فلسطین اور دوسری بہت ساری چیزیں

فلسطین اور دوسری بہت ساری چیزیں

Mar 14, 2018

افسانہ نگار: مریم السعدی

۷


فلسطین اور دوسری بہت ساری چیزیں

افسانہ نگار: مریم الساعدی

مترجم: ابوفہد


اُس  صبح؛ میں گھبراکر اٹھ بیٹھی تھی۔سورج کھڑکی کے شیشوں کو جلا رہا تھا۔ دل کے مرتعش پردوں پر نغمے بج رہے تھے،اب ان کے الفاظ بھی مجھے یاد نہیں  رہے ۔ہر رات کی طرح  اُس رات بھی بھیانک خواب دکھائی دیا تھا۔سورج دن بھراپنے جوبن پر رہااوراپنی طاقتور شعائیں زمین پرڈالتارہاتھا۔جب میرے ابو حیات تھے اس وقت انہوں نے بتایا تھاکہ آگ اگلتاہوا سورج اکثر کسی بڑے حادثہ کا پتہ دیتا ہے جو قریبی وقت میں زمین پر رونما ہونے والا ہوتاہے۔اس وقت میں دل ہی دل میں ہنس دی تھی۔ میں نے تواب تک جتنے بھی سورج دیکھے تھے وہ سب شدید حدت رکھتے تھے۔مجھے ناگواری محسوس ہونے لگی تھی ۔ سورج کے پاس سب سے بڑی جو چیز ہوتی ہے وہ حدت ہے اور اس کی و جہ سے پیدا ہونے والا اُمس۔روحیں نرخرے کے پاس آپس میں مزاحم ہوجاتی ہیں۔ایسے میں کوئی بھی کسی دوسرے کو نہیں سنبھال سکتا۔ جب گرمی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو دنیا کس قدر بُری لگتی ہے..

مگر جب ٹھنڈ زیادہ ہوتی ہے تب بھی تو  دنیا کس قدر بے رونق  اور غم گین لگتی ہے۔اوراچانک یہ  دوسرا خیال بھی میرے ذہن میں کوندا۔

آج کا سورج ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بس آج ہی نکلا ہے۔جیسے آج کی طرح وہ کبھی بھی زمین پر نہیں اُتراتھا۔آفس میں میرے پہلے دن کی طرح۔پہلے دن میں نے تین ماہ کے کام انجام دئے،صرف پہلے دن ۔اس کے بعد تو جیسے ہر چیزجلنے لگی اور میں بھی۔

چوراہے پرایستادہ  ٹریفک لائٹ اب بھی  لال  ہے۔ آہ!کسی تپتی ہوئی صبح میں یہ لال رنگ کس قدر تکلیف دہ ہوتاہے ۔

یقینامیں آج پھر لیٹ ہوجاؤں گی۔میں نے سوچا۔ جس وقت میں آفس میں داخل ہوئی ، اس وقت   مینیجر ڈیجیٹل سگنیچر مشین درست کرنے میں محو تھا۔اس نے مجھ پر ایک  طائرانہ نظر ڈالی اور متکبرانہ  انداز میں بولا”تاکہ حاضری ڈھنگ سے لگائی جاسکے اور پھر کوئی سگنیچر کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش نہ کرسکے“ ۔بے وقوف کہیں کا۔میرے سوا یہاں اور کون لیٹ ہوتا ہے..اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتاہے کہ میں کسی بھی چیز سے کھلواڑ نہیں کرتی ..کبھی بھی نہیں ۔اگر وہ اتنا ہی ہوشیار بنتا ہے تو اس کو چاہئے کہ سورج کے ڈوبنے اور نکلنے کے اوقات منضبط کرے۔میرے  ڈراؤنے خوابوں کو ٹھیک کرے ..اور..اوران تمام چیزوں کو منضبط کر ے جو جل راکھ ہوگئیں اور ہوا کے دوش پر اُڑ کر ہم سے  دور..بہت دور جاپڑیں۔شایداس وقت .. علی الصبح مرغ کی بانگ کے ساتھ  آفس میں حاضر ہونا زیادہ بہتر اور منطقی معلوم ہو۔

بھلا کونسی ایسی عظیم شئے ہوگی جو مجھے محبوب ہوگی جسےگرم  دن کے جلتے ہوئےسورج سے محفوظ رکھا جا سکے ؟طبلہ، طبلہ اورطبلہ ..اور.. اور اس کے سوا بھاڑ میں جا ئے ہر چیز۔

صرف گرین سگنل  ہی ایسی چیز ہے جسے  ہرحال میں باقی رہنا چاہئے۔اگر ہم کوئی بھی حرکت کئے بنا ایک ہی جگہ دیر تک  ٹہرے رہے تو بلاشبہ مر ہی جائیں گے ۔یقینا۔ مرہی جائیں گے۔

