاروں سے روشنی حاصل کرنے کا موجب قرار دینا

اور اندھیرے میں ٹمٹمانے والے جگنوﺅں

کی روشنی میں چاند کو چلتے دکھانا غلو کی حد ہے۔ببولوں کی شاخوں پہ لالے کا کھلنا

، سرابوں میں چشموں کا ابلنا وغیرہ کے ذریعے شاعر نے پورے تشبیہی نظام کو الٹ کے

رکھ دیا ہے۔میر انیس نے اپنی شاعرانہ قدرت کا فخریہ اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ :


                        تعریف میں چشمے کوسمندر سے ملا دوں                قطرہ کوجو دو آب تو گوہر سےملا دوں

                        ذرے کی چمک مہر منور سے ملا دوں            خاروں کو نزاکت میں گل تر سے ملا دوں

                                        گلدستہ

¿ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں

                                        ایک پھول کا مضموں ہو تو سورنگ سے باندھوں

        غضنفر نے ایک

قدم آگے بڑھ کر اصل کو نقل اعلیٰ کو ادنیٰ، برتر کو کمتر سے مستفیض ہوتے ہوئے

دکھایا ہے۔ ان کی قوت متخیلہ ناممکنات کو امکانات کے دائرے میں لے آتی ہے۔


                تلمیحاور تشبیہ کی تعریف یوں بیان کی ہے۔

                        دکھائیں ذرا رنگ تلمیح بھی               پکڑ لائیں مرغان تشبیہ بھی

                        بدخشاں سے لب کے لیے لائیں لعل         نین کے ڈھونڈھ لائیں غزال

                لب کو

بدخشاں کے لعل(سرخ جواہر)سے تشبیہ دی ہے اور آنکھوں کے لیے غزال یعنی ہرن کی

آنکھوں کو بطور تشبیہ استعمال کیا ہے۔ مثنوی کرب جاں میں غضنفر نے نادر اور انوکھی

تشبیہات وضع کی ہیں۔


                                        کلی کی طرح مسکرائیں سبھی     

                                        گلوں کی طرح کھلکھلائیں سبھی

                غضنفر

نے ایسے استعارے اور علامتیں خلق کی ہیں جس سے ایک لفظ میں وہ پورا سیاق و سباق

سمٹ آتاہے جیسے ایک طبقے کے ذہنی تعصب کی زہرناکی کو بیان کرنے کے لےے سانپ کو

بطور ایک علامت کے پیش کیا ہے۔


                        کہیں پھونک سے پھنک گیا آسماں               کہیں پھونک سے جل گیا آشیاں

                        کہیں پھونک سے کچھ مکاں ہل گئے             کہیں پھونک سے جسم و جاں ہل گئے

ان

کے اس طرز اسلوب سے جدت و ایجاز پیدا ہواہے اور لطف و تاثیر بھی دوبالا ہوگئی

ہے۔جہاں تک صنعت تلمیح کا تعلق ہے غضنفر نے اس مثنوی میں مذہبی ،تاریخی اور تہذیبی

تلمیحات کا بڑی ہنر مندی سے استعمال کیا ہے۔جن میں ابن مریم معجزہ جس کی

مسیحائی،سکندر جو آب حیات کا متلاشی، کوہ کن نے کی کوہ سے جوئے شیر کی نکاسی جیسی

متعدد تلمیحات نے مثنوی کے حسن اور معنویت میں اضافہ کیا ہے۔


                                سکندر ملے تو یہ پوچھیں ذرا               بتاﺅذرا آب کا ماجرا

                                نکالیں کسی کوہ سے جوئے شیر           نئی پھر سے قائم کریں اک نظیر

                                بلائیں کسی ابن مریم کو پھر               ضرورت مسیحا کی ہے ہم کو پھر

                اسلامی

تلمیحات کے ساتھ ساتھ غضنفر نے اس مثنوی میں دیگر مذاہب سے متعلق تلمیحات کو بڑے

فنکارانہ اندازمیں پیش کیا ہے۔جیسے رام کی فرمانبرداری ا و رعایاپروری،سیتا کی

پاکدامنی اور وفا شعاری ،لکشمن کی بھابھی کے لیے عقیدت اوربرادرانہ جانثاری کا

بیان اس طرح سے کیا ہے:


                        کسی نے جہاں تج دیے تخت و تاج              رہا جو بن میں چھوڑ کر اپنا راج

                        وچن کے لیے مارا مارا پھرا                شب و روز جو بے سہارا پھرا

                        جہاں ایک دھوبی کی آواز کا                     اثر دل پہ راجا نے ایسا لیا

                        کہ راجہ کی رانی گھری آگ میں                  محبت کی نگری جلی آگ میں

                        اٹھے نوجواں کوئی بے باک پھر        نئی دیونی کی کٹے ناک پھر

                کرشن

کنھیا اور سداما کی بے مثال دوستی اور جذبہ



¿ مساوات کو بیان کرنے کے لیے محمود و ایاز کی تلمیح کو یکجا کر

یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بنیادی طور پر سبھی مذاہب اخلاقیات کا در س دیتے ہیں،

لیکن ا ن کے ماننے والے آہستہ آہستہ انھیں فراموش کر دیتے ہیں :


                        جہاں فرق اعلا و ادنا مٹا           کنھیا کا ساتھی سداما بنا

                        دہی دودھ مکھن کا عادی جو تھا           بڑے چاﺅسے اس نے ستو پیا

                        محبت کا تیشہ کرشمہ کرے               ندی دودھ کی پتھروں سے بہے

                        نہ محمود کوئی نہ کوئی ایاز           کسی بھی طرح کا نہیںامتیاز

                ہندو

مذہب سے متعلق تلمیحات کے علاوہ بدھ مت اور جین مت کی تلمیحات شاعر کی وسیع النظری

اور سیکیولر فکر کا پتہ دیتے ہیں

:


                        تمھارے بھی اندر مچے کھلبلی   بنے دل تمھارا بھی کچھ گوتمی

                        کوئی جین تم میں بھی جاگے ذرا  اہنسا کا شیطان بھاگے ذرا

                بے حس

ہوتے انسانوں میں احساس کی لو جگانا اس مثنوی کا مقصدِ اولین ہے تاکہ ان میں کوئی

گوتم بن کے نروان پاجائے، کوئی کبیر بن کے محبت و مساوات کے گیت گائے ، کوئی

مہاویر کے اہنسا کی جوت جلائے ، کوئی گاندھی بن کر تشدد کو روک لے۔


                صنعت لف

و نشر جس میں ایک مصرعے کے الفاظ کے مقابلے میں اسی مصرعے یا دوسرے مصرعے میں اس

کے وضاحتی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ۔اگر یہ وضاحت ترتیب کے ساتھ ہو تو اسے لف و

نشر مرتب کہتے ہیں اس کے برعکس اگر تشریح ترتیب کے ساتھ نہ ہو تو اسے لف و نشر غیر

مرتب کہتے ہیں ۔اس صنعت کے سلسلے میں غضنفر لکھتے ہیں:


                        لف ونشر کو پھر مرتب کریں    سلیقے سے لفظوں کے موتی جڑیں

                        دکھائیں کہ فرہاد و مجنوں صفت نہیں میر صاحب پھرے کوہ و دشت

                دوسرے

شعر کے مصرعہ اولیٰ میں فرہاد کا ذکر پہلے آیا ہے اور مجنوں کا بعد میں اسی مناسبت

سے مصرعہ ثانی میں شاعر نے کوہ کا ذکرپہلے اور دشت کا بعد میں کیا ہے۔


                لف ونشر غیر مرتب کی بھی ایک مثال مثنوی ”کرب جاں“سے ملاحظہ ہو:

