افسانہ :کنوار کدہ

افسانہ :کنوار کدہ

Oct 12, 2023

مصنف

مریم عرفان

دیدبان شمارہ۔ ۲۰ اور ۲۱

افسانہ :کنوار کدہ

مصنفہ مریم عرفان

یہاں پانچ کنوارے جسم رہتے ہیں ۔ دو جسموں کے کنوار پن کو تو زمانے گزر گئے اور باقی تین مرتبان میں پڑے ہیں ۔ زمانہ انھیں شیرے میں لپیٹ کر ان کا رس کشید رہا ہے ۔ ان کی پھانکیں کٹ چکی ہیں ۔ یہ ہر زبان کا ذائقہ بننے کو تیار ہیں مگر کوئی انھیں تالو پر رکھنے کو راضی نہیں ۔ سیب، گاجر، آملہ اور ہرڑ کی قاشیں تہہ در تہہ پڑی ہیں ۔ مرتبان کی دیواریں جب گریہ کرتی ہیں تو آنسو پاتال میں گرتے ہی شیرے کو زہر بنا دیتے ہیں ۔ جلد ہی یہ مرتبان سفید رنگ کا جالا بن دے گا ۔ پھر سارا مربہ کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا جائے گا ۔ یہ پانچوں کنوارے جسم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ۔ اکٹھے سانس لیتے ہیں اور ایک ساتھ موت اوڑھ لیتے ہیں ۔ دو کنواروں کی بوڑھی آنکھیں اب خواب نہیں دیکھتیں ۔ بس مرتبان میں پڑی اونگھتی ہیں ۔ باقی تین جسموں میں عالیہ سب سے بڑی ہے اور راشدہ چھوٹی ۔ صفدر نے ابھی پھپوندی لگے شیرے میں ڈبکی لگائی ہے ۔ بیبا جی گھر کے بزرگ ہیں ۔ مزید دو کنوارے جسم ان کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ جنہوں نے تنہائی کی زمین پر بڑھاپے کی سرحد پار کرلی ہے ۔

پہلوانوں سا کثرتی وجود رکھنے والے بیبا جی کا دل موم کا دیاہے ۔ ان کے سر اور پلکوں کے بال بھی سفید ہیں مگر چہرے مہرے اور چال ڈھال میں ابھی جان باقی ہے ۔ پھولوں سے بھرے صحن میں بو باس محسوس نہیں ہوتی ۔ سیڑھیوں پررکھے گملوں میں اگی کنوار گندلیں اوپر سے کتنی ہی سرسبز نظر آتی ہوں لیکن اندر سے سوکھ رہی ہیں ۔ ان کی رالیں پیلی پڑنے لگی ہیں اور تنوں کی سختی نرمی میں بدل گئی ہے ۔ بھربھرے اور بے جان جسم موسموں کی ترشی سہنے کے قابل نہیں رہے ۔ اب ان ملگجی بوٹیوں کے جسموں پر اگنے والے کانٹے بھی سامنے والوں کو محتاط رہنے کا سگنل نہیں دیتے ۔

یہ گھر ماں کے بغیر زندہ ہے ۔ یہاں ایک بوڑھی پھوپھی پرانے دنوں کی یادگاربنی کھڑی ہے ۔ جسے فقط دو دن کی سہاگن بننے کا اعزاز حاصل ہے ۔ جوانی کی بیوگی نے اس کی کمر توڑدی ہے ۔ بوڑھی پھوپھی اپنی خم زدہ کمر کو دھکیلتی دن بھر گھر کے باہر سیڑھیوں پہ بیٹھی رہتی ہے ۔ عالیہ گھر کے سناٹوں سے گھبرا کر چھت کے کونوں میں چھپنے لگی ہے ۔ بس ایک راشدہ ہے جس کی گونج خاموشی میں بھی سنی جا سکتی ہے ۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے جب لائبریری اسسٹنٹ راشدہ کتابوں سے سجے ریکس پر خود کو بھی رکھ چکی تھی ۔ اسے بولنے کی بیماری نے گھیر لیا تھا ۔ اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ سیمنٹ کی مضبوط دیوار بن گیا ۔ جس پر وقت نے دراڑیں ڈال دی تھیں ۔ سب کے غم کھاتی،گھرسنبھالتی راشدہ عرف رشو ، نن بن گئی تھی ۔ بوڑھی پھوپھی کا ذہنی مرض بڑھ رہا تھا ۔ موٹے موٹے شیشوں سے جھانکتی آنکھیں رشو کو دیکھتے ہی پکار اٹھتیں : ’’ہتھی لائیاں گنڈاں منہ نال کھولنیاں پیندیاں نے ۔ ‘‘ رشو کو اپنے ہاتھ پیٹھ پر بندھے محسوس ہوتے ۔ جنہیں وہ جلدی سے جھاڑتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ۔ لائبریری میں ہر آتا جاتا رشو کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ۔ اس کی بے تکان گفتگو پڑھنے والوں کو کھلتی تو تھی لیکن وہ کچھ کہنے کے قابل کہاں تھے۔ فربہ جسم پر گندمی رنگت والی رشو، باجرے کا سٹہ بن گئی تھی۔ سبز رنگ اس کے وجود سے نکلنے لگا تھا ۔ اس کے اوپری ہونٹ پر اگے بالوں کے ریشے بھی ہلکے سبزی مائل ہو گئے تھے ۔ اسے اپنے چہرے کی سجاوٹ میں بھی دلچسپی نہیں تھی۔ رشو کو گرمیوں میں کروشیے کی تاریں بننا پسند تھا ۔ جبکہ سردیوں میں وہ اون کے گولے لے کر بیٹھ جاتی ۔

