افسانہ :روشندانی کمرا

افسانہ :روشندانی کمرا

Oct 19, 2023

او ہنری کے افسانے کا ترجمہ

مصنف

ہاجرہ ریحان

دیدبان شمارہ۔ ۲۰ اور ۲۱

افسانہ :روشندانی کمرا

مصنف: او ہنری

ترجمہ:ہاجرہ ریحان

مسز پارکر آپ کو  سب سے پہلے ڈبل پارلر یعنی دو ملحقہ کمرے جن کوایک چھوٹے دروازے سے جوڑا جاتا ہے، دکھائیں گی۔ اُس کے فوائدگنوانے اوراُس میں پچھلے آٹھ سال سے بسنے والے صاحب بہادر کی خوبیوں کے بیان کے درمیان آپ ان کو ٹوکنے کی ہمت بھی نہ کیجئے گا۔ پھر کہیں جا کر آپ ہکلاتے ہوئے اپنا اعتراف پیش کر سکتے ہیں کہ آپ نہ توڈاکٹر ہیں نہ ہی دندان ساز۔ مسز پارکر کا  اس اقرارپر رد ِ عمل کچھ اس طرح آئے گا کہ اُس کے بعد آپ اپنے والدین کے لئے والہانہ جذبات رکھنے سے قاصر ہوجائیں گے، جنھوں نے  اپنی غفلت کے باعث آپ کو ایسے کسی ایک پیشے کی بھی تعلیم نہیں دلوائی جو مسز پارکر کی نظر میں اُن کا پارلر کرایہ پر لینے کی کم از کم قابلیت تھی۔

پھر آپ سیڑھیوں پر چڑھ کر دوسری منزل کا آٹھ ڈالر کرایہ پر پچھلا حصہ دیکھیں گے۔اُن کے بیان پر متفق ہو کر کہ یہ تو بارہ ڈالرمیں بھی سستا ہے کہ جناب ٹوسن بیری اُس وقت تک اس کا اتنا ہی کرایہ دیتے تھے جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے پام جزیرے کے قریب نارنجی کا کھیت سنبھالنے فلورڈانہ سدھارے، وہیں جہاں مسز میک انٹائر، سامنے کا ڈبل کمرا ذاتی باتھ روم کے ساتھ لے کر اپنی سردیاں بتاتی ہیں، پھر آپ بڑبڑائیں گے کہ آپ کو اس سے بھی کچھ سستا چاہئے۔

اگر آپ مسز پارکر کے طنز سہہ جائیں، تو پھر آپ کو جناب اسکیڈر کا بڑا ہال نما کمرا دکھایا جائے گا۔ جناب اسکیڈر کا کمرا خالی نہیں ہے۔اُس میں سارا دن بیٹھ کر وہ نغمہ سازی کرتے ہیں اور سگریٹ پھونکتے ہیں۔ مگر ہر کمرے کے متلاشی کو اُن کا کمرا ضرور دکھایا جاتا تھا کہ وہاں کے آرائشی چھجے کی تعریف مل سکے۔ہردورے کے بعد جناب اسکیڈر، ممکنہ بے دخلی کے خوف سے، کرائے کی مد میں کچھ نہ کچھ دے دیتے تھے۔

پھر...اوہ،  تب بھی...اگرآپ جیب میں پڑے گرم ہاتھوں میں بھینچے نم ہوتے تین ڈالرکے ساتھ ایک پیر پر کھڑے ہیں، اور بیٹھی ہوئی آواز میں اگر اپنی بھیانک اور ملامتی غربت کا اشتہار سناتے ہیں تو اگلے دم ہی مسز پارکر آپ کو سیاحتی رہنمائی فراہم کرنے سے دستبردار ہو جائیں گی۔وہ آپ سے منہ موڑ کر کھڑاک سے ایک لفظ ’کلارا‘پکار کر آپ کی طرف پیٹھ کئے سیڑھیوں سے نیچے روانہ ہو جائیں گی۔پھر ’کلارا‘  کالی ملازمہ، آپ کو اپنی ہمراہی میں قالین سے ڈھکے لکڑی کے زینے سے، جو چوتھی منزل کے استعمال میں تھا، لے جائے گی اور آپ کو روشندان والا کمرا یعنی روشندانی کمرا دکھائے گی۔ روشندانی کمرے نے بیچ ہال میں سات سے آٹھ فٹ کے فرش کی جگہ گھیری ہوئی تھی۔ اس کے دونوں اطراف میں سیاہ لکڑیوں سے بنی الماریاں یا گودام تھے۔

اس کے اندر ایک لوہے کا پلنگ، ہاتھ منہ دھونے کا بیسن، ایک کرسی،ایک کپڑوں کے لیے طاق تھا۔اس کی چارننگی دیواریں  تابوت  کےکناروں کی مانند آپ کے گردتنگ گھیرا ڈالے لگیں گی۔آپ کا ہاتھ رینگ کر آپ کے گلے تک جائے گا، آپ ہانپیں گے، آپ اوپر ایسے دیکھیں گے جیسے کنوئیں میں ہوں، اور ایک بار پھر سانس لیں گے۔روشندان کے شیشے سے آپ نیلی لامحدودیت کا صرف ایک مربع دیکھیں گے۔

’دو ڈالر، محترم،‘ کلاراکچھ حقارت بھرے اورکچھ اپنے علاقائی ٹسکیگی لہجے میں کہے گی۔

ایک دن مس لیسن ایک کمرے کی تلاش میں آئی تھیں۔انہوں نے ایک ٹائپ رائیٹر اُٹھایا ہوا تھاجو کسی جسیم محترمہ کے اُٹھانے پھرنے کے لائق تھا۔وہ کافی چھوٹی سی لڑکی تھیں، اُن کا خود کا بڑھنا تو ختم ہو چکا تھا مگر اُن کی آنکھیں اور بال بڑھتے جاتے تھے جیسے حیرانگی سے کہہ رہےہوں کہ،  حیرت ہے، تم نے ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیا؟‘

مسز پارکر نے اُسے بھی ڈبل پارلر دکھایا۔"اس کوٹھری میں"   اُس نے کہا،’اگرکوئی رکھناچاہے تو ڈھانچہ رکھ سکتا ہے یا بے ہوشی کی دوا،یا کوئلہ۔‘

’مگر میں نہ تو ڈاکٹر ہوں اور نہ ہی دندان ساز ہوں۔‘ مس لیسن نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔

مسز پارکر نے اُن کو حیرانگی، ترس، طنز،سرد مہری سے گھورا،جس سے وہ ہر اُس شخص کو گھورتی ہیں جو ڈاکٹر یا دندان ساز کی قابلیت نہیں رکھتے اور اُس کو ہانکتی دوسری منزل پر لے آئیں۔

