غزل: کاشف علی ہاشمی
غزل: کاشف علی ہاشمی
May 23, 2021
غزل
کاشف علی ہاشمی
میں خود نوشت سے گزرا ، عذاب سے گزرا
بیان دشت ! تلاطم کے باب سے گزرا
قلم کی نوک سے مجروح آبروئے ورق
ہر ایک لفظ مسلسل عتاب سے گزرا
جہان کن سے چلا گردش زمیں کی طرف
کہ پہلے خواب سے اور پھر سراب سے گزرا
چھپا ہوا ہے جو میں اس کو ڈھونڈنے کے لئے
تمام عمر جہان خراب سے گزرا
یہ ماہ و سال پہ موقوف زیست یوں گزری
کہ جیسے آب! سر آفتاب سے گزرا
یہ کیا کہ پھر سے لیا جائے گا حساب وہاں !
تو کیا وجہ تھی یہاں اضطراب سے گزرا ؟
چلا تھا سا یائے دیوار سے پرے ہو کر
گزر گیا ہوں مگر آب و تاب سے گزرا
-----------------
غزل
کاشف علی ہاشمی
میں خود نوشت سے گزرا ، عذاب سے گزرا
بیان دشت ! تلاطم کے باب سے گزرا
قلم کی نوک سے مجروح آبروئے ورق
ہر ایک لفظ مسلسل عتاب سے گزرا
جہان کن سے چلا گردش زمیں کی طرف
کہ پہلے خواب سے اور پھر سراب سے گزرا
چھپا ہوا ہے جو میں اس کو ڈھونڈنے کے لئے
تمام عمر جہان خراب سے گزرا
یہ ماہ و سال پہ موقوف زیست یوں گزری
کہ جیسے آب! سر آفتاب سے گزرا
یہ کیا کہ پھر سے لیا جائے گا حساب وہاں !
تو کیا وجہ تھی یہاں اضطراب سے گزرا ؟
چلا تھا سا یائے دیوار سے پرے ہو کر
گزر گیا ہوں مگر آب و تاب سے گزرا
-----------------