بڑے بھائی سب سے الگ تھلگ تھے ۔ وہ ہمہ وقت باپ سے خائف اور سنکی سے دکھائی دینے لگے تھے۔ انھیں بڑبڑانے کی بیماری لگ گئی تھی ۔ وہ بیبا جی کو دیکھتے ہی دائیں بائیں تھوکنے لگتے۔ انھی دنوں انھوں نے شادی کی رٹ لگا دی۔ ناشتے اور کھانے کے وقت بس ایک ہی بات کرتے کہ جلدی سے کوئی لڑکی دیکھو ۔ رشو کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ اسے بھائی جی کے لیے کوئی لڑکی پسند ہی نا آتی تھی ۔ کسی کی ناک لمبی تھی تو کسی کے ہاتھ مردانہ لگتے تھے ۔ پھر بالآخر اسے کلثوم بھاگئی ۔ پھولی سرسوں جیسی لڑکی بڑے بھائی کے کھیت میں بونے کے لیے تیار تھی ۔ دانے پکنے میں ابھی وقت تھا کہ سرسوں پھولنا بھول گئی ۔ بھیاجی کے لیے منگیتر کا گھر سے بھاگنا جذباتی صدمے سے کم نہیں تھا ۔ انھیں مرگی کے دورے پڑنے لگے ۔ پہلے تو وہ گھر کے صحن میں گر جاتے تھے لیکن اس دن تو حد ہی ہو گئی ۔ بھیا جی سر بازار ڈھیر ہو گئے ۔ کثیرالوجود مجسمہ دھڑام سے نیچے پڑا تھا۔ ان کے ہاتھ پاؤں مڑ چکے تھے اور کنوارہ جسم پوری طاقت سے ہل رہا تھا۔ جیسے بجری کوٹنے والی مشین گھر رگھرر گھرر کرتے آگے بڑھ رہی ہو ۔

سارے کنوارے جسم بے نام و نشان لاشیں تھیں۔ جن کی بو چلنے پھرنے والوں کے نتھنے گلانے لگی تھی۔ بے گور و کفن لاشوں کو کوئی ٹھکانے لگانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بھائی جی سارا دن اپنے کمرے میں پڑے رہتے۔ عالیہ چھت کے کونوں میں دبک جاتی اور بوڑھی پھوپھی دروازے کے باہر سیڑھیوں پر جا بیٹھتی۔ چھوٹا کنوارہ جسم صفدرکا تھا جس کا زیادہ وقت باہر ہی گزرتا۔ اسے بھی خود سے خائف رہنے کی بیماری لگ گئی تھی۔ صفدر کی جیب پیسے مانگتی تھی۔ رشو خاموشی سے اس کے بٹوے کا منہ بند کر دیتی۔ وہ اپنے کنوار پن کو سگریٹ کے دھوئیں میں اڑاتا تھا۔ دو بڑے جسم کوڑھیوں کی طرح بند کمرے میں رہتے تھے۔ وہ اس ڈر سے باہر ہی نہیں نکلتے تھے کہ کہیں سورج کی کرنیں ان کی آنکھیں نہ نوچ لیں۔ رشو نے ان سب کو اپنے پروں میں سمیٹ رکھا تھا۔

لائبریری کا سٹاف اس کے سر پر اگنے والی چاندی گنتا رہتا ۔ اگر کبھی کسے کے قدم آگے بڑھنا چاہتے تو گھر میں اگی کنوارپن کی فصل دیکھ کر الٹے قدموں واپس ہو لیتے۔ پتنگ بو ہو کر کسی اور چھت پر جا گرتی۔ رشو خالی ہتھیلی پر ڈور لپیٹتی رہ جاتی۔ کتنی خاموش محبتیں اس کے دل میں پرورش پاتی رہیں ۔ وہ کنوار کدے کے مکینوں سے ڈر کر ان کے گلے گھونٹتی رہتی ۔ رشو کے آئیڈیل بیباجی تھے ۔ حوصلے کی گھٹی سیمنٹ اور ریت میں ملے پانی جیسی تھی۔ سیسہ پلائی دیوار سر زور زور سے ہلاتے ہوئے یہ ڈائیلاگ سنتی۔ ’’ ہمت نہ ہارو، صبر سے کام لو، حوصلہ ہی سب سے بڑی قوت ہے۔ ‘‘

بیباجی اپنی باتوں کا فولاد اس کے نازک جسم میں بھرتے رہتے ۔ رشو کا نازک جسم سٹیل مل بن چکا تھا ۔ اس کے کھردرے ہاتھ گرمیوں میں بھی پتھریلے رہتے ۔ اس کے سینے میں دل تو تھا لیکن فولادی پلیٹوں میں لپٹا ہوا۔ بڑے بھیا کو باپ کی ان نصیحتوں سے کافور کی بو آتی تھی۔ وہ آخ تھو کرتے ہوئے دہلیز پار کر جاتے ۔

پھر ایک دن بھائی اپنی بائیں بغل میں درمیانی عمر کی عورت کوگھسیڑے گھر داخل ہوئے۔ تالاب کے پانی پر ذرا سا ارتعاش پیدا ہوا ۔ منڈیروں پر بیٹھے کبوتروں نے غٹرغوں کرتے ہوئے آنکھیں کھولیں ۔ بھائی جی نے ہُررررر کہتے ہوئے گھگیوں کو اڑایا اور جھٹ پٹ عورت کو لیے کمرے میں گم ہو گئے ۔ رشو بلی کی طرح دم ہلاتی صحن میں کھڑی تھی ۔ عالیہ کی آنکھیں پانیوں سے بھرئی ہوئی تھیں۔ بوڑھی پھوپھی ہوا میں انگلی سے دائرے بناتی اور پھر بغلوں میں ہاتھ دے کر کندھے ہلانے لگ جاتی۔ دو بوڑھے جسم کھڑکی کی جالی سے لگے باہر کا جائزہ لے رہے تھے۔ گرد آلود جالی سے ٹکی ان کی ناک پر کھڑکی کی ڈبیاں نقش ہو چکی تھیں۔ بھیا جی نے رات کھانے کی میز پر ہولناک خاموشی کا فیتہ کاٹتے ہوئے بتایا کہ نجمہ ان کی بیوی ہے ۔ کنوار کدے کی دیوار میں پہلا سوراخ ہو چکا تھا۔

