افسانہ :کنکر باغ
افسانہ :کنکر باغ
Oct 13, 2023
دیدبان شمارہ ۔ ۲۰ اور ۲۱
افسانہ : کنکر باغ
مصنف: شہزاد علی
شبستان وجود میں آج سرخوشی کی پُروا چلی تھی، ایسی کہ لمحے کیلئے سب کُچھ بھُول بھال گیا، وہ جو جرمن صُوفی مہاشے نے کہا تھا کہ کمرے کے فرنیچر اور زیبائش کو چھوڑ کر جب کمرے کی وسعت ( کمُ یازیادہ فرق نہیں پڑتا) پر دھیان لگاؤ گے تو آزاد ہو جاؤ گے، خلا، نیستی آزادی ہے۔۔ارے واہ کتنے مزے کی بات ہے کہ آج میں خُوش ہوں، نینا ہپت اللہ نے واقعی کتھک کے انداز میں ہاتھ بلند کئے اور گردن کو دائیں بائیں حرکت دی، گرد آلود پردے کا ایک کونا مرحوم ہپت اللہ کی تصویر کے قیمتی فریم میں اٹکا تھا، برس گزرے سب ملازم فارغ تھے، پیسہ کہاں تھا ان اللے تللوں کیلئے، بھائی کلکتہ کے ایک کالج کے ریٹائرڈ پروفیسر تھے، پکے سُرخے ( اُسے یاد آیا کسی محفل میں اسکے گورے چٹے سسرالیوں میں سے کسی نے کہا تھا یہ دیکھو کالا سُرخا، اسکے سُسرالی یزیدی تھے، نینا کے اپنے مذہب میں راون اور کنس بھی تھے جن کی مثال دی جاسکتی تھی مگر وہ اتنے بُرے وِلن نہیں تھے، منگول اور مسلمنٹے بہترین تہذیب، نفاست، اور اذیت پہنچانے کے نایاب اور محیرالعقول طریقے، بس سب ان پر ختم اور ہاں مسلمنٹوں کے کھانے بھی، کمبختوں کی دالیں اور سبزیاں بھی ہمارے کے ہاں کی دال اور سبزیوں سے بہتر لیکن سوندیش اور رشو گُلا تو ہم نے ہی سکھایا، اور وہاں دکھشن میں مرچوں کا استعمال مگر خُوبانی کا میٹھا، بھلا ہمارے دکھشن کے ہندوؤں کو اسکا خیال کیوں نہیں آیا، اسلئے کہ خُوبانی خشک کر کے یہ مسلمنٹے ہی لائے تھے، زرد آلو کے نام سے، اہل گجرات اب بھی اسے جردالو کہتے ہیں، ایشور کرے ہم زبان سے بھی ان مسلمنٹوں کی ہر شے اکھاڑ پھینکیں لیکن پھر ہم بولیں گے کیا! اسی لئے میں نے مودی جی کو ووٹ دیا، بڑی خوشی ہوئی کہ یوگی جی نے آلہ آباد کا نام بدل دیا) سوچوں کی رونے نینا ہپت اللہ کی خوشی کی ننھی منی سے پُروا کو ساون بھادوں کی اُمس میں بدل دیا، دھپ سے اطالوی مخملیں بننفشی رنگ اُڑے یک نشستی صوفہ پر گریں اور آنکھوں سے رم جھم کی جھڑی لگ گئ “ کتنی وسیع المشرب اور سیکولر تھی میں “ کلکتہ کی زمیندارانہ پرورش ، اردو ، بنگلہ، ہندی، فرانسوی سب شُدھ، چوندر نوگر ( چندر نگر) سے باقاعدہ ایک کانگولیز حبشن فر فر فرانسوی بولتی نن آتی تھی سکھانے، پھر ایک دن کتنے مزے سے بابو جی کو کہا کہ ہم ایران جائیں گے پڑھنے! بھلا کیوں بیبی سارا دنیا کلکتہ آتا ہے پڑھنے آپ وہاں کیوں جائیں گے،” ہمیں حافظ کے مزار پر توتے سے فال نکلوانی ہے”
“ تو ایکبار چلی جئے، دس بار فال نکلوائیے”
“ لیکن ہمیں اس first female batch میں ہونا ہے “
“ مگر حافظ تو شیراز میں ہیں اور آپ جائیں گی طہران ، اتنا دور”
“ لکھنؤ بھی تو گئے تھے اور کتنی بار دلی جاتے ہیں، یہاں ریل گاڑی سے جاتے ہیں وہاں راہ آہن سے جائیں گے”
بابو جی مسکرا دئیے۔۔ طہران میں ہی نینا سرکار ( یا شور کار) کا سامنا ہپت اللہ سے ہوا! جو کُچھ ہی دنوں میں نینا کے ہیپی بابو اور ہیپی جی ہو گئے۔۔ ملنسار، کام سے کام رکھنے والے بہت ہی پکے کشمیری زعفران اور فرش ( قالین ) کے تاجر! نینا بازار بزرگ کی گلیوں میں مسحور سی گھوما کرتی تھی، اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ ایرانی تورانی آئے اور ہندستان کو لُوٹا، اسے انگریزوں سے بھی کوئی شکایت نہیں تھی، اسے کسی سے بھی کوئی شکایت نہیں تھی، وہ حسین تھی، جوان تھی، امیر تھی، اپنی مرضی سے کہیں بھی آ جا سکتی تھی، سُریلا گاتی تھی، پدا ( پدما) کی ہلسا بنانے میں اسکا کوئی ثانی نہیں تھا ( ایک دن اس نے جب خلیج فارس جو خلیج عرب بھی ہو جاتا تھا کی ماہی صبور جو ہلسا یا ایلیش ماچھ کا مقامی نام تھا بنا کر اپنی روم میٹ کو کھلائی تھی تو مرچ مصالحے سے دھواں دھار روتے ہوئے بھی اسنے مزے لے لے کر کھائی تھی اور کہا تھا کہ ہم تو اسے قابل خوردنی سمجھتے ہی نہیں اتنے کانٹے اور نینا نے کلے سے آدھ پاؤ کانٹے نکال کر کہا ہلسا تو دیوی دیوتا بھی شوق سے کھاتے ہیں اور کانٹے زبان سے کلے میں سرکا دیا کرو۔۔ بس۔۔ نہ بابا۔۔ روم میٹ نے کہا، اگلی بار استخون نکال کر بنانا، تو وہ پاگلوں کی طرح ہنسی تھی، ماچھ بھی کوئی کانٹے نکال کر بناتا اور کھاتا ہے؟ ) کیا دن تھے وہ بھی! اور کیوں تھے وہ دن بھی؟ کیوں جب انجام لا چاری، تنہائی اور چتا یا قبر یا منارہ خموشی ہے( یا ان میں سے کچھ بھی نہیں ، لاوارث نعش کسی ویرانے میں ، یا صحرا میں )۔ اگر میں جانتی کہ یہ ہپت اللہ ہیپی میری زندگی کو اس طرح ان ہیپی کر جائے گا تو بابو جی کی بات مان کر جل پائے گوری کے اربندو سین سے ہی بیاہ کر لیتی ۔اربندو، وفادار، سمارٹ، میتھمیٹکس میں رشیا سے ڈگری لے کر وہیں جل پائے میں گورنمنٹ سکول کی نوکری کی اور ہیپی کی موت کے بعد جب اسکی پہلی بیوی اور بچوں نے اس واحد ملکیت جو ہیپی نے اسکے لئے چھوڑی تھی پر مقدمہ کیا تو آج تک وہی کام آیا، اربندو نے شادی نہیں کی، سکول کی پنشن سے جو بھی بچا پاتا ہے ہر تیسرے ماہ ایک لفافہ آتا ہے، چند نوٹ، اور ہاں یہی چند نوٹ ہیں جن کا انتظار رہتا ہے مجھے، کیونکہ ان جھریوں زدہ گردن اور مُردہ لٹکی چھاتیوں کے نیچے ایک پیٹ ہے جو بھوک لگے تو نڈھال کرتا ہے، اللہ بھات دے، ایشور غارت کرے نہرو اور اسکے ٹولے کو اور جوتی باسو اور اسکے ٹولے کو، ساری زمینیں اور ٹھاٹھ، بابو جی اسی غم میں مر گئے ادھر ان موت آئے مسلمنٹوں نے سب کی جاگیریں رہنے دیں، شامت ہماری آئی، گاندھی جی کی طرح کیا ننگے رہیں! ننگا کردیا اس نہرو گاندھی کے ٹولے نے ورنہ آج کم از کم بابو جی کی زمینوں سے ہی کچھ آتا! جونا گڑھ سے تنخواہ لے کر اس گنجے پردھان منتری نے انکے وہاں لاڑکانہ میں لاکھوں ایکڑ زمین خریدا اور یہ ہمارے لال بہادر چلے تھے تنخواہ بھی دان کرنے! پورا دیش ہی دان ہو گیا! اور بھیا اور بھوجی سب اس منحوس پارٹی کے رکھوالے اور چمچے، بھیا نے کبھی یہ سوچا کہ میرا کیا ہوگا! لیکن بھیا کو کیا پتہ تھاکہ میرا کیا ہوگا! ہیپی تو پونجی وادی تھا، کتنا بڑا گھر اور کاروبار، کلکتہ میں پہلی بیوی اور سسرال سے ان بن سے بچی رہوں تو یہاں پٹنہ میں کنکر باغ میں کتنا حسین بنگلہ اور انیکسی دی، ڈیملر ، خانساماں، شیشم اور بید کے جھاڑ، کیسے ساڑھی ڈانٹ ، کیس چھٹکائے بید کی ڈال ہاتھ میں تھامے شکنتلا بن ہیپی کو کہتی تھی “ ناتھ، تپسیا توڑو، تن من ہم سے جوڑو” ، مگر ہیپی کی تپسیا نہ ٹوٹتی، چھ سال ہوئے گود ہری نہ ہوئی، اب پندرہ برس بڑے تھے اور پہلی دلہن سے چار لڑکا، لیکن میں بھی بانجھ نہیں تھی! دوا دارو کے بعد منت مندر، وقت کیسے گزرتا ہے۔۔۔ جب تک ہیپی تھے دھیان ہی نہیں رہا کہ گھر اپنے نام کرواتی، سول میرج تھی اور ایک بنگالہ بہار کا وہ منحوس اسٹیمپ پیپر کہ نینا ہپت اللہ گھر کی مستقل کرایہ دار ہیں تاعمر سو روپیہ سال! تو بھلا کوئی ایسا کرتا ہے! ایکبار پڑوسی ہر بات کی کھد بھد لینی والی سول سرونٹ سریواستو جی کی بیگم نے کان بھرے تو ہیپی سے کہا کہ گھر ہمارے نام کردیں، کام آپ کرنے نہیں دیتے گزارا کیسے کریں گے “ کیا تم ہماری موت کی منتظر ہو” اب بھلا اس جواب کے بعد کوئی کیا کہتا، محبت اندھی، گونگی، بہری، لنگڑی، کینسر زدہ، سب کچھ ہوتی ہے۔۔ ایشور نہ کرے کہ ہیپی جی کو کچھ ہو! آگ لگے اس موئی سڑی بہارن مسسز سری واستو کو کیسے کان بھر گئی اور پھر ہیپی جی نے ایک دن بتا بھی دیا کہ ہمارے ہاں ( یعنی ان خبیث مسلمنٹوں کے ہاں) عورتوں کے نام جائیداد نہیں کرتے۔۔ بڑی دلہن کے نام بھی کچھ نہیں ۔۔ ہمیں کچھ ہوا تو لڑکے سنبھالیں گے، ہم نے کبھی اپنی دو چھوٹی امیوں اور انکے بچوں کے ساتھ نا انصافی کی، نینا نے جھٹ ہیپی کی بلائیں لیں کہ وہ سدا سہاگن رہے ( یعنی ہیپی سے پہلے مر جائے، اور مر ہی جاتی، کبھی یہ کُھد بُد نہ ہوئی کہ جا کر ان چھوٹی امیوں کا حال پوچھتی کہ ہیپی میاں نے کیسے رکھا ہے، برسوں بعد کچہری میں انہی امیوں کے کسی ناتے پوتے نے پہچان کر بات کی تھی، وہی مقدمے بازی، اے کاش ایشور عقل دیتا! لیکن ایشور بھی کہتا ہوگا کہ دے تو رہا تھا لی کیوں نہ؟ ) صدیوں سے ایک دوسرے کی بلا ئیں لی جاتی ہیں، سدا جیتے رہو، خُدا عُمر خِضر دے وغیرہ وغیرہ کہا جاتا ہے، پھر بھی سب مر جاتے ہیں، اگر اللہ لگتی کہا جائے تو اگر زبان سے جھوٹ نکال دیا جائے تو صرف خآموشی ہی بچے گی، اور اسی کنکر باغ سے لگ بھگ سوا سو میل دور بُدھا نے اسی لئے چپ رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور نروان لیا تھا، اور نروان کیا تھا، شُنیہ! نیستی، کُچھ نہیں ، خاموشی۔۔۔اور اسی کنکر باغ سے لگ بھگ دس میل دور “ بورنگ روڈ” کی فٹ پاتھ پر ، ہیپی جی نینا کیلئے گجرے خریدنے رکے تھے، شیشم کے پیڑ کے نیچے ایک اینگلو یا فرینکو انڈین بڑھیا، جوہی اور موگرے کے گجرے بیچتی تھی، بورنگ روڈ کی یہ گونگی بھک گوری، اڑی رنگت کی بلونڈ گجرے والی مشہور تھی، سنا تھا باقی اینگلوز کی ایک تعداد کی طرح یہ بھی لال بیبی تھیں ، نینا نے ہیپی بانو سے پوچھا تھا “ مرد گونگی عورتوں کو بھی نہیں چھوڑتے “، تو وہ مسکرا کر کہے “ گونگی عورتیں بھی بولتے ہوئے مرد کو نہیں چھوڑتیں “ یہ کیا اٹ پٹا جواب تھا؟ نینا کو اسکے بنائے بل دار چوٹی والے گجرے پسند تھے ، پچھلی بار جب ہیپی کلکتہ گئے تھے ( جو کہ وہ ہمیشہ ہی جاتے تھے اور اکثر کلکتہ ہی رہتے تھے ) نینا نے کہا تھا کہ واپسی پر گجرے لیتے آئیے گا! “ یہیں تو ہے، ابھی منگوا دیتے ہیں “
“ نہیں آپ لائیے گا واپسی پر”
“ آپ ایک ماہ انتظار کریں گی؟ یہیں تو ہے بورنگ روڈ، گاڑی لے جائیے گا اور لے لیجئے گا، ہم بھی لے آئیں گے”
“ ہم بورنگ روڈ جا کر بور ہو جاتے ہیں ، آپ ہی لائیے گا”
نینا اتنے برس بعد بھی نو بیاہتاہوں کی سی اٹھکیلیاں کرتی ( تو جب مقدمے چلے اور ہیپی جی کے بیٹوں نے ثابت کیا کہ سول میرج تو وکیل نے رجسٹرڈ نہیں کی تھی، انکے ابا نے اس عورت کا دل رکھنے کیلئے ایک کاغذ کا ٹکڑا بنوا دیا تھا، تو نینا سرکار تو انکی داشتہ تھیں جہاں ہر ماہ وہ چار دن کیلئے جاتے تھے، یعنی دس سالوں میں چار سو اسی دن ، تو نینا نے اس میں تین ماہ ایران کا اضافہ کروایا تھا لیکن اس اضافے سے لفظ داشتہ یا ایسکورٹ کی شدت میں کوئی کمی نہ ہوئی تھی، گھر آکر وہ پچھاڑیں کھا کر روئی تھی، بھوجی اور بھائی دونوں بہت میٹر آف دا فیکٹ سرخے تھے، تسلی نہیں دی بس یہ کہا کہ آپ کو اگر کیس لڑنا ہے تو مضبوط ہونا ہوگا، ہر بار اتنا ہاہاکار کریںگی تو کیس لڑنے کی انرجی کہاں سے لائیں گی! یہ تسلی سن کر نینا کا جی چاہا وہ بھی بورنگ روڈ پر جا کر یا تو لال بیبی بنے یا اسی جگہ خودکشی کر لے جہاں ہیپی جی کو گجرے لیتے ہوئے دل کا دورہ پڑا تھا اور گونگی اینگلو یا فرینکو انڈین نے مصنوعی تنفس دینے کے بعد پولیس اور ہسپتال کی گاڑی آنے تک اپنے سارے گجروں سے ہیپی جی کی لاش پر کراس کا نشان ڈیکوریٹ کیا تھا، جسکی تصویر پٹنہ کے اخباروں میں بہت مشہور ہوئی تھی)۔ نینا سرکار اب بس مقدمہ لڑتیں، پہلے وکیلوں کے توسط اور پھر اکیلے، تنہا ہوتیں تب بھی جرح ہی کرتیں، “ یہ دماغ گونگا کیوں نہیں ہوتا ؟” ایک ایک کرکے قیمتی چیزیں بکتی گئیں ، نوکروں کی تعداد میں کمی ہوتی گئی، کنکر باغ کا حسین سبرب جہاں گنگا اور یہانتک کے پُن پُن ندی کی ہوائیں تک آتیں اور جب ہزاری باغ اور سیلیگُری کی جھیلوں کے رنگین بگُلے ( جنہیں ہیپی بابو اور مسلمنٹے سارس کہتے تھے) کنکر باغ میں اطمینان سے گھومتے تھے، اب ایک کے بعد ایک پرانے گیسٹ ہاؤس ، صاحب لوگوں کے مکان ، کوٹھیاں ، بنگلے سب اپارٹمنٹس اور بڑی بڑی بلڈنگوں میں بدل گئے تھے، سارس، گوریا، چنڈول، رام چڑیا تو کیا اب تو یہاں کوے بھی ہگنے نہ آتے تھے، پُران اُپنشدوں میں صحیح لکھا ہے، کل یُگ میں ہر خُوشی کاگ وِشٹھٰا سمان ہوگی، کوے کی بیٹھ۔۔ جیسی میرے تھی، یعنی دس سال کوے کی بیٹھ تھے، پھُس سے گرے اور کوا اڑ گیا! صبح جو سرخوشی اتری تھی وہ اب اسی مانوس رائگانی کے احساس میں بدل گئی تھی جو انسان کا مقدر ہے! گھر میں بجلی نہیں تھی ( بل کون دیتا؟ کوّا)، پڑوس میں جو بڑی سی بلڈنگ تھی اسکے نیچے ایک بنگلہ دیشی بذل الرحمن عرف بجلو دادا نے پان کی دکان سجائی تھی ( بجلو دا کی طرح انکی پان کی دکان بھی غیر قانونی تھی، مگر جو سب کہتے ہیں نا، یہ بہار ہے میاں یہاں کی گنگا بھی پتت پاونی نہیں، سب چلتا ہے) تو بجلو دا نے جس کھمبے سے کُنڈا لگایا تھا اسی سے انہیں ایک کمرے میں پنکھا اور لیمپ جلانے بھر بجلی لگا دی تھی، گھر کے باہر اب تک اردو اور انگلش میں “ منزل ہپت اللہ قاضی” تحریر تھا، بجلو میاں کو اردو نہ آتی تھی لیکن نینا ہپت اللہ کے میاں مسلمان تھے اور اردو رسم الخط عربی سا تھا اور نینا اب تک گوٹے والا غرارہ اور دبکے کے کام کے جھالر والے دوپٹے پہنتی تھیں اور بنگالی تھیں تو بس بجلو دا انکی مدد کرتے تھے، نینا سرکار پان والے سے مدد لیتے ہوئے ہچکچائی تھیں اور کہا تھا کہ جب مقدمہ جیت جائیں گے تو سب قرض دیدیں گے، بجلو دا نے بنگلہ کہا تھا کہ آپ اپنا ناتا پوتا سمجھ کر دعا کر دیں (دل میں نینا سرکار کے اب ہر مسلمان کے تئیں پُرخاش تھی، میرا ناتا پوتا، میں اپنی اور اپنے باپ کی نسل کی آخری جوت ہوں، میں نے نوے برس سے زیادہ زندگی پائی ہے لیکن میں کئی بار مر چکی ہوں، میں اس وقت بھی مری تھی جب ہماری زمینیں تم جیسے پھٹیچروں میں بٹی تھیں ، تب میں خوش تھی کہ تم۔ اسے آباد کرو گے، تم نے یا تو وہ بیچ کھائی اور پھر پھٹیچر ہوگئے یا زمین کو پانی نے نگل لیا، میں پھر ہیپی جی کے ساتھ بھی مری تھی، ہر زیور کپڑا بیچتے ہوئے بھی، اور کنکر باغ کو کنکریٹ باغ بنتے دیکھ کر بھی ، اور بھوک سے بچنے کیلئے پٹنہ صاحب دربار کی زیارت پر جا کر بھی ( یہ سکھ لال لوبیا اچھا بناتے ہیں)، میں لیکن اسبار بس مر ہی گئی تھی جب میں نے مسلمانوں سے پہلی بار نفرت کی تھی، کیونکہ میں اپنے ذاتی جھمیلے کو اپنی یونیورسل ہیو مینزم سے الگ کر کے نہ دیکھ پائی، میں ۔۔۔۔)
باہر ڈاکیہ آیا تھا۔۔ چلو شکر ماں ( میں بھدرا کالی کو ہر بنگالی کی طرح ہر بات کا ذمہ دار قرار دیتی ہوں اور شکر اور شکایت سب اس سے کرتی ہوں، مسلمنٹوں کی طرح نہیں کہ بس ہاں یہ وہ)۔ اسبار اربندو نے دیر کردی ۔۔ اتنی دیر۔۔ ڈاکیہ سیاہ حاشیے والا لفافہ تھما کر چلتا بنا “ سالی کسی نباب کی رکھیل کبھی بخشیش بھی نہیں دیتی)۔
نینا ہپت اللہ صوفے میں مزید دھنس گئی!۔۔ بجلو دا نے ڈاکیے کو پان دے کر پوچھا “ بڑی بیگم ٹھیک ہے”
“ ہاں ٹھیک ہے۔۔ موت کی سناؤنی ہے۔۔ پوچھ لینا۔۔ کوئی بھائی بندو مر گیا ہوگا۔۔ “
بجلو دا نے اناللہ پڑھا ۔۔ “ بے چارا بڑی بیگم۔۔ “ پورا علاقہ نینا ہپت اللہ کی غربت اور رعونت سے آگاہ تھا
“ اے گھنیش، شام سے دو کٹوری مچھی دال بھات بیگم کو بھی دے کر آنا۔۔@
“ پچھلی بار لوٹا دیا تھا، بلی لوگ کھا لیا”
“ اب نہیں لوٹائے گا”
نینا ہپت اللہ کے متنازعہ سالخوردہ گھر کے احاطے میں کدم کے پیڑ کے نیچے بلی نے کئی بلونگڑے ایک ساتھ ہی ادا کئے۔۔ اور انہیں ذرا اوپر والی شاخوں کے چُنگل پر رکھ کر محلے میں کھانا ڈھونڈھنے نکلی، اس گھر سے اسے بھی کوئی امید نہیں تھی
