افسانہ: آٹھواں پہر

افسانہ: آٹھواں پہر

Jan 18, 2023

مصنف

ربیعہ سلیم مرزا

شمارہ

شمارہ - ١٦

دیدبان شمارہ ۔۱۶

افسانہ : آٹھواں پہر

ربیعہ سلیم مرزا

رات دبے پاؤں ، ادھ سوئی آنکھوں میں وہی ادھورا خواب اتر آتا ہے ۔

تب ٹھٹھرتے پاؤں سمیٹ کر تمہاری آغوش میں چھپنا چاہتی ہوں ۔۔ خالی بستر کی سلوٹوں میں تم نہیں ملتے تو تکئیے سے لپٹی ادھ کھلی نیند سے آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تمہارے جانے سے پہلے نہیں جانتی تھی کہ اس بار تم گئے تو لوٹ کر نہیں آؤگے ۔

لگتا ہے یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا، یقین ادھورا ہی ہوتا ہے کہ آنکھ کھل جاتی ہے۔

پھر بھی سر شام ہی مجھے سونے کی جلدی ہوتی ہے۔کہ شائد تم دوبارہ آؤ۔

کچھ دنوں سے کوکھ میں ہوک اٹھتی ہے ۔ٹانگیں سمیٹے گٹھڑی بنے بنے تھک جاتی ہوں۔۔۔

بستر آپ ہی آپ جھولتا رہتا ہے۔۔۔۔

تمارے بنا نیند ،خوشیاں ،رزق اور میرے پہناووں کے سارے رنگ پھیکے ہو گئے ہیں ۔اس پہ سناٹا ،جو گھر سے جاتا ہی نہیں ۔ بچوں کی کلکاریاں بھی تمہارے ساتھ ہی مر گئی ہیں ۔؟

مجھ سے اب فرمائش نہیں کرتے۔

تم کہا کرتے تھے ۔

"میں روٹی کیلئے نہیں ،بچوں کی ضرورتوں کیلئے محنت کرتا ہوں "

مجھ سے تو ان کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی ۔

میں نے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا پھر بھی خاندان والے مجھ سے آنکھیں چُرانے لگے ہیں ۔

ایک دن سپارے والی باجی کہنے لگی

"تم ایک خوبصورت کھنڈرلگنے لگی ہو"

میں نے انہیں بتایا کہ دن تو گذر جاتا ہے ۔دھند میں لمبی سرد رات کا عذاب نہیں ٹلتا ۔آنے والے دن کی سوچیں نوچتی ہیں ۔کہنے لگیں ۔۔۔

"اللہ کا ذکر اور روزہ وسوسوں سے بچاتا ہے ۔نفس قابو میں رہتا ہے "

میں اب کبھی نماز کی طرف دوڑتی ہوں،کبھی قرآن پڑھتی ہوں ۔پہلے ایک دن کا روزہ رکھتی تھی۔آج میرا اَٹھ پہرا ہے ۔

گھر میں آٹا نہیں ہے ۔

نفس قابو میں ہے ۔لیکن بھوک کا وسوسہ نہیں جاتا ۔

دیدبان شمارہ ۔۱۶

افسانہ : آٹھواں پہر

ربیعہ سلیم مرزا

رات دبے پاؤں ، ادھ سوئی آنکھوں میں وہی ادھورا خواب اتر آتا ہے ۔

تب ٹھٹھرتے پاؤں سمیٹ کر تمہاری آغوش میں چھپنا چاہتی ہوں ۔۔ خالی بستر کی سلوٹوں میں تم نہیں ملتے تو تکئیے سے لپٹی ادھ کھلی نیند سے آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تمہارے جانے سے پہلے نہیں جانتی تھی کہ اس بار تم گئے تو لوٹ کر نہیں آؤگے ۔

لگتا ہے یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا، یقین ادھورا ہی ہوتا ہے کہ آنکھ کھل جاتی ہے۔

پھر بھی سر شام ہی مجھے سونے کی جلدی ہوتی ہے۔کہ شائد تم دوبارہ آؤ۔

کچھ دنوں سے کوکھ میں ہوک اٹھتی ہے ۔ٹانگیں سمیٹے گٹھڑی بنے بنے تھک جاتی ہوں۔۔۔

بستر آپ ہی آپ جھولتا رہتا ہے۔۔۔۔

تمارے بنا نیند ،خوشیاں ،رزق اور میرے پہناووں کے سارے رنگ پھیکے ہو گئے ہیں ۔اس پہ سناٹا ،جو گھر سے جاتا ہی نہیں ۔ بچوں کی کلکاریاں بھی تمہارے ساتھ ہی مر گئی ہیں ۔؟

مجھ سے اب فرمائش نہیں کرتے۔

تم کہا کرتے تھے ۔

"میں روٹی کیلئے نہیں ،بچوں کی ضرورتوں کیلئے محنت کرتا ہوں "

مجھ سے تو ان کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی ۔

میں نے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا پھر بھی خاندان والے مجھ سے آنکھیں چُرانے لگے ہیں ۔

ایک دن سپارے والی باجی کہنے لگی

"تم ایک خوبصورت کھنڈرلگنے لگی ہو"

میں نے انہیں بتایا کہ دن تو گذر جاتا ہے ۔دھند میں لمبی سرد رات کا عذاب نہیں ٹلتا ۔آنے والے دن کی سوچیں نوچتی ہیں ۔کہنے لگیں ۔۔۔

"اللہ کا ذکر اور روزہ وسوسوں سے بچاتا ہے ۔نفس قابو میں رہتا ہے "

میں اب کبھی نماز کی طرف دوڑتی ہوں،کبھی قرآن پڑھتی ہوں ۔پہلے ایک دن کا روزہ رکھتی تھی۔آج میرا اَٹھ پہرا ہے ۔

گھر میں آٹا نہیں ہے ۔

نفس قابو میں ہے ۔لیکن بھوک کا وسوسہ نہیں جاتا ۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024