میں نے اس کو سلام کیا ۔مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔کوئی بات نہیں!فادیہ کو مجھ سے یہ بدگمانی ہے کہ میں جب بھی لیٹ ہوجاتی ہوں تو اس کے ساتھ  بے نیازی ظاہر کرتی ہوں اور نتیجتاً وہ بھی جواب دینے سے گریز کرتی ہے۔خیر!کوئی بات نہیں۔

صفائی کرنے والا بنگالی ملازم  اپنے ہاتھ سے چائے کی پیالیاں  صاف کررہا ہے ..بنا صابن کے ..اور بنا پانی کے..”یا اللہ!آخر میں کب تک صحت وصفائی کےآداب سکھاتی رہوں گی!“

”نسلی تعصب“ان میں سے ایک ملازم نے اپنی ناک کے داہنے سراخ سے آواز نکالتے ہوئے کہا۔ میں نہیں جانتی کہ وہ کبھی بھی ناک کے بائیں سراخ سے آواز کیوں نہیں نکالتا۔

ہندی ملازم اپنی ڈیسک کے پیچھے  آلتی پالتی مار کر بیٹھا ہواہے اور ہندوستان کے پڑوسی ممالک کے پچھڑجانے کے اسباب ووجوہات تفصیل سے بیان کررہاہے۔

”وہ تو صرف غربت ہے..اور دولت کی بندر بانٹ ہے“جس کی ناک  کا صرف ایک ہی سراخ کھلا ہوا ہے وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے۔

’’مجھے مت گھورو! میں اہل  زمیں کے درمیان روزی روٹی تقسیم نہیں  کرتی ہوں“  ..میں آسمان کی طرف اشارہ کرتی ہوں۔اس کی ٹھڈی کازیریں حصہ اچانک چوڑا ہوجاتاہے۔اس کی گردن پھول جاتی ہے۔اورمجھے  وہ مینڈھک  یاد آجاتاہےجوگندے پانی کے تالاب میں بڑے سے ہرے پتے پرپیر پسارے بیٹھا رہتا ہے.. اورجب کسی مکھی کو چٹ کرجانا چاہتا ہے تو اپنے گدودوں کو پھلاتا ہے۔

” مادہ پرست سرمایہ دارانہ نظام ہی دنیا کی بدبختی کا واحدذمہ دار ہے“انورنے  لقمہ دیا۔انورآرام پسند انسان ہے اور اس کے نزدیک ہر خرابی کے لیے سرمایہ دارانہ نظام ہی ذمہ دار ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ ہرباراپنی بات اسی پر کیوں ختم کرتا ہے کہ جس انقلاب نے  حکومت کا تختہ پلٹ دیا تھااس میں اس کے والد کا بڑا کردارتھا..اور تاکید کے ساتھ کہتاہے کہ انقلاب تو ان کی پیٹھ پر.. اس  کے والد کی پیٹھ پر  سوار ہوکر آیا تھا..اور ہر مرتبہ اس بات  کی وضاحت کے وقت سگریٹ کا ایک گہر ا کش لیتاہے۔پھرمیری طرف دیکھتاہےاور اس کا دھوئیں کے مرغولے میری طرف چھوڑ تے ہوئےتحکمانہ لہجے میں کہتاہے”تمہاری جگہ یہ نہیں ہے،تمہاری جگہ تو مکتب میں ہے“..میں اٹھ کر کھڑ کی کھولتی ہوں اور اس کا جواب دیتی ہوں”اورتمہاری جگہ بھی یہاں نہیں، تمہاری جگہ تو تاریخ کی کتابوں میں ہے“اس پر وہ قہقہہ بار ہنسی ہنستاہے، جیسے کہ پہلی بار ہنس رہا ہو۔

بعض لو گ ہردن اس طرح جیتے ہیں جیسے کہ وہ آج ہی پیدا ہوئے ہیں۔ایک ہی طرح کے قصے کہانیاں و دہراتے رہتے ہیں اور ایک ہی طرز کی باتوں پر باربار ہنستے ہیں۔ یہ صورت حال   ’’الولادۃ من جدید(پھر سے پیدا ہونا)‘‘  جیسی اصطلاح کی عملی تصویر کاایک دردناک پہلو ہے۔ یہ اصطلاح عام طور پر از سر نو پیدا ہونے کے معنی میں استعمال ہو تی ہے، یعنی کھوئی ہوئی حیات کے دوبارہ لوٹ آنے کے مفہوم میں۔ لیکن ایسے لوگ اس  اصطلاح  کوموت کے خلاف  محض ایک دفاعی اسٹریٹجی کے طور پر لیتے ہیں۔کیونکہ اس صورت حال کے تحت  تم  اپنا ہر دن اس طرح جیتے ہو جیسے کہ وہ تمہارا پہلا دن ہو۔ کیا تم اس طرح  موت کو دھوکہ دینا چاہتے ہو۔ یاپھر..