آٹھ ڈالر؟‘ مس لیسن بولیں،’ڈئیر می! میں اگر کہیں سےگرین  ہوں بھی توہیٹی نہیں ہوں (ہیٹی گرین، امریکہ کی امیر ترین عورت)۔میں تو بس ایک غریب کام کرنے والی لڑکی ہوں۔ مجھے کچھ ادنیٰ اور اونچائی والا دکھا دیں۔‘جناب اسکیڈر نے کود پھاند کر سگریٹ کے ٹکڑوں کواُن کے دروازے پر دستک سننے پر صاف کیا۔

معذرت، جناب اسکائیڈر،‘ مس پار کر اُن کو دیکھتے کے ساتھ ہی اپنی دیومالائی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں۔"میں نہیں جانتی تھی کہ آپ اندر ہیں۔ میں نے خاتون سے آپ کے کمرے کے چھجے دیکھنے کی درخواست کی تھی۔یہ تو ہر طرح سے بہت دلکش ہیں۔"  مس لیسن بالکل فرشتوں کی طرح مسکراتی ہوئی بولیں۔

اُن کے جانے کے بعدجناب اسکائیڈر اپنے حالیہ ڈرامے (جو ابھی پیش نہیں ہوا) سے لمبی،کالے بالوں والی کی جگہ ایک چھوٹی، شریر، گھنے اور چمکدار بالوں اور زندہ دل ہیروئن کو ڈالنے میں بے حد مصروف ہوگئے۔

آنا ہلڈ تو اس پر اچھل ہی جائیں گی‘، جناب اسکائیڈر نے چھجوں کے مخالف سمت میں اپنے پیر اوپر ٹکا کر خود کلامی کی اور کٹل مچھلی کی طرح جو بچاؤ کے لئے دھواں چھوڑ کر بھاگتی ہے، وہ بھی سگریٹ کے دھوئیں میں گُم ہوگئے۔

بہرحال، خطرے کی گھنٹی کی مانند "کلارا" کا لفظ ساری دنیا کو مس لیسن کے پرس کی حالت ِ زار بتانے کو کافی تھا۔ایک سیاہ بونے نے اُسے دبوچا، دوزخی زینے پر چڑھ کر اُسے ایک گُنبدجس کی چھت سے ٹمٹماتی ہوئی روشنی آرہی تھی، میں پھینکا اورمنحوس اور پرُسرار انداز میں بڑبڑا کر کہا ’دو ڈالر‘۔

میں لے لوں گی۔  آہ بھرتے ہوئے مس لسین چر چراتے بستر پرگر پڑی۔

ہر روز مس لیسن کام پر نکل جاتی۔ رات میں وہ کچھ ہاتھ کی لکھائی والے صفحات لاتی اور اپنے ٹائپ رائیٹر سےاُن کی کاپی بناتی۔کسی رات اُس کے پاس کوئی کام نہ ہوتا تو وہ دوسرے کمرے کےرہائشیوں کے ساتھ  سیڑھیوں پر بیٹھ جاتی۔جب مس لیسن کی تخلیق کی منصوبہ بندی کی گئی ہوگی تو اُسے روشندانی کمرے کے لئے نہیں بنایا گیا ہوگا۔ وہ خوش دل اورمشفق ہستی تھی جو من موجی خیالوں میں گھری رہتی تھی۔ایک بار اُس نے جناب اسکائیڈر کو اپنا تین ایکٹ پر مزاحیہ ڈرامہ (پیش نہیں ہوا)، ’یہ مذاق نہیں ہے؛‘ یا ’سب وے کا وارث‘  پڑھنے کو دیا۔

جب بھی مس لیسن گھنٹہ دو گھنٹہ کے لئے سیڑھیوں پر بیٹھتی،تمام کمروں کے مرد رہائشیوں کے درمیان ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی ۔مگر مس لانگ نیک، لمبی سنہرے بالوں والی جو ایک عوامی درسگاہ میں پڑھاتی تھیں اور آپ کی ہر بات پر، ’اچھا واقعی!‘ کہتی تھیں، سب سے اوپر والی سیڑھی پر بیٹھ کر ناک سکیڑتی رہتیں اور مس ڈارن، جو ہر اتوار کونی میں تیرتی بطخوں پر گولیاں چلاتی تھیں اور ایک ڈیپارٹمنٹ اسٹور میں کام کرتی تھیں ،سب سے نچلی سیڑھیوں پر بیٹھ کر ناک سکیڑتی رہتیں۔مس لیسن بیچ کی سیڑھیوں پر بیٹھتیں اور سارے مرد جلدی سے اُن کے ارد گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے۔

خاص طور پر جناب اسکائیڈر، جنھوں نے اپنے ذہن کے ایک نجی، رومانوی (جس کا اظہار  نہیں ہوا)‍ ذاتی  ‌ زندگی   کےڈرامے میں اُسے بہت اہم کردار دے ڈالا تھا۔اور دوسرےجناب ہوور، جو چالیس سال کے، موٹے، سُرخ اور بیوقوف سے تھے۔ اور خاص طور پر نوجوان جناب ایوان، جو کھوکھلی کھانسی کھانس کر، اُسےاس بات پر مائل کرتے کہ انہیں سگریٹ چھوڑنے کی تلقین کرے۔مردوں نے اُسے ’بے حدپُرمذاق اور ہنس مکھ‘ کا درجہ دے دیا تھا مگر اوپر والی سیڑھی اور نیچے والی سیڑھی سے ناک سکیڑ نے کو ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔

٭   ٭   ٭   ٭   ٭

میری دعا ہے کہ یہ ڈرامہ وہیں پر روک دیں جب کورس عین اسٹیج کی روشنی کے پاس پہنچیں اور جناب ہوور کے موٹاپے پر ایک ڈرامائی آنسو گرایا جائے۔ سازوں سے چربی کے سانحہ، ھجم کے نقصان، فربہ بدن کی آفت کی دُھن بجانے کا کہیں۔ کر دیکھیں، شیکسپئیر کے فلسٹاف نے موٹاپے کے لئے وہ رومانویت اجاگر نہیں کی جو رومیو اپنی لاغر پسلیوں کے باعث سوکھے پن کے لئے پھیلاگیا ہے۔ایک عاشق آہ تو بھر سکتا ہے مگر اسے پھونکنا نہیں چاہئے۔ مومس کی ٹرین میں موٹے آدمی بلائے گئے ہیں۔ بے کار میں وفادار ترین دل باون انچ کے بیلٹ کے اوپر دھڑک رہے ہیں۔دور ہو، ہوور! ہوور، چوالیس سالہ، بھاری بھرکم، بے وقوف اور موٹے، ہیلن اپنے آپ کو خود اُٹھا لائے گی، ہوور، چوالیس سالہ، بھاری بھرکم، بیوقوف اور موٹا،  تباہی کے لئے گوشت ہے۔تمھارے لئے تو کبھی بھی کوئی امکان نہیں تھا، ہوور۔

