افسانہ : بوسہ

افسانہ : بوسہ

Mar 2, 2024

مصنف : اینٹن چیخوف کا افسانہ

مصنف

ترجمہ: عقیلہ منصور جدون

دیدبان شمارہ ۔۲۰ اور ۲۱

افسانہ : بوسہ

مصنف : اینٹن چیخوف

مترجم : عقیلہ منصور جدون

بیس مئی کی شام آٹھ بجے نیشنل ریزرو آرٹلری بریگیڈ / قومی محفوظ توپ خانہ دستہ کی چھ بیٹریوں نے کیمپ جاتے ہوۓ میسٹی ٹچکی نامی گاؤں میں شب بسری کے لئےپڑاؤ ڈالا تھا ۔ سارے دستے میں پڑاؤ کے انتظامات کا ہنگامہ عروج پر تھا ۔کچھ افسران توپوں کے ساتھ مصروف تھے ، بہت سارےدوسرے افسران چرچ احاطے کے قریب چوک میں اکٹھے ہو کر کوارٹرماسٹر کے احکامات سن رہے تھے۔ اتنے میں عجیب و غریب گھوڑےپر شہری کپڑوں میں ملبوس ایک سوار چرچ کی جانب سے آتادکھائی دیا ۔ بادامی -سرمئی رنگ کا اچھی گردن اور چھوٹی دم والاگھوڑا سیدھا چلنے کی بجاۓ ناچنے کے انداز میں پاؤں اطراف میںرکھتا ہوا چل رہا تھا ۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کی ٹانگوں پر کوڑے مارے گئے ہو ں ۔ افسران کے پاس پہنچ کر سوار نے اپنی ٹوپی اتاری اور کہا ،

“ جناب عزت مآب لیفٹیننٹ جنرل وان رابیک اسی وقت آپ صاحبان کوچاۓ پر مدعو کرتے ہیں ۔ ۔۔۔”

گھوڑا مڑا اور ناچنے کے انداز میں واپس چل پڑا ۔ سوار نے ایک بارپھر اپنی ٹوپی لہرائی اور ایک لمحے میں اپنے انوکھے گھوڑے کےساتھ چرچ کے پیچھے غائب ہو گیا .”یہ کیا بھونڈہ مزاق ہے۔۔۔۔۔ کچھ افسران غصے سے بڑبڑاتے ہوۓ اپنی قیام گاہوں کی جانب چل پڑے ۔

“ ہم یہاں سونا چاہتے ہیں اور اس رابیک کو چاۓ کی سوجھی ہے ! ہمیں معلوم ہے چاۓ کا کیا مطلب ہے؟”

چھ کی چھ بیٹریوں / دستوں کے افسران کے زہنوں میں پچھلے سال کا واقعہ مکمل طور پر محفوظ تھا ۔ جب فوجی نقل و حرکت کے دوران انہیں ایک۔ سرحدی فوجی رجمنٹ کے افسران کے ہمراہ اسی طرح چاۓ پر ایک نواب نے مدعو کیا تھا ۔جو خود بھی ایک ریٹائرڈ جرنیل تھا اور اس علاقے میں اس کی جاگیر تھی ۔ اس ملنسار میزبان نواب نے ان کی بہت عزت افزائی کی ۔ انہیں خوب کھلایا اور بہت ساری شراب پیش کی ۔انہیں واپس گاؤں میں ان کی قیام گاہوں پرجانے سے رات بھر روکے رکھا ۔ اگرچہ یہ سب کچھ بہت عمدہ تھا ۔اس سے بہتر کی تمنا بھی نہیں ہو سکتی تھی ۔لیکن بوڑھا جرنیل نوجوان افسروں کی صحبت میں اتنا خوش تھا کہ طلوع فجر تک وہ نوجوان افسران کو اپنے شاندار ماضی کے قصے سنانے میں مگن رہا۔ انہیں پورے گھر میں گھمایا ،مہنگی ترین تصاویر ، قدیم نقش نگاری اور نایاب بندوقیں دکھائیں ۔ عظیم لوگوں سے لئے گئے آٹوگراف پڑھ کر سناۓ ۔ تھکے ماندے افسران نیند کی شدید طلب کےباوجود دیکھتے اور سنتے رہے ۔ آخرکار جب میزبان نے انہیں جانےکی اجازت دی تو اتنی دیر ہو چکی تھی کہ سونے کا وقت ہی ختم ہوچکا تھا ۔

کہیں یہ رابیک بھی ویسا ہی ثابت نہ ہو ۔لیکن ان کے پاس یہ جاننےکا کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ یہ ویسا ہے یا نہیں ؟ ۔

افسران نے اپنے آپ کو صاف ستھرا کیا ،یونیفارم بدلا۔اور اپنےمیزبان کے گھر کی تلاش میں چل پڑے ۔ چرچ والے چوک میں انہیںبتایا گیا کہ اگر وہ نیچے جانے والا رستہ اختیار کریں ۔تو گرجا گھرکے پیچھے دریا کے کنارے کنارے باغ تک پہنچیں ۔وہاں سے ایک گلی اس گھر تک لے جاۓ گی ۔ یا پھر اگر وہ اوپر والا رستہ اختیارکریں تو چرچ سے سیدھی سڑک گاؤں سے آدھا میل عزت مآب کےاناج کے گوداموں تک لے جاۓ گی ۔ افسران نے اوپر والے رستے کاانتخاب کیا ۔

" یہ وان رابیک کس طرح کاہے ؟ ۔ وہ راستے بھر یہی سوچتے رہے ۔یقینا” یہ وہ نہیں تھا جس کے پاس پیو لینا کے مقام پر قومی کیولریڈویژن / گھڑ سوار کی کمان تھی ۔

“ نہیں ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔وہ صرف ریب تھا وان نہیں تھا ۔ “

“ موسم کتنا شاندار ہے ۔”

پہلے غلے کے گودام کے پاس سڑک دو میں تقسیم ہو گئی ۔ایک سیدھی آگے جا کر شام کی سیاہی میں گم ہو رہی تھی ۔جب کہ دوسری دائیں طرف گھر تک پہنیچتی تھی ۔

افسران داہنی طرف مڑ گئے اور سرگوشیوں میں گفتگو کرنے لگے ۔سڑک کے دونوں اطراف میں پتھروں سے بنے غلہ گودام تھے جن کی چھتیں سرخ تھیں ، جو ماحول کو بالکل ضلعی شہر کی بیرکوںکی طرح بوجھل اور اداس کر رہی تھیں ۔ ان کے سامنے جاگیردار کےگھر کی کھڑکیاں چمک رہی تھیں ۔

“ اچھا شگون ، دوستو ، “ ایک افسر نے کہا ۔ “ بے شک ہماراشکاری سب سے تیز ہے ۔وہ سب سے پہلے شکار کی بو سونگھ لیتاہے “۔

لیفٹینینٹ لوبٹکوجو سب سے آگے چل رہا تھا ۔وہ لمبا اورمضبوط جسم کا مالک تھا ۔ اگرچہ اس کی مونچھیں نہیں تھیں ۔( وہ پچیس سے اوپر تھا لیکن اس کے گول ، خوش خوراک دکھائی دیتےچہرے پر سرے سے بالوں کا کوئی وجود نہیں تھا ۔) وہ پورے بریگیڈمیں ، کافی فاصلے سے کہیں بھی عورتوں کی موجودگی ،کی پیشگوئی کرنے کی خصوصی صلاحیت کے لیے مشہور تھا ۔ وہ مڑا اوربولا ، “ یہاں عورتیں موجود ہیں ۔مجھے اپنے وجدان سے محسوس ہورہا ہے ۔”

ان کو خوش آمدید کہنے کے لئے دہلیز پر خود وان رابیک موجود تھا ۔وہ شہری لباس میں وجیہ و شکیل ساٹھ سالہ شخص تھا ۔ ان سےہاتھ ملاتے ہوۓ وہ انہیں بتا رہا تھا کہ اسے ان سے مل کر خوشی ہورہی تھی ۔لیکن ساتھ ہی وہ معزرت بھی کر رہا تھا کہ وہ انہیں رات بھر کے لیے رکنے کا نہیں کہہ سکتا ۔کہ اس کے گھر پہلے سے ہی دو بہنیں اپنے بچوں کے ساتھ ، اس کے بھائی اور کچھ ہمساۓمہمان ٹھہرے ہوۓ ہیں اور گھر کا کوئی کمرہ فارغ نہیں ہے ۔

جنرل نے سب سے مسکراتے ہوۓ مصافحہ کیا اور معزرت بھی کی لیکن اس کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ پچھے سال والے نواب کی طرح ان کی آمد ہر شاداں فرحاں نہیں تھا ۔اور اس نے انہیں صرف اور صرف اپنا سماجی فرض سمجھتے ہوۓ مدعو کیا تھا ۔ خودافسران بھی نرم دبیز قالین بچھی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوۓ ، اسکی معزرت سنتے ہوۓ یہ محسوس کر رہے تھے کہ انہیں صرف اسلیے بلایا گیا ہے کہ نہ بلایا جانا بہت ناگوار تاثر پیدا کرتا ۔ اور جب انہوں نے خادموں کو بھاگ بھاگ کر داخلی دروازے اور سیڑھیوںسے اوپر کے پیش کمرہ میں لیمپ روشن کرتے دیکھا تو افسران نےمحسوس کیا کہ ان کا آنا میزبان کے لیے بے آرامی اور بے سکونی کا باعث بنا ہے ۔ ایک گھر جس میں پہلے ہی دو بہنیں بچوں کے ہمراہ بھائی اور ہمساۓ کسی خاندانی تقریب یا کسی بھی وجہ سے اکھٹےتھے وہاں انیس اجنبی افسران کا کیسے خوشدلی سے استقبال ہوسکتا تھا ؟ ۔

ڈرائنگ روم کے دروازے پر ان کی ملاقات ایک طویل قامت ،باوقار ،سیاہ بھنوؤں کے ساتھ لمبے چہرے والی خاتون سے ہوئی ۔ جس کی بہت زیادہ مشابہت ملکہ یوجینی ( شاہ فرانس نپولین 3 کی ملکہ ) سے تھی ۔ جس کی مسکراہٹ شاہانہ اور شفیق تھی ۔ اس نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے مہمانوں سے مل کر بہت خوش اور مسرور ہے ۔ اورمعزرت بھی کی کہ وہ اور اس کا خاوند اس موقعہ پر ان معززمہمانان گرامی کی رات کی میزبانی سے معذور ہیں ۔

اپنی شاہانہ مسکراہٹ ،جو فورا” نمودار ہونے کے ساتھ ہی جب وہ مہمانوں سے منہ موڑتی تو غائب ہو جاتی ، اس سے معلوم ہوتا تھاکہ اس نے اپنی زندگی اتنے بہت سارے افسران دیکھے تھے کہ اب وہ ان کی ناز برداری نہیں کر سکتی تھی ۔ اور اگر اس نے انہیں اپنے گھر بلا لیا تھا اور ان سے ان کی بہت زیادہ خاطر مدارت نہ کر سکنے پر معزرت خواہ تھی تو اس کی وجہ سماج میں اس کامقام اور اس کی تربیت کا تقاضہ تھا ۔

جب افسران کھانے کے کمرے میں گئے تو وہاں ایک درجن کے قریب لوگ موجود تھے ۔ جن میں مرد اور عورتیں ۔ نوجوان اور بوڑھے ایک کافی لمبے میز کے آخری سرے پر چاۓ کے لئے بیٹھے تھے ۔

ان کی کرسیوں کے پیچھے مردوں کا ایک گروہ سگار کے دھویں میںلپٹا بہت مدھم سا دکھائی دے رہا تھا ۔ ان کے درمیان میں ایک دبلا،لمبا تڑنگا ،سرخ قلموں والا نوجوان کھڑا زور زور سے بول رہا تھا ۔وہ انگریزی بولتے ہوے ہکلا رہا تھا ۔ اس گروہ کے پیچھے ایک روشن کمرہ دکھائی دے رہا تھا جس کا فرنیچر ہلکے نیلے رنگ کا تھا ۔

“ صاحبوں ، آپ کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ فردا” فردا”تعارف کرانابہت مشکل ہے “ ۔ جنرل نے آواز میں شگفتگی پیدا کرتے ہوۓ اونچی آواز میں کہا ۔ “ بغیر کسی تکلف کے ایک دوسرے سے اپنا آپ متعارف کروائیں ۔”

افسران میں کچھ نے بہت سنجیدہ اور تنے ہوے چہروں کے ساتھ ،کچھ زبردستی کی مسکراہٹ کے ساتھ لیکن سب کے سب ناگواریت کااحساس لیے تعظیما” جھکے اور چاۓ کے لیے بیٹھ گئے ۔

تمام افسران میں سے سب سے زیادہ مضطرب اور بے چین ریابووچ تھا ۔ ایک چھوٹا سا افسر ،چشمے لگاۓ،جھکے ہوۓ کندھے ،جنگلی بلے جیسی قلمیں ۔

جب اس کے کچھ دوستوں نے سنجیدگی اپنائی ہوئی تھی اور باقیوںنے زبردستی کی مسکراہٹ سجائی ہوئی تھی ،اس وقت اس کا چہرہ،اس کی جنگلی بلے جیسی قلمیں اور عینکیں سب مل کر کہہ رہی تھیں ،” میں پورے بریگیڈ کا سب سے زیادہ شرمیلا ، سب سے زیادہ با حیا ، مؤدب اور سب سے زیادہ غیر معروف افسر ہوں “ ۔ پہلےپہل کمرے میں داخل ہونے سے لے کر میز کے سامنے بیٹھنے تک وہ کسی ایک چہرے یا کسی چیز پر توجہ مرکوز نہ کر سکا تھا ۔ چہرے، لباس ،برانڈی کے لیے شیشے کے صراحی نما گلاس ، گلاسوں سےاٹھتی بھاپ ، آرائشی جھالر یں ،سب کچھ ایک ہی عمومی تاثر میںمدغم ہو گئے جس سے ریابوچ کے اندر خطرے کے بگل بجنے لگے اوراس کے اندر خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اپنا سر کہیں چھپا لے ۔ بالکل کسی ایسے مقرر کی طرح جو عوام کے سامنے اپنا پہلا خطاب کرنےجا رہا ہو ۔ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے کی ہر چیز کو دیکھ رہا تھا۔ لیکن بظاہر اسے ان سب کا بہت مدھم ادراک تھا ۔( ماہر طبیعات ایسی حالت کو جس میں فاعل جو دیکھے اس کا ادراک نہ کرسکے،طبی /جسمانی اندھاپن کہتے ہیں ) کچھ توقف سے وہ اپنے ارد گردسے مانوس ہونا شروع ہوگیا ۔ ریابووچ نے صاف دیکھنا اور مشاہدہ کرنا شروع کر دیا ۔

شرمیلے انسان اور طبقہ شرفاء سے میل جول کا عادی نہ ہونے کی وجہ سے جو پہلی چیز اس کی مرکز تو جہ بنی جس کا اس کےاپنے اندر پہلے ہی فقدان تھا ، وہ تھی ،اس کے نئے شناساؤں ( میزبانوں ) کی غیر معمولی جرات و بےباکی ۔

وان ریبک ، اس کی بیوی ، دو پختہ عمر خواتین ،ایک نوجوان دوشیزہ گل یاس کے رنگ کے لباس میں اور سرخ قلموں والا نوجوان جوبظاہر وان ریبک کا بیٹا لگتا تھا نے بہت ہوشیاری و عمدگی سے گویاکہ اس کی انہوں نے ریہرسل کر رکھی تھی ، افسران کے درمیان نشستیں سنبھال لیں اور پرجوش بحث مباحثہ شروع کر دیا جس میںمہمان افسران حصہ لیے بغیر نہ رہ سکے ۔ گل یاس والی دوشیزہ کا کہنا تھا کہ آرٹلری / توپ خانہ کے پاس گھڑ سوار دستوں اورانفینٹری سے زیادہ بہتر وقت ہوتا ہے ۔ جب کہ وان ریبک اور پختہ عمر خواتین اس سے متضاد کی حمایتی تھیں ۔ اس پر تیز گفتگوہونے لگی ۔ ریابووچ نے گل یاس والی نوجوان دوشیزہ کو دیکھا جوایسے موضوع پر اتنی شدت سے بحث کر رہی تھی جو اس کے لیےغیر مانوس اور مکمل طور پر غیر دلچسپ تھا ۔وہ اس کے چہرے پرمصنوعی مسکراہٹ آتی جاتی دیکھنے لگا

وان رابیک اور اس کے خاندان نے افسران کو بڑی مہارت سے بحث مباحثہ میں الجھا لیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ ان کے گلاسوں اور منہ پرنظر رکھی کہ آیا سب پی رہے تھے ؟ کیا سب کے پاس چینی کی کافی مقدار موجود تھی ۔؟ ان میں سے کوئی اگر کیک اور برانڈی نہیں لے رہا تھا تو کیوں ؟ ۔

جتنا زیادہ ریابووچ مشاہدہ کرتا رہا اتنی ہی زیادہ اس کے لیے اس منافق لیکن شاندار خاندان کی کشش بڑھتی رہی ۔

چاۓ کے بعد افسران ڈرائنگ روم میں چلے گئے ۔ لیفٹیننٹ لوبیٹکو کی جبلت نے اسے دھوکہ نہیں دیا تھا ۔ وہاں اچھی خاصی تعداد میں جوان دوشیزائیں اور شادہ شدہ خواتین موجود تھیں ۔ “ دی سیٹر/  شکاری لیفٹیننٹ بہت جلد سیاہ لباس میں ملبوس ایک خوبصورت نوجوان دوشیزہ کے پاس کھڑا تھا۔ وہ زندہ دلی سے اس کی طرف جھکا جیسے کہ وہ کسی غیر مرئی تلوار پر جھکا ہو،مسکرایا اور بانکپن سے اپنے کندھے اچکاۓ ۔ شاید اس نے کوئی انتہائی دلچسپ بونگی ماری کہ اس خوبصورت دوشیزہ نے اس کےخوش خوراک چہرے پر مربیانہ نگاہ ڈالی اور بڑی لاتعلقی سے بولی ،“ واقعی “؟ ۔اس دلچسپی سے عاری واقعی سے دی سیٹر اگر وہ زہین ہوتا تو سمجھ جاتا کہ وہ کبھی بھی اسے رام نہیں کر سکےگا .