پکی عمر کی عورت بھیاجی کے ساتھ ان کے کمرے میں منتقل ہو چکی تھی۔ رشو اور عالیہ اپنے ادھ کھلے دروازے سے ان کے کمرے میں جلتی بجھتی لائٹ دیکھ کر گہرا سانس کھینچتیں۔ رات کی خاموشی میں نل کی آواز خالی ٹب پربجتی۔ پانی کی تیز دھار رشو کے جسم کو چیر دیتی۔ بیبا جی کے معمولات زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ روزانہ زبردستی صفدر کو موٹر سائیکل کے پیچھے بٹھا کر دکان روانہ ہو جاتے۔ کنوارے جسموں کا رہٹ اسی مستقل مزاجی سے چل رہا تھا ۔ سب بیل رہٹ کو دھکیلنے میں جتے ہوئے تھے اور زندگی کے ڈونگے چھپاچھپ پانی گرا رہے تھے ۔ لوگ بیبا جی سے کنوارے جسموں کے رشتوں کی بابت کریدتے ۔ وہ سفید پلکیں جھپکاتے بے بسی سے نفی میں سر ہلا دیتے ۔ صفدر آرے کی ہتھی پر بازو کا پورا زور لگاتے ہوئے لکڑی چھیلنے لگتا۔ لکڑی کے چھلکے دائرے بناتے میز سے نیچے گرتے اور ساری چھال اس کا منہ چڑاتی۔ وہ غصے سے دوبارہ آرے پر جھک جاتا اور بیباجی کن انکھیوں سے اس کا جائزہ لیتے رہتے۔

ان دنوں رشو کی زندگی میں مراد نامی طوفان آچکا تھا۔ وہ پانی کی اتنی بڑی لہروں کو اپنی جانب آتا دیکھ کر بے دست و پا ہونے لگی۔ ’’ یہ مرد کا ساتھ کتنی عجیب چیز ہے ۔ جیسے کوئی سوتے میں گدگدا رہا ہو۔ ‘‘ رشو آئینے میں اپنی فربہی دیکھتے ہوئے بڑبڑائی اور سیدھی مانگ کھینچ کر بالوں کی تہیں جمانے لگی۔ مراد اسے لائبریری سے لینے آ یا تھا۔ دونوں آئس کریم پارلر میں بیٹھے تھے۔ رشو اپنی تمام تر توانائیوں سمیت بول رہی تھی۔ چالیس کا سن لگتے ہی اس کے جذبے انگیٹھی کی جالی بن چکے تھے۔ جس پر مراد اپنی تمناؤں کی دیگ چڑھا چکا تھا۔ وہ اس بار بھی جوا کھیلنے کو تیار تھی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ مراد کو کاروبار کروا دینے کے باوجود اس کے رونے ختم ہونے کو نہیں آتے تھے۔ وہ آئس کریم کا بل دے کر مراد کے پیچھے سیڑھیاں اتر گئی۔ خالی پیالیاں اس پر ہنستے ہوئے تالیاں پیٹ رہی تھیں۔

مراد نے گل گھوٹو بیر کی طرح رشو کا گلا بند کر دیا تھا۔ وہ اپنی آخری امید کا جنازہ اٹھنے پر ملول تھی۔ سہاگن نہ سہی لیکن محبت کی عدت گزارنے کا حق تو اسے حاصل تھا۔ عالیہ ناخن کترتے ہوئے اسے روتا دیکھتی رہی۔ پھر یکدم اس کے بازو پر دانت گاڑتے ہوئے اسے نوچنے لگی۔ ’’ حرام زادے، سب مرد حرام زادے۔ تو اس سے بڑی حرام زادی، کنجری۔ ‘‘ عالیہ چیختی چنگھاڑتی چھت کے کونے کھودنے لگی۔ بھیاجی کمرے سے نکلتے ہوئے ہانپنے لگے ۔ تھوک جھاگ بن کر ان کے ہونٹوں کے کناروں سے ابل رہا تھا۔ ’’ پاگل کی اولادو، جینے نہیں دیتے تو مرنے ہی دو۔ ‘‘ نجمہ اپنے پاگل شوہر کو بانہوں میں لپیٹتے ہوئے گھسیٹنے لگی۔ وہ بھی غصے میں بڑبڑا رہی تھی ۔ پورے گھر میں شور و غوغا تھا ۔ جیسے چڑیوں کا پنجرہ بند کر دیا گیا ہو اور وہ چیخ چیخ کر حلق پھاڑ رہی ہوں ۔ کھڑکی کی جالیوں سے لگے چار ہاتھ اور بیس انگلیاں پیلاہٹ سے بھری اور خون سے نچڑی ہوئی تھیں ۔ کوٹھے جیسا شور کنوار کدے کی دیواروں سے چھپکلی کی طرح چمٹا ہوا تھا۔ یہ گھر ہیرا منڈی کی کسی گلی میں ہوتا تو اس کے باہر تختی پر کنوار کوٹھا لکھا جانا چاہیے تھا۔ رشو یہ سوچتے ہوئے کپڑے سمیت شاور کے نیچے کھڑی ہو گئی۔

ان دنوں بھی رشو اتنا ہی بولتی تھی جتنا مراد کے زندگی میں آنے سے پہلے بولا کرتی تھی۔ لائبریری کی الماریوں کے ریکس چم چم کرتے تھے۔ وہ ان میں قرینے سے کتابیں لگاتے ہوئے اپنے بھاری وجود کو ایڑھیوں سے اوپر اٹھا کر پڑھنے والوں کو متوجہ کرتی۔ جب کوئی اس کی جانب متوجہ نا ہوتا تو خود کو کتاب سمجھ کر کسی ریک میں رکھ دیتی۔ اسے شاذونادر دیکھنے والے ریک سے نکالتے، صفحات پلٹتے اور بے دردی سے دوسری کتابوں کے اوپر پھینک جاتے۔ اس کی جلد بری طرح اکھڑ چکی تھی ۔ صفحات پھٹ چکے تھے لیکن وہ اس خستگی کے عالم میں بھی کسی قدردان کے ہاتھوں مجلد ہونے کے خواب دیکھ رہی تھی ۔ بوڑھی پھوپھی اپنے خوابوں کا بورا اٹھا کر زمین بوس ہوگئی۔ ’’ ٹوٹے گا ، سب کا دل ٹوٹے گا، ٹوٹے گا ۔ ‘‘پھوپھی کی گونج رشو کے کانوں کے پردے پھاڑنے لگتی ۔ اتنے بہت سارے دیوانے ایک چھت تلے بے یارو مددگار پڑے تھے۔