لہذا جب ایک گرمی کی شام مسز پارکر کے کمرے کےرہائشی بیٹھے ہوئے تھے، مس لیسن نے فلک پر نظر دوڑائی اور اپنے  پُر مسرت  انداز میں ہنس پڑیں۔

ارے، وہ تو بیلی جیکسن ہے! میں تو اُسے یہاں نیچے سے بھی دیکھ سکتی ہوں۔‘

سب نے اوپر دیکھا...کچھ نے تو اونچی عمارتوں کی کھڑکیوں کو، کچھ نے  اپنی نظریں اُڑتے جہاز پر جیکسن کی تلاش میں لگائیں۔

"یہ وہ ستارہ ہے" مس لیسن نے اپنی ننھی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے سمجھایا۔ "بڑا والا نہیں جو چمک رہا ہے...اُس کے قریب جما ہوا نیلا والا۔" میں اسے ہر رات اپنے روشندان سے دیکھتی ہوں۔ میں نے اسے بیلی جیکسن کا نام دیا ہے۔

"اچھا، واقعی! مس لانگ نیک بولیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ ماہر  ِ فلکیات ہیں، مس لیسن۔"  

"جی، بالکل!" ، چھوٹے ستارہ باز نے کہا،میں ان سب کو اتنا ہی جانتی ہوں جتنا یہ سب  اگلے موسم  ِ خزاں میں مارس میں پہن کر جانے کے لئے آستینوں کے انداز سے واقف  ہیں۔

"اچھا، واقعی!‘ مس لونگ نیکرنے کہا،‘آپ  جس ستارے کا حوالہ دے رہی ہیں وہ گاما ہے، جو کے کیسیوپیا کے نکشتر کا حصہ ہے۔ یہ تقریباً   اس دوسرے طول البلد کے دائرے سے گذرتا   ہے جو زمین کی سطح اور زمینی قطبوں

پر دی گئ ہے ۔"

" اوہ،نو جوان جناب ایوان نے کہا، میرے خیال میں بیلی جیکسن اس کے لئے کافی اچھا نام ہے۔"

"ایسا ہی ہےجناب ،ہوور نے صاف طور سے مس لونگ نیکرکے خلاف جاتے ہوئے کہا۔’میرے خیال میں مس لیسن کوستاروں کے نام رکھنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ان پرانے ماہر  ِ فلکیات میں سے کسی کو تھا۔"

اچھا، واقعی!" مس لونگ نیکر نے کہا۔

"میں سوچتی ہوں کہ یہ شوٹنگ اسٹار یعنی شہاب ِ ثاقب ہے۔"مس ڈورن نے بیان دیا۔ میں نے اتوار کو کونی گیلری میں دس میں سے نو بطخ اور ایک خرگوش مارا۔

یہ یہاں نیچے سے اتنا اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔ مس لیسن گویا ہوئیں۔تم کو اسے میرے کمرے سے دیکھنا چاہئے۔پتہ ہے کنوئیں کی تہہ سے آپ دن میں بھی ستاروں کو دیکھ سکتے ہیں۔ رات میں میرا کمراکوئلے کی کان کے سوراخ جیسا ہو جاتا ہے، اور یہ بیلی جیکسن کو ایک بڑے سے ہیرے کے بروچ کی طرح دکھانے لگتا ہے جس کورات اپنے کیمونو (ایک لمبا ،روائتی جاپانی لباس)پر سجاتی ہے۔

اُس کے بعد ایسا وقت آیا جب مس لیسن کاپی کرنے کے لئے زیادہ کاغذات گھر پر نہ لاتیں۔اور جب وہ صبح نکلتیں، کام کرنے کے بجائے، وہ مختلف آفس کے چکر لگاتیں اور چپڑاسیوں کے ذریعے رستے ہوئے سرد انکار سے اپنے دل کو پگھلنے دیتیں۔یہ سب چلتا ہی چلا گیا۔

ایک شام آئی جب وہ تھکی ہاری مسز پارکر کے گھر کی چڑھائی چڑھ رہی تھی اس وقت وہ ہمیشہ رسٹورنٹ سے اپنا رات کا کھانا کھا کر آ رہی ہوتی تھی۔ لیکن اُس نے رات کا کھانا نہیں کھایا تھا۔

جیسے ہی وہ ہال میں داخل ہوئی جناب ہوور اُن سے ملے اور اس موقع سے فائدہ اُٹھایا۔اُنھوںنے اُس سے شادی کی درخواست کی، اور اُن کا موٹاپہ اُس پر کسی برفانی تودے کی مانند گرنے ہی والا تھا۔ اُس نے خود کو بچایا اورجنگلے کے ستون کو پکڑ لیا۔انہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تو اُس نے اپنا ہاتھ جنگلے سے ہٹا کر اُن کے چہرے پر نقاہت سے مارا۔قدم بہ قدم وہ خود کو جنگلے سے گھسیٹتی ہوئی اوپر گئی۔ وہ جناب اسکائیڈر کے دروازے سے گزری جو سُرخ روشنائی سے اپنے (غیر متوقع) مزاحیہ ڈرامہ کے لئے اسٹیج پر،مائرٹل ڈلورم (مس لیسن) کا ایک سرے پر موجود ’ایل‘ سے الگ ہو کر ناچتے ہوئے دوسرے سرے پر ’کاونٹ‘ تک جانے کا سین لکھ رہے تھے۔  قالین لگے لکڑی کے زینے پر وہ رینگنے لگی اور آخرکار روشندانی کمرے کا دروازہ کھولا۔

وہ نقاہت کے مارے چراغ جلانے یا کپڑے اتارنے کی بھی ہمت نہ رکھتی تھی۔وہ لوہے کی چارپائی پر گر گئی، اُس کا نازک جسم مشکل سے  بستر کے زنگ آلود کمانیوں سے آواز پیداکر پا رہا تھا۔

اور اُس کمرے کے جہنم میں، اُس نے مشکل سے اپنی بند پلکیں کھولیں اور مسکرائی۔

کہ بیلی جیکسن اُس کے عین اوپر چمک رہا تھا، مطمئن اور روشن اور پوری رات ٹہرے رہنے والا۔ اُس کی کوئی دنیا نہیں تھی۔وہ تاریکی کے