پیانو بجنے لگا ۔ والز کی اداس دُھنیں کھلی چوڑی کھڑکی سے تیرتی ہوئی باہر نکلیں ۔کسی نہ کسی وجہ سے ہر ایک نے سمجھ لیا کہ بہار آ گئی ہے ، مئی کی ایک شام ۔ ہر کوئی گلاب ، للی اور پاپولرکے تازہ پتوں کی خوشبو محسوس کر رہا تھا ۔ ریابووچ نے جوبرانڈی پی تھی اس نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ۔ساتھ ہی موسیقی کے زیر اثر اس نے نظریں چرا کر کھڑکی کی طرف دیکھااور مسکراتے ہوۓ خواتین کی حرکات و سکنات دیکھنے لگا ۔ اسےمحسوس ہوا کہ گلاب پاپولر اور للی کی خوشبو کھڑکی کے باہر سےنہیں بلکہ عورتوں کے لباس اور چہروں سے آ رہی ہے ۔

وان رابیک کے بیٹے نے ایک دبلی پتلی نازک حسینہ کو رقص کی دعوت دی ۔ اور اس کے ساتھ کمرے میں والز کے دو چکر لگاۓ ۔لوبٹکوف لکڑی کے فرش پر پھسلتے ہوۓ ہوا میں تیرتے ہوۓ گل یاس جیسی نوجوان دوشیزہ تک پہنچا اور اسے گھمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ رقص شروع ہو گیا ۔ریابووچ دروازے کے پاس اس گروہ میں کھڑا تھا جورقص نہیں کر رہے تھے۔بس رقص ہوتا دیکھ رہے تھے ۔ اس نے اپنی زندگی میں کبھی بھی رقص نہیں کیا تھا ۔ نہ ہی اس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی باعزت خاتون کی کمر کے گرد بازو حمائل کیے تھے ۔لیکن وہ اس سے بہت زیادہ خوش ہوتا کہ مرد سب کی نظروں کےسامنے کسی خاتون کو جسے وہ نہیں جانتا کمر سے پکڑے ،اسےاپنے کندھے پیش کرے تا کہ وہ ان پر اپنے ہاتھ رکھ سکے ۔لیکن وہ کبھی بھی اپنے آپ کو اس مرد کی جگہ رکھنے کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔ ایک وقت تھا جب وہ اپنے ایسےدوستوں کی جرات اورمتکبرانہ چال پر رشک کرتا تھا۔ اور خود اپنے آپ کو بد بخت تصورکرتا تھا ۔یہ آگاہی کہ وہ بزدل ہے اس کے کندھے جھکے ہوۓ ہیں اوروہ بالکل غیر دلچسپ ہے۔ اس کا اوپر والا دھڑ زیادہ لمبا ہے ۔ اس کی قلمیں جنگلی بلے جیسی ہیں ۔ یہ سوچیں اسے غمزدہ کر دیتیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ وہ ان احساسات کا عادی ہو گیا ۔ اب وہ اپنےدوستوں کو رقص کرتے ،اونچا اونچا بولتے دیکھ کر ان پر بالکل رشک نہیں کرتا تھا ،ہاں وہ حساس اور اداس ضرور ہو جاتا ۔

جب کواڈرلا رقص شروع ہوا تو جوان وان رابیک ان افسران جو رقص نہیں کر رہے تھے،کے پاس آیا اور دو افسران کو بلیئرڈ کھیلنے کےلیے مدعو کیا ۔ وہ یہ دعوت قبول کرتے ہوۓ اس کے ساتھ ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئے ۔ریابو وچ کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا لیکن وہ متحرک ہونا چاہتا تھا اس لئے وہ بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔ بڑےڈرائنگ روم سے وہ چھوٹے ڈرائنگ روم میں پہنچے ۔وہاں سے ایک تنگ راہداری میں جس پر کانچ کی چھت تھی۔ وہاں سے ایک کمرےمیں داخل ہوۓ جہاں نیند سے مغلوب تین دربان ان کے آنے پر ہڑ بڑاکر صوفوں سے اٹھ گئے ۔ اس طرح مزید کمروں سے گزرتےہوۓآخرکار جوان وان رابیک اور افسران ایک چھوٹے کمرے میں پہنچے جہاں بلیئرڈ کی میز رکھی تھی۔ انہوں نے کھیلنا شروع کردیا ۔

ریابووچ جس نے تاش کے علاوہ کبھی کوئی کھیل نہیں کھیلا تھامیز کے پاس کھڑا ہو گیا اور لاتعلقی سے کھلاڑیوں کو دیکھنے لگا۔جب کہ کھلاڑی اپنے کھلے بٹنوں والے کوٹوں کے ساتھ ہاتھ میں کیوپکڑے فقرے کستے اونچی آواز میں ناقابل فہم الفاظ چلاتے کھیلتےرہے۔

کھلاڑی ریابووچ پر کوئی توجہ نہیں دے رہے تھے ۔ ہاں کبھی کبھی کوئی کھلاڑی اسے اپنی کہنی سے دھکیلتے ہوۓ یا اتفاقاً” اپنی کیوکی نوک سے اسے چھوتے ہوۓ واپس مڑ کر “ معاف کرنا “ کہہ دیتا ۔ پہلا کھیل ختم ہونے تک وہ اس سے بیزار ہو چکا تھا ۔ اور اس نےمحسوس کر لیا تھا کہ اس کی یہاں کوئی ضرورت نہیں اور وہ ان کے رستے میں رکاوٹ بن رہا ہے ۔ اس نے ڈرائنگ روم واپس جانے کاارادہ کیا ۔اور باہر نکل گیا ۔

واپسی پر اسے ایک چھوٹی سی مہم کا سامنا کرنا پڑا ۔ آدھے رستےتک جا کر اس نے محسوس کیا کہ وہ غلط موڑ مڑ چکا ہے ۔ اسےواضح طور پر یاد تھا کہ اسے رستے میں تین نیند کے مارے دربان ملنے چاہیے تھے ۔ وہ پانچ یا چھ کمروں سے گزر چکا تھا لیکن دربانوں کو لگتا تھا زمین نگل گئی تھی ۔ غلطی کا احساس ہوجانے پر وہ تھوڑا واپس گیا اور داہنے ہاتھ مڑ گیا ۔ وہاں وہ ایک قدرے تاریک کمرے میں کھڑا ہو گیا جو اس نے بلیئرڈ روم جاتے ہوۓنہیں دیکھا تھا ۔کچھ دیر وہاں کھڑا رہنے کے بعد اسے جو دروازہ دکھائی دیا اس میں داخل ہو گیا ۔ یہ کمرہ پچھلے کمرے سے بھی زیادہ تاریک تھا ۔اسے اپنے بالکل سامنے دروازے میں جھری دکھائی دی جس میں سے دوسری طرف سے مدھم روشنی کی چمک آ رہی تھی ۔ دروازے کی دوسری جانب سے اداس و غمگین مزرکا کی دبی دبی آواز آ رہی تھی ۔ ڈرائنگ روم کی طرح یہاں بھی کھڑکیاں کھلی تھیں اور وہی پاپولر وغیرہ کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔

ریابووچ مارے ہچکچاہٹ کے اپنی جگہ کھڑا رہا ۔اسی لمحے اسےحیران کن حد تک تیز تیز قدموں کی اور لباس کی سرسراہٹ سنائی دی ۔ایک ہانپتی کانپتی زنانہ آواز میں الفاظ سنائی دیے ،” آخر کار“

دو نرم خوشبودار ،بلا شبہ زنانہ ہاتھوں نے اس کی گردن کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ اس نے اپنے رخسار پر گرم رخسار کا دباؤمحسوس کیا ۔ساتھ ہی بوسے کی آواز آئی ۔ لیکن فورا” ہی بوسہ دینے والی نے ہلکی سی چینخ ماری اور اچھل کر اس سے پیچھےہٹی۔ وہ بھی تقریباً” چیخ کر دروازے سے آتی روشنی کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

جب وہ واپس ڈرائنگ روم میں پہنچا تو اس کا دل دھڑک رہا تھا ،اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔اسی وجہ سے اس نے انہیں پیچھے باندھرکھا تھا ۔ پہلے پہل وہ شرمندگی اور خوف کی اذیت سے دوچار ہوا کہ ڈرائنگ روم میں سب جانتے ہیں کہ اسے کسی خاتون نے بوسہ دیا اور اس سے بغل گیر ہوئی ۔ وہ اپنے آپ میں سکڑ گیا اور اپنےبارے میں بے چین ہو گیا ۔لیکن جوں جوں اسے یقین ہوتا گیا کے لوگ رقص میں اور پہلے کی طرح گفتگو میں مصروف ہیں تو اس نے اپنےآپ کو اس نئے سنسنی خیز احساس کے حوالے کر دیا جس کا اسےپہلے کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا ۔ اس کے اندر عجیب سی اتھل پتھل ہو رہی تھی ۔

اس کی گردن جس کے گرد ابھی ابھی اتنے نرم اور خوشبودار بازولپٹے ہوۓ تھے ۔اسے محسوس ہوا جیسے اس کا تیل سے مسح ( مذہبی رسم ) کیا گیا ہو ۔ اس کے بائیں رخسار پر مونچھوں کے قریب جہاں اس گمنام نے بوسہ دیا تھا ،وہاں مدہم ٹھنڈی سنسناہٹ کااحساس تھا، بالکل پودینے کے قطروں جیسا ۔وہ جتنا زیادہ اس جگہکو رگڑتا اتنا ہی زیادہ ٹھنڈی سنسناہٹ میں اضافہ محسوس ہو تا ۔یہ احساس اس کے سر سے لے کر پاؤں تک پھیل گیا تھا ۔وہ اندرسے عجیب نئی قسم کے جذبات سے بھر گیا تھا ۔جو مضبوط سےمضبوط تر ہوتے جارہے تھے ۔ ۔۔۔۔۔ وہ رقص کرنا چاہتا تھا ،بات چیت میں شریک ہونا چاہتا تھا باغ میں دوڑ لگانا چاہتا تھا ۔ اسے اونچااونچا قہقہے لگانے کی خواہش ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔

وہ بھول چکا تھا کہ اس کے کندھے جھکے ہوۓ ہیں ۔وہ بور قسم کاشخص ہے ۔ اس کی قلمیں جنگلی بلے جیسی ہیں ۔ وہ ایک غیر اہم شخصیت ہے ۔ ( ایسا کچھ خواتین اس کے بارے میں راۓ رکھتی تھیں ،جو اس نے اپنے کانوں سے سنی تھیں ) جب وان رابیک کی بیوی اس کے پاس سے گزری تو ریابووچ نے اسے اتنی کھلی دوستانہ مسکراہٹ سے دیکھا کہ وہ رک گئی اور اسے استفہامیہ نگاہوں سےدیکھنے لگی ۔

“ مجھے آپ کا گھر بہت پسند آیا ۔” اس نے اپنے چشمے ٹھیک کرتےہوۓ کہا ۔

جنرل کی بیوی نے مسکراتے ہوۓ اسے بتایا کہ یہ گھر اس کے والدکی ملکیت ہے ۔ تب اس نے پوچھا

کیا اس کے والدین حیات ہیں ؟ وہ کتنے عرصے سے فوج میں ہے ؟وہ اتنا کمزور کیوں ہے اور اسی طرح کے مذید سوالات ۔ اپنے سوالوںکے جواب ملنے پر وہ آگے بڑھ گئی ۔ اس سے بات چیت کے بعد اسکی مسکراہٹ زندگی میں پہلی بار دوستانہ تھی ۔ اور اس نے سوچاکہ وہاں موجود لوگ بہت شاندار لوگ تھے ۔

رات کے کھانے میں ریابووچ نے ہر وہ چیز کھا لی جو اسے پیش کی گئی ۔ شراب نوشی کی اور بغیر کچھ بھی سنے اس بات پر توجہ مرکوز رکھی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔ جو ہوا وہ انتہائی پراسرار اور رومانوی نوعیت کی واردات تھی ۔ لیکن اس کی وضاحت کوئی مشکل بات نہیں تھی ۔ ظاہری سی بات تھی کہ کسی دوشیزہ یا کسی جوان شادی شدہ خاتون نے کسی مرد سے ملنے کے لیے اس نیم تاریک کمرے کا انتخاب کیا تھا ۔ کافی دیر انتظار کرنے ، جوش اور گھبراہٹ میں ریابووچ کو اپنا ہیرو سمجھ بیٹھی تھی ۔ یہی ممکنہ تشریح ہو سکتی تھی ۔کہ ریابووچ وہاں ہچکچاتا ہوا بالکل ساکت کھڑا تھا ۔ اور ایسا ہی دکھائی دیتا تھا جیسے کسی کا انتظار کر رہا ہو ۔ اس طرح اس نے اپنے آپ کو وصول ہونے والےبوسے کی توجیہ پیش کی ۔

“ لیکن وہ کون ہے ؟ “ اس نے حیرانی سے تمام موجود خواتین کےچہروں کو دیکھتے ہوۓ سوچا ۔ “ وہ یقینا” نوجوان ہو گی ،بوڑھی خواتین خفیہ ملاقاتیں نہیں کرتیں ۔لیکن اس خاتون کی پہچان اس کےلباس کی سرسراہٹ ،اس کی خوشبو اور آواز سے ہو سکتی تھی ۔”

اس کی نظریں گل یاسین جیسی نوجوان دوشیزہ پر ٹک گئیں ۔اسےوہ بہت دلکش محسوس ہوئی ۔ اس کے کندھے اور بازو بہت خوبصورت تھے ۔ ہوشیار چہرہ، اور خوش کن آواز ۔ریابووچ نے اسےدیکھا اور خواہش کی کہ وہی اس کی نامعلوم ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کی ہنسی کچھ مصنوعی تھی اور اپنے لمبے ناک کو جب سکیڑتی توکچھ بڑی عمر کی دکھائی دینے لگتی تھی ۔ پھر اس نے سیاہ لباس والی دوشیزہ کو دیکھا ۔ وہ زیادہ جوان ، سادہ اور خالص تھی ۔پیشانی دلکش تھی ۔اپنے شراب کے گلاس سے بہت نفاست سے پی رہی تھی ۔اب ریابووچ نے خواہش کی کہ وہ تھی ۔ لیکن جلد ہی اس کا چہرہ اسے بالکل عام سا لگنے لگا اور اس کی نگاہیں اس سےاگلی والی پر ٹک گئیں ۔

“ یہ قیاس آرائی تو مشکل ہے “ اس نے محویت سے سوچا ۔ “ اگرکندھے اور بازو گل یاسین سے مشابہ دوشیزہ کے ہوں ،پیش انی سیاہ لباس والی کی اور آنکھیں لوبٹکو کی بائیں طرف والی کی لی جائیں ،تب ۔۔۔۔۔۔۔ “

اس نے اپنے دماغ میں ان سب کو آپس میں ملا کر اس لڑکی کی شکل اپنے تصور میں بنائی جس نے اسے بوسہ دیا تھا ۔یہ ایک ایسی تصویر تھی ،جو وہاں موجود نہیں تھی ۔

کھانے کے بعد شکم سیر اور خوش افسران نے وان رابیک سے واپسی کی اجازت مانگی اور شکریہ ادا کیا ۔وان رابیک اور اس کی بچیوں نے ایک بار پھر ان سے معزرت کی کہ وہ انہیں رات رکنے کا نہیںکہہ سکتے ۔

“ آپ سب سے مل کر بہت بہت خوشی ہوئی ،” وان رابیک نے کہا ۔اس دفعہ وہ واقعی خلوص سے بات کر رہا تھا ۔ ( شاید اس لئے کہ لوگ مہمانوں کی رخصتی کے وقت زیادہ مخلص اور خوش مزاج ہوتے ہیں) ۔

“ امید ہے،آپ واپسی پر بھی آئیں گے ۔ اب آپ کیسے جائیں گے ؟ کیاآپ اوپر والے رستے سے جانا چاہیں گے ۔ میرا مشورہ ہے کہ باغ والےرستے سے جائیں وہ نزدیک پڑے گا ۔

افسران باغ میں گئے ۔ تیز روشنیوں اور شور شرابے سے نکل کر باغ انہیں بہت تاریک اور خاموش محسوس ہوا ۔وہ گیٹ تک خاموشی سےپہنچے ۔وہ تھوڑے نشے میں مدہوش ،خوش اور پرجوش تھے ۔لیکن گہری خاموشی نے انہیں تھوڑی دیر کے لیے سوچنے پر مجبور کردیا ۔ غالبا” ہر ایک ریابووچ سمیت اسی نکتے پر سوچ رہا تھا کہ آیاان کی زندگیوں میں بھی ایسا وقت آۓ گا جب ان کے پاس بھی وانرابیک کی طرح اتنا بڑا گھر باغ اور اپنا خاندان ہو گا ؟ ۔جب وہ خودبھی اسی طرح لوگوں کا اپنے گھر میں استقبال کریں گے ،چاہےریاکاری کرتے ہوے ہی ، انہیں اسی طرح کھلائیں پلائیں گے ؟

باغ کے گیٹ سے باہر نکل کر سب کے سب اکٹھے بولنے اور بغیرکسی وجہ کے زور زور سے ہنسنے لگے ۔

اب وہ دریا کی طرف جانے والے چھوٹے سے رستے پر چل رہے تھے ۔پھر پانی کے ساتھ ساتھ دوڑنے ،کنارے پر اگی جھاڑیوں ، تالابوں اوربید مجنوں جو پانی پر جھکے ہوۓ تھے ، کے گرد گھومنے لگے ۔ دریاکا کنارہ اور رستہ بمشکل دکھائی دے رہا تھا اور دوسرا کنارہ تومکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ۔تاریک پانی پر کہیں کہیں ستاروں کےعکس تھے جو کپکپاتے اور سطح پر پہنچ کر ٹوٹ جاتے ۔ اور صرف اسی سے پتہ چلتا تھا کہ دریا کتنی تیز رفتاری سے بہہ رہا تھا ۔مکمل سکوت تھا ۔ دوسرے کنارے سے نیم غنودہ مرغابیوں کی دلدوزچینخیں سنائی دے رہی تھیں ۔ قریب والی جھاڑیوں سے ایک بلبل انسانوں کے اس گروہ سے بے نیاز اونچی آواز سے چہچہا رہا تھا ۔کچھ افسران جھاڑی کے پاس رک گئے ۔اس سے چھیڑ خانی کی لیکن بلبل پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔

“واہ، کیا چیز ہے “

انہوں نے پسندیدگی سے کہا ، “ ہم پاس کھڑے ہیں اور اس پر کوئی اثر ہی نہیں ۔پکا بدمعاش ہے ۔ “

رستے کے اختتام پر چڑھائی شروع ہو گئی ۔وہ چرچ احاطے میںپہنچ کر مڑے اور سڑک پر آ گئے ۔ یہاں چڑھائی چڑھنے کے بعدافسران تھک کر بیٹھ گئے ۔ اپنے سگریٹ سلگا لئے ۔ دریا کے دوسرےکنارے پر دھندلی سی سرخ آگ دکھائی دی ۔چونکہ اس وقت ان کےپاس گفتگو کے لئے کچھ نہیں تھا اس لیے وہ اس بات پر بحث کرنےلگے کہ آیا یہ کسی کیمپ کی آگ ہے یا کسی کھڑکی سے آتی روشنی یا کچھ اور ۔ ریابووچ نے بھی روشنی دیکھی ۔ اس نے تصورکیا کہ رروشنی نے اسے دیکھا اور اسے آنکھ ماری گویا وہ اس کےبوسے کے بارے میں جانتی تھی ۔

