افسانہ - تاج محل
افسانہ - تاج محل
Feb 28, 2024
دیدبان شمارہ ۔ ۲۰ اور ۲۱
افسانہ - تاج محل
مصنفہ:انجم قدوائی
رنگ و نور کا ایک سیلاب تھا۔ہر طرف رنگین آنچل سر سرا رہے تھے،قہقہے آبشار کی صورت بہہ رہے تھے۔ہوسٹل کے ہرے بھرے لان میں فنکشن کا انتظام کیا گیا تھا۔ہر طرف زندگی تھی ہر جانب ایک جوش ایک ولولہ تھا اور ایسے میں جب وہ ملے تو تاج محل خود بخودبننے لگا۔وہ نازک جزبوں کا،کواارے سپنوں کا ایک نرم احساس کا تاج محل ہی تو تھا جو دعا اور شاہ جہاں بنا رہے تھے۔
گویا دنیا ان کے کہے پر چلنے لگی تھی ہر بات میں کتنی زندگی تھی اور زندگی کتنی بھر پور تھی۔سب کچھ تو تھا اسکے پاس ہاں جب کسی کے پاس ایک صرف ایک چاہنے والا ہو جو ہر لمحہ ہر سانس میں محبّتوں کا نذرانہ پیش کرے تو پھر کسی چیز کی کمی کہاں رہتی ہے۔
جذبے انمول ہوجاتے ہیں لمحے سر سراتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور وقت کا تو احساس ہی نہیں رہتا کچھ یاد نہیں رہتا کچھ بھی نہیں۔
اور رہے بھی کیسے جب کوئی ایسا کہے۔۔
''تم جس طرف دیکھ لو راہیں جی اٹھیں۔۔۔تم ہو تو سب کچھ ہے۔۔تم میری تکمیل ہو۔۔میں اب تک کیسے جی رہا تھا مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ دنیا اسقدر حسین ہے۔
تمہارے ساتھ بتائے ہوئے پل تو میری زندگی کا حاصل ہیں۔
تم ہو تو زندگی ہے خواب ہیں اور خواب کی تعبیریں ہیں اور میں اپنے اس خواب کی تعبیر ضرور حاصل کرونگا خواہ مجھے اسکے لئے کچھ بھی کر نا پڑے۔ ہاں کچھ بھی۔میں جان سے گزر جا¶نگا تمہیں پانے کے لئے۔میرا کوئی نہیں بس تم ہو صرف تم۔۔مجھے کبھی اکیلا نہ کر دینا۔۔۔بکھر جا¶نگا میں۔''
کون ایسا بے حس ہوگا جو یہ سب سن کر پگھل نہ جائے۔شاید بے جان سنگِ مر مر کے سامنے دو زانوں ہوکر کوئی روز اس طرح کے جملے دہرائے تو وہ بھی پگھل کر آنسو بن جائے۔وہ ضد وہ محبّت یا جو کچھ بھی تھی جیت گئی کہ اسے جیتنا ہی تھا۔ جب دو دل ایک ساتھ دھڑکنے لگیں تو اور کوئی آواز سنائی کہاں دیتی ہے؟
اور جب یہ بات دعا کے گھر تک پہونچی تو ایک طوفان سا آگیا۔
'' ''مجھے یقین ہے کہ یہ بات غلط ہوگی، بہن کا اعتماد بول رہا تھا۔
'' ''میں اسے جان سے۔۔۔۔۔بھائی کا جلال دہاڑ رہا تھا۔
''مگر مجھے وہ پسند ہے،میں اس کے بنا نہیں جی سکوں گی۔۔''وہ باپ کے زانوں پر سر رکھّے سسک رہی تھی۔
وہ خاموش افسردہ اس کے آنسو¶ں بھرے چہرے کو تک رہے تھے گویا سارے آنسو اپنے دل پر لے رہے ہوں۔
'' ''آخر تم وہاں پڑھنے گئی تھیں یا یہ سب کرنے ہم زندہ ہیں نا تمہارے لئے سوچنے کو بڑی بہن نے ایک تھپّڑ رسید کیا۔