گڑھے میں دھنسی ہوئی تھی، مگر ساتھ میں وہ زرد روشنی کا مربع جو اُس ستارے کو گھیرتا تھاجس کومن کی موج میں، اور اوہ، بے سوداُس نے ایک نام دیا تھا۔ مس لونگ نیکر ٹھیک ہی ہیں، وہ گاما تھا، کیسیوپیا  نکشتر کا اور بیلی جیکسن نہیں تھا۔اور پھر بھی وہ اُسے گاما ہونے نہیں دے سکتی تھی۔

جب وہ پیٹھ کے بل لیٹی تھی تو اس نے دو بار بازو اٹھانے کی کوشش کی۔تیسری بار اس نےاپنے ہونٹوں پردو پتلی انگلیاں لگائیں اور بلی جیکسن کو اس کالے گڑھے سے ایک بوسہ دیا اور اس کا بازو ڈھیلا ہو کر گر گیا۔

الودع، بیلی،‘ اُس نے نقاہت سے سرگوشی کی۔’تم لاکھوں میلوں دور ہو اور ایک بار بھی نہیں دمکتے۔ مگر تم وہیں رہتے ہو جہاں سے میں تم کو کافی وقت تک دیکھ سکتی ہوں جب کہ اُدھر دیکھنے کے لئے سوائے اندھیرے کے کچھ نہیں ہوتا، ہو ناں تم؟... میلوں دور...الوداع، بیلی جیکسن۔

کلارا، کالی ملازمہ نے اگلے روز دس بجے دروازہ بند پایا،  تب اُن سب نے اُسے زبردستی کھولا۔ سرکا، ہتھیلیوں کی مالش اور یہاں تک کہ ہیسٹریا کے لئے استعمال کئے جانے والے جلے پنکھ بھی کارگر نہ ہوئے، کوئی ’ایمبولنس کو فون کرنے کے لیے بھاگا۔

جومقررہ وقت میں کچھ زیادہ ہی سائرن بجاتی دروازے پر آ کھڑی ہوئی، اور نوجوان طبیب، سفید سوتی کوٹ میں،تیار، محترک، پُر اعتماد، اپنے ملائم تھوڑا ہشاش بشاش اور تھوڑا سنجیدہ چہرہ لئے سیڑھیاں چڑھا۔

’ایمبولنس کال 49 سے آئی ہے،‘اُس نے مختصراً کہا۔ ’کیا پریشانی ہے؟‘

اوہ جی، ڈاکٹر، مسز پارکر نے ناک سُکیڑ کر کہا، گویا اُن کی پریشانی کہ گھر پر کوئ ایسی پریشانی ہو، جو اس گھر پر آئ، اس پریشانی سے زیادہ سنگین تھی۔ ’میں سوچ نہیں پا رہی کہ اُس کے ساتھ کیا معاملہ ہو سکتا ہے۔ کچھ نہیں جو اُس کو ہوش میں لانے کے لئے ہم نے نہ کیا ہو۔ یہ جوان عورت ہے، مس  ایلسی...جی، مس ایلسی لیسن۔ اس سے پہلے میرے گھر میں کبھی بھی۔۔۔

کمرا کون سا؟‘ڈاکٹر ہولناک آواز میں چلا یا، جس کے لئے مسز پارکر بالکل اجنبی تھیں۔

"وہ روشندانی کمرا۔"

.صاف ظاہر تھا کہ ایمبولنس ڈاکٹر، ایسے بالائی روشندان کے کمروں کی جگہ سے واقف تھا۔ وہ ایک ساتھ چار پانچ سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلا گیا۔ مسز پارکر آہستہ آہستہ، جیسا کے ان کے وقار کا تقاضہ تھا، تعاقب میں پہنچیں۔

پہلی منزل پر وہ اُس ماہر ِ فلکیات کواپنے ہاتھوں میں کو اُٹھائے واپس ہوتے ہوئے ملیں۔ وہ رُکا اور اپنے منہ میں موجودپختہ تجربے کے حامل نشتر کا آزدانہ استعمال کرنے لگا، مگر چلایا نہیں۔دھیرے دھیرے مسز پارکر کی حالت اکڑے ہوئے کپڑے کا کیلوں سے نُچنے پر چُڑمُڑ ہو جانے جیسی ہوگئی۔کبھی کبھی اُن کے متجسس کمرے کے کرایہ دار اُن سے پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر نے اُنھیں کیا کہا تھا۔

رہنے دو اُسے،وہ جواب دیتیں۔ اگر میں وہ سب سُن لینے پر معاف کر دی جاؤں،تو بھی میں کافی مطمئین ہو جاؤں گی۔

ایمبولنس ڈاکٹر اپنا بوجھ اُٹھائے اُن شکا ریوں کے جھنڈ کے بیچ سے گزرتا چلا جا رہا تھاجو سُن گُن لینے کی دوڑ لگاتے ہیں، اور یہاں تک کہ وہ بھی شرمسار ہوکر فٹ پاتھ سے ہٹتے چلے گئے کہ اُس کا چہرہ تو ایسا ہو رہا تھا جیسے کوئی اپنے کسی مردے کو لے کر نکلتا ہے۔

انہوں نے دیکھا کہ اُس کے ہاتھوں میں جو کوئی بھی تھا اُسے اُس نے ایمبولنس میں اُس کے لئے تیار کردہ بستر پر نہیں لٹایا۔

اور اُس نے جوکچھ بھی کہا تو ڈرائیور سے اتنا ہی کہ ’طوفان کی طرح چلاؤ،  ولسن

اتنا ہی ہوا۔ کیا یہ کوئی کہانی ہے؟ اگلی صبح کے اخبار میں، میں نے ایک چھوٹی سی خبر پڑھی، اور اُس کا آخری جملہ واقعات کو یکجا کرنے میں شاید آپ کا مددگار ثابت ہوسکے (جیسے مجھے بھی اُس سے کافی مدد ملی)۔

اُس میں ایک نوجوان خاتون کے بیلوویو ہسپتال کے استقبالیہ تک پہنچنے کا بتایا گیا تھا، جس کو نمبر 49 ایسٹ ... اسٹریٹ سے نکال لایا گیا تھا جو تنگدستی کے باعث بھوک کی وجہ سے ہونے والی کمزوری کا شکار تھی۔ یہ ان الفاظ کے ساتھ ختم کیا گیا

ڈاکٹر ویلیم جیکسن، ایمبولنس ڈاکٹر، جنھوں نے اس کیس پر حاضری دی تھی، کہتے ہیں، مریض صحت یاب ہو جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