اپنی قیام گاہ پر پہنچ کر ریابووچ نے جتنی جلدی ممکن ہو سکالباس اتارا اور بستر میں گھس گیا ۔

لوبٹکو و اور لیفٹیننٹ مرزلیخوف —ایک پرامن ،خاموش طبع جسے اسکے اپنے حلقہ احباب میں بہت پڑھا لکھا افسر جانا جاتا تھا ۔ وہ ہروقت جب بھی ممکن ہوتا ایک میگزین ( ہیرالڈ یا پیامبر آف یورپ،آخری انیسویں صدی کا لبرل میگزین جو 1866 سے 19 18 تک چھپتا رہا ) جو وہ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا ۔ پڑھتا رہتا تھا ۔ ان دونوں کی رہائش ریابووچ کے ساتھ مشترکہ تھی ۔ لوبٹکو کافی دیرہٹ / جھونپڑی میں کسی بے چین شخص کی طرح ٹہلتا رہا۔ آخراس نے اپنے اردلی کو بئیر لانے کے لئے بھیجا ۔مرزلیخوف بستر میںچلا گیا ،تکیے کے پاس ایک موم بتی جلا کر اپنا رسالہ پڑھنے لگا ۔

ریابووچ بستر پر لیٹا چھت کو دیکھتے ہوۓ سوچتا اور حیران ہوتا رہاکہ “ وہ کون تھی ؟۔”

اسے اپنی گردن کے بارے میں ابھی تک ایسا ہی محسوس ہو رہا تھاجیسے تیل کی مالش کی گئی ہو ۔ اس کے منہ کے قریب اب تک ٹھنڈی سنسناہٹ تھی پودینے کے قطروں جیسی ۔

کندھے اور بازو گل یاس لیڈی جیسے ،پیشانی اور سچی آنکھیںسیاہ لباس والی خوبصورت دوشیزہ کے ، کمر ،لباس اور کلپ اس کی چشم تصور میں تیرتے رہے ۔ وہ ان تصورات پر اپنی توجہ مرکوزرکھنا چاہتا تھا لیکن وہ ادھر ادھر ناچتے ،ٹمٹماتے ٹوٹ جاتے ۔جب یہ تصوراتی عکس اس سیاہ پس منظر سے جو ہر شخص اپنی آنکھیں بند کر کے دیکھتا ہے ،غائب ہو گئے تو اس نے تیز تیز قدموںکی آہٹ ،کپڑوں کی سرسراہٹ ، بوسے کی آوازیں سننی شروع کردیں ۔ جس سے اسے شدید بے بنیاد خوشی ملنے لگی ۔ اپنے آپ کواس خوشی کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوۓ اس نے اردلی کو واپس آکریہ کہتے سنا کہ بئیر نہیں ہے ۔جس پر لوبٹکو شدید غصے میں پھرٹہلنے لگا ۔

“ کیا یہ احمق نہیں ہے ؟ “ وہ بار بار یہی دہراتا رہا ،پہلے ریابووچ کے پاس رک کر اور پھر مرزلیخوف کے پاس رک کر ۔” وہ شخص کتنابڑا بےوقوف احمق ہے جس کو بئیر نہیں ملا ، پکا بدمعاش ہے ۔”

مرزلیخوف نے رسالے سے نظریں ہٹاۓ بغیر کہا ،” ظاہر ہے یہاں بئیرنہیں مل سکتا ۔”

“ اوہ ! یہ تمہاری راۓ ہے ۔ “ لوبٹکوف نے اصرار کیا ، “ خدا ہم پررحم فرماۓ ،اگر تم مجھے چاند پر اتار دو تو میں تمہیں وہاں بھی بئیر اور عورت ڈھونڈ دوں گا ! میں خود جا کر لاؤں گا ۔۔۔۔۔ تم مجھےبہروپیا کہنا اگر میں نہ لا سکا ۔ “

اس نے کافی وقت کپڑے پہننے اور بوٹ چڑھانے میں لگا دیا ۔پھرخاموشی سے اپنا سگریٹ ختم کیا اور باہر نکل گیا ۔

“ رابیک ، لا یبک ،گرابیک ، “ وہ باہر والے کمرے میں بڑبڑایا ۔” مجھے اکیلے جانے کی پرواہ نہیں ، لعنت ہے ! ، ریابووچ ،کیا تم ٹہلنےکے لیے چلو گے ؟ “

کوئی جواب نہ پارکر وہ واپس آیا ،کپڑے اتارے اور بستر میں گھس گیا ۔ مرزلیخوف نے آہ بھری ،رسالہ بند کیا اور موم بتی گل کر دی ۔

“ ہمم ! “ لوبٹکو بڑبڑایا ۔اور اندھیرے میں سگریٹ سلگا لیا ۔

ریابووچ​ نےبستر کی چادر سر تک اوڑھ لی ۔گھٹنے موڑ کر پیٹ کے ساتھ ملا کر لیٹ گیا۔ اور اپنے دماغ میں تیرتی اشکال کو اکٹھاکر کے انہیں ایک کل میں مجسم کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔ لیکن کامیاب نہ ہوا ۔ جلد ہی وہ سو گیا اور اس کی آخری سوچ تھی کہ کوئی اسے پیار سے پچکار رہا تھا ۔ اور اسے خوش کر رہا تھا ۔یہ غیر معمولی اگرچہ بے وقوفانہ لیکن خوش کن اور خوشگوار چیز اسکی زندگی میں آ چکی تھی ۔ اس سوچ نے نیند میں بھی اس کاپیچھا نہیں چھوڑا ۔

جب وہ صبح اٹھا تو اس کی گردن پر تیل کا اور اس کے رخسار پرٹھنڈک کا احساس ختم ہو چکا تھا ۔ لیکن اس کا دل پچھلے دن کی طرح ہی خوشی سے لبریز تھا ۔اس نے کھڑکیوں کے فریموں کو شوق سے دیکھا جو چڑھتے سورج کی روشنی سے سنہرے دکھائی دےرہے تھے ۔ اس نے سڑک سے گزرنے والوں کے قدموں کی چاپ سنی ۔کھڑکی کے پاس ہی لوگ اونچا اونچا بول رہے تھے ۔

لیبیڈیٹسکی ،جو ریابووچ کی بیٹری / دستے کا کمانڈر تھا،اس نےابھی ابھی پل پر قبضہ کیا تھا۔وہ اپنی پوری طاقت سے اونچا بول رہا تھا ۔وہ ایسے ہی چیخنے کا عادی تھا ۔

“ مذید کچھ ؟ “ کمانڈر چلایا ۔

“ کل جب گھوڑوں کی نعل بندی ہو رہی تھی تو انہوں نے ایک کیل اس کے کھر میں ٹھونک دی . جانوروں کے ڈاکٹر نے مٹی اور سرکہ لگا دیا اور اسے اب الگ رکھا ہوا ہے ۔

اور جناب عزت مآب ،آرٹیمیو کل نشے میں دھت ہو گیا تھا ۔اورلیفٹیننٹ نے اسے فالتو توپ گاڑی کے اگلے حصے میں رکھنے کا حکم دیا تھا ۔

سرجنٹ نے یہ بھی رپورٹ دی کے کارپوو بگل کے نئے تار اور خیموںکے رنگ بھول گیا تھا ۔ جناب، افسران کل شام وان رابیک کی دعوت پر گئے تھے ۔ اس گفتگو کے دوران سرخ داڑھی والے لیبیڈیٹسکی نےکھڑکی سے اندر جھانکا ۔اس نے آنکھیں سکیڑ کر نیند کے خمارمیں ڈوبے افسران کو دیکھا ،اور انہیں صبح بخیر کہا ۔

“ کیا سب خیریت ہے ؟ “ اس نے پوچھا ۔

“ ایک گھوڑے کو نئے پٹے سے گردن میں درد ہے ۔” لوبٹکوف نےانگڑائی لیتے ہوۓ کہا ۔

کمانڈر افسردہ ہو گیا ۔ایک لمحے کے لیے سوچا اور اونچی آواز میںبولا ،” میں الیگزینڈرا ییوگرافوونا کو ملنے جا رہا ہوں۔ میرا جاناضروری ہے ۔ خدا حافظ ،شام کو ملاقات ہو گی ۔ “

تقریباً پون گھنٹے بعد بریگیڈ اپنے رستے پر روانہ ہوا ۔جب وہ سڑک پرغلے کے گوداموں کے پاس سے گزر رہے تھے تو ریابووچ نے داہنی طرف گھر کو دیکھا ۔تمام کھڑکیوں کے پردے گرے ہوۓ تھے ۔ صاف ظاہر تھا کہ سارا گھر سویا پڑا ہے ۔وہ جس نے ایک دن قبل اسےبوسہ دیا تھا وہ بھی سو رہی تھی ۔ اس نے اسے سوتے ہوۓ تصورمیں لانے کی کوشش کی۔ بیڈ روم کی وسیع کھلی کھڑکیاں ،جن سےسبز شاخیں اندر جھانکتی ہوئیں ،صبح کی تر و تازگی ، پاپلر ، گلیاس / بکائن ،اور گلابوں کی خوشبو ، پلنگ ، ایک کرسی اور سکرٹجو ایک دن قبل سرسرا رہی تھی ، چھوٹے چھوٹے سلیپر ، چھوٹی سی گھڑی ۔اس سب کو اس نے بہت واضح اور علیحدہ علیحدہ دیکھا۔لیکن چہرے کے نین نقش ،میٹھی نیند کی مسکراہٹ ، جو نمایاں اوراہم صفات تھیں وہ اس کے تصور سے اس طرح پھسل گئیں جیسےچاندی انگلیوں کے درمیان سے ۔

کوئی آدھا میل آگے جانے کے بعد اس نے مڑ کر دیکھا ،پیلا گرجا گھر، وہ گھر اور دریا روشنی میں نہآۓ ہوۓ تھے ۔دریا اپنے سبز کناروںکے ساتھ،نیلا آسمان جس کا عکس دریا پر پڑ رہا تھا اور یہاں وہاں دھوپ کی چاندی جیسی چمک ،سب بہت خوبصورت تھا ۔ریابووچ نےمیسٹیٹچکی( گاؤں ) پر آخری نگاہ ڈالی اور وہ اتنااداس ہوگیا جیسے کسی انتہائی قریبی عزیز سے بچھڑ رہا ہو ۔

اب اس کے سامنے سڑک پر کچھ خاص نہیں تھا بلکہ وہی جاناپہچانا غیر دلچسپ منظر نامہ تھا۔ دائیں بائیں کچی سرسوں / رائی اور سیاہ گندم کے کھیت جن میں کوے پھدک رہے تھے ۔ اگر سامنےدیکھتا تو یا تو گرد یا پھر انسانی سروں کے پچھلے حصے نظر آتےاور اگر پیچھے دیکھتا تو وہی گرد اور چہرے ۔۔۔۔۔

سب سے آگے چار آدمی تلواروں کے ساتھ مارچ کر رہے تھے ۔یہ ہراول دستہ تھا ۔ ان کے پیچھے گلوکاروں کا غول اور ان کے پیچھےگھوڑوں پر سوار بگل بجانے والے تھے ۔ ہراول دستہ اور گلوکار کسی جنازے کے جلوس میں مشعل برداروں جیسے تھے ۔جو مناسب فاصلہ رکھنا بھول جاتے اور دور تک نکل جاتے ۔

ریابووچ پانچویں بیٹری کی پہلی توپ کے ساتھ تھا ۔ وہ اپنےسامنے چاروں دستوں ( بیٹریوں) کو متحرک دیکھ سکتا تھا ۔کسی بھی غیر فوجی کے لئے یہ لمبا تھکا دینے والا متحرک بریگیڈ پیچیدہ اور ناقابل فہم پہیلی تھی ۔ وہ سمجھنے سےقاصر ہوتا کہ ایک توپ کے ساتھ اتنے زیادہ لوگ کیوں ہیں ۔اوراسے کیوں اتنے زیادہ گھوڑے کھینچ رہے ہیں ۔عجیب گورکھ دھندہ محسوس ہوتا ۔لیکن ریابووچ کے لئے یہ سب قابل فہم اور غیر دلچسپ تھا ۔وہ ہمیشہ سے جانتا تھا کہ ہر بیٹریکے اگلے سرے پر ایک مضبوط بمبار ہوتا ہے اور اسے بمبار کیوں کہا جاتا تھا ۔اس بمبار کے بالکل پیچھے پہلے اوردرمیانی یونٹ کے گھڑسوار دیکھے جا سکتے تھے ۔ ریابووچ کویہ بھی معلوم تھا کہ داہنی طرف والے گھڑسوار ایک نام سےاور بائیں جانب والے دوسرے نام سے پکارے جاتے تھے ۔ یہ سب کچھ انتہائی غیر دلچسپ تھا ۔ ان گھڑ سواروں کے پیچھےگاڑی کھینچنے والے گھوڑے تھے ۔ان میں سے ایک پر ایک سوار تھا ۔جس کی کمر کل کی گرد سے اٹی تھی ۔اس کی ٹانگ پرایک بھدا اور مضحکہ خیز لکڑی کا ٹکڑا تھا ۔ ریابووچ اسلکڑی کے ٹکڑے سے واقف تھا اس لئے اسے وہ مضحکہ خیزنہیں لگتا تھا ۔ تمام سوار مشینی انداز میں اپنے کوڑے وقتا” فوقتا” ہوا میں لہراتے اور چلاتے ۔ توپ بھدی تھی ۔اس کے اگلےحصے پر جو کے تھیلے پڑے تھے جو کینوس سے ڈھکے ہوے تھے ۔اور پوری توپ پر کیتلیاں ، سپاہیوں کے سامان والے پشتی تھیلے لٹک رہے تھے اور وہ کوئی بے ضرر جانور دکھائی دےرہی تھی ۔ جسے کسی نامعلوم وجہ سے بہت سارے آدمیوں اورگھوڑوں نے گھیر رکھا تھا ۔اس کی محفوظ سمت میں چھ آدمی اپنے بازو ہلاتے ہوۓ مارچ کر رہے تھے۔ توپ کے پیچھے مذیدبمبار ، سوار ، بگھی گھوڑے اور پھر ایک اور توپ تھی ۔ اتنی ہی بھدی جتنی پہلی تھی ۔دوسری کے پیچھے تیسری پھرچوتھی ۔ چوتھی کے پاس ایک افسر اور اسی ترتیب سے بریگیڈ میں چھ بیٹریاں تھیں اور ہر بیٹری میں چار توپیں ۔جلوس نے آدھا میل طے کیا ؛یہ ویگنوں کی ایک قطار کے پاسرک گیا ،جہاں ایک بہت دلچسپ مخلوق —— ایک گدھا ، جسےکمپنی کمانڈر ترکی سے لایا تھا ۔ جو اپنے لمبے لمبے کانوں والاسر ، جھکاۓ متفکر چل رہا تھا ۔

ریابووچ نے لاتعلقی سے اپنے آگے سروں کے پیچھے اور اپنے پیچھےچہروں کو دیکھا ۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ نیم غنودگی میں ہوتالیکن اس وقت وہ اپنی نئی خوشگوار سوچوں میں محو تھا ۔ پہلے پہل جب بریگیڈ مارچ کے لئے روانہ ہونے لگا تھا تو اس نے اپنے آپ کوقائل کرنے کی کوشش کی کہ بوسے والا واقعہ پراسرار چھوٹی سےمہم کے طور پر دلچسپ ہو سکتا ہے ۔جب کہ حقیقت میں یہ بالکل معمولی ہے اور اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ،اس کےبارے میں کچھ کہنا بےوقوفانہ ہو گا ۔ لیکن اب اس نے عقلی دلیل کوخدا حافظ کہتے ہوۓ اپنے آپ کو خوابوں کے حوالے کر دیا تھا ۔ ایک وقت اس نے اپنے آپ کو وان رابیک کے ڈرائنگ روم میں ایک لڑکی کےساتھ تصور کیا ۔ جو جوان گل یاس جیسی خاتون اور سیاہ لباس والی خوبصورت دوشیزہ جیسی تھی ۔ پھر وہ اپنی آنکھیں بند کر تااور کسی اور با لکل انجان لڑکی کے ساتھ ہوتا جس کے نین نقش بہت مبہم ہوتے ۔وہ اپنے تصور میں اس سے گفتگو کرتا ،اسے پیارسے پچکارتا ،اس کے کندھوں پر جھکتا ،جنگ کی وجہ سے جدائی کاتصور کرتا ،پھر دوبارہ ملاقات، کھانا بیوی اور بچوں کے ساتھ ۔۔۔۔۔

“ بریک لگائیں ! “ جب بھی وہ اترائی پر پہنچتے تو حکم نامہ پکاراجاتا ۔

وہ بھی چلاتا ، “ بریک لگاؤ ! “ ساتھ ہی خوف ذدہ ہوتا کہ یہ چینخ وپکار اس کی محویت میں مخل ہو کر اسے واپس حقیقی دنیا میں لےآۓ گی ۔

جب وہ کسی جاگیر دار کی جاگیر کے پاس سے گزرے تو ریابووچ نے باڑ کے اوپر سے باغ میں دیکھا ۔ تو اس کی نظر ایک مسطر کیطرح سیدھے طویل راستے پر پڑی ۔ جو پیلی ریت سے بھرا تھا،کناروں پر سندر کے درخت سرحد بناۓ ہوۓ تھے ۔ایک خواب دیکھتےجوان کی طرح اس نے چھوٹے چھوٹے نسوانی پاؤں اس پیلی ریت پرتھرکتے تصور کئے۔ اور غیر متوقع طور پر اس کے تصور میں اس لڑکی کا واضح سراپا آ گیا ،جس نے اسے بوسہ دیا تھا ۔جس کی تصویر وہ کل رات کے کھانے سے قبل مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیاتھا ۔ یہ تصوراتی تصویر اس کے دماغ میں محفوظ ہو گئی اور پھرگم نہیں ہوئی ۔

دوپہر کے وقت پیچھے سے ویگنوں کی قطار کے قریب سے ایک چینخ سنائی دی۔

“ پرسکون ، پرسکون ! بائیں جانب ! ،افسران ! “

بریگیڈ کا جنرل ،گاڑی میں جسے سفید گھوڑوں کی جوڑی کھینچ رہی تھی گزرا ۔وہ دوسری بیٹری کے پاس رک گیا کچھ چلایا ،جوکسی کی سمجھ میں نہیں آیا ۔ بہت سارے افسران بشمول ریابووچ اس جگہ اکٹھے ہو گئے ۔