اوہ! کیامشکل ہے !! بلکہ الٹا  یہی  فکر تمہیں دھوکہ دیگی۔کیونکہ جس روز تم پر موت طاری ہوگی .. اس دن  تمہیں معلوم ہوگا کہ تم اپنے اُس پہلے دن کے  علاوہ کوئی دوسرادن جی  ہی نہ سکے!!

ہم اپنے حق میں کتنی غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہیں جب ہم یہ سوچ لیتے ہیں کہ کھیل کے اصولوں کو ہم اچھی طرح منضبط کرسکتے ہیں.. جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی بھی طرح کے کھیل سے باہررہے  ہیں ..ہر زمانے میں.. بلکہ ہم توزمینی کرہ سے بھی باہر نکل گئے ہیں۔

’’زمینی کرے سے باہر!!‘‘   فادیہ  ایک دم اچھل پڑی ،اس کے  ہاتھ سے پانی بھرا شیشے کا گلاس چھوٹا اور زمین پر آرہا..میں اس کی مدد کے لیےلپکی ..تاکہ اس کے زخم پر بینڈیج لگادوں ..اس نے مجھے جھڑک دیا”مجھے میرے حال پر چھوڑ دو..تمہیں کیا پڑی ہے کہ ہمارے ساتھ ہمارے ماں باپ اور بھائی بہنوں جیسا رول ادا کرو..تم یہاں اپنے اہل وعیال کے ساتھ عیش ومستی کی زندگی گزار رہی ہو..اپنے گھروں میں اور اپنے ملک میں ..اوروہ ہمارے ساتھ آوارہ کتوں جیسا معاملہ کرتے ہیں ..جنہیں لہکانے کے لیے تم پس خوردہ ڈالتی ہواور دلجوئی کے چند ٹکڑے “ اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگی.. جیسے پہلی بار رورہی ہو۔

میں  گھبراکر الگ ہٹ گئی ..  ہم سب دورجا کھڑے ہوئےہمیں ڈرتھا کہ ٹوٹے ہوئے گلاس کے ٹکڑے ہمیں زخمی کردیں گے۔

اس کا ہم وطن  مازن  اس کے پیچھے لپکا.. تاکہ اس کی دلجوئی کرسکےاوراس کو دلاسہ دے سکے..وہ اسے صبر وضبط کی تلقین کرتارہااور پھر ہم سے مخاطب ہوکر معذرت خواہانہ انداز میں کہنے لگا”اس کو معاف کردواس کے گھر والے اس کے  وطن میں  مصیبتوں میں گرفتار  ہیں.. وہ دشمنوں کے نرغے میں ہیں ..تمہیں تو تمام حالات کا پتہ ہی ہے..جلد ہی اسے صبر آجائے گا“

یقیناًبعض لوگ مصائب کے انبوہ میں جی رہے ہیں ۔ یہ مصائب ان کے لیے سبز بساط جیسے ہیں..وہ اسی پر اپنے گھر تعمیر کرتے  ہیں.. باغیچے  لگاتے ہیں اور خواب  اگاتے ہیں۔تاکہ وہ  بار بار اس کانٹے کی چبھن سے  گھبراکر اٹھ بیٹھیں جس کی نوک خواب میں نکالنا بھول گئے تھے۔

” یہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہیں“شَمَّا نے   دلیل پیش کرتے ہوئے میرے کان میں کہا ”یہ اچھائیوں کو نکارنے والے اوراپنی باتوں پر اڑے رہنے والے ہیں ..یہ  ہمیشہ کینہ توز ہی رہیں گے “۔

”گھمنڈی کہیں کی“ اشجان نے بھی اسی طرح میرے کان میں سرگوشی کی۔

لو! اب ان   دونوں  روز کا ڈرامہ پھر شروع کردیا ۔میرے کان کے پردے بجنے لگے اور میں نے  وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔نجانے کیوں ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگ گند ے  تالاب کے پانی سے ہی نمو پاتے ہیں اور کامیابیاں حاصل کرتے ہیں ۔

”خفیہ ہاتھ ہی اس مسئلے کے طول پکڑنے کا اصل سبب ہیں“ انور گویا ہوا۔ وہ اس وقت پہلا سگریٹ بجھاکر دوسرا سگریٹ سلگانے کی کوشش کررہاتھا۔اوربعض لوگ سگریٹ کے دھوئیں سے ہی فتح کے جھنڈے گاڑناچاہتے ہیں۔

” دن ختم ہونے سے پہلے مجھے ہفتہ واری رپورٹ اپنی میز پر چاہئے“میں گلاب  کا پھول ڈرا کیا تھا اور اب اس وقت  اس کی پتیوں میں کالا رنگ بھر رہی تھی ۔ جب بھی میں گلاب  کا پھول بنارہی ہوتی  ہوں اور خاص کر اس کی پتیوں میں کالارنگ سے بھررہی ہوتی ہوں  تو اتنی مگن ہوجاتی ہوں کہ باہر کی کسی بھی  آواز کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتی ،بلکہ وہ میرے لیے مبہم اور بے معنیٰ ہوجاتی ہے۔میں نے سر اٹھایاتاکہ اپنی تزئین کاری کو دیکھوں..ظاہر ہے کہ وہ بالکل الگ قسم کی تھی۔