The Skylight room

دیدبان شمارہ۔ ۲۰ اور ۲۱

افسانہ :روشندانی کمرا

مصنف: او ہنری

ترجمہ:ہاجرہ ریحان

مسز پارکر آپ کو  سب سے پہلے ڈبل پارلر یعنی دو ملحقہ کمرے جن کوایک چھوٹے دروازے سے جوڑا جاتا ہے، دکھائیں گی۔ اُس کے فوائدگنوانے اوراُس میں پچھلے آٹھ سال سے بسنے والے صاحب بہادر کی خوبیوں کے بیان کے درمیان آپ ان کو ٹوکنے کی ہمت بھی نہ کیجئے گا۔ پھر کہیں جا کر آپ ہکلاتے ہوئے اپنا اعتراف پیش کر سکتے ہیں کہ آپ نہ توڈاکٹر ہیں نہ ہی دندان ساز۔ مسز پارکر کا  اس اقرارپر رد ِ عمل کچھ اس طرح آئے گا کہ اُس کے بعد آپ اپنے والدین کے لئے والہانہ جذبات رکھنے سے قاصر ہوجائیں گے، جنھوں نے  اپنی غفلت کے باعث آپ کو ایسے کسی ایک پیشے کی بھی تعلیم نہیں دلوائی جو مسز پارکر کی نظر میں اُن کا پارلر کرایہ پر لینے کی کم از کم قابلیت تھی۔

پھر آپ سیڑھیوں پر چڑھ کر دوسری منزل کا آٹھ ڈالر کرایہ پر پچھلا حصہ دیکھیں گے۔اُن کے بیان پر متفق ہو کر کہ یہ تو بارہ ڈالرمیں بھی سستا ہے کہ جناب ٹوسن بیری اُس وقت تک اس کا اتنا ہی کرایہ دیتے تھے جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے پام جزیرے کے قریب نارنجی کا کھیت سنبھالنے فلورڈانہ سدھارے، وہیں جہاں مسز میک انٹائر، سامنے کا ڈبل کمرا ذاتی باتھ روم کے ساتھ لے کر اپنی سردیاں بتاتی ہیں، پھر آپ بڑبڑائیں گے کہ آپ کو اس سے بھی کچھ سستا چاہئے۔

اگر آپ مسز پارکر کے طنز سہہ جائیں، تو پھر آپ کو جناب اسکیڈر کا بڑا ہال نما کمرا دکھایا جائے گا۔ جناب اسکیڈر کا کمرا خالی نہیں ہے۔اُس میں سارا دن بیٹھ کر وہ نغمہ سازی کرتے ہیں اور سگریٹ پھونکتے ہیں۔ مگر ہر کمرے کے متلاشی کو اُن کا کمرا ضرور دکھایا جاتا تھا کہ وہاں کے آرائشی چھجے کی تعریف مل سکے۔ہردورے کے بعد جناب اسکیڈر، ممکنہ بے دخلی کے خوف سے، کرائے کی مد میں کچھ نہ کچھ دے دیتے تھے۔

پھر...اوہ،  تب بھی...اگرآپ جیب میں پڑے گرم ہاتھوں میں بھینچے نم ہوتے تین ڈالرکے ساتھ ایک پیر پر کھڑے ہیں، اور بیٹھی ہوئی آواز میں اگر اپنی بھیانک اور ملامتی غربت کا اشتہار سناتے ہیں تو اگلے دم ہی مسز پارکر آپ کو سیاحتی رہنمائی فراہم کرنے سے دستبردار ہو جائیں گی۔وہ آپ سے منہ موڑ کر کھڑاک سے ایک لفظ ’کلارا‘پکار کر آپ کی طرف پیٹھ کئے سیڑھیوں سے نیچے روانہ ہو جائیں گی۔پھر ’کلارا‘  کالی ملازمہ، آپ کو اپنی ہمراہی میں قالین سے ڈھکے لکڑی کے زینے سے، جو چوتھی منزل کے استعمال میں تھا، لے جائے گی اور آپ کو روشندان والا کمرا یعنی روشندانی کمرا دکھائے گی۔ روشندانی کمرے نے بیچ ہال میں سات سے آٹھ فٹ کے فرش کی جگہ گھیری ہوئی تھی۔ اس کے دونوں اطراف میں سیاہ لکڑیوں سے بنی الماریاں یا گودام تھے۔

اس کے اندر ایک لوہے کا پلنگ، ہاتھ منہ دھونے کا بیسن، ایک کرسی،ایک کپڑوں کے لیے طاق تھا۔اس کی چارننگی دیواریں  تابوت  کےکناروں کی مانند آپ کے گردتنگ گھیرا ڈالے لگیں گی۔آپ کا ہاتھ رینگ کر آپ کے گلے تک جائے گا، آپ ہانپیں گے، آپ اوپر ایسے دیکھیں گے جیسے کنوئیں میں ہوں، اور ایک بار پھر سانس لیں گے۔روشندان کے شیشے سے آپ نیلی لامحدودیت کا صرف ایک مربع دیکھیں گے۔

’دو ڈالر، محترم،‘ کلاراکچھ حقارت بھرے اورکچھ اپنے علاقائی ٹسکیگی لہجے میں کہے گی۔

ایک دن مس لیسن ایک کمرے کی تلاش میں آئی تھیں۔انہوں نے ایک ٹائپ رائیٹر اُٹھایا ہوا تھاجو کسی جسیم محترمہ کے اُٹھانے پھرنے کے لائق تھا۔وہ کافی چھوٹی سی لڑکی تھیں، اُن کا خود کا بڑھنا تو ختم ہو چکا تھا مگر اُن کی آنکھیں اور بال بڑھتے جاتے تھے جیسے حیرانگی سے کہہ رہےہوں کہ،  حیرت ہے، تم نے ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیا؟‘

مسز پارکر نے اُسے بھی ڈبل پارلر دکھایا۔"اس کوٹھری میں"   اُس نے کہا،’اگرکوئی رکھناچاہے تو ڈھانچہ رکھ سکتا ہے یا بے ہوشی کی دوا،یا کوئلہ۔‘

’مگر میں نہ تو ڈاکٹر ہوں اور نہ ہی دندان ساز ہوں۔‘ مس لیسن نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔

مسز پارکر نے اُن کو حیرانگی، ترس، طنز،سرد مہری سے گھورا،جس سے وہ ہر اُس شخص کو گھورتی ہیں جو ڈاکٹر یا دندان ساز کی قابلیت نہیں رکھتے اور اُس کو ہانکتی دوسری منزل پر لے آئیں۔