                                        وہی معرفت جس سے شاہ و گدا

                                        نہ چھوٹا کوئی اور نہ کوئی بڑا

                ہندوستانی

سماج و معاشرتی نظام میں شاہ یا امراءکو اعلیٰ طبقہ تصورکیاجاتا ہے اورغرباءو

گداگرپسماندہ طبقے میں شمار کیے جاتے ہیں ۔یہاں شاعر نے شاہ کا ذکر پہلے کیا ہے

اور گدا کا بعد میںینز دوسرے مصرعے میں چھوٹے کا تذکرہ پہلے اور بڑے کا ذکر بعد

میںآیا ہے تو یہ غیر مرتب شمار کیا جائے گا۔


                صنعتتجنیس کی منظوم تعریف غضنفر یوں بیان کرتے ہیں :

                                مشابہ تلفظ میں معنی کا فرق     

                                دکھا کر گرائیں دماغوں پہ برق

اوراگلے شعر میں پیش کردہ اس کی مثال ملاحظہ ہو:

                                دکھائیں کہ گل گل کے گل بن گیا    

                                سنائیں کہ سن خاک میں سن گیا

                اس شعر

میں تجنیس محرف ہے۔اس صنعت میں الفاظ ایک جیسے لگتے ہیں لیکن حرکات و سکنات کے فرق

سے معنوی فرق پیدا ہوتا ہے۔جیسے مذکورہ بالا شعر میں گُل، گَل اور گِل ایسے الفاظ

ہیں جن پر اعراب لگانے کے بعد تلفظ اور معنی دونوں بدل جاتے ہیں اور دوسرے مصرعے

میں سِن اور سَن بھی تلفظ اور معنوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔


                اس شعر

میں شاعر نے تصور وقت کو پیش کیا ہے۔ وقت کی طاقت اور جبریت کے حوالے سے کہا جاتا

ہے کہ دنیا کی کوئی شئے اس کے جبر سے نہیں بچ سکتی۔حسن وشباب،طاقت وجاہت،فہم و

فراست سب وقت کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں ۔شاعر کا کہنا ہے کہ گُل وقت کے ساتھ گَل

کر گِل یعنی مٹی ہو جاتا ہے۔دوسرے مصرعے میں اسی خیال کا تسلسل ہے کہ سِن یعنی عمر

سَن یعنی تیز رفتاری سے گزر جاتی ہے۔


                                        دکھائیں کہ ہے بام پر کوئی بام          

                                        جسے دیکھنے کو کھڑا ازدہام

                اس شعر

میں تجنیس تام ہے لفظ بام مصرعہ اولیٰ میں دو مرتبہ آیا ہے ،تلفظ میںایک ہی ہے

لیکن معنی الگ الگ ہیں۔پہلے معنی اوپری حصہ یا آسمان ہے اور دوسرے معنی سانپ کی

شکل کی مچھلی ہے۔آگے کے اشعار میں اس کی وضاحت ہے۔


                        عجب رنگ و روغن ہے اس میں بھرا          سراپا کماں کی طرح ہے کسا

                        تھرکتی ہے پانی کے باہر بھی وہ          دکھاتی ہے پروازِ طائر بھی وہ

                        پھسلتی ہے دستِ نظر سے بھی وہ              اچھلتی ہے پتلی کے پر سے بھی وہ

        تجنیس کی کچھاور مثالیں دیکھیے:

                        جہاں معنی کا اک سلسلہ          تمھاری نظر کو نظر آئے گا

                        انھیں سے ہے سورت کی صورت گری              انھیں سے سراپوں میںہے دل کشی

        مرقع نگاری

:مثنوی میں غضنفر نے دوستوں ، ہم جماعت ساتھیوں اور اساتذہ کا تذکرہ کرتے ہوئے جو

اشعار قلمبند کئے ہیں وہ مرقع نگاری کی عمدہ مثالیں ہیں۔ اپنے استاد پروفیسر

شہریار کا مرقع یوں کھینچاہے کہ اس میں ان کی شخصیت کی دلکشی، مزاج کی سادگی اور طریق

ِ تدریس اور طلبا کو ترغیب دلانے کے اندازکی تصویر آنکھوں کے سامنے نمودار ہوجاتی

ہے۔


                        مربی سبھی کے تھے اک شہریار          پلاتے تھے جو معرفت کا سگار

                        مزاج مبارک میں تھی سادگی           مگر شخصیت میں بڑی دل کشی

                        بتابے تھے جو سب کو رازِ نہاں          دکھاتے تھے جو منزلوں کے نشاں

                علی گڑھ

میں طالب علمی کے زمانے کے دوستوں کے بھی بہت خوبصورت مرقعے کھینچے ہیں۔ ابوالکلام

قاسمی کا قلمی مرقع اس طرح سے کھینچا ہے کہ کچھ ہی اشعار میں ان کی تمام خوبیاں

سمٹ آئی ہیں۔


                        تھا ان ہی میں اک ہم سفر قاسمی                نفاست سے پر جس کی تھی زندگی

                        ذہانت میں جس کا نہیں تھا جواب               لیاقت میں بھی تھا وہ اک آفتاب

                        ادب سے ادب پیش کرتا تھا جو          روایت کا بھی پاس رکھتا تھا جو

                غضنفر

نے مثنوی کرب جاں میں مذکورہ بالا صنعتوں کے علاوہ صنعت حسن تعلیل، صنعت تنسیق

الصفات، صنعت اشتقاق، صنعت عکس و تبدیل ،صنعت تکرار، مرقع نگاری ، محاورہ، محاکات

نگاری، صنعت ترصیع،صنعت مراجعہ،صنعت سیاقتہ الاعداد،صنعت تعلی اور صنعت سہل ممتنع

و غیرہ کا بڑی ہنرمندی سے استعمال کیا ہے۔


        صنعت اشتقاق:

شعر میں ایک ہی مصدر کے کئی الفاظ استعمال کرنا ،جیسے مکاں، مکیں، خاک، خاکسار،

پیر، پیری وغیرہ۔


                        نہ عیار کوئی نہ زنبیل ہے         نہ تمنا کوئی تمثیل ہے

                        کہ جس کے سبب آشیاں منتشر                مکیں منتشر ہے مکاں منتشر

                        بنتے ہیں جس سے سلطاں بھی خاکسار         چنے خارو خش چھوڑ کر لالہ زار

                        کوئی پیر پیری دکھائے کہ پر             وبا کے عقابوں کے جائیں کتر

صنعتتکرار: شعر میں الفاظ کی تکرار سے نغمگی اور آہنگ پیدا ہوتا ہے۔

                نسوںمیں نشہ کوئی بسنے لگا               لہو ریشے ریشے میں ہنسنے لگا

                مسرت کےگھر گھر میں ملبے لگے               مٹھائی وٹھائی کے ٹھیلے لگے

                وچن کےلیے مارا ،مارا پھرا               شب و روز بے سہارا پھرا

                مجھےفکر ہر ایک کردار کی        کہ اک اک کے دم سے زمیں پیار کی

                ہر ایکدل کو ہولے سے یوں گد گدائے            کہ نس نس میں کیف و طرف دوڑ جائے

                فضا چپےچپے کی ہو مشک بار              جدھر دیکھیے ہو نظر لالہ زار

        صنعت تنسیق

الصفات: شعر میں کسی شخص یا شئے کی متعدد صفات بیان کرنا ۔ مندرجہ ذیل شعر میں

شاعر نے مکاں کا حال یا کیفیت بتانے کے لےے منزہ، مصفا، منور ومعطر جیسی خصوصیات

کو ایک ساتھ بیا ن کیا ہے۔              


                                        کہیں تھے منزہ مصفا مکاں             

                                        منور معطر جہاں کا سماں

        صنعت عکس و

تبدیل:    شعر

میں ایک جز کو دوسرے پر مقدم کرنا اور بعد ازاں مقدم کو موخر اور موخر کو مقدم

کرنا۔


                                        جو اچھا تھا اس کو برا کر دیا       

                                        برا تھا جو پل میں بھلا ہو گیا

محاورہ:شعر میں محاوروں کا استعمال کرنا۔

                عجب خوفو دہشت عجب شور و شر            زمیں ہو گئی جس میں زیر و زبر

                وہی جسسے ہو صاف چہرے کا داغ         بیاباں بھی جس سے ہو باغ باغ

                کسے خوںکے آنسو رلاتی ہے یہ        کسے آگ پانی پلاتی ہے یہ

                صنعت

حسن تعلیل: شعر میں کسی واقعہ کا اصل سبب نہ بتاتے ہوئے کوئی اور فرضی یا تخیلی

سبب بیان کرنا جو شعر کی معنوی تہہ داری میں اضافہ کا باعث بنے۔مندرجہ ذیل شعر میں

غضنفر نے آنکھ میںموتیاپڑنے کی وجہ کالی گھٹاﺅں

کا گھرنا قرار دیا ہے۔


                                        گھری اس سے کالی گھٹا آنکھ میں      

                                        اسی سے پڑی موتیا آنکھ میں

صنعت

سہل ممتنع : نہایت سادہ و سلیس کلام یعنی شعر اس قدر سہل ہو کہ اس سے زیادہ آسان

بیانی ممکن نہ ہو۔


                محبت سےبنتا ہے د شمن بھی میت               محبت سے ملتی ہے دنیا میں جیت

                مگر کسطرح دل میں بیٹھے یہ بات             کہ ہوتی ہے الفت سے نفرت کو مات

                اس

مثنوی میں متعدد اشعارسہل ممتنع کی خوبصورت مثالیں ہیں۔ جس نے مثنوی میں دریا کی

سی روانی پیدا کردی ہے۔غضنفر نے مثنوی کرب جاں میں ایسا پیرایہ



¿ اظہار اپنایاہے جو ان کے فکر وخیال کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ

کلام میں شعری حسن و لطافت پیدا کرتا ہے۔صنائع لفظی و صنائع معنوی کے استعمال کے

ذریعے کلام کی تزئین کاری کی ہے اور معنی کی ترسیل کو بھی موثر بنایا ہے۔ اس مثنوی

کے ذریعے غضنفر نے فن شاعری میں اپنی فنکارانہ دسترس کا ثبوت فراہم کیاہے۔


 

                                                                ڈاکٹر بی بی رضا خاتون

                                                                اسسٹنٹ پروفیسر

                                                         شعبہ اردو ، مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی،حیدرآباد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 دیدبان شمارہ۔۷


غضنفرکی مثنوی ’کرب جاں ‘کا فنی مطالعہ

 علی رفاد فتیحی

            

    اردومیں مثنوی کی روایت بہت قدیم ہے۔افراد کی طرح اصناف کی زندگی میں بھی نشیب و فراز

آتے رہتے ہیں۔وقت کے ساتھ بدلتی ادبی قدروں نے مثنوی کو زوال آمادہ صنف قرار دے

دیا۔ کلاسیکی مثنوی کی اپنی شعریات ہیں اور اس کی ایک مخصوص ہیئت ہے۔ کسی فرد

یاشئے کی تلاش و جستجو اورخیر و شر ، سچ وجھوٹ اور محبت و نفرت کی معرکہ آرائی

،مافوق الفطری کردار اور محیرالعقول واقعات روایتی مثنوی کی شعریات ہےں۔مثنوی میں

کہانی بیان کی جاتی ہے وہ بھی قصہ در قصہ، موضوعات کی سطح پر روایتی مثنویوں

میںعشقیہ اور متصوفانہ رنگ غالب ہے۔ہیئت میں حمد ،نعت منقبت کے بعد شاعر اپنی

روداد حیات بیان کرتا ہے۔اپنی شاعرانہ قدرت کا فخریہ اظہار اور وجہ تسمیہ یعنی سبب

تصنیف بیان کرکے قصہ شروع کرتا ہے۔یہ تمام وہ خصوصیات ہیں جو مثنوی کو طویل نظم سے

مختلف بناتی ہیں۔جس شعری تخلیق میں مذکورہ بالا خصوصیات موجود ہوں گی وہ مثنوی کے

زمرے میں آئے گی۔


                غضنفر

کی مثنوی کرب جاں سے اردو میں مثنوی کی تجدیدہوئی ہے۔اس مثنوی میں واحد متکلم گم

گشتہ مشترکہ تہذیبی قدروں کا متلاشی ہے جو صدیوں سے ہندوستان کی شناخت اور یہاں کے

باشندوں کی خوشحال زندگی اور آپسی رواداری اور ہم آہنگی کی پہچان تھی۔ اس میں خیر

و شر کی معرکہ آرائی بھی ہے غضنفر نے اس معرکہ کو رمزیہ انداز میں پیش کیا ہے،کبھی

خیالات و علامات کے طورپر اورکبھی کرداروں کی شکل میں۔ان کے طرزبیان کوجدید تمثیل

کے طور پر دیکھا جاسکتاہے۔مثنوی کرب جاں میں واحد متکلم کو جس کی تلاش ہے وہ گنگا

جمنی تہذیب‘ ایک خوب رو محبوبہ ہے جو دنیا کےلئے

 بے

نظیر ہے( دنیا حیران ہے کہ ہندوستان ایک ایسا واحد ملک ہے جہاں کئی مذاہب کے ماننے

والے، متعدد زبانوں کے بولنے والے ،مختلف تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والے لوگ

یگانگت کے ساتھ رہتے ہیں)،جسے جمہور کے ابلیس (ارباب سیاست) نے اغواءکرکے مقید

کردیاہے۔مرکزی کردار اس کی تلاش میں ہے کہ وہ مل جائے تو زندگی ( ہندوستانی قوم کی

اجتماعی زندگی) میں پھر سے بہار آجائے، امن و امان قائم ہوجائے، اس ہم آہنگی کے

سبب خوشحالی کا دوردورہ ہوگا۔اس مثنوی میں کردار تو مافوق الفطری نہیں ہیں لیکن ان

کی حرکتیں محیرالعقول ہیں۔ انسان میں روز بروز بڑھتی مادہ پرستی ، اخلاقی قدروں کا

زوال ،بے حسی،تعصب، علاقائیت ، مذہبی شدت پسندی،عدم تحمل وغیرہ جیسے منفی رویوں کے

سبب رونما ہونے والے واقعات، خوف کی فضا اور خون ریزی حیران کن ہے۔ جوملک امن و

شانتی کا سرچشمہ رہاہے وہاںانسانیت کی بقا کا سوال مثنوی نگار کو ذہنی و قلبی کرب

میں مبتلاکردیتا ہے اوریہ کرب جب الفاظ کے پیکر میں ڈھلتا ہے تو کرب جاں کہلاتاہے۔


                مثنوی

کا چمن ایک عرصے سے جس بہار کا منتظر تھا وہ بہارمثنوی کرب جاں لے کر آئی ہے۔یہ

فطرت کا دستور ہے کہ ایک تخلیق ایک کرب کے بعد ہی معرض وجود میں آتی ہے۔ایک ہستی

جب خلوص دل سے کسی کرب کو اٹھاتی ہے تو نتیجے میں رونما ہونے والی تخلیق سینکڑوں

کو مستفیض کرتی ہے۔دانا خاک میں مل کر گل گلزار ہونے سے پہلے ایک کرب سے دو چار

ہوتا ہے۔ایک دانا مٹی میں مل کرایک ان دیکھے کرب سے گزرتا ہے تو تب کہیں جاکر

کونپل، پودا اور پھر شجر کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔پھول پھل ،ٹھنڈی ہوا اور تپتی