”وہ تو گزشتہ ہفتے ہی سے تمہاری میز پر پڑی ہے“ میں نے اس کو سرسری جواب دیا اور پھر سے کالے گلاب کی پتیوں درست کرنے میں منہمک  ہوگئی۔

”وہ گزشتہ ہفتے کی رپورٹ ہے ۔اور میں  اِس ہفتے کی رپورٹ کی بات کررہا ہوں“... اس نے اپنی بات دہرائی۔

” نیا ہفتہ تو ابھی شروع  ہی نہیں ہوا“ میں نے پھر سے یونہی سرسری سا جواب دیا اور ایک بار پھر گلاب کی پتیوں کو نک سک سے درست کرنے لگی۔

” تم اِس ہفتے کی متوقع کامیابیوں کی رپورٹ بھی تیارنہیں کرپاؤگی کہ نیا ہفتہ شروع ہوجائے گا“  اس نے وضاحت کی ۔کالی روشنائی ختم ہو چکی تھی اور وہ ابھی تک اپنے کام میں مصروف تھا۔

”اگر اس ہفتے میں تمہیں قتل کردوں تو کیسا رہے گا“

”یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟“    وہ ہکلایا۔

”میرا مطلب ہے ،کیا تم اپنا بلیک پین کچھ دیر کے لیے مجھے  دے سکتے ہو؟“   اور میں نے بات بدل دی ۔

یا اللہ!ایسا کیوں ہوتاہے کہ بعض دن دوسرے بعض دنوں سے بڑے دکھائی دیتے ہیں!..

فادیہ میرے سامنے سے گزری ، اس کے ہاتھ   میں کاغذ کا ایک بنڈل تھا..میں نے اسے آواز دی.. اس نے عجیب وغریب نظروں سے میری طرف دیکھا.. بالکل اس لڑکی کی طرح جس نےپراسرار فلم ” I Know What You Did Last Summer“  میں کام کیاہے ..اور اپنی راہ چلتی بنی۔

”کیا یہ مجھے اس کے ملک پر قبضہ کرنے کا ذمہ دارسمجھتی!“میں نے ذرا اونچی آواز میں کہا۔اورمجھے اپنے گناہگار ہونے کا احساس ہوا، باوجود اس کے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیونکر گناہگار ہوں۔

”وہ سمجھتی ہے کہ تمہیں اس کے حالات کی کچھ پروا نہیں“انور نے جواب دیا۔وہ اپنی قمیص کی آستین سے جوتے چمکا رہا تھا۔

”مگرتم ایسا کیوں سوچتے ہو؟!“ میں نے استفسار کیا۔

”ممکن ہے تمہاری نئی لگژری  کار  سے اسے  جلن ہو رہی ہو“

” کسی  صارفی    ذہنیت  والے شخص سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے جو جھوٹی محبت  کے رجحان  سے مغلوب ہو“اس بار اس نے دخل دیا جس کی ناک کا صرف ایک ہی دھانہ کھلا ہوا ہے۔

”میں نے تو تم سے کہاتھا کہ اپنی گاڑی لے کر یہاں مت آیا کرو“ شَمّانے ملامت بھرے لہجے میں کہا۔

کاش ! وہ یہ سمجھ سکیں کہ ہمیں  بہت ساری چیزوں کی بہت  زیادہ ضرورت ہوتی ہے .. شاید زیادہ سے بھی بہت زیادہ ۔کیونکہ دلوں میں بہت کشادگی  ہے..اور تمنائیں بھی ہیں۔

واپسی کےراستے پر بھی  چوراہوں پر ایستادہ ٹریفک سنگلز ریڈ ہی ہیں.. سب  درخت بھی جامد ہیں.. واپسی کا راستہ بھی تقریبا جانے والے راستے کے مثل ہی ہے..بس سمتوں کا فرق ہے کہ دونوں راستے مخالف سمتوں میں آتےجاتے ہیں۔

میں نے اپنےسامنے والی کار کے آئینے میں اس کو دیکھا.. اپنی ناراض  دوست کو..آسمان کے سینے  میں سورج ابھی بھی اپنے جوبن دکھا رہا ہے .. جیسےدوپہر کے فرش پر  آلتی پالتی مارے ہوئے بیٹھا ہو..اور اپنی بھر پورحدت کا مظاہر ہ کررہاہے..سورج، جو زمین کی پہنائیوں میں اورآسمان کی وسعتوں میں سماگیا ہے ..مٹی کے ذرات میں بھی ..اورجلد کے مسامات میں بھی ..سورج  .. جواپنی مطلق آزادی کے ساتھ شعلہ بارہے .. اور یہاں ہمارے  سینوں میں ..اور بھی بہت ساری چیزیں  ہیں.. جنہیں جل  کرخاک ہوجانا چاہئے۔