آٹھ ڈالر؟‘ مس لیسن بولیں،’ڈئیر می! میں اگر کہیں سےگرین  ہوں بھی توہیٹی نہیں ہوں (ہیٹی گرین، امریکہ کی امیر ترین عورت)۔میں تو بس ایک غریب کام کرنے والی لڑکی ہوں۔ مجھے کچھ ادنیٰ اور اونچائی والا دکھا دیں۔‘جناب اسکیڈر نے کود پھاند کر سگریٹ کے ٹکڑوں کواُن کے دروازے پر دستک سننے پر صاف کیا۔

معذرت، جناب اسکائیڈر،‘ مس پار کر اُن کو دیکھتے کے ساتھ ہی اپنی دیومالائی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں۔"میں نہیں جانتی تھی کہ آپ اندر ہیں۔ میں نے خاتون سے آپ کے کمرے کے چھجے دیکھنے کی درخواست کی تھی۔یہ تو ہر طرح سے بہت دلکش ہیں۔"  مس لیسن بالکل فرشتوں کی طرح مسکراتی ہوئی بولیں۔

اُن کے جانے کے بعدجناب اسکائیڈر اپنے حالیہ ڈرامے (جو ابھی پیش نہیں ہوا) سے لمبی،کالے بالوں والی کی جگہ ایک چھوٹی، شریر، گھنے اور چمکدار بالوں اور زندہ دل ہیروئن کو ڈالنے میں بے حد مصروف ہوگئے۔

آنا ہلڈ تو اس پر اچھل ہی جائیں گی‘، جناب اسکائیڈر نے چھجوں کے مخالف سمت میں اپنے پیر اوپر ٹکا کر خود کلامی کی اور کٹل مچھلی کی طرح جو بچاؤ کے لئے دھواں چھوڑ کر بھاگتی ہے، وہ بھی سگریٹ کے دھوئیں میں گُم ہوگئے۔

بہرحال، خطرے کی گھنٹی کی مانند "کلارا" کا لفظ ساری دنیا کو مس لیسن کے پرس کی حالت ِ زار بتانے کو کافی تھا۔ایک سیاہ بونے نے اُسے دبوچا، دوزخی زینے پر چڑھ کر اُسے ایک گُنبدجس کی چھت سے ٹمٹماتی ہوئی روشنی آرہی تھی، میں پھینکا اورمنحوس اور پرُسرار انداز میں بڑبڑا کر کہا ’دو ڈالر‘۔

میں لے لوں گی۔  آہ بھرتے ہوئے مس لسین چر چراتے بستر پرگر پڑی۔

ہر روز مس لیسن کام پر نکل جاتی۔ رات میں وہ کچھ ہاتھ کی لکھائی والے صفحات لاتی اور اپنے ٹائپ رائیٹر سےاُن کی کاپی بناتی۔کسی رات اُس کے پاس کوئی کام نہ ہوتا تو وہ دوسرے کمرے کےرہائشیوں کے ساتھ  سیڑھیوں پر بیٹھ جاتی۔جب مس لیسن کی تخلیق کی منصوبہ بندی کی گئی ہوگی تو اُسے روشندانی کمرے کے لئے نہیں بنایا گیا ہوگا۔ وہ خوش دل اورمشفق ہستی تھی جو من موجی خیالوں میں گھری رہتی تھی۔ایک بار اُس نے جناب اسکائیڈر کو اپنا تین ایکٹ پر مزاحیہ ڈرامہ (پیش نہیں ہوا)، ’یہ مذاق نہیں ہے؛‘ یا ’سب وے کا وارث‘  پڑھنے کو دیا۔

جب بھی مس لیسن گھنٹہ دو گھنٹہ کے لئے سیڑھیوں پر بیٹھتی،تمام کمروں کے مرد رہائشیوں کے درمیان ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی ۔مگر مس لانگ نیک، لمبی سنہرے بالوں والی جو ایک عوامی درسگاہ میں پڑھاتی تھیں اور آپ کی ہر بات پر، ’اچھا واقعی!‘ کہتی تھیں، سب سے اوپر والی سیڑھی پر بیٹھ کر ناک سکیڑتی رہتیں اور مس ڈارن، جو ہر اتوار کونی میں تیرتی بطخوں پر گولیاں چلاتی تھیں اور ایک ڈیپارٹمنٹ اسٹور میں کام کرتی تھیں ،سب سے نچلی سیڑھیوں پر بیٹھ کر ناک سکیڑتی رہتیں۔مس لیسن بیچ کی سیڑھیوں پر بیٹھتیں اور سارے مرد جلدی سے اُن کے ارد گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے۔

خاص طور پر جناب اسکائیڈر، جنھوں نے اپنے ذہن کے ایک نجی، رومانوی (جس کا اظہار  نہیں ہوا)‍ ذاتی  ‌ زندگی   کےڈرامے میں اُسے بہت اہم کردار دے ڈالا تھا۔اور دوسرےجناب ہوور، جو چالیس سال کے، موٹے، سُرخ اور بیوقوف سے تھے۔ اور خاص طور پر نوجوان جناب ایوان، جو کھوکھلی کھانسی کھانس کر، اُسےاس بات پر مائل کرتے کہ انہیں سگریٹ چھوڑنے کی تلقین کرے۔مردوں نے اُسے ’بے حدپُرمذاق اور ہنس مکھ‘ کا درجہ دے دیا تھا مگر اوپر والی سیڑھی اور نیچے والی سیڑھی سے ناک سکیڑ نے کو ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔

٭   ٭   ٭   ٭   ٭

میری دعا ہے کہ یہ ڈرامہ وہیں پر روک دیں جب کورس عین اسٹیج کی روشنی کے پاس پہنچیں اور جناب ہوور کے موٹاپے پر ایک ڈرامائی آنسو گرایا جائے۔ سازوں سے چربی کے سانحہ، ھجم کے نقصان، فربہ بدن کی آفت کی دُھن بجانے کا کہیں۔ کر دیکھیں، شیکسپئیر کے فلسٹاف نے موٹاپے کے لئے وہ رومانویت اجاگر نہیں کی جو رومیو اپنی لاغر پسلیوں کے باعث سوکھے پن کے لئے پھیلاگیا ہے۔ایک عاشق آہ تو بھر سکتا ہے مگر اسے پھونکنا نہیں چاہئے۔ مومس کی ٹرین میں موٹے آدمی بلائے گئے ہیں۔ بے کار میں وفادار ترین دل باون انچ کے بیلٹ کے اوپر دھڑک رہے ہیں۔دور ہو، ہوور! ہوور، چوالیس سالہ، بھاری بھرکم، بے وقوف اور موٹے، ہیلن اپنے آپ کو خود اُٹھا لائے گی، ہوور، چوالیس سالہ، بھاری بھرکم، بیوقوف اور موٹا،  تباہی کے لئے گوشت ہے۔تمھارے لئے تو کبھی بھی کوئی امکان نہیں تھا، ہوور۔