عالیہ کے دورے اب مستقل ہونے لگے تھے ۔ وہ چھت کی چھوٹی دیواروں کی اینٹیں اکھیڑ کر ان کے سرخ رنگ پتھروں کو کچلتی۔ پھر انھیں پیس کر ذرہ ذرہ چباتی رہتی۔ سلو پوائزنگ دھیرے دھیرے جاری تھی۔ ایک دن اسے نجانے کیا ہوا کہ چھت سے نیچے دیکھتے ہوئے چھلانگ لگا دی۔ رشو کی زندگی میں ایک اور مصروفیت کا اضافہ ہو گیا۔ اب اسے بچی کھچی عالیہ کو ہسپتال دیکھنے جانا پڑتا تھا۔ بھیاجی پر پڑنے والے مرگی کے دوروں میں کمی آ گئی تھی۔ بس بیباجی کو دیکھتے ہی وہ آپے سے باہر ہونے لگتے۔

ان دنوں ایک اور دیوانہ رشو کو شمع بنا کراس کے گرد منڈلانے کے چکروں میں تھا۔ رشو کا دل کبھی دھڑکتا اور کبھی ونڈ سکرین پر چلنے والے وائپر کی طرح آہستہ آہستہ ہلتے ہوئے درمیان میں ہی رک جاتا۔ اس بار اس کی توجہ بٹتی چلی جارہی تھی۔ وہ پروانے کے پروں کو انگلیوں میں دبوچ لینا چاہتی تھی۔ مگر اب کی بار اس کی ہڈیاں بے جان تھیں۔ ’’ ہتھی لائیاں گنڈاں منہ نال کھولنیاں پیندیاں نے۔ ‘‘

وہ بوڑھی پھوپھی کا جملہ یاد آتے ہی ہتھیلیاں کھول دیتی۔ زندگی کے چاروں طرف اگی تنہائی گھاس کی طرح بڑھتی جا رہی تھی ۔ بات چالیس کے سن سے آگے نکل چکی تھی۔ بیباجی کے ماتھے پر لکیروں کا جال گنجلک تاروں میں بدل گیا تھا۔ عالیہ نے ایک بار پھر خودکشی کی کوشش کی لیکن ابھی قسمت نے قبرکا دروازہ نہیں کھولا تھا۔ ہسپتال کے یخ بستہ بستر پر بے سدھ لیٹی عالیہ کی آنکھوں کے نیچے حلقے گہرے ہو چکے تھے۔ رشو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے سہلا رہی تھی۔ مرتبان میں پڑی مربے کی ایک قاش گلنے سڑنے کے لیے تیار تھی۔ دوسری قاش نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ کیا اوپر تلے اب ہم سب کو مرنا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ اردگرد کتنی ہی آنکھیں ان پر ٹکی تھیں۔ وارڈ کے اندر بہت سی زبانیں باہر کو نکل آئی تھیں۔ ان کے کنوارے جسم چاٹے جا رہے تھے۔ مجمع کی آنکھوں میں سوال ہی سوال تھے۔ رشو نے ان تمام آنکھوں اور زبانوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے کروٹ بدل لی۔ اس نے وارڈ کی مخصوص بو کو نتھنوں سے کھینچتے ہوئے سوچا۔ کاش! یہ دن راتوں میں بدل جاتے۔ ہائے! یہ گھر کوٹھا ہی بن جاتا۔ ‘‘ وہ سوچتے سوچتے بہت دور نکل گئی۔

’’مس رچنا یہ میرے کولہے اتنے بھاری کیوں ہو رہے ہیں۔ ‘‘ اس نے اپنی اسسٹنٹ کے کان میں سرگوشی کی۔ ’’ میڈم جی! چلا پھرا کریں۔ ‘‘ رچنا نے اکتاہٹ سے اسے دیکھا۔ رشو کو تخت پوش پر پڑا ہوا گاؤ تکیہ یاد آ گیا۔ وہ بھی تو گاؤ تکیے کی ٹیک ہی تھی۔ اپنے بھرے بھرے جسم کو ہاتھوں سے ٹٹولتے اور مسلتے ہوئے اس کے اندر بھی ہیجان ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ گاڑیاں سگنل پر رکتیں اور آگے بڑھتی جارہی تھیں۔ سرخ، زرد اور سبز رنگ کی بتیاں جلنے بجھنے لگیں۔ شہر کے چڑیا گھر میں اپالونامی شیرکے لیے سری لنکا سے شیرنی منگوائی گئی تھی ۔ سڑکوں پر لگے بڑے بڑے بینرز، رشو کا منہ چڑا رہے تھے۔ اس نے نئے امیدوار کے ساتھ چڑیا گھر کا ٹکٹ کٹایا اور اندر داخل ہو گئی۔ سیڑھیاں پار کرتے ہی اس کے سامنے شیروں کا پنجرہ تھا۔ وہ لوہے کے راڈ پر تھوڑی ٹکائے انھیں تکنے لگی۔ شیر دھم دھم کرتا شیرنی کی پشت کو سونگھتا ہوا آگے بڑھ جاتا۔ مجمع اس کے منہ سے خوشی کی دھاڑیں سن کر آوازیں کس رہا تھا۔ شیر جنگلے کی جالی سے خود کو مسلتا تو رشو کے کانوں کے پیچھے چیونٹیاں رینگنے لگتیں۔ نیا امیدوار اس کے کاندھے پر بازو رکھے گال سے گال مس کرتا۔ دونوں شیر کو شیرنی کے پیچھے خوار ہوتا دیکھ کر قہقہے لگانے لگتے۔ بدبو کے بھبھکے اڑ اڑ کر اس کے نتھنوں کو نمناک کرنے لگے۔ رشو کو شیرنی کی عدم دلچسپی اور شیر کی پیش قدمی پر اکتاہٹ ہونے لگی تھی۔ وہ نئے امیدوار کے بازو سے لگی آگے بڑھ گئی۔ جہاں سانپوں کے پنجرے جوڑیوں سے محروم تھے۔ شیر شیرنی کا کھیل زیادہ دیر چل نا سکا۔ دو گھنٹے کی بے نام مسافت سے تھک کر امیدوار نے بائیک کو کک ماری اور سڑک پر گم ہو گیا۔ رشو کی زبان بھی دو رخی ہو کر بڑی ہو گئی تھی۔ وہ اپنے لجلجے جسم کو گھسٹیتے ہوئے باہر سڑک پر رینگنے لگی۔ بیبا جی کا گھر بھی چڑیا گھر تھا۔ جس کے باہر مستقل بورڈ لگا دیا گیاتھا۔ کنوار کدہ۔