۷


فلسطین اور دوسری بہت ساری چیزیں

افسانہ نگار: مریم الساعدی

مترجم: ابوفہد


اُس  صبح؛ میں گھبراکر اٹھ بیٹھی تھی۔سورج کھڑکی کے شیشوں کو جلا رہا تھا۔ دل کے مرتعش پردوں پر نغمے بج رہے تھے،اب ان کے الفاظ بھی مجھے یاد نہیں  رہے ۔ہر رات کی طرح  اُس رات بھی بھیانک خواب دکھائی دیا تھا۔سورج دن بھراپنے جوبن پر رہااوراپنی طاقتور شعائیں زمین پرڈالتارہاتھا۔جب میرے ابو حیات تھے اس وقت انہوں نے بتایا تھاکہ آگ اگلتاہوا سورج اکثر کسی بڑے حادثہ کا پتہ دیتا ہے جو قریبی وقت میں زمین پر رونما ہونے والا ہوتاہے۔اس وقت میں دل ہی دل میں ہنس دی تھی۔ میں نے تواب تک جتنے بھی سورج دیکھے تھے وہ سب شدید حدت رکھتے تھے۔مجھے ناگواری محسوس ہونے لگی تھی ۔ سورج کے پاس سب سے بڑی جو چیز ہوتی ہے وہ حدت ہے اور اس کی و جہ سے پیدا ہونے والا اُمس۔روحیں نرخرے کے پاس آپس میں مزاحم ہوجاتی ہیں۔ایسے میں کوئی بھی کسی دوسرے کو نہیں سنبھال سکتا۔ جب گرمی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو دنیا کس قدر بُری لگتی ہے..

مگر جب ٹھنڈ زیادہ ہوتی ہے تب بھی تو  دنیا کس قدر بے رونق  اور غم گین لگتی ہے۔اوراچانک یہ  دوسرا خیال بھی میرے ذہن میں کوندا۔

آج کا سورج ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بس آج ہی نکلا ہے۔جیسے آج کی طرح وہ کبھی بھی زمین پر نہیں اُتراتھا۔آفس میں میرے پہلے دن کی طرح۔پہلے دن میں نے تین ماہ کے کام انجام دئے،صرف پہلے دن ۔اس کے بعد تو جیسے ہر چیزجلنے لگی اور میں بھی۔

چوراہے پرایستادہ  ٹریفک لائٹ اب بھی  لال  ہے۔ آہ!کسی تپتی ہوئی صبح میں یہ لال رنگ کس قدر تکلیف دہ ہوتاہے ۔

یقینامیں آج پھر لیٹ ہوجاؤں گی۔میں نے سوچا۔ جس وقت میں آفس میں داخل ہوئی ، اس وقت   مینیجر ڈیجیٹل سگنیچر مشین درست کرنے میں محو تھا۔اس نے مجھ پر ایک  طائرانہ نظر ڈالی اور متکبرانہ  انداز میں بولا”تاکہ حاضری ڈھنگ سے لگائی جاسکے اور پھر کوئی سگنیچر کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش نہ کرسکے“ ۔بے وقوف کہیں کا۔میرے سوا یہاں اور کون لیٹ ہوتا ہے..اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتاہے کہ میں کسی بھی چیز سے کھلواڑ نہیں کرتی ..کبھی بھی نہیں ۔اگر وہ اتنا ہی ہوشیار بنتا ہے تو اس کو چاہئے کہ سورج کے ڈوبنے اور نکلنے کے اوقات منضبط کرے۔میرے  ڈراؤنے خوابوں کو ٹھیک کرے ..اور..اوران تمام چیزوں کو منضبط کر ے جو جل راکھ ہوگئیں اور ہوا کے دوش پر اُڑ کر ہم سے  دور..بہت دور جاپڑیں۔شایداس وقت .. علی الصبح مرغ کی بانگ کے ساتھ  آفس میں حاضر ہونا زیادہ بہتر اور منطقی معلوم ہو۔

بھلا کونسی ایسی عظیم شئے ہوگی جو مجھے محبوب ہوگی جسےگرم  دن کے جلتے ہوئےسورج سے محفوظ رکھا جا سکے ؟طبلہ، طبلہ اورطبلہ ..اور.. اور اس کے سوا بھاڑ میں جا ئے ہر چیز۔

صرف گرین سگنل  ہی ایسی چیز ہے جسے  ہرحال میں باقی رہنا چاہئے۔اگر ہم کوئی بھی حرکت کئے بنا ایک ہی جگہ دیر تک  ٹہرے رہے تو بلاشبہ مر ہی جائیں گے ۔یقینا۔ مرہی جائیں گے۔