“ اچھا ، کیا کوئی بیمار ہے ؟ “ جنرل نے اپنی سرخ آنکھیں جھپکتےہوۓ پوچھا ۔

جواب ملنے پر جنرل جو چھوٹا اور دبلا پتلا تھا، ایک لمحے کے لئےسوچا ،اور ایک افسر کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا ،” تمہاری تیسری توپ کے ڈرائیوروں میں سے ایک نے اپنا لیگ گارڈ اتار کر توپ کےسامنے والے حصے پر لٹکایا ہوا ہے ۔ بدمعاش ۔اس کی سرزنش کرو۔”

جنرل نے ریابو وچ کو دیکھا اور بات جاری رکھی ۔ “ سامنے والی پٹی زیادہ لمبی محسوس ہو رہی ہے ۔”

اسی طرح کے مزید ناگوار تبصرے کرنے کے بعد اس نے لوبٹکوف کودیکھا اور مسکرایا ،اور کہا ، “ تم آج بہت اداس ہو ، کیا تمہیں مادام لوپیکوف یاد آ رہی ہے ۔ ؟ ہیں ۔۔۔نا ۔۔۔ ؟ صاحبو ، اسے مادام لوپیکوف کی یاد ستا رہی ہے ۔”

متذکرہ خاتوں توانا اور لمبی تھی اور اسے چالیس سال پورے کیےعرصہ گزر چکا تھا ۔ جنرل کا رجحان مضبوط اور ٹھوس خواتین کی طرف تھا اور اس میں عمر کی کوئی قید نہیں تھی ۔وہ یہی کچھ اپنے افسران کے بارے میں بھی قیاس کرتا تھا ۔ افسران تعظیما” مسکراۓ ۔ جنرل نے اپنے تئیں دلچسپ اور تیکھی بات کہنے پرمسرور ہو کر قہقہ لگایا۔اپنے کوچوان کی پیٹھ ٹھونکی اور سلیوٹ کیا ۔اور اس کی گاڑی روانہ ہو گئی۔

“ میں جو بھی خواب دیکھ رہا ہوں ۔وہ مجھے ناممکن اور غیرمعمولی دکھائی دیتے ہیں ،معمولی سی بات ہے “ ۔ریابووچ نے گرد کےبادلوں کو جو جنرل کی گاڑی کے پیچھے اٹھ رہے تھے دیکھتے ہوۓسوچا ۔ “ یہ عام سی بات ہے ۔ہر کوئی اس سے گزرتا ہے ۔جنرل بھیکسی وقت محبت میں گرفتار تھا ۔اب وہ شادی شدہ اور بال بچوںوالا ہے ۔ کیپٹن واہتر بھی شادی شدہ ہے اور اس سے محبت کیجاتی ہے اگرچہ اس کی گردن کی پشت بہت سرخ اور بھدی ہے اوراس کی کمر بھی نہیں ہے ۔ — سلمانوف بہت کھردرا اور تاتار ہےلیکن اس کا بھی عشق چلتا رہا اور پھر شادی ہو گئی ۔ میں بھی ان جیسا ہی ہوں ،میرا بھی جلد یا بدیر ان ہی کی طرح کا تجربہ ہوگا ۔

اس سوچ نے کہ وہ ایک عام شخص ہے اور اس کی زندگی بھی عام لوگوں جیسی ہے اسے خوش کر دیا اور اسے جرات عطا کی ۔ اس نےاس دوشیزہ کو اور اپنی خوشی کا تصور کیا اور اپنے تصورات کوبے لگام چھوڑ دیا ۔

جب بریگیڈ شام ہونے پر اپنے پڑاؤ کی جگہ پر پہنچا اور افسران اپنےخیموں میں سستا رہے تھے۔ ریابووچ ، مرزلیخوف اور لوبٹکوف ایک کھانے کے ڈبے کے گرد بیٹھے تھے ۔ مرزلیخوف سکون سے کھا رہاتھا ۔اور جان بوجھ کر کھانے کو زیادہ دیر تک چباتے ہوۓ اپنا رسالہ جسے اس نے اپنے گھٹنوں پر رکھا ہوا تھا ، بھی پڑھ رہا تھا ۔لوبٹکوف مسلسل باتیں کر رہا تھا اور بئیر کا گلاس بھی بھرتا جا رہا تھا ۔ ریابووچ جس کا دماغ سارا دن خوابوں میں مصروف رہنےکی وجہ سے الجھا ہوا تھا خاموشی سے پی رہا تھا ۔ تین گلاس پی لینے کے بعد اسے تھوڑا نشہ چڑھنے لگا تھا ۔وہ اپنے آپ کو کمزورپڑتا محسوس کرنے لگا اور اس کے اندر ناقابل مزاحمت خواہش پیداہوئی کہ وہ اپنے دوستوں کو اپنے نئے احساسات سے آگاہ کرے ۔

“ وان رابیک کے گھر میرے ساتھ بہت عجیب و غریب واقعہ پیش آیا ۔اس نے غیر متعلقہ اور تمسخر آمیز لہجہ اپناتے ہوۓ بات شروع کی ۔آپ کو معلوم ہے میں بلیئرڈ روم میں گیا تھا ۔اس نے بہت باریک تفصیلات کے ساتھ بوسے والا قصہ بیان کرنا شروع کیا اور ایک لمحےبعد خاموش ہو گیا ۔ اس لمحے میں وہ سب کچھ کہہ چکا تھا اور وہ حیران تھا کہ اسے سب کہہ دینے میں کتنا تھوڑا وقت لگا ۔ اس نےسوچا تھا کہ وہ اگلی صبح تک بوسے والی کہانی انہیں سناتا رہےگا ۔اس کی بات سن کر لوبٹکوف جو بہت بڑا جھوٹا شخص تھا ۔اسی وجہ سے کسی کی بات کا یقین نہیں کرتا تھا ،نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا اور ہنسنے لگا ۔ مرزلیاخوف نے بھنوؤں کو جھٹکادیا ، رسالے سے نگاہیں ہٹاۓ بغیر کہا ، “ یہ تو واقعی عجیب بات ہے۔۔۔۔۔۔ بغیر نام سے پکارے کسی کی گردن سے لپٹنا ۔وہ ضرور کوئی اعصابی خلل کی مریضہ ہو گی ۔ “

ریابووچ نے جواب دیا ، “ جی ہاں ، بالکل ضرور ایسا ہی ہوگا ۔ “

“ ایک دفعہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ،” لوبٹکوف نے خوفزدہ ہونےکا تاثر دیتے ہوۓ کہنا شروع کیا ۔ “ پچھلے سال میں کونوو جا رہاتھا ۔ میں نے درجہ دوئم کا ٹکٹ لیا تھا ۔ ٹرین بھری ہوئی تھی اورسونا بے حد مشکل تھا ۔ میں نے گارڈ کو آدھا روبل دیا تو وہ مجھےاور میرا سامان ایک دوسرے ڈبے میں لے گیا ۔ میں نے لیٹ کر اپنےآپ کو کپڑے سے لپیٹ لیا ۔اس وقت اندھیرا تھا ۔ اچانک کسی نےمیرے کندھے چھوۓ اور میرے چہرے پر اپنا سانس چھوڑا ۔ میں نےاپنے ہاتھ کو گھمایا تو وہ کسی کی کہنی سے ٹکرا گیا ۔میں نےآنکھیں کھولیں —— تصور کرو ۔۔۔۔ ایک عورت ۔ سیاہ آنکھیں ،سرخ ہونٹ ، پورے جوبن پر آئی سامن مچھلی جیسی ۔جذبات سےپھڑکتے نتھنے ، بھاری بھرکم چھاتیاں ۔

“ معاف کرنا “ مرزلیخوف نے اسے بڑے سکون سے روکا ،” سینے کی حد تک میں سمجھ سکتا ہوں لیکن تم نے تاریکی میں ہونٹ کیسےدیکھ لیے ۔ “

لوبٹکوف اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگا اورمرزلیخوف کے غیر تخیلاتی پن پر ہنسنے لگا اس صورتحال سےریابووچ دُکھی ہو گیا ۔ کھانے سے اٹھ کر بستر میں چلا گیا اورآئندہ کسی کو بھی رازدار نہ بنانے کا عہد کر لیا ۔

کیمپ کی زندگی شروع ہو گئی ۔دن ایک جیسی یکسانیت سے گزرنےلگے ۔ان تمام دنوں میں ریابووچ کے احساسات ، سوچیں اور رویہ ایسا تھا جیسے وہ محبت میں گرفتار ہو ۔ ہر صبح جب اس کا آردلی اسے نہانے کے لیے پانی دیتا اور وہ جب اپنے سر پر پانی ڈالتا تووہ سوچتا کہ اس کی زندگی میں بہت کچھ پرجوش اور خوش کن ہے .

شام کو جب اس کے ساتھی عورت اور محبت پر گفتگو کرتے تو وہ ان کے قریب تر ہو کر ان کی باتیں سنتا ۔اور جب کسی ایسی لڑائی کازکر ہوتا جس میں وہ شامل رہا ہوتا تو وہ ایک سپاہی کے تاثرات اپنالیتا ۔ اور جن شاموں میں افسران کسی شکاری کے ساتھ موج مستی کرتے — لوبٹکوف ان کا سرغنہ ہوتا اور وہ مضافات میں ڈان جوآن ( عورتوں سے متعلق ) قسم کی تفریح کرتے تو ریابووچ ان تفریحات میںشامل ہوتا ۔وہ ہمیشہ اداس رہتا ، مجرم محسوس کرتا اور اندر سےمعافی کا طلبگار رہتا ۔فرصت کے اوقات میں یا جن راتوں میں نیند نہآتی ، جب وہ اپنے بچپن کو اپنے والدین کو، ہر چیز جو اسے عزیزتھی، یاد کرتا ،بے شک وہ ہمیشہ بلا ناغہ میسٹیٹچکی ،عجیب گھوڑا ، وان رابیک اس کی بیوی جس کی شباہت ملکہ یوجینی سے تھی ،تاریک کمرہ اور دروازے کی جھری سے آتی روشنی ۔۔۔۔۔۔ کو یاد کرتا ۔

اکتیس اگست کو وہ کیمپ سے واپس آیا ۔پورا بریگیڈ نہیں بلکہ صرف دو بیٹریاں / دستے واپس آۓ ۔ وہ سارے رستے پرجوش رہا اور خواب دیکھتا رہا ۔گویا وہ اپنے آبائی وطن واپس جا رہا ہو ۔اسے اس عجیب گھر ، گرجا ، وان رابیک کے منافق خاندان ، تارک کمرہ کو دوبارہ دیکھنے کی شدید خواہش تھی ۔ “ اندر کی آواز “ ، جو عموما” عاشقوں کو دھوکہ دیتی ہے نے کسی وجہ سے اس سے سرگوشی کی کہ وہ ضرور اسے دیکھ لے گا ۔وہ اپنے اندر اٹھنے والے سوالات، جیسے کہ وہ اس سے کیسے ملے گا ؟ اس سے کیا بات کرے گا ؟ کیاوہ بوسے کو بھول چکی ہو گی ؟ سے اذیت میں مبتلا تھا ۔ اس نےسوچا اگر بد سے بدترین بھی ہوا ،وہ اس سے نہ مل سکا تب بھی اس تاریک کمرے میں جا کر وہ سب یاد کرنا بھی اس کے لیے باعث خوشی ہو گا ۔

شام کے قریب قریب گرجے اور سفید غلہ گودام افق پر نمودار ہوناشروع ہو گئے ۔ ریابووچ کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی ۔ اسے اپنےساتھ والے گھڑ سوار کی ، جو اس سے باتیں کر رہا تھا ،باتیںسنائی دینا بند ہو گئیں ۔ وہ سب کچھ بھول گیا ۔بےچینی سے دورفاصلے پر چمکتے دریا ،کو گھر کی چھت کو، کبوتر خانہ کو جس کےگرد کبوتر غروب ہوتے سورج کی روشنی میں چکر لگا رہے تھے ،کودیکھنے لگا ۔

جب وہ گرجا گھر کے قریب پہنچ کر اپنی غیر فوجی رہائش گاہ کاحکم نامہ سن رہے تھے تو ریابووچ ہر لمحے منتظر تھا کہ ابھی چرچ کی سمت سے گھڑ سوار چاۓ کا دعوت نامہ لئے ظاہر ہو گا ۔لیکن — حکم نامہ پڑھ کر سنا دیا گیا ،افسران کو گاؤں اپنی عارضی قیام گاہ پر جانے کی بے تابی تھی ،لیکن گھڑسوار نمودار نہیں ہوا ۔

“ وان رابیک فورا” کسانوں سے ہماری آمد کا سن لے گا اور ہمیں بلابھیجے گا” ۔ اپنی جھونپڑی میں جاتے ہوۓ ریابووچ یہی سو رہا تھا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ کیوں ایک افسر موم بتی جلا رہاتھا اور اردلی کیوں جلدی جلدی سماوار تیار کر رہے تھے ۔

ایک تکلیف دہ بے چینی نے اسے گھیر لیا تھا ۔پہلے تو وہ لیٹ گیالیکن پھر اٹھ کھڑا ہوا ۔اور کھڑکی سے جھانک کر دیکھنے لگا کہ آیاپیغام بر آ رہا ہے ۔ لیکن اس کا کوئی نام و نشان نہیں تھا ۔

وہ پھر لیٹ گیا ،لیکن آدھ گھنٹے بعد وہ پھر اٹھ بیٹھا ۔اپنی بے چینی کو برداشت نہ کرتے ہونے سڑک پر نکل گیا ۔اور چرچ کی جانب چل پڑا ۔چرچ کے قریب چوک میں اندھیرا اور ویرانی تھی ۔ جہاں سےسڑک ڈھلوان کی شکل میں نیچے جاتی تھی وہاں تین سپاہی خاموش کھڑے تھے ۔ ریابووچ کو دیکھ کر انہوں نے سیلوٹ کیا اس نےسیلیوٹ کا جواب دیا اور نیچے کی طرف جانے پہچانے رستے پر چل پڑا ۔دریا کے پاس آسمان پر ارغوانی سرخی کا سیلاب تھا ۔چاندطلوع ہو رہا تھا ۔دو کسان عورتیں اونچی آواز میں باتیں کرتے ہوۓکچن گارڈن سے گوبھی اکٹھی کر رہی تھیں ۔کچن گارڈن کے پیچھےکچھ تاریک جھونپڑیاں تھیں ۔دریا کے نزدیک والے کنارے پر ہر چیزویسی ہی تھی جیسی مئی میں تھی ۔ رستہ ، جھاڑیاں، بید مجنوںکی شاخیں پانی پر جھکی ہوئی ۔لیکن اس بہادر بلبل کی آواز نہیںتھی ۔ اور پاپلر اور تازہ گھاس کی خوشبو بھی نہیں تھی ۔

باغ میں پہنچ کر ریابووچ نے گیٹ سے اندر جھانکا ۔باغ تاریک اورساکت تھا ۔ اسے ماسواۓسندر کے درختوں کے سفید تنوں اورتھوڑے سے گزرگاہ کے حصے کے کچھ دکھائی نہیں دیا ۔ باقی سب کچھ سیاہی میں مدغم ہو چکا تھا ۔ ریابووچ نے کان لگا کرسننے کی کوشش کی ۔لیکن پندرہ منٹ انتظار کرنے کے باوجود اسےنہ تو کوئی آواز سنائی دی اور نہ ہی کوئی روشنی کی جھلک دکھائی دی ۔ وہ بھاری قدموں سے واپس مڑ گیا

۔وہ نیچے دریا کی طرف چل پڑا ۔ جنرل کے غسل گھر اور غسل کی چادریں جو چھوٹے پل کی تاروں پر لٹکی تھیں اس کے سامنے سفیددکھائی دے رہی تھیں ۔وہ پل کے پاس چلا گیا ،کچھ دیر کھڑا رہا اورپھر بلا ضرورت چادروں کو چھوا ۔وہ کھردری اور ٹھنڈی تھیں ۔اسنے نیچے پانی کو دیکھا دریا تیزی سے اور ہلکی سی سنائی دینےوالی غراہٹ کے ساتھ بہہ رہا تھا ۔بائیں کنارے پر سرخ چاند کا عکس پڑ رہا تھا ۔چھوٹی چھوٹی لہریں عکس کے اوپر سے گزر تے ہوۓاسے کبھی پھیلا دیتیں کبھی اس کے ٹکڑے کر دیتیں اور اسے ساتھ لے جانے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتیں ۔

“ کتنا بےوقوفانہ ، بالکل بےوقوفانہ ، “ ریابووچ نے بہتے پانی کودیکھتے ہوۓ سوچا ۔ “ یہ سب کم عقلی ہے! ۔”

اب جب اسے کوئی امید نہیں رہی ، بوسے کا واقعہ ،اس کے بےصبری ،اس کی لا یعنی امیدیں اور مایوسی سب کھل کر سامنے آگئیں ۔اسے اب جنرل کے پیغام رساں کا نہ ملنا بالکل عجیب نہیں لگا۔اور یہ کہ وہ اس لڑکی سے کبھی نہیں مل سکے گا جس نےحادثاتی طور پر کسی اور کے دھوکے میں اسے بوسہ دیا ۔بلکہ اسکے برخلاف اگر وہ اسے دیکھ سکتا یا مل سکتا تو یہ عجیب ہوتا ۔ُ

پانی بہہ رہا تھا ، اسے نہیں معلوم تھا کدھر اور کیوں ، بالکل مئی کی طرح ۔مئی میں یہ بڑے دریا میں مل گیا تھا ۔بڑے دریا سے سمندرمیں ۔پھر یہ بخارات بن کر بارش میں تبدیل ہو گیا ۔اور شاید وہی پانی اب ریابووچ کی آنکھوں کے سامنے بہہ رہا تھا ۔کس لیے ؟ اورکیوں ؟

ساری دنیا، ساری زندگی ،ریابووچ کو کم عقل، ناقابل فہم اور بےمقصد مذاق نظر آنے لگی ۔ اپنی نگاہیں پانی سے ہٹا کر آسمان کی طرف دیکھا اور یاد کیا ،کیسے قسمت ایک نامعلوم دوشیزہ کے بھیس میں اس پر مہربان ہوئی ۔اس نے اپنے موسم گرما کے خواب اورخوش فہمیاں یاد کیں ،جب کہ اس کی زندگی نے اسے غیر معمولی طور پر کمزور ، غربت زدہ اور بے رنگ بنا دیا ۔ ۔۔۔۔۔

جب وہ واپس اپنی قیام گاہ پہنچا تو اس کے ساتھی وہاں موجودنہیں تھے ۔ اردلی نے اسے بتایا کہ وہ سب جنرل وان رابیک کی طرف گئے ہیں جس نے ایک گھڑسوار کو بھیج کر انہیں مدعو کیا تھا ۔

ایک لمحے کے لئے اس کے دل میں خوشی کی کونپل پھوٹی لیکن اس نے اسے اسی وقت اکھاڑ کر پھینک دیا ۔بستر میں گھس گیا ۔اپنی قسمت پر غصہ کرتے ہوۓ اس سے بدلہ لینے کے لئے جنرل کے گھرنہیں گیا ۔

