فرح خان کی غزلیں
فرح خان کی غزلیں
Jan 12, 2019
فرح خان کی تین غزلیں
دیدبان شمارہ۔۹
غزل ١
فصیلِ جان پہ سائے ہیں زرد بیلوں کے
یہ کیسے ابر سے چھائے ہیں زرد بیلوں کے
تمہاری آنکھوں پہ خوشبو اتر چکی لیکن
ہمیں تو خواب تک آئے ہیں زرد بیلوں کے
وہ سرخ پھول کتابوں میں دیکھ روتا رہا
جسے بھی قصے سنائے ہیں زرد بیلوں کے
خبر نہیں بھی ہوا کو تو باغ جانتا ہے
جو میں نے رنج اٹھائے ہیں زرد بیلوں کے
کچھ اس لیے بھی مری سانس رک رہی ہے فرح
کسی نے زخم دکھائے ہیں زرد بیلوں کے
فرح خان
--------------------
غزل ٢.
اک عشق تھا جو ہم سے دوبارہ نہیں ہوا
کیا کیا وگرنہ دل کو خسارہ نہیں ہوا
اک لفظ جس کے عجز میں اظہار دم بخود
اک نام میری آنکھ کا تارہ نہیں ہوا
وہ خواب بن کے آنکھ سے پھوٹا تو ہے مگر
اک اشک بن گیا ہے شرارہ نہیں ہوا
ہم کوزہ گر کے ہاتھ میں بھی جڑ نہیں سکے
اس بھر بھری سی خاک کا گارہ نہیں ہوا
خود اعتماد شخص تھا بے اعتماد بھی
اپنا نہ بن سکا تو ہمارا نہیں ہوا
شوریدگی کے عارضے تک آگیا فرح
اک بوجھ جو کہ دل سے اتارا نہیں ہوا
----------------
غزل ٣.
ترے سوا تو نظر میں کوئی جچا ہی نہیں
یہ مسئلہ تو مگر تجھ کو دکھ رہا ہی نہیں
وہ دل کی بات نگاہوں سے جان سکتا تھا
وہ جلد باز مگر ان میں جھانکتا ہی نہیں
لکیر کھینچ کے نقشہ غلط کیا میں نے
کہ میراہاتھ کسی کی طلب رہا ہی نہیں
سمے کی جھیل نے پانی ترائی پر پھینکا
وہ شہ سوار مگر اس طرف گیا ہی نہیں
مہیب راستے ہم کو کہاں ڈرا سکتے
وفا کی راہ پہ کوئی ہمیں ملا ہی نہیں
میں سٹپٹا کے رضائی میں منہ چھپاتی ہوں
تمھارا ہجر تو کمرے سے جارہا ہی نہیں
اسے تلاش کیا ہے فرح بہت میں نے
وہ ایک شخص جو مل کر بھی مل سکا ہی نہیں
----------------------
فرح خان
دیدبان شمارہ۔۹
غزل ١
فصیلِ جان پہ سائے ہیں زرد بیلوں کے
یہ کیسے ابر سے چھائے ہیں زرد بیلوں کے
تمہاری آنکھوں پہ خوشبو اتر چکی لیکن
ہمیں تو خواب تک آئے ہیں زرد بیلوں کے
وہ سرخ پھول کتابوں میں دیکھ روتا رہا
جسے بھی قصے سنائے ہیں زرد بیلوں کے
خبر نہیں بھی ہوا کو تو باغ جانتا ہے
جو میں نے رنج اٹھائے ہیں زرد بیلوں کے
کچھ اس لیے بھی مری سانس رک رہی ہے فرح
کسی نے زخم دکھائے ہیں زرد بیلوں کے
فرح خان
--------------------
غزل ٢.
اک عشق تھا جو ہم سے دوبارہ نہیں ہوا
کیا کیا وگرنہ دل کو خسارہ نہیں ہوا
اک لفظ جس کے عجز میں اظہار دم بخود
اک نام میری آنکھ کا تارہ نہیں ہوا
وہ خواب بن کے آنکھ سے پھوٹا تو ہے مگر
اک اشک بن گیا ہے شرارہ نہیں ہوا
ہم کوزہ گر کے ہاتھ میں بھی جڑ نہیں سکے
اس بھر بھری سی خاک کا گارہ نہیں ہوا
خود اعتماد شخص تھا بے اعتماد بھی
اپنا نہ بن سکا تو ہمارا نہیں ہوا
شوریدگی کے عارضے تک آگیا فرح
اک بوجھ جو کہ دل سے اتارا نہیں ہوا
----------------
غزل ٣.
ترے سوا تو نظر میں کوئی جچا ہی نہیں
یہ مسئلہ تو مگر تجھ کو دکھ رہا ہی نہیں
وہ دل کی بات نگاہوں سے جان سکتا تھا
وہ جلد باز مگر ان میں جھانکتا ہی نہیں
لکیر کھینچ کے نقشہ غلط کیا میں نے
کہ میراہاتھ کسی کی طلب رہا ہی نہیں
سمے کی جھیل نے پانی ترائی پر پھینکا
وہ شہ سوار مگر اس طرف گیا ہی نہیں
مہیب راستے ہم کو کہاں ڈرا سکتے
وفا کی راہ پہ کوئی ہمیں ملا ہی نہیں
میں سٹپٹا کے رضائی میں منہ چھپاتی ہوں
تمھارا ہجر تو کمرے سے جارہا ہی نہیں
اسے تلاش کیا ہے فرح بہت میں نے
وہ ایک شخص جو مل کر بھی مل سکا ہی نہیں
----------------------
فرح خان