افسانہ: وہ کون تھا

افسانہ: وہ کون تھا

Sep 10, 2023

مصنف

نعیمہ جعفری پاشا

شمارہ

شمارہ - ١٩

دیدبان شمارہ ۔ ۱۹

افسانہ:وہ کون تھا؟

مصنفہ : ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا

مارچ کے اواخر کی ایک بظاہر خوشگوار صبح تھی ۔ ہوا کے جھونکوں میں نرم نرم سی خنکی تھی، پارک کے لان موسمی پھولوں سے گلزار بنے ہوئے تھے، پرندوں کی چہچہاہٹ سے ماحول میں زندگی کا احساس گھلا ہوا تھا لیکن سڑکیں سنسان پڑی تھیں۔ دکانیں بند تھیں۔ صبح گشت لگانے والے سبزی اور پھلوں کے ٹھیلے بھی مفقود تھے۔ پارک کی دیوار کے قریب کھڑی ہوئی گاڑیوں پر دھول کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ نہ آدم نہ آدم زاد۔ دل پر عجیب سا خوف اور دہشت سوار تھی۔ بڑی بڑی کاروں کے بیچ میں میری آلٹو ، کار کے بجائے کارچہ نظر آرہی تھی۔ میں نے ڈسٹرسے شیشہ صاف کیا اور دروازہ کھولنے کے لیے جھکی تو میری نظر سڑک کے پار فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ہیبت ناک آدمی پر پڑی جو اینٹوں پر بیٹھا ہاتھ میں پکڑے ہوئے لمبے سے کاغذ کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ ہونٹوں کی حرکت بتاتی تھی کہ کچھ بڑا بڑا بھی رہا تھا۔ سر اور ڈاڑھی کے بے تحاشا بڑھے ہوئے کھچڑی بال دھول اور گندگی سے اٹے ہوئے تھے۔ چہرے اور ہاتھوں کارنگ دھوپ میں تپ کر سرخی مائل سیاہ پڑ چکا تھا۔ نقش و نگار سے شمال مشرق کا باشندہ معلوم ہوتا تھا۔ جسم پر ایک بوسیدہ سا پرانا کوٹ تھا جو کہنیوں سے پھٹ چکا تھا۔ کوٹ کی جیبوں سے کاغذات کے رول جھانک رہے تھے۔ ٹخنوں سے اونچی ڈھیلی ڈھالی پتلون کے نیچے جو پائوں نظر آرہے تھے انہیں دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ کبھی یہ گوشت پوست سے بنے ہوئے رہے ہوں گے۔ ایڑیوں کی میل سے بھری چوڑی چوڑی دراریں دور سے ہی نظر آرہی تھیں۔ میں نے بمشکل اپنے حلق سے نکلنے والی چیخ کو روکا۔ اپنے سرد ہاتھوں سے کار کا دروازہ کھول کر بیٹھی اور کانپتے ہاتھوں سے کار اسٹارٹ کی ۔ مجھے لگا جیسے کورونا کی وبا مجسم ہوکر زمین پر اتر آئی ہو۔ لیکن اس نے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ اپنے کاغذا ت کو دیکھنے اور پڑھنے میں وہ اس طرح منہمک تھا کہ اسے اپنے گرد و پیش کا کچھ ہوش نہیں تھا۔ میری کار اس کے قریب سے گزرتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

پھر تو یہ روز کا معمول بن گیا اور رفتہ رفتہ میرے دل سے ڈر بھی جاتا رہا۔ لاک ڈائون کے پرہول سناٹے میں زمین پر کتوں اور آسمان پر چیل کووں کے علاوہ وہ اکیلا ذی روح تھا جو زندگی کی علامت تھا۔

میری شادی کو ایک ماہ گزر چکا تھا اور چھٹی ختم ہونے پر میں نے ڈیوٹی پر جانا شروع کردیا تھا۔ ایک تو اسپتال کی نوکری ایسی ہوتی ہے کہ لاک ڈائون ہوجائے تو بھی  ہمارا کام ورچوئل نہیں ہوتا۔ تمام احتیاطی تدابیر،ماسک، سینی ٹائزر، سوشل ڈسٹیننگ کے ساتھ جانا تو تھا ہی۔ کورونا کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناظر میں Radiology والوں کا کام اور بھی بڑھ گیا تھا۔