Myestetchki /

دیدبان شمارہ ۔۲۰ اور ۲۱

افسانہ : بوسہ

مصنف : اینٹن چیخوف

مترجم : عقیلہ منصور جدون

بیس مئی کی شام آٹھ بجے نیشنل ریزرو آرٹلری بریگیڈ / قومی محفوظ توپ خانہ دستہ کی چھ بیٹریوں نے کیمپ جاتے ہوۓ میسٹی ٹچکی نامی گاؤں میں شب بسری کے لئےپڑاؤ ڈالا تھا ۔ سارے دستے میں پڑاؤ کے انتظامات کا ہنگامہ عروج پر تھا ۔کچھ افسران توپوں کے ساتھ مصروف تھے ، بہت سارےدوسرے افسران چرچ احاطے کے قریب چوک میں اکٹھے ہو کر کوارٹرماسٹر کے احکامات سن رہے تھے۔ اتنے میں عجیب و غریب گھوڑےپر شہری کپڑوں میں ملبوس ایک سوار چرچ کی جانب سے آتادکھائی دیا ۔ بادامی -سرمئی رنگ کا اچھی گردن اور چھوٹی دم والاگھوڑا سیدھا چلنے کی بجاۓ ناچنے کے انداز میں پاؤں اطراف میںرکھتا ہوا چل رہا تھا ۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کی ٹانگوں پر کوڑے مارے گئے ہو ں ۔ افسران کے پاس پہنچ کر سوار نے اپنی ٹوپی اتاری اور کہا ،

“ جناب عزت مآب لیفٹیننٹ جنرل وان رابیک اسی وقت آپ صاحبان کوچاۓ پر مدعو کرتے ہیں ۔ ۔۔۔”

گھوڑا مڑا اور ناچنے کے انداز میں واپس چل پڑا ۔ سوار نے ایک بارپھر اپنی ٹوپی لہرائی اور ایک لمحے میں اپنے انوکھے گھوڑے کےساتھ چرچ کے پیچھے غائب ہو گیا .”یہ کیا بھونڈہ مزاق ہے۔۔۔۔۔ کچھ افسران غصے سے بڑبڑاتے ہوۓ اپنی قیام گاہوں کی جانب چل پڑے ۔

“ ہم یہاں سونا چاہتے ہیں اور اس رابیک کو چاۓ کی سوجھی ہے ! ہمیں معلوم ہے چاۓ کا کیا مطلب ہے؟”

چھ کی چھ بیٹریوں / دستوں کے افسران کے زہنوں میں پچھلے سال کا واقعہ مکمل طور پر محفوظ تھا ۔ جب فوجی نقل و حرکت کے دوران انہیں ایک۔ سرحدی فوجی رجمنٹ کے افسران کے ہمراہ اسی طرح چاۓ پر ایک نواب نے مدعو کیا تھا ۔جو خود بھی ایک ریٹائرڈ جرنیل تھا اور اس علاقے میں اس کی جاگیر تھی ۔ اس ملنسار میزبان نواب نے ان کی بہت عزت افزائی کی ۔ انہیں خوب کھلایا اور بہت ساری شراب پیش کی ۔انہیں واپس گاؤں میں ان کی قیام گاہوں پرجانے سے رات بھر روکے رکھا ۔ اگرچہ یہ سب کچھ بہت عمدہ تھا ۔اس سے بہتر کی تمنا بھی نہیں ہو سکتی تھی ۔لیکن بوڑھا جرنیل نوجوان افسروں کی صحبت میں اتنا خوش تھا کہ طلوع فجر تک وہ نوجوان افسران کو اپنے شاندار ماضی کے قصے سنانے میں مگن رہا۔ انہیں پورے گھر میں گھمایا ،مہنگی ترین تصاویر ، قدیم نقش نگاری اور نایاب بندوقیں دکھائیں ۔ عظیم لوگوں سے لئے گئے آٹوگراف پڑھ کر سناۓ ۔ تھکے ماندے افسران نیند کی شدید طلب کےباوجود دیکھتے اور سنتے رہے ۔ آخرکار جب میزبان نے انہیں جانےکی اجازت دی تو اتنی دیر ہو چکی تھی کہ سونے کا وقت ہی ختم ہوچکا تھا ۔

کہیں یہ رابیک بھی ویسا ہی ثابت نہ ہو ۔لیکن ان کے پاس یہ جاننےکا کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ یہ ویسا ہے یا نہیں ؟ ۔

افسران نے اپنے آپ کو صاف ستھرا کیا ،یونیفارم بدلا۔اور اپنےمیزبان کے گھر کی تلاش میں چل پڑے ۔ چرچ والے چوک میں انہیںبتایا گیا کہ اگر وہ نیچے جانے والا رستہ اختیار کریں ۔تو گرجا گھرکے پیچھے دریا کے کنارے کنارے باغ تک پہنچیں ۔وہاں سے ایک گلی اس گھر تک لے جاۓ گی ۔ یا پھر اگر وہ اوپر والا رستہ اختیارکریں تو چرچ سے سیدھی سڑک گاؤں سے آدھا میل عزت مآب کےاناج کے گوداموں تک لے جاۓ گی ۔ افسران نے اوپر والے رستے کاانتخاب کیا ۔

" یہ وان رابیک کس طرح کاہے ؟ ۔ وہ راستے بھر یہی سوچتے رہے ۔یقینا” یہ وہ نہیں تھا جس کے پاس پیو لینا کے مقام پر قومی کیولریڈویژن / گھڑ سوار کی کمان تھی ۔

“ نہیں ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔وہ صرف ریب تھا وان نہیں تھا ۔ “

“ موسم کتنا شاندار ہے ۔”

پہلے غلے کے گودام کے پاس سڑک دو میں تقسیم ہو گئی ۔ایک سیدھی آگے جا کر شام کی سیاہی میں گم ہو رہی تھی ۔جب کہ دوسری دائیں طرف گھر تک پہنیچتی تھی ۔

افسران داہنی طرف مڑ گئے اور سرگوشیوں میں گفتگو کرنے لگے ۔سڑک کے دونوں اطراف میں پتھروں سے بنے غلہ گودام تھے جن کی چھتیں سرخ تھیں ، جو ماحول کو بالکل ضلعی شہر کی بیرکوںکی طرح بوجھل اور اداس کر رہی تھیں ۔ ان کے سامنے جاگیردار کےگھر کی کھڑکیاں چمک رہی تھیں ۔

“ اچھا شگون ، دوستو ، “ ایک افسر نے کہا ۔ “ بے شک ہماراشکاری سب سے تیز ہے ۔وہ سب سے پہلے شکار کی بو سونگھ لیتاہے “۔

لیفٹینینٹ لوبٹکوجو سب سے آگے چل رہا تھا ۔وہ لمبا اورمضبوط جسم کا مالک تھا ۔ اگرچہ اس کی مونچھیں نہیں تھیں ۔( وہ پچیس سے اوپر تھا لیکن اس کے گول ، خوش خوراک دکھائی دیتےچہرے پر سرے سے بالوں کا کوئی وجود نہیں تھا ۔) وہ پورے بریگیڈمیں ، کافی فاصلے سے کہیں بھی عورتوں کی موجودگی ،کی پیشگوئی کرنے کی خصوصی صلاحیت کے لیے مشہور تھا ۔ وہ مڑا اوربولا ، “ یہاں عورتیں موجود ہیں ۔مجھے اپنے وجدان سے محسوس ہورہا ہے ۔”

ان کو خوش آمدید کہنے کے لئے دہلیز پر خود وان رابیک موجود تھا ۔وہ شہری لباس میں وجیہ و شکیل ساٹھ سالہ شخص تھا ۔ ان سےہاتھ ملاتے ہوۓ وہ انہیں بتا رہا تھا کہ اسے ان سے مل کر خوشی ہورہی تھی ۔لیکن ساتھ ہی وہ معزرت بھی کر رہا تھا کہ وہ انہیں رات بھر کے لیے رکنے کا نہیں کہہ سکتا ۔کہ اس کے گھر پہلے سے ہی دو بہنیں اپنے بچوں کے ساتھ ، اس کے بھائی اور کچھ ہمساۓمہمان ٹھہرے ہوۓ ہیں اور گھر کا کوئی کمرہ فارغ نہیں ہے ۔

جنرل نے سب سے مسکراتے ہوۓ مصافحہ کیا اور معزرت بھی کی لیکن اس کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ پچھے سال والے نواب کی طرح ان کی آمد ہر شاداں فرحاں نہیں تھا ۔اور اس نے انہیں صرف اور صرف اپنا سماجی فرض سمجھتے ہوۓ مدعو کیا تھا ۔ خودافسران بھی نرم دبیز قالین بچھی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوۓ ، اسکی معزرت سنتے ہوۓ یہ محسوس کر رہے تھے کہ انہیں صرف اسلیے بلایا گیا ہے کہ نہ بلایا جانا بہت ناگوار تاثر پیدا کرتا ۔ اور جب انہوں نے خادموں کو بھاگ بھاگ کر داخلی دروازے اور سیڑھیوںسے اوپر کے پیش کمرہ میں لیمپ روشن کرتے دیکھا تو افسران نےمحسوس کیا کہ ان کا آنا میزبان کے لیے بے آرامی اور بے سکونی کا باعث بنا ہے ۔ ایک گھر جس میں پہلے ہی دو بہنیں بچوں کے ہمراہ بھائی اور ہمساۓ کسی خاندانی تقریب یا کسی بھی وجہ سے اکھٹےتھے وہاں انیس اجنبی افسران کا کیسے خوشدلی سے استقبال ہوسکتا تھا ؟ ۔

ڈرائنگ روم کے دروازے پر ان کی ملاقات ایک طویل قامت ،باوقار ،سیاہ بھنوؤں کے ساتھ لمبے چہرے والی خاتون سے ہوئی ۔ جس کی بہت زیادہ مشابہت ملکہ یوجینی ( شاہ فرانس نپولین 3 کی ملکہ ) سے تھی ۔ جس کی مسکراہٹ شاہانہ اور شفیق تھی ۔ اس نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے مہمانوں سے مل کر بہت خوش اور مسرور ہے ۔ اورمعزرت بھی کی کہ وہ اور اس کا خاوند اس موقعہ پر ان معززمہمانان گرامی کی رات کی میزبانی سے معذور ہیں ۔

اپنی شاہانہ مسکراہٹ ،جو فورا” نمودار ہونے کے ساتھ ہی جب وہ مہمانوں سے منہ موڑتی تو غائب ہو جاتی ، اس سے معلوم ہوتا تھاکہ اس نے اپنی زندگی اتنے بہت سارے افسران دیکھے تھے کہ اب وہ ان کی ناز برداری نہیں کر سکتی تھی ۔ اور اگر اس نے انہیں اپنے گھر بلا لیا تھا اور ان سے ان کی بہت زیادہ خاطر مدارت نہ کر سکنے پر معزرت خواہ تھی تو اس کی وجہ سماج میں اس کامقام اور اس کی تربیت کا تقاضہ تھا ۔

جب افسران کھانے کے کمرے میں گئے تو وہاں ایک درجن کے قریب لوگ موجود تھے ۔ جن میں مرد اور عورتیں ۔ نوجوان اور بوڑھے ایک کافی لمبے میز کے آخری سرے پر چاۓ کے لئے بیٹھے تھے ۔

ان کی کرسیوں کے پیچھے مردوں کا ایک گروہ سگار کے دھویں میںلپٹا بہت مدھم سا دکھائی دے رہا تھا ۔ ان کے درمیان میں ایک دبلا،لمبا تڑنگا ،سرخ قلموں والا نوجوان کھڑا زور زور سے بول رہا تھا ۔وہ انگریزی بولتے ہوے ہکلا رہا تھا ۔ اس گروہ کے پیچھے ایک روشن کمرہ دکھائی دے رہا تھا جس کا فرنیچر ہلکے نیلے رنگ کا تھا ۔

“ صاحبوں ، آپ کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ فردا” فردا”تعارف کرانابہت مشکل ہے “ ۔ جنرل نے آواز میں شگفتگی پیدا کرتے ہوۓ اونچی آواز میں کہا ۔ “ بغیر کسی تکلف کے ایک دوسرے سے اپنا آپ متعارف کروائیں ۔”

افسران میں کچھ نے بہت سنجیدہ اور تنے ہوے چہروں کے ساتھ ،کچھ زبردستی کی مسکراہٹ کے ساتھ لیکن سب کے سب ناگواریت کااحساس لیے تعظیما” جھکے اور چاۓ کے لیے بیٹھ گئے ۔

تمام افسران میں سے سب سے زیادہ مضطرب اور بے چین ریابووچ تھا ۔ ایک چھوٹا سا افسر ،چشمے لگاۓ،جھکے ہوۓ کندھے ،جنگلی بلے جیسی قلمیں ۔

جب اس کے کچھ دوستوں نے سنجیدگی اپنائی ہوئی تھی اور باقیوںنے زبردستی کی مسکراہٹ سجائی ہوئی تھی ،اس وقت اس کا چہرہ،اس کی جنگلی بلے جیسی قلمیں اور عینکیں سب مل کر کہہ رہی تھیں ،” میں پورے بریگیڈ کا سب سے زیادہ شرمیلا ، سب سے زیادہ با حیا ، مؤدب اور سب سے زیادہ غیر معروف افسر ہوں “ ۔ پہلےپہل کمرے میں داخل ہونے سے لے کر میز کے سامنے بیٹھنے تک وہ کسی ایک چہرے یا کسی چیز پر توجہ مرکوز نہ کر سکا تھا ۔ چہرے، لباس ،برانڈی کے لیے شیشے کے صراحی نما گلاس ، گلاسوں سےاٹھتی بھاپ ، آرائشی جھالر یں ،سب کچھ ایک ہی عمومی تاثر میںمدغم ہو گئے جس سے ریابوچ کے اندر خطرے کے بگل بجنے لگے اوراس کے اندر خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اپنا سر کہیں چھپا لے ۔ بالکل کسی ایسے مقرر کی طرح جو عوام کے سامنے اپنا پہلا خطاب کرنےجا رہا ہو ۔ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے کی ہر چیز کو دیکھ رہا تھا۔ لیکن بظاہر اسے ان سب کا بہت مدھم ادراک تھا ۔( ماہر طبیعات ایسی حالت کو جس میں فاعل جو دیکھے اس کا ادراک نہ کرسکے،طبی /جسمانی اندھاپن کہتے ہیں ) کچھ توقف سے وہ اپنے ارد گردسے مانوس ہونا شروع ہوگیا ۔ ریابووچ نے صاف دیکھنا اور مشاہدہ کرنا شروع کر دیا ۔

شرمیلے انسان اور طبقہ شرفاء سے میل جول کا عادی نہ ہونے کی وجہ سے جو پہلی چیز اس کی مرکز تو جہ بنی جس کا اس کےاپنے اندر پہلے ہی فقدان تھا ، وہ تھی ،اس کے نئے شناساؤں ( میزبانوں ) کی غیر معمولی جرات و بےباکی ۔

وان ریبک ، اس کی بیوی ، دو پختہ عمر خواتین ،ایک نوجوان دوشیزہ گل یاس کے رنگ کے لباس میں اور سرخ قلموں والا نوجوان جوبظاہر وان ریبک کا بیٹا لگتا تھا نے بہت ہوشیاری و عمدگی سے گویاکہ اس کی انہوں نے ریہرسل کر رکھی تھی ، افسران کے درمیان نشستیں سنبھال لیں اور پرجوش بحث مباحثہ شروع کر دیا جس میںمہمان افسران حصہ لیے بغیر نہ رہ سکے ۔ گل یاس والی دوشیزہ کا کہنا تھا کہ آرٹلری / توپ خانہ کے پاس گھڑ سوار دستوں اورانفینٹری سے زیادہ بہتر وقت ہوتا ہے ۔ جب کہ وان ریبک اور پختہ عمر خواتین اس سے متضاد کی حمایتی تھیں ۔ اس پر تیز گفتگوہونے لگی ۔ ریابووچ نے گل یاس والی نوجوان دوشیزہ کو دیکھا جوایسے موضوع پر اتنی شدت سے بحث کر رہی تھی جو اس کے لیےغیر مانوس اور مکمل طور پر غیر دلچسپ تھا ۔وہ اس کے چہرے پرمصنوعی مسکراہٹ آتی جاتی دیکھنے لگا

وان رابیک اور اس کے خاندان نے افسران کو بڑی مہارت سے بحث مباحثہ میں الجھا لیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ ان کے گلاسوں اور منہ پرنظر رکھی کہ آیا سب پی رہے تھے ؟ کیا سب کے پاس چینی کی کافی مقدار موجود تھی ۔؟ ان میں سے کوئی اگر کیک اور برانڈی نہیں لے رہا تھا تو کیوں ؟ ۔

جتنا زیادہ ریابووچ مشاہدہ کرتا رہا اتنی ہی زیادہ اس کے لیے اس منافق لیکن شاندار خاندان کی کشش بڑھتی رہی ۔

چاۓ کے بعد افسران ڈرائنگ روم میں چلے گئے ۔ لیفٹیننٹ لوبیٹکو کی جبلت نے اسے دھوکہ نہیں دیا تھا ۔ وہاں اچھی خاصی تعداد میں جوان دوشیزائیں اور شادہ شدہ خواتین موجود تھیں ۔ “ دی سیٹر/  شکاری لیفٹیننٹ بہت جلد سیاہ لباس میں ملبوس ایک خوبصورت نوجوان دوشیزہ کے پاس کھڑا تھا۔ وہ زندہ دلی سے اس کی طرف جھکا جیسے کہ وہ کسی غیر مرئی تلوار پر جھکا ہو،مسکرایا اور بانکپن سے اپنے کندھے اچکاۓ ۔ شاید اس نے کوئی انتہائی دلچسپ بونگی ماری کہ اس خوبصورت دوشیزہ نے اس کےخوش خوراک چہرے پر مربیانہ نگاہ ڈالی اور بڑی لاتعلقی سے بولی ،“ واقعی “؟ ۔اس دلچسپی سے عاری واقعی سے دی سیٹر اگر وہ زہین ہوتا تو سمجھ جاتا کہ وہ کبھی بھی اسے رام نہیں کر سکےگا .