دھوپ میں اپنے سایہ تلے بیٹھنے والوں کو چھاﺅں

فراہم کرتا ہے، اسی طرح ایک لکڑی کی ٹہنی کو جب درخت سے کاٹا جاتا ہے تو وہ اپنی

جڑوں سے کٹنے اور اپنوں سے بچھڑنے کے کرب کو سہتی ہے اور جب اسے بانسری کی شکل میں

تراشہ جاتا ہے تو اس کا کرب سروں میں ڈھل کر دلوں کو تسکین بہم پہنچانے کا سامان

بن جاتا ہے۔جس طرح ایک کرب سے گزر کر ایک بیج شجر ہوتا ہے اور ایک قطرہ گہر ہوتا

ہے اسی طرح ایک حساس اور باشعور شاعر کا کرب جب شعری پیکر میں ڈھل کر منظر عام پر

آتا ہے تو فکر و فن کا شاہکار ”کرب جاں “ بن جاتا ہے۔


                ہیئت

اور اسلوبِ بیان کے لحاظ سے غضنفر نے کلاسیکی مثنوی کی پاسداری کی ہے اور موضوع کے

اعتبار سے جدت پسندی سے کام لیا ہے۔یہ محض تصوراتی یا تخیلی داستان نہیں ہے۔اس کا

تعلق حقیقی زندگی سے ہے۔اس میں شاعر نے ہندوستانی قوم کی اجتماعی زندگی کوتاریخ و

تہذیب کی روشنی میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی ہے۔مثنوی کاکینوس صدیوں پر محیط

ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد، ان کااس مٹی میں رچ بس جانا،صدیوں کے بعدباہری

کہلانا اور مشکوک نگاہوں سے دیکھاجانا‘اس ایک داستان میں کئی داستانیں ہیں۔جیسے


آغازکرب ِ جاں کے قصے کا:

مثنوی

کے ابتدائی اشعار میں شاعر نے اپنی مثنوی کو اردو کی روایتی مثنویوں سے مختلف

بتاتے ہوئے تمام منثور و منظوم داستانوں کی روایت کو چند مصرعوں میں اس طرح قلمبند

کرکے گویا دریاکوکوزے میں سمودینے کے مصداق ہے۔


داستاناساسِ قصہ کی :

اس

حصے میںہندوستان میں مسلمانوں کی آمد‘ صوفیائے کرام کے سلسلے چشتیہ ، قادریہ،

سہروردیہ، نقش بندیہ، مسلمان بادشاہوں اور تاجروں کے قافلوں کی آمد کی داستان بیان

کی ہے۔


داستانان قیام کے اسباب کی:

اس

حصے میں شاعر نے یہ بتایا ہے کہ کیسے ہندوستان کی مٹی نے انھیں اپنالیا، انھوں نے

اس مٹی کو اپنالیا۔ جغرافیائی ماحول کے زیر اثران کے رنگ و روپ اور جسمانی قد و

خال میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں اور لسانی اثربھی گہرا ہوتا گیا۔ہندوستانی

آوازیں ان کی زبان میں شامل ہوگئیں، لہجہ بھی بدلنے لگا۔یہاں کی پرسکون فضا انھیں

راس آنے لگی عیش و عشرت سے بھری زندگی مل گئی ۔یہاں کا ماحول ان کے قیام کے لےے ہر

طرح سے ساز گار ثابت ہوا۔


داستانان کے دم سے سماں بدلنے کی:

ہندوستان

میں جو سماجی نظام رائج تھا۔ طبقاتی تقسیم کے سبب‘ عدم مساوات عام تھی۔نچلے طبقے

کا صدیوں سے استحصال ہورہاتھا۔انھیںعلوم و فنون اور دولت و حشمت سے محروم

رکھاگیا۔ایک مستقل احساس ِ کمتری کے ساتھ بدحال زندگی گزار نے پر مجبور انسانوں کو

جب اسلام کے ذریعے مساوات کا پیغام ملا تووہ اس کی طرف مائل ہوتے گئے جس میں نہ تو

کوئی نسلی امتیاز تھا نہ طبقاتی۔


                                        سمٹنے لگا نسل کا امتیاز                             

                                رہا کوئی بندہ نہ بندہ نواز                                    

 داستان بدلے ہوئے سماںکے ردِعمل کی:

اس

حصہ میں شاعر نے استعاراتی اور علامتی انداز میں یہ بتایا ہے کہ کس طرح تفرقہ اور

نفرت کا ناگ کینچلی بدل بدل کر نمودار ہوتا رہااور اپنے زہرسے آپسی رواداری کو

مفلوج کرتاگیا۔


داستانمنتھن اور چنتن منن کی :

اس

داستان میںسازشوں کے جال بچھانے کی تیاریاں ہوتی ہیں۔منظم اور منصوبہ بند طریقے سے

ایک قوم کو بدنام کرنے،کمزور کرنے اور خوف کی فضا میں جینے کے لےے مجبورکرنے نیز

دہشت گرد کہہ کر ہراساں کرنے کی سازشوں پر عمل آوری ہوتی ہے۔


داستانخیمے سے نکلی ہوئی روشنی کی:

اس

حصے میں شاعرنے ہندوستان میں صدیوں سے چلے آرہے اتحاد و اتفاق ، آپسی رواداری اور

ہم آہنگی کی داستان بیان کی ہے اور اس کی بازیافت کی ضرورت و اہمیت کو واضح کیاہے۔


                                        جہاں ساتھ اکبر کے اک مان تھا

                                        جہاں کوئی جودھا پہ قربان تھا

داستانٹھٹھکے ہوئے قدموں کی روانی کی:

                یہ

داستان ہمیں بتاتی ہے کہ جب متعصب ذہنوں کے ہاتھ میں قیادت کی ڈور آگئی تو وہ

پرامن اور خوشگوار فضا کو زہرناک بنانے میں کامیاب ہوگئے۔


                                عنانِ قیادت انھیں مل گئی

                                قیادت سے دل کی کلی کھل گئی

جسکے دم سے ہستی ہنوز باقی ہے داستان اس وجودکی:

                اس حصہ

میں شاعر کہتا ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو امن

پسند ہیں۔جیو اور جینے دو کی فلاسفی پرعمل کرتے ہیں۔ شاعر نے ہندومت، بدھ مت، جین

دھرم کی تلمیحات کے ذریعے اس خیال کو واضح کیا ہے کہ سب آپس میں مل جل کر امن و

آتشی سے رہنا چاہتے ہیں ۔ ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں جہاں خوشحالی ہو ، ہر عورت کی