دیدبان شمارہ۔ ۲۰ اور ۲۱

افسانہ :کنوار کدہ

مصنفہ مریم عرفان

یہاں پانچ کنوارے جسم رہتے ہیں ۔ دو جسموں کے کنوار پن کو تو زمانے گزر گئے اور باقی تین مرتبان میں پڑے ہیں ۔ زمانہ انھیں شیرے میں لپیٹ کر ان کا رس کشید رہا ہے ۔ ان کی پھانکیں کٹ چکی ہیں ۔ یہ ہر زبان کا ذائقہ بننے کو تیار ہیں مگر کوئی انھیں تالو پر رکھنے کو راضی نہیں ۔ سیب، گاجر، آملہ اور ہرڑ کی قاشیں تہہ در تہہ پڑی ہیں ۔ مرتبان کی دیواریں جب گریہ کرتی ہیں تو آنسو پاتال میں گرتے ہی شیرے کو زہر بنا دیتے ہیں ۔ جلد ہی یہ مرتبان سفید رنگ کا جالا بن دے گا ۔ پھر سارا مربہ کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا جائے گا ۔ یہ پانچوں کنوارے جسم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ۔ اکٹھے سانس لیتے ہیں اور ایک ساتھ موت اوڑھ لیتے ہیں ۔ دو کنواروں کی بوڑھی آنکھیں اب خواب نہیں دیکھتیں ۔ بس مرتبان میں پڑی اونگھتی ہیں ۔ باقی تین جسموں میں عالیہ سب سے بڑی ہے اور راشدہ چھوٹی ۔ صفدر نے ابھی پھپوندی لگے شیرے میں ڈبکی لگائی ہے ۔ بیبا جی گھر کے بزرگ ہیں ۔ مزید دو کنوارے جسم ان کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ جنہوں نے تنہائی کی زمین پر بڑھاپے کی سرحد پار کرلی ہے ۔

پہلوانوں سا کثرتی وجود رکھنے والے بیبا جی کا دل موم کا دیاہے ۔ ان کے سر اور پلکوں کے بال بھی سفید ہیں مگر چہرے مہرے اور چال ڈھال میں ابھی جان باقی ہے ۔ پھولوں سے بھرے صحن میں بو باس محسوس نہیں ہوتی ۔ سیڑھیوں پررکھے گملوں میں اگی کنوار گندلیں اوپر سے کتنی ہی سرسبز نظر آتی ہوں لیکن اندر سے سوکھ رہی ہیں ۔ ان کی رالیں پیلی پڑنے لگی ہیں اور تنوں کی سختی نرمی میں بدل گئی ہے ۔ بھربھرے اور بے جان جسم موسموں کی ترشی سہنے کے قابل نہیں رہے ۔ اب ان ملگجی بوٹیوں کے جسموں پر اگنے والے کانٹے بھی سامنے والوں کو محتاط رہنے کا سگنل نہیں دیتے ۔

یہ گھر ماں کے بغیر زندہ ہے ۔ یہاں ایک بوڑھی پھوپھی پرانے دنوں کی یادگاربنی کھڑی ہے ۔ جسے فقط دو دن کی سہاگن بننے کا اعزاز حاصل ہے ۔ جوانی کی بیوگی نے اس کی کمر توڑدی ہے ۔ بوڑھی پھوپھی اپنی خم زدہ کمر کو دھکیلتی دن بھر گھر کے باہر سیڑھیوں پہ بیٹھی رہتی ہے ۔ عالیہ گھر کے سناٹوں سے گھبرا کر چھت کے کونوں میں چھپنے لگی ہے ۔ بس ایک راشدہ ہے جس کی گونج خاموشی میں بھی سنی جا سکتی ہے ۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے جب لائبریری اسسٹنٹ راشدہ کتابوں سے سجے ریکس پر خود کو بھی رکھ چکی تھی ۔ اسے بولنے کی بیماری نے گھیر لیا تھا ۔ اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ سیمنٹ کی مضبوط دیوار بن گیا ۔ جس پر وقت نے دراڑیں ڈال دی تھیں ۔ سب کے غم کھاتی،گھرسنبھالتی راشدہ عرف رشو ، نن بن گئی تھی ۔ بوڑھی پھوپھی کا ذہنی مرض بڑھ رہا تھا ۔ موٹے موٹے شیشوں سے جھانکتی آنکھیں رشو کو دیکھتے ہی پکار اٹھتیں : ’’ہتھی لائیاں گنڈاں منہ نال کھولنیاں پیندیاں نے ۔ ‘‘ رشو کو اپنے ہاتھ پیٹھ پر بندھے محسوس ہوتے ۔ جنہیں وہ جلدی سے جھاڑتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ۔ لائبریری میں ہر آتا جاتا رشو کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ۔ اس کی بے تکان گفتگو پڑھنے والوں کو کھلتی تو تھی لیکن وہ کچھ کہنے کے قابل کہاں تھے۔ فربہ جسم پر گندمی رنگت والی رشو، باجرے کا سٹہ بن گئی تھی۔ سبز رنگ اس کے وجود سے نکلنے لگا تھا ۔ اس کے اوپری ہونٹ پر اگے بالوں کے ریشے بھی ہلکے سبزی مائل ہو گئے تھے ۔ اسے اپنے چہرے کی سجاوٹ میں بھی دلچسپی نہیں تھی۔ رشو کو گرمیوں میں کروشیے کی تاریں بننا پسند تھا ۔ جبکہ سردیوں میں وہ اون کے گولے لے کر بیٹھ جاتی ۔