پیانو بجنے لگا ۔ والز کی اداس دُھنیں کھلی چوڑی کھڑکی سے تیرتی ہوئی باہر نکلیں ۔کسی نہ کسی وجہ سے ہر ایک نے سمجھ لیا کہ بہار آ گئی ہے ، مئی کی ایک شام ۔ ہر کوئی گلاب ، للی اور پاپولرکے تازہ پتوں کی خوشبو محسوس کر رہا تھا ۔ ریابووچ نے جوبرانڈی پی تھی اس نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ۔ساتھ ہی موسیقی کے زیر اثر اس نے نظریں چرا کر کھڑکی کی طرف دیکھااور مسکراتے ہوۓ خواتین کی حرکات و سکنات دیکھنے لگا ۔ اسےمحسوس ہوا کہ گلاب پاپولر اور للی کی خوشبو کھڑکی کے باہر سےنہیں بلکہ عورتوں کے لباس اور چہروں سے آ رہی ہے ۔

وان رابیک کے بیٹے نے ایک دبلی پتلی نازک حسینہ کو رقص کی دعوت دی ۔ اور اس کے ساتھ کمرے میں والز کے دو چکر لگاۓ ۔لوبٹکوف لکڑی کے فرش پر پھسلتے ہوۓ ہوا میں تیرتے ہوۓ گل یاس جیسی نوجوان دوشیزہ تک پہنچا اور اسے گھمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ رقص شروع ہو گیا ۔ریابووچ دروازے کے پاس اس گروہ میں کھڑا تھا جورقص نہیں کر رہے تھے۔بس رقص ہوتا دیکھ رہے تھے ۔ اس نے اپنی زندگی میں کبھی بھی رقص نہیں کیا تھا ۔ نہ ہی اس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی باعزت خاتون کی کمر کے گرد بازو حمائل کیے تھے ۔لیکن وہ اس سے بہت زیادہ خوش ہوتا کہ مرد سب کی نظروں کےسامنے کسی خاتون کو جسے وہ نہیں جانتا کمر سے پکڑے ،اسےاپنے کندھے پیش کرے تا کہ وہ ان پر اپنے ہاتھ رکھ سکے ۔لیکن وہ کبھی بھی اپنے آپ کو اس مرد کی جگہ رکھنے کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔ ایک وقت تھا جب وہ اپنے ایسےدوستوں کی جرات اورمتکبرانہ چال پر رشک کرتا تھا۔ اور خود اپنے آپ کو بد بخت تصورکرتا تھا ۔یہ آگاہی کہ وہ بزدل ہے اس کے کندھے جھکے ہوۓ ہیں اوروہ بالکل غیر دلچسپ ہے۔ اس کا اوپر والا دھڑ زیادہ لمبا ہے ۔ اس کی قلمیں جنگلی بلے جیسی ہیں ۔ یہ سوچیں اسے غمزدہ کر دیتیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ وہ ان احساسات کا عادی ہو گیا ۔ اب وہ اپنےدوستوں کو رقص کرتے ،اونچا اونچا بولتے دیکھ کر ان پر بالکل رشک نہیں کرتا تھا ،ہاں وہ حساس اور اداس ضرور ہو جاتا ۔

جب کواڈرلا رقص شروع ہوا تو جوان وان رابیک ان افسران جو رقص نہیں کر رہے تھے،کے پاس آیا اور دو افسران کو بلیئرڈ کھیلنے کےلیے مدعو کیا ۔ وہ یہ دعوت قبول کرتے ہوۓ اس کے ساتھ ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئے ۔ریابو وچ کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا لیکن وہ متحرک ہونا چاہتا تھا اس لئے وہ بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔ بڑےڈرائنگ روم سے وہ چھوٹے ڈرائنگ روم میں پہنچے ۔وہاں سے ایک تنگ راہداری میں جس پر کانچ کی چھت تھی۔ وہاں سے ایک کمرےمیں داخل ہوۓ جہاں نیند سے مغلوب تین دربان ان کے آنے پر ہڑ بڑاکر صوفوں سے اٹھ گئے ۔ اس طرح مزید کمروں سے گزرتےہوۓآخرکار جوان وان رابیک اور افسران ایک چھوٹے کمرے میں پہنچے جہاں بلیئرڈ کی میز رکھی تھی۔ انہوں نے کھیلنا شروع کردیا ۔

ریابووچ جس نے تاش کے علاوہ کبھی کوئی کھیل نہیں کھیلا تھامیز کے پاس کھڑا ہو گیا اور لاتعلقی سے کھلاڑیوں کو دیکھنے لگا۔جب کہ کھلاڑی اپنے کھلے بٹنوں والے کوٹوں کے ساتھ ہاتھ میں کیوپکڑے فقرے کستے اونچی آواز میں ناقابل فہم الفاظ چلاتے کھیلتےرہے۔

کھلاڑی ریابووچ پر کوئی توجہ نہیں دے رہے تھے ۔ ہاں کبھی کبھی کوئی کھلاڑی اسے اپنی کہنی سے دھکیلتے ہوۓ یا اتفاقاً” اپنی کیوکی نوک سے اسے چھوتے ہوۓ واپس مڑ کر “ معاف کرنا “ کہہ دیتا ۔ پہلا کھیل ختم ہونے تک وہ اس سے بیزار ہو چکا تھا ۔ اور اس نےمحسوس کر لیا تھا کہ اس کی یہاں کوئی ضرورت نہیں اور وہ ان کے رستے میں رکاوٹ بن رہا ہے ۔ اس نے ڈرائنگ روم واپس جانے کاارادہ کیا ۔اور باہر نکل گیا ۔

واپسی پر اسے ایک چھوٹی سی مہم کا سامنا کرنا پڑا ۔ آدھے رستےتک جا کر اس نے محسوس کیا کہ وہ غلط موڑ مڑ چکا ہے ۔ اسےواضح طور پر یاد تھا کہ اسے رستے میں تین نیند کے مارے دربان ملنے چاہیے تھے ۔ وہ پانچ یا چھ کمروں سے گزر چکا تھا لیکن دربانوں کو لگتا تھا زمین نگل گئی تھی ۔ غلطی کا احساس ہوجانے پر وہ تھوڑا واپس گیا اور داہنے ہاتھ مڑ گیا ۔ وہاں وہ ایک قدرے تاریک کمرے میں کھڑا ہو گیا جو اس نے بلیئرڈ روم جاتے ہوۓنہیں دیکھا تھا ۔کچھ دیر وہاں کھڑا رہنے کے بعد اسے جو دروازہ دکھائی دیا اس میں داخل ہو گیا ۔ یہ کمرہ پچھلے کمرے سے بھی زیادہ تاریک تھا ۔اسے اپنے بالکل سامنے دروازے میں جھری دکھائی دی جس میں سے دوسری طرف سے مدھم روشنی کی چمک آ رہی تھی ۔ دروازے کی دوسری جانب سے اداس و غمگین مزرکا کی دبی دبی آواز آ رہی تھی ۔ ڈرائنگ روم کی طرح یہاں بھی کھڑکیاں کھلی تھیں اور وہی پاپولر وغیرہ کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔

ریابووچ مارے ہچکچاہٹ کے اپنی جگہ کھڑا رہا ۔اسی لمحے اسےحیران کن حد تک تیز تیز قدموں کی اور لباس کی سرسراہٹ سنائی دی ۔ایک ہانپتی کانپتی زنانہ آواز میں الفاظ سنائی دیے ،” آخر کار“

دو نرم خوشبودار ،بلا شبہ زنانہ ہاتھوں نے اس کی گردن کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ اس نے اپنے رخسار پر گرم رخسار کا دباؤمحسوس کیا ۔ساتھ ہی بوسے کی آواز آئی ۔ لیکن فورا” ہی بوسہ دینے والی نے ہلکی سی چینخ ماری اور اچھل کر اس سے پیچھےہٹی۔ وہ بھی تقریباً” چیخ کر دروازے سے آتی روشنی کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

جب وہ واپس ڈرائنگ روم میں پہنچا تو اس کا دل دھڑک رہا تھا ،اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔اسی وجہ سے اس نے انہیں پیچھے باندھرکھا تھا ۔ پہلے پہل وہ شرمندگی اور خوف کی اذیت سے دوچار ہوا کہ ڈرائنگ روم میں سب جانتے ہیں کہ اسے کسی خاتون نے بوسہ دیا اور اس سے بغل گیر ہوئی ۔ وہ اپنے آپ میں سکڑ گیا اور اپنےبارے میں بے چین ہو گیا ۔لیکن جوں جوں اسے یقین ہوتا گیا کے لوگ رقص میں اور پہلے کی طرح گفتگو میں مصروف ہیں تو اس نے اپنےآپ کو اس نئے سنسنی خیز احساس کے حوالے کر دیا جس کا اسےپہلے کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا ۔ اس کے اندر عجیب سی اتھل پتھل ہو رہی تھی ۔

اس کی گردن جس کے گرد ابھی ابھی اتنے نرم اور خوشبودار بازولپٹے ہوۓ تھے ۔اسے محسوس ہوا جیسے اس کا تیل سے مسح ( مذہبی رسم ) کیا گیا ہو ۔ اس کے بائیں رخسار پر مونچھوں کے قریب جہاں اس گمنام نے بوسہ دیا تھا ،وہاں مدہم ٹھنڈی سنسناہٹ کااحساس تھا، بالکل پودینے کے قطروں جیسا ۔وہ جتنا زیادہ اس جگہکو رگڑتا اتنا ہی زیادہ ٹھنڈی سنسناہٹ میں اضافہ محسوس ہو تا ۔یہ احساس اس کے سر سے لے کر پاؤں تک پھیل گیا تھا ۔وہ اندرسے عجیب نئی قسم کے جذبات سے بھر گیا تھا ۔جو مضبوط سےمضبوط تر ہوتے جارہے تھے ۔ ۔۔۔۔۔ وہ رقص کرنا چاہتا تھا ،بات چیت میں شریک ہونا چاہتا تھا باغ میں دوڑ لگانا چاہتا تھا ۔ اسے اونچااونچا قہقہے لگانے کی خواہش ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔

وہ بھول چکا تھا کہ اس کے کندھے جھکے ہوۓ ہیں ۔وہ بور قسم کاشخص ہے ۔ اس کی قلمیں جنگلی بلے جیسی ہیں ۔ وہ ایک غیر اہم شخصیت ہے ۔ ( ایسا کچھ خواتین اس کے بارے میں راۓ رکھتی تھیں ،جو اس نے اپنے کانوں سے سنی تھیں ) جب وان رابیک کی بیوی اس کے پاس سے گزری تو ریابووچ نے اسے اتنی کھلی دوستانہ مسکراہٹ سے دیکھا کہ وہ رک گئی اور اسے استفہامیہ نگاہوں سےدیکھنے لگی ۔

“ مجھے آپ کا گھر بہت پسند آیا ۔” اس نے اپنے چشمے ٹھیک کرتےہوۓ کہا ۔

جنرل کی بیوی نے مسکراتے ہوۓ اسے بتایا کہ یہ گھر اس کے والدکی ملکیت ہے ۔ تب اس نے پوچھا

کیا اس کے والدین حیات ہیں ؟ وہ کتنے عرصے سے فوج میں ہے ؟وہ اتنا کمزور کیوں ہے اور اسی طرح کے مذید سوالات ۔ اپنے سوالوںکے جواب ملنے پر وہ آگے بڑھ گئی ۔ اس سے بات چیت کے بعد اسکی مسکراہٹ زندگی میں پہلی بار دوستانہ تھی ۔ اور اس نے سوچاکہ وہاں موجود لوگ بہت شاندار لوگ تھے ۔

رات کے کھانے میں ریابووچ نے ہر وہ چیز کھا لی جو اسے پیش کی گئی ۔ شراب نوشی کی اور بغیر کچھ بھی سنے اس بات پر توجہ مرکوز رکھی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔ جو ہوا وہ انتہائی پراسرار اور رومانوی نوعیت کی واردات تھی ۔ لیکن اس کی وضاحت کوئی مشکل بات نہیں تھی ۔ ظاہری سی بات تھی کہ کسی دوشیزہ یا کسی جوان شادی شدہ خاتون نے کسی مرد سے ملنے کے لیے اس نیم تاریک کمرے کا انتخاب کیا تھا ۔ کافی دیر انتظار کرنے ، جوش اور گھبراہٹ میں ریابووچ کو اپنا ہیرو سمجھ بیٹھی تھی ۔ یہی ممکنہ تشریح ہو سکتی تھی ۔کہ ریابووچ وہاں ہچکچاتا ہوا بالکل ساکت کھڑا تھا ۔ اور ایسا ہی دکھائی دیتا تھا جیسے کسی کا انتظار کر رہا ہو ۔ اس طرح اس نے اپنے آپ کو وصول ہونے والےبوسے کی توجیہ پیش کی ۔

“ لیکن وہ کون ہے ؟ “ اس نے حیرانی سے تمام موجود خواتین کےچہروں کو دیکھتے ہوۓ سوچا ۔ “ وہ یقینا” نوجوان ہو گی ،بوڑھی خواتین خفیہ ملاقاتیں نہیں کرتیں ۔لیکن اس خاتون کی پہچان اس کےلباس کی سرسراہٹ ،اس کی خوشبو اور آواز سے ہو سکتی تھی ۔”

اس کی نظریں گل یاسین جیسی نوجوان دوشیزہ پر ٹک گئیں ۔اسےوہ بہت دلکش محسوس ہوئی ۔ اس کے کندھے اور بازو بہت خوبصورت تھے ۔ ہوشیار چہرہ، اور خوش کن آواز ۔ریابووچ نے اسےدیکھا اور خواہش کی کہ وہی اس کی نامعلوم ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کی ہنسی کچھ مصنوعی تھی اور اپنے لمبے ناک کو جب سکیڑتی توکچھ بڑی عمر کی دکھائی دینے لگتی تھی ۔ پھر اس نے سیاہ لباس والی دوشیزہ کو دیکھا ۔ وہ زیادہ جوان ، سادہ اور خالص تھی ۔پیشانی دلکش تھی ۔اپنے شراب کے گلاس سے بہت نفاست سے پی رہی تھی ۔اب ریابووچ نے خواہش کی کہ وہ تھی ۔ لیکن جلد ہی اس کا چہرہ اسے بالکل عام سا لگنے لگا اور اس کی نگاہیں اس سےاگلی والی پر ٹک گئیں ۔

“ یہ قیاس آرائی تو مشکل ہے “ اس نے محویت سے سوچا ۔ “ اگرکندھے اور بازو گل یاسین سے مشابہ دوشیزہ کے ہوں ،پیش انی سیاہ لباس والی کی اور آنکھیں لوبٹکو کی بائیں طرف والی کی لی جائیں ،تب ۔۔۔۔۔۔۔ “

اس نے اپنے دماغ میں ان سب کو آپس میں ملا کر اس لڑکی کی شکل اپنے تصور میں بنائی جس نے اسے بوسہ دیا تھا ۔یہ ایک ایسی تصویر تھی ،جو وہاں موجود نہیں تھی ۔

کھانے کے بعد شکم سیر اور خوش افسران نے وان رابیک سے واپسی کی اجازت مانگی اور شکریہ ادا کیا ۔وان رابیک اور اس کی بچیوں نے ایک بار پھر ان سے معزرت کی کہ وہ انہیں رات رکنے کا نہیںکہہ سکتے ۔

“ آپ سب سے مل کر بہت بہت خوشی ہوئی ،” وان رابیک نے کہا ۔اس دفعہ وہ واقعی خلوص سے بات کر رہا تھا ۔ ( شاید اس لئے کہ لوگ مہمانوں کی رخصتی کے وقت زیادہ مخلص اور خوش مزاج ہوتے ہیں) ۔

“ امید ہے،آپ واپسی پر بھی آئیں گے ۔ اب آپ کیسے جائیں گے ؟ کیاآپ اوپر والے رستے سے جانا چاہیں گے ۔ میرا مشورہ ہے کہ باغ والےرستے سے جائیں وہ نزدیک پڑے گا ۔

افسران باغ میں گئے ۔ تیز روشنیوں اور شور شرابے سے نکل کر باغ انہیں بہت تاریک اور خاموش محسوس ہوا ۔وہ گیٹ تک خاموشی سےپہنچے ۔وہ تھوڑے نشے میں مدہوش ،خوش اور پرجوش تھے ۔لیکن گہری خاموشی نے انہیں تھوڑی دیر کے لیے سوچنے پر مجبور کردیا ۔ غالبا” ہر ایک ریابووچ سمیت اسی نکتے پر سوچ رہا تھا کہ آیاان کی زندگیوں میں بھی ایسا وقت آۓ گا جب ان کے پاس بھی وانرابیک کی طرح اتنا بڑا گھر باغ اور اپنا خاندان ہو گا ؟ ۔جب وہ خودبھی اسی طرح لوگوں کا اپنے گھر میں استقبال کریں گے ،چاہےریاکاری کرتے ہوے ہی ، انہیں اسی طرح کھلائیں پلائیں گے ؟

باغ کے گیٹ سے باہر نکل کر سب کے سب اکٹھے بولنے اور بغیرکسی وجہ کے زور زور سے ہنسنے لگے ۔

اب وہ دریا کی طرف جانے والے چھوٹے سے رستے پر چل رہے تھے ۔پھر پانی کے ساتھ ساتھ دوڑنے ،کنارے پر اگی جھاڑیوں ، تالابوں اوربید مجنوں جو پانی پر جھکے ہوۓ تھے ، کے گرد گھومنے لگے ۔ دریاکا کنارہ اور رستہ بمشکل دکھائی دے رہا تھا اور دوسرا کنارہ تومکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ۔تاریک پانی پر کہیں کہیں ستاروں کےعکس تھے جو کپکپاتے اور سطح پر پہنچ کر ٹوٹ جاتے ۔ اور صرف اسی سے پتہ چلتا تھا کہ دریا کتنی تیز رفتاری سے بہہ رہا تھا ۔مکمل سکوت تھا ۔ دوسرے کنارے سے نیم غنودہ مرغابیوں کی دلدوزچینخیں سنائی دے رہی تھیں ۔ قریب والی جھاڑیوں سے ایک بلبل انسانوں کے اس گروہ سے بے نیاز اونچی آواز سے چہچہا رہا تھا ۔کچھ افسران جھاڑی کے پاس رک گئے ۔اس سے چھیڑ خانی کی لیکن بلبل پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔

“واہ، کیا چیز ہے “

انہوں نے پسندیدگی سے کہا ، “ ہم پاس کھڑے ہیں اور اس پر کوئی اثر ہی نہیں ۔پکا بدمعاش ہے ۔ “

رستے کے اختتام پر چڑھائی شروع ہو گئی ۔وہ چرچ احاطے میںپہنچ کر مڑے اور سڑک پر آ گئے ۔ یہاں چڑھائی چڑھنے کے بعدافسران تھک کر بیٹھ گئے ۔ اپنے سگریٹ سلگا لئے ۔ دریا کے دوسرےکنارے پر دھندلی سی سرخ آگ دکھائی دی ۔چونکہ اس وقت ان کےپاس گفتگو کے لئے کچھ نہیں تھا اس لیے وہ اس بات پر بحث کرنےلگے کہ آیا یہ کسی کیمپ کی آگ ہے یا کسی کھڑکی سے آتی روشنی یا کچھ اور ۔ ریابووچ نے بھی روشنی دیکھی ۔ اس نے تصورکیا کہ رروشنی نے اسے دیکھا اور اسے آنکھ ماری گویا وہ اس کےبوسے کے بارے میں جانتی تھی ۔