میں نے اس کو سلام کیا ۔مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔کوئی بات نہیں!فادیہ کو مجھ سے یہ بدگمانی ہے کہ میں جب بھی لیٹ ہوجاتی ہوں تو اس کے ساتھ  بے نیازی ظاہر کرتی ہوں اور نتیجتاً وہ بھی جواب دینے سے گریز کرتی ہے۔خیر!کوئی بات نہیں۔

صفائی کرنے والا بنگالی ملازم  اپنے ہاتھ سے چائے کی پیالیاں  صاف کررہا ہے ..بنا صابن کے ..اور بنا پانی کے..”یا اللہ!آخر میں کب تک صحت وصفائی کےآداب سکھاتی رہوں گی!“

”نسلی تعصب“ان میں سے ایک ملازم نے اپنی ناک کے داہنے سراخ سے آواز نکالتے ہوئے کہا۔ میں نہیں جانتی کہ وہ کبھی بھی ناک کے بائیں سراخ سے آواز کیوں نہیں نکالتا۔

ہندی ملازم اپنی ڈیسک کے پیچھے  آلتی پالتی مار کر بیٹھا ہواہے اور ہندوستان کے پڑوسی ممالک کے پچھڑجانے کے اسباب ووجوہات تفصیل سے بیان کررہاہے۔

”وہ تو صرف غربت ہے..اور دولت کی بندر بانٹ ہے“جس کی ناک  کا صرف ایک ہی سراخ کھلا ہوا ہے وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے۔

’’مجھے مت گھورو! میں اہل  زمیں کے درمیان روزی روٹی تقسیم نہیں  کرتی ہوں“  ..میں آسمان کی طرف اشارہ کرتی ہوں۔اس کی ٹھڈی کازیریں حصہ اچانک چوڑا ہوجاتاہے۔اس کی گردن پھول جاتی ہے۔اورمجھے  وہ مینڈھک  یاد آجاتاہےجوگندے پانی کے تالاب میں بڑے سے ہرے پتے پرپیر پسارے بیٹھا رہتا ہے.. اورجب کسی مکھی کو چٹ کرجانا چاہتا ہے تو اپنے گدودوں کو پھلاتا ہے۔

” مادہ پرست سرمایہ دارانہ نظام ہی دنیا کی بدبختی کا واحدذمہ دار ہے“انورنے  لقمہ دیا۔انورآرام پسند انسان ہے اور اس کے نزدیک ہر خرابی کے لیے سرمایہ دارانہ نظام ہی ذمہ دار ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ ہرباراپنی بات اسی پر کیوں ختم کرتا ہے کہ جس انقلاب نے  حکومت کا تختہ پلٹ دیا تھااس میں اس کے والد کا بڑا کردارتھا..اور تاکید کے ساتھ کہتاہے کہ انقلاب تو ان کی پیٹھ پر.. اس  کے والد کی پیٹھ پر  سوار ہوکر آیا تھا..اور ہر مرتبہ اس بات  کی وضاحت کے وقت سگریٹ کا ایک گہر ا کش لیتاہے۔پھرمیری طرف دیکھتاہےاور اس کا دھوئیں کے مرغولے میری طرف چھوڑ تے ہوئےتحکمانہ لہجے میں کہتاہے”تمہاری جگہ یہ نہیں ہے،تمہاری جگہ تو مکتب میں ہے“..میں اٹھ کر کھڑ کی کھولتی ہوں اور اس کا جواب دیتی ہوں”اورتمہاری جگہ بھی یہاں نہیں، تمہاری جگہ تو تاریخ کی کتابوں میں ہے“اس پر وہ قہقہہ بار ہنسی ہنستاہے، جیسے کہ پہلی بار ہنس رہا ہو۔

بعض لو گ ہردن اس طرح جیتے ہیں جیسے کہ وہ آج ہی پیدا ہوئے ہیں۔ایک ہی طرح کے قصے کہانیاں و دہراتے رہتے ہیں اور ایک ہی طرز کی باتوں پر باربار ہنستے ہیں۔ یہ صورت حال   ’’الولادۃ من جدید(پھر سے پیدا ہونا)‘‘  جیسی اصطلاح کی عملی تصویر کاایک دردناک پہلو ہے۔ یہ اصطلاح عام طور پر از سر نو پیدا ہونے کے معنی میں استعمال ہو تی ہے، یعنی کھوئی ہوئی حیات کے دوبارہ لوٹ آنے کے مفہوم میں۔ لیکن ایسے لوگ اس  اصطلاح  کوموت کے خلاف  محض ایک دفاعی اسٹریٹجی کے طور پر لیتے ہیں۔کیونکہ اس صورت حال کے تحت  تم  اپنا ہر دن اس طرح جیتے ہو جیسے کہ وہ تمہارا پہلا دن ہو۔ کیا تم اس طرح  موت کو دھوکہ دینا چاہتے ہو۔ یاپھر..

اوہ! کیامشکل ہے !! بلکہ الٹا  یہی  فکر تمہیں دھوکہ دیگی۔کیونکہ جس روز تم پر موت طاری ہوگی .. اس دن  تمہیں معلوم ہوگا کہ تم اپنے اُس پہلے دن کے  علاوہ کوئی دوسرادن جی  ہی نہ سکے!!