مگر باپ نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔
'' ''نہ مارو۔۔بن ماں کی بچّی ہے۔انھوں نے اپنے آنسوں کرتے کی آستین سے صاف کئے۔
''فکر مت کرو انھوں نے دعا کا سر سینے سے لگا یا۔۔۔بس مجھے کچھ وقت دے دو۔۔''
مگر اسے صبر کہاں تھا۔
ان ساری مشکلوں کو طے کرتی ہوئی،اپنوں کے دلوں کو روندتی ہوئی آگے بڑھ گئی دعا۔
نئی زندگی تھی۔۔۔نئے نئے رنگ تھے وہاں پرانے آنسو یاد بھی کہاں آتے کسی کے،خواہ وہ بہن کے ہوں بھائی کے یا اپنے شفیق باپ کے۔شادی ہوگئی تاج محل کی بنیاد رکھ دی گئی۔
مگر ایک درار تھی، ایک گرہ تھی یا شاید احساسِ جرم۔۔خوشیان کترا نے لگی تھیں۔
بے فکری کی زندگی ختم ہوچکی تھی۔بہت کچھ بر داشت کر نا پڑ رہا تھا۔
اور پھر قدرت کا ایک تماچہ ایسا تھا جس نے اسے بے حال کردیا۔
'' ''میں نے تو اسے گود میں بھی نہیں لیا تھا۔۔۔وہ چیخ چیخ کر رورہی تھی۔
مگر وہاں کوئی نہیں تھا جو اس کے آنسو ¶ں کو اپنی پوروں میں سمیٹ لیتا وہ آنسو جو دعا اپنی پہلی اولاد کے لئے بہا رہی تھی وہ اس کا اپنا دامن،اپنا گریبان بھگو رہے تھے ما متا کے درد نے اسے بے حال کردیا تھا۔
یہ اس کی پہلی دعا تھی جو ٹوٹ کر بکھر رہی تھی۔ننھا ساوجود جھولے میں ہنستا کھیلتا خاموش ہوگیا۔اور وہ کچھ نہ کر سکی۔۔
ایک طوفان تھا جس نے تاج محل کو دھندلا کر دیا تھا وہ تکلیف جس سے دعا گزری کوئی تصورّ نہیں کر سکتا تھا۔۔اس کا ساتھی بھی نہیں۔
اور تب پتہ چلا کہ اولاد کا درد کیسا ہوتا ہے
۔اور تب پتہ چلا کہ باپ بھائیوں کا سایہ کیا ہوتا ہے
۔۔اور تب سمجھ میں آیا کہ اکیلا پن کیا ہوتا ہے،آنسو کیا ہوتے ہیں، چیخیں کیا ہوتی ہیں۔
دو برس کے بعد خالی گود کے ساتھ اپنے گھر کے در ودیوار دیکھے۔
'' ''آگیئں منھ کالا کر کے۔۔ منھ پھیر لیا گیا۔
'' ''وہ شادی کر کے گئی تھی،کوئی ہمدرد بھی موجود تھا۔
''ہنھ۔۔ شادی۔۔۔۔۔گھر والوں کی مرضی کے خلاف۔۔''
'' ''باپ تو راضی تھے۔۔ہمدرد کا دل دکھا شاید۔
''راضی نہیں مجبور تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''
طنز کے سلسلے قائم رہے وہ دیواروں سے لپٹ کر روئی۔
دوستوں نے منھ پھیر لیا عزیزوں نے اپنی محفلوں میں بلا نا چھوڑ دیا۔اس کے دل میں کانٹے چبھتے۔۔۔مگر ایک چپ تھی بس ایک چپ۔
دبلا بدن کانٹے جیسا ہو گیا تھا۔پیلا چہرہ، خالی آنکھیں۔۔لوگ اس پر ترس کھانے لگے تھے
۔کبھی کبھی تو اس کا شاہ جہاں بھی پوچھ بیٹھتا۔۔
''تمہاری آنکھوں کی چمک کہاں کھو گئی ہے دعا؟''
وقت کے بہت سارے ورق الٹ گئے۔اللہ نے اپنی رحمت سے نواز دیا تھا۔دعا کی گود بھر گئی تھی۔۔