اپنی قیام گاہ پر پہنچ کر ریابووچ نے جتنی جلدی ممکن ہو سکالباس اتارا اور بستر میں گھس گیا ۔

لوبٹکو و اور لیفٹیننٹ مرزلیخوف —ایک پرامن ،خاموش طبع جسے اسکے اپنے حلقہ احباب میں بہت پڑھا لکھا افسر جانا جاتا تھا ۔ وہ ہروقت جب بھی ممکن ہوتا ایک میگزین ( ہیرالڈ یا پیامبر آف یورپ،آخری انیسویں صدی کا لبرل میگزین جو 1866 سے 19 18 تک چھپتا رہا ) جو وہ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا ۔ پڑھتا رہتا تھا ۔ ان دونوں کی رہائش ریابووچ کے ساتھ مشترکہ تھی ۔ لوبٹکو کافی دیرہٹ / جھونپڑی میں کسی بے چین شخص کی طرح ٹہلتا رہا۔ آخراس نے اپنے اردلی کو بئیر لانے کے لئے بھیجا ۔مرزلیخوف بستر میںچلا گیا ،تکیے کے پاس ایک موم بتی جلا کر اپنا رسالہ پڑھنے لگا ۔

ریابووچ بستر پر لیٹا چھت کو دیکھتے ہوۓ سوچتا اور حیران ہوتا رہاکہ “ وہ کون تھی ؟۔”

اسے اپنی گردن کے بارے میں ابھی تک ایسا ہی محسوس ہو رہا تھاجیسے تیل کی مالش کی گئی ہو ۔ اس کے منہ کے قریب اب تک ٹھنڈی سنسناہٹ تھی پودینے کے قطروں جیسی ۔

کندھے اور بازو گل یاس لیڈی جیسے ،پیشانی اور سچی آنکھیںسیاہ لباس والی خوبصورت دوشیزہ کے ، کمر ،لباس اور کلپ اس کی چشم تصور میں تیرتے رہے ۔ وہ ان تصورات پر اپنی توجہ مرکوزرکھنا چاہتا تھا لیکن وہ ادھر ادھر ناچتے ،ٹمٹماتے ٹوٹ جاتے ۔جب یہ تصوراتی عکس اس سیاہ پس منظر سے جو ہر شخص اپنی آنکھیں بند کر کے دیکھتا ہے ،غائب ہو گئے تو اس نے تیز تیز قدموںکی آہٹ ،کپڑوں کی سرسراہٹ ، بوسے کی آوازیں سننی شروع کردیں ۔ جس سے اسے شدید بے بنیاد خوشی ملنے لگی ۔ اپنے آپ کواس خوشی کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوۓ اس نے اردلی کو واپس آکریہ کہتے سنا کہ بئیر نہیں ہے ۔جس پر لوبٹکو شدید غصے میں پھرٹہلنے لگا ۔

“ کیا یہ احمق نہیں ہے ؟ “ وہ بار بار یہی دہراتا رہا ،پہلے ریابووچ کے پاس رک کر اور پھر مرزلیخوف کے پاس رک کر ۔” وہ شخص کتنابڑا بےوقوف احمق ہے جس کو بئیر نہیں ملا ، پکا بدمعاش ہے ۔”

مرزلیخوف نے رسالے سے نظریں ہٹاۓ بغیر کہا ،” ظاہر ہے یہاں بئیرنہیں مل سکتا ۔”

“ اوہ ! یہ تمہاری راۓ ہے ۔ “ لوبٹکوف نے اصرار کیا ، “ خدا ہم پررحم فرماۓ ،اگر تم مجھے چاند پر اتار دو تو میں تمہیں وہاں بھی بئیر اور عورت ڈھونڈ دوں گا ! میں خود جا کر لاؤں گا ۔۔۔۔۔ تم مجھےبہروپیا کہنا اگر میں نہ لا سکا ۔ “

اس نے کافی وقت کپڑے پہننے اور بوٹ چڑھانے میں لگا دیا ۔پھرخاموشی سے اپنا سگریٹ ختم کیا اور باہر نکل گیا ۔

“ رابیک ، لا یبک ،گرابیک ، “ وہ باہر والے کمرے میں بڑبڑایا ۔” مجھے اکیلے جانے کی پرواہ نہیں ، لعنت ہے ! ، ریابووچ ،کیا تم ٹہلنےکے لیے چلو گے ؟ “

کوئی جواب نہ پارکر وہ واپس آیا ،کپڑے اتارے اور بستر میں گھس گیا ۔ مرزلیخوف نے آہ بھری ،رسالہ بند کیا اور موم بتی گل کر دی ۔

“ ہمم ! “ لوبٹکو بڑبڑایا ۔اور اندھیرے میں سگریٹ سلگا لیا ۔

ریابووچ​ نےبستر کی چادر سر تک اوڑھ لی ۔گھٹنے موڑ کر پیٹ کے ساتھ ملا کر لیٹ گیا۔ اور اپنے دماغ میں تیرتی اشکال کو اکٹھاکر کے انہیں ایک کل میں مجسم کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔ لیکن کامیاب نہ ہوا ۔ جلد ہی وہ سو گیا اور اس کی آخری سوچ تھی کہ کوئی اسے پیار سے پچکار رہا تھا ۔ اور اسے خوش کر رہا تھا ۔یہ غیر معمولی اگرچہ بے وقوفانہ لیکن خوش کن اور خوشگوار چیز اسکی زندگی میں آ چکی تھی ۔ اس سوچ نے نیند میں بھی اس کاپیچھا نہیں چھوڑا ۔

جب وہ صبح اٹھا تو اس کی گردن پر تیل کا اور اس کے رخسار پرٹھنڈک کا احساس ختم ہو چکا تھا ۔ لیکن اس کا دل پچھلے دن کی طرح ہی خوشی سے لبریز تھا ۔اس نے کھڑکیوں کے فریموں کو شوق سے دیکھا جو چڑھتے سورج کی روشنی سے سنہرے دکھائی دےرہے تھے ۔ اس نے سڑک سے گزرنے والوں کے قدموں کی چاپ سنی ۔کھڑکی کے پاس ہی لوگ اونچا اونچا بول رہے تھے ۔

لیبیڈیٹسکی ،جو ریابووچ کی بیٹری / دستے کا کمانڈر تھا،اس نےابھی ابھی پل پر قبضہ کیا تھا۔وہ اپنی پوری طاقت سے اونچا بول رہا تھا ۔وہ ایسے ہی چیخنے کا عادی تھا ۔

“ مذید کچھ ؟ “ کمانڈر چلایا ۔

“ کل جب گھوڑوں کی نعل بندی ہو رہی تھی تو انہوں نے ایک کیل اس کے کھر میں ٹھونک دی . جانوروں کے ڈاکٹر نے مٹی اور سرکہ لگا دیا اور اسے اب الگ رکھا ہوا ہے ۔

اور جناب عزت مآب ،آرٹیمیو کل نشے میں دھت ہو گیا تھا ۔اورلیفٹیننٹ نے اسے فالتو توپ گاڑی کے اگلے حصے میں رکھنے کا حکم دیا تھا ۔

سرجنٹ نے یہ بھی رپورٹ دی کے کارپوو بگل کے نئے تار اور خیموںکے رنگ بھول گیا تھا ۔ جناب، افسران کل شام وان رابیک کی دعوت پر گئے تھے ۔ اس گفتگو کے دوران سرخ داڑھی والے لیبیڈیٹسکی نےکھڑکی سے اندر جھانکا ۔اس نے آنکھیں سکیڑ کر نیند کے خمارمیں ڈوبے افسران کو دیکھا ،اور انہیں صبح بخیر کہا ۔

“ کیا سب خیریت ہے ؟ “ اس نے پوچھا ۔

“ ایک گھوڑے کو نئے پٹے سے گردن میں درد ہے ۔” لوبٹکوف نےانگڑائی لیتے ہوۓ کہا ۔

کمانڈر افسردہ ہو گیا ۔ایک لمحے کے لیے سوچا اور اونچی آواز میںبولا ،” میں الیگزینڈرا ییوگرافوونا کو ملنے جا رہا ہوں۔ میرا جاناضروری ہے ۔ خدا حافظ ،شام کو ملاقات ہو گی ۔ “

تقریباً پون گھنٹے بعد بریگیڈ اپنے رستے پر روانہ ہوا ۔جب وہ سڑک پرغلے کے گوداموں کے پاس سے گزر رہے تھے تو ریابووچ نے داہنی طرف گھر کو دیکھا ۔تمام کھڑکیوں کے پردے گرے ہوۓ تھے ۔ صاف ظاہر تھا کہ سارا گھر سویا پڑا ہے ۔وہ جس نے ایک دن قبل اسےبوسہ دیا تھا وہ بھی سو رہی تھی ۔ اس نے اسے سوتے ہوۓ تصورمیں لانے کی کوشش کی۔ بیڈ روم کی وسیع کھلی کھڑکیاں ،جن سےسبز شاخیں اندر جھانکتی ہوئیں ،صبح کی تر و تازگی ، پاپلر ، گلیاس / بکائن ،اور گلابوں کی خوشبو ، پلنگ ، ایک کرسی اور سکرٹجو ایک دن قبل سرسرا رہی تھی ، چھوٹے چھوٹے سلیپر ، چھوٹی سی گھڑی ۔اس سب کو اس نے بہت واضح اور علیحدہ علیحدہ دیکھا۔لیکن چہرے کے نین نقش ،میٹھی نیند کی مسکراہٹ ، جو نمایاں اوراہم صفات تھیں وہ اس کے تصور سے اس طرح پھسل گئیں جیسےچاندی انگلیوں کے درمیان سے ۔

کوئی آدھا میل آگے جانے کے بعد اس نے مڑ کر دیکھا ،پیلا گرجا گھر، وہ گھر اور دریا روشنی میں نہآۓ ہوۓ تھے ۔دریا اپنے سبز کناروںکے ساتھ،نیلا آسمان جس کا عکس دریا پر پڑ رہا تھا اور یہاں وہاں دھوپ کی چاندی جیسی چمک ،سب بہت خوبصورت تھا ۔ریابووچ نےمیسٹیٹچکی( گاؤں ) پر آخری نگاہ ڈالی اور وہ اتنااداس ہوگیا جیسے کسی انتہائی قریبی عزیز سے بچھڑ رہا ہو ۔

اب اس کے سامنے سڑک پر کچھ خاص نہیں تھا بلکہ وہی جاناپہچانا غیر دلچسپ منظر نامہ تھا۔ دائیں بائیں کچی سرسوں / رائی اور سیاہ گندم کے کھیت جن میں کوے پھدک رہے تھے ۔ اگر سامنےدیکھتا تو یا تو گرد یا پھر انسانی سروں کے پچھلے حصے نظر آتےاور اگر پیچھے دیکھتا تو وہی گرد اور چہرے ۔۔۔۔۔

سب سے آگے چار آدمی تلواروں کے ساتھ مارچ کر رہے تھے ۔یہ ہراول دستہ تھا ۔ ان کے پیچھے گلوکاروں کا غول اور ان کے پیچھےگھوڑوں پر سوار بگل بجانے والے تھے ۔ ہراول دستہ اور گلوکار کسی جنازے کے جلوس میں مشعل برداروں جیسے تھے ۔جو مناسب فاصلہ رکھنا بھول جاتے اور دور تک نکل جاتے ۔

ریابووچ پانچویں بیٹری کی پہلی توپ کے ساتھ تھا ۔ وہ اپنےسامنے چاروں دستوں ( بیٹریوں) کو متحرک دیکھ سکتا تھا ۔کسی بھی غیر فوجی کے لئے یہ لمبا تھکا دینے والا متحرک بریگیڈ پیچیدہ اور ناقابل فہم پہیلی تھی ۔ وہ سمجھنے سےقاصر ہوتا کہ ایک توپ کے ساتھ اتنے زیادہ لوگ کیوں ہیں ۔اوراسے کیوں اتنے زیادہ گھوڑے کھینچ رہے ہیں ۔عجیب گورکھ دھندہ محسوس ہوتا ۔لیکن ریابووچ کے لئے یہ سب قابل فہم اور غیر دلچسپ تھا ۔وہ ہمیشہ سے جانتا تھا کہ ہر بیٹریکے اگلے سرے پر ایک مضبوط بمبار ہوتا ہے اور اسے بمبار کیوں کہا جاتا تھا ۔اس بمبار کے بالکل پیچھے پہلے اوردرمیانی یونٹ کے گھڑسوار دیکھے جا سکتے تھے ۔ ریابووچ کویہ بھی معلوم تھا کہ داہنی طرف والے گھڑسوار ایک نام سےاور بائیں جانب والے دوسرے نام سے پکارے جاتے تھے ۔ یہ سب کچھ انتہائی غیر دلچسپ تھا ۔ ان گھڑ سواروں کے پیچھےگاڑی کھینچنے والے گھوڑے تھے ۔ان میں سے ایک پر ایک سوار تھا ۔جس کی کمر کل کی گرد سے اٹی تھی ۔اس کی ٹانگ پرایک بھدا اور مضحکہ خیز لکڑی کا ٹکڑا تھا ۔ ریابووچ اسلکڑی کے ٹکڑے سے واقف تھا اس لئے اسے وہ مضحکہ خیزنہیں لگتا تھا ۔ تمام سوار مشینی انداز میں اپنے کوڑے وقتا” فوقتا” ہوا میں لہراتے اور چلاتے ۔ توپ بھدی تھی ۔اس کے اگلےحصے پر جو کے تھیلے پڑے تھے جو کینوس سے ڈھکے ہوے تھے ۔اور پوری توپ پر کیتلیاں ، سپاہیوں کے سامان والے پشتی تھیلے لٹک رہے تھے اور وہ کوئی بے ضرر جانور دکھائی دےرہی تھی ۔ جسے کسی نامعلوم وجہ سے بہت سارے آدمیوں اورگھوڑوں نے گھیر رکھا تھا ۔اس کی محفوظ سمت میں چھ آدمی اپنے بازو ہلاتے ہوۓ مارچ کر رہے تھے۔ توپ کے پیچھے مذیدبمبار ، سوار ، بگھی گھوڑے اور پھر ایک اور توپ تھی ۔ اتنی ہی بھدی جتنی پہلی تھی ۔دوسری کے پیچھے تیسری پھرچوتھی ۔ چوتھی کے پاس ایک افسر اور اسی ترتیب سے بریگیڈ میں چھ بیٹریاں تھیں اور ہر بیٹری میں چار توپیں ۔جلوس نے آدھا میل طے کیا ؛یہ ویگنوں کی ایک قطار کے پاسرک گیا ،جہاں ایک بہت دلچسپ مخلوق —— ایک گدھا ، جسےکمپنی کمانڈر ترکی سے لایا تھا ۔ جو اپنے لمبے لمبے کانوں والاسر ، جھکاۓ متفکر چل رہا تھا ۔

ریابووچ نے لاتعلقی سے اپنے آگے سروں کے پیچھے اور اپنے پیچھےچہروں کو دیکھا ۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ نیم غنودگی میں ہوتالیکن اس وقت وہ اپنی نئی خوشگوار سوچوں میں محو تھا ۔ پہلے پہل جب بریگیڈ مارچ کے لئے روانہ ہونے لگا تھا تو اس نے اپنے آپ کوقائل کرنے کی کوشش کی کہ بوسے والا واقعہ پراسرار چھوٹی سےمہم کے طور پر دلچسپ ہو سکتا ہے ۔جب کہ حقیقت میں یہ بالکل معمولی ہے اور اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ،اس کےبارے میں کچھ کہنا بےوقوفانہ ہو گا ۔ لیکن اب اس نے عقلی دلیل کوخدا حافظ کہتے ہوۓ اپنے آپ کو خوابوں کے حوالے کر دیا تھا ۔ ایک وقت اس نے اپنے آپ کو وان رابیک کے ڈرائنگ روم میں ایک لڑکی کےساتھ تصور کیا ۔ جو جوان گل یاس جیسی خاتون اور سیاہ لباس والی خوبصورت دوشیزہ جیسی تھی ۔ پھر وہ اپنی آنکھیں بند کر تااور کسی اور با لکل انجان لڑکی کے ساتھ ہوتا جس کے نین نقش بہت مبہم ہوتے ۔وہ اپنے تصور میں اس سے گفتگو کرتا ،اسے پیارسے پچکارتا ،اس کے کندھوں پر جھکتا ،جنگ کی وجہ سے جدائی کاتصور کرتا ،پھر دوبارہ ملاقات، کھانا بیوی اور بچوں کے ساتھ ۔۔۔۔۔

“ بریک لگائیں ! “ جب بھی وہ اترائی پر پہنچتے تو حکم نامہ پکاراجاتا ۔

وہ بھی چلاتا ، “ بریک لگاؤ ! “ ساتھ ہی خوف ذدہ ہوتا کہ یہ چینخ وپکار اس کی محویت میں مخل ہو کر اسے واپس حقیقی دنیا میں لےآۓ گی ۔

جب وہ کسی جاگیر دار کی جاگیر کے پاس سے گزرے تو ریابووچ نے باڑ کے اوپر سے باغ میں دیکھا ۔ تو اس کی نظر ایک مسطر کیطرح سیدھے طویل راستے پر پڑی ۔ جو پیلی ریت سے بھرا تھا،کناروں پر سندر کے درخت سرحد بناۓ ہوۓ تھے ۔ایک خواب دیکھتےجوان کی طرح اس نے چھوٹے چھوٹے نسوانی پاؤں اس پیلی ریت پرتھرکتے تصور کئے۔ اور غیر متوقع طور پر اس کے تصور میں اس لڑکی کا واضح سراپا آ گیا ،جس نے اسے بوسہ دیا تھا ۔جس کی تصویر وہ کل رات کے کھانے سے قبل مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیاتھا ۔ یہ تصوراتی تصویر اس کے دماغ میں محفوظ ہو گئی اور پھرگم نہیں ہوئی ۔

دوپہر کے وقت پیچھے سے ویگنوں کی قطار کے قریب سے ایک چینخ سنائی دی۔

“ پرسکون ، پرسکون ! بائیں جانب ! ،افسران ! “

بریگیڈ کا جنرل ،گاڑی میں جسے سفید گھوڑوں کی جوڑی کھینچ رہی تھی گزرا ۔وہ دوسری بیٹری کے پاس رک گیا کچھ چلایا ،جوکسی کی سمجھ میں نہیں آیا ۔ بہت سارے افسران بشمول ریابووچ اس جگہ اکٹھے ہو گئے ۔

“ اچھا ، کیا کوئی بیمار ہے ؟ “ جنرل نے اپنی سرخ آنکھیں جھپکتےہوۓ پوچھا ۔

جواب ملنے پر جنرل جو چھوٹا اور دبلا پتلا تھا، ایک لمحے کے لئےسوچا ،اور ایک افسر کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا ،” تمہاری تیسری توپ کے ڈرائیوروں میں سے ایک نے اپنا لیگ گارڈ اتار کر توپ کےسامنے والے حصے پر لٹکایا ہوا ہے ۔ بدمعاش ۔اس کی سرزنش کرو۔”

