افتخاربخاری کی نظمیں
افتخاربخاری کی نظمیں
Jan 12, 2019
دیدبان شمارہ۔۹
نظم 1: ڈرپوک
شاعر افتخار بخاری
۔
تیرے پاس فلک بوس عمارتیں ہیں
میرا نصیب پستی ہے
تیرے پاس مہلک ہتھیار ہیں
میرے پاس فقط مایوس بد دعائیں ہیں
تیرے پاس ہوائی جہاز ہیں
میرے کھیت میں چڑیاں بھوکی ہیں
تیرے ساتھ بے رحم بھیڑیے ہیں
میرے پاس چُھپنے کے لیے جھونپڑی بھی نہیں
میرے بھائی تیرے تنخواہ دار محافظ ہیں
میری پشت ننگی ہے
حیران کرنے والی بات ہے
تو پھر بھی مجھ سے ڈرتا ہے
-----------
نظم 2 : چلنا اور سوچنا
افتخار بخاری
۔
شاید ایک ساتھ سیکھتا ہے آدمی
چلنا اور سوچنا
ایک صحن میں
ایک دن
میں سیکھ گیا
چلنا
اور سوچنا
چڑیوں، پودوں اور رنگ برنگے کیڑوں کے درمیان
ماں کہتی
تم اتنا چلتے ہو
ایک سیدھ میں چلو
تو شام تک پہنچ جائو
کسی اور شہر میں
میں نے آوارگی کی
دوپہروں میں اکیلے
تاروں بھری راتوں میں اداس شاعروں اور جُگنوئوں کے ساتھ
میں چلتا رہا
گلیوں میں
شاہراہوں پر
جلوسوں میں
جنازوں کے ساتھ
سوچتے ہوئے
ناانصافی، انقلاب،
موت، خدا اور جہنم
اور بہت سی فضولیات
میں چلتا رہا
بارشوں میں
برف باریوں میں
دُھند میں
دہوپ اور آندھیوں میں
سوچتے ہوئے
جو میں بتا سکتا ہوں فخر سے
اور وہ بھی
جو میں خود سے بھی چُھپاتا ہوں
میں اجنبی ملکوں میں گیا
تنہا چلنے کے لیے
تنہا سوچنے کے لیے
اب میں لوٹ آیا ہوں
ڈھلتی عمر میں
بغیر کہیں پہنچے ہوئے
اب میں کہیں نہیں جاتا
پر اب بھی چلتا ہوں
ہر روز
کم از کم
ایک گھنٹہ
تیز تیز
پائوں چکّی پر
یہ سوچتے ہوئے
کہ میں کب تک چلوں گا
میں کب تک سوچوں گا
---------------
دیدبان شمارہ۔۹
نظم 1: ڈرپوک
شاعر افتخار بخاری
۔
تیرے پاس فلک بوس عمارتیں ہیں
میرا نصیب پستی ہے
تیرے پاس مہلک ہتھیار ہیں
میرے پاس فقط مایوس بد دعائیں ہیں
تیرے پاس ہوائی جہاز ہیں
میرے کھیت میں چڑیاں بھوکی ہیں
تیرے ساتھ بے رحم بھیڑیے ہیں
میرے پاس چُھپنے کے لیے جھونپڑی بھی نہیں
میرے بھائی تیرے تنخواہ دار محافظ ہیں
میری پشت ننگی ہے
حیران کرنے والی بات ہے
تو پھر بھی مجھ سے ڈرتا ہے
-----------
نظم 2 : چلنا اور سوچنا
افتخار بخاری
۔
شاید ایک ساتھ سیکھتا ہے آدمی
چلنا اور سوچنا
ایک صحن میں
ایک دن
میں سیکھ گیا
چلنا
اور سوچنا
چڑیوں، پودوں اور رنگ برنگے کیڑوں کے درمیان
ماں کہتی
تم اتنا چلتے ہو
ایک سیدھ میں چلو
تو شام تک پہنچ جائو
کسی اور شہر میں
میں نے آوارگی کی
دوپہروں میں اکیلے
تاروں بھری راتوں میں اداس شاعروں اور جُگنوئوں کے ساتھ
میں چلتا رہا
گلیوں میں
شاہراہوں پر
جلوسوں میں
جنازوں کے ساتھ
سوچتے ہوئے
ناانصافی، انقلاب،
موت، خدا اور جہنم
اور بہت سی فضولیات
میں چلتا رہا
بارشوں میں
برف باریوں میں
دُھند میں
دہوپ اور آندھیوں میں
سوچتے ہوئے
جو میں بتا سکتا ہوں فخر سے
اور وہ بھی
جو میں خود سے بھی چُھپاتا ہوں
میں اجنبی ملکوں میں گیا
تنہا چلنے کے لیے
تنہا سوچنے کے لیے
اب میں لوٹ آیا ہوں
ڈھلتی عمر میں
بغیر کہیں پہنچے ہوئے
اب میں کہیں نہیں جاتا
پر اب بھی چلتا ہوں
ہر روز
کم از کم
ایک گھنٹہ
تیز تیز
پائوں چکّی پر
یہ سوچتے ہوئے
کہ میں کب تک چلوں گا
میں کب تک سوچوں گا
---------------