لہذا جب ایک گرمی کی شام مسز پارکر کے کمرے کےرہائشی بیٹھے ہوئے تھے، مس لیسن نے فلک پر نظر دوڑائی اور اپنے  پُر مسرت  انداز میں ہنس پڑیں۔

ارے، وہ تو بیلی جیکسن ہے! میں تو اُسے یہاں نیچے سے بھی دیکھ سکتی ہوں۔‘

سب نے اوپر دیکھا...کچھ نے تو اونچی عمارتوں کی کھڑکیوں کو، کچھ نے  اپنی نظریں اُڑتے جہاز پر جیکسن کی تلاش میں لگائیں۔

"یہ وہ ستارہ ہے" مس لیسن نے اپنی ننھی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے سمجھایا۔ "بڑا والا نہیں جو چمک رہا ہے...اُس کے قریب جما ہوا نیلا والا۔" میں اسے ہر رات اپنے روشندان سے دیکھتی ہوں۔ میں نے اسے بیلی جیکسن کا نام دیا ہے۔

"اچھا، واقعی! مس لانگ نیک بولیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ ماہر  ِ فلکیات ہیں، مس لیسن۔"  

"جی، بالکل!" ، چھوٹے ستارہ باز نے کہا،میں ان سب کو اتنا ہی جانتی ہوں جتنا یہ سب  اگلے موسم  ِ خزاں میں مارس میں پہن کر جانے کے لئے آستینوں کے انداز سے واقف  ہیں۔

"اچھا، واقعی!‘ مس لونگ نیکرنے کہا،‘آپ  جس ستارے کا حوالہ دے رہی ہیں وہ گاما ہے، جو کے کیسیوپیا کے نکشتر کا حصہ ہے۔ یہ تقریباً   اس دوسرے طول البلد کے دائرے سے گذرتا   ہے جو زمین کی سطح اور زمینی قطبوں

پر دی گئ ہے ۔"

" اوہ،نو جوان جناب ایوان نے کہا، میرے خیال میں بیلی جیکسن اس کے لئے کافی اچھا نام ہے۔"

"ایسا ہی ہےجناب ،ہوور نے صاف طور سے مس لونگ نیکرکے خلاف جاتے ہوئے کہا۔’میرے خیال میں مس لیسن کوستاروں کے نام رکھنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ان پرانے ماہر  ِ فلکیات میں سے کسی کو تھا۔"

اچھا، واقعی!" مس لونگ نیکر نے کہا۔

"میں سوچتی ہوں کہ یہ شوٹنگ اسٹار یعنی شہاب ِ ثاقب ہے۔"مس ڈورن نے بیان دیا۔ میں نے اتوار کو کونی گیلری میں دس میں سے نو بطخ اور ایک خرگوش مارا۔

یہ یہاں نیچے سے اتنا اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔ مس لیسن گویا ہوئیں۔تم کو اسے میرے کمرے سے دیکھنا چاہئے۔پتہ ہے کنوئیں کی تہہ سے آپ دن میں بھی ستاروں کو دیکھ سکتے ہیں۔ رات میں میرا کمراکوئلے کی کان کے سوراخ جیسا ہو جاتا ہے، اور یہ بیلی جیکسن کو ایک بڑے سے ہیرے کے بروچ کی طرح دکھانے لگتا ہے جس کورات اپنے کیمونو (ایک لمبا ،روائتی جاپانی لباس)پر سجاتی ہے۔

اُس کے بعد ایسا وقت آیا جب مس لیسن کاپی کرنے کے لئے زیادہ کاغذات گھر پر نہ لاتیں۔اور جب وہ صبح نکلتیں، کام کرنے کے بجائے، وہ مختلف آفس کے چکر لگاتیں اور چپڑاسیوں کے ذریعے رستے ہوئے سرد انکار سے اپنے دل کو پگھلنے دیتیں۔یہ سب چلتا ہی چلا گیا۔

ایک شام آئی جب وہ تھکی ہاری مسز پارکر کے گھر کی چڑھائی چڑھ رہی تھی اس وقت وہ ہمیشہ رسٹورنٹ سے اپنا رات کا کھانا کھا کر آ رہی ہوتی تھی۔ لیکن اُس نے رات کا کھانا نہیں کھایا تھا۔

جیسے ہی وہ ہال میں داخل ہوئی جناب ہوور اُن سے ملے اور اس موقع سے فائدہ اُٹھایا۔اُنھوںنے اُس سے شادی کی درخواست کی، اور اُن کا موٹاپہ اُس پر کسی برفانی تودے کی مانند گرنے ہی والا تھا۔ اُس نے خود کو بچایا اورجنگلے کے ستون کو پکڑ لیا۔انہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تو اُس نے اپنا ہاتھ جنگلے سے ہٹا کر اُن کے چہرے پر نقاہت سے مارا۔قدم بہ قدم وہ خود کو جنگلے سے گھسیٹتی ہوئی اوپر گئی۔ وہ جناب اسکائیڈر کے دروازے سے گزری جو سُرخ روشنائی سے اپنے (غیر متوقع) مزاحیہ ڈرامہ کے لئے اسٹیج پر،مائرٹل ڈلورم (مس لیسن) کا ایک سرے پر موجود ’ایل‘ سے الگ ہو کر ناچتے ہوئے دوسرے سرے پر ’کاونٹ‘ تک جانے کا سین لکھ رہے تھے۔  قالین لگے لکڑی کے زینے پر وہ رینگنے لگی اور آخرکار روشندانی کمرے کا دروازہ کھولا۔

وہ نقاہت کے مارے چراغ جلانے یا کپڑے اتارنے کی بھی ہمت نہ رکھتی تھی۔وہ لوہے کی چارپائی پر گر گئی، اُس کا نازک جسم مشکل سے  بستر کے زنگ آلود کمانیوں سے آواز پیداکر پا رہا تھا۔

اور اُس کمرے کے جہنم میں، اُس نے مشکل سے اپنی بند پلکیں کھولیں اور مسکرائی۔

کہ بیلی جیکسن اُس کے عین اوپر چمک رہا تھا، مطمئن اور روشن اور پوری رات ٹہرے رہنے والا۔ اُس کی کوئی دنیا نہیں تھی۔وہ تاریکی کے