مگر تبھی دوسرا تماچہ اس کی زندگی کو روندتا چلا گیا۔چاہنے والے ابّا کی میّت پر بھی نہ جاسکی۔۔ہزاروں میل کی دوری۔۔پر دیس میں اسنے دکھ اکیلے ہی منا یا جہاں نہ آسمان اپنا تھا نہ زمین۔سمندر کا نمکین پانی اس کے آنسوں میں ملکر بہتا رہا۔
تاج محل پر دھول تو بہت پہلے پڑنے لگی تھی مگر اب بھی کبھی دھندلا دھندلا نظر آجاتا تھا۔
اچھّی بیوی بننے کی کوشش میں اپنے آپ کو مٹا دیا اس نے۔ہر حال میں خوش رہ کر دکھا یا اس نے،گھر کو سجا یا سنوارا۔اس کے دوستوں کی دعوتیں کرتی گرمی میں بے حال ہوکر بھی اپنے آپ کو سجا سنوار کر پیش کرتی۔فر مائیشوں کے کھانے پکاتی کبھی تھکن کی شکایت بھی لبوں پر نہ آنے دیتی۔
اب اور کیا چاہیئے تھا زندگی سے۔مگر ابھی قدرت کے پاس کچھ تیر باقی تھے۔
پر دیس تو سبھی جاتے ہیں مگر یوں جاکر وہاں کے باسی ہوجانا؟ جبکہ بچّے یہاں منتظر۔۔۔بیوی یہاں آس میں اور یہ میلوں کی دوری دلوں کی دوری بن رہی تھی۔اس زندگی کو جسے بڑے شوق سے جینے کے لیئے گھر والوں سے چھین کر لائے تھے۔۔وہ یہاں مہینوں خط اور فون کے انتظار میں بے چین رہتی۔
سکوت ِ فکر میں ایک اور سال بیت گیا۔دو سال۔۔۔تین سال۔۔چار۔۔مگر دعا کا اعتبار اب بھی قائم
ادھر ادھُر کی گفتگو سنائی دیتی مگر دعا کی سما عت میں تو اس کی شہد جیسی باتیں گھلی تھیں۔عرصہ ریت کی طرح اس کےاوپر سے گزر گیا۔
وہ ایک قیامت کی شام تھی۔جب اسنے بے قرار ہوکر فون کیا۔
''بہت یاد آرہی ہے تمہاری۔۔بڑا عجیب خواب دیکھا ہے۔''۔ وہ بے چینی سے بیان کر رہی تھی اور ادھر ہاں ہوں سے پتہ چل رہا تھا کہ فون ناگوار ہو رہا ہے۔
''کچھ بولو۔۔۔''
کیا بولوں؟ تمہارے خوابوں سے میرا کیا تعلق۔۔۔۔؟''وہ ششدر رہ گئی۔
''ارے کیا ہے یار جلدی بولو۔۔یہاں میٹنگ چل رہی ہے۔۔'' پیچھے سے دبی دبی ہنسی سنائی دی۔
''گیارہ بجے رات کو میٹنگ؟؟ ''تجسس تو فطری جذبہ ہے دل کی بات ٹوٹ کر ہونٹوں پہ آئی۔
''ایک خوبصورت لڑکی کے ساتھ بیٹھا ہو ں مصروف ہوں۔۔اب بولو۔''
وہ دکھ اور بے یقینی سے کانپنے لگی۔۔تبھی ادھر کسی نے اٹھلا کر کہا۔
''بس بہت ہوگیا اب بند کرو فون۔''
وہاں نئی ممتاز محل ہنس رہی تھی۔۔ایک نئی تعمیر جاری تھی۔
اڑا ڑا ڑا دھڑام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پرا نا مکان گر تا ہے نیا مکان اٹھتا ہے۔۔بڑھیا اپنے ارتن برتن اٹھا¶۔۔۔۔تاج ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہا تھا وہ ملبے میں دبی جارہی تھی جیسے کوئی تاج محل کے پتھّروں سے سنگسار کر رہا ہو اسے۔