ہم اپنے حق میں کتنی غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہیں جب ہم یہ سوچ لیتے ہیں کہ کھیل کے اصولوں کو ہم اچھی طرح منضبط کرسکتے ہیں.. جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی بھی طرح کے کھیل سے باہررہے  ہیں ..ہر زمانے میں.. بلکہ ہم توزمینی کرہ سے بھی باہر نکل گئے ہیں۔

’’زمینی کرے سے باہر!!‘‘   فادیہ  ایک دم اچھل پڑی ،اس کے  ہاتھ سے پانی بھرا شیشے کا گلاس چھوٹا اور زمین پر آرہا..میں اس کی مدد کے لیےلپکی ..تاکہ اس کے زخم پر بینڈیج لگادوں ..اس نے مجھے جھڑک دیا”مجھے میرے حال پر چھوڑ دو..تمہیں کیا پڑی ہے کہ ہمارے ساتھ ہمارے ماں باپ اور بھائی بہنوں جیسا رول ادا کرو..تم یہاں اپنے اہل وعیال کے ساتھ عیش ومستی کی زندگی گزار رہی ہو..اپنے گھروں میں اور اپنے ملک میں ..اوروہ ہمارے ساتھ آوارہ کتوں جیسا معاملہ کرتے ہیں ..جنہیں لہکانے کے لیے تم پس خوردہ ڈالتی ہواور دلجوئی کے چند ٹکڑے “ اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگی.. جیسے پہلی بار رورہی ہو۔

میں  گھبراکر الگ ہٹ گئی ..  ہم سب دورجا کھڑے ہوئےہمیں ڈرتھا کہ ٹوٹے ہوئے گلاس کے ٹکڑے ہمیں زخمی کردیں گے۔

اس کا ہم وطن  مازن  اس کے پیچھے لپکا.. تاکہ اس کی دلجوئی کرسکےاوراس کو دلاسہ دے سکے..وہ اسے صبر وضبط کی تلقین کرتارہااور پھر ہم سے مخاطب ہوکر معذرت خواہانہ انداز میں کہنے لگا”اس کو معاف کردواس کے گھر والے اس کے  وطن میں  مصیبتوں میں گرفتار  ہیں.. وہ دشمنوں کے نرغے میں ہیں ..تمہیں تو تمام حالات کا پتہ ہی ہے..جلد ہی اسے صبر آجائے گا“

یقیناًبعض لوگ مصائب کے انبوہ میں جی رہے ہیں ۔ یہ مصائب ان کے لیے سبز بساط جیسے ہیں..وہ اسی پر اپنے گھر تعمیر کرتے  ہیں.. باغیچے  لگاتے ہیں اور خواب  اگاتے ہیں۔تاکہ وہ  بار بار اس کانٹے کی چبھن سے  گھبراکر اٹھ بیٹھیں جس کی نوک خواب میں نکالنا بھول گئے تھے۔

” یہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہیں“شَمَّا نے   دلیل پیش کرتے ہوئے میرے کان میں کہا ”یہ اچھائیوں کو نکارنے والے اوراپنی باتوں پر اڑے رہنے والے ہیں ..یہ  ہمیشہ کینہ توز ہی رہیں گے “۔

”گھمنڈی کہیں کی“ اشجان نے بھی اسی طرح میرے کان میں سرگوشی کی۔

لو! اب ان   دونوں  روز کا ڈرامہ پھر شروع کردیا ۔میرے کان کے پردے بجنے لگے اور میں نے  وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔نجانے کیوں ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگ گند ے  تالاب کے پانی سے ہی نمو پاتے ہیں اور کامیابیاں حاصل کرتے ہیں ۔

”خفیہ ہاتھ ہی اس مسئلے کے طول پکڑنے کا اصل سبب ہیں“ انور گویا ہوا۔ وہ اس وقت پہلا سگریٹ بجھاکر دوسرا سگریٹ سلگانے کی کوشش کررہاتھا۔اوربعض لوگ سگریٹ کے دھوئیں سے ہی فتح کے جھنڈے گاڑناچاہتے ہیں۔

” دن ختم ہونے سے پہلے مجھے ہفتہ واری رپورٹ اپنی میز پر چاہئے“میں گلاب  کا پھول ڈرا کیا تھا اور اب اس وقت  اس کی پتیوں میں کالا رنگ بھر رہی تھی ۔ جب بھی میں گلاب  کا پھول بنارہی ہوتی  ہوں اور خاص کر اس کی پتیوں میں کالارنگ سے بھررہی ہوتی ہوں  تو اتنی مگن ہوجاتی ہوں کہ باہر کی کسی بھی  آواز کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتی ،بلکہ وہ میرے لیے مبہم اور بے معنیٰ ہوجاتی ہے۔میں نے سر اٹھایاتاکہ اپنی تزئین کاری کو دیکھوں..ظاہر ہے کہ وہ بالکل الگ قسم کی تھی۔