میری شادی بھی ایسے حالات میں اچانک ہوئی جب کہ لوگ اپنی پہلے سے طے شدہ شادیوں کی تاریخیں آگے بڑھا رہے تھے۔ ایک طرف این سی آر اور سی اے اے کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی لہر اٹھ رہی تھی اور شاہین باغ احتجاج کی علامت بن چکا تھا تو دوسری طرف مشرقی دہلی میں مذہبی منافرت پھیلانے والے سیاسی درندوں نے فسادات کی آگ بھڑ کا کر ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی۔ اقلیتی فرقہ غم وغصے کے ساتھ خوف اور عدم تحفظ کے ماحول میں جی رہا تھا۔ پھر اسی دوران کورونا وائرس کی وبا کا خوفناک بادل بھی سر پر منڈرانے لگا تھا۔ ایسے ماحول میں شادی کا تصور مضحکہ خیز اور احمقانہ ہی نہیں پریشان کن بھی تھا۔ لیکن حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے تھے۔

ذیشان کو میں کئی ماہ سے جانتی تھی۔ ہماری ملاقات بھی عجیب و غریب حالات میں ہوئی تھی۔ این آر سی، سی اے بی کا بھوت جو کسی جادوئی لوٹے سے نکل کر دھیرے دھیرے دھوئیں کے ہیولے میں تبدیل ہورہا تھا کہ اچانک ہی بل پاس ہوجانے سے ہیبت ناک صورت میں وارد ہوگیا تھا ۔ملک میں افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ آسام detention کیمپ کے قصے خبروں اور افواہوں کی شکل میں باد سموم کی طرح وجود کو جھلسانے لگے تھے۔ ہر شخص اپنی شہریت بچانے کی فکر میں بوکھلایا ہوا  تھا۔ اپنے باپ دادا کے دستاویزی ثبوت نکلوائے جارہے تھے۔ بہت سے لوگ پاس پورٹ بنوانے کے لیے بے قرار تھے کہ کوئی ہنگامی حالات سامنے آگئے تو کہیں بھاگ سکیں ۔ ممی پاپا حج کرچکے تھے اس لیے ان کا پاس پورٹ تھا، لیکن میرا نہیں تھا۔ پاپا پر وحشت سوار تھی کہ سب کام چھوڑ کر پاس پورٹ بنوائو۔ آخر اکلوتی بیٹی کو چھوڑ کر تو نہیں جاسکتے تھے۔

تو میں فارم بھر کر پاس پورٹ کی لائن میں لگ گئی۔ لائن بہت لمبی تھی۔ کچھ میدان حشر کا سا منظر تھا۔ ہر ایک اپنا نامہ اعمال شناختی کاغذات کی شکل میں لیے قطاروں میں خوار ہورہا تھا۔ کھڑے کھڑے میری ٹانگیں درد کرنے لگیں تھیں۔ جمائیاں آرہی تھیں۔ ذیشان نے بڑی شائستگی سے پیچھے مڑ کر کہا تھا۔

’’میڈم آپ بیٹھ جائیں۔ آپ کا نمبر آنے سے پہلے میں آپ کو بتادوں گا۔‘‘

میں نے کچھ پس و پیش کے ساتھ ان کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کر بولے ،’’فکر نہ کیجئے، میں آپ کی جگہ نہیں لوں گا، ویسے بھی میرا نمبر آپ سے پہلے ہے۔ ‘‘

میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور احتیاطاً اپنے پیچھے کھڑے انکل سے درخواست کی کہ میری جگہ کسی اور کو نہ آنے دیں۔ میں قطار سے نکل کر پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔ لیکن میری نظر لگاتار ذیشان پر لگی ہوئی تھی کہ کہیں میرا نمبر نکل نہ جانے، اس کوشش میں نے غیر ارادی طور پر ان کے سراپا کا جائزہ لے ڈالا۔ تیس بتیس سال کی عمر ہوگی۔ مائل بادرازی قد، صحت مند لیکن چھریرا قامت ، گندمی رنگ، وجیہہ اور اسمارٹ، اپنی نظروں کی ستائش سے میں خود ہی جھنجھلا گئی۔ جب ذیشان کا نمبر آنے والا تھا تو میں ان کے پیچھے جاکر کھڑی ہوگئی۔ ان کی باری آئی تو انھوں نے اصرار کر کے مجھے آگے کردیا۔ ان کی شرافت نے بھی متاثر کیا۔ اس کے بعد ہیرالڈ ہائوس (پاس پورٹ آفس) میں اتفاقاً ہم کئی بار ٹکرائے۔ ہائے ہیلو سے بڑھ کر فون نمبر کا تبادلہ ہوا۔ فون چیٹنگ سے بڑھ کر گاہے بگاہے ملاقاتیں بھی ہونے لگیں۔ ہم دونوں ہی محسوس کررہے تھے کہ ہم ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے ہیں لیکن ہماری گفتگو سیاست، ملکی حالات، مستقبل کا عدم تحفظ، ہجرت کے امکانات، ادب ، شاعری، سماجی مسائل جیسے موضوعات سے آگے نہیں بڑھی۔

پھر حالات کشیدہ ہونے لگے، مظاہرے، فسادات کورونا کا خطرہ جیسے مسائل میں ہر ایک گرفتار تھا کہ ایک دن اچانک ذیشان کا فون آیا۔ پریشانی اور اضطراب ان کی آواز سے عیاں تھا۔

’’نازش مجھ سے شادی کروگی؟‘‘

میں ہکا بکا رہ گئی، بڑی دیر تک کوئی جواب بن نہیں پڑا۔ پھر ہمت کر کے زیر لب کہا۔

’’ہاں ذیشان! مگر ان حالات میں یہ کیسا سوال ہے؟‘‘

انھوں نے جواب دیا۔ طوفان گھر سے باہر بھی ہے اور گھر کے اندر بھی ۔ میری امی کو کینسر تشخیص ہوا ہے تیسری اسٹیج ہے۔ وہ سخت مایوس ہیں اور چاہتی ہیں کہ میں فوراً شادی کرلوں۔‘‘

مجھے کچھ کہتے بن نہیں پڑا۔ بڑی دیر تک وہ ہیلو ہیلو کرتے رہے۔ میں نے محسوس کیا کہ میں نہ صرف انہیں پسند کرتی ہوں بلکہ شاید محبت بھی کرنے لگی ہوں۔ آخر میں حواس مجتمع کرکے بمشکل کہا ’’اگر امی کی طبیعت اس قابل ہو تو آپ انہیں میرے والدین کے پاس بھیج دیں۔

ان کے شکریئے کی آواز دیر تک اسپیکر میں گونجتی رہی۔

اور پھر ایک مہینے کے اندر ہی ہماری شادی ہوگئی۔ وجہ اتنی دردناک تھی کہ میرے والدین مہلت بھی نہیں مانگ سکے۔ رخصت کے وقت ابو نے قرآن پاک اور چمڑے کے ایک مضبوط بیگ میں میری شناخت کے تمام کاغذات جہیز میں دیئے۔

ایک ماہ کی چھٹی پلک جھپکتے گذر گئی۔ جوائن کرنے وقت آیا تو کورونا کا قہر ہرکس و ناکس کے اعصاب پر حاوی ہوچکا تھا۔ لاک ڈائون نے زندگی مفلوج کردی تھی، لیکن میری نوکری ایسی تھی کہ مجھے بہر حال نکلنا پڑا ۔

دھیر ے دھیرے  میں اس عجیب الخلقت شخص سے مانوس ہوگئی۔ بے ضرر آدمی کبھی آنکھ اٹھا کربھی نہیں دیکھتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی کاغذ کی پرچیوں کی فوٹو کاپیاں گوند سے چپکا تا رہتا تھا۔ اب اس کے جوڑے ہوئے کاغذات کی لمبائی اتنی بڑھ گئی تھی کہ اکثر پوری فٹ پاتھ کو گھیر لیتی تھی۔ وہ ایک ایک پرچی پر انگلی رکھ کر آسمان کی طرف دیکھتا اور شہادت کی انگلی اٹھا کر ہوا میں تنبیہہ کا سا زاویہ بناتا اور بڑبڑاتا رہتا۔ میں کبھی کبھی سینڈ وچ بنا کر اس کے لیے لے جاتی۔ خالی الذہنی کی ایک نظر مجھ پر ڈالتا اور سینڈوچ کھا لیتا۔