----------------------
دیدبان شمارہ ۔ ۲۰ اور ۲۱
افسانہ - تاج محل
مصنفہ:انجم قدوائی
رنگ و نور کا ایک سیلاب تھا۔ہر طرف رنگین آنچل سر سرا رہے تھے،قہقہے آبشار کی صورت بہہ رہے تھے۔ہوسٹل کے ہرے بھرے لان میں فنکشن کا انتظام کیا گیا تھا۔ہر طرف زندگی تھی ہر جانب ایک جوش ایک ولولہ تھا اور ایسے میں جب وہ ملے تو تاج محل خود بخودبننے لگا۔وہ نازک جزبوں کا،کواارے سپنوں کا ایک نرم احساس کا تاج محل ہی تو تھا جو دعا اور شاہ جہاں بنا رہے تھے۔
گویا دنیا ان کے کہے پر چلنے لگی تھی ہر بات میں کتنی زندگی تھی اور زندگی کتنی بھر پور تھی۔سب کچھ تو تھا اسکے پاس ہاں جب کسی کے پاس ایک صرف ایک چاہنے والا ہو جو ہر لمحہ ہر سانس میں محبّتوں کا نذرانہ پیش کرے تو پھر کسی چیز کی کمی کہاں رہتی ہے۔
جذبے انمول ہوجاتے ہیں لمحے سر سراتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور وقت کا تو احساس ہی نہیں رہتا کچھ یاد نہیں رہتا کچھ بھی نہیں۔
اور رہے بھی کیسے جب کوئی ایسا کہے۔۔
''تم جس طرف دیکھ لو راہیں جی اٹھیں۔۔۔تم ہو تو سب کچھ ہے۔۔تم میری تکمیل ہو۔۔میں اب تک کیسے جی رہا تھا مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ دنیا اسقدر حسین ہے۔
تمہارے ساتھ بتائے ہوئے پل تو میری زندگی کا حاصل ہیں۔
تم ہو تو زندگی ہے خواب ہیں اور خواب کی تعبیریں ہیں اور میں اپنے اس خواب کی تعبیر ضرور حاصل کرونگا خواہ مجھے اسکے لئے کچھ بھی کر نا پڑے۔ ہاں کچھ بھی۔میں جان سے گزر جا¶نگا تمہیں پانے کے لئے۔میرا کوئی نہیں بس تم ہو صرف تم۔۔مجھے کبھی اکیلا نہ کر دینا۔۔۔بکھر جا¶نگا میں۔''
کون ایسا بے حس ہوگا جو یہ سب سن کر پگھل نہ جائے۔شاید بے جان سنگِ مر مر کے سامنے دو زانوں ہوکر کوئی روز اس طرح کے جملے دہرائے تو وہ بھی پگھل کر آنسو بن جائے۔وہ ضد وہ محبّت یا جو کچھ بھی تھی جیت گئی کہ اسے جیتنا ہی تھا۔ جب دو دل ایک ساتھ دھڑکنے لگیں تو اور کوئی آواز سنائی کہاں دیتی ہے؟
اور جب یہ بات دعا کے گھر تک پہونچی تو ایک طوفان سا آگیا۔
'' ''مجھے یقین ہے کہ یہ بات غلط ہوگی، بہن کا اعتماد بول رہا تھا۔
'' ''میں اسے جان سے۔۔۔۔۔بھائی کا جلال دہاڑ رہا تھا۔
''مگر مجھے وہ پسند ہے،میں اس کے بنا نہیں جی سکوں گی۔۔''وہ باپ کے زانوں پر سر رکھّے سسک رہی تھی۔
وہ خاموش افسردہ اس کے آنسو¶ں بھرے چہرے کو تک رہے تھے گویا سارے آنسو اپنے دل پر لے رہے ہوں۔
'' ''آخر تم وہاں پڑھنے گئی تھیں یا یہ سب کرنے ہم زندہ ہیں نا تمہارے لئے سوچنے کو بڑی بہن نے ایک تھپّڑ رسید کیا۔