بڑے بھائی سب سے الگ تھلگ تھے ۔ وہ ہمہ وقت باپ سے خائف اور سنکی سے دکھائی دینے لگے تھے۔ انھیں بڑبڑانے کی بیماری لگ گئی تھی ۔ وہ بیبا جی کو دیکھتے ہی دائیں بائیں تھوکنے لگتے۔ انھی دنوں انھوں نے شادی کی رٹ لگا دی۔ ناشتے اور کھانے کے وقت بس ایک ہی بات کرتے کہ جلدی سے کوئی لڑکی دیکھو ۔ رشو کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ اسے بھائی جی کے لیے کوئی لڑکی پسند ہی نا آتی تھی ۔ کسی کی ناک لمبی تھی تو کسی کے ہاتھ مردانہ لگتے تھے ۔ پھر بالآخر اسے کلثوم بھاگئی ۔ پھولی سرسوں جیسی لڑکی بڑے بھائی کے کھیت میں بونے کے لیے تیار تھی ۔ دانے پکنے میں ابھی وقت تھا کہ سرسوں پھولنا بھول گئی ۔ بھیاجی کے لیے منگیتر کا گھر سے بھاگنا جذباتی صدمے سے کم نہیں تھا ۔ انھیں مرگی کے دورے پڑنے لگے ۔ پہلے تو وہ گھر کے صحن میں گر جاتے تھے لیکن اس دن تو حد ہی ہو گئی ۔ بھیا جی سر بازار ڈھیر ہو گئے ۔ کثیرالوجود مجسمہ دھڑام سے نیچے پڑا تھا۔ ان کے ہاتھ پاؤں مڑ چکے تھے اور کنوارہ جسم پوری طاقت سے ہل رہا تھا۔ جیسے بجری کوٹنے والی مشین گھر رگھرر گھرر کرتے آگے بڑھ رہی ہو ۔

سارے کنوارے جسم بے نام و نشان لاشیں تھیں۔ جن کی بو چلنے پھرنے والوں کے نتھنے گلانے لگی تھی۔ بے گور و کفن لاشوں کو کوئی ٹھکانے لگانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بھائی جی سارا دن اپنے کمرے میں پڑے رہتے۔ عالیہ چھت کے کونوں میں دبک جاتی اور بوڑھی پھوپھی دروازے کے باہر سیڑھیوں پر جا بیٹھتی۔ چھوٹا کنوارہ جسم صفدرکا تھا جس کا زیادہ وقت باہر ہی گزرتا۔ اسے بھی خود سے خائف رہنے کی بیماری لگ گئی تھی۔ صفدر کی جیب پیسے مانگتی تھی۔ رشو خاموشی سے اس کے بٹوے کا منہ بند کر دیتی۔ وہ اپنے کنوار پن کو سگریٹ کے دھوئیں میں اڑاتا تھا۔ دو بڑے جسم کوڑھیوں کی طرح بند کمرے میں رہتے تھے۔ وہ اس ڈر سے باہر ہی نہیں نکلتے تھے کہ کہیں سورج کی کرنیں ان کی آنکھیں نہ نوچ لیں۔ رشو نے ان سب کو اپنے پروں میں سمیٹ رکھا تھا۔

لائبریری کا سٹاف اس کے سر پر اگنے والی چاندی گنتا رہتا ۔ اگر کبھی کسے کے قدم آگے بڑھنا چاہتے تو گھر میں اگی کنوارپن کی فصل دیکھ کر الٹے قدموں واپس ہو لیتے۔ پتنگ بو ہو کر کسی اور چھت پر جا گرتی۔ رشو خالی ہتھیلی پر ڈور لپیٹتی رہ جاتی۔ کتنی خاموش محبتیں اس کے دل میں پرورش پاتی رہیں ۔ وہ کنوار کدے کے مکینوں سے ڈر کر ان کے گلے گھونٹتی رہتی ۔ رشو کے آئیڈیل بیباجی تھے ۔ حوصلے کی گھٹی سیمنٹ اور ریت میں ملے پانی جیسی تھی۔ سیسہ پلائی دیوار سر زور زور سے ہلاتے ہوئے یہ ڈائیلاگ سنتی۔ ’’ ہمت نہ ہارو، صبر سے کام لو، حوصلہ ہی سب سے بڑی قوت ہے۔ ‘‘

بیباجی اپنی باتوں کا فولاد اس کے نازک جسم میں بھرتے رہتے ۔ رشو کا نازک جسم سٹیل مل بن چکا تھا ۔ اس کے کھردرے ہاتھ گرمیوں میں بھی پتھریلے رہتے ۔ اس کے سینے میں دل تو تھا لیکن فولادی پلیٹوں میں لپٹا ہوا۔ بڑے بھیا کو باپ کی ان نصیحتوں سے کافور کی بو آتی تھی۔ وہ آخ تھو کرتے ہوئے دہلیز پار کر جاتے ۔

پھر ایک دن بھائی اپنی بائیں بغل میں درمیانی عمر کی عورت کوگھسیڑے گھر داخل ہوئے۔ تالاب کے پانی پر ذرا سا ارتعاش پیدا ہوا ۔ منڈیروں پر بیٹھے کبوتروں نے غٹرغوں کرتے ہوئے آنکھیں کھولیں ۔ بھائی جی نے ہُررررر کہتے ہوئے گھگیوں کو اڑایا اور جھٹ پٹ عورت کو لیے کمرے میں گم ہو گئے ۔ رشو بلی کی طرح دم ہلاتی صحن میں کھڑی تھی ۔ عالیہ کی آنکھیں پانیوں سے بھرئی ہوئی تھیں۔ بوڑھی پھوپھی ہوا میں انگلی سے دائرے بناتی اور پھر بغلوں میں ہاتھ دے کر کندھے ہلانے لگ جاتی۔ دو بوڑھے جسم کھڑکی کی جالی سے لگے باہر کا جائزہ لے رہے تھے۔ گرد آلود جالی سے ٹکی ان کی ناک پر کھڑکی کی ڈبیاں نقش ہو چکی تھیں۔ بھیا جی نے رات کھانے کی میز پر ہولناک خاموشی کا فیتہ کاٹتے ہوئے بتایا کہ نجمہ ان کی بیوی ہے ۔ کنوار کدے کی دیوار میں پہلا سوراخ ہو چکا تھا۔