”وہ تو گزشتہ ہفتے ہی سے تمہاری میز پر پڑی ہے“ میں نے اس کو سرسری جواب دیا اور پھر سے کالے گلاب کی پتیوں درست کرنے میں منہمک  ہوگئی۔

”وہ گزشتہ ہفتے کی رپورٹ ہے ۔اور میں  اِس ہفتے کی رپورٹ کی بات کررہا ہوں“... اس نے اپنی بات دہرائی۔

” نیا ہفتہ تو ابھی شروع  ہی نہیں ہوا“ میں نے پھر سے یونہی سرسری سا جواب دیا اور ایک بار پھر گلاب کی پتیوں کو نک سک سے درست کرنے لگی۔

” تم اِس ہفتے کی متوقع کامیابیوں کی رپورٹ بھی تیارنہیں کرپاؤگی کہ نیا ہفتہ شروع ہوجائے گا“  اس نے وضاحت کی ۔کالی روشنائی ختم ہو چکی تھی اور وہ ابھی تک اپنے کام میں مصروف تھا۔

”اگر اس ہفتے میں تمہیں قتل کردوں تو کیسا رہے گا“

”یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟“    وہ ہکلایا۔

”میرا مطلب ہے ،کیا تم اپنا بلیک پین کچھ دیر کے لیے مجھے  دے سکتے ہو؟“   اور میں نے بات بدل دی ۔

یا اللہ!ایسا کیوں ہوتاہے کہ بعض دن دوسرے بعض دنوں سے بڑے دکھائی دیتے ہیں!..

فادیہ میرے سامنے سے گزری ، اس کے ہاتھ   میں کاغذ کا ایک بنڈل تھا..میں نے اسے آواز دی.. اس نے عجیب وغریب نظروں سے میری طرف دیکھا.. بالکل اس لڑکی کی طرح جس نےپراسرار فلم ” I Know What You Did Last Summer“  میں کام کیاہے ..اور اپنی راہ چلتی بنی۔

”کیا یہ مجھے اس کے ملک پر قبضہ کرنے کا ذمہ دارسمجھتی!“میں نے ذرا اونچی آواز میں کہا۔اورمجھے اپنے گناہگار ہونے کا احساس ہوا، باوجود اس کے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیونکر گناہگار ہوں۔

”وہ سمجھتی ہے کہ تمہیں اس کے حالات کی کچھ پروا نہیں“انور نے جواب دیا۔وہ اپنی قمیص کی آستین سے جوتے چمکا رہا تھا۔

”مگرتم ایسا کیوں سوچتے ہو؟!“ میں نے استفسار کیا۔

”ممکن ہے تمہاری نئی لگژری  کار  سے اسے  جلن ہو رہی ہو“

” کسی  صارفی    ذہنیت  والے شخص سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے جو جھوٹی محبت  کے رجحان  سے مغلوب ہو“اس بار اس نے دخل دیا جس کی ناک کا صرف ایک ہی دھانہ کھلا ہوا ہے۔

”میں نے تو تم سے کہاتھا کہ اپنی گاڑی لے کر یہاں مت آیا کرو“ شَمّانے ملامت بھرے لہجے میں کہا۔

کاش ! وہ یہ سمجھ سکیں کہ ہمیں  بہت ساری چیزوں کی بہت  زیادہ ضرورت ہوتی ہے .. شاید زیادہ سے بھی بہت زیادہ ۔کیونکہ دلوں میں بہت کشادگی  ہے..اور تمنائیں بھی ہیں۔

واپسی کےراستے پر بھی  چوراہوں پر ایستادہ ٹریفک سنگلز ریڈ ہی ہیں.. سب  درخت بھی جامد ہیں.. واپسی کا راستہ بھی تقریبا جانے والے راستے کے مثل ہی ہے..بس سمتوں کا فرق ہے کہ دونوں راستے مخالف سمتوں میں آتےجاتے ہیں۔

میں نے اپنےسامنے والی کار کے آئینے میں اس کو دیکھا.. اپنی ناراض  دوست کو..آسمان کے سینے  میں سورج ابھی بھی اپنے جوبن دکھا رہا ہے .. جیسےدوپہر کے فرش پر  آلتی پالتی مارے ہوئے بیٹھا ہو..اور اپنی بھر پورحدت کا مظاہر ہ کررہاہے..سورج، جو زمین کی پہنائیوں میں اورآسمان کی وسعتوں میں سماگیا ہے ..مٹی کے ذرات میں بھی ..اورجلد کے مسامات میں بھی ..سورج  .. جواپنی مطلق آزادی کے ساتھ شعلہ بارہے .. اور یہاں ہمارے  سینوں میں ..اور بھی بہت ساری چیزیں  ہیں.. جنہیں جل  کرخاک ہوجانا چاہئے۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024