شاید جون کا مہینہ تھا۔ شدید گرمی پڑرہی تھی۔ لو کے تھپیڑوں نے ماحول کو گرد آلود کر رکھا تھا۔ میں ڈیوٹی کرکے واپس آئی تو یہ دیکھ کر دھک سے رہ گئی کہ وہ سڑک کے کنارے کچی زمین پر چت پڑا تھا۔ جسم میں کوئی حرکت نہیں تھی البتہ کاغذات کا رول بائیں ہاتھ میں دبا ہوا تھا۔

’’کیا یہ مر گیا!‘‘ میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ ڈرتے ڈرتے اس کے قریب گئی۔ میری آہٹ پاکر اس نے ذرا سا سر گھما یا اور کاغذات کے پلندے والا ہاتھ میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے جھجکتے ہوئے کاغذات تھام لیے۔ اس نے آسمان کی طرف شہادت کی انگلی اٹھائی اور دوسرے ہاتھ سے زمین سے مٹی اٹھاکر اپنے سینے پر ڈال لی۔ اس کی میلی،بے حس آنکھوں میں ایک لمحے کو حسیت جاگی اورایک آنسو نکل کر ریت میں جذب ہوگیا۔

مجھ پر خوف اور بدحواسی طاری ہوگئی۔ تھوڑے فاصلے پر فوٹو کاپی کی ایک دوکان تھی جس کا شٹر آدھا کھلا ہوا تھا۔ میں دوڑ کر وہاں پہنچی، دوکان دار کو آواز دی اور اسے صورت حال سے آگاہ کیا۔

دوکاندار نے ایک ٹھنڈی سانس لی، شٹر گرایا اور میرے ساتھ چلتے ہوئے بولا۔ ’’میڈم جی یہ ساری فوٹو کاپیاں اس نے مجھ سے کروائی تھیں، کبھی کچھ پیسے دے جاتا کبھی یونہی چلا جاتا۔‘‘

’’کچھ پتہ ہے کون ہے وہ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

ہاں جی، وہ آسام کا رہنے والا ہے، کچھ سمے پہلے اس کا بیٹا تلاش کرتا ہوا یہاں آیا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ پولیس کانسٹبل کے عہدے سے ریٹائر ہوا تھا۔ لیکن پچھلے سال جب NCR کے چلتے شہریوں کی پہچان کی جارہی تھی تو اس کانام لسٹ میں نہیں آیا۔ سرکار نے اسے بھارت کا شہری ماننے سے انکار کردیا۔ وہ اپنا مانسک سنتولن کھو بیٹھا اور detention کیمپ سے بھاگ نکلا‘‘  کسی نے خبر دی کہ وہ دہلی میں ہے تو بیٹا تلاش کرتا ہوا یہاں آیا لیکن وہ کسی طرح اس کے ساتھ جانے پر راضی نہیں ہوا۔ ایک دن میں نے اس کے کاغذ دیکھے تھے اس میں اس کی پہچان کے سبھی کاغذوں کی فوٹو کاپی ہے اب جو بھی رسید پڑی ملتی ہے اس کی بھی کاپی کروا کے اس میں جوڑ لیتا ہے۔ کہتا ہے ’’پرچی پوری ہوجائے گی تو پردھان منتری کے پاس جائوں گا انصاف مانگنے‘‘۔

باتیں کرتے کرتے ہم وہاں پہنچ گئے جہاں اس کا جسم دھول میں اٹا ہوا پڑا تھا اور پتھرائی ہوئی آنکھیں آسمان سے شکوہ کررہی تھیں۔

ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا

مکان نمبر 17۔ پاکٹ۔ 2، جسولہ، نئی دہلی۔110025،

 موبائل نمبر:9911802189

ای میل: naimajafripasha@gmail.com

دیدبان شمارہ ۔ ۱۹

افسانہ:وہ کون تھا؟

مصنفہ : ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا

مارچ کے اواخر کی ایک بظاہر خوشگوار صبح تھی ۔ ہوا کے جھونکوں میں نرم نرم سی خنکی تھی، پارک کے لان موسمی پھولوں سے گلزار بنے ہوئے تھے، پرندوں کی چہچہاہٹ سے ماحول میں زندگی کا احساس گھلا ہوا تھا لیکن سڑکیں سنسان پڑی تھیں۔ دکانیں بند تھیں۔ صبح گشت لگانے والے سبزی اور پھلوں کے ٹھیلے بھی مفقود تھے۔ پارک کی دیوار کے قریب کھڑی ہوئی گاڑیوں پر دھول کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ نہ آدم نہ آدم زاد۔ دل پر عجیب سا خوف اور دہشت سوار تھی۔ بڑی بڑی کاروں کے بیچ میں میری آلٹو ، کار کے بجائے کارچہ نظر آرہی تھی۔ میں نے ڈسٹرسے شیشہ صاف کیا اور دروازہ کھولنے کے لیے جھکی تو میری نظر سڑک کے پار فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ہیبت ناک آدمی پر پڑی جو اینٹوں پر بیٹھا ہاتھ میں پکڑے ہوئے لمبے سے کاغذ کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ ہونٹوں کی حرکت بتاتی تھی کہ کچھ بڑا بڑا بھی رہا تھا۔ سر اور ڈاڑھی کے بے تحاشا بڑھے ہوئے کھچڑی بال دھول اور گندگی سے اٹے ہوئے تھے۔ چہرے اور ہاتھوں کارنگ دھوپ میں تپ کر سرخی مائل سیاہ پڑ چکا تھا۔ نقش و نگار سے شمال مشرق کا باشندہ معلوم ہوتا تھا۔ جسم پر ایک بوسیدہ سا پرانا کوٹ تھا جو کہنیوں سے پھٹ چکا تھا۔ کوٹ کی جیبوں سے کاغذات کے رول جھانک رہے تھے۔ ٹخنوں سے اونچی ڈھیلی ڈھالی پتلون کے نیچے جو پائوں نظر آرہے تھے انہیں دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ کبھی یہ گوشت پوست سے بنے ہوئے رہے ہوں گے۔ ایڑیوں کی میل سے بھری چوڑی چوڑی دراریں دور سے ہی نظر آرہی تھیں۔ میں نے بمشکل اپنے حلق سے نکلنے والی چیخ کو روکا۔ اپنے سرد ہاتھوں سے کار کا دروازہ کھول کر بیٹھی اور کانپتے ہاتھوں سے کار اسٹارٹ کی ۔ مجھے لگا جیسے کورونا کی وبا مجسم ہوکر زمین پر اتر آئی ہو۔ لیکن اس نے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ اپنے کاغذا ت کو دیکھنے اور پڑھنے میں وہ اس طرح منہمک تھا کہ اسے اپنے گرد و پیش کا کچھ ہوش نہیں تھا۔ میری کار اس کے قریب سے گزرتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

پھر تو یہ روز کا معمول بن گیا اور رفتہ رفتہ میرے دل سے ڈر بھی جاتا رہا۔ لاک ڈائون کے پرہول سناٹے میں زمین پر کتوں اور آسمان پر چیل کووں کے علاوہ وہ اکیلا ذی روح تھا جو زندگی کی علامت تھا۔

میری شادی کو ایک ماہ گزر چکا تھا اور چھٹی ختم ہونے پر میں نے ڈیوٹی پر جانا شروع کردیا تھا۔ ایک تو اسپتال کی نوکری ایسی ہوتی ہے کہ لاک ڈائون ہوجائے تو بھی  ہمارا کام ورچوئل نہیں ہوتا۔ تمام احتیاطی تدابیر،ماسک، سینی ٹائزر، سوشل ڈسٹیننگ کے ساتھ جانا تو تھا ہی۔ کورونا کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناظر میں Radiology والوں کا کام اور بھی بڑھ گیا تھا۔