گڑھے میں دھنسی ہوئی تھی، مگر ساتھ میں وہ زرد روشنی کا مربع جو اُس ستارے کو گھیرتا تھاجس کومن کی موج میں، اور اوہ، بے سوداُس نے ایک نام دیا تھا۔ مس لونگ نیکر ٹھیک ہی ہیں، وہ گاما تھا، کیسیوپیا  نکشتر کا اور بیلی جیکسن نہیں تھا۔اور پھر بھی وہ اُسے گاما ہونے نہیں دے سکتی تھی۔

جب وہ پیٹھ کے بل لیٹی تھی تو اس نے دو بار بازو اٹھانے کی کوشش کی۔تیسری بار اس نےاپنے ہونٹوں پردو پتلی انگلیاں لگائیں اور بلی جیکسن کو اس کالے گڑھے سے ایک بوسہ دیا اور اس کا بازو ڈھیلا ہو کر گر گیا۔

الودع، بیلی،‘ اُس نے نقاہت سے سرگوشی کی۔’تم لاکھوں میلوں دور ہو اور ایک بار بھی نہیں دمکتے۔ مگر تم وہیں رہتے ہو جہاں سے میں تم کو کافی وقت تک دیکھ سکتی ہوں جب کہ اُدھر دیکھنے کے لئے سوائے اندھیرے کے کچھ نہیں ہوتا، ہو ناں تم؟... میلوں دور...الوداع، بیلی جیکسن۔

کلارا، کالی ملازمہ نے اگلے روز دس بجے دروازہ بند پایا،  تب اُن سب نے اُسے زبردستی کھولا۔ سرکا، ہتھیلیوں کی مالش اور یہاں تک کہ ہیسٹریا کے لئے استعمال کئے جانے والے جلے پنکھ بھی کارگر نہ ہوئے، کوئی ’ایمبولنس کو فون کرنے کے لیے بھاگا۔

جومقررہ وقت میں کچھ زیادہ ہی سائرن بجاتی دروازے پر آ کھڑی ہوئی، اور نوجوان طبیب، سفید سوتی کوٹ میں،تیار، محترک، پُر اعتماد، اپنے ملائم تھوڑا ہشاش بشاش اور تھوڑا سنجیدہ چہرہ لئے سیڑھیاں چڑھا۔

’ایمبولنس کال 49 سے آئی ہے،‘اُس نے مختصراً کہا۔ ’کیا پریشانی ہے؟‘

اوہ جی، ڈاکٹر، مسز پارکر نے ناک سُکیڑ کر کہا، گویا اُن کی پریشانی کہ گھر پر کوئ ایسی پریشانی ہو، جو اس گھر پر آئ، اس پریشانی سے زیادہ سنگین تھی۔ ’میں سوچ نہیں پا رہی کہ اُس کے ساتھ کیا معاملہ ہو سکتا ہے۔ کچھ نہیں جو اُس کو ہوش میں لانے کے لئے ہم نے نہ کیا ہو۔ یہ جوان عورت ہے، مس  ایلسی...جی، مس ایلسی لیسن۔ اس سے پہلے میرے گھر میں کبھی بھی۔۔۔

کمرا کون سا؟‘ڈاکٹر ہولناک آواز میں چلا یا، جس کے لئے مسز پارکر بالکل اجنبی تھیں۔

"وہ روشندانی کمرا۔"

.صاف ظاہر تھا کہ ایمبولنس ڈاکٹر، ایسے بالائی روشندان کے کمروں کی جگہ سے واقف تھا۔ وہ ایک ساتھ چار پانچ سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلا گیا۔ مسز پارکر آہستہ آہستہ، جیسا کے ان کے وقار کا تقاضہ تھا، تعاقب میں پہنچیں۔

پہلی منزل پر وہ اُس ماہر ِ فلکیات کواپنے ہاتھوں میں کو اُٹھائے واپس ہوتے ہوئے ملیں۔ وہ رُکا اور اپنے منہ میں موجودپختہ تجربے کے حامل نشتر کا آزدانہ استعمال کرنے لگا، مگر چلایا نہیں۔دھیرے دھیرے مسز پارکر کی حالت اکڑے ہوئے کپڑے کا کیلوں سے نُچنے پر چُڑمُڑ ہو جانے جیسی ہوگئی۔کبھی کبھی اُن کے متجسس کمرے کے کرایہ دار اُن سے پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر نے اُنھیں کیا کہا تھا۔

رہنے دو اُسے،وہ جواب دیتیں۔ اگر میں وہ سب سُن لینے پر معاف کر دی جاؤں،تو بھی میں کافی مطمئین ہو جاؤں گی۔

ایمبولنس ڈاکٹر اپنا بوجھ اُٹھائے اُن شکا ریوں کے جھنڈ کے بیچ سے گزرتا چلا جا رہا تھاجو سُن گُن لینے کی دوڑ لگاتے ہیں، اور یہاں تک کہ وہ بھی شرمسار ہوکر فٹ پاتھ سے ہٹتے چلے گئے کہ اُس کا چہرہ تو ایسا ہو رہا تھا جیسے کوئی اپنے کسی مردے کو لے کر نکلتا ہے۔

انہوں نے دیکھا کہ اُس کے ہاتھوں میں جو کوئی بھی تھا اُسے اُس نے ایمبولنس میں اُس کے لئے تیار کردہ بستر پر نہیں لٹایا۔

اور اُس نے جوکچھ بھی کہا تو ڈرائیور سے اتنا ہی کہ ’طوفان کی طرح چلاؤ،  ولسن

اتنا ہی ہوا۔ کیا یہ کوئی کہانی ہے؟ اگلی صبح کے اخبار میں، میں نے ایک چھوٹی سی خبر پڑھی، اور اُس کا آخری جملہ واقعات کو یکجا کرنے میں شاید آپ کا مددگار ثابت ہوسکے (جیسے مجھے بھی اُس سے کافی مدد ملی)۔

اُس میں ایک نوجوان خاتون کے بیلوویو ہسپتال کے استقبالیہ تک پہنچنے کا بتایا گیا تھا، جس کو نمبر 49 ایسٹ ... اسٹریٹ سے نکال لایا گیا تھا جو تنگدستی کے باعث بھوک کی وجہ سے ہونے والی کمزوری کا شکار تھی۔ یہ ان الفاظ کے ساتھ ختم کیا گیا

ڈاکٹر ویلیم جیکسن، ایمبولنس ڈاکٹر، جنھوں نے اس کیس پر حاضری دی تھی، کہتے ہیں، مریض صحت یاب ہو جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

The Skylight room

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024