عزت و عصمت کی حفاظت ہو، مذہبی رواداری اور ہم آہنگی ہو، کوئی نہیں چاہتے کہ کسی

ماں کی گود سنسان ہو، کسی سہاگن کی مانگ اجڑے، کوئی بچہ یتیم ہو، اسی طبقہ کے دم

سے ہندوستان میں امن و امان قائم ہے۔ اسی نے انسانیت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ طبقہ

مانتا ہے کہ یہاں کوئی باہری نہیں ہے۔ ان کی سانسوں میں اس سرزمین کی ہوا اور ان

کے لہو میں آبِ گنگ و جمن کی روانی ہے۔آگے شاعر ہندوستان میں مسلمانوں کے ہنر و

کاریگری کا تذکرہ کرتاہے۔زعفران کی کھیتی، سورت میں کپڑوں کی بنکاری ، لکھنو کی

چکن کاری، فیروز آباد میں چوڑیوں کی صنعت ، عطر کی تیاری، طرح طرح کے پکوان وغیرہ

‘ یہ طبقہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی صورت گری میں مسلمان طبقے کی خدمات کا دل سے

معترف ہے۔


                فنون

لطیفہ میں خصوصیت سے موسیقی کی مختلف قسموں کی ایجادات کا سہرہ مسلمانوں کے

اختراعی اذہان کے سر ہے۔شہنائی ، ستار، بربط اور طبلے وغیرہ سبھی مسلمانوں کے

مرہون منت ہیں۔


 یہ طبقہ چاہتا ہے کہ

ہندوستان کے تمام شہری ایسی خوشحال بے فکر زندگی جئیں جیسے باغ میں تتلیاں بے خوف

اڑتی ہیں، پانی میں مچھلیاں تیرتی ہیں، پرندے درختوں پر چہچہاتے ہیں، ندی اپنی

مستی میں اچھلتی مچلتی ہوئی جیسے بہتی چلی جاتی ہے، جیسے چشمے ابلتے ہیں جیسے بادل

برستے ہیں۔ انسانوں کو بھی ایسی ہی بے خوف اور حسین زندگی گزارنے کا حق ہے۔


                مثنوی

کرب جاں کے اس حصہ سے محاکات نگاری کے کچھ اور اشعار ملاحظہ ہوجن میں بیان کردہ

واقعات اور مناظر کی تصویریں آنکھوں کے آگے آجاتی ہےں۔


                ہوا کیطرح سرسراتے ہوئے

                فضا کیطرح مسکراتے ہوئے

                پرندہصفت چہچہاتے ہوئے   

ترانہکوئی گنگناتے ہوئے

                شجر کیطرح لہلہاتے ہوئے

گلوںکی طرح کھلکھلاتے ہوئے

اچھلتیمچلتی ندی کی طرح

                کسی موجکی زندگی کی طرح

                ابلتاہے چشمہ رواں جس طرح

                برستاہے ابر رواں جس طرح

 

                مذکورہ

بالا بند میں شاعرنے محاکات نگاری پر اپنی قدرتِ کمال کو ثابت کردیا ہے۔ تمام

قافیوں میں اس طرح کا آہنگ پیدا کردیا ہے کہ موسیقی کا سا گماں ہوتا ہے۔فطرت کے

نظام میں تمام جانداراپنے اپنے حساب سے اپنی زندگی بھر پور جیتے ہیں۔ایک دوسرے کے

لےے کبھی مانع نہیں ہوتے اور انسان جسے ان سب میں اشرف قرار دیاگیاوہ ایسا کیوں

کرتا ہے؟ یہ حصہ اس فکرانگیز خیال پر ختم ہوتا ہے ۔


داستانایک خوف کے اسباب کی:

                ایک

طبقے کے دل میں زہر پنپنے لگا، وہ احساس کمتری میں مبتلا تھا اسے ڈر تھا کہ مسلمان

پھر سے مقتدرہوجائیں گے۔ طرح طرح کی سازشوں کے جال بننے لگا۔ تیر و نشتر بھی نکل

آئے ۔ فضا میں نفرت کا کالا دھواں پھیلنے لگا جس کے سبب بصارتیں و بصیرتیں

دھندلانے لگیں۔


داستاناندیشہ ہائے دوردراز:

اس

حصے میں تین کرداروں کی کیفیات بیان کی گئی ہیں ایک جسے باہری کہاگیا، دوسرا جس نے

پہلے کو باہری کانام دیا، تیسرا معتدل اور سیکیولر فکرونظر کا مالک ہے۔ تیسرا

کردار نہایت اہم رول ادا کررہاہے۔


داستانصفِ بے زبانی کے کردارکی:

 صف بے زبانی کا کردار

یعنی تخلیق کا ر شاعر کسی چارہ گر کی تلاش میں ہے۔ وطن میں پہلے جیسی رواداری و ہم

آہنگی کی فضا قائم کرنے کا متمنی ہے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ محبت ہی اس کا

علاج ہے کیونکہ محبت میں وہ طاقت ہے جوسرابوں کو دریا بنائے، خرابوں میں غنچے

کھلائے، فسردہ شجر کو شگفتہ بنائے،چٹانوں سے دودھ کے دریا بہائے۔


                محبت سےفولاد بن جائے موم           نکل جائے اعلیٰ دماغی کو زعم

                محبت،محبت کے جھونکے چلائے                       محبت ہوا کی طرح پھیل جائے

 

                اس

مضمون میں موضوع سے قطع نظر مثنوی کرب جاں کی فنی وبدیعاتی خصوصیات کو اجاگر کرنے

کی کوشش کی جائے گی۔ اردو مثنوی کی روایت رہی ہے کہ شاعر مثنوی میںوجہ تسمیہ کو

بیان کرتے ہوئے مثنوی کی تخلیق کو اپنی شاعرانہ قدرت اور جودت طبع کے جوہر دکھلانے

کا ایک موقع /سبب قرار دیتا ہے۔ جیسے کہ ابن نشا طی اپنی مثنوی ”پھول بن “ میں علم

معنی میں اپنی دسترس کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھتا ہے۔


                        جو کئی صنعت سمجھتا ہے سو گیانی                وہی سمجھے مری یو نکتہ دانی

                        وہ سمجے سمج ہے جن کوں کچہ بات                جو میں باندیاں ہوں یوں صنعت سوں ابیات

                        ہنر کوئی دکھائے سودکھاےا           صنائع ایک کم چالیس لایا

                        ایک مصرعہ اوپر ہو کر بجد خوب               رکھا میں قافیہ لا مستندخوب

                        بندھا ہر حرف میں یوں قرینہ           بوجھے سچہ بھی یہ صنعت کا نگینہ

        غضنفر نے بھیمثنوی ”کرب جاں“ میں مثنوی کے اس انداز بیان کی پاسداری کرتے ہوئے لکھا ہے ۔