میری شادی بھی ایسے حالات میں اچانک ہوئی جب کہ لوگ اپنی پہلے سے طے شدہ شادیوں کی تاریخیں آگے بڑھا رہے تھے۔ ایک طرف این سی آر اور سی اے اے کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی لہر اٹھ رہی تھی اور شاہین باغ احتجاج کی علامت بن چکا تھا تو دوسری طرف مشرقی دہلی میں مذہبی منافرت پھیلانے والے سیاسی درندوں نے فسادات کی آگ بھڑ کا کر ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی۔ اقلیتی فرقہ غم وغصے کے ساتھ خوف اور عدم تحفظ کے ماحول میں جی رہا تھا۔ پھر اسی دوران کورونا وائرس کی وبا کا خوفناک بادل بھی سر پر منڈرانے لگا تھا۔ ایسے ماحول میں شادی کا تصور مضحکہ خیز اور احمقانہ ہی نہیں پریشان کن بھی تھا۔ لیکن حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے تھے۔

ذیشان کو میں کئی ماہ سے جانتی تھی۔ ہماری ملاقات بھی عجیب و غریب حالات میں ہوئی تھی۔ این آر سی، سی اے بی کا بھوت جو کسی جادوئی لوٹے سے نکل کر دھیرے دھیرے دھوئیں کے ہیولے میں تبدیل ہورہا تھا کہ اچانک ہی بل پاس ہوجانے سے ہیبت ناک صورت میں وارد ہوگیا تھا ۔ملک میں افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ آسام detention کیمپ کے قصے خبروں اور افواہوں کی شکل میں باد سموم کی طرح وجود کو جھلسانے لگے تھے۔ ہر شخص اپنی شہریت بچانے کی فکر میں بوکھلایا ہوا  تھا۔ اپنے باپ دادا کے دستاویزی ثبوت نکلوائے جارہے تھے۔ بہت سے لوگ پاس پورٹ بنوانے کے لیے بے قرار تھے کہ کوئی ہنگامی حالات سامنے آگئے تو کہیں بھاگ سکیں ۔ ممی پاپا حج کرچکے تھے اس لیے ان کا پاس پورٹ تھا، لیکن میرا نہیں تھا۔ پاپا پر وحشت سوار تھی کہ سب کام چھوڑ کر پاس پورٹ بنوائو۔ آخر اکلوتی بیٹی کو چھوڑ کر تو نہیں جاسکتے تھے۔

تو میں فارم بھر کر پاس پورٹ کی لائن میں لگ گئی۔ لائن بہت لمبی تھی۔ کچھ میدان حشر کا سا منظر تھا۔ ہر ایک اپنا نامہ اعمال شناختی کاغذات کی شکل میں لیے قطاروں میں خوار ہورہا تھا۔ کھڑے کھڑے میری ٹانگیں درد کرنے لگیں تھیں۔ جمائیاں آرہی تھیں۔ ذیشان نے بڑی شائستگی سے پیچھے مڑ کر کہا تھا۔

’’میڈم آپ بیٹھ جائیں۔ آپ کا نمبر آنے سے پہلے میں آپ کو بتادوں گا۔‘‘

میں نے کچھ پس و پیش کے ساتھ ان کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کر بولے ،’’فکر نہ کیجئے، میں آپ کی جگہ نہیں لوں گا، ویسے بھی میرا نمبر آپ سے پہلے ہے۔ ‘‘

میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور احتیاطاً اپنے پیچھے کھڑے انکل سے درخواست کی کہ میری جگہ کسی اور کو نہ آنے دیں۔ میں قطار سے نکل کر پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔ لیکن میری نظر لگاتار ذیشان پر لگی ہوئی تھی کہ کہیں میرا نمبر نکل نہ جانے، اس کوشش میں نے غیر ارادی طور پر ان کے سراپا کا جائزہ لے ڈالا۔ تیس بتیس سال کی عمر ہوگی۔ مائل بادرازی قد، صحت مند لیکن چھریرا قامت ، گندمی رنگ، وجیہہ اور اسمارٹ، اپنی نظروں کی ستائش سے میں خود ہی جھنجھلا گئی۔ جب ذیشان کا نمبر آنے والا تھا تو میں ان کے پیچھے جاکر کھڑی ہوگئی۔ ان کی باری آئی تو انھوں نے اصرار کر کے مجھے آگے کردیا۔ ان کی شرافت نے بھی متاثر کیا۔ اس کے بعد ہیرالڈ ہائوس (پاس پورٹ آفس) میں اتفاقاً ہم کئی بار ٹکرائے۔ ہائے ہیلو سے بڑھ کر فون نمبر کا تبادلہ ہوا۔ فون چیٹنگ سے بڑھ کر گاہے بگاہے ملاقاتیں بھی ہونے لگیں۔ ہم دونوں ہی محسوس کررہے تھے کہ ہم ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے ہیں لیکن ہماری گفتگو سیاست، ملکی حالات، مستقبل کا عدم تحفظ، ہجرت کے امکانات، ادب ، شاعری، سماجی مسائل جیسے موضوعات سے آگے نہیں بڑھی۔

پھر حالات کشیدہ ہونے لگے، مظاہرے، فسادات کورونا کا خطرہ جیسے مسائل میں ہر ایک گرفتار تھا کہ ایک دن اچانک ذیشان کا فون آیا۔ پریشانی اور اضطراب ان کی آواز سے عیاں تھا۔

’’نازش مجھ سے شادی کروگی؟‘‘

میں ہکا بکا رہ گئی، بڑی دیر تک کوئی جواب بن نہیں پڑا۔ پھر ہمت کر کے زیر لب کہا۔

’’ہاں ذیشان! مگر ان حالات میں یہ کیسا سوال ہے؟‘‘

انھوں نے جواب دیا۔ طوفان گھر سے باہر بھی ہے اور گھر کے اندر بھی ۔ میری امی کو کینسر تشخیص ہوا ہے تیسری اسٹیج ہے۔ وہ سخت مایوس ہیں اور چاہتی ہیں کہ میں فوراً شادی کرلوں۔‘‘

مجھے کچھ کہتے بن نہیں پڑا۔ بڑی دیر تک وہ ہیلو ہیلو کرتے رہے۔ میں نے محسوس کیا کہ میں نہ صرف انہیں پسند کرتی ہوں بلکہ شاید محبت بھی کرنے لگی ہوں۔ آخر میں حواس مجتمع کرکے بمشکل کہا ’’اگر امی کی طبیعت اس قابل ہو تو آپ انہیں میرے والدین کے پاس بھیج دیں۔

ان کے شکریئے کی آواز دیر تک اسپیکر میں گونجتی رہی۔

اور پھر ایک مہینے کے اندر ہی ہماری شادی ہوگئی۔ وجہ اتنی دردناک تھی کہ میرے والدین مہلت بھی نہیں مانگ سکے۔ رخصت کے وقت ابو نے قرآن پاک اور چمڑے کے ایک مضبوط بیگ میں میری شناخت کے تمام کاغذات جہیز میں دیئے۔

ایک ماہ کی چھٹی پلک جھپکتے گذر گئی۔ جوائن کرنے وقت آیا تو کورونا کا قہر ہرکس و ناکس کے اعصاب پر حاوی ہوچکا تھا۔ لاک ڈائون نے زندگی مفلوج کردی تھی، لیکن میری نوکری ایسی تھی کہ مجھے بہر حال نکلنا پڑا ۔

دھیر ے دھیرے  میں اس عجیب الخلقت شخص سے مانوس ہوگئی۔ بے ضرر آدمی کبھی آنکھ اٹھا کربھی نہیں دیکھتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی کاغذ کی پرچیوں کی فوٹو کاپیاں گوند سے چپکا تا رہتا تھا۔ اب اس کے جوڑے ہوئے کاغذات کی لمبائی اتنی بڑھ گئی تھی کہ اکثر پوری فٹ پاتھ کو گھیر لیتی تھی۔ وہ ایک ایک پرچی پر انگلی رکھ کر آسمان کی طرف دیکھتا اور شہادت کی انگلی اٹھا کر ہوا میں تنبیہہ کا سا زاویہ بناتا اور بڑبڑاتا رہتا۔ میں کبھی کبھی سینڈ وچ بنا کر اس کے لیے لے جاتی۔ خالی الذہنی کی ایک نظر مجھ پر ڈالتا اور سینڈوچ کھا لیتا۔