مگر باپ نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔
'' ''نہ مارو۔۔بن ماں کی بچّی ہے۔انھوں نے اپنے آنسوں کرتے کی آستین سے صاف کئے۔
''فکر مت کرو انھوں نے دعا کا سر سینے سے لگا یا۔۔۔بس مجھے کچھ وقت دے دو۔۔''
مگر اسے صبر کہاں تھا۔
ان ساری مشکلوں کو طے کرتی ہوئی،اپنوں کے دلوں کو روندتی ہوئی آگے بڑھ گئی دعا۔
نئی زندگی تھی۔۔۔نئے نئے رنگ تھے وہاں پرانے آنسو یاد بھی کہاں آتے کسی کے،خواہ وہ بہن کے ہوں بھائی کے یا اپنے شفیق باپ کے۔شادی ہوگئی تاج محل کی بنیاد رکھ دی گئی۔
مگر ایک درار تھی، ایک گرہ تھی یا شاید احساسِ جرم۔۔خوشیان کترا نے لگی تھیں۔
بے فکری کی زندگی ختم ہوچکی تھی۔بہت کچھ بر داشت کر نا پڑ رہا تھا۔
اور پھر قدرت کا ایک تماچہ ایسا تھا جس نے اسے بے حال کردیا۔
'' ''میں نے تو اسے گود میں بھی نہیں لیا تھا۔۔۔وہ چیخ چیخ کر رورہی تھی۔
مگر وہاں کوئی نہیں تھا جو اس کے آنسو ¶ں کو اپنی پوروں میں سمیٹ لیتا وہ آنسو جو دعا اپنی پہلی اولاد کے لئے بہا رہی تھی وہ اس کا اپنا دامن،اپنا گریبان بھگو رہے تھے ما متا کے درد نے اسے بے حال کردیا تھا۔
یہ اس کی پہلی دعا تھی جو ٹوٹ کر بکھر رہی تھی۔ننھا ساوجود جھولے میں ہنستا کھیلتا خاموش ہوگیا۔اور وہ کچھ نہ کر سکی۔۔
ایک طوفان تھا جس نے تاج محل کو دھندلا کر دیا تھا وہ تکلیف جس سے دعا گزری کوئی تصورّ نہیں کر سکتا تھا۔۔اس کا ساتھی بھی نہیں۔
اور تب پتہ چلا کہ اولاد کا درد کیسا ہوتا ہے
۔اور تب پتہ چلا کہ باپ بھائیوں کا سایہ کیا ہوتا ہے
۔۔اور تب سمجھ میں آیا کہ اکیلا پن کیا ہوتا ہے،آنسو کیا ہوتے ہیں، چیخیں کیا ہوتی ہیں۔
دو برس کے بعد خالی گود کے ساتھ اپنے گھر کے در ودیوار دیکھے۔
'' ''آگیئں منھ کالا کر کے۔۔ منھ پھیر لیا گیا۔
'' ''وہ شادی کر کے گئی تھی،کوئی ہمدرد بھی موجود تھا۔
''ہنھ۔۔ شادی۔۔۔۔۔گھر والوں کی مرضی کے خلاف۔۔''
'' ''باپ تو راضی تھے۔۔ہمدرد کا دل دکھا شاید۔
''راضی نہیں مجبور تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''
طنز کے سلسلے قائم رہے وہ دیواروں سے لپٹ کر روئی۔
دوستوں نے منھ پھیر لیا عزیزوں نے اپنی محفلوں میں بلا نا چھوڑ دیا۔اس کے دل میں کانٹے چبھتے۔۔۔مگر ایک چپ تھی بس ایک چپ۔
دبلا بدن کانٹے جیسا ہو گیا تھا۔پیلا چہرہ، خالی آنکھیں۔۔لوگ اس پر ترس کھانے لگے تھے
۔کبھی کبھی تو اس کا شاہ جہاں بھی پوچھ بیٹھتا۔۔
''تمہاری آنکھوں کی چمک کہاں کھو گئی ہے دعا؟''
وقت کے بہت سارے ورق الٹ گئے۔اللہ نے اپنی رحمت سے نواز دیا تھا۔دعا کی گود بھر گئی تھی۔۔