                        طبیعت کا ہو جائے پھر امتحاں           دکھائیں ہنر پھر زباں و بیاں

                        بیاں میں بلاغت کا جوہر کھلے            زبان میں فصاحت کی مصری گھلے

                اس

مثنوی میں صناعی کی متعدد خوبصورت مثالیںوجود ہ ہیں۔بے شمار بلاغت کے نگینے اپنی

چمک سے مثنوی کو تابناکی عطا کر رہے ہیں اور فصاحت کی مصری اس کی شیرینی کو دو

بالا کر رہی ہے۔غضنفر نے علم بیان و علم معنی کے استعمال پر اپنی فنکارا نہ قدرت

کا بیان بڑی خوبصورتی سے اور مدلل انداز میںکیا ہے۔دعوی و دلیل کے اس انوکھے انداز

سے شاعرکی جدت پسندی عیاں راچہ بیاں کی مصداق ہے۔


                جہاں وہ

کسی صنعت میں کمال دکھانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دوسرے ہی شعر یا مصرعہ میں اس کی

دلیل پیش کر دیتے ہیں ۔انھوں نے اردو شاعری میں مروج بیشتر صنعتوں کی منظوم تعریف

بیان کی ہے اور اگلے ہی شعر میں اس صنعت کا بڑی ہنر مندی سے استعمال کرتے ہوئے

نظیر پیش کر دی ہے۔جس کے مطالعے کے بعد قاری عش عش کراٹھتا ہے۔مثلاً صنعت رعایت

لفظی اور محاکات نگاری کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:


                        صناعت دکھائیں ذرا صنعتیں            جگت کچھ لگائیں ذرا صنعتیں

                        لگے پھر سے میلا رعایات کا              کریں پھر نظارہ محاکات کا

                ان

اشعار میں شاعر نے صنعت رعایت لفظی اور محاکات کاتذکرہ کیا ہے اور اگلے ہی شعر میں

ان صنعتوں کا استعمال کیا ہے۔جیسے:


                        شجر ،شاخ،برگ و ثمر ایک ہوں               مژہ ،آنکھ،پتلی ،نظر ایک ہوں

                        کھلے گل توخوشبو دکھائی پڑے  بجے ساز تو سر کا چہرہ بنے

                پہلے

شعر میں صنعت رعایت لفظی کو استعمال کیا ہے۔جس میں ایک لفظ کی رعایت سے کچھ الفاظ

اسی انداز و مناسبت سے پیش کیے ہیں ۔ جیسے شجر کی مناسبت سے شاخ،برگ ا ور ثمر لائے

گئے ہیں ۔اسی طرح دوسرے مصرعے میں مژہ،پتلی، نظر‘ آنکھ کے تلازمے ہیں اور دوسرے

شعر میں ایسی خوبصورت تصویر کھینچ دی ہے جو محاکات نگاری کی عمدہ مثال ہے :


                        دیا نور حق کا جلاتے ہوئے               اندھیرا جہاں سے مٹاتے ہوئے

                        نہ شاخِ شجر پر رہے کوئی خار             نہ گل پر کسی طرح کا کوئی بار    

                صنعت

تضاد جس میں دو متضادخیالات کو ایک ہی شعریامصرعہ میں بیان کیا جاتا ہے، اس کی

تعریف بیان کرتے ہوئے غضنفرلکھتے ہیں:


                        چڑھے پھر سے چلہ تضادات کا          بڑھے تیر دن کی طرف رات کا

                        سنائی پڑے واہ کے ساتھ آہ             دکھائی پڑے اک جگہ مہر و ماہ

                متضاد

الفاظ دن اور رات،واہ اور آہ، مہر و ماہ(سورج اور چاند)کو ایک ساتھ استعمال کرکے

صنعت تضاد کی خوبصورت مثال پیش کی ہے۔مبالغہ یا غلو بھی شاعری کی ضرورت ہے اس سے

شعر میں حسن پیدا ہوتا ہے اور شاعر کے ندرت خیال اور تخیل کی بلندی کا اندازہ ہوتا

ہے:


                        غلو کی بھی تبلیغ ہو وے ذرا               زمیں اپنی حیرت بھی بووے ذرا

                        ستاروں سے سورج کو رستہ ملے         قمر جگنوﺅںکی نظر سے چلے

                غضنفرنے

مبالغہ کے استعمال سے ماخذ کو ماخوذین کا تابع بنا دیا ہے۔سورج کی روشنی مستعار لے

کرسارے ستارے جگمگاتے ہیں ۔سورج کو ستاروں سے روشنی حاصل کرنے کا موجب قرار دینا

اور اندھیرے میں ٹمٹمانے والے جگنوﺅں

کی روشنی میں چاند کو چلتے دکھانا غلو کی حد ہے۔ببولوں کی شاخوں پہ لالے کا کھلنا

، سرابوں میں چشموں کا ابلنا وغیرہ کے ذریعے شاعر نے پورے تشبیہی نظام کو الٹ کے

رکھ دیا ہے۔میر انیس نے اپنی شاعرانہ قدرت کا فخریہ اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ :


                        تعریف میں چشمے کوسمندر سے ملا دوں                قطرہ کوجو دو آب تو گوہر سےملا دوں

                        ذرے کی چمک مہر منور سے ملا دوں            خاروں کو نزاکت میں گل تر سے ملا دوں

                                        گلدستہ

¿ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں

                                        ایک پھول کا مضموں ہو تو سورنگ سے باندھوں

        غضنفر نے ایک

قدم آگے بڑھ کر اصل کو نقل اعلیٰ کو ادنیٰ، برتر کو کمتر سے مستفیض ہوتے ہوئے

دکھایا ہے۔ ان کی قوت متخیلہ ناممکنات کو امکانات کے دائرے میں لے آتی ہے۔


                تلمیحاور تشبیہ کی تعریف یوں بیان کی ہے۔

                        دکھائیں ذرا رنگ تلمیح بھی               پکڑ لائیں مرغان تشبیہ بھی

                        بدخشاں سے لب کے لیے لائیں لعل         نین کے ڈھونڈھ لائیں غزال

                لب کو

بدخشاں کے لعل(سرخ جواہر)سے تشبیہ دی ہے اور آنکھوں کے لیے غزال یعنی ہرن کی

آنکھوں کو بطور تشبیہ استعمال کیا ہے۔ مثنوی کرب جاں میں غضنفر نے نادر اور انوکھی

تشبیہات وضع کی ہیں۔


                                        کلی کی طرح مسکرائیں سبھی     

                                        گلوں کی طرح کھلکھلائیں سبھی

                غضنفر

نے ایسے استعارے اور علامتیں خلق کی ہیں جس سے ایک لفظ میں وہ پورا سیاق و سباق

سمٹ آتاہے جیسے ایک طبقے کے ذہنی تعصب کی زہرناکی کو بیان کرنے کے لےے سانپ کو

بطور ایک علامت کے پیش کیا ہے۔


                        کہیں پھونک سے پھنک گیا آسماں               کہیں پھونک سے جل گیا آشیاں

                        کہیں پھونک سے کچھ مکاں ہل گئے             کہیں پھونک سے جسم و جاں ہل گئے

ان

کے اس طرز اسلوب سے جدت و ایجاز پیدا ہواہے اور لطف و تاثیر بھی دوبالا ہوگئی

ہے۔جہاں تک صنعت تلمیح کا تعلق ہے غضنفر نے اس مثنوی میں مذہبی ،تاریخی اور تہذیبی

تلمیحات کا بڑی ہنر مندی سے استعمال کیا ہے۔جن میں ابن مریم معجزہ جس کی

مسیحائی،سکندر جو آب حیات کا متلاشی، کوہ کن نے کی کوہ سے جوئے شیر کی نکاسی جیسی

متعدد تلمیحات نے مثنوی کے حسن اور معنویت میں اضافہ کیا ہے۔


                                سکندر ملے تو یہ پوچھیں ذرا               بتاﺅذرا آب کا ماجرا

                                نکالیں کسی کوہ سے جوئے شیر           نئی پھر سے قائم کریں اک نظیر

                                بلائیں کسی ابن مریم کو پھر               ضرورت مسیحا کی ہے ہم کو پھر

                اسلامی

تلمیحات کے ساتھ ساتھ غضنفر نے اس مثنوی میں دیگر مذاہب سے متعلق تلمیحات کو بڑے

فنکارانہ اندازمیں پیش کیا ہے۔جیسے رام کی فرمانبرداری ا و رعایاپروری،سیتا کی

پاکدامنی اور وفا شعاری ،لکشمن کی بھابھی کے لیے عقیدت اوربرادرانہ جانثاری کا

بیان اس طرح سے کیا ہے:


                        کسی نے جہاں تج دیے تخت و تاج              رہا جو بن میں چھوڑ کر اپنا راج

                        وچن کے لیے مارا مارا پھرا                شب و روز جو بے سہارا پھرا

                        جہاں ایک دھوبی کی آواز کا                     اثر دل پہ راجا نے ایسا لیا

                        کہ راجہ کی رانی گھری آگ میں                  محبت کی نگری جلی آگ میں

                        اٹھے نوجواں کوئی بے باک پھر        نئی دیونی کی کٹے ناک پھر

                کرشن

کنھیا اور سداما کی بے مثال دوستی اور جذبہ



¿ مساوات کو بیان کرنے کے لیے محمود و ایاز کی تلمیح کو یکجا کر

یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بنیادی طور پر سبھی مذاہب اخلاقیات کا در س دیتے ہیں،

لیکن ا ن کے ماننے والے آہستہ آہستہ انھیں فراموش کر دیتے ہیں :


                        جہاں فرق اعلا و ادنا مٹا           کنھیا کا ساتھی سداما بنا

                        دہی دودھ مکھن کا عادی جو تھا           بڑے چاﺅسے اس نے ستو پیا

                        محبت کا تیشہ کرشمہ کرے               ندی دودھ کی پتھروں سے بہے

                        نہ محمود کوئی نہ کوئی ایاز           کسی بھی طرح کا نہیںامتیاز

                ہندو

مذہب سے متعلق تلمیحات کے علاوہ بدھ مت اور جین مت کی تلمیحات شاعر کی وسیع النظری

اور سیکیولر فکر کا پتہ دیتے ہیں

:


                        تمھارے بھی اندر مچے کھلبلی   بنے دل تمھارا بھی کچھ گوتمی

                        کوئی جین تم میں بھی جاگے ذرا  اہنسا کا شیطان بھاگے ذرا

                بے حس

ہوتے انسانوں میں احساس کی لو جگانا اس مثنوی کا مقصدِ اولین ہے تاکہ ان میں کوئی

گوتم بن کے نروان پاجائے، کوئی کبیر بن کے محبت و مساوات کے گیت گائے ، کوئی

مہاویر کے اہنسا کی جوت جلائے ، کوئی گاندھی بن کر تشدد کو روک لے۔


                صنعت لف

و نشر جس میں ایک مصرعے کے الفاظ کے مقابلے میں اسی مصرعے یا دوسرے مصرعے میں اس

کے وضاحتی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ۔اگر یہ وضاحت ترتیب کے ساتھ ہو تو اسے لف و

نشر مرتب کہتے ہیں اس کے برعکس اگر تشریح ترتیب کے ساتھ نہ ہو تو اسے لف و نشر غیر

مرتب کہتے ہیں ۔اس صنعت کے سلسلے میں غضنفر لکھتے ہیں:


                        لف ونشر کو پھر مرتب کریں    سلیقے سے لفظوں کے موتی جڑیں

                        دکھائیں کہ فرہاد و مجنوں صفت نہیں میر صاحب پھرے کوہ و دشت

                دوسرے

شعر کے مصرعہ اولیٰ میں فرہاد کا ذکر پہلے آیا ہے اور مجنوں کا بعد میں اسی مناسبت

سے مصرعہ ثانی میں شاعر نے کوہ کا ذکرپہلے اور دشت کا بعد میں کیا ہے۔


                لف ونشر غیر مرتب کی بھی ایک مثال مثنوی ”کرب جاں“سے ملاحظہ ہو:

                                        وہی معرفت جس سے شاہ و گدا

                                        نہ چھوٹا کوئی اور نہ کوئی بڑا

                ہندوستانی

سماج و معاشرتی نظام میں شاہ یا امراءکو اعلیٰ طبقہ تصورکیاجاتا ہے اورغرباءو

گداگرپسماندہ طبقے میں شمار کیے جاتے ہیں ۔یہاں شاعر نے شاہ کا ذکر پہلے کیا ہے

اور گدا کا بعد میںینز دوسرے مصرعے میں چھوٹے کا تذکرہ پہلے اور بڑے کا ذکر بعد

میںآیا ہے تو یہ غیر مرتب شمار کیا جائے گا۔


                صنعتتجنیس کی منظوم تعریف غضنفر یوں بیان کرتے ہیں :

                                مشابہ تلفظ میں معنی کا فرق     

                                دکھا کر گرائیں دماغوں پہ برق

اوراگلے شعر میں پیش کردہ اس کی مثال ملاحظہ ہو:

                                دکھائیں کہ گل گل کے گل بن گیا    

                                سنائیں کہ سن خاک میں سن گیا

                اس شعر

میں تجنیس محرف ہے۔اس صنعت میں الفاظ ایک جیسے لگتے ہیں لیکن حرکات و سکنات کے فرق

سے معنوی فرق پیدا ہوتا ہے۔جیسے مذکورہ بالا شعر میں گُل، گَل اور گِل ایسے الفاظ

ہیں جن پر اعراب لگانے کے بعد تلفظ اور معنی دونوں بدل جاتے ہیں اور دوسرے مصرعے

میں سِن اور سَن بھی تلفظ اور معنوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔


                اس شعر

میں شاعر نے تصور وقت کو پیش کیا ہے۔ وقت کی طاقت اور جبریت کے حوالے سے کہا جاتا

ہے کہ دنیا کی کوئی شئے اس کے جبر سے نہیں بچ سکتی۔حسن وشباب،طاقت وجاہت،فہم و

فراست سب وقت کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں ۔شاعر کا کہنا ہے کہ گُل وقت کے ساتھ گَل

کر گِل یعنی مٹی ہو جاتا ہے۔دوسرے مصرعے میں اسی خیال کا تسلسل ہے کہ سِن یعنی عمر

سَن یعنی تیز رفتاری سے گزر جاتی ہے۔


                                        دکھائیں کہ ہے بام پر کوئی بام          

                                        جسے دیکھنے کو کھڑا ازدہام

                اس شعر

میں تجنیس تام ہے لفظ بام مصرعہ اولیٰ میں دو مرتبہ آیا ہے ،تلفظ میںایک ہی ہے

لیکن معنی الگ الگ ہیں۔پہلے معنی اوپری حصہ یا آسمان ہے اور دوسرے معنی سانپ کی

شکل کی مچھلی ہے۔آگے کے اشعار میں اس کی وضاحت ہے۔


                        عجب رنگ و روغن ہے اس میں بھرا          سراپا کماں کی طرح ہے کسا

                        تھرکتی ہے پانی کے باہر بھی وہ          دکھاتی ہے پروازِ طائر بھی وہ

                        پھسلتی ہے دستِ نظر سے بھی وہ              اچھلتی ہے پتلی کے پر سے بھی وہ

        تجنیس کی کچھاور مثالیں دیکھیے:

                        جہاں معنی کا اک سلسلہ          تمھاری نظر کو نظر آئے گا

                        انھیں سے ہے سورت کی صورت گری              انھیں سے سراپوں میںہے دل کشی

        مرقع نگاری

:مثنوی میں غضنفر نے دوستوں ، ہم جماعت ساتھیوں اور اساتذہ کا تذکرہ کرتے ہوئے جو

اشعار قلمبند کئے ہیں وہ مرقع نگاری کی عمدہ مثالیں ہیں۔ اپنے استاد پروفیسر

شہریار کا مرقع یوں کھینچاہے کہ اس میں ان کی شخصیت کی دلکشی، مزاج کی سادگی اور طریق

ِ تدریس اور طلبا کو ترغیب دلانے کے اندازکی تصویر آنکھوں کے سامنے نمودار ہوجاتی

ہے۔


                        مربی سبھی کے تھے اک شہریار          پلاتے تھے جو معرفت کا سگار

                        مزاج مبارک میں تھی سادگی           مگر شخصیت میں بڑی دل کشی

                        بتابے تھے جو سب کو رازِ نہاں          دکھاتے تھے جو منزلوں کے نشاں

                علی گڑھ

میں طالب علمی کے زمانے کے دوستوں کے بھی بہت خوبصورت مرقعے کھینچے ہیں۔ ابوالکلام

قاسمی کا قلمی مرقع اس طرح سے کھینچا ہے کہ کچھ ہی اشعار میں ان کی تمام خوبیاں

سمٹ آئی ہیں۔


                        تھا ان ہی میں اک ہم سفر قاسمی                نفاست سے پر جس کی تھی زندگی

                        ذہانت میں جس کا نہیں تھا جواب               لیاقت میں بھی تھا وہ اک آفتاب

                        ادب سے ادب پیش کرتا تھا جو          روایت کا بھی پاس رکھتا تھا جو

                غضنفر

نے مثنوی کرب جاں میں مذکورہ بالا صنعتوں کے علاوہ صنعت حسن تعلیل، صنعت تنسیق

الصفات، صنعت اشتقاق، صنعت عکس و تبدیل ،صنعت تکرار، مرقع نگاری ، محاورہ، محاکات

نگاری، صنعت ترصیع،صنعت مراجعہ،صنعت سیاقتہ الاعداد،صنعت تعلی اور صنعت سہل ممتنع

و غیرہ کا بڑی ہنرمندی سے استعمال کیا ہے۔


        صنعت اشتقاق:

شعر میں ایک ہی مصدر کے کئی الفاظ استعمال کرنا ،جیسے مکاں، مکیں، خاک، خاکسار،

پیر، پیری وغیرہ۔


                        نہ عیار کوئی نہ زنبیل ہے         نہ تمنا کوئی تمثیل ہے

                        کہ جس کے سبب آشیاں منتشر                مکیں منتشر ہے مکاں منتشر

                        بنتے ہیں جس سے سلطاں بھی خاکسار         چنے خارو خش چھوڑ کر لالہ زار

                        کوئی پیر پیری دکھائے کہ پر             وبا کے عقابوں کے جائیں کتر

صنعتتکرار: شعر میں الفاظ کی تکرار سے نغمگی اور آہنگ پیدا ہوتا ہے۔

                نسوںمیں نشہ کوئی بسنے لگا               لہو ریشے ریشے میں ہنسنے لگا

                مسرت کےگھر گھر میں ملبے لگے               مٹھائی وٹھائی کے ٹھیلے لگے

                وچن کےلیے مارا ،مارا پھرا               شب و روز بے سہارا پھرا

                مجھےفکر ہر ایک کردار کی        کہ اک اک کے دم سے زمیں پیار کی

                ہر ایکدل کو ہولے سے یوں گد گدائے            کہ نس نس میں کیف و طرف دوڑ جائے

                فضا چپےچپے کی ہو مشک بار              جدھر دیکھیے ہو نظر لالہ زار

        صنعت تنسیق

الصفات: شعر میں کسی شخص یا شئے کی متعدد صفات بیان کرنا ۔ مندرجہ ذیل شعر میں

شاعر نے مکاں کا حال یا کیفیت بتانے کے لےے منزہ، مصفا، منور ومعطر جیسی خصوصیات

کو ایک ساتھ بیا ن کیا ہے۔              


                                        کہیں تھے منزہ مصفا مکاں             

                                        منور معطر جہاں کا سماں

        صنعت عکس و

تبدیل:    شعر

میں ایک جز کو دوسرے پر مقدم کرنا اور بعد ازاں مقدم کو موخر اور موخر کو مقدم

کرنا۔


                                        جو اچھا تھا اس کو برا کر دیا       

                                        برا تھا جو پل میں بھلا ہو گیا

محاورہ:شعر میں محاوروں کا استعمال کرنا۔

                عجب خوفو دہشت عجب شور و شر            زمیں ہو گئی جس میں زیر و زبر

                وہی جسسے ہو صاف چہرے کا داغ         بیاباں بھی جس سے ہو باغ باغ

                کسے خوںکے آنسو رلاتی ہے یہ        کسے آگ پانی پلاتی ہے یہ

                صنعت

حسن تعلیل: شعر میں کسی واقعہ کا اصل سبب نہ بتاتے ہوئے کوئی اور فرضی یا تخیلی

سبب بیان کرنا جو شعر کی معنوی تہہ داری میں اضافہ کا باعث بنے۔مندرجہ ذیل شعر میں

غضنفر نے آنکھ میںموتیاپڑنے کی وجہ کالی گھٹاﺅں

کا گھرنا قرار دیا ہے۔


                                        گھری اس سے کالی گھٹا آنکھ میں      

                                        اسی سے پڑی موتیا آنکھ میں

صنعت

سہل ممتنع : نہایت سادہ و سلیس کلام یعنی شعر اس قدر سہل ہو کہ اس سے زیادہ آسان

بیانی ممکن نہ ہو۔


                محبت سےبنتا ہے د شمن بھی میت               محبت سے ملتی ہے دنیا میں جیت

                مگر کسطرح دل میں بیٹھے یہ بات             کہ ہوتی ہے الفت سے نفرت کو مات

                اس

مثنوی میں متعدد اشعارسہل ممتنع کی خوبصورت مثالیں ہیں۔ جس نے مثنوی میں دریا کی

سی روانی پیدا کردی ہے۔غضنفر نے مثنوی کرب جاں میں ایسا پیرایہ



¿ اظہار اپنایاہے جو ان کے فکر وخیال کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ

کلام میں شعری حسن و لطافت پیدا کرتا ہے۔صنائع لفظی و صنائع معنوی کے استعمال کے

ذریعے کلام کی تزئین کاری کی ہے اور معنی کی ترسیل کو بھی موثر بنایا ہے۔ اس مثنوی

کے ذریعے غضنفر نے فن شاعری میں اپنی فنکارانہ دسترس کا ثبوت فراہم کیاہے۔


 

                                                                ڈاکٹر بی بی رضا خاتون

                                                                اسسٹنٹ پروفیسر

                                                         شعبہ اردو ، مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی،حیدرآباد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024