دیدبان شمارہ ۔ ۲۰ اور ۲۱
افسانہ : کنکر باغ
مصنف: شہزاد علی
شبستان وجود میں آج سرخوشی کی پُروا چلی تھی، ایسی کہ لمحے کیلئے سب کُچھ بھُول بھال گیا، وہ جو جرمن صُوفی مہاشے نے کہا تھا کہ کمرے کے فرنیچر اور زیبائش کو چھوڑ کر جب کمرے کی وسعت ( کمُ یازیادہ فرق نہیں پڑتا) پر دھیان لگاؤ گے تو آزاد ہو جاؤ گے، خلا، نیستی آزادی ہے۔۔ارے واہ کتنے مزے کی بات ہے کہ آج میں خُوش ہوں، نینا ہپت اللہ نے واقعی کتھک کے انداز میں ہاتھ بلند کئے اور گردن کو دائیں بائیں حرکت دی، گرد آلود پردے کا ایک کونا مرحوم ہپت اللہ کی تصویر کے قیمتی فریم میں اٹکا تھا، برس گزرے سب ملازم فارغ تھے، پیسہ کہاں تھا ان اللے تللوں کیلئے، بھائی کلکتہ کے ایک کالج کے ریٹائرڈ پروفیسر تھے، پکے سُرخے ( اُسے یاد آیا کسی محفل میں اسکے گورے چٹے سسرالیوں میں سے کسی نے کہا تھا یہ دیکھو کالا سُرخا، اسکے سُسرالی یزیدی تھے، نینا کے اپنے مذہب میں راون اور کنس بھی تھے جن کی مثال دی جاسکتی تھی مگر وہ اتنے بُرے وِلن نہیں تھے، منگول اور مسلمنٹے بہترین تہذیب، نفاست، اور اذیت پہنچانے کے نایاب اور محیرالعقول طریقے، بس سب ان پر ختم اور ہاں مسلمنٹوں کے کھانے بھی، کمبختوں کی دالیں اور سبزیاں بھی ہمارے کے ہاں کی دال اور سبزیوں سے بہتر لیکن سوندیش اور رشو گُلا تو ہم نے ہی سکھایا، اور وہاں دکھشن میں مرچوں کا استعمال مگر خُوبانی کا میٹھا، بھلا ہمارے دکھشن کے ہندوؤں کو اسکا خیال کیوں نہیں آیا، اسلئے کہ خُوبانی خشک کر کے یہ مسلمنٹے ہی لائے تھے، زرد آلو کے نام سے، اہل گجرات اب بھی اسے جردالو کہتے ہیں، ایشور کرے ہم زبان سے بھی ان مسلمنٹوں کی ہر شے اکھاڑ پھینکیں لیکن پھر ہم بولیں گے کیا! اسی لئے میں نے مودی جی کو ووٹ دیا، بڑی خوشی ہوئی کہ یوگی جی نے آلہ آباد کا نام بدل دیا) سوچوں کی رونے نینا ہپت اللہ کی خوشی کی ننھی منی سے پُروا کو ساون بھادوں کی اُمس میں بدل دیا، دھپ سے اطالوی مخملیں بننفشی رنگ اُڑے یک نشستی صوفہ پر گریں اور آنکھوں سے رم جھم کی جھڑی لگ گئ “ کتنی وسیع المشرب اور سیکولر تھی میں “ کلکتہ کی زمیندارانہ پرورش ، اردو ، بنگلہ، ہندی، فرانسوی سب شُدھ، چوندر نوگر ( چندر نگر) سے باقاعدہ ایک کانگولیز حبشن فر فر فرانسوی بولتی نن آتی تھی سکھانے، پھر ایک دن کتنے مزے سے بابو جی کو کہا کہ ہم ایران جائیں گے پڑھنے! بھلا کیوں بیبی سارا دنیا کلکتہ آتا ہے پڑھنے آپ وہاں کیوں جائیں گے،” ہمیں حافظ کے مزار پر توتے سے فال نکلوانی ہے”
“ تو ایکبار چلی جئے، دس بار فال نکلوائیے”
“ لیکن ہمیں اس first female batch میں ہونا ہے “
“ مگر حافظ تو شیراز میں ہیں اور آپ جائیں گی طہران ، اتنا دور”
“ لکھنؤ بھی تو گئے تھے اور کتنی بار دلی جاتے ہیں، یہاں ریل گاڑی سے جاتے ہیں وہاں راہ آہن سے جائیں گے”
بابو جی مسکرا دئیے۔۔ طہران میں ہی نینا سرکار ( یا شور کار) کا سامنا ہپت اللہ سے ہوا! جو کُچھ ہی دنوں میں نینا کے ہیپی بابو اور ہیپی جی ہو گئے۔۔ ملنسار، کام سے کام رکھنے والے بہت ہی پکے کشمیری زعفران اور فرش ( قالین ) کے تاجر! نینا بازار بزرگ کی گلیوں میں مسحور سی گھوما کرتی تھی، اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ ایرانی تورانی آئے اور ہندستان کو لُوٹا، اسے انگریزوں سے بھی کوئی شکایت نہیں تھی، اسے کسی سے بھی کوئی شکایت نہیں تھی، وہ حسین تھی، جوان تھی، امیر تھی، اپنی مرضی سے کہیں بھی آ جا سکتی تھی، سُریلا گاتی تھی، پدا ( پدما) کی ہلسا بنانے میں اسکا کوئی ثانی نہیں تھا ( ایک دن اس نے جب خلیج فارس جو خلیج عرب بھی ہو جاتا تھا کی ماہی صبور جو ہلسا یا ایلیش ماچھ کا مقامی نام تھا بنا کر اپنی روم میٹ کو کھلائی تھی تو مرچ مصالحے سے دھواں دھار روتے ہوئے بھی اسنے مزے لے لے کر کھائی تھی اور کہا تھا کہ ہم تو اسے قابل خوردنی سمجھتے ہی نہیں اتنے کانٹے اور نینا نے کلے سے آدھ پاؤ کانٹے نکال کر کہا ہلسا تو دیوی دیوتا بھی شوق سے کھاتے ہیں اور کانٹے زبان سے کلے میں سرکا دیا کرو۔۔ بس۔۔ نہ بابا۔۔ روم میٹ نے کہا، اگلی بار استخون نکال کر بنانا، تو وہ پاگلوں کی طرح ہنسی تھی، ماچھ بھی کوئی کانٹے نکال کر بناتا اور کھاتا ہے؟ ) کیا دن تھے وہ بھی! اور کیوں تھے وہ دن بھی؟ کیوں جب انجام لا چاری، تنہائی اور چتا یا قبر یا منارہ خموشی ہے( یا ان میں سے کچھ بھی نہیں ، لاوارث نعش کسی ویرانے میں ، یا صحرا میں )۔ اگر میں جانتی کہ یہ ہپت اللہ ہیپی میری زندگی کو اس طرح ان ہیپی کر جائے گا تو بابو جی کی بات مان کر جل پائے گوری کے اربندو سین سے ہی بیاہ کر لیتی ۔اربندو، وفادار، سمارٹ، میتھمیٹکس میں رشیا سے ڈگری لے کر وہیں جل پائے میں گورنمنٹ سکول کی نوکری کی اور ہیپی کی موت کے بعد جب اسکی پہلی بیوی اور بچوں نے اس واحد ملکیت جو ہیپی نے اسکے لئے چھوڑی تھی پر مقدمہ کیا تو آج تک وہی کام آیا، اربندو نے شادی نہیں کی، سکول کی پنشن سے جو بھی بچا پاتا ہے ہر تیسرے ماہ ایک لفافہ آتا ہے، چند نوٹ، اور ہاں یہی چند نوٹ ہیں جن کا انتظار رہتا ہے مجھے، کیونکہ ان جھریوں زدہ گردن اور مُردہ لٹکی چھاتیوں کے نیچے ایک پیٹ ہے جو بھوک لگے تو نڈھال کرتا ہے، اللہ بھات دے، ایشور غارت کرے نہرو اور اسکے ٹولے کو اور جوتی باسو اور اسکے ٹولے کو، ساری زمینیں اور ٹھاٹھ، بابو جی اسی غم میں مر گئے ادھر ان موت آئے مسلمنٹوں نے سب کی جاگیریں رہنے دیں، شامت ہماری آئی، گاندھی جی کی طرح کیا ننگے رہیں! ننگا کردیا اس نہرو گاندھی کے ٹولے نے ورنہ آج کم از کم بابو جی کی زمینوں سے ہی کچھ آتا! جونا گڑھ سے تنخواہ لے کر اس گنجے پردھان منتری نے انکے وہاں لاڑکانہ میں لاکھوں ایکڑ زمین خریدا اور یہ ہمارے لال بہادر چلے تھے تنخواہ بھی دان کرنے! پورا دیش ہی دان ہو گیا! اور بھیا اور بھوجی سب اس منحوس پارٹی کے رکھوالے اور چمچے، بھیا نے کبھی یہ سوچا کہ میرا کیا ہوگا! لیکن بھیا کو کیا پتہ تھاکہ میرا کیا ہوگا! ہیپی تو پونجی وادی تھا، کتنا بڑا گھر اور کاروبار، کلکتہ میں پہلی بیوی اور سسرال سے ان بن سے بچی رہوں تو یہاں پٹنہ میں کنکر باغ میں کتنا حسین بنگلہ اور انیکسی دی، ڈیملر ، خانساماں، شیشم اور بید کے جھاڑ، کیسے ساڑھی ڈانٹ ، کیس چھٹکائے بید کی ڈال ہاتھ میں تھامے شکنتلا بن ہیپی کو کہتی تھی “ ناتھ، تپسیا توڑو، تن من ہم سے جوڑو” ، مگر ہیپی کی تپسیا نہ ٹوٹتی، چھ سال ہوئے گود ہری نہ ہوئی، اب پندرہ برس بڑے تھے اور پہلی دلہن سے چار لڑکا، لیکن میں بھی بانجھ نہیں تھی! دوا دارو کے بعد منت مندر، وقت کیسے گزرتا ہے۔۔۔ جب تک ہیپی تھے دھیان ہی نہیں رہا کہ گھر اپنے نام کرواتی، سول میرج تھی اور ایک بنگالہ بہار کا وہ منحوس اسٹیمپ پیپر کہ نینا ہپت اللہ گھر کی مستقل کرایہ دار ہیں تاعمر سو روپیہ سال! تو بھلا کوئی ایسا کرتا ہے! ایکبار پڑوسی ہر بات کی کھد بھد لینی والی سول سرونٹ سریواستو جی کی بیگم نے کان بھرے تو ہیپی سے کہا کہ گھر ہمارے نام کردیں، کام آپ کرنے نہیں دیتے گزارا کیسے کریں گے “ کیا تم ہماری موت کی منتظر ہو” اب بھلا اس جواب کے بعد کوئی کیا کہتا، محبت اندھی، گونگی، بہری، لنگڑی، کینسر زدہ، سب کچھ ہوتی ہے۔۔ ایشور نہ کرے کہ ہیپی جی کو کچھ ہو! آگ لگے اس موئی سڑی بہارن مسسز سری واستو کو کیسے کان بھر گئی اور پھر ہیپی جی نے ایک دن بتا بھی دیا کہ ہمارے ہاں ( یعنی ان خبیث مسلمنٹوں کے ہاں) عورتوں کے نام جائیداد نہیں کرتے۔۔ بڑی دلہن کے نام بھی کچھ نہیں ۔۔ ہمیں کچھ ہوا تو لڑکے سنبھالیں گے، ہم نے کبھی اپنی دو چھوٹی امیوں اور انکے بچوں کے ساتھ نا انصافی کی، نینا نے جھٹ ہیپی کی بلائیں لیں کہ وہ سدا سہاگن رہے ( یعنی ہیپی سے پہلے مر جائے، اور مر ہی جاتی، کبھی یہ کُھد بُد نہ ہوئی کہ جا کر ان چھوٹی امیوں کا حال پوچھتی کہ ہیپی میاں نے کیسے رکھا ہے، برسوں بعد کچہری میں انہی امیوں کے کسی ناتے پوتے نے پہچان کر بات کی تھی، وہی مقدمے بازی، اے کاش ایشور عقل دیتا! لیکن ایشور بھی کہتا ہوگا کہ دے تو رہا تھا لی کیوں نہ؟ ) صدیوں سے ایک دوسرے کی بلا ئیں لی جاتی ہیں، سدا جیتے رہو، خُدا عُمر خِضر دے وغیرہ وغیرہ کہا جاتا ہے، پھر بھی سب مر جاتے ہیں، اگر اللہ لگتی کہا جائے تو اگر زبان سے جھوٹ نکال دیا جائے تو صرف خآموشی ہی بچے گی، اور اسی کنکر باغ سے لگ بھگ سوا سو میل دور بُدھا نے اسی لئے چپ رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور نروان لیا تھا، اور نروان کیا تھا، شُنیہ! نیستی، کُچھ نہیں ، خاموشی۔۔۔اور اسی کنکر باغ سے لگ بھگ دس میل دور “ بورنگ روڈ” کی فٹ پاتھ پر ، ہیپی جی نینا کیلئے گجرے خریدنے رکے تھے، شیشم کے پیڑ کے نیچے ایک اینگلو یا فرینکو انڈین بڑھیا، جوہی اور موگرے کے گجرے بیچتی تھی، بورنگ روڈ کی یہ گونگی بھک گوری، اڑی رنگت کی بلونڈ گجرے والی مشہور تھی، سنا تھا باقی اینگلوز کی ایک تعداد کی طرح یہ بھی لال بیبی تھیں ، نینا نے ہیپی بانو سے پوچھا تھا “ مرد گونگی عورتوں کو بھی نہیں چھوڑتے “، تو وہ مسکرا کر کہے “ گونگی عورتیں بھی بولتے ہوئے مرد کو نہیں چھوڑتیں “ یہ کیا اٹ پٹا جواب تھا؟ نینا کو اسکے بنائے بل دار چوٹی والے گجرے پسند تھے ، پچھلی بار جب ہیپی کلکتہ گئے تھے ( جو کہ وہ ہمیشہ ہی جاتے تھے اور اکثر کلکتہ ہی رہتے تھے ) نینا نے کہا تھا کہ واپسی پر گجرے لیتے آئیے گا! “ یہیں تو ہے، ابھی منگوا دیتے ہیں “
“ نہیں آپ لائیے گا واپسی پر”
“ آپ ایک ماہ انتظار کریں گی؟ یہیں تو ہے بورنگ روڈ، گاڑی لے جائیے گا اور لے لیجئے گا، ہم بھی لے آئیں گے”
“ ہم بورنگ روڈ جا کر بور ہو جاتے ہیں ، آپ ہی لائیے گا”
نینا اتنے برس بعد بھی نو بیاہتاہوں کی سی اٹھکیلیاں کرتی ( تو جب مقدمے چلے اور ہیپی جی کے بیٹوں نے ثابت کیا کہ سول میرج تو وکیل نے رجسٹرڈ نہیں کی تھی، انکے ابا نے اس عورت کا دل رکھنے کیلئے ایک کاغذ کا ٹکڑا بنوا دیا تھا، تو نینا سرکار تو انکی داشتہ تھیں جہاں ہر ماہ وہ چار دن کیلئے جاتے تھے، یعنی دس سالوں میں چار سو اسی دن ، تو نینا نے اس میں تین ماہ ایران کا اضافہ کروایا تھا لیکن اس اضافے سے لفظ داشتہ یا ایسکورٹ کی شدت میں کوئی کمی نہ ہوئی تھی، گھر آکر وہ پچھاڑیں کھا کر روئی تھی، بھوجی اور بھائی دونوں بہت میٹر آف دا فیکٹ سرخے تھے، تسلی نہیں دی بس یہ کہا کہ آپ کو اگر کیس لڑنا ہے تو مضبوط ہونا ہوگا، ہر بار اتنا ہاہاکار کریںگی تو کیس لڑنے کی انرجی کہاں سے لائیں گی! یہ تسلی سن کر نینا کا جی چاہا وہ بھی بورنگ روڈ پر جا کر یا تو لال بیبی بنے یا اسی جگہ خودکشی کر لے جہاں ہیپی جی کو گجرے لیتے ہوئے دل کا دورہ پڑا تھا اور گونگی اینگلو یا فرینکو انڈین نے مصنوعی تنفس دینے کے بعد پولیس اور ہسپتال کی گاڑی آنے تک اپنے سارے گجروں سے ہیپی جی کی لاش پر کراس کا نشان ڈیکوریٹ کیا تھا، جسکی تصویر پٹنہ کے اخباروں میں بہت مشہور ہوئی تھی)۔ نینا سرکار اب بس مقدمہ لڑتیں، پہلے وکیلوں کے توسط اور پھر اکیلے، تنہا ہوتیں تب بھی جرح ہی کرتیں، “ یہ دماغ گونگا کیوں نہیں ہوتا ؟” ایک ایک کرکے قیمتی چیزیں بکتی گئیں ، نوکروں کی تعداد میں کمی ہوتی گئی، کنکر باغ کا حسین سبرب جہاں گنگا اور یہانتک کے پُن پُن ندی کی ہوائیں تک آتیں اور جب ہزاری باغ اور سیلیگُری کی جھیلوں کے رنگین بگُلے ( جنہیں ہیپی بابو اور مسلمنٹے سارس کہتے تھے) کنکر باغ میں اطمینان سے گھومتے تھے، اب ایک کے بعد ایک پرانے گیسٹ ہاؤس ، صاحب لوگوں کے مکان ، کوٹھیاں ، بنگلے سب اپارٹمنٹس اور بڑی بڑی بلڈنگوں میں بدل گئے تھے، سارس، گوریا، چنڈول، رام چڑیا تو کیا اب تو یہاں کوے بھی ہگنے نہ آتے تھے، پُران اُپنشدوں میں صحیح لکھا ہے، کل یُگ میں ہر خُوشی کاگ وِشٹھٰا سمان ہوگی، کوے کی بیٹھ۔۔ جیسی میرے تھی، یعنی دس سال کوے کی بیٹھ تھے، پھُس سے گرے اور کوا اڑ گیا! صبح جو سرخوشی اتری تھی وہ اب اسی مانوس رائگانی کے احساس میں بدل گئی تھی جو انسان کا مقدر ہے! گھر میں بجلی نہیں تھی ( بل کون دیتا؟ کوّا)، پڑوس میں جو بڑی سی بلڈنگ تھی اسکے نیچے ایک بنگلہ دیشی بذل الرحمن عرف بجلو دادا نے پان کی دکان سجائی تھی ( بجلو دا کی طرح انکی پان کی دکان بھی غیر قانونی تھی، مگر جو سب کہتے ہیں نا، یہ بہار ہے میاں یہاں کی گنگا بھی پتت پاونی نہیں، سب چلتا ہے) تو بجلو دا نے جس کھمبے سے کُنڈا لگایا تھا اسی سے انہیں ایک کمرے میں پنکھا اور لیمپ جلانے بھر بجلی لگا دی تھی، گھر کے باہر اب تک اردو اور انگلش میں “ منزل ہپت اللہ قاضی” تحریر تھا، بجلو میاں کو اردو نہ آتی تھی لیکن نینا ہپت اللہ کے میاں مسلمان تھے اور اردو رسم الخط عربی سا تھا اور نینا اب تک گوٹے والا غرارہ اور دبکے کے کام کے جھالر والے دوپٹے پہنتی تھیں اور بنگالی تھیں تو بس بجلو دا انکی مدد کرتے تھے، نینا سرکار پان والے سے مدد لیتے ہوئے ہچکچائی تھیں اور کہا تھا کہ جب مقدمہ جیت جائیں گے تو سب قرض دیدیں گے، بجلو دا نے بنگلہ کہا تھا کہ آپ اپنا ناتا پوتا سمجھ کر دعا کر دیں (دل میں نینا سرکار کے اب ہر مسلمان کے تئیں پُرخاش تھی، میرا ناتا پوتا، میں اپنی اور اپنے باپ کی نسل کی آخری جوت ہوں، میں نے نوے برس سے زیادہ زندگی پائی ہے لیکن میں کئی بار مر چکی ہوں، میں اس وقت بھی مری تھی جب ہماری زمینیں تم جیسے پھٹیچروں میں بٹی تھیں ، تب میں خوش تھی کہ تم۔ اسے آباد کرو گے، تم نے یا تو وہ بیچ کھائی اور پھر پھٹیچر ہوگئے یا زمین کو پانی نے نگل لیا، میں پھر ہیپی جی کے ساتھ بھی مری تھی، ہر زیور کپڑا بیچتے ہوئے بھی، اور کنکر باغ کو کنکریٹ باغ بنتے دیکھ کر بھی ، اور بھوک سے بچنے کیلئے پٹنہ صاحب دربار کی زیارت پر جا کر بھی ( یہ سکھ لال لوبیا اچھا بناتے ہیں)، میں لیکن اسبار بس مر ہی گئی تھی جب میں نے مسلمانوں سے پہلی بار نفرت کی تھی، کیونکہ میں اپنے ذاتی جھمیلے کو اپنی یونیورسل ہیو مینزم سے الگ کر کے نہ دیکھ پائی، میں ۔۔۔۔)
باہر ڈاکیہ آیا تھا۔۔ چلو شکر ماں ( میں بھدرا کالی کو ہر بنگالی کی طرح ہر بات کا ذمہ دار قرار دیتی ہوں اور شکر اور شکایت سب اس سے کرتی ہوں، مسلمنٹوں کی طرح نہیں کہ بس ہاں یہ وہ)۔ اسبار اربندو نے دیر کردی ۔۔ اتنی دیر۔۔ ڈاکیہ سیاہ حاشیے والا لفافہ تھما کر چلتا بنا “ سالی کسی نباب کی رکھیل کبھی بخشیش بھی نہیں دیتی)۔
نینا ہپت اللہ صوفے میں مزید دھنس گئی!۔۔ بجلو دا نے ڈاکیے کو پان دے کر پوچھا “ بڑی بیگم ٹھیک ہے”
“ ہاں ٹھیک ہے۔۔ موت کی سناؤنی ہے۔۔ پوچھ لینا۔۔ کوئی بھائی بندو مر گیا ہوگا۔۔ “
بجلو دا نے اناللہ پڑھا ۔۔ “ بے چارا بڑی بیگم۔۔ “ پورا علاقہ نینا ہپت اللہ کی غربت اور رعونت سے آگاہ تھا
“ اے گھنیش، شام سے دو کٹوری مچھی دال بھات بیگم کو بھی دے کر آنا۔۔@
“ پچھلی بار لوٹا دیا تھا، بلی لوگ کھا لیا”
“ اب نہیں لوٹائے گا”
نینا ہپت اللہ کے متنازعہ سالخوردہ گھر کے احاطے میں کدم کے پیڑ کے نیچے بلی نے کئی بلونگڑے ایک ساتھ ہی ادا کئے۔۔ اور انہیں ذرا اوپر والی شاخوں کے چُنگل پر رکھ کر محلے میں کھانا ڈھونڈھنے نکلی، اس گھر سے اسے بھی کوئی امید نہیں تھی