مگر تبھی دوسرا تماچہ اس کی زندگی کو روندتا چلا گیا۔چاہنے والے ابّا کی میّت پر بھی نہ جاسکی۔۔ہزاروں میل کی دوری۔۔پر دیس میں اسنے دکھ اکیلے ہی منا یا جہاں نہ آسمان اپنا تھا نہ زمین۔سمندر کا نمکین پانی اس کے آنسوں میں ملکر بہتا رہا۔
تاج محل پر دھول تو بہت پہلے پڑنے لگی تھی مگر اب بھی کبھی دھندلا دھندلا نظر آجاتا تھا۔
اچھّی بیوی بننے کی کوشش میں اپنے آپ کو مٹا دیا اس نے۔ہر حال میں خوش رہ کر دکھا یا اس نے،گھر کو سجا یا سنوارا۔اس کے دوستوں کی دعوتیں کرتی گرمی میں بے حال ہوکر بھی اپنے آپ کو سجا سنوار کر پیش کرتی۔فر مائیشوں کے کھانے پکاتی کبھی تھکن کی شکایت بھی لبوں پر نہ آنے دیتی۔
اب اور کیا چاہیئے تھا زندگی سے۔مگر ابھی قدرت کے پاس کچھ تیر باقی تھے۔
پر دیس تو سبھی جاتے ہیں مگر یوں جاکر وہاں کے باسی ہوجانا؟ جبکہ بچّے یہاں منتظر۔۔۔بیوی یہاں آس میں اور یہ میلوں کی دوری دلوں کی دوری بن رہی تھی۔اس زندگی کو جسے بڑے شوق سے جینے کے لیئے گھر والوں سے چھین کر لائے تھے۔۔وہ یہاں مہینوں خط اور فون کے انتظار میں بے چین رہتی۔
سکوت ِ فکر میں ایک اور سال بیت گیا۔دو سال۔۔۔تین سال۔۔چار۔۔مگر دعا کا اعتبار اب بھی قائم
ادھر ادھُر کی گفتگو سنائی دیتی مگر دعا کی سما عت میں تو اس کی شہد جیسی باتیں گھلی تھیں۔عرصہ ریت کی طرح اس کےاوپر سے گزر گیا۔
وہ ایک قیامت کی شام تھی۔جب اسنے بے قرار ہوکر فون کیا۔
''بہت یاد آرہی ہے تمہاری۔۔بڑا عجیب خواب دیکھا ہے۔''۔ وہ بے چینی سے بیان کر رہی تھی اور ادھر ہاں ہوں سے پتہ چل رہا تھا کہ فون ناگوار ہو رہا ہے۔
''کچھ بولو۔۔۔''
کیا بولوں؟ تمہارے خوابوں سے میرا کیا تعلق۔۔۔۔؟''وہ ششدر رہ گئی۔
''ارے کیا ہے یار جلدی بولو۔۔یہاں میٹنگ چل رہی ہے۔۔'' پیچھے سے دبی دبی ہنسی سنائی دی۔
''گیارہ بجے رات کو میٹنگ؟؟ ''تجسس تو فطری جذبہ ہے دل کی بات ٹوٹ کر ہونٹوں پہ آئی۔
''ایک خوبصورت لڑکی کے ساتھ بیٹھا ہو ں مصروف ہوں۔۔اب بولو۔''
وہ دکھ اور بے یقینی سے کانپنے لگی۔۔تبھی ادھر کسی نے اٹھلا کر کہا۔
''بس بہت ہوگیا اب بند کرو فون۔''
وہاں نئی ممتاز محل ہنس رہی تھی۔۔ایک نئی تعمیر جاری تھی۔
اڑا ڑا ڑا دھڑام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پرا نا مکان گر تا ہے نیا مکان اٹھتا ہے۔۔بڑھیا اپنے ارتن برتن اٹھا¶۔۔۔۔تاج ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہا تھا وہ ملبے میں دبی جارہی تھی جیسے کوئی تاج محل کے پتھّروں سے سنگسار کر رہا ہو اسے۔
----------------------