پکی عمر کی عورت بھیاجی کے ساتھ ان کے کمرے میں منتقل ہو چکی تھی۔ رشو اور عالیہ اپنے ادھ کھلے دروازے سے ان کے کمرے میں جلتی بجھتی لائٹ دیکھ کر گہرا سانس کھینچتیں۔ رات کی خاموشی میں نل کی آواز خالی ٹب پربجتی۔ پانی کی تیز دھار رشو کے جسم کو چیر دیتی۔ بیبا جی کے معمولات زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ روزانہ زبردستی صفدر کو موٹر سائیکل کے پیچھے بٹھا کر دکان روانہ ہو جاتے۔ کنوارے جسموں کا رہٹ اسی مستقل مزاجی سے چل رہا تھا ۔ سب بیل رہٹ کو دھکیلنے میں جتے ہوئے تھے اور زندگی کے ڈونگے چھپاچھپ پانی گرا رہے تھے ۔ لوگ بیبا جی سے کنوارے جسموں کے رشتوں کی بابت کریدتے ۔ وہ سفید پلکیں جھپکاتے بے بسی سے نفی میں سر ہلا دیتے ۔ صفدر آرے کی ہتھی پر بازو کا پورا زور لگاتے ہوئے لکڑی چھیلنے لگتا۔ لکڑی کے چھلکے دائرے بناتے میز سے نیچے گرتے اور ساری چھال اس کا منہ چڑاتی۔ وہ غصے سے دوبارہ آرے پر جھک جاتا اور بیباجی کن انکھیوں سے اس کا جائزہ لیتے رہتے۔

ان دنوں رشو کی زندگی میں مراد نامی طوفان آچکا تھا۔ وہ پانی کی اتنی بڑی لہروں کو اپنی جانب آتا دیکھ کر بے دست و پا ہونے لگی۔ ’’ یہ مرد کا ساتھ کتنی عجیب چیز ہے ۔ جیسے کوئی سوتے میں گدگدا رہا ہو۔ ‘‘ رشو آئینے میں اپنی فربہی دیکھتے ہوئے بڑبڑائی اور سیدھی مانگ کھینچ کر بالوں کی تہیں جمانے لگی۔ مراد اسے لائبریری سے لینے آ یا تھا۔ دونوں آئس کریم پارلر میں بیٹھے تھے۔ رشو اپنی تمام تر توانائیوں سمیت بول رہی تھی۔ چالیس کا سن لگتے ہی اس کے جذبے انگیٹھی کی جالی بن چکے تھے۔ جس پر مراد اپنی تمناؤں کی دیگ چڑھا چکا تھا۔ وہ اس بار بھی جوا کھیلنے کو تیار تھی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ مراد کو کاروبار کروا دینے کے باوجود اس کے رونے ختم ہونے کو نہیں آتے تھے۔ وہ آئس کریم کا بل دے کر مراد کے پیچھے سیڑھیاں اتر گئی۔ خالی پیالیاں اس پر ہنستے ہوئے تالیاں پیٹ رہی تھیں۔

مراد نے گل گھوٹو بیر کی طرح رشو کا گلا بند کر دیا تھا۔ وہ اپنی آخری امید کا جنازہ اٹھنے پر ملول تھی۔ سہاگن نہ سہی لیکن محبت کی عدت گزارنے کا حق تو اسے حاصل تھا۔ عالیہ ناخن کترتے ہوئے اسے روتا دیکھتی رہی۔ پھر یکدم اس کے بازو پر دانت گاڑتے ہوئے اسے نوچنے لگی۔ ’’ حرام زادے، سب مرد حرام زادے۔ تو اس سے بڑی حرام زادی، کنجری۔ ‘‘ عالیہ چیختی چنگھاڑتی چھت کے کونے کھودنے لگی۔ بھیاجی کمرے سے نکلتے ہوئے ہانپنے لگے ۔ تھوک جھاگ بن کر ان کے ہونٹوں کے کناروں سے ابل رہا تھا۔ ’’ پاگل کی اولادو، جینے نہیں دیتے تو مرنے ہی دو۔ ‘‘ نجمہ اپنے پاگل شوہر کو بانہوں میں لپیٹتے ہوئے گھسیٹنے لگی۔ وہ بھی غصے میں بڑبڑا رہی تھی ۔ پورے گھر میں شور و غوغا تھا ۔ جیسے چڑیوں کا پنجرہ بند کر دیا گیا ہو اور وہ چیخ چیخ کر حلق پھاڑ رہی ہوں ۔ کھڑکی کی جالیوں سے لگے چار ہاتھ اور بیس انگلیاں پیلاہٹ سے بھری اور خون سے نچڑی ہوئی تھیں ۔ کوٹھے جیسا شور کنوار کدے کی دیواروں سے چھپکلی کی طرح چمٹا ہوا تھا۔ یہ گھر ہیرا منڈی کی کسی گلی میں ہوتا تو اس کے باہر تختی پر کنوار کوٹھا لکھا جانا چاہیے تھا۔ رشو یہ سوچتے ہوئے کپڑے سمیت شاور کے نیچے کھڑی ہو گئی۔

ان دنوں بھی رشو اتنا ہی بولتی تھی جتنا مراد کے زندگی میں آنے سے پہلے بولا کرتی تھی۔ لائبریری کی الماریوں کے ریکس چم چم کرتے تھے۔ وہ ان میں قرینے سے کتابیں لگاتے ہوئے اپنے بھاری وجود کو ایڑھیوں سے اوپر اٹھا کر پڑھنے والوں کو متوجہ کرتی۔ جب کوئی اس کی جانب متوجہ نا ہوتا تو خود کو کتاب سمجھ کر کسی ریک میں رکھ دیتی۔ اسے شاذونادر دیکھنے والے ریک سے نکالتے، صفحات پلٹتے اور بے دردی سے دوسری کتابوں کے اوپر پھینک جاتے۔ اس کی جلد بری طرح اکھڑ چکی تھی ۔ صفحات پھٹ چکے تھے لیکن وہ اس خستگی کے عالم میں بھی کسی قدردان کے ہاتھوں مجلد ہونے کے خواب دیکھ رہی تھی ۔ بوڑھی پھوپھی اپنے خوابوں کا بورا اٹھا کر زمین بوس ہوگئی۔ ’’ ٹوٹے گا ، سب کا دل ٹوٹے گا، ٹوٹے گا ۔ ‘‘پھوپھی کی گونج رشو کے کانوں کے پردے پھاڑنے لگتی ۔ اتنے بہت سارے دیوانے ایک چھت تلے بے یارو مددگار پڑے تھے۔