جنرل نے ریابو وچ کو دیکھا اور بات جاری رکھی ۔ “ سامنے والی پٹی زیادہ لمبی محسوس ہو رہی ہے ۔”

اسی طرح کے مزید ناگوار تبصرے کرنے کے بعد اس نے لوبٹکوف کودیکھا اور مسکرایا ،اور کہا ، “ تم آج بہت اداس ہو ، کیا تمہیں مادام لوپیکوف یاد آ رہی ہے ۔ ؟ ہیں ۔۔۔نا ۔۔۔ ؟ صاحبو ، اسے مادام لوپیکوف کی یاد ستا رہی ہے ۔”

متذکرہ خاتوں توانا اور لمبی تھی اور اسے چالیس سال پورے کیےعرصہ گزر چکا تھا ۔ جنرل کا رجحان مضبوط اور ٹھوس خواتین کی طرف تھا اور اس میں عمر کی کوئی قید نہیں تھی ۔وہ یہی کچھ اپنے افسران کے بارے میں بھی قیاس کرتا تھا ۔ افسران تعظیما” مسکراۓ ۔ جنرل نے اپنے تئیں دلچسپ اور تیکھی بات کہنے پرمسرور ہو کر قہقہ لگایا۔اپنے کوچوان کی پیٹھ ٹھونکی اور سلیوٹ کیا ۔اور اس کی گاڑی روانہ ہو گئی۔

“ میں جو بھی خواب دیکھ رہا ہوں ۔وہ مجھے ناممکن اور غیرمعمولی دکھائی دیتے ہیں ،معمولی سی بات ہے “ ۔ریابووچ نے گرد کےبادلوں کو جو جنرل کی گاڑی کے پیچھے اٹھ رہے تھے دیکھتے ہوۓسوچا ۔ “ یہ عام سی بات ہے ۔ہر کوئی اس سے گزرتا ہے ۔جنرل بھیکسی وقت محبت میں گرفتار تھا ۔اب وہ شادی شدہ اور بال بچوںوالا ہے ۔ کیپٹن واہتر بھی شادی شدہ ہے اور اس سے محبت کیجاتی ہے اگرچہ اس کی گردن کی پشت بہت سرخ اور بھدی ہے اوراس کی کمر بھی نہیں ہے ۔ — سلمانوف بہت کھردرا اور تاتار ہےلیکن اس کا بھی عشق چلتا رہا اور پھر شادی ہو گئی ۔ میں بھی ان جیسا ہی ہوں ،میرا بھی جلد یا بدیر ان ہی کی طرح کا تجربہ ہوگا ۔

اس سوچ نے کہ وہ ایک عام شخص ہے اور اس کی زندگی بھی عام لوگوں جیسی ہے اسے خوش کر دیا اور اسے جرات عطا کی ۔ اس نےاس دوشیزہ کو اور اپنی خوشی کا تصور کیا اور اپنے تصورات کوبے لگام چھوڑ دیا ۔

جب بریگیڈ شام ہونے پر اپنے پڑاؤ کی جگہ پر پہنچا اور افسران اپنےخیموں میں سستا رہے تھے۔ ریابووچ ، مرزلیخوف اور لوبٹکوف ایک کھانے کے ڈبے کے گرد بیٹھے تھے ۔ مرزلیخوف سکون سے کھا رہاتھا ۔اور جان بوجھ کر کھانے کو زیادہ دیر تک چباتے ہوۓ اپنا رسالہ جسے اس نے اپنے گھٹنوں پر رکھا ہوا تھا ، بھی پڑھ رہا تھا ۔لوبٹکوف مسلسل باتیں کر رہا تھا اور بئیر کا گلاس بھی بھرتا جا رہا تھا ۔ ریابووچ جس کا دماغ سارا دن خوابوں میں مصروف رہنےکی وجہ سے الجھا ہوا تھا خاموشی سے پی رہا تھا ۔ تین گلاس پی لینے کے بعد اسے تھوڑا نشہ چڑھنے لگا تھا ۔وہ اپنے آپ کو کمزورپڑتا محسوس کرنے لگا اور اس کے اندر ناقابل مزاحمت خواہش پیداہوئی کہ وہ اپنے دوستوں کو اپنے نئے احساسات سے آگاہ کرے ۔

“ وان رابیک کے گھر میرے ساتھ بہت عجیب و غریب واقعہ پیش آیا ۔اس نے غیر متعلقہ اور تمسخر آمیز لہجہ اپناتے ہوۓ بات شروع کی ۔آپ کو معلوم ہے میں بلیئرڈ روم میں گیا تھا ۔اس نے بہت باریک تفصیلات کے ساتھ بوسے والا قصہ بیان کرنا شروع کیا اور ایک لمحےبعد خاموش ہو گیا ۔ اس لمحے میں وہ سب کچھ کہہ چکا تھا اور وہ حیران تھا کہ اسے سب کہہ دینے میں کتنا تھوڑا وقت لگا ۔ اس نےسوچا تھا کہ وہ اگلی صبح تک بوسے والی کہانی انہیں سناتا رہےگا ۔اس کی بات سن کر لوبٹکوف جو بہت بڑا جھوٹا شخص تھا ۔اسی وجہ سے کسی کی بات کا یقین نہیں کرتا تھا ،نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا اور ہنسنے لگا ۔ مرزلیاخوف نے بھنوؤں کو جھٹکادیا ، رسالے سے نگاہیں ہٹاۓ بغیر کہا ، “ یہ تو واقعی عجیب بات ہے۔۔۔۔۔۔ بغیر نام سے پکارے کسی کی گردن سے لپٹنا ۔وہ ضرور کوئی اعصابی خلل کی مریضہ ہو گی ۔ “

ریابووچ نے جواب دیا ، “ جی ہاں ، بالکل ضرور ایسا ہی ہوگا ۔ “

“ ایک دفعہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ،” لوبٹکوف نے خوفزدہ ہونےکا تاثر دیتے ہوۓ کہنا شروع کیا ۔ “ پچھلے سال میں کونوو جا رہاتھا ۔ میں نے درجہ دوئم کا ٹکٹ لیا تھا ۔ ٹرین بھری ہوئی تھی اورسونا بے حد مشکل تھا ۔ میں نے گارڈ کو آدھا روبل دیا تو وہ مجھےاور میرا سامان ایک دوسرے ڈبے میں لے گیا ۔ میں نے لیٹ کر اپنےآپ کو کپڑے سے لپیٹ لیا ۔اس وقت اندھیرا تھا ۔ اچانک کسی نےمیرے کندھے چھوۓ اور میرے چہرے پر اپنا سانس چھوڑا ۔ میں نےاپنے ہاتھ کو گھمایا تو وہ کسی کی کہنی سے ٹکرا گیا ۔میں نےآنکھیں کھولیں —— تصور کرو ۔۔۔۔ ایک عورت ۔ سیاہ آنکھیں ،سرخ ہونٹ ، پورے جوبن پر آئی سامن مچھلی جیسی ۔جذبات سےپھڑکتے نتھنے ، بھاری بھرکم چھاتیاں ۔

“ معاف کرنا “ مرزلیخوف نے اسے بڑے سکون سے روکا ،” سینے کی حد تک میں سمجھ سکتا ہوں لیکن تم نے تاریکی میں ہونٹ کیسےدیکھ لیے ۔ “

لوبٹکوف اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگا اورمرزلیخوف کے غیر تخیلاتی پن پر ہنسنے لگا اس صورتحال سےریابووچ دُکھی ہو گیا ۔ کھانے سے اٹھ کر بستر میں چلا گیا اورآئندہ کسی کو بھی رازدار نہ بنانے کا عہد کر لیا ۔

کیمپ کی زندگی شروع ہو گئی ۔دن ایک جیسی یکسانیت سے گزرنےلگے ۔ان تمام دنوں میں ریابووچ کے احساسات ، سوچیں اور رویہ ایسا تھا جیسے وہ محبت میں گرفتار ہو ۔ ہر صبح جب اس کا آردلی اسے نہانے کے لیے پانی دیتا اور وہ جب اپنے سر پر پانی ڈالتا تووہ سوچتا کہ اس کی زندگی میں بہت کچھ پرجوش اور خوش کن ہے .

شام کو جب اس کے ساتھی عورت اور محبت پر گفتگو کرتے تو وہ ان کے قریب تر ہو کر ان کی باتیں سنتا ۔اور جب کسی ایسی لڑائی کازکر ہوتا جس میں وہ شامل رہا ہوتا تو وہ ایک سپاہی کے تاثرات اپنالیتا ۔ اور جن شاموں میں افسران کسی شکاری کے ساتھ موج مستی کرتے — لوبٹکوف ان کا سرغنہ ہوتا اور وہ مضافات میں ڈان جوآن ( عورتوں سے متعلق ) قسم کی تفریح کرتے تو ریابووچ ان تفریحات میںشامل ہوتا ۔وہ ہمیشہ اداس رہتا ، مجرم محسوس کرتا اور اندر سےمعافی کا طلبگار رہتا ۔فرصت کے اوقات میں یا جن راتوں میں نیند نہآتی ، جب وہ اپنے بچپن کو اپنے والدین کو، ہر چیز جو اسے عزیزتھی، یاد کرتا ،بے شک وہ ہمیشہ بلا ناغہ میسٹیٹچکی ،عجیب گھوڑا ، وان رابیک اس کی بیوی جس کی شباہت ملکہ یوجینی سے تھی ،تاریک کمرہ اور دروازے کی جھری سے آتی روشنی ۔۔۔۔۔۔ کو یاد کرتا ۔

اکتیس اگست کو وہ کیمپ سے واپس آیا ۔پورا بریگیڈ نہیں بلکہ صرف دو بیٹریاں / دستے واپس آۓ ۔ وہ سارے رستے پرجوش رہا اور خواب دیکھتا رہا ۔گویا وہ اپنے آبائی وطن واپس جا رہا ہو ۔اسے اس عجیب گھر ، گرجا ، وان رابیک کے منافق خاندان ، تارک کمرہ کو دوبارہ دیکھنے کی شدید خواہش تھی ۔ “ اندر کی آواز “ ، جو عموما” عاشقوں کو دھوکہ دیتی ہے نے کسی وجہ سے اس سے سرگوشی کی کہ وہ ضرور اسے دیکھ لے گا ۔وہ اپنے اندر اٹھنے والے سوالات، جیسے کہ وہ اس سے کیسے ملے گا ؟ اس سے کیا بات کرے گا ؟ کیاوہ بوسے کو بھول چکی ہو گی ؟ سے اذیت میں مبتلا تھا ۔ اس نےسوچا اگر بد سے بدترین بھی ہوا ،وہ اس سے نہ مل سکا تب بھی اس تاریک کمرے میں جا کر وہ سب یاد کرنا بھی اس کے لیے باعث خوشی ہو گا ۔

شام کے قریب قریب گرجے اور سفید غلہ گودام افق پر نمودار ہوناشروع ہو گئے ۔ ریابووچ کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی ۔ اسے اپنےساتھ والے گھڑ سوار کی ، جو اس سے باتیں کر رہا تھا ،باتیںسنائی دینا بند ہو گئیں ۔ وہ سب کچھ بھول گیا ۔بےچینی سے دورفاصلے پر چمکتے دریا ،کو گھر کی چھت کو، کبوتر خانہ کو جس کےگرد کبوتر غروب ہوتے سورج کی روشنی میں چکر لگا رہے تھے ،کودیکھنے لگا ۔

جب وہ گرجا گھر کے قریب پہنچ کر اپنی غیر فوجی رہائش گاہ کاحکم نامہ سن رہے تھے تو ریابووچ ہر لمحے منتظر تھا کہ ابھی چرچ کی سمت سے گھڑ سوار چاۓ کا دعوت نامہ لئے ظاہر ہو گا ۔لیکن — حکم نامہ پڑھ کر سنا دیا گیا ،افسران کو گاؤں اپنی عارضی قیام گاہ پر جانے کی بے تابی تھی ،لیکن گھڑسوار نمودار نہیں ہوا ۔

“ وان رابیک فورا” کسانوں سے ہماری آمد کا سن لے گا اور ہمیں بلابھیجے گا” ۔ اپنی جھونپڑی میں جاتے ہوۓ ریابووچ یہی سو رہا تھا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ کیوں ایک افسر موم بتی جلا رہاتھا اور اردلی کیوں جلدی جلدی سماوار تیار کر رہے تھے ۔

ایک تکلیف دہ بے چینی نے اسے گھیر لیا تھا ۔پہلے تو وہ لیٹ گیالیکن پھر اٹھ کھڑا ہوا ۔اور کھڑکی سے جھانک کر دیکھنے لگا کہ آیاپیغام بر آ رہا ہے ۔ لیکن اس کا کوئی نام و نشان نہیں تھا ۔

وہ پھر لیٹ گیا ،لیکن آدھ گھنٹے بعد وہ پھر اٹھ بیٹھا ۔اپنی بے چینی کو برداشت نہ کرتے ہونے سڑک پر نکل گیا ۔اور چرچ کی جانب چل پڑا ۔چرچ کے قریب چوک میں اندھیرا اور ویرانی تھی ۔ جہاں سےسڑک ڈھلوان کی شکل میں نیچے جاتی تھی وہاں تین سپاہی خاموش کھڑے تھے ۔ ریابووچ کو دیکھ کر انہوں نے سیلوٹ کیا اس نےسیلیوٹ کا جواب دیا اور نیچے کی طرف جانے پہچانے رستے پر چل پڑا ۔دریا کے پاس آسمان پر ارغوانی سرخی کا سیلاب تھا ۔چاندطلوع ہو رہا تھا ۔دو کسان عورتیں اونچی آواز میں باتیں کرتے ہوۓکچن گارڈن سے گوبھی اکٹھی کر رہی تھیں ۔کچن گارڈن کے پیچھےکچھ تاریک جھونپڑیاں تھیں ۔دریا کے نزدیک والے کنارے پر ہر چیزویسی ہی تھی جیسی مئی میں تھی ۔ رستہ ، جھاڑیاں، بید مجنوںکی شاخیں پانی پر جھکی ہوئی ۔لیکن اس بہادر بلبل کی آواز نہیںتھی ۔ اور پاپلر اور تازہ گھاس کی خوشبو بھی نہیں تھی ۔

باغ میں پہنچ کر ریابووچ نے گیٹ سے اندر جھانکا ۔باغ تاریک اورساکت تھا ۔ اسے ماسواۓسندر کے درختوں کے سفید تنوں اورتھوڑے سے گزرگاہ کے حصے کے کچھ دکھائی نہیں دیا ۔ باقی سب کچھ سیاہی میں مدغم ہو چکا تھا ۔ ریابووچ نے کان لگا کرسننے کی کوشش کی ۔لیکن پندرہ منٹ انتظار کرنے کے باوجود اسےنہ تو کوئی آواز سنائی دی اور نہ ہی کوئی روشنی کی جھلک دکھائی دی ۔ وہ بھاری قدموں سے واپس مڑ گیا

۔وہ نیچے دریا کی طرف چل پڑا ۔ جنرل کے غسل گھر اور غسل کی چادریں جو چھوٹے پل کی تاروں پر لٹکی تھیں اس کے سامنے سفیددکھائی دے رہی تھیں ۔وہ پل کے پاس چلا گیا ،کچھ دیر کھڑا رہا اورپھر بلا ضرورت چادروں کو چھوا ۔وہ کھردری اور ٹھنڈی تھیں ۔اسنے نیچے پانی کو دیکھا دریا تیزی سے اور ہلکی سی سنائی دینےوالی غراہٹ کے ساتھ بہہ رہا تھا ۔بائیں کنارے پر سرخ چاند کا عکس پڑ رہا تھا ۔چھوٹی چھوٹی لہریں عکس کے اوپر سے گزر تے ہوۓاسے کبھی پھیلا دیتیں کبھی اس کے ٹکڑے کر دیتیں اور اسے ساتھ لے جانے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتیں ۔

“ کتنا بےوقوفانہ ، بالکل بےوقوفانہ ، “ ریابووچ نے بہتے پانی کودیکھتے ہوۓ سوچا ۔ “ یہ سب کم عقلی ہے! ۔”

اب جب اسے کوئی امید نہیں رہی ، بوسے کا واقعہ ،اس کے بےصبری ،اس کی لا یعنی امیدیں اور مایوسی سب کھل کر سامنے آگئیں ۔اسے اب جنرل کے پیغام رساں کا نہ ملنا بالکل عجیب نہیں لگا۔اور یہ کہ وہ اس لڑکی سے کبھی نہیں مل سکے گا جس نےحادثاتی طور پر کسی اور کے دھوکے میں اسے بوسہ دیا ۔بلکہ اسکے برخلاف اگر وہ اسے دیکھ سکتا یا مل سکتا تو یہ عجیب ہوتا ۔ُ

پانی بہہ رہا تھا ، اسے نہیں معلوم تھا کدھر اور کیوں ، بالکل مئی کی طرح ۔مئی میں یہ بڑے دریا میں مل گیا تھا ۔بڑے دریا سے سمندرمیں ۔پھر یہ بخارات بن کر بارش میں تبدیل ہو گیا ۔اور شاید وہی پانی اب ریابووچ کی آنکھوں کے سامنے بہہ رہا تھا ۔کس لیے ؟ اورکیوں ؟

ساری دنیا، ساری زندگی ،ریابووچ کو کم عقل، ناقابل فہم اور بےمقصد مذاق نظر آنے لگی ۔ اپنی نگاہیں پانی سے ہٹا کر آسمان کی طرف دیکھا اور یاد کیا ،کیسے قسمت ایک نامعلوم دوشیزہ کے بھیس میں اس پر مہربان ہوئی ۔اس نے اپنے موسم گرما کے خواب اورخوش فہمیاں یاد کیں ،جب کہ اس کی زندگی نے اسے غیر معمولی طور پر کمزور ، غربت زدہ اور بے رنگ بنا دیا ۔ ۔۔۔۔۔

جب وہ واپس اپنی قیام گاہ پہنچا تو اس کے ساتھی وہاں موجودنہیں تھے ۔ اردلی نے اسے بتایا کہ وہ سب جنرل وان رابیک کی طرف گئے ہیں جس نے ایک گھڑسوار کو بھیج کر انہیں مدعو کیا تھا ۔

ایک لمحے کے لئے اس کے دل میں خوشی کی کونپل پھوٹی لیکن اس نے اسے اسی وقت اکھاڑ کر پھینک دیا ۔بستر میں گھس گیا ۔اپنی قسمت پر غصہ کرتے ہوۓ اس سے بدلہ لینے کے لئے جنرل کے گھرنہیں گیا ۔

Myestetchki /

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024