شاید جون کا مہینہ تھا۔ شدید گرمی پڑرہی تھی۔ لو کے تھپیڑوں نے ماحول کو گرد آلود کر رکھا تھا۔ میں ڈیوٹی کرکے واپس آئی تو یہ دیکھ کر دھک سے رہ گئی کہ وہ سڑک کے کنارے کچی زمین پر چت پڑا تھا۔ جسم میں کوئی حرکت نہیں تھی البتہ کاغذات کا رول بائیں ہاتھ میں دبا ہوا تھا۔

’’کیا یہ مر گیا!‘‘ میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ ڈرتے ڈرتے اس کے قریب گئی۔ میری آہٹ پاکر اس نے ذرا سا سر گھما یا اور کاغذات کے پلندے والا ہاتھ میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے جھجکتے ہوئے کاغذات تھام لیے۔ اس نے آسمان کی طرف شہادت کی انگلی اٹھائی اور دوسرے ہاتھ سے زمین سے مٹی اٹھاکر اپنے سینے پر ڈال لی۔ اس کی میلی،بے حس آنکھوں میں ایک لمحے کو حسیت جاگی اورایک آنسو نکل کر ریت میں جذب ہوگیا۔

مجھ پر خوف اور بدحواسی طاری ہوگئی۔ تھوڑے فاصلے پر فوٹو کاپی کی ایک دوکان تھی جس کا شٹر آدھا کھلا ہوا تھا۔ میں دوڑ کر وہاں پہنچی، دوکان دار کو آواز دی اور اسے صورت حال سے آگاہ کیا۔

دوکاندار نے ایک ٹھنڈی سانس لی، شٹر گرایا اور میرے ساتھ چلتے ہوئے بولا۔ ’’میڈم جی یہ ساری فوٹو کاپیاں اس نے مجھ سے کروائی تھیں، کبھی کچھ پیسے دے جاتا کبھی یونہی چلا جاتا۔‘‘

’’کچھ پتہ ہے کون ہے وہ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

ہاں جی، وہ آسام کا رہنے والا ہے، کچھ سمے پہلے اس کا بیٹا تلاش کرتا ہوا یہاں آیا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ پولیس کانسٹبل کے عہدے سے ریٹائر ہوا تھا۔ لیکن پچھلے سال جب NCR کے چلتے شہریوں کی پہچان کی جارہی تھی تو اس کانام لسٹ میں نہیں آیا۔ سرکار نے اسے بھارت کا شہری ماننے سے انکار کردیا۔ وہ اپنا مانسک سنتولن کھو بیٹھا اور detention کیمپ سے بھاگ نکلا‘‘  کسی نے خبر دی کہ وہ دہلی میں ہے تو بیٹا تلاش کرتا ہوا یہاں آیا لیکن وہ کسی طرح اس کے ساتھ جانے پر راضی نہیں ہوا۔ ایک دن میں نے اس کے کاغذ دیکھے تھے اس میں اس کی پہچان کے سبھی کاغذوں کی فوٹو کاپی ہے اب جو بھی رسید پڑی ملتی ہے اس کی بھی کاپی کروا کے اس میں جوڑ لیتا ہے۔ کہتا ہے ’’پرچی پوری ہوجائے گی تو پردھان منتری کے پاس جائوں گا انصاف مانگنے‘‘۔

باتیں کرتے کرتے ہم وہاں پہنچ گئے جہاں اس کا جسم دھول میں اٹا ہوا پڑا تھا اور پتھرائی ہوئی آنکھیں آسمان سے شکوہ کررہی تھیں۔

ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا

مکان نمبر 17۔ پاکٹ۔ 2، جسولہ، نئی دہلی۔110025،

 موبائل نمبر:9911802189

ای میل: naimajafripasha@gmail.com

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024