عالیہ کے دورے اب مستقل ہونے لگے تھے ۔ وہ چھت کی چھوٹی دیواروں کی اینٹیں اکھیڑ کر ان کے سرخ رنگ پتھروں کو کچلتی۔ پھر انھیں پیس کر ذرہ ذرہ چباتی رہتی۔ سلو پوائزنگ دھیرے دھیرے جاری تھی۔ ایک دن اسے نجانے کیا ہوا کہ چھت سے نیچے دیکھتے ہوئے چھلانگ لگا دی۔ رشو کی زندگی میں ایک اور مصروفیت کا اضافہ ہو گیا۔ اب اسے بچی کھچی عالیہ کو ہسپتال دیکھنے جانا پڑتا تھا۔ بھیاجی پر پڑنے والے مرگی کے دوروں میں کمی آ گئی تھی۔ بس بیباجی کو دیکھتے ہی وہ آپے سے باہر ہونے لگتے۔

ان دنوں ایک اور دیوانہ رشو کو شمع بنا کراس کے گرد منڈلانے کے چکروں میں تھا۔ رشو کا دل کبھی دھڑکتا اور کبھی ونڈ سکرین پر چلنے والے وائپر کی طرح آہستہ آہستہ ہلتے ہوئے درمیان میں ہی رک جاتا۔ اس بار اس کی توجہ بٹتی چلی جارہی تھی۔ وہ پروانے کے پروں کو انگلیوں میں دبوچ لینا چاہتی تھی۔ مگر اب کی بار اس کی ہڈیاں بے جان تھیں۔ ’’ ہتھی لائیاں گنڈاں منہ نال کھولنیاں پیندیاں نے۔ ‘‘

وہ بوڑھی پھوپھی کا جملہ یاد آتے ہی ہتھیلیاں کھول دیتی۔ زندگی کے چاروں طرف اگی تنہائی گھاس کی طرح بڑھتی جا رہی تھی ۔ بات چالیس کے سن سے آگے نکل چکی تھی۔ بیباجی کے ماتھے پر لکیروں کا جال گنجلک تاروں میں بدل گیا تھا۔ عالیہ نے ایک بار پھر خودکشی کی کوشش کی لیکن ابھی قسمت نے قبرکا دروازہ نہیں کھولا تھا۔ ہسپتال کے یخ بستہ بستر پر بے سدھ لیٹی عالیہ کی آنکھوں کے نیچے حلقے گہرے ہو چکے تھے۔ رشو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے سہلا رہی تھی۔ مرتبان میں پڑی مربے کی ایک قاش گلنے سڑنے کے لیے تیار تھی۔ دوسری قاش نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ کیا اوپر تلے اب ہم سب کو مرنا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ اردگرد کتنی ہی آنکھیں ان پر ٹکی تھیں۔ وارڈ کے اندر بہت سی زبانیں باہر کو نکل آئی تھیں۔ ان کے کنوارے جسم چاٹے جا رہے تھے۔ مجمع کی آنکھوں میں سوال ہی سوال تھے۔ رشو نے ان تمام آنکھوں اور زبانوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے کروٹ بدل لی۔ اس نے وارڈ کی مخصوص بو کو نتھنوں سے کھینچتے ہوئے سوچا۔ کاش! یہ دن راتوں میں بدل جاتے۔ ہائے! یہ گھر کوٹھا ہی بن جاتا۔ ‘‘ وہ سوچتے سوچتے بہت دور نکل گئی۔

’’مس رچنا یہ میرے کولہے اتنے بھاری کیوں ہو رہے ہیں۔ ‘‘ اس نے اپنی اسسٹنٹ کے کان میں سرگوشی کی۔ ’’ میڈم جی! چلا پھرا کریں۔ ‘‘ رچنا نے اکتاہٹ سے اسے دیکھا۔ رشو کو تخت پوش پر پڑا ہوا گاؤ تکیہ یاد آ گیا۔ وہ بھی تو گاؤ تکیے کی ٹیک ہی تھی۔ اپنے بھرے بھرے جسم کو ہاتھوں سے ٹٹولتے اور مسلتے ہوئے اس کے اندر بھی ہیجان ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ گاڑیاں سگنل پر رکتیں اور آگے بڑھتی جارہی تھیں۔ سرخ، زرد اور سبز رنگ کی بتیاں جلنے بجھنے لگیں۔ شہر کے چڑیا گھر میں اپالونامی شیرکے لیے سری لنکا سے شیرنی منگوائی گئی تھی ۔ سڑکوں پر لگے بڑے بڑے بینرز، رشو کا منہ چڑا رہے تھے۔ اس نے نئے امیدوار کے ساتھ چڑیا گھر کا ٹکٹ کٹایا اور اندر داخل ہو گئی۔ سیڑھیاں پار کرتے ہی اس کے سامنے شیروں کا پنجرہ تھا۔ وہ لوہے کے راڈ پر تھوڑی ٹکائے انھیں تکنے لگی۔ شیر دھم دھم کرتا شیرنی کی پشت کو سونگھتا ہوا آگے بڑھ جاتا۔ مجمع اس کے منہ سے خوشی کی دھاڑیں سن کر آوازیں کس رہا تھا۔ شیر جنگلے کی جالی سے خود کو مسلتا تو رشو کے کانوں کے پیچھے چیونٹیاں رینگنے لگتیں۔ نیا امیدوار اس کے کاندھے پر بازو رکھے گال سے گال مس کرتا۔ دونوں شیر کو شیرنی کے پیچھے خوار ہوتا دیکھ کر قہقہے لگانے لگتے۔ بدبو کے بھبھکے اڑ اڑ کر اس کے نتھنوں کو نمناک کرنے لگے۔ رشو کو شیرنی کی عدم دلچسپی اور شیر کی پیش قدمی پر اکتاہٹ ہونے لگی تھی۔ وہ نئے امیدوار کے بازو سے لگی آگے بڑھ گئی۔ جہاں سانپوں کے پنجرے جوڑیوں سے محروم تھے۔ شیر شیرنی کا کھیل زیادہ دیر چل نا سکا۔ دو گھنٹے کی بے نام مسافت سے تھک کر امیدوار نے بائیک کو کک ماری اور سڑک پر گم ہو گیا۔ رشو کی زبان بھی دو رخی ہو کر بڑی ہو گئی تھی۔ وہ اپنے لجلجے جسم کو گھسٹیتے ہوئے باہر سڑک پر رینگنے لگی۔ بیبا جی کا گھر بھی چڑیا گھر تھا۔ جس کے باہر مستقل بورڈ لگا دیا گیاتھا۔ کنوار کدہ۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024